ختم نبوّت ۔ کچھ نکات

اتمامِ نعمت

“آج کے دن میں نے تمہاے لئے تمہارا دین کامل کردیا اور تم پر میں نے اپنی نعمت تمام کردی ہے اور میں نے اسلام کو تمہارے لئے دین کے طور پر پسند کرلیا ہے ۔” (المائدہ 5:4)

اس آیت کریمہ کو پیش کرکے غیر احمدی حضرات یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اسلام بطور دین کامل کردیا گیا ہے اور نعمت تمام ہونے کا مطلب ہے کہ نبوت ختم ہوگئی ہے۔ یہ استدلال سورہ یوسف کی مندرجہ ذیل آیت سے غلط ثابت ہوتا ہے۔

“اور اسی طرح تیرا رب تجھے (اپنے لئے) چن لےگا اور تجھے معاملات کی تہہ تک پہنچنے کا علم سکھادیگا اور اپنی نعمت تجھ پر تمام کریگا اور آل یعقوب پر بھی جیسا کہ اس نے اسے تیرے باپ دادا ابراہیم اور اسحٰق پر پہلے تمام کیا تھا۔ یقیناً تیرا رب دائمی علم رکھنے والا (اور) حکمت والا ہے۔” (سورہ یوسف 12:7)

اگراتمام نعمت کا مطلب نبوت ختم ہونا لیا جائے توپھر اس آیت کریمہ کامعنی بنے گا کہ نبوت اس آیت میں مذکور انبیاءکو بار بار ملی اور بار بار ختم ہوئی۔ لیکن اس صورت میں بھی ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ جب نبوت کا بار بار ختم ہوکر شروع ہونا ثابت ہے تو آنحضرت ﷺ پر ختم ہوکر دوبارہ کیوں نہیں شروع ہوسکتی۔

کیا صرف کتاب ہدایت دے سکتی ہے؟

بعض لوگ یہ نکتہ اٹھاتے ہیں کہ ہمیں قرآن کریم جیسی اکمل کتاب کی موجودگی میں کسی پیغمبر اور ہادی کی ضرورت نہیں اور اب ہم اپنی تمام ضروریات اسی کتاب سے پوری کرسکتے ہیں۔ جبکہ قرآن کریم کتاب اور استاد کو ایک دوسرے کیلئے لازم و ملزوم ٹھہراتا ہے۔

“الف لام را۔ یہ ایک کتاب ہے جو ہم نے تیری طرف اتاری ہے تاکہ تو لوگوں کو ان کے رب کے حکم سے اندھیروں سے نور کی طرف نکالتے ہوئے اس راستہ پر ڈال دے جو کامل غلبہ والے (اور)صاحب حمد کا راستہ ہے۔” (ابراہیم 14:2)

خود کتاب پڑھ کر ہدایت پانے کا دعویٰ کرنے والوں کے نزدیک نبی کی حیثیت ایک ڈاکیہ سے زیادہ نہیں ہوتی جس کا کام صرف کتاب پہنچانا ہے۔ کفّار مکّہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی مطالبہ کیا تھا کہ آپ آسمان پر جا کر ہمارے لئے ایک کتاب لے آئیں جسے ہم پڑھیں۔

“۔۔۔ مگر ہم تیرے چڑھنے پر بھی ہرگز ایمان نہیں لائیں گے یہاں تک کہ تو ہم پر ایسی کتاب اتارے جسے ہم پڑھ سکیں۔۔۔” (بنی اسرائیل 17:94)

اس آیت کریمہ میں لفظ ” نَقْرَؤُہ“ بڑا غور طلب ہے جس کا مطلب ہے ”ہم پڑھیں“۔ یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ مطالبہ کیا جارہا ہے کہ آپ بس کتاب لا کر ہمارے حوالے کردیں اسے پڑھنے اور سمجھنے کا کام ہم خود ہی کرلیں گے، آپ ہمیں اس کی تعلیم نہ دیں اور نہ ہی اس میں پائی جانے والی حکمت ہمیں سکھائیں۔

اس مطالبہ کے برعکس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ نبی کا کام صرف پیغام لانا ہی نہیں ہوتا بلکہ اس کی تلاوت کرنا، اس کی تعلیم اور حکمت سکھانا اور اس کے ذریعے لوگوں کے نفوس کی پاکیزگی کرنا بھی ہوتا ہے۔ اس بناءپر کتاب کے ساتھ ساتھ ایک معلّم ربّانی کی ضرورت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔

“وہی ہے جس نے امّی لوگوں میں انہی میں سے ایک عظیم رسول مبعوث کیا۔ وہ ان پر اس کی آیات کی تلاوت کرتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب کی اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے جبکہ اس سے پہلے وہ یقینًا کھلی کھلی گمراہی میں تھے۔” (الجمعة 62:3)

دنیاوی زندگی میں بھی یہ عام مشاہدہ کی بات ہے کہ میڈیکل، انجینئرنگ، قانون اور کمپیوٹر سائنس سمیت کسی بھی شعبہ کی محض کتابیں پڑھ لینے سے کوئی بھی انسان اس شعبہ اور پیشہ کا ماہر نہیں بن سکتا بلکہ اس کیلئے اسے باقاعدہ استاد سے علم سیکھنا پڑتا ہے جو نہ صرف ان کتابوں کے مشکل مقامات حل کرتا ہے بلکہ اپنے تجربہ سے اپنے شاگردوں کو مستفیذ کرتے ہوئے انہیں وہ باتیں بھی سکھاتا ہے جو کتابوں میں نہیں لکھی ہوتیں اور محض تجربہ اور عمیق مشاہدہ سے ہی حاصل کی جاسکتی ہیں۔ اگر دنیاوی علوم کا یہ حال ہے تو آسمانی اور روحانی علوم استاد کے بغیر کیسے حاصل کئے جاسکتے ہیں۔

کیا کامل شریعت نبوّت کے اختتام کی دلیل ہے؟

علماءکی طرف سے ایک غلط فہمی یہ پھیلائی جاتی ہے کہ اب چونکہ اسلامی شریعت مکمل ہوچکی ہے اور قرآن آخری کتاب ہے اس لئے اب کسی نبی کے آنے کی کوئی ضرورت اور گنجائش نہیں۔ گویا کہ نبوّت اور شریعت لازم و ملزوم ہیں اور اب چونکہ شریعت کامل ہے لہٰذا کسی نبی کے آنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ حالانکہ کامل شریعت نبوت کے آنے میں کوئی روک نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے تورات کی صورت میں بنی اسرائیل کو اُن کے لئے ایک کامل شریعت دی تھی جس کے باوجود اُن میں بے شمار انبیاءکرام تشریف لاتے رہے۔

“پھر موسیٰ کو بھی ہم نے کتاب دی جو ہر اس شخص کی ضرورت پر پوری اترتی تھی جو احسان سے کام لیتا ، اور ہر چیز کی تفصیل پر مشتمل تھی اور ہدایت تھی اور رحمت تھی تاکہ وہ اپنے ربّ کی لقاءپر ایمان لے آئیں”۔(الانعام 6:155)

کیا ہر نبی شریعت لے کر آتا ہے؟

کامل شریعت کی موجودگی میں کسی نئے نبی کے آنے کا انکار کرنے والے یہی علماءحضرت عیسیٰ علیہ السلام کے اسلامی شریعت کے ماتحت آنے کو تسلیم کرتے ہیں اور اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہر نبی کے لئے شریعت کا لانا لازمی نہیں۔ یہ غلط فہمی انہوں نے جان بوجھ کر مسلمانوں میں پھیلائی ہے تاکہ انہیں سیّدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دعویٰ کو تسلیم کرنے میں ایک روک پیدا ہوجائے۔ قرآن کریم واضح طور پر یہ بتاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کچھ انبیاءکو شریعت دی کچھ کو نہیں دی اور بہت سے انبیاءایسے بھی ہوئے ہیں جو پہلے سے نازل کردہ شریعتوں کے پابند تھے۔

یہ وہ رسول ہیں جن میں سے بعض کو ہم نے بعض (دوسروں) پر فضیلت دی۔ بعض ان میں سے وہ ہیں جن سے اللہ نے (روبرو) کلام کیا۔ اور ان میں سے بعض کو (بعض دوسروں سے) درجات میں بلند کیا۔ (البقرہ 2:254)یقینًا ہم نے تورات اتاری اس میں ہدایت بھی تھی اور نور بھی ۔ اس سے انبیاءجنہوں نے اپنے آپ کو (کلیةً اللہ کے) فرمانبردار بنادیا تھا یہود کیلئے فیصلہ کرتے تھے ۔ (المائدہ 5:45)

احادیث میں انگوٹھی اور مہر کیلئے لفظ ”خاتم“ کا استعمال

بخاری کتاب ا للباس میں رسول اللہ ﷺ کی انگوٹھیوں اور مہرکے بارے میں جو حدیثیں بیان کی گئی ہیں ان کے عربی متن میں انگوٹھی کیلئے لفظ خاتم لکھا گیا ہے۔

اُلبراءَ بِن عازب ؓ یقولُ نھانا النبی ﷺ عن خاتَم الذھب (بخاری کتاب اللباس)

براءبن عازب ؓ نے کہا کہ آنحضرت ﷺ نے ہمیں سونے کی انگوٹھی پہننے سے روکا۔

”آمین خَاتَمَ رَبِّ العَالَمِینَ عَلَی لِسَانِ عِبَادِہِ المؤمِنِینَ“ (ابن عدی فی الکامل ۔ طبرانی فی الدعا عن ابی ہریرةؓ۔ جامع الصغیر جزؤ اوّل صفحہ۔۸)

آمین رب العالمین کی طرف سے مومن بندوں کی زبان پر مہرہے۔

عن انس بن مالک ؓ اَنَّ نبی اللّٰہ ﷺ اراد ان یکتُبَ الٰی رھط ٍ او اُناس ٍ من اعاجم فقیل لہُ: انھم لا یَقبَلوُنَ کتٰبًا الا علیہ خاتَم، فاتخذَ نبیُ ﷺ خاتمًا مِن فضة نقشہُ محمد رسول اللّٰہ۔۔۔۔( بخاری، کتاب اللباس)

انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے عجم کے کچھ لوگوں (حکمرانوں) کو خط لکھنا چاہا تو آپ سے کہا گیا کہ وہ لوگ کوئی خط اس وقت تک قبول نہیں کرتے جب تک اس پر مہر نہ لگی ہو۔ چنانچہ آنحضور ﷺ نے چاندی کی ایک مہر بنوائی جس پر یہ نقش تھا۔” محمد رسول اللہ“

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کامسیلمہ اور ابن صیّاد سے مکالمہ

مدعیانِ نبوّت مسیلمہ اور ابن صیّاد نے جب نبی اکرم ﷺ سے پوچھا کہ کیا وہ انہیں خدا کا نبی مانتے ہیں تو نبی اکرم ﷺ نے یہ نہیں کہا کہ میں تو آخری نبی ہوں تم نبی کیسے ہوسکتے ہو۔ اس کی بجائے آپ نے فرمایا کہ میں تو اللہ کے تمام رسولوں پر ایمان رکھتا ہوں۔

اگر وہ زندہ رہتا تو نبی ہوتا:

نبی اکرم ﷺ نے اپنے صاحبزادہ ابراہیمؓ کی وفات پر فرمایا کہ اگر وہ زندہ رہتا تو نبی ہوتا۔ اگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہوتے تو یہ بات نہیں کہہ سکتے تھے۔