حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئیاں

3

بچو! اب تم ایک اور عظیم الشان نشان کی تفصیل سنو۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دل میں (دین حق)کی محبت کوٹ کوٹ کربھری ہوئی تھی۔ حضور کی خواہش تھی کہ یہ سچا مذہب اور خدا کا دین جلدسے جلد دنیا میں پھیل جائے اور اس مقصد کے حاصل کرنے کے لیے آپ نے ایک نہایت شاندار کتاب لکھی جس کانام “براہین احمدیہ”تھا۔ آپ نے اپنی اس کتاب میں اسلام کی سچائی کے لیے سینکڑوں ثبوت اور دلائل پیش کیے اور پھر یہ بھی کیا کہ دنیا کے تمام مذاہب کو چیلنج دیا کہ جو کوئی اس کتاب کا جواب لکھے گا اسے دس ہزار روپے انعام دئیے جائیں گے۔ اس زمانہ کے دس ہزار روپے آج کے دس لاکھ روپے سے بھی زیادہ تھے لیکن نہ کسی عیسائی کو ہمت ہوئی اور نہ کسی اور مذہب والے کو کہ وہ اس کا جواب لکھتا۔ اس کتاب سے آپ کا نام سارے ہندوستان میں مشہور ہوگیا۔

صوابی ضلع پشاور میں ایک ہندو آریہ پولیس کے محکمہ میں ملازم تھا اس کانام پنڈت لیکھرام تھا۔ یہ شخص اسلام کا سخت دشمن تھا اور بڑا بدزبان تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دے کربہت خوش ہوتا۔ اسلام کا مذاق اڑاتا۔ مسلمانوں کے خدا کو مکّار کہا کرتا۔

یہ شخص 1885ء میں قادیان آیا۔ لیکن اسے حضرت صاحب سے ملنے کی جرأت نہ ہوئی بس فضول خط وکتابت کے ذریعہ ہی باتیں بناتا رہا۔ حضرت صاحب کی بڑی خواہش ہوا کرتی تھی کہ لوگ آپ کے پاس آئیں اور اللہ تعالیٰ کے نشانات دیکھیں کہ کس طرح وہ آپ سے پیار کرتا ہے اور اسلام کی سچائی کے لیے کیسے کیسے نشانات دکھاتا ہے اور لیکھرام بھی اگر حضور کے پاس ٹھہرتا تو نشان دیکھتا مگر اس کا مقصد تو محض مذاق اور ٹھٹھا تھا۔ اس لیے وہ چند روز ٹھہر کر واپس چلا گیا اور جاتے ہوئے حضور کو ایک خط لکھا جس کے آخر پر لکھا:”اچھا آسمانی نشان تو دکھا دیں۔ اگر بحث نہیں کرنا چاہتے تو رب العرش خیرالماکرین سے میری نسبت کوئی نشان تو مانگیں “۔ اب اس فقرہ کو ذرا دوبارہ پڑھیں اور غور سے پڑھیں تو آپ سمجھ جائیں گے کہ یہ شخص کس قدر شوخ شریر اور اسلام کا کس قدر دشمن تھا۔ حضرت صاحب نے بھی اس خط کا جواب دیاکہ:

“جناب پنڈت صاحب! آپ کا خط میں نے پڑھا۔ آپ یقینا سمجھیں کہ ہمیں نہ بحث سے انکار اور نہ نشان دکھانے سے۔ مگر آپ سیدھی نیّت سے طلب حق نہیں کرتے۔ بے جا شرائط زیادہ کر دیتے ہیں۔ آپ کی زبان بد زبانی سے رکتی نہیں۔ آپ لکھتے ہیں کہ اگر بحث نہیں کرنا چاہتے تو رب العرش خیر الماکرین سے میری نسبت کوئی آسمانی نشان مانگیں۔ یہ کس قدر ہنسی ٹھٹھے کے کلمے ہیں “۔

پھر اس خط کے آخر پر حضرت صاحب نے لکھا کہ :

“نشان خدا کے پاس ہیں وہ قادر ہے جو آپ کو دکھلادے”۔

اور اس کے بعد20 فروری 1886ء تک آسمانی نشان دکھلانے کا وعدہ بھی کرلیا۔ لیکن لیکھرام یہ لکھ کر قادیان سے چلا گیا کہ میں آپ کی پیشگوئیوں کو واہیات سمجھتا ہوں اور میرے حق میں جو چاہو شائع کرو۔ میری طرف سے اجازت ہے میں ان باتوں سے ڈرنے والا نہیں۔

اس پر بھی حضور خاموش رہے۔ اور اس کے خلاف کچھ نہ لکھا۔ لیکن جب اس کی شوخی اور شرارت حد سے زیادہ ہو گئی،تو ۰۲ فروری ۳۹۸۱ء کو حضور نے اس کے متعلق ایک اشتہار شائع کیا اور اس میں اس شریر کے متعلق پیشگوئی درج فرمائی۔ اس سے پہلے آپ نے ایک نہایت شاندار کتاب لکھی جس کا نام “آئینہ کمالات اسلام” رکھا۔ اس میں آپ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں فارسی میں ایک نظم لکھی۔ اس کے آخر میں تین چار شعر اس بدزبان شخص کے بارہ میں لکھے جو اس کی تباہی اور بربادی کی طرف اشارہ کر رہے تھے کس قدر ہیبت ناک یہ شعر ہیں۔ آپ بھی پڑھیں۔ یہ فارسی زبان میں ہیں اور ان کے نیچے ہم ان کا ترجمہ دے رہے ہیں :

الا اے دشمنِ نادان و بے راہ

بترس از تیغِ برّانِ محمدؐ

رہ مولیٰ کہ گم کردند مردم

بجو در آل و اعوانِ محمدؐ

الا اے منکر از شانِ محمدؐ

ہم از نورِ نمایانِ محمدؐ

کرامت گرچہ بے نام و نشان است

بیا بِنگر زِ غلمانِ محمدؐ

ترجمہ! خبردار اے احمق اور گمراہ دشمن! توڈر محمد(صلی اللہ علیہ وسلم)کی تیز تلوار سے

۲۔ مولیٰ کی راہوں سے مخلوق خدابھٹک چکی ہے اوراب تو اگر چاہے کہ تجھے سیدھا راستہ نصیب ہو تو محمد(صلی اللہ علیہ وسلم)کی آل اولاد اور اس کے مددگاروں کے پاس پہنچ۔

۳۔ اے محمد(صلی اللہ علیہ وسلم)کی شان سے انکاری۔ خبردار ہوجا۔ تو اگر نورِ محمدؐ دیکھنا چاہے تو آ ہم تجھے محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کا نور دکھاتے ہیں۔

۴۔ معجزات کا یوں تو آج نام ونشان بھی نظر نہیں آتا۔ مگر توا گر کوئی معجزہ دیکھنا چاہتا ہے تو محمدؐ کے غلاموں اور خدمتگاروں کے پاس آکر دیکھ لے۔

جس اشتہار کا ذکر آپ نے اوپر پڑھا ہے اس میں حضرت صاحب نے لکھا کہ اس شخص کے بارہ میں مجھے الہام ہوا ہے کہ یہ بے جان بچھڑا ہے اس کے اندر سے مکروہ آواز نکل رہی ہے اور اس کی گستاخیوں اور بد زبانیوں کی وجہ سے اسے سزا ملے گی۔ اور اسے عذاب دیا جائے گا۔ اگر چھ برس کے اندر اندر اس پر کوئی ایسا عذاب نازل نہ ہوا جو عام تکلیفوں جیسا ہی ہوا اور اس نشان کے اندر خدائی رعب اور ہیبت نہ ہوئی تو سمجھو کہ میں خدا کی طرف سے نہیں اور مَیں اس کے نتیجہ میں ہر قسم کی سزا بھگتنے کے لیے تیار ہوں گا چاہے مجھے سولی پر ہی کیوں نہ چڑھا دیا جائے۔ اس شریر کی بدزبانیاں اور بے ادبیاں ایسی ہیں کہ جنہیں پڑھ کر ہر(مومن) کا دل ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتا ہے۔ اور یہ بات اچھی طرح سمجھ لو کہ یہ پیشگوئی اتفاقی نہیں بلکہ خاص اسی مطلب کے لیے دُعا کی گئی تو خدا نے مجھے اس کا یہ جواب دیا ہے۔

اس کے ڈیڑھ ماہ بعد2 اپریل 1893ء کو آپ نے ایک اور اشتہار دیا جس میں آپ نے لکھا کہ آپ نے رؤیا میں دیکھا کہ ایک بڑا طاقتور اور خوفناک شکل والا شخص ہے اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویاوہ انسان نہیں بلکہ بڑا سخت فرشتہ ہے۔ اُس نے پوچھا لیکھرام کہاں ہے تو پھر اس وقت حضور نے یہ سمجھا کہ یہ وہ شخص ہے جسے لیکھرام کی سزا کے لیے مقرر کیا گیا ہے۔

اس اشتہار کی پیشگوئی سے معلوم ہوا کہ لیکھرام قتل کیا جائے گا۔ اس کے بعد حضور نے ایک اور پیشگوئی فرمائی کہ جس دن لیکھرام کی موت ہوگی وہ عید کے ساتھ والادن ہوگا۔

اب دیکھو بچو! تین پیشگوئیاں ہوگئیں۔ اوّل یہ کہ یہ شخص چھری سے قتل ہوگا۔ دوسری یہ کہ وہ دن عید کے ساتھ والادن ہوگا۔ اور تیسری یہ کہ چھ سال کے اندر مارا جائے گا۔ اس سلسلہ میں یہ بات بڑی دلچسپ ہے کہ حضور کے ایک الہام کے الفاظ ہیں :۔ “یُقْضٰی اَمْرُ ہٗ فِیْ سِتٍّ”۔ یعنی چھ میں اس کا کام تمام کیا جائے گا۔

اب دیکھو! اس الہام میں چھ کا ہندسہ اس واقعہ سے کیسا عجیب تعلق رکھتا ہے۔ سو بالکل اسی طرح ہوا یعنی یہ شخص چھ سال کے اندراندر مارا گیا۔ اس کے قتل کادن چھ مارچ ۷۹۸۱ء تھا یہ چھٹے گھنٹے میں قتل ہوا۔ یہ دن مسلمانوں کی عید کا اگلا دن تھا۔ اور آریوں کے لیے بھی یہ دن عید کاہی دن تھا کیونکہ اس دن ایک مسلمان نے ہندو مذہب قبول کرنا تھا۔ اب تم اصل واقعہ سنو کہ یہ کیسے ہوا؟

لیکھرام کے پاس ایک شخص آیا۔ اور کہا جناب میں مسلمان ہوں لیکن میرے باپ دادے ہندو تھے اور میں اب پھر سے ہندو بننا چاہتا ہوں یہ سن کر لیکھرام کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا۔ اسے بڑے بڑے ہندؤوں کے پاس لے گیا اور انہیں بتایا کہ یہ ہمارا پہلا شکار ہے چنانچہ سات مارچ ۷۹۸۱ء کا دن مقرر ہوا کہ جب اِسے ہندو بنایا جانا تھا۔ اس لیے بڑی دھوم دھام سے اس کا انتظام کیا جارہا تھا۔ اور ہندؤوں کے لیے تو گویا یہ عید کا دن تھا۔

۶ مارچ کو ہفتہ کا دن تھا کہ لیکھرام جی نے قمیض اتاری ہوئی تھی اور اپنے کمرہ میں بیٹھے تھے۔ پاس ہی وہ شخص کمبل اوڑھے بیٹھا تھا۔ کہ لیکھرام نے انگڑائی لی۔ اور اس موقع سے فائدہ اُٹھا کر اس شخص نے پورا خنجر لیکھرام کے پیٹ میں اتار دیا اور یہاں تک کہ اس کی انتڑیاں باہر آگئیں اور منہ سے ایسی آواز نکلی جیسے کہ بیل نکالتا ہے جسے سن کر اس کی بیوی اور ماں بھاگی ہوئی کمرہ میں آگئیں۔ اب وہاں کیا رکھاتھا۔ وہ شخص بھاگ چکا تھا۔ یہ دیکھ کر وہ دروازہ تک دوڑی گئیں۔ سنا جاتا ہے کہ وہ یہ کہتی تھیں کہ انہوں نے قاتل کو سیڑھیوں پر سے اترتے دیکھا ہے۔ لیکن آگے پتہ نہیں چلا کہ وہ کہاں غائب ہوگیا۔ زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا۔ کیونکہ وہ گلی ایک طرف سے بالکل بند تھی اور اس طرف سے بھاگنے کا کوئی راستہ نہ تھا اور دوسری طرف جو کھلی تھی اس طرف کسی کی شادی تھی۔ اور وہاں خوب کھانے وغیرہ پک رہے تھے اور لوگ بیٹھے تھے اور وہاں سے بھاگتے ہوئے کسی نے دیکھا نہیں تو اب بتاؤ وہ شخص گیا تو کہاں گیا؟ ہندؤوں کا محلہ۔ بھاگنے کو راستہ نہیں۔ کسی ہندو کے مکان میں چھپنے کی جگہ نہیں تو پھر آخر وہ مسلمان جا کہاں سکتا تھا۔ ہندؤوں نے بڑا شور مچایا اور لاہور میں مسلمان اداروں کی تلاشیاں ہوئیں۔ یہاں تک کہ قادیان میں حضرت صاحب کے مکان تک کی تلاشی ہوئی۔ انگریز سپرنٹنڈنٹ پولیس نے خود تلاشی لی۔ حضرت صاحب نے اسے سب کاغذات دکھائے۔ معاہدہ کا وہ کاغذ بھی دکھایا کہ جس میں دونوں فریقوں نے رضا مندی سے سچی پیشگوئی کو سچائی کا معیار ٹھہرایا تھا۔ وہاں سے جانے کے بعد کپتان پولیس نے گورنمنٹ کو رپورٹ بھجوائی کہ ان الزامات میں کوئی حقیقت اور سچائی نہیں اور کوئی سازش نہیں ہوئی اور ساراپراپیگنڈا بالکل غلط ہے

ادھر لیکھرام کی سُنو۔ اُسے فورًامیوہسپتال پہنچایا گیا۔ شام کا وقت ہو چکا تھا ایک انگریز ڈاکٹر نے اس کا آپریشن کرکے ٹانکے لگائے۔ چو نکہ اس کی حالت بہت نازک ہوچکی تھی اس لیے ڈاکٹرنے پولیس کو بیان لینے سے بھی روک دیا۔ صبح ہوتے ہی پنڈت لیکھرام جی اگلے جہان کوروانہ ہو گئے۔

دیکھو اس دن جبکہ ہندؤوں کے لیے عیدکا دن تھا۔ ایک مسلمان نے ہندو بنناتھا وہی ان کے لیے ماتم کا دن بن گیا۔ اسی دن لیکھرام کی لاش ڈاکٹروں نے چیری بھی اور پھاڑی بھی۔ اسی دن پھر اس کا جنازہ اُٹھایا گیا اور اسی دن اُسے جلایا بھی گیا اور بے شمارہندو مرگھٹ تک سا تھ گئے۔ جہاں لیکھرام کا فوٹو لیا گیااوراس کے بعد اُسے لکٹریوں کی ایک بہت بڑی چتا پر رکھ کر جلا دیا گیا اور پھر اس کی راکھ دریائے راوی میں بہادی گئی اور خدا کا الہام یُوں پُورا ہؤا اور بڑی شان وشوکت کے ساتھ پُورا ہوا۔