جماعت احمدیہ کے خلاف ملاّؤں کا طوفان بدتمیزی

سید والا ضلع شیخوپورہ (پاکستان) میں احمدی مسلمانوں پر ظلم و ستم کی درد انگیز داستان

رشید احمد چوہدری، لندن

احمدی مردوں کو گرفتار کر کے حوالات میں بند کردیا گیا

مسجد احمدیہ کا قیمتی سامان لوٹ لیا گیا ۔میناروں کو زمین بوس کرنے کے بعدمسجد کو نذر آتش کردیا گیا

۲۶؍اگست ۲۰۰۱ء ، اتوار کا روزتھا ، دنیا بھر کے احمدی مسلمان اپنے آقا حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے انٹرنیشنل جلسہ سالانہ جرمنی میں دئے جانے والے آخری خطاب کو سننے کے لئے بیتاب تھے۔ پاکستان میں بھی ہر چھوٹی بڑی جماعت اس انتظام میں مصروف تھی کہ حضور پرنور کے اس خطاب کو اجتماعی طورپر ایم۔ ٹی۔ اے کی وساطت سے سنا جاسکے۔ پاکستانی وقت کے مطابق خطاب شروع ہونے کا وقت آٹھ بجے شام کے لگ بھگ تھا ۔اسی لئے احباب جماعت اپنے اپنے کاموں سے فارغ ہو کراحمدیہ مساجد یادیگر جگہوں پر وقت سے پہلے اکٹھا ہونا شروع ہوگئے تھے ۔

دیگر جماعتوں کی طرح ضلع شیخوپورہ کی ایک نہایت چھوٹی سی جماعت ’’سید والہ‘‘ کے احباب مردو زن بھی اپنی مسجد میں جمع تھے۔خدا خدا کرکے انتظار کاوقت ختم ہوا اور ٹی وی سکرین پر حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی تصویر نمودارہوئی۔ اپنے آقا کو اپنے سامنے دیکھ کر احباب جماعت خوشی سے پھولے نہ سماتے تھے۔ ان کے دل خداتعالیٰ کی حمد اورشکرکے جذبات سے لبریز تھے کہ ایم ٹی اے نے ہزاروں میل کی مسافت کو یک لمحہ طے کرکے حضور پرنور کو ان کے قریب کردیا ۔ بعض کی آنکھوں سے شدت جذبات کی وجہ سے آنسو رواں تھے۔

ابھی جرمنی کے جلسہ کی آخری نشست کی کارروائی شروع ہوئے چند لمحے ہی گزرے تھے کہ شیطان نے اپنے چیلوں کوتحریک کی۔ قصبہ کے چند بدطینت مولویوں کوخبر ہو گئی اوروہ علاقہ کے تھانہ میں پہنچے اورپولیس کو شکایت کی کہ ان کے گاؤں کے احمدی اپنی مسجد میں جمع ہو کر دینی پروگرام کررہے ہیں ۔ یہ بڑا ظلم ہوگیا ہے۔ ہمارے مذہبی جذبات مجروح ہورہے ہیں ۔ لپکئے ، دوڑئے ، ان کو پکڑئے اور پروگرام کو بند کروائیے ۔ اگر پولیس نے ایسا نہ کیا توہم خود زبردستی یہ سب کچھ کریں گے۔

پاکستانی پولیس جو عام طورپر مجرموں کو پکڑنے میں اتنی سرگرم دکھائی نہیں دیتی و ہ احمدی مسلمانوں کو نیکی کاکام کرنے کی وجہ سے ہراساں کرنے اور گرفتار کرنے میں بڑی مستعد اور چست ثابت ہوئی۔ چنانچہ تھوڑی دیر بعد ہی مسجد کے باہر پولیس پہنچی اور پہرہ پر کھڑے احمدی خدام سے کہا کہ کسی ذمہ دار شخص کو باہر بلاؤ۔

جماعت احمدیہ کے صدرنے اپنے ایک قابل اعتماد ساتھی کو باہر بھجوایا تا کہ معلوم کرسکے کہ پولیس کے آنے کا مقصد کیاہے ۔ جب وہ باہر گئے تو دیکھاکہ ایک سب انسپکٹر پولیس مع چارسپاہیوں کے کھڑاہے ۔ انہوں نے دریافت کیا کہ آپ لوگ مسجدمیں اکٹھے ہو کرکیاکررہے ہیں۔ کیا آپ کے پاس اجتماع کرنے کا اجازت نامہ ہے ۔ انہیں بتایا گیاکہ ہماری جماعت کاانٹرنیشنل جلسہ سالانہ جرمنی میں منعقد ہو رہاہے جس میں امام جماعت احمدیہ بھی خطاب فرمائیں گے ۔ ہم اسے بذریعہ سیٹلائٹ اپنے ٹی وی پر دیکھ رہے ہیں ۔ اس کے لئے کسی اجازت نامہ کی ضرورت نہیں کیونکہ ہم کوئی جلسہ نہیں کر رہے ، نہ کوئی سٹیج ہے اور نہ کوئی مقرر اور ٹی وی دیکھنے کے لئے تو کسی اجازت نامہ کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ اس پر اس پولیس افسر نے کہاکہ آپ ٹی وی بند کردیں یا پھرہمارے ساتھ تھانہ چلیں۔

چنانچہ ان کے ساتھ جماعت کا ایک وفد تھانہ روانہ ہوا ۔راستے میں پولیس نے جماعت کے مخالف چند ملاؤں کو بھی ساتھ لے لیا ۔تھانہ کے انچارج نے احمدیوں سے دریافت کیا کہ کیامعاملہ ہے ۔انہیں بھی بتایاگیاکہ جرمنی میں جماعت کا بین الاقوامی جلسہ منعقد ہو رہاہے اورہم بذریعہ سیٹلائٹ اس کی کارروائی دیکھ رہے ہیں اورہم اپنی مسجد کے اندر بیٹھے ہیں ۔

اس کے بعد انچارج تھانہ نے مُلّاؤں سے پوچھا کہ تم کیاکہتے ہو ۔ اس وقت وہاں مجلس تحفظ ختم نبوت کے نمائندگان بھی تھے اور سپاہ صحابہ کے اراکین بھی ۔ انہوں نے کہنا شرو ع کیاکہ یہ قادیانی ہیں ، یہ نہ تومسجد بناسکتے ہیں نہ مینار، نہ کوئی اجتماع کر سکتے ہیں۔ نہ ہی کسی کو السلام علیکم کہہ سکتے ہیں۔ اور نہ ہی کلمہ پڑھ سکتے ہیں وغیرہ وغیرہ کیونکہ ان کے نزدیک رسول اللہ سے مراد مرزاغلام احمد قادیانی ہے ۔یہ لوگ جنرل ضیاء الحق کے آرڈیننس کے مطابق کوئی اجتماع نہیں کرسکتے ۔ نہ کوئی پروگرام کرسکتے ہیں ، نہ سن سکتے ہیں حتی کہ نماز بھی نہیں پڑھ سکتے ۔غرضیکہ احمدیوں کے خلاف اسی قسم کے دیگرسنگین جھوٹے الزامات بھی لگائے۔

مُلّاؤں کی تقریریں سننے کے ساتھ ہی انچارج تھانہ کا رویہ احبا ب جماعت کے ساتھ بہت تلخ ہو گیا ۔ اس کا لہجہ بگڑا اوروہ حاکمانہ طورپرانہیں کہنے لگا کہ کیا آپ کے پاس سیٹلائٹ کے ذریعہ خطاب سننے کا اجازت نامہ ہے؟۔جب انہیں بتایا گیاکہ ٹی وی پر پروگرام دیکھنے کے لئے کسی اجازت نامہ کی ضرورت نہیں ہوتی تووہ اور بگڑا اور کہنے لگا کہ آپ لوگ اقلیت ہیں ۔ آپ کا ایسے پروگرام ایک جگہ پربیٹھ کر دیکھنا اور سننا قانون کے مطابق جرم ہے ۔مَیں آپ کوہرگز اس کی اجازت نہیں دے سکتا۔ مَیں امن وامان کو خراب ہوتے برداشت نہیں کرسکتا ۔مجھے امن وامان قائم رکھنا آتاہے وغیرہ وغیرہ ۔

پھراس نے فیصلہ دیاکہ اگر آپ نے پروگرام دیکھنا ہی ہے تو اپنی عبادتگاہ کی بجائے اپنے گھروں میں دیکھیں ۔ اس کے بعد افراد جماعت سے ایک تحریر لکھوائی کہ اپنی عبادتگاہ میں اکٹھے ہو کریہ پروگرام نہیں دیکھیں گے اور اس طرح قانون کی خلاف ورزی نہیں کریں گے ۔ اس تحریر پر جماعت احمدیہ کے مخالفین کے دستخط بھی کروائے ۔یہ ساری کارروائی کرنے کے بعد جماعت کا وفد واپس اپنی مسجد میں پہنچا۔ احباب جماعت کو حالات سے آگاہ کیا او ریہ طے پایا کہ مردحضرات مکرم میاں منور احمد صاحب بھٹی کے گھر اورمستورات مکرم بشار ت احمد صاحب بھٹی کے گھرجمع ہوکر خطاب سنیں۔ اس طرح مسجد کو خالی کرکے تالہ لگا دیاگیا ۔

ابھی خطاب شروع ہوئے تھوڑا وقت ہی گزرا تھا کہ شیطان صفت مولویوں نے اپنی مسجدوں سے جماعت احمدیہ کے خلاف دشنام طرازی کا سلسلہ شروع کردیا اور اعلان ہونے لگا کہ قادیانیوں نے ہمیں گالیاں دی ہیں ، مسلمانوں کو غیرت کا مظاہر ہ کرناچاہئے ۔ پھریہ بھی پتہ چلا کہ بہت سارے لوگ دیوبندی مسجد کے باہر اکٹھے ہورہے ہیں ۔ یہ مسجد ان گھروں کے قریب واقع تھی جن میں جماعت احمدیہ کے افراد بیٹھے جلسہ کی کارروائی سن رہے تھے ۔حالات کے پیش نظر ڈیوٹی پرکھڑے خدام کو اندر بلا لیاگیا اورگھروں کے دروازے بند کردئے گئے ۔

تھوڑی دیر کے بعد معلوم ہواکہ احمدی گھروں کے قریب ایک بڑا مجمع اکٹھا ہوگیاہے جس میں بریلوی، دیوبندی ، اہل حدیث اورشیعہ سب شامل ہیں ۔جلوس میں شامل افراد کے پاس ڈنڈے ، کلہاڑیاں ، آتشیں اسلحہ اور مٹی کا تیل تھا۔ اس طرح ہلڑ بازی ، نعرہ بازی اور گندی گالیاں شرع ہو گئیں اور ان گھروں کا جہاں احمدی خطاب سن رہے تھے محاصرہ کرلیا گیا ۔ ان کے ساتھ پولیس کی بھاری تعداد بھی وہاں پہنچ گئی۔

یہ جلوس اب پانچ چھ ہزار افراد پرمشتمل تھا ۔ اردگرد دیہات کے لوگ بھی پہنچ رہے تھے ۔خطرہ کو بھانپتے ہوئے امیر صاحب ضلع شیخوپورہ اوردیگر جماعتی عہدیداروں کو بذریعہ ٹیلیفون اطلاع کردی گئی۔ چنانچہ جماعت کا ایک وفد ڈی ایس پی ضلع شیخوپورہ کو ملا اور حالات سے آگاہ کیا ۔

جن گھروں میں احمدی جمع تھے وہ بند گلی میں تھے اور ان کے ہمسائے نہایت شریف لوگ تھے ۔وہ باہر نکل کر گلی میں کھڑے ہوگئے اور بڑی ہمت سے جلوس کوگلی میں داخل ہونے سے روکے رکھا ۔جلوس کے شرکاء نے انہیں بھی گالیاں دینی شروع کردیں اور دھمکیاں دینے لگے مگر ان ہمسایوں نے بڑی جرأت کامظاہرہ کیا اور اپنی جگہوں پرجمے رہے ۔

تھوڑی دیر کے بعد قریبی مسجد سے یہ اعلان شروع ہوئے کہ سب لوگ مین بازا ر کے چوک میں جمع ہوجائیں وہاں سے لائحہ عمل کااعلان ہوگا۔ چنانچہ جلوس کے بہت سے لوگ تو ا س طرف چلے گئے مگر تھوڑے وہاں موجود رہے ۔

پھر معلوم ہواکہ جلوس کے لوگوں نے مسجد احمدیہ کا رخ5 کیا اور تھوڑی دیر بعد ہی وہ مسجدپرحملہ آور ہوئے اورمیناروں کو گرانا شروع کردیا اور مسجدکا قیمتی سامان لوٹا۔

اسی دوران مشتعل جلوس نے مین بازار میں احمدی دوکانوں کو بھی لوٹنے اور آگ لگانے کی کوشش کی مگرایک پٹھان چوکیدار کی بہادری کی وجہ سے وہ اپنے ارادے میں ناکام رہے ۔

احمدی گھروں کے باہر بھی پولیس کھڑ ی تھی وہ انہیں ہراساں کررہی تھی اور باربار دروازے پر دستک دے کرمطالبہ کررہی تھی کہ احمدی اپنی گرفتاری دے دیں۔ پولیس کے ساتھ چندمُلّاں بھی تھے اور جلوس پیچھے کچھ فاصلے پر ۔ اب پولیس کا دباؤ بڑھنے لگا کہ دروازے کھولو اور گرفتاری دو ۔جلوس کے لوگ ارد گرد کے مکانوں کی چھتوں پرچڑ ھ گئے ۔ ان کے ہاتھوں میں آتشیں اسلحہ اور مٹی کے تیل کے کنستر تھے اور وہ ’’لوٹ لو ، لوٹ لو‘‘ کے نعرے لگا رہے تھے ۔

مکرم منور احمد صاحب بھٹی کے گھر کے اندر تقریباً نوّے کے لگ بھگ مستورات اور بچے جمع تھے ۔ ان سب نے اس موقع پر بہت حوصلہ سے کام لیا اور خدا تعالیٰ کے حضور گڑگڑا کردعاؤں میں مصروف رہے کہ خداتعالیٰ غیب سے حفاظت کے سامان پیدا فرمائے اور اس مشکل وقت میں انہیں ہرطرح سے محفوظ رکھے ۔

ادھر جس گھر میں مردجمع تھے وہاں بھی باربار پولیس کہہ رہی تھی کہ گرفتاری دیں ۔ ٹیلیفون کے ذریعہ معلوم ہوا کہ ایس پی صاحب خود موقع پر آرہے ہیں ۔ اس لئے احمدیوں نے پولیس والوں سے کہاکہ ایس پی صاحب کوآنے دو تو ہم گرفتاری دیدیں گے ۔ پولیس کا موقف تھاکہ وہ احمدیوں کی حفاظت کے لئے انہیں گرفتارکرنا چاہتی ہے۔اس صورتحال کا مقابلہ کرتے کرتے رات کاپونے ایک بج چکاتھا ۔ ایس پی صاحب کے ساتھ ڈی ایس پی ، دو سب انسپکٹر اور تین سپاہی دروازہ کھلوا کر احمدیوں کوملے اورکہاکہ تمام مردحضرات فوری گرفتاری دے دیں تا کہ اس طرح علاقہ میں امن وامان قائم کیاجاسکے ۔چنانچہ رات سوا ایک بجے سب احباب جماعت کوگرفتار کرکے تھانہ پہنچا دیا گیا ۔بعدمیں سارے گھرکی تلاشی لی گئی ۔ ایک ہمسایہ نے چند احمدیوں کو اپنے گھرمیں پناہ دی تھی ۔ ملاّں لوگ پولیس کو لے کر اس کے گھر بھی پہنچے اورزبردستی دروازہ کھلوا کر ان کو بھی گرفتار کرلیا۔ اسکے بعد پولیس نے اس گھرکی طرف رخ کیا جہاں مستورات جمع تھیں ۔ وہاں جاکر دروازہ کھٹکھٹایا اورکہا کہ یہاں بھی بعض احمدی مرد چھپے ہوئے ہیں ان کوباہر نکالو ۔اگر وہ خود باہر نہیں آئیں گے تو ہم خود اندر جاکر انہیں پکڑ لیں گے ۔ دواطفال ان کو نظرآئے توان کو بھی گرفتارکرنے کے لئے اصرارکیا ۔

اسی اثنا میں پولیس کا ایک سب انسپکٹر ملحقہ مکان کی چھت پر چڑ ھ گیااور کود کر مستورات والے مکان کی چھت پر آنے لگا ۔بعض احمدی مستورات کی اس پر نظر پڑ گئی تو انہوں نے اسے للکارا ا ور وہ الٹے پاؤں واپس بھاگ گیا ۔

جلوس ساڑھے چار بجے تک باہر گلی میں کھڑا رہا۔ پولیس والے باربار دروازہ کھولنے کے لئے تنگ کرتے رہے ۔گھرکے اندر بارہ سال تک کے بچوں کے علاوہ کوئی مرد نہیں تھا ۔پولیس اصرار کررہی تھی کہ اس نے سارے گھر کی تلاشی لینی ہے اس لئے دروازہ کھول دیں ۔ ہمسایوں نے پھرایک دفعہ اپنی ہمسائیگی کاحق ادا کیا اور فو ن کیاکہ آپ ہرگزدروازہ نہ کھولیں ہم آپ کے ساتھ ہیں ۔

اس وقت تک پولیس۲۸مردوں کو گرفتار کر کے تھانہ لے جا چکی تھی اور ان سب کو ایک چھوٹے سے کمرہ میں بند کرکے باہرتالا لگا دیا گیاتھا۔ اس تنگ جگہ پرتمام احمدیوں نے انتہائی صبر سے بیٹھ کرساری رات بسرکی اور دعاؤں میں لگے رہے کہ خداتعالیٰ ان شریر مولویوں اوران کے چیلوں کی شرارتوں سے انہیں محفوظ رکھے ۔

جلوس کی قیادت نام نہاد سُنّی اتحاد کے لوکل عہدیدار ، مجلس تحفظ ختم نبوت کے عہدیدار ، دیوبندی مسلک کے اراکین ، اہل حدیث کے لیڈر وغیرہ کررہے تھے ۔یہ جلوس بھی مسجد احمدیہ کی طرف گیا اوروہاں سے کافی سامان ، بجلی کے پنکھے ، ہینڈ پمپ ، دروازے ، کھڑکیاں ، روشن دان وغیرہ کولوٹا گیا ۔اس کے بعد لائبریری کی کتب اور قرآن مجید کے نسخوں کوایک جگہ ڈھیر لگاکر نذر آتش کر دیا گیا اورپوری مسجد کی عمارت کو زمین بوس کردیا گیا اوربعد میں آگ لگادی گئی۔ اس موقع پر پولیس کی بھاری نفری موجود تھی جو محض خاموش تماشائی بنی رہی۔ اس دوران بھی جلوس نعرہ بازی کرتا رہا اور یہ نعرہ بازی کا سلسلہ اگلے دن شام چار بجے تک جاری رہا۔

مسجد احمدیہ سے ملحقہ گھر میں ایک احمدی رہتے تھے ان کو پکڑ کر زدوکوب کیا گیا اور اُن کا سارا سامان لوٹ لیا گیا ۔وہ بڑی مشکل سے جان بچاکر ان کے چنگل سے نکلے۔ مسجد سے دوسری طرف بھی ایک مکان جماعت احمدیہ کی ملکیت تھا جو ایک سرکاری محکمہ نے کرایہ پر لے رکھا تھا۔ اس کے فرنیچر کو بھی لوٹ لیا گیا اور سرکاری ریکارڈ کو آگ لگا دی گئی ، نیز مکان کو مسمار کرنے کی کوشش کی گئی ۔ اس محکمہ کے افراد نے اس واقعہ کی رپورٹ پولیس میں درج کرانا چاہی تو پولیس نے رپورٹ درج کرنے سے انکار کردیا ۔

ان دہشت گردانہ کارروائیوں کے بعد بھی مُلاّؤں کو چین نہ آیا اور انہوں نے بھرپورکوشش کی اور پولیس پر دباؤ ڈالا کہ احمدیوں کے خلاف مذہبی جذبات مجروح کرنے کے جرم میں قانونی کارروائی کی جائے اور مقدمہ درج کیا جائے ۔

ان تمام واقعات کی خبریں ملکی اخبارات میں شائع ہوئیں ۔نیز بی بی سی ریڈیو پربھی نشر کی گئیں ۔

احمدیوں کے ایک وفد نے حکام بالاسے رابطہ کیا اور شکایت کی کہ احمدی جن پر ظلم ہواہے انہیں توقید میں رکھا ہوا ہے اور مجرم دندناتے پھررہے ہیں ، یہ کیا ہو رہاہے ۔ چنانچہ حالات کا جائزہ لینے کے لئے لاہور سے ایک بریگیڈئر اور چند فوجی افسران قصبہ میں آئے۔ ان کے ساتھ پولیس کے اعلیٰ افسران ، ایس پی، ڈی ایس پی، بھی موجود تھے۔ جب یہ افسران مسمار شدہ احمدیہ مسجد کا معائنہ کر رہے تھے اس وقت بھی قریبی دیوبندی مسجد سے جماعت احمدیہ کے خلاف اشتعال انگیز اعلان ہو رہے تھے ۔ ان افسران سے ملنے کے لئے سپاہ صحابہ کے لیڈر، مجلس تحفظ ختم نبوت کے لیڈر اور چند ایک اور سرکردہ لوگ تھانہ میں موجود تھے۔ ان افسران نے پہلے ان کا مؤقف سنا ۔ پھر احمدیوں کو بلایا اور ان سے واقعات کی تفصیل سنی اور ان سے ہمدردی کا اظہار کیا ۔

بریگیڈئر صاحب نے پولیس افسران سے پوچھاکہ ان لوگوں کو کس جرم میں گرفتار کیا ہواہے تو ایس پی نے انہیں بتایاکہ ہم نے احمدیوں کو تحفظ دینے کے لئے گرفتار کیا ہواہے ۔ بعدازاں بریگیڈئر صاحب کو بتایا گیاکہ فریقین آپس میں صلح کر چکے ہیں اور شام تک معاہدہ کو ضبط تحریر میں لانے اور فریقین کے معاہدہ پردستخط کرنے کے بعد احمدیوں کو رہا کردیا جائے گا ۔بریگیڈئر صاحب یہ سن کر مطمئن ہو گئے ۔انہوں نے مولویوں کے ساتھ نماز ادا کی اور پھرفریقین کو آمنے سامنے کر کے نصیحتیں کیں کہ آپس میں صلح صفائی سے رہنا چاہئے۔

مجلس تحفظ ختم نبوت کا لوکل صدر آگے بڑھ بڑھ کر جماعت احمدیہ کے خلاف باتیں کرتا تھا۔ا س سے بریگیڈئر صاحب نے پوچھا کہ تم کہتے ہو کہ احمدی اقلیت ہیں کیا تمہیں علم ہے کہ اسلام اقلیتوں کو کیا حقوق دیتاہے ۔ وہ اس بات کا جو اب نہ دے سکا بلکہ کہنے لگا کہ احمدیوں سے پوچھو کہ انہیں ہماری طرف سے کبھی کوئی پریشانی ہوئی ہے ۔اس پر بریگیڈئر صاحب نے ناراضگی کا اظہار کیا کہ آپ لوگوں نے جماعت احمدیہ کی عبادتگاہ کو مسمار کر دیا ہے۔ کیا اس سے بڑھ کر کوئی پریشانی ہے جو آپ ان لوگوں کو دینا چاہتے ہیں۔ پھر کہاکہ ہندوستان میں جب بابری مسجد کوشہیدکیا جا رہا تھا توآپ لوگوں کے کیاجذبات تھے ۔ عجیب بات ہے وہی ظلم آپ یہاں کررہے ہیں اور پھر بھی شرم محسوس نہیں کرتے ۔اس کے بعد وہ یہ کہہ کر کہ فریقین کی آپس میں صلح کرائیں اور احمدیوں کوجانی و مالی تحفظ دلائیں ، واپس چلے گئے ۔

ایس پی صاحب نے مولوی صاحبان کو شام سات بجے کا وقت دیا اور کہا کہ اس وقت آئیں اورصلح نامہ پردستخط کریں اوروہ بھی ڈی ایس پی کی ڈیوٹی لگا کر واپس چلے گئے۔شام سات بجے احمدیوں کاوفد جب تھانہ پہنچا تو معلوم ہوا کہ مولوی صاحبان تو وہاں نہیں آئے بلکہ انہوں نے پیغام بھجوایا ہے کہ ابھی ہم مشورہ کر رہے ہیں ، عشاء کی نمازادا کرنے کے بعد آئیں گے۔ بالآخر رات ساڑھے دس بجے مولویوں کی ایک بس تھانہ آئی اور مولویوں نے ڈی ایس پی سے کہا کہ ہم نے توصلح کا کوئی وعدہ نہیں کیا تھا۔ ڈی ایس پی صاحب سمجھاتے رہے مگروہ اپنی بات پر اڑے رہے ۔مجبور ہو کر ڈی ایس پی نے انہیں اگلے دن مغرب کے بعد آنے کو کہا اور وہ چلے گئے مگر احمدیوں کوگھروں میں جانے کی اجازت نہ دی گئی ۔اس طرح انہیں مزید ایک رات اینٹوں کے فرش پرسو کر گزارنا پڑی۔

اگلے دن یعنی ۲۸؍اگست کو مُلّاں دُور دراز سے ختم نبوت کے کئی اور لیڈر اور وکلاء صاحبان کو بلا کر لائے اور دیوبندیوں کی مسجد میں پھر ان کا اجتماع ہوا ۔ وقت مقررہ پر وہ جلوس کی شکل میں تھانہ جانے کے لئے روانہ ہوئے ۔ اور احمدی گھروں کے پاس اور بازار میں احمدیوں کے خلاف مغلظات بکتے رہے اور اشتعال انگیز نعرے لگاتے رہے۔ پولیس بھی وہاں پہنچی مگر اس دفعہ بھی وہ خاموش تماشائی بنی رہی ۔

اس کارروائی کے بعد وہ بس میں بیٹھ کر اور چار کاروں میں سوا ر ہوکر جلوس کی شکل میں رات گیارہ بجے کے قریب تھانہ پہنچے ۔ ڈی ایس پی نے ان کا استقبال کیا اور وہ تھانے میں جماعت احمدیہ کے خلاف تقریر کرنے لگے ۔حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ کے خلاف شدید گندی زبان استعمال کی ۔معلوم ہوتا تھاکہ پولیس اور مُلاّؤں کے درمیان کوئی سمجھوتہ ہو چکا ہے ۔ تقاریر کرنے کے بعد مُلاّؤں نے یہ مطالبہ کیا کہ احمدی اسلامی شعائر کا استعمال نہ کریں ۔ جس طرح پاکستان میں دیگر مذاہب کے لوگ رہتے ہیں اسی طرح رہیں توہم خود ان کے حقوق کی حفاظت کریں گے اورقانون کا احترام کریں گے ۔ احمدی مسجدیں نہیں بنا سکتے اور نہ ہی اکٹھے ہوکرعبادت کرسکتے ہیں ۔ اگر یہ ایسا کریں گے تو ہم ان کے سرپھوڑ دیں گے ۔

بعدمیں پولیس نے چیدہ چیدہ مولویوں کی دعوت کی اور کھانے کے بعد وہ سب لوگ چلے گئے ۔ ان کے جانے کے بعد ڈی ایس پی نے جماعت کے وفد کو بلایا اور کہا کہ آپ مہذب لوگ ہیں ،بہت احتیاط سے کام لیں اور ان لوگوں سے پرہیزکیا کریں ۔ اس کے بعد احمدیوں کو اپنے گھروں کوجانے کی اجازت دی گئی۔

احباب جماعت سے درخواست ہے کہ وہ پاکستان کے احمدیوں کواپنی شبانہ روز دعاؤں میں خصوصیت سے یاد رکھیں۔اللہ تعالیٰ انہیں صبر و استقامت عطا فرمائے۔ دشمنوں کے شر سے محفوظ رکھے اور شرانگیز فتنہ پرور مُلاّؤں اور ان کے ہمنواؤں کو عبرت کا نشان بنائے ۔ اَللّٰھُمَّ مَزِّ قْھُمْ کُلَّ مُمَزَّقٍ وَ سَحِّقْھُمْ تَسْحِیقاً آمین

(مطبوعہ :الفضل انٹرنیشنل ۲۶؍جولائی ۲۰۰۲ء تا ۸؍اگست ۲۰۰۲ء)