تحفة الندوہ

روحانی خزائن جلد 19

حضرت مرزا غلام احمد قادیانی، مسیح موعود و مہدی معہودؑ

یہ رسالہ ۶؍ اکتوبر ۱۹۰۲ء کو شائع ہوا۔ اس رسالہ کا پیش لفظ زیر عنوان ’التبلیغ‘ عربی زبان میں ہے۔ جس میں اہل دارالندوہ کو دعوت دی گئی ہے کہ وہ قرآن مجید کو حکم بنائیں، اور اپنے مسیح موعود ہونے کا ذکر کیا ہے اور خدا تعالی کی طرف سے مامور ہونے پر حلف اٹھائی ہے۔ اور آخر میں اس رسالہ کو اپنے نمائندوں کے ہاتھ علماء ندوہ کے پاس بھیجنے کا وعدہ فرمایا ہے۔

اس رسالہ کے لکھنے کی وجہ یہ ہوئی کہ ندوۃ العلماء نے ۱۱،۱۰،۹؍اکتوبر ۱۹۰۲ء کو امرتسر میں جلسہ کے انعقاد کا اعلان کیا۔ اور حافظ محمد یوسف صاحب پنشنر نے ۲؍ اکتوبر ۱۹۰۲ء کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نام ایک اشتہار دیا۔ جس کا ذکر کر کے حضرت اقدس علیہ السلام فرماتے ہیں کہ اس اشتہار میں وہ لکھتے ہیں کہ میں ایک دفعہ زبانی اس بات کا اقرار کر چکا ہوں کہ جن لوگوں نے نبی یا رسول یا اور کوئی مامور من اللہ ہونے کا دعویٰ کیا تو وہ لوگ ایسے افتراء کے ساتھ جس سے لوگوں کو گمراہ کرنا مقصود تھا ۲۳ برس تک (جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایّام بعثت کا کامل زمانہ ہے) زندہ رہے بلکہ اس سے بھی زیادہ۔ اور پھر حافظ صاحب اُسی اشتہار میں لکھتے ہیں کہ ان کے اس قول کی تائید میں ان کے ایک دوست ابو اسحاق محمد دین نام نے قطع الوتین نام ایک رسالہ بھی لکھا تھا جس میں مدعیانِ کا ذب کے نام مدّتِ دعوی تاریخی کتابوں کے حوالہ سے درج ہیں۔

نیز اس اشتہار میں حافظ صاحب نے حضرت اقدس علیہ السلام سے یہ مطالبہ کیا کہ آپؑ یہ اقرار لکھ دیں کہ اگر ندوۃ العلماء کے سالانہ جلسہ میں جو ابتدائے ۹؍ اکتوبر ۱۹۰۲ء سے بمقام امرتسر منعقد ہوگا شریک ہونے والے ہندوستان کے مشاہیر علماء رسالہ ’قطع الوطین‘ میں پیش کردہ نظائر کو صحیح قرار دے دیں تو ایسی صورت میں آپؑ کو اسی جلسہ میں توبہ کرنی چاہیے۔ آپؑ نے اس مطالبہ کے جواب میں فرمایا کہ ’میرا ان لوگوں پر حسنِ ظنّ نہیں ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ میں نہ تو ان لوگوں کو متقی سمجھتا ہوں….. اور نہ عارفِ حقائق قرآن خیال کرتا ہوں…… پھر مَیں ان کا حَکَم ہونا کس وجہ سے منظور کروں۔ ہاں اگر چند منتخب مولوی اُن میں سے بطور طالب حق قادیان میں آجاویں تو میں زبانی ان کو تبلیغ کر سکتا ہوں۔‘

اور لکھا کہ ’رسالہ قطع الوتین میں جھوٹے مدعیانِ نبوت کی نسبت بے سروپا حکایتیں لکھی گئی ہیں وہ حکایتیں اس وقت تک ایک ذرہ قابلِ اعتبار نہیں جب تک یہ ثابت نہ ہو کہ مفتری لوگوں نے اپنے اس دعوی پر اصرار کیا اور توبہ نہ کی اور یہ اصرار کیوںکر ثابت ہو سکتا ہے جب تک اُسی زمانہ کی کسی تحریر کے ذریعہ سے یہ امر ثابت نہ ہو کہ وہ لوگ اِسی افترا اور جھوٹے دعوی نبوت پر مرے اور ان کا کسی اُس وقت کے مولوی نے جنازہ نہ پڑھا اور نہ وہ مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کیے گئے اور ایسا ہی یہ حکایتیں ہرگز ثابت نہیں ہو سکتیں جب تک یہ ثابت نہ ہو کہ ان کی تمام عمر کے مفتریات جن کو انہوں نے بطور افترا خدا کا کلام قرار دیا تھا وہ اب کہاں ہیں۔‘

حافظ صاحب کے اشتہار کا جواب دینے کے بعد آپؑ نے ندوہ کے علماء پر اتمام حجّت کے لیے اپنے مسیح موعود ہونے کے دعوی کو مع دلائل پیش کیا اور قادیان سے ایّام جلسہ میں امرتسر ایک وفد بھیجا جو مولوی سید محمد احسن صاحب امروہی، مولوی ابو یوسف محمد مبارک صاحب سیالکوٹی، مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب ہزاروی، مولوی محمد عبداللہ صاحب کشمیری اور شیخ یعقوب علی صاحب ایڈیٹر اخبار الحکم پر مشتمل تھا۔ امرتسر پہنچ کر وفد کو معلوم ہوا کہ حافظ محمد یوسف صاحب نے ندوہ والوں سے مشورہ کیے بغیر از خود اشتہار شائع کیا تھا۔ ندوہ کے سیکرٹری سے اس سے متعلق کوئی اجازت یا مشورہ نہیں لیا گیا تھا۔ لہٰذا وفد نے انفرادی رنگ میں لوگوں تک سلسلہ کا پیغام پہنچایا اور تحفۃ الندوہ لوگوں میں تقسیم کر کے اس کی خوب اشاعت کی۔