سیرت مسیح موعود علیہ السلام

فہرست مضامین

اشتہار کتاب براہین احمدیہ

پہلے تو آپ نے صرف اخبارات میں مضامین دینے شروع کیے لیکن جب دیکھا کہ دشمنانِ اسلام اپنے حملوں میں بڑھتے جاتے ہیں اور مسلمان اُن حملوں کی تاب نہ لا کر پسپا ہو رہے ہیں تو آپ کے دل میں غیرتِ اسلام نے جوش مارا اور آپ نے اللہ تعالیٰ کے الہام اور وحی کے ماتحت مامور ہو کر ارادہ کیا کہ ایک ایسی کتاب تحریر فرمائیں جس میں اسلام کی صداقت کے وہ اصول بیان کیے جائیں جن کے مقابلہ سے مخالف عاجز ہوں اور آئندہ اُن کو اسلام کے مقابلہ کی جرأت نہ ہو اور اگر وہ مقابلہ کریں تو ہر ایک مسلمان اُن کے حملہ کو رَدّ کر سکے۔ چنانچہ اِس ارادہ کے ساتھ آپ نے وہ عظیم الشان کتاب لکھنی شروع کی جو براہین احمدیہ کے نام سے مشہور ہے اور جس کی نظیر کسی انسان کی تصانیف میں نہیں ملتی۔ جب ایک حصہ مضمون کا تیار ہو گیا تو اُس کی اشاعت کے لیے آپ نے مختلف جگہ پر تحریک کی اور بعض لوگوں کی امداد سے جو آپ کے مضامین کی وجہ سے پہلے ہی آپ کی لیاقت کے قائل تھے اس کا پہلا حصہ جو صرف اشتہار کے طور پر تھا شائع کیا گیا۔

اس حصہ کا شائع ہونا تھا کہ مُلک میں شور پڑ گیا اور گو پہلا حصہ صرف کتاب کا اشتہار تھا لیکن اُس میں بھی صداقت کے ثابت کرنے کے لیے ایسے اصول بتائے گئے تھے کہ ہر ایک شخص جس نے اُسے دیکھا اِس کتاب کی عظمت کا قائل ہو گیا۔ اِس اشتہار میں آپ نے یہ بھی شرط رکھی تھی کہ اگر وہ خوبیاں جو آپ اسلام کی پیش کریں گے وہی کسی اور مذہب کا پَیرو اپنے مذہب میں دکھا دے یا اُن سے نصف بلکہ چوتھا حصہ ہی اپنے مذہب میں ثابت کر دے تو آپ اپنی سب جائیداد جس کی قیمت دس ہزار روپے کے قریب ہوگی، اُسے بطور انعام کے دیں گے (یہ ایک ہی موقع ہے جس میں آپ نے اپنی جائیداد سے اُس وقت فائدہ اُٹھایا اور اسلام کی خوبیوں کے ثابت کرنے کے لیے بطور انعام مقرر کیا تا کہ مختلف مذاہب کے پَیرو کسی طرح میدانِ مقابلہ میں آجائیں اور اِس طرح اسلام کی فتح ثابت ہو)

یہ پہلا حصہ 1880ء میں شائع ہوا۔ پھر اِس کتاب کا دوسرا حصہ 1881ء میں اور تیسرا حصہ 1882ء اور چوتھا حصہ 1884ء میں شائع ہوا۔ گو جس رنگ میں آپ کا ارادہ کتاب لکھنے کا تھا وہ درمیان میں ہی رہ گیا کیونکہ اِس کتاب کی تحریر کے درمیان میں ہی آپ کو بذریعہ الہام بتایا گیا کہ آپ کے لیے اشاعت اسلام کی خدمت کسی اور رنگ میں مقدرہے لیکن جو کچھ اِس کتاب میں لکھا گیا وہی دنیا کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی تھا۔ اس کتاب کی اشاعت کے بعد آپ کے دوست دشمن سب کو آپ کی قابلیت کا اقرار کرنا پڑا اور مخالفین اسلام پر ایسا رعب پڑا کہ اُن میں سے کوئی اِس کتاب کا جواب نہ دے سکا۔ مسلمانوں کو اِس قدر خوشی حاصل ہوئی کہ وہ بِلا آپ کے دعوٰی کے آپ کو مجدد تسلیم کرنے لگے اور اُس وقت کے بڑے بڑے علماء آپ کی لیاقت کا لوہا مان گئے۔ چنانچہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی جو اُس وقت تمام اہل حدیث وہابی فرقہ کے سرگروہ تھے اور وہابی فرقہ میں اُن کو خاص عزت حاصل تھی اور اِسی وجہ سے گورنمنٹ کے ہاں بھی اُن کی عزت تھی انہوں نے اِس کتاب کی تعریف میں ایک لمبا آرٹیکل لکھا اور بڑے زور سے اِس کی تائید کی اور لکھا کہ تیرہ سَو سال میں اسلام کی تائید میں ایسی کتاب کوئی نہیں لکھی گئی۔