حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مہمان نوازی کے ایمان افروز واقعات

لنگر خانہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی ابتدائی شکل اور دیگر تاریخی واقعات

حبیب الرحمن زیروی

حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ تحریر فرماتے ہیں:

ایک شب کا ذکرہے کہ کچھ مہمان آئے جن کے واسطے جگہ کے انتظام کے لئے حضرت ام المومنینؓ حیران ہو رہی تھیں کہ سارا مکان توپہلے ہی کشتی کی طرح پر ہے۔ اب ان کو کہاں ٹھیرایا جائے۔ اس وقت حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے اکرام ضیف کا ذکر کرتے ہوئے حضرت بیوی صاحبہ کو پرندوں کا ایک قصہ سنایا۔ چونکہ میں بالکل ملحقہ کمرے میں تھا۔ اورکواڑوں کی ساخت پرانے طرز کی تھی جن کے اندرسے آواز بآسانی دوسری طرف پہنچتی رہتی ہے ۔ اس واسطے میں نے اس سارے قصہ کو سنا۔

فرمایا، دیکھو ایک دفعہ جنگل میں ایک مسافر کو شام ہو گئی ۔ رات اندھیری تھی ۔ قریب کوئی بستی اسے دکھائی نہ دی اور وہ ناچار ایک درخت کے نیچے رات گزارنے کے واسطے بیٹھ رہا۔ اس درخت کے اوپر ایک پرند کا آشیانہ تھا۔ پرندہ اپنی مادہ کے ساتھ باتیں کرنے لگا کہ دیکھو یہ مسافر جو ہمارے آشیانہ کے نیچے زمین پر آ بیٹھا ہے یہ آج رات ہمارا مہمان ہے اور ہمارا فرض ہے کہ اس کی مہمان نوازی کریں۔ مادہ نے اس کے ساتھ اتفاق کیا اور ہر دو نے مشور ہ کر کے یہ قرار دیا کہ ٹھنڈی رات ہے اور اس ہمارے مہمان کو آگ تاپنے کی ضرورت ہے۔ اور تو کچھ ہمارے پاس نہیں ۔ ہم اپناآشیانہ ہی توڑ کر نیچے پھینک دیں تا کہ وہ ان لکڑیوں کو جلا کر آگ تاپ لے۔ چنانچہ انہوں نے ایساہی کیا اور سارا آشیانہ تنکا تنکا کرکے نیچے پھینک دیا ۔ اس کو مسافر نے غنیمت جانا اوران سب لکڑیوں کو تنکوں کو جمع کر کے آگ جلائی اور تاپنے لگا۔ تب درخت پر اس پرندوں کے جوڑے نے پھر مشورہ کیا کہ آگ ہم نے اپنے مہمان کو بہم پہنچائی اور اس کے واسطے سیکنے کا سامان مہیا کیا۔ اب ہمیں چاہئے کہ اسے کچھ کھانے کو بھی دیں ۔ اور توہمارے پاس کچھ نہیں ۔ ہم خود ہی اس آگ میں جا گریں اور مسافر ہمیں بھون کرہمارا گوشت کھا لے ۔چنانچہ ان پرندوں نے ایساہی کیا اور مہمان نوازی کاحق ادا کیا ‘‘۔

*۔۔۔*۔۔۔*

حضرت صاحبزادہ مرزابشیر احمد صاحبؓ ایم۔ اے۔ تحریر فرماتے ہیں:

ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحبؓ نے مجھ سے بیان کیا کہ لنگرکا انتظام حضرت مسیح موعودؑ کے ابتدائی ایام میں گھر میں ہی تھا۔ گھر میں دال سالن پکتا اور لوہے کے ایک بڑے توے پر جسے ’’لوہ‘‘ کہتے ہیں روٹی پکائی جاتی۔ پھر باہر مہمانوں کو بھیج دی جاتی ۔ اس لوہ پرایک وقت میں دو تین نوکرانیاں بیٹھ کر بہت سی روٹیاں یکدم پکا لیا کرتی تھیں۔اس کے بعد جب باہر انتظام ہو ا تو پہلے اس مکان میں لنگر خانہ منتقل ہوا جہاں اب نواب صاحب کا شہر والامکان کھڑاہے۔ پھرباہر مہمان خانہ میں چلا گیا ۔

*۔۔۔*۔۔۔*

حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم۔ اے۔ تحریر فرماتے ہیں:

’’بیان کیا ہم سے حافظ روشن علی صاحبؓ نے کہ ان سے ڈاکٹر محمد اسمٰعیل صاحبؓ نے بیان کیا تھا کہ ایک دفعہ جب کوئی جلسہ وغیرہ کا موقعہ تھا اورہم لوگ حضرت صاحبؑ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے اور مہمانوں کے لئے باہر پلاؤ زردہ وغیرہ پک رہا تھا کہ حضرت صاحب کے واسطے اندر سے کھانا آ گیا۔ ہم سمجھتے تھے کہ یہ بہت عمدہ کھانا ہوگا لیکن دیکھاتو تھوڑا سا خشکہ تھا اور کچھ دال تھی اور صرف ایک آدمی کی مقدار کاکھانا تھا۔ حضرت صاحب نے ہم لوگوں سے فرمایا آپ بھی کھانا کھا لیں۔ چنانچہ ہم بھی ساتھ شامل ہو گئے ۔ حافظ صاحب کہتے تھے کہ ڈاکٹر صاحب بیان کرتے تھے کہ اس کھانے سے ہم سب سیرہو گئے حالانکہ ہم بہت سے آدمی تھے‘‘۔

*۔۔۔*۔۔۔*

اسی طرح آپ تحریر فرماتے ہیں کہ :

’’ بیان کیا مجھ سے میاں عبداللہ سنوریؓ نے کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود ؑ نے چند مہمانوں کی دعوت کی اور ان کے واسطے گھرمیں کھانا تیار کروایا۔ مگر عین جس وقت کھانے کا وقت آیااتنے ہی اور مہمان آگئے اور مسجد مبارک مہمانوں سے بھرگئی۔ حضرت صاحب نے اندر کہلابھیجا کہ اور مہمان آگئے ہیں کھانا زیادہ بھجواؤ۔ اس پربیوی صاحبہ نے حضرت صاحب کو اندر بلوا بھیجا۔ اور کہا کہ کھانا تو تھوڑاہے ، صرف چند مہمانوں کے مطابق پکایا گیا تھا جن کے واسطے آپ نے کہا تھا مگر شاید باقی کھانے کا تو کچھ کھینچ تان کر انتظام ہو سکے گا لیکن زردہ تو بہت ہی تھوڑاہے ا س کا کیا کیا جاوے۔ میرا خیال ہے کہ زردہ بھجواتی ہی نہیں۔صرف باقی کھانا نکال دیتی ہوں۔ حضرت صاحب نے فرمایا نہیں یہ مناسب نہیں۔ تم زردہ کا برتن میرے پاس لاؤ۔ چنانچہ حضرت صاحب نے ا س برتن پر رومال ڈھانک دیا اور پھررومال کے نیچے اپنا ہاتھ گزار کر اپنی انگلیاں زردہ میں داخل کر دیں اور پھر کہااب تم سب کے واسطے کھانا نکالو خدا برکت دیگا۔ چنانچہ میاں عبداللہ صاحبؓ کہتے ہیں کہ زردہ سب کے واسطے آیا اور سب نے سیر ہو کر کھایا‘‘ ۔

حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت اماں جانؓ نے فرمایا :

’’ایسے واقعات بارہاہوئے ہیں ۔ میں نے پوچھا کس طرح والدہ صاحبہ نے فرمایا یہی کہ تھوڑا کھانا تیارہوا اور پھرمہمان زیادہ آگئے۔ مثلاً پچاس کا کھانا ہوا تو سوآگئے لیکن وہی کھانا حضرت صاحب کے دم سے کافی ہو جاتا رہا۔ پھرحضرت والدہ صاحبہ نے ایک واقعہ بیان کیا کہ ایک دفعہ کوئی شخص حضرت صاحب کے واسطے ایک مرغ لایا ۔ میں نے حضرت صاحب کے واسطے اس کا پلاؤ تیارکروایاتھا مگراسی دن اتفاق ایساہوا کہ نواب صاحب نے اپنے گھرمیں دھونی دلوائی تو نواب صاحب کی بیوی بچے بھی ادھر ہمارے گھر آ گئے اور حضرت صاحب نے فرمایا کہ ان کو بھی کھانا کھلاؤ۔ میں نے کہا کہ چاول تو بالکل ہی تھوڑے ہیں صرف آپ کے واسطے تیار کروائے تھے ۔حضرت صاحب نے فرمایا چاول کہاں ہیں ۔ پھر حضرت صاحب نے چاولوں کے پاس آ کر ان پر دم کیا اور کہا اب تقسیم کردو ۔ والدہ صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ ان چاولوں میں ایسی برکت ہوئی کہ نواب صاحب کے سارے گھر نے کھائے اور پھربڑے مولوی صاحب (یعنی حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ ) او ر مولوی عبدالکریم صاحب کو بھی بھجوائے گئے۔ اور قادیان میں اور بھی کئی لوگوں کو دئے گئے۔ اورچونکہ وہ برکت والے چاول مشہور ہو گئے تھے اس لئے کئی لوگوں نے آ آ کر ہم سے مانگے اور ہم نے تھوڑے تھوڑے تقسیم کئے اور وہ سب کے لئے کافی ہو گئے۔

*۔۔۔*۔۔۔*

حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ نے بیان کیاکہ جب میں قادیان سے واپس لاہور جایاکرتاتھا تو حضرت صاحب اندر سے میرے لئے ساتھ لے جانے کے واسطے کھانا بھجوایاکرتے تھے۔ چنانچہ ایک دفعہ جب میں شام کے قریب قادیان سے آنے لگا تو حضرت صاحب نے اندر سے میرے واسطے کھانا منگایا ۔ جوخادم کھانا لایاوہ یونہی کھلاکھانا لے آیا ۔ حضرت صاحب نے فرمایا کہ مفتی صاحب یہ کھانا کس طرح ساتھ لے جائیں گے کوئی رومال بھی تو ساتھ لانا تھاجس میں کھانا باندھ دیاجاتا ۔ اچھامیں کچھ انتظام کرتاہوں اور پھر آپ نے اپنے سرکی پگڑی کا ایک کنارہ کا ٹکڑا پھاڑا اور اس میں وہ کھانا باندھ دیا ۔

*۔۔۔*۔۔۔*

حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم۔اے۔ تحریر فرماتے ہیں :

’’قاضی محمد یوسف صاحب پشاوری نے مجھ سے بذریعہ خط بیان کیا کہ ایک دفعہ میں اورعبدالرحیم خان صاحب پسرمولوی غلام حسن خان صاحب پشاوری مسجد مبارک میں کھانا کھارہے تھے جو حضرت صاحب کے گھرسے آیا تھا ۔ناگاہ میری نظرکھانے میں ایک مکھی پر پڑی۔چونکہ مجھے مکھی سے طبعاً نفرت ہے میں نے کھاناترک کر دیا ۔ اس پر حضرت کے گھرکی ایک خادمہ کھانا اٹھاکر واپس لے گئی ۔ اتفاق ایساہوا کہ اس وقت حضرت صاحب اندرون خانہ کھانا تناول فرما رہے تھے۔ خادمہ پاس سے گزری تواس نے حضرت سے یہ ماجرا عرض کر دیا ۔ حضرت صاحب فوراً اپنے سامنے کا کھانا اٹھاکر اس خادمہ کے حوالے کر دیا کہ یہ لے جاؤ۔ اوراپنے ہاتھ کانوالہ بھی برتن ہی میں چھوڑدیا۔ وہ خادمہ خوشی خوشی ہمارے پاس وہ کھانا لائی اور کہاکہ لو حضرت صاحب نے اپنا تبرک دے دیا ہے۔ اس وقت مسجد میں سید عبدالجبار صاحب بھی جو گزشتہ ایام میں کچھ عرصہ بادشاہ سوات بھی رہے ہیں، موجود تھے۔ چنانچہ وہ بھی ہمارے ساتھ شریک ہوگئے ۔

*۔۔۔*۔۔۔*

حضرت مرزا بشیر احمد صاحب لکھتے ہیں کہ :

’’ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحبؓ نے مجھ سے بیان کیا کہ اوائل میں حضرت مسیح موعودؑ مدتوں دونوں وقت کا کھانا مہمانوں کے ہمراہ باہر کھایا کرتے تھے ۔کبھی پلاؤ اور زردہ پکتا تومولوی عبدالکریم صاحب ان دونوں چیزوں کوملا لیاکرتے تھے ۔آ پ یہ دیکھ کر فرماتے کہ ہم تو ان دونوں کو ملاکر نہیں کھا سکتے ۔ کبھی مولوی صاحب کھانا کھاتے ہوئے کہتے کہ اس وقت اچار کو دل چاہتاہے اورکسی ملازم کی طرف اشارہ کرتے تو حضرت صاحب فوراً دسترخوان پر سے اٹھ کربیت الفکر کی کھڑکی میں سے اندرچلے جاتے اور اچار لے آتے ‘‘۔

*۔۔۔*۔۔۔*

حضرت منشی ظفر احمد صاحب کپورتھلوی بیان کرتے ہیں ۔

’’ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ حضرت مسیح موعود ؑ مغرب کے بعد مسجد مبارک کی دوسری چھت پرمع چند احباب کھانا کھانے کے لئے تشریف فرما تھے ۔ ایک احمدی میاں نظام الدین ساکن لدھیانہ جو بہت غریب آدمی تھے اور ان کے کپڑے بھی دریدہ تھے۔ حضرت مسیح موعود ؑ سے چار پانچ آدمیوں کے فاصلہ پربیٹھے تھے ۔ اتنے میں کئی دیگر اشخاص خصوصاً وہ لوگ جوبعدمیں لاہور ی کہلائے آتے گئے اورآ پ ؑ کے قریب بیٹھتے گئے جس کی وجہ سے میاں نظام الدین کو پرے ہٹناپڑتا رہا حتی کہ وہ جوتیوں کی جگہ تک پہنچ گیا۔ اتنے میں کھاناآیا توآپ نے ایک سالن کا پیالہ اور کچھ روٹیاں ہاتھ میں اٹھا لیں اور میاں نظام الدین کومخاطب کرکے فرمایا آؤ میاں نظام الدین صاحب ہم اور آ پ اندر بیٹھ کر کھانا کھائیں اور یہ فرماکر مسجد کے صحن کے ساتھ جو کوٹھڑی ہے اس میں تشریف لے گئے اور حضرت صاحب نے اورمیاں نظام الدین نے کوٹھڑی کے اندر ایک پیالہ میں کھانا کھایا اورکوئی اندرنہیں گیا ۔ جو لوگ قریب آ کر بیٹھتے گئے تھے ان کے چہروں پر شرمندگی ظاہر تھی۔

*۔۔۔*۔۔۔*

حضرت منشی ظفراحمد صاحب بیان فرماتے ہیں:

’’ایک دفعہ جلسہ سالانہ پربہت سے آدمی آئے جن کے پاس کوئی پارچہ سرمائی نہ تھا۔ ایک شخص نبی بخش نمبردار ساکن بٹالہ نے اندرسے لحاف بچھونے منگوانے شروع کئے اور مہمانوں کو دیتارہا۔ میں عشاء کے بعد حضرت صاحب کی خدمت میں حاضرہوا تو آپ بغلوں میں ہاتھ دئے بیٹھے تھے اور ایک صاحبزادہ جو غالباً حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ تھے پاس لیٹے تھے اور ایک شتری چوغہ انہیں اوڑھا رکھا تھا ۔ معلوم ہواکہ آپ نے بھی اپنا لحاف بچھونا طلب کرنے پرمہمانوں کے لئے بھیج دیا ۔ میں نے عرض کی کہ آپ کے پاس کوئی پارچہ نہیں رہااور سردی بہت ہے فرمانے لگے مہمانوں کو تکلیف نہیں ہونی چاہئے اور ہمارا کیا ہے رات گزر جائے گی ۔ نیچے آ کر میں نے نبی بخش نمبردار کو بہت برا بھلا کہا کہ تم حضرت صاحب کا لحاف بچھونا بھی لے آئے ۔ وہ شرمندہ ہوا اور کہنے لگا کہ جس کو دے چکا ہوں اس سے کس طرح واپس لوں۔ پھر میں مفتی فضل الرحمن صاحب یا کسی اور سے ٹھیک یاد نہیں رہا لحاف بچھونا مانگ کر اوپر لے گیا ۔ آپ نے فرمایا کہ کسی اور کو دے دو مجھے تواکثر نیند بھی نہیں آتی اور میرے اصرار پر بھی آپ نے نہ لیا اور فرمایا کسی مہمان کو دے دو پھر میں لے آیا ‘‘۔

*۔۔۔*۔۔۔*

حضرت منشی ظفر احمد صاحبؓ کپورتھلوی بیان فرماتے ہیں:

’’حضر ت صاحب کو اپنے خدام کی دلداری کا بہت بڑاخیال رہتاتھا اور آپ ان کے لئے خود اپنی ذات سے ہر قسم کی قربانی اور ایثار کا عملاً اظہار فرماتے تھے ۔ ایک مرتبہ عید کادن تھا اور میرا صافہ سر صاف نہ تھا ۔ اس لئے کہ جب کبھی ہم آتے تھے تو ایک آدھ دن کی فرصت نکال کر آتے لیکن جب یہاں آتے اور حضرت صاحب قیام کا حکم دے دیتے تو پھرہمیں ملازمت کے چلے جانے کابھی خیال نہ ہوتا تھا۔ اسی طرح عیدکا دن آگیا اور میں ایک ہی صافہ لے کرآیا تھا اور وہ میلاہوگیا۔ میں نے چاہا کہ بازار سے جاکر خرید لاؤں ۔ چنانچہ میں بازارکی طرف جا رہا تھا ۔ آپ نے مجھے دیکھ لیا اور آپ کی فراست تو خداداد تھی پوچھا کہاں جارہے ہو ؟ میں نے عرض کیاکہ عیدکا دن ہے میرا صافہ میلاہے میں بازارسے خریدنے جارہاہوں ۔ اسی وقت وہاں ہی کھڑے اپنا عمامہ شریف اتار کر مجھے دیااور فرمایا کہ یہ آپ کو پسند ہے؟ آپ لے لیں۔ میں دوسرا باندھ لیتاہوں۔ مجھ پراس محبت اور شفقت کا جو اثرہوا الفاظ اسے ادا نہیں کر سکتے ۔ میں نے نہایت احترام کے ساتھ اس عمامہ کو لے لیا اورآپ بے تکلف گھرتشریف لے گئے اوردوسرا عمامہ باندھ کر آگئے۔

*۔۔۔*۔۔۔*

حضرت منشی ظفر احمد صاحبؓ بیان فرماتے ہیں:

ایک دفعہ میں قادیان سے رخصت ہونے لگا اور حضرت بانی سلسلہؑ نے اجازت دی ۔ پھرفرمایا کہ ٹھہر جائیں۔ آ پ دودھ کا گلاس لے آئے اور فرمایا پی لیں۔ شیخ رحمت اللہ صاحب بھی آ گئے ۔ پھر ان کیلئے بھی حضرت صاحب دودھ کا گلاس لائے اور پھرنہر تک ہمیں چھوڑنے کے لئے تشریف لائے۔ اوربہت دفعہ نہر تک ہمیں چھوڑنے کے لئے تشریف لاتے۔

ایک اورروایت میں حضرت منشی ظفر احمد صاحب کپورتھلویؓ بیان کرتے ہیں:

’’میں قادیان میں مسجد مبارک سے ملحق کمرے میں ٹھہرا کرتاتھا۔ میں ایک دفعہ سحری کھا رہا تھا ۔ حضرت صاحب تشریف لے آئے ۔ دیکھ کر فرمایا آپ دال سے روٹی کھارہے ہیں؟ اوراسی وقت منتظم کو بلایا اور فرمانے لگے کہ آپ سحری کے وقت دوستوں کو ایسا کھانادیتے ہیں ۔ یہاں ہمارے جس قدراحباب ہیں وہ سفرمیں نہیں۔ ہر ایک سے دریافت کرو کہ ان کوکیاکیاچیز کھانے کی عادت ہے اور وہ سحری کو کیاکیا چیز پسند کرتے ہیں۔ ویسا ہی کھانا ان کے لئے تیار کیاجائے ۔پھر منتظم میرے لئے اورکھانالایا مگر میں کھاناکھا چکا تھا‘‘ ۔

*۔۔۔*۔۔۔*

حضرت مرزا بشیراحمد صاحبؓ ایم۔ اے۔ اپنی کتاب سلسلہ احمدیہ میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی مہمان نوازی سے متعلق تحریر فرماتے ہیں:

’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طبیعت نہایت درجہ مہمان نواز تھی اور جو لوگ جلسہ کے موقعہ پر یا دوسرے موقعوں پر قادیان آتے تھے خواہ وہ احمدی ہوںیا غیر احمدی وہ آپ کی محبت اور مہمان نوازی سے پورا پورا حصہ پاتے تھے اور آپ کو ان کے آرام و آسائش کا ازحد خیال رہتا تھا۔ آپ کی طبیعت میں تکلف بالکل نہیں تھا اور ہر مہمان کو ایک عزیز کے طورپر ملتے تھے اور اس کی خدمت میں اورمہمان نوازی میں دلی خوشی پاتے تھے ۔

اوائل زمانہ کے آنے والے لوگ بیان کرتے ہیں کہ جب کوئی مہمان آتاتو آپ ہمیشہ اسے مسکراتے ہوئے چہرہ سے ملتے۔ مصافحہ کرتے، خیریت پوچھتے ، عزت کے ساتھ بٹھاتے ،گرمی کا موسم ہوتاتو شربت بناکرپیش کرتے۔سردیاں ہوتیں تو چائے وغیرہ تیار کرواکے لاتے۔ رہائش کی جگہ کاانتظام کرتے اورکھانے وغیرہ کے متعلق مہمان خانہ کے منتظمین کوخود بلاکر تاکید فرماتے کہ کسی قسم کی تکلیف نہ ہو‘‘۔

ایک دوسری روایت میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدصاحبؓ ایم۔ اے۔ سیرۃ طیبہ میں یہ تحریرفرماتے ہیں:

’’ایک بہت شریف اوربڑے غریب مزاج احمدی سیٹھی غلام نبی صاحب ہوتے تھے جو رہنے والے تو چکوال کے تھے مگر راولپنڈی میں دوکان کیاکرتے تھے ۔ انہوں نے مجھ سے بیان کیاکہ ایک دفعہ میں حضرت اقدس ؑ کی ملاقات کے لئے قادیان آیا۔ سردی کا موسم تھا اور کچھ بارش بھی ہو رہی تھی۔ میں شام کے وقت قادیان پہنچا تھا۔ رات کوجب میں کھانا کھا کرلیٹ گیا اورکافی رات گزر گئی اور قریباً بارہ بجے کا وقت ہوگیاتو کسی نے میرے کمرے کے دروازہ پردستک دی ۔ میں نے اٹھ کر دروازہ کھولا توحضرت اقدس ؑ کھڑے تھے۔ایک ہاتھ میں گرم دودھ کا گلاس تھا اوردوسرے ہاتھ میں لالٹین تھی ۔ میں حضرت صاحب کو دیکھ کر گھبرا گیا مگر آپ نے بڑی شفقت سے فرمایا کہیں سے دودھ آگیاتھا میں نے کہا کہ آ پ کو دے آؤں۔ آپ یہ دودھ پی لیں۔ آپ کو شاید دودھ کی عادت ہوگی اس لئے یہ دودھ آپ کے لئے لایاہوں۔سیٹھی صاحب کہاکرتے تھے کہ میری آنکھوں میں آنسوامڈ آئے کہ سُبْحَا نَ اللّٰہ کیا اخلاق ہیں۔ یہ خدا کا برگزیدہ اپنے ادنیٰ خادموں تک کی خدمت اور دلداری میں کتنی لذت پاتا اورکتنی تکلیف اٹھاتاہے !!‘‘۔

اس واقعہ سے آپ ؑ کے جذبہ ٔمہمان نوازی کاکسی قدر اندازہو سکتاہے۔

*۔۔۔*۔۔۔*

حضرت منشی ظفراحمد صاحبؓ کپورتھلوی روایت کرتے ہیں :

’’ایک دفعہ منی پور آسام کے دور دراز علاقہ سے دو (غیر احمدی)مہمان حضرت مسیح موعود ؑ کانام سن کر آپ سے ملنے کے لئے قادیان آئے اور مہمانخانہ کے پاس پہنچ کر لنگر خانہ کے خادموں کو اپنا سامان اتارنے اورچارپائی بچھانے کوکہا۔ لیکن ان خدام کو اس طرف فوری توجہ نہ ہوئی اور وہ ان مہمانوں کو یہ کہہ کر دوسری طرف چلے گئے کہ آپ یکہ سے سامان اتاریں چارپائی بھی آ جائے گی۔ اُن تھکے ماندے مہمانوں کو یہ جواب ناگزیر گزرا اور وہ رنجیدہ ہو کر اسی وقت بٹالہ کی طرف واپس روانہ ہوگئے ۔ مگرجب حضرت صاحب کو اس واقعہ کی اطلاع ہوئی آپ نہایت جلدی ایسی حالت میں کہ جوتا پہننا بھی مشکل ہو گیا ان کے پیچھے بٹالہ کے رستہ پرتیز تیز قدم اٹھاتے ہوئے چل پڑے۔چند خدام بھی ساتھ ہو لئے ۔حضرت منشی ظفر احمد صاحبؓ روایت کرتے ہیں کہ میں بھی ساتھ ہو لیا۔ حضرت صاحب اس وقت اتنی تیزی کے ساتھ ان کے پیچھے گئے کہ قادیان سے اڑھائی میل پرنہر کے پل کے پاس انہیں جا لیا اور بڑی محبت اور معذرت کے ساتھ اصرار کیا کہ واپس چلیں اور فرمایا آپ کے واپس چلے جانے سے مجھے بہت تکلیف ہوئی ہے ۔ آپ یکہ پر سوارہو جائیں میں آپ کے ساتھ پیدل چلوں گا۔ مگر وہ احترام اور شرمندگی کی وجہ سے سوارنہ ہوئے اور آپ انہیں اپنے ساتھ لے کر قادیان واپس آگئے اور مہمان خانہ میں پہنچ کران کا سامان اتارنے کے لئے آپ نے اپنا ہاتھ یکہ کی طرف بڑھایا مگرخدا م نے آگے بڑھ کر سامان اتار لیا۔ اس کے بعد حضرت صاحب ان کے پاس بیٹھ کر محبت اور دلداری کی گفتگو فرماتے رہے اورکھاناوغیرہ کے متعلق بھی پوچھا کہ آپ کیا کھاناپسندکرتے ہیں اور کسی خاص کھاناکھانے کی عادت تو نہیں؟ اور بڑی شفقت کے ساتھ باتیں کرتے رہے ۔

دوسرے دن جب یہ مہمان واپس روانہ ہونے لگے تو حضرت صاحب نے دودھ کے دوگلاس منگوا کر ان کے سامنے بڑی محبت سے پیش کئے اورپھر دو اڑھائی میل پیدل چل کر بٹالہ کے رستے والی نہر تک چھوڑنے کے لئے ان کے ساتھ گئے اوراپنے سامنے یکہ پرسوارکراکے واپس تشریف لائے۔

اسی عظیم خلق کے نتیجہ میں لنگر خانہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بنیاد رکھی گئی ۔ لنگر خانہ کی تاریخ کا مطالعہ غیر معمولی طور پرایمان کی تازگی کے سامان مہیا کرتاہے۔

(مطبوعہ :الفضل انٹرنیشنل۲۳؍جولائی ۱۹۹۹ء تا۲۹؍جولائی ۱۹۹۹ء)