بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِِ
Al Islam
The Official Website of the Ahmadiyya Muslim Community
Muslims who believe in the Messiah,
Hazrat Mirza Ghulam Ahmad Qadiani
(as)
Muslims who believe in the Messiah, Hazrat Mirza Ghulam Ahmad Qadiani (as), Love for All, Hatred for None.
Al Islam
The Official Website of the Ahmadiyya Muslim Community.
Home
Islam
Ahmadiyya
Holy Quran
Holy Prophet
Promised Messiah
Khilafat
Library
Books
Topics
Friday Sermon
Multimedia
اردو
>
الاسلام اردو لائبریری
>
پڑھیے
>
PDF: /urdu/pdf/Kalam-e-Mahmud-with-Glossary.pdf
زَبان:
Loading...
اجزا
108
137
سرورق
پیشگوئی بابت حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد خلیفۃالمسیح الثانی
پیش لفظ
عرضِ حال
فہرست
اپنے کرم سے بخش دے میرے خدا مجھے
پڑھ لیا قرآن عبدالحئی نے
میاں اسحاق کی شادی ہوئی ہے آج اے لوگو
یادِ ایّام کے تھے ہند پہ اندھیر کے سال
مثلِ حوش اڑ جائیں گے اس زلزلہ آنے کے دن
وہ قصیدہ میں کروں وصفِ مسیحا میں رقم
غصّہ میں بھرا ہُوا خدا ہے
جدھر دیکھو ابرِ گنہ چھا رہا ہے
گناہ گاروں کے دردِ دل کی بس اک قرآن ہی دوا ہے
دوستو ہرگز نہیں یہ ناچ اور گانے کے دن
ہر چار سوُ ہے شُہرہ ہوا قادیان کا
اے مولویو!کچھ تو کرو خوف خدا کا
یوں الگ گوشہ ویراں میں جو چھوڑا ہم کو
کیوں ہو رہا ہے خرّم و خوشحال یہ جہاں
نہیں کچھ قوت رہی ہے جسم و جاں میں
نِشان ساتھ ہیں اتنے کہ کچھ شمار نہیں
ظہورِ مھدئ آخر زماں ہے
محمؐد پر ہماری جاں فدا ہے
بابِ رحمت خود بخود پھر تم پہ وا ہو جائے گا
یا اِلٰہی رحم کر اپنا کہ میں بیمار ہوں
اے مِرے مولٰی مِرے مالک مِری جاں کی سِپر
کوئی گیسو مِرے دِل سے پریشاں ہو نہیں سکتا
وہ خواب ہی میں گر نظر آتے تو اچھّا تھا
میں نے جس دن سے ہے پیارے تِرا چہرہ دیکھا
کیا جانِے کہ دل کو مِرے آج کیا ہوا
قصّئہ عشق ذرا ہوش میں آلُوں تو کہوں
وُہ چہرہ ہر روز ہیں دکھاتے رقیب کوتو چُھپا چُھپا کر
آٶ محمود ذرا حال پریشاں کر دیں
مجھ سا نا اس جہاں میں کوئی دِل فگار ہو
ہائے وہ دِل کہ جِسے طرزِ وفا یاد نہیں
وہ نِکاتِ معرفت بتلائے کون
مئے عشقِ خدا میں سخت ہی مخمور رہتا ہوں
جگہ دیتے ہیں جب ہم اِنکو اپنے سینہ و دِل میں
یہیں سے اگلا جہاں بھی دِکھا دیا مجھ کو
دِل پھٹا جاتا ہے مثلِ ماہئ بے آب کیوں
وہ قیدِ نفسِ دنی سے مجھے چُھڑائیں گے کب
درد ہے دل میں مِرے یا خار ہے
خدا سے چاہئے ہے لو لگانی
کیا سبب میں ہو گیا ہوں اس طرح زارو نِزار
دوڑے جاتے ہیں باُمّیدِ تمنّا سوِئے باب
محمؔود بحالِ زار کیوں ہو
نہ مئے رہے نہ رہے خُم نہ یہ سبُو باقی
ملّتِ احمؐد کے ہمدردوں میں غمخواروں میں ہوں
محمؐد عربی کی ہو آل میں برکت
آہ دُنیا پہ کیا پڑی اُفتاد
ہے دستِ قبلہ نُما لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ
غم اپنے دوستوں کا بھی کھانا پڑے ہمیں
مِری تقدیر جب مجھکو مصیبت میں پھنساتی ہے
تِری محبّت میں میرے پیارے ہر اک مصیبت اُٹھائیں گے ہم
نَو نہالانِ جماعت مُجھے کچھ کہنا ہے
یاد جس دل میں ہو اُسکی وہ پریشان نہ ہو
آریوں کو مِری جانب سے سنائے کوئی
ساغرِ حسن توپُر ہے کوئی مَے خوار بھی ہو
مُجھ سے ملنے میں اُنہیں عُزر نہیں ہے کوئی
میں تِرا در چھوڑ کر جاٶں کہاں
طُور پہ جلوہ کُناں ہے وہ ذرا دیکھو تو
حقیقی عشق گر ہوتا تو سچّی جُستجُو ہوتی
مَلَک بھی رشک ہیں کرتے وہ خُوش نصیب ہوں میں
میرے مولٰی مری بگڑی کے بنانے والے
پیٹھ میدانِ وفا میں نہ دِکھائے کوئی
پردہ زُلفِ دو تا رُخ سے ہٹا لے پیارے
کیوں غلامی کروں شیطاں کی خُدا کا ہو کر
ہے رضائے ذاتِ باری اب رَضائے قادیاں
صیدو شکارِ غم ہے تُو مُسلم خستہ جان کیوں
اہلِ پیغام ! یہ معلوم ہوا ہے مُجھکو
نہیں مُمکن کہ میں ذندہ رہوں تُم سے جُدا ہو کر
مریم نے کِیا ہے ختم قرآں
دِل مِرا بیقرار رہتا ہے
یارو! مسیحِ وقت کہ تھی جن کی اِنتظار
کون سا دِل ہے جو شرمندۂ احسان نہ ہو
ہوتا تھا کبھی میں بھی کسی آنکھ کا تارا
پُوچھو جُو اُن سے زُلف کے دیوانے کیا ہُوئے
ہم اُنہیں دیکھ کر حیران ہوئے جاتے ہیں
بخش دو رحم کرو شِکوے گِلے جانے دو
تُو وہ قادر ہے کہ تیرا کوئی ہَمسر ہی نہیں
مِرے ہمراز بیشک دِل مَحبّت کا ہے پیمانہ
پہنچائیں در پہ یار کے وہ بال و پر کہاں
سعئ پیہم میری ناکام ہوئی جاتی ہے
یہ خاکسار نابکار دِلبرا وُہی تو ہے
ترے در پر ہی میری جاں نکلے
ہے زمیں پہ سر مرا لیکن وہی مَسجُود ہے
میں تمہیں جانے نہ دوں گا
اِک عمر گُزر گئی ہے روتے روتے
میں اپنے پیاروں کی نسبت
خُدایا اے مرے پیارے خُدایا
مِرا دِل ہو گیا خوشیوں سے معمُور
چَھلک رہا ہے مِرے غم کا آج پیمانہ
کر رحم اے رحیم مِرے حالِ زار پر
آہ پھر موسمِ بہار آیا
اے چاند تجھ میں نُورِ خدا ہے چمک رہا
دُشمن کو ظلم کی برچھی سے تُم سینہ و دل بَرمانے دو
پڑھ چکے اَحرار بس اپنی کِتابِ ذندگی
میری نہیں زُبان جو اُسکی زُباں نہیں
موت اسکی رَہ میں گر تمہیں منظور ہی نہیں
ذرا دِل تھام لو اپنا کہ اِک دیوانہ آتا ہے
کل دوپہر کو ہم جب
نہیں کوئی بھی تو مناسبت رہ شیخ و طرزِ ایاز میں
ہم کس کی محبّت میں دوڑے چلے آئے تھے
بادۂ عرفاں پِِلا دے ہاں پِلا دے آج تُو
یوں اندھیری رات میں اے چاند تُو چمکا نہ کر
یہ نُور کے شعلے اٹھتے ہیں میرا ہی دِل گرمانے کو
اِک دن جو آہ دِل سے ہمارے نکل گئی
مِری رات دِن بس یہی اِک صدا ہے
زخمِ دِل جو ہو چکا تھا مدّتوں سےمندمِل
اِیمان مُُجھ کو دیدے عِرفان مُجھ کو دیدے
گھر سے میرے وہ گُلعَزار گیا
با دلِ رِیش و حالِ زار گیا
اے میری جاں ہم بندے ہیں اِک آقا کے آذاد نہیں
وہ میرے دِل کو چٹکیوں میں مَل مَل کریوں فرماتے ہیں
اَبکی عَلَیْکِ کُلَّ یَوْمِِ وَّ لَیْلَۃِِ
وُہ یار کیا جو یار کو دِل سے اُتار دے
کبھی حضور میں اپنے جو بار دیتے ہیں
ذرّہ ذرّہ میں نشاں ملتا ہے اِس دِلدار کا
دستِ کوتاہ کو پھر درازی بخشی
اے حُسن کے جادو مُجھے دیوانہ بنا دے
َکَمْ نوَّرَ وَجْہَ النَّبِیِ صَحَابُہ
تعریف کے قابِل ہیں یارب تِرے دیوانے
معصّیُت و گناہ سے دِل میرا داغدار تھا
ہم نشیں تجھ کو ہے اِک پُر امن منزِل کی تلاش
اللّٰہ کے پیاروں کو تم کیسے بُرا سمجھے
دردِ نہیں کا حال کسی کو سُنائیں کیا
یَا رَازِقَ الثَّقَلَیْنِ اَیْنَ جَنَاکَ
شاخِ طوبٰی پہ آشیانہ بنا
بتھا نہ مسند پہ پاس اپنے نہ دے جگہ اپنی انجُمَنْ میں
نِگاہوں نے تِری مجھ پر کیا ایسا فَسوں ساقی
مُرادیں لُوٹ لیں دیوانگی نے
عشقُ وفا کی راہ دِکھایا کرے کوئی
مَردوں کی طرح باہر نِکلو اور نازو ادا کو رہنے دو
ہوا زمانہ کی جب بھی کبھی بِگڑتی ہے
ذِکرِ خدا پہ زور دے ظلمتِ دِل مٹائے جا
مسحور کر دیا مُجھے دیوانہ کر دیا
ہو چکا ہے اب ختم چکّر تِری تقدیر کا
چھوڑ کر چل دِیئے میدان کو دو ماتوں سے
آنکھوں میں وہ ہماری رہے اِبتِدا یہ ہے
عاشق تو وہ ہے جُو کہ کہے اور سنے تِری
وُہ گُلِ رعنا کبھی جو دِل میں مہماں ہو گیا
وُہ آئے سامنے منہ پر کوئی نقاب نہ تھا
دِل دے کے ہم نے اِن کی مَحبَّت کو پا لیا
کُھلے جو آنکھ تُو لوگ اُس کو خواب کہتے ہیں
آ آ کہ تِری راہ میں آنکھیں ہم بِچھائیں
اے بے یاروں کے یار نگاہِ لُطف غریب مُسلماں پر
عُقبٰی کو بُھلایا ہے تُو نے‘ تُو احمق ہے ہُشیار نہیں
حریمِ قُدس کے ساکن کو نام سے کیا کام
چاند چمکا ہے گال ہیں ایسے
جُو دِل پہ زخم لگے ہیں مُجھے دکھا تو سہی
نکل گئے جو تِرے دل سے خار کیسے ہیں
تم نَظَرْ آتے ہو ذرّہ میں غائِب بھی ہو تم
اے شاہِ مَعالی آ بھی جا
اِرادے غیر کے نا گُفْتَنی ہیں
زمیں کا بوجھ وہ سر پر اُٹھا ئے پھرتے ہیں
یہ کیسی ہے تقدیر جو مِٹتے نہیں مِٹتی
آنکھ گر مُشتاق ہے جلوہ بھی تو بیتاب ہے
قید کافی ہے فقط اس حُسنِ عالم گِیر کی
توبہ کی بیل چڑھنے لگی ہے منْڈھے پہ آج
سر پہ حاوی وُہ حماقَت ہے کہ جاتی ہی نہیں
ایک دِل شیشہ کی مانند ہوا کرتا ہے
جو کچھ بھی دیکھتے ہو فقظ اُس کا نُور ہے
اُس کی رَعْنائی مۃرے قلبِ حَزِیں سے پُوچھئے
جُونْہی دیکھا اُنہیں چَشمہ مَحبّت کا اُبل آیا
آوَ تمہیں بتائیں مَحبّت کے راز ہم
جب وہ بیٹھے ہوئے ہوں پاس مِرے
عاشقوں کا شوقِ قُربانی تو دیکھ
کیا آپ ہی کو نیزہ چبھونا نہیں آتا؟
لگ رہی ہے جہان بھر میں آگ
دُنیا میں یہ کیا فِتنہ اُٹھا ہے مِرے پیارے
کُفر کی طاقتوں کا توڑ ہیں ہم
وُہ دِل کو جوڑتا ہے تو ہیں دلفِگار ہم
اُلفت اُلفت کہتے ہیں پر دِل اُلفت سے خالی ہے
ارے مُسْلم طبیعت تیری کیسی لا اُبالی ہے
ہے مدّت سے شیطان کے ہاتھ آئی
دِلبر کے در پہ جیسے ہو جانا ہی چاہئے
ہے تاروں کی دُنیا بہت دُور ہم سے
آدم سے لے کر آج تک پیچھا تِرا چھوڑا نہیں
مِیں نے مانا مرے دلبر تِری تِصویر نہیں
مَر رہا ہے بُھوک کی شِدَتْ سے بے چارہ غریب
وُہ بھی ہیں کچھ جو کہ تیرے عِشق سے مخمُور ہیں
ہے عَمَل میں کامیابی مَقت میں ہے زِندگی
بڑھتی رہے خُدا کی مَحَبَّتْ خُدا کرے
دِید کی راہ بتائی تھی ہے تیرا اِحساں
کرو جان قُربان راہِ خدا میں
اے خُدا دِل کو مِرے مَزْرَعِ تقوِیٰ کر دیں
میرے آقا! پیش ہے یہ حاصلِ شام و سحر
ہوئی طَے آدَم و حوّا کی منزِل اُنْس و قُربَتْ سے
بَلا کی آگ برستی ہے آسماں سے آج
ایک دِل شیشہ کی مانِند ہوا کرتا ہے
آمد کا تیری پیارے ہو اِنتظار کب تک
جنابِ مولوی تشریف لائیں گے تو کیا ہو گا
خُدا کی رحمَتْ سے مِہرِ عَالم اُفُقْ کی جانب سے اُٹھ رہا ہے
قدموں میں اپنے آپ کو مَولا کے ڈال تُو
دل دے کے مُشتِ خاک کو دِلْدار ہو گئے
روتے روتے ہی کٹ گئیں راتیں
اُس کی چشمِ نیم وا کے مَیں بھی سر شاروں میں ہوں
یا فاتِحِ رُوحِ ناز ہو جا
گو بحرِ گنہ میں بے بس ہو کر
ہو فَضْل تیرا یارب یا کوئی اِبتلا ہو
نِکال دے مِرے دل سے خیال غیروں کا
پڑے سو رہے ہیں جگا دے ہمیں
عِشْقِ خُدا کی مَے سے بھرا جام لائے ہیں
ہے بھاگتی دُنیا مجھے دیوانہ سمجھ کر
لاکھ دوزخ سےبھی بَدْتَرْ ہے جدائی آپ کی
!اے محمّؐد! اے حبیبِ کِردْگار
روک مجھ میں اور تجھ میں پھرنہ کچھ باقی رہے
صُبح اپنی دانہ چیں ہے شام اپنی ملک گِیر
وُہ علم دے جو کتابوں سے بے نیاز کرے
گناہوں سے بھری دُنیا میں پیدا کر دیا مجھ کو
خَم ہو رہی ہے میرِی کمر جِسم چُور ہے
قطعات
الہامی قطعہ و اشعار
کلامِ محمود فرہنگ
قریبی لنکس