اَلْحق مباحثہ دہلی

روحانی خزائن جلد 4

حضرت مرزا غلام احمد قادیانی، مسیح موعود و مہدی معہودؑ

ان حالات میں جب ہر جگہ لوگوں کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف اکسایا اور بھڑکایا جا رہا تھا۔ حضور علیہ السلام چاہتے تھے کہ کسی بارسوخ و بااثر عالم سے آپ کا حیات و وفات مسیح علیہ السلام اور آپ کے دعوے پر مباحثہ ہو جائے تا عامتہ الناس کو حق و باطل میں امتیاز کا موقع مل سکے اس لیے آپ نے تمام علماء کو بذریعہ اشتہار دعوت مناظرہ دی۔ جب پنجاب کے علماء ایسے مباحثہ کے لیے تیار نہ ہوئے جس سے عامتہ الناس حق و باطل میں امتیاز کر سکیں تو حضور علیہ السلام نے دہلی جانے کا ارادہ فرمایا کیونکہ دہلی اس وقت علم دین کے لحاظ سے ایک علمی  مرکز کی حیثیت رکھتا تھا اور وہاں مولوی سیّد نذیر حسین صاحب جو علماء اہلحدیث کے استاد اور شیخ الکل کہلاتے تھے اور شمس العلماء مولوی عبدالحق صاحب مؤلف تفسیر حقّانی وغیرہ مشہور علماء رہتے تھے۔ آپ نے خیال فرمایا کہ شاید وہاں اتمام حجّت اور عام لوگوں کو حق معلوم کرنے کا موقع مل جائے۔ جب شیخ الکل اور دوسرے علماء کا حیات و وفات مسیح علیہ السلام پر مباحثہ کرنے سے انکار اور فرار سب لوگوں پر واضح ہو گیا تو دہلی والوں نے مولوی محمد بشیر صاحب سہسوانی کو جو ان دنوں بھوپال میں ملازم تھے مباحثہ کے لیے بلایا۔ جس نے خلاف مرضی شیخ الکل اور مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی اور دیگر علماء حیات و وفات مسیح علیہ السلام پر بحث کرنا منظور کر لیا۔ مولوی محمد بشیر صاحب نے حیات مسیح علیہ السلام ثابت کرنے کے لیے چار آیات پیش کیں۔ لیکن اپنے پرچہ نمبر ۲ میں صاف طور پر لکھ دیا کہ “میری اصل دلیل حیات مسیح علیہ السلام پر آیت اولیٰ ہے (یعنی وَاِنۡ مِّنۡ اَہۡلِ الۡکِتٰبِ اِلَّا لَیُؤۡمِنَنَّ بِہٖ قَبۡلَ مَوۡتِہٖ) ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ان کی اس بناء استدلال کو قران مجید کی کئی آیات پیش کر کے باطل ثابت کر دیا۔