اللہ اور اس کے رسول مقبول حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ و علٰی آلہ وسلم کی محبت میں سرشار معصوم احمدیوں پر توہین رسالت کے سراسر جھوٹے اور ناپاک الزام میں عائد بعض مقدمات کی تفصیل

رشید احمد چوہدری، لندن

آج پاکستان میں مولوی صاحبان کا ایک طبقہ اپناسارا زور اس بات پرصرف کر رہا ہے کہ ثابت کیا جائے کہ جماعت احمدیہ نعوذباللہ رسول کریم ﷺ کی توہین کی مرتکب ہو رہی ہے ۔ یہ علمائے سُوء وہ ہیں جنہوں نے یا تو سرے سے جماعت احمدیہ کالٹریچر مطالعہ ہی نہیں کیا ۔ یعنی انہوں نے گوارا ہی نہیں کیاکہ وہ بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلا م کی تحریرات کو پڑھیں کیونکہ اگر وہ سرسری طورپر بھی ان کتب کا مطالعہ کرتے تو ان پران کا اپنا جھوٹ ظاہر ہو جاتا۔ یا پھر وہ مولوی صاحبان احمدیت دشمنی میں دیدہ و دانستہ ایسے مفتریانہ بیانات دے کر اپنی طبیعتوں کا گند ظاہر کر رہے ہیں۔

جماعت احمدیہ پر یہ الزام کہ وہ رسول کریم ﷺ کی شان اقدس میں گستاخی کی مرتکب ہو رہی ہے ایک بہت بڑی تہمت ہے۔ یہ ایک انتہائی گھناؤنا ، ظالمانہ اور بہیمانہ الزام ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ جماعت احمدیہ مسلمہ آنحضرت ﷺ کے عشق میں اپنا سب کچھ داؤ پرلگائے ہوئے ہے۔ رات دن اگر اسے کوئی فکر ہے تووہ یہ کہ کس طرح رسول کریم ﷺ کا جھنڈا تمام دیگر جھنڈوں سے بلند ہو۔ یہی وہ جماعت ہے جو تنہاسارے عالم میں آنحضرتﷺ کی عزت و شرف کے قیام کی خاطر ایک عظیم جہاد میں مصروف ہے۔جماعت احمدیہ کی گزشتہ سو سالہ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ اس کے ارکان نے اسلام کی سربلندی کے لئے اپنی جانیں ، عزتیں اور اپنے اموال سب کچھ خدا تعالیٰ کی راہ میں قربان کردینے میں ذرہ بھر بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی۔ یہی وہ جماعت ہے جس نے دنیا بھرمیں تبلیغ اسلام کابیڑا اٹھا رکھاہے اور قرآن مجید کے مختلف زبانوں میں تراجم کر کے اسلام کی حسین تعلیم دنیا کے کونے کونے میں پھیلا رہی ہے ۔ جہاں کہیں بھی دشمنان دین نے اسلام یا رسول کریم ﷺ کے خلاف زبان کھولی اورا عتراضات کئے جماعت احمدیہ سب سے پہلے میدان میں آئی اور نہ صرف اسلام کادفاع کیا بلکہ اپنے قوی اور ناقابل تردید دلائل سے دشمن کامنہ بند کر دیا۔ چنانچہ آج جماعت احمدیہ کے دشمن تک اپنے تمام بغض و عناد کے باوجود یہ تسلیم کرنے پرمجبور ہیں کہ اسلام کی تائید میں اور رسول کریم ﷺ کی محبت میں اسلام کی خدمت کرنے والی اگرکوئی جماعت سارے عالم میں نظر آتی ہے تو وہ جماعت احمدیہ مسلمہ ہی ہے ۔

حقیقت یہ ہے کہ آنحضرت ﷺکے زمانہ کے بعد گزشتہ ۱۴۰۰سالوں میں بانی سلسلہ احمدیہ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام جیساکوئی عاشق رسول ؐ نظر نہیں آتا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا کلام پڑھ کر دیکھیں تو معلوم ہوتاہے کہ اس زمانہ میں اگر کسی نے آنحضرتﷺ کی محبت کے گر سکھائے ہیں تو وہ بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ ہی ہیں۔ آپ نے ہی دنیا کو وہ آداب بتائے کہ آنحضرتﷺسے محبت کیسے کی جاتی ہے ۔ آ پ نے ہی وہ طریق بتائے کہ کس طرح آنحضرت ﷺ کے نام پر جانیں نثار کی جاتی ہیں۔آپ کا ہی تو شیریں کلام ہے ؂

جان و دلم فدائے جمالِ محمدؐ است

خاکم نثار کوچۂ آلِ محمدؐ است

میری جان اور دل جما ل محمدؐ پرفدا ہیں اور میری خاک آل محمد کے کوچہ پرنثارہے۔اور

بعد از خدا بعشق محمدؐ مخمرم

گر کفر ایں بود بخدا سخت کافرم

میں خدا کے بعدمحمدؐکے عشق میں مخمور ہوں اگر یہ کفرہے توخدا کی قسم میں سخت کافر ہوں۔

پھر آ پؑ رسول کریم ﷺکے بار ہ میں یوں فرماتے ہیں: ؂

سب ہم نے اس سے پایا شاہد ہے تو خدایا

وہ جس نے حق دکھایاوہ مَہ لقا یہی ہے

نیز آ پ نے فرمایا:

اس نور پر فدا ہوں اس کا ہی میں ہوا ہوں

وہ ہے۔ میں چیزکیا ہوں۔ بس فیصلہ یہی ہے

اور آپ کی نثر ملاحظہ فرمائیں۔ آپ اپنی کتاب ’’سراج منیر‘‘میں فرماتے ہیں :

’’جب ہم انصاف کی نظرسے دیکھتے ہیں تو تمام سلسلہ نبوت میں سے اعلیٰ درجہ کا پیارا نبی صرف ایک مرد کوجانتے ہیں یعنی وہی نبیوں کا سرداراور رسولوں کا فخر ، تمام مرسلوں کاسرتاج جس کا نام محمد مصطفی احمد مجتبیٰ ﷺ ہے جس کے زیر سایہ دس دن چلنے سے وہ روشنی ملتی ہے جو پہلے اس سے ہزاروں برس تک نہیں مل سکتی تھی‘‘۔

ایک اورکتاب ’’آئینۂ کمالات اسلام‘‘ میں آپ فرماتے ہیں:

’’وہ اعلیٰ درجہ کانور جو انسان کودیا گیا یعنی انسان کامل کو وہ ملائک میں نہیں تھا ، نجوم میں نہیں تھا، قمرمیں نہیں تھا، آفتاب میں بھی نہیں تھا ، وہ زمین کے سمندروں اوردریاؤں میں بھی نہیں تھا۔ وہ لعل اوریاقوت اور زمرّد اور الماس اور موتی میں بھی نہیں تھا۔ غرض وہ کسی چیز ارضی اورسماوی میں نہیں تھا ۔ صرف انسان میں تھا یعنی انسان کامل میں جس کا اتم اور اکمل اور اعلیٰ اورارفع فرد ہمارے سید و مولیٰ سیدالانبیاء سیدالاحیاء محمد مصطفی ﷺ ہیں‘‘۔

غرضیکہ آپ کااردو کلام ، عربی کلام، فارسی کلام جو بھی ملاحظہ فرمائیں چاہے وہ منظوم کلام ہو یانثر عشقِ رسول کریم ﷺ سے بھرا پڑاہے ۔ ان تمام شواہد کے ہوتے ہوئے بھی بعض مولوی صاحبان ایسے ہیں کہ جو جماعت احمدیہ کے افراد پر توہین رسالت کے مقدمات قائم کرنا’’خدمت اسلام ‘‘سمجھتے ہیں ۔ چنانچہ پاکستان کے طول وعرض میں سینکڑوں احمدی مسلمانوں پرزیردفعہ 295/C تعزیرات پاکستان مقدما ت قائم کئے گئے ہیں اور ان پر یہ جھوٹاالزام عائد کیا گیاہے کہ وہ توہین رسول کریم ﷺ کے مرتکب ہوئے ہیں(نعوذباللہ من ذلک) ان مقدمات میں سے چند ایک کی قدرے تفصیل ہدیۂ قارئین ہے :

سیرت رسول کریم ﷺ پر آرٹیکل شائع کرنے پرمقدمہ

۱۵؍جون ۱۹۸۶ء کو ٹنڈوآدم سندھ کے ختم نبو ت کے مولوی احمد میاں حمادی نے رسالہ انصاراللہ کی انتظامیہ یعنی مرزا محمد دین صاحب ناز ایڈیٹر، قاضی منیر احمد صاحب پرنٹر اور چوہدری محمد ابراہیم صاحب پبلشرکے خلاف زیر دفعہ 295/C تعزیرات پاکستان ایک مقدمہ درج کرایاجس میں کہا گیا کہ رسالہ مذکور نے اپنی اپریل ۱۹۸۶ء کی اشاعت میں سیرت رسول مقبول ﷺ پر ایک مضمون شائع کیاہے ۔

دھمکی دینے کے الزام میں توہین رسالت کامقدمہ

موضع جلالہ ضلع سیالکوٹ کے پانچ احمدی احباب مکرم حنیف خان صاحب ولد حیات خان صاحب، صادق خان صاحب ولد دوست محمد خان صاحب، اسلام خان صاحب ولد حنیف خان صاحب، اقبال خان صاحب ولد حنیف خان صاحب اور اخترخان صاحب ولدحنیف خان صاحب پر ایک مقدمہ نمبر ۱۰مورخہ ۲۰؍مارچ ۱۹۸۷ء تھانہ کوٹ نیناں میں زیردفعات147/149,506 درج کرایا گیا۔

یہ مقدمہ موضع جلالہ کے ایک شخص اسداللہ خان ولد شاہ نوازخان جو موضع جلالہ کی جامع مسجد کاخطیب اور پیش امام تھا کی پولیس کوتحریری درخواست پردرج کیا گیا ۔ اس میں مولوی اسداللہ خان نے الزام لگایا کہ مورخہ ۲۰؍مارچ ۱۹۸۷ء کو وہ جمعہ پڑھانے کے لئے قرآن مجیدکی تلاوت کرکے اس کا ترجمہ کررہا تھا کہ اسے مذکورہ بالا پانچ احمدیوں کی طرف سے دھمکی کا پیغام ملا کہ اگراس نے ختم نبوت کے بارہ میں کچھ کہا تو اس کا نتیجہ بہت براہوگا ۔جمعہ کی نماز کے بعدوہ موضع اخلاص پور گیا تو ان احمدیوں نے اسے برابھلا کہا، گالیاں دیں اور جان سے مار دینے کی دھمکی دی ۔ اس موقعہ پران لوگوں نے اسے پیٹا۔ اس موقعہ کے دو گواہ نصیر خان ولد امانت خان اور حمید خان ولد صدیق خان جو موضع جلالہ کے رہائشی ہیں موجود تھے ‘‘۔

اس کی درخواست پر پولیس نے پانچوں احمدیوں کے خلاف مقدمہ درج کرلیا ۔ بعدازاں پولیس نے مزیدتحقیق کرکے پانچو ں احمدیوں پر دفعہ 295/Cکے تحت علیحدہ چالان پیش کیااورکہاکہ احمدیوں نے رسول کریم ﷺکی ہتک کی ہے اور مسجد کے خطیب کو ختم نبوت کے موضوع پرتقریر کرنے سے روکاہے۔ احمدیوں کی طرف یہ بیانات منسوب کئے گئے کہ انہوں نے کہا کہ رسول کریم ﷺآخری نبی نہیں تھے اور یہ کہ مرزا غلام احمد سچے نبی تھے ۔ اس طرح مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو مجروح کیا گیا ۔پولیس کے مطابق ان کے یہ بیانات مورخہ ۳۱؍مارچ ۱۹۸۷ء کو پولیس تحقیق کے نتیجہ میں ظاہر ہوئے جن کی بناء پر دفعہ 295/Cکا اضافہ کیا گیا ۔

یہ مقدمہ ایڈیشنل سیشن جج نارووال علاؤالدین ارشد ناگی کی عدالت میں پیش ہوا ۔ سیشن جج نے اپنے فیصلہ میں لکھا کہ پولیس نے اس معاملہ میں فرض شناسی اور غیرجانبداری سے کام نہیں لیا۔ معلوم ہوتاہے وہ فوجداری قانون سے بالکل نابلدہیں۔ اور شکایت کنندہ اسداللہ خان نے بھی سنی سنائی بات پر مقدمہ کی بنیاد رکھی جس پرقطعی بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔

عدالت کے نزدیک رسول کریم ؐپر تقریر سے روکنا یایہ کہنا کہ رسول کریم آخری نبی نہیں تھے اور مرزا غلام احمد سچے نبی تھے دفعہ 295/C کے زمرے میں بلاواسطہ یا بالواسطہ نہیں آتا۔اس لئے عدالت نے مورخہ ۲۷؍جولائی ۱۹۸۷ء کو تمام احمدیوں کوتوہین رسالت کے الزام سے بری کر دیا اور دفعہ 506کے تحت بھی سب ملزمان کوسوائے اسلام خان کے بری کرتے ہوئے اسلام خان کو دو سال قیدبامشقت کی سزا دی۔ اس سزاکے خلاف ہائی کورٹ لاہورمیں اپیل کی گئی جو سماعت کے لئے جسٹس شیخ محمد زبیر کی عدالت میں پیش ہوئی جس نے مورخہ ۳؍جولائی ۱۹۹۱ء کواسلام خان کو بھی بری کردیا ۔

نماز جمعہ ادا کرنے پرتوہین رسالت کا مقدمہ

مورخہ ۱۳؍اپریل ۱۹۸۷ء کو زیر دفعہ 295/C تعزیرات پاکستان ایک مقدمہ تھانہ خوشاب میں بوقت چار بجے شام مکرم مبارک احمد صاحب، مقصود احمد صاحب، ماسٹر حمیداللہ صاحب ٹیچر،محمد حاکم صاحب اوررانا عطا ء اللہ صاحب کے خلاف درج ہوا جو خواجہ محمد عثمان ولد عبدالرحمن سکنہ خوشاب کی تحریری درخواست پردرج کیا گیا ۔

درخواست میں لکھاگیا کہ ان احمد یوں نے مسجد پردوبارہ کلمہ طیبہ تحریر کردیا ہے ۔ بعض مکانوں میں وہ تبلیغ بھی کرتے ہیں اور انہوں نے جمعہ کے اجتماع کااہتما م کیا اور خوشی محمدمربی قادیانی کی اقتداء میں مسلمانوں کی طرح نماز جمعہ ادا کی ۔ لہذا استدعا ہے کہ مذکورہ بالا افراد کو فی الفور گرفتارکیا جائے اور دفعہ 295/C تعزیرات پاکستان کے تحت کلمہ اورحضور کی گستاخی کامقدمہ چلایا جائے ۔ چنانچہ ان کو گرفتار کرلیاگیا ۔

قرآن مجیدکی تلاوت کرنے اور کلمہ طیبہ مٹانے سے انکار کرنے پرتوہین رسالت کا مقدمہ

مورخہ ۱۳؍اپریل ۱۹۸۷ء کو ہی شام پونے چھ بجے تھانہ خوشاب میں ایک مخالف سلسلہ قاری سعیداحمد کی درخواست پر ایک اورمقدمہ زیردفعہ 295/Cتعزیرات پاکستان مکرم رانا عطاء اللہ صاحب پٹواری آف خوشاب کے خلاف درج کیا گیا۔

اس مقدمہ کی تفصیل یہ ہے کہ مورخہ ۱۳؍اپریل ۱۹۸۷ء کو شام پانچ بجے پانچ احمدی احباب مکرم رانا عطاء اللہ صاحب ، راناحمیداللہ صاحب، مبارک احمد صاحب ،مقصود احمد صاحب، اور محمد حاکم صاحب کو تھانیدار نے تھانہ میں بلایا ۔ وہاں پہلے سے قاری سعید احمد بیٹھے تھے ۔ انسپکٹر صاحب نے ان کو آمنے سامنے بٹھاکر مذہبی سوالات شروع کردئے کہ کلمہ میں آپ آنحضرت ﷺ کی بجائے مرزا غلام احمد مراد لیتے ہو وغیرہ ۔ ان سوالات کے جواب چونکہ رانا عطا ء اللہ پٹواری نے دئے اس لئے قاری سعید احمد نے پولیس کو اپنی درخواست میں لکھا ’’آج عصرکی نماز کے بعد آپ نے بندہ قاری سعیداحمد کو تھانہ خوشاب میں قادیانیوں کے متعلق مشورہ کے لئے بلایا ۔ اس دوران پانچ قادیانی بھی تھانہ میں موجود تھے۔ انسپکٹر صاحب کی موجودگی میں عطاء اللہ پٹواری نے نہ صرف کلمہ طیبہ اپنی مسجد سے ہٹانے سے انکار کیا بلکہ تبلیغ بھی شروع کردی اور قرآن مجید کی تلاوت کرنا شروع کردی۔ عطاء اللہ پٹواری نے یہ بھی کہا کہ ہم مرزا صاحب کو نبی مانتے ہیں ۔ اس طرح قانون کے محافظوں کے سامنے قانون کی خلاف ورز ی کی گئی ۔ لہذا استدعا ہے کہ عطاء اللہ قادیانی کے خلاف زیر دفعہ 295/Cجس کی سزا موت ہے قرآن مجیدکی تلاوت اورحضور ﷺکی توہین کرنے پر فوری مقدمہ درج کیا جاوے۔

درود پڑھنے کی وجہ سے مقدمہ

ٹنڈو آدم کے بدبخت مولوی احمد میاں حمادی نے ۱۳؍اگست ۱۹۸۷ء کوشہداد پور سندھ میں ہی ایک مقدمہ مکرم مختار احمد صاحب، عبدالرحمن صاحب اورعلی احمد صاحب کے خلاف درج کرایا جس میں کہا کہ احمدیوں نے ایک جلسہ مورخہ ۹؍اگست ۱۹۸۷ء کومنعقد کیا اور اس میں قرآن مجید کی آیات کی تلاوت کرنے کے بعد لاؤڈسپیکر پر رسول مقبول ﷺپردرود بھیجا گیا ۔ اس طرح ’’توہین رسالت‘‘کے مرتکب ہوئے ۔ چنانچہ یہ مقدمہ زیر دفعہ 295/C اور 298/C تعزیرات پاکستان تین احمدیوں کے خلاف درج ہوا۔

کلمہ طیبہ لکھنے کی وجہ سے ’’توہین رسالت‘‘ کا مقدمہ

قصور شہر کے مکرم شیخ محمد اسلم صاحب ، مکرم مشتاق احمد صاحب، مکرم محمد اسلام صاحب اور مکرم قریشی نوراحمد صاحب کے خلاف ایک مقدمہ مورخہ ۲۷؍اگست ۱۹۸۷ء کودرج کیا گیا جو قصورشہر کی مجلس ختم نبوت کے صدر فضل حسین کی درخواست پر درج ہوا۔درخواست میں لکھا گیا کہ مذکورہ احمدیوں نے اپنے گھروں، دوکانوں اورمسجد پر کلمہ طیبہ لکھ رکھاہے اور یہ تعزیرات پاکستان کی دفعہ 298/Cکے تحت جرم ہے۔ چنانچہ مقدمہ کے اندراج کے بعد فوری طورپر چاروں احمدی احباب کو گرفتارکر لیا گیا ۔

بعدازاں شکایت کنندہ نے ایک اور درخواست ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ قصورکی عدالت میں دائر کی جس میں لکھا گیاکہ احمدیوں نے گھروں ، دوکانوں اور مسجد پرکلمہ طیبہ لکھ کر توہین رسالت کا ارتکاب بھی کیا ہے۔ چنانچہ اس درخواست پران چاروں احباب کے خلاف 295/Cکا اضافہ کر دیا گیا۔

۱۰؍مئی ۱۹۸۸ء کو ایڈیشنل سیشن جج چوہدری عبدالستار نے مدعی کی درخواست پڑھ کر کہاکہ اس میں دفعہ 295/Cلاگونہیں ہوتی لہذا دفعہ 298/C کے تحت مقدمہ کی کارروائی کے لئے سٹی مجسٹریٹ کو بھجوادیا گیا۔

پوسٹرپھاڑنے کی وجہ سے توہین رسالت کامقدمہ

مورخہ ۲۸؍اگست ۱۹۸۷ء کو ننکانہ کے ایک احمدی نوجوان کلیم احمد ولد ڈاکٹرحاجی عبدالرحمن پر توہین رسالت کے الزام میں ایک مقدمہ تھانہ ننکانہ میں جماعت کے ایک مخالف عبدالمجید اختر کی درخواست پر درج کیا گیا۔ الزام یہ لگایاگیا کہ اس احمدی نوجوان نے مجلس ختم نبوت کاایک پوسٹر جودیوار پرچسپاں تھا پھاڑ ڈالا اور اس طرح رسول کریم ﷺ کی توہین کامرتکب ہوا ۔

نوٹس بورڈ پر روغن پھیرنے کی وجہ سے توہین رسالت کا مقدمہ

خوشاب کے ایک مخالف عقیل عباس شاہ نے مورخہ ۲۸؍اکتوبر ۱۹۸۷ء کو ایک احمدی مسلمان حکیم جمیل احمد کے خلاف ایک مقدمہ زیردفعات 295/C اور298/C اور ۱۶۔ایم پی او تعزیرات پاکستان تھانہ خوشاب میں درج کرا دیا۔ تحریری درخواست میں شکایت کی گئی کہ حکیم جمیل احمد نے مجلس ختم نبوت کے بورڈ پرسیاہی پھیردی ہے ۔نیز مقامی مسجد احمدیہ پردوبارہ کلمہ طیبہ لکھ کر دفعہ 298/Cکی خلاف ورزی کی ہے ۔

تبلیغ کی وجہ سے توہین رسالت کامقدمہ

ٹنڈو آدم کے بدنام ترین مولوی احمد میاں حمادی نے ۲۷؍دسمبر ۱۹۸۷ء کو شہداد پور سندھ کے تھانہ میں ایک درخواست چوہدری خلیل احمد صاحب امیر جماعت احمدیہ سانگھڑ کے خلاف دی جس میں لکھاگیاکہ مکرم خلیل احمد صاحب نے رسالہ انصاراللہ بابت ماہ فروری ۱۹۸۷ء بغرض تبلیغ ایک غیراحمدی وکیل محمد اسحاق نامی کو دیاہے جو اس نے مولوی حمادی تک پہنچادیا اورمولوی مذکور کے دعویٰ کے مطابق اس میں ہتک رسول ﷺ کی گئی ہے ۔ چنانچہ مکرم خلیل احمد صاحب امیر جماعت احمدیہ سانگھڑکے خلاف زیردفعہ 295/Cتوہین رسالت کامقدمہ درج ہو گیا اور انہیں گرفتارکرکے شہداد پورجیل بھجوا دیا گیا۔ سیشن جج سانگھڑ نے جولائی ۱۹۸۸ء میں فیصلہ دیاکہ رسالہ مذکور میں مضامین کسی طرح بھی توہین رسالت کی دفعات کے تحت نہیں آتے ۔

سیرت رسول کریم ﷺ پر جلسہ کرنے پرمقدمہ

تلونڈی موسی خان ضلع گوجرانوالہ میں جماعت احمدیہ نے سیرت رسول کریم ﷺکے موضوع پر ایک جلسہ کا انعقاد کیاجس میں مرکز احمدیت ربوہ سے مولانا دوست محمدصاحب شاہد اور دیگرمبلغین کو بھی شمولیت کی دعوت دی۔ اس جلسہ کے انعقاد کی وجہ سے علاقہ کے غیراحمدی مسلمانوں کو سخت غصہ آیا اور ان کے نمائندگان خواجہ محمد شفیق اور چوہدری غلام محمد آف گوجرانوالہ شہر نے احمدی مسلمانوں کے خلاف تھانہ صدرگوجرانوالہ میں رپورٹ کی اورمندرجہ ذیل احمدی احباب پر زیر دفعہ 295/C ،298/C اور 188تعزیرات پاکستان ایک مقدمہ مورخہ ۲۳؍مارچ ۱۹۸۸ء کو درج کروایا۔

(۱)مولانا دوست محمد صاحب شاہد۔ ربوہ(۲) نذیر احمد صاحب ۔(۳) منظور احمد صاحب۔ (۴) منوراحمد صاحب۔ (۵) محمد یوسف صاحب۔ (۶) شبیر احمد صاحب۔ (۷) ناصر احمد صاحب۔ (۸)ظفر احمد صاحب۔(۹) شبیر احمد صاحب شاہد، مبلغ جماعت احمدیہ ۔(۱۰) خالد احمد صاحب۔(۱۱) سلیم احمد صاحب۔

درخواست میں لکھا گیا کہ ان سب نے جلسہ کاانعقاد کرکے احمدیت کی تبلیغ کی ہے اوراس طرح رسول کریم ؐ کی توہین کے مرتکب ہوئے ہیں۔

سیشن کورٹ نے ۳؍اپریل ۱۹۹۰ء کو دفعہ 298/C کے تحت تمام افراد کو دو دو سال قید اور پانچ ہزار فی کس جرمانہ کی سزا دی مگرعدالت نے فیصلہ دیا کہ دفعہ 295/C کا اطلاق ا س مقدمہ پرنہیں ہوتا ۔ سزاؤں کے خلاف اپیل کی گئی۔

گھرپر قرآنی آیت لکھنے کی وجہ سے مقدمہ

سانگھڑ سندھ کے ایک احمدی مسلمان رشید احمد خان صاحب کے خلاف سانگھڑ کے ایک مولوی عبدالغفورنے ایک مقدمہ زیر دفعہ298/C تعزیرات پاکستان مورخہ ۵؍اپریل ۱۹۸۸ء کو درج کرایا ۔ اس نے پولیس کو تحریری درخواست دی جس میں لکھا کہ قصبہ سانگھڑ کے لوگوں سے اسے معلوم ہواہے کہ ایک احمدی نے اپنے مکان کی بیرونی دیوار پر قرآنی آیت الیس اللہ بکاف عبدہ سیمنٹ سے کندہ کی ہوئی ہے ۔ اس پروہ اپنے ساتھیوں سمیت رشید احمد خان کے مکان پر پہنچا اور خود دیکھا کہ مذکورہ بالا آیت گھر کی بیرونی دیوار پر تحریرہے ۔ وہ فوراً پولیس اسٹیشن پہنچے ۔ اس وقت دن کے بارہ بجے تھے انہوں نے پولیس اسٹیشن سانگھڑ میں احمدی رشیداحمد خان کے خلاف زیر دفعہ 298/Cایک مقدمہ درج کرایا۔کیونکہ اس آیت قرآنی سے ا س کے اوراس کے ساتھیوں کے مذہبی جذبات مجروح ہوئے تھے ۔ پولیس موقع پرپہنچ گئی اورآیت قرآنی کے فوٹو لے گئی اور اسی دن چار بجے بعد دوپہر رشیداحمد خان کو گرفتارکرلیاگیا ۔ مقدمہ کی سماعت زیر دفعہ 298/C شروع ہوئی مگربعد میں ۹؍مارچ ۱۹۹۱ء کو دفعہ 295/Cیعنی توہین رسالت کی دفعہ کابھی اضافہ کر دیا گیا ۔ اس طرح دونوں دفعات یعنی 298/C اور 295/Cکے تحت مقدمہ عدالت میں ۱۹۹۴ء تک چلتارہا اور مورخہ ۱۳؍جنوری ۱۹۹۴ء کو سیشن جج سانگھڑ بشیر احمد میمن نے رشید احمد خان کو دفعہ 298/Cکے تحت دو سال قید اور پانچ ہزار روپے جرمانہ کی سزا سنائی۔

مورخہ ۱۳؍فروری ۱۹۹۴ء کو پولیس انسپکٹر اور اسسٹنٹ کمشنرپولیس بھاری گارد لے کر رشیداحمد خان کے گھرآئے اور اپنے ساتھ ایک ہندو لوہار کو لائے جس نے ہتھوڑے کی مدد سے سیمنٹ سے کندہ آیت کریمہ کو توڑ کر ریزہ ریزہ کر ڈالا ۔انا للہ واناالیہ راجعون۔

گھروں پرکلمہ طیبہ لکھنے کی وجہ سے ایک اورمقدمہ

مورخہ ۱۴؍اپریل ۱۹۸۸ء کو ایک مقدمہ زیر دفعہ 295/C تعزیرات پاکستان سمبڑیال ضلع سیالکوٹ کے احباب ملک نثار احمد صاحب، ملک نور احمد صاحب اور عاشق محمودصاحب پر ایک مخالف سلسلہ محمد سعید ذکی کی تحریری درخواست کی وجہ سے درج کیاگیا۔ درخواست میں کہاگیا کہ احمدیو ں نے اپنے گھروں پرکلمہ طیبہ لکھ رکھاہے اوراس طرح رسول مقبولﷺکی توہین کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ توہین رسالت کا فعل مسلمانوں کے لئے ناقابل برداشت ہے اور یہ صریحاً دفعہ 295/Cکی خلاف ورزی ہے۔

تبلیغ کی وجہ سے مقدمہ قائم کیا گیا

جو ۶سال بعد توہین رسالت کے مقدمہ میں تبدیل کر دیا گیا

مکرم عبدالقدیرشاہد صاحب مربی سلسلہ جماعت احمدیہ اور ان کے دو نسبتی بھائیوں مکرم محمداشفاق صاحب اور مکرم محمد شہباز صاحب آف شرقپور ضلع شیخوپورہ کے خلاف تبلیغ کرنے کے الزام میں زیر دفعہ 298/Cتعزیرات پاکستان ایک مقدمہ مورخہ ۲۸؍اکتوبر ۱۹۸۸ء کو تھانہ شرقپور ضلع شیخوپورہ میں درج ہوا ۔ یہ مقدمہ شرقپور کے رہنے والے ایک مخالف حکیم اقبال احمد کی تحریری درخواست پر درج کیا گیا ۔ درخواست دہندہ نے لکھا کہ :

’’گزارش ہے کہ عیدمیلادالنبی کے دن شرقپور شہر میں قادیانی فرقہ کے چند لڑکے جن میں اشفاق احمد ولدمحمد حسین اور شہباز ولد محمد حسین تھے اشتہار بازی کر رہے تھے جن میں اپنے عقیدے کی دعوت و تبلیغ کی گئی تھی ۔ اشتہار کامضمون اشتعال انگیزی کاموجب بن سکتا تھا ۔ چنانچہ جن لوگوں نے یہ اشتہار پڑھا ان کے مذہبی جذبات مجروح ہوئے ۔ اس کے بعد ہمارے مسلمانوں کے چند لڑکے جن میں مقصود احمد ولد شیخ محمد اسمٰعیل، احمد صابر علی ولد شیخ دل محمد،شیخ محمد مجیب ولد شیخ محمد حنیف اور شیخ اشرف علی ولد رنگ الٰہی ان کے پیچھیان کے گھر گئے اور ان سے اس سلسلہ میں بازپرس کی۔ انہوں نے کمال ڈھٹائی سے بجائے معذرت کے الٹا ڈانٹنا شروع کر دیا ۔ دونوں طرف سے کافی بات چیت ہوتی رہی آخرہم تنگ آ کر واپس آ گئے ۔

آج شام یعنی ۲۸؍اکتوبر ۱۹۸۸ء کو اندرون ضیاء گیٹ شرقپوربمقام بالمقابل دوکان جمیل برتن فروش ، مقصود احمد ولد شیخ محمد اسمٰعیل ، شیخ احمد صابر علی ، شیخ محمد حبیب وغیرہ موجود تھے کہ یہی دونوں یعنی اشفاق اوراس کے ساتھ ایک لڑکا وہاں آ گئے اور دوبارہ اپنے عقیدہ کے بارہ میں بیان شروع کر دیا اورہمیں اپنے گھرآنے کی دعوت دی اور بتایاکہ ہمارامبلغ عبدالقدیر موجود ہے جو آپ کی تسلی کرے گا۔ ہمیں باتوں میں لگاکر آہستہ آہستہ اپنے گھر لے گئے ۔ وہاں ایک مبلغ جو باہر سے آیا لگتاتھا اس نے اپنے مذہب کی تبلیغ شروع کر د ی اور اس نے اپنے مذہب کو بالکل سچا اور برحق پیش کیا اور ہمارے خلاف،اسلام کے خلاف سخت بکواس کی ۔ اسی اثناء میں چند اور مسلمان جن میں حکیم اقبال احمد ولد حکیم دین ۔ محمودالحسن ولد محمد یحیٰ ، حافظ نعیم ولد یحیٰ،جمیل ولد حاجی بشیر احمد وغیرہ بھی وہاں پہنچ گئے۔ وہاں حافظ نعیم الرحمن اور محمود الحسن نے اسلام کی اصلیت کے بارہ میں بتایا ۔مبلغ مذکور اسلامی تعلیمات کو مسخ کر کے اپنے مذہب کو سچا ثابت کرتارہا۔

آخر قادیانی مذہب کے بانی مرزا غلام احمد قادیانی کی اپنی تحریر پیش کی گئی مگر یہ لوگ اپنی ضد سے باز نہ آئے اور غلط قسم کی بکواس کرتے رہے ۔ آخر کار اسلام کی توہین ، آیات قرآنی کی تحریف ہم لوگ برداشت نہ کر سکے ۔ خاص طورپر آنحضور ﷺ کی شان میں گستاخی ناقابل برداشت تھی ۔ چنانچہ ہم نے ان کو توبہ کرنے کے لئے کہا اورگھر کے دروازے پرلکھا ہواکلمہ جو ان کے لئے لکھنا منع ہے کو صاف کرنے کو کہا ۔ انہوں نے انکار کیا۔ چنانچہ ہم سب اکٹھے ہو کر آپ کے سامنے تھانہ پہنچ گئے ہیں۔

میں مسمی حکیم اقبال احمد آپ کے نوٹس میں یہ سارا واقعہ لایا ہوں اورملتجی ہوں کہ ان تینوں عبدالقدیر مبلغ ، اشفاق اور شہباز کے خلا ف آنحضورﷺکے بارہ میں گستاخانہ کلمہ کہ ’’جو تم ہمارے مرزا غلام احمد کو سمجھتے ہو وہی ہم تمہارے رسول حضرت محمد مصطفیؐ کے بار ہ میں کہتے ہیں‘‘کہنے پر عبرتناک کارروائی کی جاوے نیز گھر پرکلمہ لکھنے پر کارروائی کی جائے اور مذہب حقانی اسلام کے بارے میں ناجائز اور جھوٹا پراپیگنڈا کرنے سے روکا جائے ‘‘۔

چنانچہ تینوں احمدیوں کے خلاف زیر دفعہ 298/A مقدمہ درج کر لیاگیا ا وررات ۱۱ بجے پولیس نے تینوں کو ان کے گھر سے گرفتار کر لیا۔ اگلے روز فیروزوالا (شاہدرہ) کے مجسٹریٹ کی عدالت میں ضمانت کی درخواست پیش کی گئی جو منظور ہو گئی اور تینوں احمدی ضمانت پر رہا ہو کر گھر آگئے۔

پولیس نے بعد تفتیش ۱۹۸۹ء میں مجسٹریٹ کی عدالت میں مقدمہ برائے سماعت داخل کر دیا۔ مجسٹریٹ نے ۱۹۹۱ء میں احمدیوں پر چارج شیٹ لگائی اور ۱۹۹۳ء تک تمام گواہوں وغیرہ کی گواہیاں مکمل ہو گئیں ۔ اس طرح ۲۵؍اگست ۱۹۹۳ء تک مقدمہ کی کارروائی ختم ہو چکی تھی ، صرف فیصلہ سنانا باقی تھا مگر عدالت نے فیصلہ التوا میں رکھا ۔ اس دوران ۱۷؍اکتوبر ۱۹۹۴ء کو یعنی مقدمہ شروع ہونے کے چھ سال بعدمدعی نے عدالت میں درخواست دی کہ اس مقدمہ کی دفعہ 298/A درست نہیں بلکہ توہین رسالت کی دفعہ 295/Cلگنی چاہئے۔

چنانچہ مجسٹریٹ محمد صدیق نے ۷؍مارچ ۱۹۹۵ء کو اس درخواست کی سماعت کی اور ۱۹؍مارچ ۱۹۹۵ء کو فیصلہ دیا کہ مقدمہ زیر دفعہ 295/C آتاہے جو اس عدالت کے دائرہ کار سے باہر ہے اور مسل مقدمہ سیشن جج شیخو پورہ کو بھجوا دی ۔ اس طرح یہ مقدمہ ایڈیشنل سیشن جج شیخوپورہ محمد محمود چوہدری کی عدالت میں پیش ہواجنہوں نے فیصلہ دیا کہ اس مقدمہ پر دفعہ 295/C کا اطلاق نہیں ہوتا لہذا ٹرائل مجسٹریٹ صاحب فیصلہ دفعہ 298/A کے تحت سنا دیں۔ مگر ٹرائل مجسٹریٹ محمد صدیق صاحب نے ۲۹؍اگست ۱۹۹۵ء کو ایک بار پھر یہ فیصلہ دیا کہ اس مقدمہ پر دفعہ 295/C لگتی ہے اورمسل دوبارہ ڈسٹرکٹ اینڈسیشن جج شیخوپورہ کو بھجوا دی اور ملزمان کو ہدایت کی کہ وہ ۱۸؍ستمبر ۱۹۹۵ء کو عدالت مذکور ہ میں حاضر ہوں ۔اس دوران پہلے ایڈیشنل سیشن جج محمد محمود چوہدری صاحب تبدیل ہو چکے تھے اور ان کی جگہ رانا زاہد محمود ایڈیشنل سیشن جج مقررہوئے تھے ۔ چنانچہ یہ مقدمہ ان کی عدالت میں پیش ہوا۔ ہمارے وکیل مکرم خواجہ سرفراز احمد ایڈووکیٹ نے مورخہ ۱۷؍دسمبر ۱۹۹۵ء کو یہ درخواست دی کہ چونکہ لوئر کورٹ نے یہ فیصلہ دیاہے کہ اس مقدمہ میں دفعہ 298/A کا اطلاق نہیں ہوتا اس لئے مجسٹریٹ کو حکم دیا جائے کہ وہ پہلے دفعہ 298/A کے بارہ میں حتمی فیصلہ دیں مگر سیشن جج نے مورخہ ۱۵؍جولائی ۱۹۹۷ء کو یہ درخواست مسترد کردی۔

اس کے بعد ہائی کورٹ سے رجوع کیا گیا ۔ ہائی کورٹ میں ۲۹؍جولائی اور ۳۱؍جولائی ۱۹۹۷ء کوبحث ہوئی مگر جسٹس محمد نعیم نے اپنے فیصلہ میں دفعہ 298/A کے تحت کارروائی کو خارج قرار دے کر 295/Cکو قائم رکھا اور پٹیشن کو خارج قرار دیتے ہوئے فیصلے میں لکھا کہ ایڈیشنل سیشن جج شیخوپور ہ رانا زاہد محمود اس مقدمہ کی سماعت کریں اور مورخہ ۳۰؍دسمبر ۱۹۹۷ء تک اس کو بھگتا دیں۔

ہائی کورٹ کے اس فیصلہ کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کی گئی اور ساتھ ہی اپیل کے دوران Stay Orderکی درخواست کی گئی مگر سپریم کورٹ کے جسٹس نثار نے نہ صرف اپیل خارج کر دی بلکہ رانا زا ہد محمود کو کہا کہ کیس کا فیصلہ ۳۰؍نومبر ۱۹۹۷ء تک کر دیا جائے ۔

چنانچہ یکم دسمبر ۱۹۹۷ء کو رانا زاہد محمود ایڈیشنل سیشن جج شیخوپورہ نے فیصلہ صادر کیا کہ ہر سہ ملزمان کو ۲۵، ۲۵ سال قید بامشقت اور ۵۰،۵۰ہزار روپیہ جرمانہ کی سزا دی جاتی ہے ۔ عدم ادائیگی جرمانہ کی صورت میں مزید دو سال قید بھگتنا ہوگی۔

یہ بھی یاد رہے کہ ۱۹۸۸ء میں جب یہ مقدمہ شروع ہواتھا اس وقت توہین رسالت کی دفعہ کے تحت سزا عمر قید یا سزائے موت تھی مگر ۱۹۹۱ء میں قانون میں تبدیلی کی گئی اور اب توہین رسالت کی دفعہ 295/Cکے تحت صرف سزائے موت مقرر ہے اس طرح اگر یہ مقدمہ ۱۹۹۱ء کے بعد دائرہوتاتو جج صاحب معصوم احمدیوں کو موت کی سزا دے دیتے ۔

مکرم عبدالقدیر صاحب اور ان کے دونوں نسبتی بھائی اس وقت جیل میں ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ان اسیران راہ مولا کی جلد بریت کے غیب سے سامان فرمائے ۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم، نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم، و علیٰ عبدہ المسیح الموعود ۔ لکھنے پر مقدمہ

مولوی احمد میاں حمادی آف ٹنڈوآدم سندھ نے ایک مقدمہ مکرم مرزا مبارک احمد صاحب نصرت آف سانگھڑ پرمورخہ ۳؍جنوری ۱۹۸۹ء کو زیر دفعات 298/C اور 295/C تعزیرات پاکستان درج کرایا۔ مولوی نے شکایت کی کہ مرزا مبارک احمد نصرت نے ۸۸۔۱۱۔۹کو اسے ایک خط بھجوایا جس کے ساتھ مرزا طاہر احمد کی طرف سے جاری مباہلہ پمفلٹ بھی تھا ۔ خط جس پیڈ پرلکھا گیاتھا اس پربسم اللہ الرحمن الرحیم، نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم و علیٰ عبدہ المسیح الموعود لکھ کر خود کو مسلمان ظاہر کیا ہے جو دفعہ 298/Cکے تحت جرم ہے ۔ لہذا اس کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے ‘‘۔ چنانچہ دونوں دفعات کے تحت مقدمہ ۳؍جنوری ۱۹۸۹ء کو درج کر دیا گیا۔

مقدمہ کااندراج ہونے کے بعد مورخہ ۱۴؍ جنوری ۱۹۸۹ء کو مکرم مرزا مبارک احمدنصرت صاحب کو پولیس نے گرفتار کر لیا اور حوالات میں بند کردیا ۔

جیل کے اندر نماز پڑھنے پرمقدمہ

دوسرے دن یعنی ۱۵؍جنوری کو مولویوں نے انہیں حوالات میں نماز پڑھتے دیکھا تو شور مچا دیا۔ ان کے خلاف ایک اور درخواست دی گئی جس میں لکھا گیاکہ ’’مرزا مبارک احمد نصرت حوالات میں مسلمانوں کی طرح قبلہ رو ہوکر نماز ادا کر رہا تھا‘‘۔ چنانچہ اس درخواست کی بنا پر مرزا صاحب پر ایک اورمقدمہ 298/Cتعزیرات پاکستان مورخہ ۶؍فروری ۱۹۸۹ء کو قائم کر دیا گیا اور ۹۴ دن حوالات میں رہنے کے بعد ان کی ضمانت پررہائی ہوئی۔

یاد رہے اس بدبخت مولوی نے احمدیوں پرمتعددمقدما ت درج کرا رکھے ہیں۔یہ مولوی ٹنڈوآدم کاخطیب ہے۔ جو محکمہ اوقاف کے تحت ہے ۔اس طرح یہ سندھ گورنمنٹ کاباقاعدہ تنخواہ دار ملازم ہے اورحکومت کا خاص مولوی ہے۔ علاقہ بھرمیں اسکا اثرہے نیز اس علاقہ میں راجہ ظفرالحق وزیرمذہبی امور کے بھائی کابھی بہت اثرورسوخ ہے اس وجہ سے سندھ کے اس علاقہ میں جماعت احمدیہ کے خلاف ظالمانہ حرکتیں ہوتی رہتی ہیں اوراس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ سب کچھ حکومت کی ایما ء پرہو رہاہے۔

اس مقدمہ کی سماعت آج کل ہو رہی ہے ۔ ملاں حمادی سماعت کے دن اپنے چیلے چانٹوں اورمدرسہ کے طلباء کو ساتھ لے کر کمرہ عدالت میں پہنچ جاتاہے اورجماعت کے خلاف خوب ہلڑبازی کرتاہے۔ گزشتہ تاریخ ۲۱؍مئی ۱۹۹۹ء کو عدالت میں ہجوم نے نعرے لگا لگاکر مطالبہ کیا کہ مرزا مبارک احمد نصرت کی ضمانت منسوخ کی جائے ۔ چنانچہ جج نے دباؤ میں آ کر مرزا صاحب کی ضمانت منسوخ کردی تھی۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم،السلام علیکم اور انشاء اللہ لکھنے پر مقدمہ

قصور شہر میں ایک مقدمہ فضل حسین پریذیڈنٹ مجلس ختم نبوت قصورکی درخواست پرپولیس نے زیردفعات 298/C اور 295/C تعزیرات پاکستان مورخہ ۲۰؍ستمبر ۱۹۸۹ء کو مندرجہ ذیل احمدی مسلمانوں کے خلاف درج کیا۔

۱۔شیخ محمد یوسف صاحب۔۲۔ شیخ محمد اسلم صاحب۔ ۳۔ بیگم شیخ محمد اسلم صاحب۔۴۔ مسز فریدہ فرحت صاحبہ۔۵۔ ملک عبدالرب صاحب ۔۶۔ خواجہ خلیل احمد صاحب۔۷۔ کیپٹن محمد زکریا صاحب ۔۸۔ ساجد ندیم صاحب۔۹۔ شیخ محمد انورصاحب۔

درخواست میں لکھا گیاکہ ان احمدیوں نے ایک شادی کارڈ شائع کیاہے جس پربسم اللہ الرحمن الرحیم، السلام علیکم اور انشاء اللہ کے الفاظ تحریر تھے۔

رسالہ ’’انصاراللّٰہ‘‘ کے خلاف توہین رسالت کا ایک اور مقدمہ

ٹنڈوآدم تھانہ میں ایک اورمقدمہ مولوی احمدمیاں حمادی نے رسالہ ماہنامہ انصاراللہ کے ایڈیٹر مرزا محمد دین صاحب ناز، پبلشر چوہدری محمد ابراہیم صاحب ، پرنٹر قاضی منیر احمد صاحب اور مینجر رسالہ انصاراللہ کے خلاف زیر دفعات 298/C اور 295/Cتعزیرات پاکستان ۱۱؍ستمبر ۱۹۹۰ء کو دائر کیا ۔

ملاں حمادی نے اپنی تحریری درخواست میں لکھا کہ مورخہ ۹۰۔۳۔۲۱ کو مجھے ڈاک کے ذریعہ ایک لفافہ ملا جس میں ہلکے سبزرنگ کاکارڈ تھا ۔ اوپر بسم اللہ الرحمن الرحیم، نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم لکھا ہواتھا اور نیچے مینجر ماہنامہ انصاراللہ کے دستخط تھے۔ چونکہ احمدی ’’محمد رسول اللہ‘‘سے مراد مرزا غلام احمد قادیانی لیتے ہیں اس طرح رسول اللہ کی بے حرمتی کی ہے۔ نیز بسم اللہ شریف لکھ کر خود کو مسلمان ظاہرکیا ہے اور میرے مذہبی جذبات مجروح کئے ہیں لہذا دفعہ 298/C اور 295/Cتعزیرات پاکستان کے تحت قانونی کارروائی کی جائے ۔

احمدی ایڈووکیٹ پر توہین رسالت کامقدمہ

مورخہ ۴؍اکتوبر ۱۹۹۰ء کو ایک مقدمہ مکرم محمد اشرف صاحب سندھوایڈووکیٹ لاہور کے خلاف زیر دفعہ 295/Cمولوی محمد رمضان نے تھانہ باغبانپورہ لاہور میں درج کرایا۔ مولوی نے اپنے بیان میں احمدی ایڈووکیٹ پر الزام لگایاکہ انہوں نے نبی کریم ﷺ کی شان میں گستاخانہ الفاظ کہے ہیں۔

خدا تعالیٰ کے فضل سے عدالت نے مولوی کوجھوٹاقرار دے کرمحمد اشرف صاحب سندھو ایڈووکیٹ کو باعزت بری کردیا ۔

کلمہ طیبہ لکھ کر توہین رسالت کی گئی

سمبڑیال ضلع سیالکوٹ کے ایک بدنام ترین مولوی صاحبزادہ سلمان منیر کی تحریری درخواست پر مندرجہ ذیل احمدی مسلمانوں کے خلاف ایک مقدمہ زیر دفعات 295/Cاور298/Cتعزیرات پاکستان مورخہ ۸؍جولائی ۱۹۹۱ء کو تھانہ سبمڑیال میں درج کیا گیا ۔ ان کاجرم مسجد احمدیہ پر کلمہ طیبہ تحریر کرنا بتایا گیا ۔

۱۔ مکرم خواجہ محمد امین صاحب ۲۔ مکرم ملک عنایت اللہ صاحب۳۔ مکرم حمید الحسن شاہ صاحب ۴۔مکرم محمد یوسف صاحب ۵۔مکرم ملک نثار احمد صاحب۶۔ مکرم محمود احمد صاحب سابق صدر جماعت احمدیہ سمبڑیال۔

مولوی سلمان منیر نے پولیس کو اپنی درخواست میں لکھا کہ اس سے قبل علاقہ مجسٹریٹ نے اس مسجد اورکئی قادیانیوں کے گھروں سے کلمہ طیبہ کے متبرک الفاظ کوہٹاکر محفوظ کیاتھااور دوبارہ خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کے سلسلہ میں مقدمات درج تھے جو ابھی تک زیر سماعت ہیں ۔ اس کے باوجود قادیانیوں نے اپنی مسجد پردیدہ دانستہ طورپر کلمہ طیبہ لکھ کر قانون کی صریح خلاف ورزی کی ہے اور تمام مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کیا ہے ۔چونکہ قادیانی اپنے مذہب کے مطابق محمد رسول اللہ سے مراد مرزا غلام احمد قادیانی لیتے ہیں اوراس طرح توہین رسالت کے مرتکب ہوتے ہیں لہذا قادیانیوں کی ایگزیکٹو باڈی کے خلاف قانونی کاروائی کی جائے ۔

دوکانوں اور مسجد پرکلمہ طیبہ لکھنے کی وجہ سے ایک اورمقدمہ

دوکانوں اور مسجد پر کلمہ طیبہ لکھنے کی وجہ سے ایک اور مقدمہ شاہد امین بھٹی مسلم مجاہد فورس چونڈہ نے مورخہ ۲۱؍ستمبر ۱۹۹۱ء کو زیر دفعہ 295/Cتعزیرات پاکستان تھانہ پھلورہ سیالکوٹ میں مندرجہ ذیل احمدیوں کے خلاف درج کرایا :

۱۔ مکرم غفار احمد بٹ صاحب ۲۔ مکرم بشارت احمد بٹ صاحب۳۔ مکرم محبوب احمد بٹ صاحب۴۔ مکرم محمد یعقوب بٹ صاحب۵۔ مکرم محمد اسلم مغل صاحب۶۔ مکرم رحمت اللہ صاحب ۷۔ مکرم محمداسمٰعیل صاحب امیر جماعت چونڈہ۔

اس نے درخواست میں لکھا ’’قادیانی گروہ کی اسلام دشمن اور ملک دشمن سرگرمیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے درج ذیل گزارشات کی جاتی ہیں کہ قادیانی گروہ پاکستانی آئین کی روسے غیرمسلم اقلیت قرار دیا جا چکاہے اور کوئی بھی قادیانی صدارتی آرڈیننس مجریہ ۱۹۸۴ء کے تحت شعائر اسلامی جیسے مسجد ، کلمہ طیبہ، تبلیغ اسلام ، اذان ، قرآن اور رسالت وغیرہ قصداً اشارۃً کنایۃً بالواسطہ یابلا واسطہ اپنے مذموم مقاصد کے لئے استعمال نہیں کر سکتا۔ لہذا ہم پرزور استدعا کرتے ہیں کہ ان کے خلاف پاکستانی قانون کے مطابق فوری طورپر تعزیرات پاکستان کی دفعہ 295/C کے تحت مقدمہ درج کرکے گرفتاریاں عمل میں لائی جاویں۔

جھوٹا الزام لگاکر توہین رسالت کامقدمہ قائم کردیا

مورخہ ۲۹؍اکتوبر ۱۹۹۱ء کو شاہدرہ لاہور کے ایک بدبخت شخص محمد مظفر چغتائی ولد محمد اصغرچغتائی نے مکرم حبیب اللہ صاحب سوشل سیکیورٹی آفیسر شاہدرہ پرسراسرجھوٹا الزام لگاکر زیردفعہ295/C تعزیرات پاکستان تھانہ شاہدرہ میں ایک مقدمہ درج کرایا ۔ پولیس کو درخواست دیتے ہوئے اس نے کہاکہ مورخہ ۲۴؍اکتوبر ۱۹۹۱ء کو جب وہ اپنی دوکان چغتائی ٹائم سنٹر میں موجود تھا نعمت اللہ خان نیازی ولداحمد خان نیازی اسسٹنٹ کنٹری بیوشن سیکشن لوکل آفس شاہدرہ نے میری اورمیرے دو ساتھیوں ناصرزمان پیرزادہ ولد محمد جمیل اسسٹنٹ سوشل سیکیورٹی شاہدرہ اور فرید رانا ولد محمد عاشق جونئر کلرک سوشل سیکیورٹی شاہدرہ کی موجودگی میں بتایاکہ حبیب اللہ قادیانی سوشل سیکیورٹی آفیسر شاہدرہ نے کہاکہ ’’حضرت زینب پررسول اللہﷺ عاشق ہوگئے تھے اور انہیں طلاق دلواکر خود نکاح کرلیا(نعوذباللہ)‘‘ ۔ اس طرح رسول کریم ﷺ کی توہین کی گئی ہے جس سے میرے مذہبی جذبات مجروح ہوئے لہذا اس کوزیردفعہ 295/C فوری گرفتارکرکے قانونی کارروائی کی جائے ۔

یہ مقدمہ اوصاف علی خان سیشن جج کی عدالت میں سماعت کے لئے پیش ہوا جنہوں نے مکرم حبیب اللہ صاحب کویکم اگست ۱۹۹۲ء کو ا س الزام سے باعزت بری کردیا ۔

قرآن کریم کا ترجمہ کرنے پرمقدمہ

مورخہ ۵؍دسمبر ۱۹۹۱ء کو مکرم خان محمد صاحب امیر جماعت احمدیہ ضلع ڈیر غازی خان اور مکرم رفیق احمد صاحب نعیم کے خلاف سرائیکی زبان میں قرآن مجید کا ترجمہ کرنے کی وجہ سے زیر دفعہ295/A تعزیرات پاکستان تھانہ ڈیرہ غازیخان میں ایک مقدمہ درج کیا گیا ۔

روزنامہ ڈان پاکستان کی ۲۶؍اپریل ۱۹۹۲ء کی اشاعت کے مطابق یہ مقدمہ مولوی اللہ وسایا امیر مجلس ختم نبوت ڈیرہ غازیخان کی درخواست پر درج کیا گیا ۔ اس نے اپنی درخواست میں لکھا کہ قادیانیوں کوکافر قرار دیاجا چکاہے مگرپھربھی انہوں نے قرآن مجید کا سرائیکی زبان میں ترجمہ کر کے مسلمانوں کے مذہبی جذبات کومجروح کیا ہے۔

مقدمہ کے اندراج کے بعد مورخہ ۱۲؍ جنوری ۱۹۹۲ء کو رفیق احمد صاحب نعیم کو گرفتارکر لیاگیا اورمورخہ ۳۰؍جنوری کو عدالت نے دونوں کی ضمانت کی درخواست مسترد کر دی۔ اس طرح مکرم خان محمد صاحب بھی گرفتارہو گئے۔

اسی دوران پولیس نے ان دونوں کے خلاف زیر دفعات 295/B اور 295/C تعزیرات پاکستان کااضافہ کردیا۔

یہ امربھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ دفعہ 295/A کے تحت سزا دس سال قید تک ہو سکتی ہے جبکہ 295/B کے تحت سزا عمرقید اوردفعہ 295/Cکے تحت سزائے موت مقررہے ۔

مولوی حضرات نے اس مقدمہ کے سلسلہ میں جماعت کے خلاف خوب شور مچایا ۔ چنانچہ روزنامہ جنگ لاہور کے ۱۶؍دسمبر۱۹۹۱ء کے شمارہ کی خبرکے مطابق مجلس احرار اسلام ربوہ کے رہنما مولوی اللہ یارارشد اور سپاہ صحابہ سرگودھا کے مولوی احمد علی نے قرآن مجید کا سرائیکی ترجمہ کرنے پرسزائے موت کامطالبہ کیا ہے ۔ انہوں نے کہا ’’قادیانی پاکستان کے آئین کے مطابق کافر مرتد اوردائرہ اسلام سے خارج ہیں اس لئے وہ نجس ہیں ۔ وہ اللہ کے کلام کوہاتھ نہیں لگاسکتے چہ جائیکہ اس کا ترجمہ کریں ‘‘۔

کوٹری سندھ کےاحمدی مسلمانوں پر توہین رسالت کامقدمہ

مورخہ ۳۱؍مارچ ۱۹۹۲ء کوپولیس کوٹری سندھ میں واقع مسجد کے لئے پلاٹ جس کی چاردیواری مکمل ہوچکی تھی اوراس میں مربی ہاؤس ہے پر چھاپہ مار کر مندرجہ ذیل چار احمدیوں کوگرفتار کر کے لے گئی۔

۱۔۔۔ مکرم مبشراحمد صاحب۲۔۔۔مکرم غلام باری صاحب۳۔۔۔ مکرم ناصر احمد بلوچ صاحب ۴۔۔۔مکرم عبدالقدوس صاحب

ان پر الزام لگایا گیا کہ انہوں نے اپنے تبلیغی مرکز میں قادیانی فرقہ کی اچھائی بیان کی اور

نبی کریم ﷺ کے بارے میں توہین آمیز کلمات کہے ۔اسطرح ان پر زیردفعات 298/C اور 295/Cتعزیرات پاکستان مقدما ت قائم کئے گئے ۔

جمعہ کی نماز ادا کرنے کے جرم میں ایک اور مقدمہ

کوٹری میں ہی مورخہ ۳؍اپریل۱۹۹۲ء بروز جمعہ تقریباً ساڑھے بارہ بجے بعد دوپہر پولیس کی بھاری جمعیت نے مجسٹریٹ کی سرکردگی میں دوبارہ چھاپہ مارا اور نماز جمعہ کے لئے آنے والے ۲۰ احمدی مسلمانوں کوگرفتار کر لیا جن کے نام مندرجہ ذیل ہیں۔

مکرم مظفر احمدصاحب،مکرم شہباز احمد صاحب، مکرم منیراحمد صاحب، مکرم محمد اسلم صاحب، مکرم امتیاز احمد صاحب ، مکرم عبدالقدیر صاحب، مکرم افتخار احمد خالد صاحب، مکرم مبارک احمد صاحب، مکرم سعید احمد صاحب، مکرم فاروق احمد صاحب، مکرم شاہداحمد صاحب تالپور، مکرم کاشف احمد بھٹی صاحب ، مکرم عبداللہ عابد صاحب، مکرم اسامہ منصورصاحب،مکرم رفیق احمد صاحب، مکرم فرحان احمد صاحب (عمر ۱۲ سال)، مکرم مہتاب احمد صاحب (عمر ۱۳ سال) مکرم رشید احمد صاحب ، مکرم اعجاز احمد صاحب، مکرم بخت علی صاحب۔

ان پر الزام یہ لگایا گیا کہ یہ تبلیغی اجتماع کر رہے تھے۔ ایک شخص خطبہ دے رہا تھا جس کا نام اعجاز احمد بتایا گیا اوروہ اسلام کے خلاف تقریر کر رہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ رسول کریم ﷺ پر نبوت ختم نہیں ہوئی ۔ رسو ل کریمؐ سے کئی غلطیاں ہوتی تھیں اورمذہب اسلام کے بارہ میں توہین آمیز الفاظ بول رہا تھا ۔ اس طرح پولیس نے ان کے خلاف زیر دفعہ 298/C اور 295/C تغریرات پاکستان مقدمہ درج کر لیا۔ پولیس نے گرفتار شدہ احمدیوں پر تشدد بھی کیا اور مزید گرفتاریوں کے لئے بعض گھروں میں چھاپے بھی مارے ۔

شادی کارڈ پر السلام علیکم، بسم اللہ الرحمن الرحیم، نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم اور انشاء اللہ لکھنے پر مقدمہ

ننکانہ کے ایک احمدی دوست چوہدر ی ناصر احمد صاحب جوعدالت میں ایک وکیل کے منشی کے طورپر کام کرتے ہیں انہوں نے اپنی بیٹی کی شادی جو ۱۵؍مئی ۱۹۹۲ء کو ہونا قرار پائی تھی شادی کا دعوت نامہ شائع کیا جس پر مورخہ ۱۶؍مئی۱۹۹۲ء کو مہر شوکت علی ناظم اعلیٰ عالمی مجلس ختم نبوت ننکانہ نے چوہدری ناصر احمد اور ۱۲ دیگر احباب کے خلاف پولیس کو تحریری درخواست دی جس میں لکھا کہ ناصر احمد تبلیغ احمدیت کا عادی مجرم ہے اور اس کے خلاف تبلیغ کرنے کے جرم میں پہلے بھی ایک مقدمہ تھانہ ننکانہ میں درج ہے ۔

اس نے اب اپنی لڑکی کی شادی کے موقع پر جو دعوتی کارڈ جاری کیاہے اس پر السلام علیکم،بسم اللہ الرحمن الرحیم، نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم، انشاء اللہ اور نکاح مسنونہ کے الفاظ درج ہیں ۔ یہ شعائرصرف مسلمانوں کے لئے مخصوص ہیں اسلئے ان تمام افراد پر جن کے نام دعوتی کارڈ پر چھپے ہوئے ہیں زیر دفعات 298/C,295/A اور 295/C تعزیرا ت پاکستان مقدمات کا اندراج کیا جائے۔ چنانچہ مندرجہ ذیل تیرہ افراد پر یہ مقدمات بنائے گئے اور دعوتی کارڈ پولیس نے اپنے قبضہ میں لے لیا ۔

چوہدری ناصر احمد صاحب ننکانہ، بیگم چوہدری ناصراحمد صاحب ننکانہ، چوہدری سرفراز احمد صاحب ننکانہ، بیگم چوہدری سرفراز احمد صاحب ننکانہ ، اعجاز احمد صاحب ننکانہ ، چوہدری محمد یوسف صاحب فیصل آباد، چوہدری سکند ر پرویز کراچی ، چوہدری بشیر احمد صاحب فیصل آباد، چوہدری خالد احمد صاحب کراچی، چوہدری اعجاز احمد صاحب لاہور، چوہدری بشیر احمد صاحب ننکانہ ، چوہدری بابرصاحب ننکانہ ، چوہدری شاہ رخ سکندر صاحب ننکانہ۔

یہ امر قابل ذکر ہے کہ ان افراد میں تین غیر احمدی تھے اور شاہ رخ سکندر ۹ماہ کا بچہ تھا۔ ۹ماہ کے بچہ کے اوپر مقدمہ پر تبصرہ کرتے ہوئے لندن سے شائع ہونے والے ایک ہفت روزہ ایسٹرن آئی (Eastern Eye)نے لکھا کہ معلوم نہیں کہ جج اس ۹ماہ کے بچے کوکیا سزا دے گا شاید وہ یہ حکم دے کہ اس کا پوتڑا (Nappy) ایک ماہ تک تبدیل نہ کیاجائے یا سزا کے طورپر اس کے تمام کھلونے ضبط کر لئے جائیں اور مولوی جس نے یہ مقدمہ درج کرایا ہے اس کی عقل کی داد دیتے ہوئے طنزیہ لکھتاہے کہ وہ کس قسم کا انسان ہے ۔ میرے خیال میں تواس کا دماغ سائز میں چیونٹی کی دم سے بھی نصف معلوم ہوتاہے ۔

مقدمہ کے اندراج کے فوراً بعد مورخہ ۱۸؍مئی ۱۹۹۲ء کو چوہدری ناصر احمد اور بابر کوگرفتار کر لیاگیا ۔ مورخہ ۹؍جون ۱۹۹۲ء کو بابر کو رہاکر دیاگیا کیونکہ پولیس کی تحقیقات کے مطابق وہ قصوروار نہیں تھا۔

مکرم ناصر احمد صاحب کی درخواست ضمانت ایڈیشنل سیشن جج ننکانہ نے مسترد کر دی لہذا ہائی کورٹ کی طرف رجوع کرنا پڑا ۔ روزنامہ پاکستان لاہور کی ۴؍اگست ۱۹۹۲ء کی اشاعت کے مطابق ہائی کورٹ لاہور کے جسٹس میاں نذیراختر نے ناصر احمد کی ضمانت بعد از گرفتاری اور تین افراد بشیر احمد، محمد یوسف اور اعجاز احمد کی ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواستیں مسترد کر دیں مگر اس کیس میں ملوث پانچ دوسرے افراد ، اعجاز احمد، سرفرازاحمد، بیگم سرفرازاحمد ، بیگم بلقیس ناصر احمد اور بابر کی عبوری ضمانتوں کی توثیق کر دی۔

ہائی کورٹ نے قرار دیاکہ قادیانی جب بھی آنحضور ﷺ کا نام لیتے ہیں وہ اس سے مراد مرزا غلام احمد قادیانی لیتے ہیں اور سارے شعائر اسلامی کو انہی کی طرف منسوب کرتے ہیں ۔اس طرح ننکانہ کے قادیانی ناصر احمد کی طرف سے جاری کردہ دعوت نامہ پر السلام علیکم، بسم اللہ الرحمن الرحیم، نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم، انشاء اللہ اور نکاح مسنونہ کے الفاظ واضح طورپر ظاہر کرتے ہیں کہ یہ دعوت نامہ کسی مسلمان کی طرف سے بھیجا گیاہے۔اس طرح دعوت نامہ بھیجنے والے قادیانی آئین اور تعزیرات پاکستان کے تحت سنگین جرم کے مرتکب ہوئے ہیں۔ ہائی کورٹ نے یہ فیصلہ ۲؍اگست ۱۹۹۲ء کو سنایا ۔

اس فیصلہ کی نقو ل حاصل کرکے فوری طورپر سپریم کورٹ میں فیصلہ کے خلاف اپیلیں دائر کر دی گئیں ۔ سپریم کورٹ کے فل بنچ نے جو جسٹس ڈاکٹر سید نسیم حسن شاہ ، جسٹس شفیع الرحمن، جسٹس عبدالشکور سلام پرمشتمل تھا ہائی کورٹ کے فیصلہ پرتبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ السلام علیکم، بسم اللہ الرحمن الرحیم، نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم، انشاء اللہ اور نکاح مسنونہ کے الفاظ جو شادی کارڈ پرشائع ہوئے کسی مسلمان یا کسی اور شخص کے جذبات مجروح نہیں کر سکتے اور جس شخص پرایسا الزام عائد کیا گیا ہو اس کی مذہبی بنیاد اور حالات دیکھ کر ایسا فیصلہ کرنا چاہئے ۔ عدالت نے یہ فیصلہ بھی دیاکہ یہ الفاظ توہین رسالت کے زمرے میں نہیں آتے ۔ اس طرح سپریم کورٹ کے فل بنچ نے ہائی کورٹ کے فیصلہ کو نظرانداز کر کے تمام احمدی احباب کی ضمانت منظور کر لی۔

اس طرح مقدمہ کی سماعت ایڈیشنل سیشن جج ننکانہ میں شروع ہوئی اور مورخہ ۱۴؍جون ۱۹۹۴ء کو ناصر احمد پر السلام علیکم، بسم اللہ الرحمن الرحیم، انشاء اللہ اور نکاح مسنونہ وغیرہ شعائراسلامی استعمال کرنے پر دفعہ 295/Aکے تحت نیز نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم لکھنے پر دفعہ 295/C کے تحت اور ان شعائر اسلامی کو استعمال کرنے کی وجہ سے خود کو مسلمان ظاہر کرنے پردفعہ 298/C تعزیرات پاکستان فرد جرم لگائی گئی۔

مورخہ ۲۳؍اپریل ۱۹۹۵ء کو ایڈیشنل جج محمد اکرم زکی نے اس کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے مکرم ناصر احمد صاحب کو چھ سال قیدبامشقت اور ایک ہزار روپے جرمانہ کی سزا زیر دفعہ 298/C اور 295/A سنائی جب کہ سپریم کورٹ کی رولنگ کے مطابق اس کیس میں ’’توہین رسالت‘‘ کا اطلاق نہیں ہوتا۔

خطوط کا سرقہ کر کے احمدیوں پر توہین رسالت کامقدمہ

ٹنڈو آدم سندھ کامولوی احمد میاں حمادی جو خود کو صوبائی کنوینر عمل مجلس تحفظ ختم نبوت سندھ و کا رکن شوریٰ، مرکزی تحفظ ختم نبوت پاکستان اور امیر مجاہدین تحفظ ختم نبوت پاکستان قرار دیتاہے اس نے اپنے ذمہ یہ شیطانی کام لے رکھاہے کہ جہاں موقع ملے جماعت احمدیہ کے اراکین کے خلاف توہین رسالت کے مقدمات درج کئے جائیں ۔ چنانچہ ۵؍اکتوبر ۱۹۹۲ء کو اس نے ڈاک کے ذریعہ بھیجے جانے والے رجسٹری خطوط کا سرقہ کر کے خطوط بھیجنے والے د س احمدیوں پر زیر دفعہ 298/C,295/A اور 295/C تعزیرات پاکستان ایک مقدمہ درج کرایا ۔ پولیس کو درخواست دیتے ہوئے اس نے لکھا کہ ایک رجسٹری میں شائع شدہ فارم تھا جو مرکزی سیکرٹری مال جماعت احمدیہ کی طرف سے سیکرٹری مال حلقہ گھارو کے نام بھجوایا گیا تھا ۔ اس فارم پر بسم اللہ الرحمن الرحیم ، نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم اور السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ لکھا ہوا تھا یہ عبدالمالک کراچی نے بھجوائی ہے ۔

دوسری رجسٹری میں نذیر احمد کراچی، صدرالدین سیکرٹری رشتہ ناطہ کراچی، مرزا عبدالرحیم بیگ نائب امیر جماعت احمدیہ کراچی، سید احمد علی شاہ ربوہ نائب ناظر اصلاح و ارشاد ، ایم جے اسد سیکرٹری تعلیم کراچی ، وکیل التبشیر نوابزادہ منصور احمد خان ربوہ،سید سخاوت ایڈیشنل سیکرٹری اصلاح و ارشاد اور جنرل سیکرٹری جماعت احمدیہ کراچی کے خطوط شامل تھے ان پر بھی السلام علیکم، بسم اللہ الرحمن الرحیم وغیرہ لکھا ہوا تھا ۔ اس طرح ان افراد نے زیر دفعہ 298/C،295/A اور 295/C تعزیرات پاکستان کے تحت جرم کا ارتکاب کیاہے۔ یہ سارے ملزم قادیانی ہیں اس لئے درخواست ہے کہ سب ملزمان کے خلاف قانونی کاروائی عمل میں لائی جاوے ۔

شعائر اسلامی استعما ل کرنے پر توہین رسالت کا مقدمہ

مکرم چوہدری عتیق احمد باجوہ صاحب ایڈووکیٹ جماعت احمدیہ وہاڑی کے خلاف مورخہ ۱۰؍نومبر ۱۹۹۲ء کو زیر دفعہ 298/C اور 295/C تعزیرات پاکستان ایک مقدمہ تھانہ دانیوال ضلع وہاڑی درج کیا گیا۔ ان کا جرم یہ بتایا گیا کہ انہوں نے ۶؍جولائی ۱۹۹۲ء کو پریس کانفرنس کا انعقاد کرتے وقت اور ۲۹؍جولائی ۱۹۹۲ء کو ڈسٹرکٹ بار وہاڑی میں خطاب کرتے وقت شعائراسلام استعمال کرکے توہین رسالت کا ارتکاب کیا ہے۔

یہ مقدمہ وہاڑی کے ایک شخص جاوید اقبال ولد نذیر احمد کی تحریری درخواست پر قائم کیا گیا ۔ اس نے اپنی تحریری درخواست میں لکھا ہے کہ ’’عتیق احمد باجوہ قادیانی ہے ، مرزا غلام احمد کا پیروکار ہے۔ اس طرح آئین اور قانون کی رو سے غیر مسلم ہے ۔ یہ خود کو نظام عدل تحریک کا کنوینر قرار دیتا ہے۔ اس نے مورخہ ۶؍جولائی ۱۹۹۲ء کو پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھا نیز مورخہ ۲۹؍جولائی ۱۹۹۲ء کو ڈسٹرکٹ بار وہاڑی سے خطاب سے پہلے السلام علیکم،اشہدان لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ و اشھدان محمداً عبدہ و رسولہ،اما بعد فاعوذ باللہ من الشیطن الرجیم ، بسم اللہ الرحمن الرحیم اور پھر سورۃ فاتحہ کی تلاوت کی اس طرح میرے اور دیگر وکلاء کے مذہبی جذبات کو مجروح کیا ۔ درخواست ہے کہ ان کے خلاف مذکورہ بالا دفعات کے تحت قانونی کاروائی کی جائے‘‘ ۔

مکرم عتیق احمد باجوہ صاحب نے اس مقدمہ میں قبل از گرفتاری ضمانت کرائی مگر ۱۶؍جنوری ۱۹۹۳ء کو عدالت نے کنفرمیشن کے وقت ان کی ضمانت اچانک کینسل کر دی اور انہیں گرفتار کر کے ملتان جیل بھجوا دیا گیا ۔

یہ امر بھی یاد رہے کہ مکرم عتیق احمد صاحب باجوہ کو ۱۹؍جون ۱۹۹۷ء کو دشمنوں نے فائر کر کے اس وقت شہید کر دیا جب وہ اپنی زمینوں پر جارہے تھے ۔

مناظرہ کا چیلنج دینے پر توہین رسالت کامقدمہ

مکرم رانا ارسال احمد صاحب مربی سلسلہ متعین جنوبی سرگودھا کے خلاف ایک اشد ترین مخالفت احمدیت محمد اکرم طوفانی آف سرگودھا کی درخواست پر تھانہ کڑانہ ضلع سرگودھامیں مو رخہ ۲۶ نو مبر ۱۹۹۲ء زیر دفعہ295/C(تو ہین رسالت) تعزیرات پاکستان ایک مقدمہ درج کیا گیا ۔ مو لوی طوفانی نے اپنی ایک تحریری درخواست میں کہا کہ

’’چک ۳۸ جنو بی کے مسلمانوں کے جذبات کو مشتعل کیا جارہا ہے جس کی صور تِ حا ل یہ ہے کہ قادیانیوں کا ایک مربی ارسال احمد چک ۳۳ اور چک ۳۸ جنوبی تھانہ کڑانہ میں مسلما نو ں کو مناظرہ کا چیلنج دیتا رہا ہے ۔آخرکار چک کے مسلمان میرے پاس آئے ۔ میں نے مناظرہ سے بچنے کی کوشش کی لیکن اس قادیانی نے مسلما نو ں کو طعنہ دیا کہ تمہارے مولوی ہمارا مقابلہ نہیں کرسکتے ۔آخرکا ر چک کے مسلما ن میرے پاس دوبارہ آ ئے تومیں نے انہیں لٹریچر دیا ۔ جب ان مسلمانوں نے مر زا صاحب کی کتاب کا حوالہ دے کر بتایا کہ مرزا صاحب نے کہا ہے کہ وہ محمد ؐ ہیں، رسول ہیں،ابراہیم ہیں تو کئی مسلمانوں کی مو جودگی میں راناارسال احمد نے توہین رسالت کا ار تکاب کیا جس سے چک ۳۸ میں

زبر دست اشتعال پایا جاتاہے ۔ استدعا ہے کہ قادیانی مربی کے خلاف زیر دفعہ295/Cتعزیرات پاکستان قانونی کاروائی کرکے مسلمانوں کو مطمئن کیا جائے۔‘‘ چنانچہ ان کے خلاف مقدمہ درج کرلیاگیا۔سیشن جج سے ان کی ضما نت کرا ئی گئی مگر بعد میں سیشن جج نے ضمانت قبل از گرفتاری منسوخ کرکے ان کو گرفتار کرلیاگیا ۔ اس کے بعد انکی ضمانت کی درخواست ہائی کورٹ لاہو ر میں دائر کی گئی جو منظو ر ہو گئی اسطرح آٹھ ہفتے جیل میں رہنے کے بعد وہ ضمانت پر باہر آئے ۔مقدمہ ابھی تک جاری ہے ۔

احمدی استانی پرتوہین رسالت کاالزام

محترمہ استانی امتہ اللہ سلیم صاحبہ کے خلاف مورخہ ۴؍فروری ۱۹۹۳ء کو ایک مقدمہ زیر دفعات 295/A اور 295/Cتھانہ دنیاپور ضلع لودھراں میں تبلیغ کرنے کے الزام میں درج کیا گیا۔

یہ مقدمہ دنیا پور کے رہائشی محمد علیم ولد عبدالرشید کی تحریری درخواست پر درج ہوا جس میں اس نے لکھا کہ ’’سائل کی دختر گورنمنٹ ہائی سکول دنیا پور میں جماعت ہشتم کی طالبہ ہے ۔ مورخہ ۲۷؍جنوری ۱۹۹۳ء کو سکول کی چھٹی کے بعد میری بیٹی اور ایک اور طالبہ کلثوم اخترجماعت دہم نے مجھے بتایا کہ آ ج اسمبلی میں ٹیچر قیصرہ شہزادی نے تمام طالبات کو قادیانیت کا پرچارکیا اورعمومی طورپر تمام طالبات کو کلمہ لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ پڑھایا۔ ٹیچر مذکرکے ساتھ دو اور قادنی ٹیچر زامتہ اللہ سلیم اور فرزانہ غنی بھی تھیں۔ قادیانیت کاپرچار کر کے انہوں نے ہم سب مسلمانان کے جذبات مشتعل کئے اسلئے ہر سہ کے خلاف تادیبی کاروائی فرمائی جائے ‘‘۔ چنانچہ استانی امتہ اللہ سلیم کے خلاف مقدمہ درج کرلیاگیا ۔

مقدمہ کے اندراج کے پولیس پردباؤ ڈالنے کے لئے تاجر برادری کے صدرعنایت اللہ نے ایک جلوس نکالا اورسڑکیں بلاک کر کے ٹائرجلائے گئے جس پر پولیس نے مقدمہ درج کر لیا ۔

لٹریچر دینے پر توہین رسالت کا مقدمہ

تھا نہ چھاؤ نی ایبٹ آباد میں مورخہ ۲۷؍جولائی ۱۹۹۳ء کو ایک مقدمہ زیر دفعہ298/A، 298/Cاور295/C تعزیرات پاکستان مکرم سید بشیراحمد شاہ صاحب کے خلاف درج کیا گیا۔ یہ مقدمہ وقارگل جدون صدر ختم نبوت یو تھ فورس ایبٹ آباد کی تحریری درخواست پر درج کیاگیا۔ درخواست دہندہ نے لکھا کہ ’’ ہمیں معلوم ہوا ہے کہ چند یوم سے سید بشیر شاہ ولد سید رحیم شاہ گاؤں پھگلہ بذریعہ لٹریچر قادیانی مذہب کی تشہیر ایبٹ آباد میں کررہا ہے ۔ اس نے ایک کتاب ’’میری والدہ‘‘ مصنف چوہدری ظفراللہ خان ایک شخص حامد ولد حاجی محمد صادق انور اور ٹھیکیدار احمد افضل کو پڑھنے کے لئے دی ۔کتاب ’’ میری والدہ‘‘ کے ملاحظہ سے معلوم ہوا کہ اس میں مذہب اسلام کی توہین کی گئی ہے ۔ حضور ﷺ اوراہل بیت اورصحابہ کرامؓ کی شان میں واضح گستاخیاں ہیں لہٰذا بذریعہ درخواست ہذا استدعا ہے کہ مذکو رہ شخص کے خلاف قانو نی کاروائی کی جائے ‘‘۔چنانچہ دفعات 295/C اور 298/Cکے تحت سید بشیر احمد شاہ صاحب کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا ۔

تبلیغ کرنے پر توہین رسالت کامقدمہ

مورخہ ۸ اکتوبر ۱۹۹۳ء کو ایک احمدی نوجوان سعد رفیق جو انجنیرنگ یونیورسٹی میں طالب علم تھے اور ان کے وا لد میاں رفیق احمد صاحب کے خلاف سرور روڑ لاہو ر چھاؤ نی ایک مقدمہ زیردفعہ 298/C اور 295/Cتعزیرات پاکستان درج کیا گیا۔ یہ مقدمہ رضوان غفور ولد میا ں عبدالغفو ر نیو کیمپس لاہو ر کی تحریری درخواست پر درج کیاگیا جس میں لکھا گیا کہ ’’ میاں سعد احمد قادیانی ہے لیکن اپنے آ پ کو مسلمان ظاہر کرتاہے اوراسی بنیاد پراس نے گو رنمنٹ کالج لاہو ر اورانجیرنگ یونیورسٹی لاہور میں داخلہ لیا اور تاحال انجینئرنگ یونیورسٹی لاہور کے شعبہ الیکٹریکل انجینئرنگ میں سال چہارم کا طالب علم ہے ۔ یہ شخص براہ راست اور بالواسطہ اپنے دین کی تبلیغ سرعام کرتاہے اور اپنے دین کو اسلام کہتاہے اور زبانی و تحریری دونوں طریق سے اپنے دین کی دعوت دیتاہے اور اس طرح مسلمانوں کے جذبات کو شدید طور پر مجروح کرتاہے ۔

آج مورخہ ۸؍اکتوبربروز جمعہ بعد از فراغت نما ز جمعہ ہم اپنے دوست حماد رانا رہائشی کینٹ بورڈ کے گھر جا رہے تھے ۔ہم سب یعنی رضوان، غفور ، عاصم ، نعمان بھٹی، نبیل ، نعیم ، وسیم، کامران، احسن عمر ، آصف عمر، ندیم پرویز ، انعام اللہ، محمد جمیل،فیض الاسلام، عرفان علی سید حماد رانا کے گھر جا رہے تھے تو راستے میں احسن عمر کو میاں سعد احمد مل گئے جس پر میاں سعد احمد نے احسن کو تبلیغ شروع کر دی۔احسن عمر کے بارہا منع کرنے کے باوجود وہ تبلیغ کرتارہا۔ اسی اثناء میں اس کا والد میاں رفیق احمد بھی وہاں آ گیا ۔ دونوں نے سب کی موجودگی میں اعلانیہ نبی کریم ﷺ کی ختم نبوت سے انکار کیا اور نبی کریم ﷺ کی شان میں گستاخی کے مرتکب ہوئے اور ہمیں اپنے دین پر جو ان کے مطابق اصل اسلام ہے قائل کرنے کی کوشش کی اور مرزا طاہر احمد کو خلیفۃ المومنین کہا۔ یہ باتیں سن کر ہم مشتعل ہو گئے اور دونوں باپ بیٹے کو تھانہ لے آئے ہیں ۔ میاں اسعد نے یہ باتیں تھانہ میں دہرائیں اور اس طرح وہ مسلمانوں کے مذہبی جذبات سے کھیل رہاہے اور شدیداشتعال انگیزی کا باعث بن رہا ہے جو ایک ناقابل معافی فعل ہے اور قابل سزا جرم ہے اس لئے ان باپ بیٹا دونوں کے خلاف سخت قانونی کاروائی کی جائے‘‘۔

چنانچہ درخواست پردونوں باپ بیٹے کے خلاف مقدمہ نمبر ۸۷ تھانہ سرور روڈ ضلع لاہور میں درج ہو گیا۔

اصل واقعہ کی تفصیل یوں ہے کہ ان نوجوانوں نے باقاعدہ پہلے سے طے شدہ پروگرام کے مطابق سعد رفیق کو اس کے گھر سے باہر بلایا اوراس کے گھر کے سامنے زدوکوب کیا ۔ ان کے والد رفیق احمد صاحب اس کو بچانے کے لئے باہر نکلے توانہیں بھی مارا ۔ اس دوران کئی لوگ وہاں اکٹھے ہو گئے ۔ راہ چلتے ہوئے دو پولیس اہلکار ان کو تھانہ لے آئے۔ وہاں پہنچ کر لڑکوں نے الزام لگایا کہ احمدی باپ بیٹا انہیں تبلیغ کر رہے تھے اور نعوذباللہ اہانت رسول کریم ﷺ کے مرتکب ہو رہے تھے ۔

سراسر جھوٹا توہین رسالت کا ایک اور مقدمہ

مکرم چوہدری ریاض احمد ولد چوہدری رستم خان صاحب ، مکرم بشارت احمد ولد مکرم چوہدری ریاض احمد صاحب ، مکرم قمر احمد اور مکرم مشتاق احمد پسران مکرم محمود احمدصاحب ساکن چک 15/DB ضلع میانوالی کے خلاف تھانہ پپلاں ضلع میانوالی میں ایک مخالف سلسلہ عالیہ احمدیہ مولوی محمد عبداللہ ولد محمد مظفر جو اسی گاؤں کا رہنے والا ہے نے زیر دفعہ 295/C تعزیرات پاکستان ایک مقدمہ مورخہ ۲۱؍نومبر ۱۹۹۳ء کو درج کروایا جو سراسر جھوٹ پر مبنی ہے ۔ مخالف نے اپنی درخواست میں لکھا:

’’میں مجلس تحفظ ختم نبوت کا کارکن ہوں۔ میں مورخہ ۱۱؍نومبر ۱۹۹۳ء کو ۱۱ بجے دن کے قریب اپنے ایک کزن کے ساتھ سڑک کے کنارے کھڑاتھا کہ مسمیان ریاض احمد ، بشارت احمد، قمر احمد اور مشتاق احمد جو کہ غیر مسلم قادیانی ہیں ہمیں دیکھ کر ہماری طرف بڑھے اور طنزاً کہا کہ یہ سرکاری مسلمان ہیں ۔ اس طرح انہوں نے ہمارے مذہبی جذبات مجروح کئے لیکن ہم خاموش رہے اس کے باوجود انہوں نے رسول کریم ﷺ کی شان میں گستاخانہ کلمات کہے اور یہ کہا کہ وہ مرزا غلام احمد کو سچا نبی مانتے ہیں جو حضور پاکﷺ سے شان میں کم نہیں اور ساتھ ہی حضرت محمد مصطفی ﷺ کی ذات کی بابت ناقابل برداشت کلمات کہتے ہوئے انہوں نے ہمیں کہا کہ ہمارے نبی کے تین لاکھ معجزات ہیں جبکہ آپ کے نبی کے تین ہزار معجزات تھے ۔

اگر مذکورہ حالات کو مدنظر رکھ کر ملزمان کے خلاف کارروائی نہ کی گئی تو سارے علاقے کے مذہبی جذبات مجروح ہونگے اور امن عامہ کے نقص کے علاوہ مذہبی اختلاف پورے ملک کو لپیٹ میں لے لے گا لہذا ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کر کے مشکور فرماویں۔

اس مقدمہ کے اندراج کے ساتھ ہی چاروں احمدیوں کو گرفتارکر کے میانوالی جیل بھجوا دیا گیا۔ ان کی ضمانت کی درخواست سماعت کے لئے پیش ہوئی مگر اس پر تاریخیں پڑتی گئیں۔ جب کبھی عدالت میں ضمانت کی درخواست سماعت کے لئے پیش ہوتی مولوی محمد اکرم طوفانی آف سرگودھا اور دیگر مولوی اپنے چیلے چانٹوں کے ساتھ عدالت میں آ موجود ہوتے اور مطالبہ کرتے کہ احمدیوں کی ضمانتیں نہیں ہونے دیں گے۔ آخر کار جنوری ۱۹۹۴ء کو عدالت نے ان کی ضمانت کی درخواستیں مسترد کردیں ۔ لہذا ہائی کورٹ لاہور کی طرف رجوع کرنا پڑا۔ہائی کورٹ لاہور میں یہ درخواستیں جسٹس شیخ زبیراحمد کی عدالت میں زیر سماعت آئیں مگر انہوں نے یہ معاملہ چیف جسٹس کو بھجوا کر کہا کہ اس کو نپٹانے کے لئے بڑا بنچ مقرر کیا جائے چنانچہ چیف جسٹس نے جسٹس خلیل الرحمن ، جسٹس نذیر اختر اور جسٹس شیخ زبیر احمد پرمشتمل ایک بنچ ضمانت کی درخواست کی سماعت کے لئے مقرر کیا۔

جنگ لندن کے شمارہ مورخہ ۱۴؍جون ۱۹۹۴ء کی مندرجہ ذیل خبر کے مطابق یہ درخواستیں مسترد کردی گئیں۔ اخبار نے لکھا :

’’ہائی کورٹ نے تھانہ پپلاں ضلع میانوالی کے توہین رسالت کے مقدمے میں ملوث ایک ہی خاندان کے چار قادیانیوں کی ضمانت کی درخواستیں مسترد کردی ہیں تاہم اس مقدمے کی سماعت کرنے والی ماتحت عدالت کو حکم دیا ہے کہ اس کیس کو دوسرے تمام کیسوں پر فوقیت دیتے ہوئے اس کی سماعت تیز رفتاری سے تین ماہ کے اندر اندر مکمل کرے۔ یہ حکم تھانہ پپلاں ضلع میانوالی کے ریاض احمد اس کے بیٹے بشارت احمد اور دو بھتیجوں قمر احمد اور مشتاق احمد کی طرف سے دائر کی گئی ضمانت کی درخواستوں پر لاہور ہائی کورٹ کے جناب جسٹس میاں نذیر اختر نے جاری کیا ہے۔

فاضل جج نے اپنے تفصیلی فیصلے میں لکھا ہے کہ درخواست گزاروں نے جو کہ قادیانی ہیں مبینہ طورپر نبی کریم صلعم کے بارے میں گستاخانہ زبان استعمال کر کے اورکھلے عام یہ کہہ کر کہ مرزا غلام احمد مرتبے میں رسول پاک صلعم سے کم نہیں تھا اور یہ کہہ کر کہ رسول پاک صلعم کے معجزوں کی تعداد تین ہزار اور مرزا غلام احمد کے معجزوں کی تعداد تین لاکھ ہے مرزا غلام احمد کو بلند تر روحانی مقام پر فائز کرتے ہوئے بادی النظر میں توہین رسالت کاارتکاب کیاہے‘‘۔

یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ مقدمہ کی سماعت کے دوران اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نذیر احمد غازی نے کہا کہ قادیانی مذہب انگریز حکمرانوں کا لگایاہوا پودا ہے اور قادیانیوں کی مذہبی کتابوں میں توہین رسالت پر مبنی مضامین شامل ہیں نیز نذیر احمد غازی نے عدالت میں یہ بیان بھی دیا ہے کہ اگر چاروں ملزمان احمدیت سے تائب ہو جائیں اور مرزا غلام احمد کی تعلیمات سے انکار کر دیں تو وہ ان کی ضمانت کی درخواستوں کی مخالفت نہیں کریں گے۔

اس کیس کا پس منظر یہ ہے کہ مکرم ریاض احمد صاحب اپنے گاؤں کے نمبردار ہیں مگر مدعی فریق نے ان کے خلاف مقدمہ دائر کر رکھا ہے اور وجہ یہ بیان کی ہے کہ احمدی گاؤں کا نمبردار نہیں ہو سکتا۔ اس مقدمہ کی سماعت ڈپٹی کمشنر میانوالی نے کی اور فیصلہ مکرم ریاض احمدصاحب کے خلاف دیا مگر کمشنر سرگودھا نے اپیل پرمکرم ریاض احمد صاحب کے حق میں فیصلہ دے دیا اور لکھا کہ ایک احمدی کا نمبر دار ہونے قانوناً منع نہیں۔ اس کے بعد مدعی محمد عبداللہ نے ریونیو بورڈ لاہور میں اس فیصلہ کے خلاف اپیل دائر کی ہوئی ہے اس کے علاوہ بھی فریقین میں مقدمہ بازی چلی آ رہی ہے ان حالات میں مخالفین نے مکرم ریاض احمد صاحب اور ان کے عزیزوں کے خلاف مذہبی تعصب کی وجہ سے عداوت کی بنا پر مورخہ ۲۱؍نومبر ۱۹۹۳ء کو توہین رسالت کا مقدمہ درج کرایا جو سراسر جھوٹا ہے۔ ہائی کورٹ میں ضمانت کی درخواستیں مسترد ہونے کے بعد سپریم کورٹ سے رجوع کیا گیا مگروہاں بھی معاملہ التوا میں پڑ تاگیا حتی کہ چار سال جیل میں رہنے کے بعد سپریم کورٹ نے بالآخر ان چاروں کی ضمانت کی درخواست منظور کر لی اور اب مقدمہ سیشن جج کی عدالت میں چل رہا ہے ۔

’’حضور‘‘ کا لفظ استعمال کرنے پر توہین رسالت کا مقدمہ

روزنامہ الفضل کی انتظامیہ یعنی ایڈیٹر نسیم سیفی صاحب، پبلشر و مینجر آغاسیف اللہ صاحب اور پرنٹر قاضی منیر احمد صاحب کے خلاف ڈپٹی کمشنر جھنگ کی ہدایت پر دو مقدمات یکے بعد دیگرے مقدمہ نمبر ۱۲ مورخہ ۱۵؍جنوری ۱۹۹۴ء اور مقدمہ نمبر ۲۶مورخہ ۲۱؍جنوری ۱۹۹۴ء کو تھانہ ربوہ میں زیر دفعہ 298/C درج کئے گئے۔ ان مقدما ت کی وجوہات یہ بیان کی گئیں کہ مقدمہ نمبر ۱۲ میں جولائی ۱۹۹۳ء کے ۱۹پرچوں میں اور مقدمہ نمبر ۲۶ میں ستمبر ، اکتوبر اور نومبر ۱۹۹۳ء کے چار پرچوں میں ’’احمدیوں کو مسلمان ظاہر کیا گیا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بارہ میں لفظ ’’حضور‘‘ استعمال کیا گیاہے۔ ان تینوں دوستوں کی ضمانت قبل از گرفتاری کروائی گئی مگر ۷؍فروری ۱۹۹۴ء کو جب ضمانت کی توثیق کے لئے سیشن جج چنیوٹ کی عدالت میں درخواست کی گئی جس پر ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج اختر نقوی نے نہ صرف ضمانتیں نامنظور کردیں بلکہ فیصلہ ضمانت میں دفعات 298/C اور 295/C تعزیرات پاکستان کا اضافہ کر کے تینوں احباب کو گرفتار کر لیا ۔

فیصلہ میں اس نے لکھا کہ میں نے پولیس فائل کے ساتھ منسلک الفضل کے پرچوں کا بغور معائنہ کیا ہے جس میں بانی سلسلہ احمد یہ مرزا غلام احمد کو نام لئے بغیر لفظ ’’حضور‘‘ تحریر ہے اور یہ لفظ جب کسی شخص کے نام کے بغیر بولا یا لکھا جائے تو اس سے مراد حضرت محمد ﷺ ہوتے ہیں اس طرح رسول کریم ﷺ کی ہتک کی گئی ہے جس کی وجہ سے دفعہ 295/C لاگو ہوتی ہے اور ایک جگہ مرزا غلام احمد کے ساتھ رضی اللہ تعالیٰ عنہ لکھا گیاہے جو صرف صحابہؓ اور خلفاء راشدین کے ساتھ استعمال کیا جا سکتاہے اس طرح وہ دفعہ 298/C کے تحت بھی سزا کے مستحق ہیں۔

اس طرح سیشن جج سید اخترنقوی نے ضمانت کی درخواستیں مسترد کرتے ہوئے پولیس کو ان احمدی احباب کو گرفتار کرنے کا حکم دیا ۔

رسالہ انصاراللہ کی انتظامیہ کے خلاف مقدمہ بھی توہین رسالت میں تبدیل کر دیا گیا

ماہنامہ انصاراللہ کی انتظامیہ مرزا محمد دین صاحب ناز ایڈیٹر ، چوہدری محمد ابراہیم صاحب پبلشر اور قاضی منیر احمد صاحب پرنٹر کے خلاف بھی دو مقدما ت تھانہ ربوہ میں درج کرائے گئے۔

ایک مقدمہ نمبر ۲۸۵ مورخہ ۲۹؍دسمبر ۱۹۹۳ء کو ایک مخالف سلسلہ صوفی نور محمد سکنہ احمد نگر نے ایڈیٹر پبلشر اور پرنٹر ماہنامہ انصاراللہ کے خلاف درج کروایا جس میں تبلیغ کرنے کاجرم درج کیا گیا ہے ۔ اور دوسرا مقدمہ نمبر ۱۱ ڈپٹی کمشنر جھنگ کی ہدایت پر ۱۵؍جنوری ۱۹۹۴ء کو زیر دفعہ 298/C تھانہ ربوہ میں درج ہوا جس میں کہا گیا کہ ماہنامہ انصاراللہ کے جون ۱۹۹۳ء کے شمار ہ میں ایسامواد ہے جس سے احمدیوں نے اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کیا ہے ۔ ان مقدما ت کی ضمانت کی توثیق کی تاریخ ۷؍فروری ۱۹۹۴ء کو تھی جہاں الفضل کے مقدما ت کے ساتھ ایڈیشنل سیشن جج سید اختر نقوی نے ضمانت کی درخواستوں کو نامنظور کر کے تینوں احباب کی گرفتاری کے احکامات جاری کئے۔

اگرچہ پولیس نے دونوں مقدمات میں 298/C کی دفعہ لگائی تھی مگر جج صاحب نے ضمانتیں مسترد کرتے ہوئے دفعات 298/C اور 295/C کا اضافہ کر دیا ۔

(مطبوعہ :الفضل انٹرنیشنل۳۰؍جولائی ۱۹۹۹ء تا۲۶؍اگست ۱۹۹۹ء)