پاکستان کے اہم فرقے

احادیث نبویہ سے معلوم ہوتا ہے کہ امت محمدیہ پر ایک ایسا وقت آئے گا جبکہ یہ مختلف فرقوں میں بٹ جائے گی۔ چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ آنحضرتؐ نے فرمایا:۔

’’بنی اسرائیل بہتر فرقوں میں بٹ گئے تھے میری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی اور ایک فرقہ کے سوا باقی سب ناری ہوں گے ۔ صحابہ نے پوچھا یہ ناجی فرقہ کون سا ہے تو حضورؐ نے فرمایا جو میری اور میرے صحابہ کی سنت پر قائم ہوگا‘‘۔ (ترمذی کتاب الایمان باب افتراق ھذہ الامۃ)

اس حدیث کے عین مطابق امت فرقوں میں تقسیم ہو چکی ہے۔ بنیادی طور پر دو بڑے گروہ ہیں۔ ۱۔ اہل سنت والجماعت، ۲۔ شیعہ

اہل سنت والجماعت

اہل سنت والجماعت چاروں خلفاء راشدین کو برحق مانتے ہیں۔ ان کے دو بڑے گروہ ہیں۔ ا۔ مقلد، ب۔ غیر مقلد

مقلد

قرآن کریم اور سنت کو سمجھنے کے لئے بزرگان امت اور فقہاء کرام کی تقلید کو واجب قرار دیتے ہیں۔ مقلدین کے مشہور فقہی مسلک چار ہیں:

۱۔ حنفی ۲۔ شافعی ۳۔ مالکی ۴۔ حنبلی

سیدنا حضرت مسیح موعودؑ نے ائمہ کی متابعت کو پسند فرمایا ہے:۔

’’میرے خیال میں یہ چاروں مذہب اللہ تعالیٰ کا فضل ہیں۔ اور اسلام کے واسطے ایک چار دیواری‘‘۔(ملفوظات جلد اول۔ صفحہ۵۳۴)

حنفی

حضرت امام ابو حنیفہ نعمان بن ثابت (ولادت بمقام کوفہ ۸۰ھ وفات ۱۵۰ھ) کے پیروکار ہیں۔ پاک و ہند اور بعض دیگر ممالک میں زیادہ تر اسی مسلک کے مسلمان ہیں۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:۔

’’اگر حدیث میں کوئی مسئلہ نہ ملے اور نہ سنت میں اور نہ قرآن میں مل سکے تو اس صورت میں فقہ حنفی پر عمل کرلیں‘‘۔ (ریویو بر مباحثہ بٹالوی و چکڑالوی روحانی خزائن جلد۱۹۔ صفحہ۲۱۲)

پاکستان میں حنفیوں کے دو مشہور مکاتب فکر ہیں۔

۱۔ بریلوی ، ۲۔ دیوبندی

بریلوی

مولوی احمد رضا خان صاحب بریلوی (۱۴ جون ۱۸۵۶۔۲۸ اکتوبر۱۹۲۱) اس فرقہ کے بانی تصور کئے جاتے ہیں جو کہ قصبہ بریلی (بھارت) میں پیدا ہوئے۔ احمد رضا خان صاحب کو ان کے مرید حضور پرنُور، عظیم البرکت، امام اہلسنت، مجدد مأۃ حاضرہ وغیرہ کے لقب سے یاد کرتے ہیں۔ فاتحہ خوانی، چہلم، گیارہویں، عرس، سجدۂ تعظیمی، تصور شیخ، مجالس میلاد النبی میں آنحضور کو حاضر ناظر جان کر کھڑے ہوکر درود پڑھنے کا ان میں خوب رواج ہے۔ اکثر سجادہ نشین اور گدی نشین اسی مسلک کے ہیں۔

عقائد:۔ ۱۔ آنحضور ﷺ نور ہیں۔ آپ کا سایہ نہیں تھا۔ خدا نے اپنے نور کا ایک حصہ کاٹ کر آپ کو بنادیا۔ جبکہ دیوبندی اور اہل حدیث بشریت پر زور دیتے ہیں۔

امر واقعہ یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نورانی بشر تھے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ’’ تو کہہ کہ میں صرف تمہاری طرح کا ایک بشر ہوں (فرق صرف یہ ہے) کہ میری طرف وحی نازل کی جاتی ہے‘‘۔(الکہف:۱۱۱)

پس بحیثیت محمد بن عبد اللہ آپؐ بشر تھے تو بحیثیت محمد رسول اللہؐ نور تھے۔ حضرت بانی جماعت احمدیہ فرماتے ہیں:۔

؂ نور لائے آسمان سے خود بھی وہ اک نور تھے

قوم وحشی میں اگر پیدا ہوئے کیا جائے عار

۲۔ بریلوی حضرات کے نزدیک آنحضرت ﷺ غیب کا علم رکھتے تھے۔ قرآن کریم اس کی تردید فرماتا ہے۔ فرمایا:

’’اگر میں غیب کا واقف ہوتا تو بھلائیوں میں سے اکثر اپنے لئے جمع کرلیتا اور مجھے کبھی کوئی تکلیف نہ پہنچتی‘‘۔ (الاعراف:۱۸۹)

آپ کو غیب کا علم نہ تھا سوائے اس غیب کے جس کی اللہ تعالیٰ آپ کو اطلاع کردے۔ اگر آپ کو ہر قسم کا علم غیب ہوتا تو طائف کی وادی میں تکالیف سے اپنے آپ کو بچا لیتے۔ حضرت عائشہؓ پر بہتان کی فوراًتردید فرمادیتے۔ غزوہ احد میں نقصان نہ پہنچتا۔۷۰ حفاظ شہید نہ ہوتے۔ صحابہ کے وفود جاسوسی کے لئے روانہ نہ کرنے پڑتے۔

۳۔ حضورؐ کے نام پر انگوٹھے چوم کر آنکھوں کو لگاتے ہیں۔

۴۔ اذان کے ساتھ صلوۃ و سلام کا ورد بآواز بلند کرتے ہیں۔

۵۔ امام کے پیچھے فاتحہ پڑھنا گناہ سمجھتے ہیں۔ آمین بالجہر کہنا ناجائز قرار دیتے ہیں۔ تراویح ۲۰ رکعت ادا کرتے ہیں۔

بریلوی سیاسی تنظیمیں

(i)۔ جمیعت علماء پاکستان (نورانی)۔ (ii)۔ انجمن حزب الاحناف (iii)۔ جمیعت المشائخ۔ (vi)۔ عوامی تحریک کے بانی ڈاکٹر طاہر القادری بھی بریلوی مسلک رکھتے ہیں۔

دیوبندی

حنفیوں کادوسرا بڑا گروہ دارالعلوم دیوبند کی طرف منسوب ہوتا ہے۔ اس مدرسہ کے بانی مولانا محمد قاسم نانوتوی (۱۸۳۲ء تا ۱۸۸۰ء) تھے۔ ان کے بعد علامہ رشید احمد گنگوہی مدرسہ کے سرپرست اور مفتی بنے۔ ان کے فتوے ’’فتاوٰی رشیدیہ‘‘ کے نام سے شائع ہو چکے ہیں۔ ان کی وفات ۱۹۰۵ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے مباہلہ کے نتیجہ میں ہوئی۔ انہیں ’خاتم الاولیاء والمحدثین‘ اور ’بانیٔ اسلام کا ثانی‘ کا خطاب دیا گیا۔ ان کے بعد مولوی اشرف علی تھانوی، مولوی محمود الحسن، مولوی بشیراحمد عثمانی شیخ الاسلام ، مفتی کفایت اللہ اور مولوی سید حسین احمد مدنی وغیرہ نے دیوبند مسلک کی بہت خدمت کی۔

دیوبندی احباب فاتحہ خلف الامام کو جائز سمجھتے ہیں واجب نہیں مانتے آنحضرت ؐ کو بشر اور معراج جسمانی مانتے ہیں اور رسوم اور بدعات سے متنفر ہیں

مولوی اشرف علی تھانوی کی مجلس میں احمدیوں کے بارے میں کسی شخص نے کہا ’’حضرت ان لوگوں کا دین بھی کوئی دین ہے، نہ خدا کو مانیں نہ رسول کو‘‘ حضرت نے معاً لہجہ بدل کر ارشاد فرمایاکہ ’’یہ زیادتی ہے، توحید میں ہمارا ان کا کوئی اختلاف نہیں، اختلاف رسالت میں ہے۔ اور اس کے بھی صرف ایک باب میں یعنی عقیدہ ختم رسالت میں۔ بات کو بات کی جگہ پر رکھنا چاہئے‘‘۔ (سچی باتیں از عبد الماجد دریابادی۔ صفحہ۲۱۳۔ نفیس اکیڈمی۔ اسٹریچن روڈ کراچی نمبر۱)

مگر علامہ نانوتوی صاحب کے بیان سے تو یہ فرق بھی کالعدم ہو جاتا ہے۔مولوی قاسم نانوتوی صاحب لکھتے ہیں:۔

’’اگر بالفرض بعد زمانہ نبوی بھی کوئی نبی پیدا ہو تو پھر بھی خاتمیت محمدی میں کچھ فرق نہیں آئے گا‘‘(تحذیر الناس صفحہ۲۸۔ مطبع مجتبائی دہلی)

مشہور دیوبندی عالم علامہ عبید اللہ سندھی اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں:۔

’’یہ جو حیات عیسیٰ لوگوں میں مشہور ہے یہ یہودی کہانی نیز صابی من گھڑت کہانی ہے۔۔۔۔ قرآن میں ایسی کوئی آیت نہیں جو اس بات پر دلالت کرتی ہو کہ عیسیٰ نہیں مرا‘‘۔ (الہام الرحمان فی تفسیر القرآن۔ صفحہ۲۴۰)

تبلیغی جماعت، مجلس احرار، مجلس تحفظ ختم نبوت، کے اکابرین بھی دیوبندی مسلک سے تعلق رکھتے ہیں۔

غیر مقلد

ان کے دو بڑے گروہ ہیں،i۔ اہل قرآنii۔ اہل حدیث

اہل قرآن

انہیں مخالفین چکڑالوی اورپرویزی بھی کہتے ہیں۔ ان کے ایک عالم مولوی عبد اللہ چکڑالوی کا مناظرہ اہل حدیث مولوی محمد حسین بٹالوی سے ہوا تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتاب ’’ریویو بر مباحثہ بٹالوی و چکڑالوی‘‘ میں فریقین کی انتہا پسندی کا ذکر کر کے اصل حقیقت کو واضح فرمایا ہے۔ اس فرقہ میں دوسرے مشہور عالم دین غلام احمد پرویز ہیں جنہوں نے دیگر کئی کتب کے علاوہ تفسیر قرآن بھی لکھی ہے۔اہل قرآن احادیث کے منکر ہیں اور حدیث کے کسی حکم کو نہیں مانتے۔ حتیٰ کہ نماز کی پابندی بھی ضروری نہیں سمجھتے۔بقول ان کے نماز کا قرآن کریم میں معین ذکر نہیں۔

اہل حدیث

احادیث کی پابندی میں غلو کرتے ہوئے اسے قرآن پر قاضی قرار دیتے ہیں۔

عقائد: چاروں خلفاء کو برحق مانتے ہیں۔ ائمہ کا احترام بھی کرتے ہیں مگر ائمہ کی تقلید ذاتی و شخصی کے قائل نہیں۔ رسوم و بدعات سے دور ہیں۔ آمین بالجہر، رفع یدین، آٹھ رکعات تراویح، قرأت خلف الامام اور خطبہ جمعہ میں وعظ وغیرہ ان کے مخصوص عقائد ہیں۔ نواب محمد صدیق حسن خان صاحب، مولوی نذیر حسین صاحب دہلوی، مولوی محمد حسین بٹالوی، مولوی ثناء اللہ امرتسری اور مولوی ابراہیم سیالکوٹی قابل ذکر علماء ہیں۔

مولوی ثناء اللہ امرتسری نے جماعت احمدیہ کے مؤقف کی تائید کرتے ہوئے اپنی تفسیر ثنائی میں لکھا:۔

’’نظام عالم میں جہاں اور قوانین خداوندی ہیں یہ بھی ہے کہ کاذب مدعی نبوت کی ترقی نہیں ہوا کرتی بلکہ وہ جان سے مارا جاتا ہے۔ ۔۔۔ دعوی نبوت کاذبہ مثل زہر کے ہے جو کوئی زہر کھائے گا ہلاک ہوگا‘‘۔ (مقدمہ تفسیر ثنائی جز اول صفحہ۱۷۔ مطبع چشمہ نور امرتسر)

اہل حدیث میں سے ایک گروہ جماعت المسلمین کہلاتا ہے اس کے بانی علامہ مسعود احمد عثمانی ہیں۔ اسی طرح جہادی تنظیم ’’جماعۃ الدعوۃ‘‘ جس کا مرکز مرید کے میں ہے کا تعلق بھی اہل حدیث سے ہے۔

جماعت اسلامی

۲۶ اگست ۱۹۴۱ء کو اسلامیہ پارک چوبرجی لاہور میں بانی جماعت سید ابوالاعلی مودودی (۱۹۰۳ء تا ۱۹۷۹ء) کی رہائش گاہ پر اس جماعت کی بنیاد رکھی گئی۔مودودی کا نظریہ تھا کہ اصلاح معاشرہ کے لئے اقتدار کا حصول ضروری ہے۔ آپ لکھتے ہیں:

’’جو کوئی حقیقت میں خدا کی زمین سے فتنہ و فساد کو مٹانا چاہتا ہو اور واقعی یہ چاہتا ہو کہ خلق خدا کی اصلاح ہو تو اس کے لئے محض واعظ اور ناصح بن کر کام کرنا فضول ہے۔ اسے اٹھنا چاہئے اور غلط اصول کی حکومت کا خاتمہ کر کے غلط کار لوگوں کے ہاتھ سے اقتدار چھین کر صحیح اصول اور صحیح طریقے کی حکومت قائم کرنی چاہئے‘‘۔ (حقیقت جہاد از سید ابوالاعلیٰ۔صفحہ۷۔ مطبوعہ ۱۹۶۴ لاہور)

سید ابوالاعلیٰ مودودی صاحب ناقدانہ ذہن کے مالک تھے آپ کے نزدیک اسلام کے پھیلانے میں تلوار کا بڑا دخل تھا۔ لکھتے ہیں:

’’لیکن جب وعظ و تلقین کی ناکامی کے بعد داعی اسلام نے ہاتھ میں تلوار لی ۔۔۔ تو دلوں سے رفتہ رفتہ بدی و شرارت کا زنگ چھوٹنے لگا ۔۔۔ روحوں کی کثافتیں دور ہو گئیں۔ ۔۔۔ ایک صدی کے اندر چوتھائی دنیا مسلمان ہو گئی تو اس کی وجہ بھی یہی تھی کہ اسلام کی تلوار نے ان پردوں کو چاک کردیا جو دلوں پر پڑے ہوئے تھے‘‘۔ (الجہاد فی الاسلام صفحہ۲۱۶۔ ادارہ ترجمان القرآن لمیٹڈ اردو بازار لاہور)

امہات المومنین حضرت عائشہ اور حضرت حفصہ رضی اللہ عنہما کو تنقید کا نشانہ بنایا اور لکھا کہ:

’’یہ نبی ﷺ کے مقابلہ میں کچھ زیادہ جری ہو گئیں تھیں۔ اور حضور سے زبان درازی کرنے لگی تھیں‘‘ (ہفتہ وار ایشیا لاہور ۱۹ نومبر ۱۹۶۷ء۔جلد۱۶ شمارہ۴۵۔ صفحہ۱۷)

مودودی صاحب کے نزدیک حضرت ابوبکرؓ سے ایسی حرکت سرزد ہوئی جو اسلام کی روح کے خلاف ہے۔ (ترجمان القرآن جلد۱۲۔ نمبر۲۔ صفحہ۴)

حضرت عمرؓ کے بارہ میں لکھا:۔ ’’خلیفہ رسول جن کے قلب سے وہ جذبہ اکابرین پرستی جو زمانہ جاہلیت کی پیداوار تھا محو نہ ہو سکا‘‘۔ (ترجمان القرآن جلد۱۷۔ نمبر۴۔ صفحہ۲۸۸)

ان کے نزدیک حضرت عثمانؓ نے ’’اپنے رشتہ داروں کو بڑے بڑے اہم عہدے عطا کئے اور ان کے ساتھ دوسری رعایات کیں‘‘۔ (خلافت و ملوکیت صفحہ۱۰۶۔ از ابوا لاعلیٰ مودودی۔ادارہ ترجمان القرآن اچھرہ لاہور)

حضرت علیؓ کے بارہ میں لکھا کہ: ’’قاتلین عثمان۔۔۔ ان کے ہاں تقرب حاصل کرتے چلے گئے‘‘۔ (خلافت و ملوکیت صفحہ۱۰۶)

مولانا مودودی صاحب قیام پاکستان کے خلاف تھے۔ چنانچہ لکھا کہ:۔

’’پس جو لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ مسلم اکثریت کے علاقے ہندو اکثریت کے تسلط سے آزاد ہو جائیں۔۔۔ اس کے نتیجہ میں جو کچھ حاصل ہوگا وہ صرف مسلمانوں کی کافرانہ حکومت ہوگی‘‘ (سیاسی کشمکش حصہ سوم صفحہ۱۳۲)

وفات مسیح کے بارہ میں لکھتے ہیں:۔

’’قرآن کی روح سے زیادہ مطابقت اگر کوئی طرز عمل رکھتا ہے تو وہ صرف یہی ہے کہ رفع جسمانی کی تصریح سے بھی اجتناب کیا جائے اور موت کی تصریح سے بھی ۔۔۔ اس کی کیفیت کو اسی طرح مجمل چھوڑ دیا جائے جس طرح خود اللہ تعالیٰ نے مجمل چھوڑ دیا ہے‘‘۔ (تفہیم القرآن جلد اول صفحہ۴۲۱۔ سورۃ النساء زیر آیت ۱۵۹)

شیعہ

شیعہ حضرات کا بنیادی عقیدہ خلافت علی بلافصل ہے۔ ان کے متعدد فرقے ہیں مگر پاکستان میں سب سے مشہور فرقہ اثنا عشریہ ہے ان کو ’’امامیہ‘‘ بھی کہتے ہیں یہ بارہ اماموں کو مانتے ہیں۔ حضرت مسیح موعودؑ کا ارشاد ہے کہ ’’ائمہ اثنا عشر نہایت درجہ کے مقدس اور راست باز اور ان لوگوں میں سے تھے جن پر کشف صحیح کے دروازے کھولے جاتے ہیں‘‘ (ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد۳۔ صفحہ۳۴۴)

شیعہ تفاسیر:۔ ۱۔ تفسیر صافی ۲۔تفسیر قمی ۳۔مجمع البیان ۴۔ منہج الصادقین ۵۔ عمدۃ البیان ۶۔ تفسیر امام حسن عسکری

کتب احادیث: (۱) کافی، اس کے تین حصے ہیں (i)اصول کافی (ii) فروع کافی (iii) کتاب الروضہ،(۲)۔ تہذیب الاحکام (۳)۔ فقہ من لایحضرہ الفقیہً (۴) الاستبصار (۵)۔ نہج البلاغہ (ملفوظات، مکتوبات حضرت علیؓ)

عقائد:۔ i۔ اصول دین:۔ توحید، عدل، نبوت، امامت، قیامت۔

ii۔ فروع دین:۔ نماز، روزہ، زکوٰۃ، خمس، حج، جہاد، امر بالمعروف، نہی عن المنکر، تولا (اہل بیت سے محبت)، تبراء (دشمنِ اہل بیت سے بیزاری)

حضرت علیؓ کے علاوہ دیگر خلفاء راشدین کی خلافت کا ثبوت

۱۔ ’’اللہ نے تم میں سے ایمان والوں اور مناسب حال عمل کرنیوالوں سے وعدہ کیا ہے کہ وہ ان کو زمین میں خلیفہ بنادے گا جس طرح ان سے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنایا تھا۔ اور جو دین ان کے لئے پسند کیا ہے وہ ان کے لئے اسے مضبوطی سے قائم کر دے گا۔ اور ان کے خوف کی حالت کو امن کی حالت میں تبدیل کر دے گا۔ وہ میری عبادت کریں گے اور کسی چیز کو میرا شریک نہیں بنائیں گے۔ اور جو لوگ اس کے بعد بھی انکار کریں گے وہ نافرمانوں میں سے قرار دئے جائیں گے‘‘۔ (النور:۵۶)

قرآن مجید کی اس آیت (استخلاف) میں سلسلہ خلفاء کا ذکر ہے نہ کسی صرف ایک خلیفہ کا جو حضرت محمد ﷺ کے بعد حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ کے ذریعہ قائم ہوا۔ اور پہلے تینوں خلفاء پر وہ تمام نشانیاں جو خلیفہ برحق کی بیان کی گئی ہیں پوری ہوئیں۔

آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد جھوٹے مدعیان نبوت مرتدین اور منکرین زکوٰۃ کی وجہ سے دین اسلام خطرہ میں پڑ گیا اور قرآن کریم غیر مدون تھا متواتر جنگوں میں صحابہ اور حفاظ کی اکثریت کی شہادت کے سبب قرآن کے ضائع ہونے کا خطرہ تھا۔ حضرت ابوبکر نے تائید الٰہی سے مرتدین، رومیوں اور کاذب نبیوں کو شکست دی۔ اور جمع قرآن کمیٹی کے ذریعہ ایک جلد میں جمع کروا کر ہمیشہ کے لئے محفوظ کردیا۔

حضرت عمرؓ کے زمانہ میں رومیوں و ایرانیوں کو شکست ہوئی، بھاری اکثریت نے اسلام قبول کیا۔ حضرت عثمانؓ کے زمانہ میں باقی ماندہ علاقے فتح ہوئے، قرآن کی مختلف قرأتیں ختم کر کے قریش کی ایک ہی قرأت پر لکھا اور مختلف ملکوں میں ارسال کیاگیا۔ پس تینوں خلفاء کے ذریعہ دین مضبوط ہوا۔ قرآن کریم کی تدوین و اشاعت ہوئی۔ خوف امن سے بدل گیا۔ اندرونی و بیرونی دشمن سے ڈر کر انہوں نے شرک نہیں کیا۔ اس لئے تینوں خلفاء برحق تھے۔

۲۔ ’’جب اللہ کی مدد اور کامل غلبہ آئے گا اور تو اس بات کے آثار دیکھ لے گا کہ اللہ کے دین میں لوگ فوج در فوج داخل ہوں گے‘‘۔(النصر:۲،۳) یہاں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کو یہ بشارت دی ہے کہ دین اسلام میں لوگ فوج در فوج داخل ہوں گے۔ اگر تین چار آدمیوں کے علاوہ تمام ایمان لانے والے منافق تھے تو پھر وہ کون سی فوجیں تھیں جو دین اسلام میں داخل ہوئیں۔ حقیقت یہ ہے کہ لاکھوں افراد آنحضرت ؐ پر صدق دل سے ایمان لائے اور انہی لاکھوں افراد نے حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ اور حضرت عثمان کی بیعت کی۔ ان خلفاء کے زمانہ میں بھی لوگ فوج در فوج اسلام میں داخل ہوئے اور انہیں خلفاء کو برحق تسلیم کیا۔ پس اگر خلفاء ثلاثہ کا انکار کیا جائے تو آنحضرت ﷺ کی رسالت کا بھی انکار کرنا پڑے گا۔

شیعہ کتب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آمد سے متعلق حوالہ جات

۱۔ وَ اٰخَرِیْنَ مِنْھُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْابِھِمْ کی تفسیر میں حدیث آنحضرتؐ نے سلمان فارسیؓ کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر فرمایا جب ایمان ثریا ستارے پر چلا جائے گا تو مسلمان کی قوم میں سے بنوفارس اسے واپس لائیں گے۔ (تفسیر مجمع البیان از علامہ طبری زیر آیت سورۃ جمعہ و اخرین منھم)

۲۔ حضرت امام مہدی علیہ السلام کی تصدیق کے دو عظیم نشان رمضان کے مہینہ میں چاند اور سورج کو گرہن لگے گا۔ (فروع الکافی جلد۳ کتاب الروضہ صفحہ۱۰۰،۱۰۱۔ و بحار الانوار جلد۵۳ صفحہ۲۱۴)

۳۔ امام قائم ۔۔۔ جس کے لئے زمین سمیٹ دی جائے گی۔۔۔۔ بطور ایک منادی آسمان سے صدا کرے گا جس کو اللہ تعالیٰ تمام اہل ارض کو سنا دے گا۔ (بحار الانوار جلد۵۲۔ صفحہ۳۲۱،۳۲۲۔ از علامہ محمد باقر مجلسی۔بیروت)

۴۔ حضرت امام جعفرؓ صادق فرماتے ہیں کہ مہدی کو امام قائم اس لئے کہتے ہیں کہ وہ مرنے کے بعد کھڑا ہوگا ۔۔۔۔ (بحار الانوار جلد۵۱۔ صفحہ۳۰۔ بیروت)

۵۔ امام مہدی اپنے آپ کو آدم، موسیٰ، عیسیٰ اور محمد وغیرہ قرار دے گا۔ (بحار الانوار جلد۵۳۔ صفحہ۹۔ مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت لبنان)

۶۔ امام ابو عبد اللہ جعفر صادق نے فرمایا کہ امام مہدی کے ساتھ ۳۱۳ اصحاب ہوں گے ۔ ان کے علاقے مختلف مگر مقصد ایک ہوگا۔ (بحار الانوار جلد۵۳۔ صفحہ۳۱۰،۳۱۱)

۷۔ امام جعفرؓ نے فرمایا ’’تم میں سے جو شخص متقی بنے وہ اہل بیت میں سے ہے‘‘۔ (تفسیر الصافی از علامہ فیض کاشانی جلد۱۔ صفحہ۸۹۰۔ تہران)

۸۔ جس نے اپنے وقت کے امام کو نہ پہچانا وہ جاہلیت کی موت مرے گا۔ (بحار الانوار جلد۵۱۔ صفحہ۱۶۰۔ مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت لبنان)

۹۔ ’’انا خاتم الانبیاء و انت یا علی خاتم الاولیائ‘‘۔ (تفسیر صافی از ملا محسن فیض کاشانی۔ الاحزاب آیت خاتم النبیین)

میں خاتم الانبیاء اور اے علی تو خاتم الاولیاء ہے۔

ذکری فرقہ

یہ لوگ اللہ کے ذکر پر زیادہ زور دیتے ہیں بلکہ اس کو نماز کاقائم مقام سمجھتے ہیں۔ اس فرقہ کے بانی سید محمد جونپوری ۱۴۴۳ء میں جونپور (انڈیا) میں پیدا ہوئے ان کو یہ لوگ امام مہدی مانتے ہیں۔ علماء کی مخالفت پر آپ سندھ کے علاقہ ٹھٹھہ، مکران، اور خراسان گئے۔ جہاں ان کے پیروکار اب بھی آباد ہیں۔ نیز گوادر اور تربت اسی طرح کراچی اور اندرون سندھ میں بعض مقامات پر ان کی آبادیاں ہیں۔ بلوچوں کے غیر تعلیم یافتہ اور پسماندگان لوگ زیادہ تر اس فرقے کے پیروکار ہیں۔