جماعت احمدیہ کا عقیدہ فیضان ختم نبوت اور سابق مہتمم دارالعلوم دیوبند کا حیرت انگیز اعتراف حق

مولانا دوست محمد شاہد، مؤرخ احمدیت

قاری محمد طیب صاحب مہتمم دارالعلوم دیوبند، حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی (ولادت ۱۸۳۳ء وفات۱۸۸۰ء) کے پوتے تھے۔ دیوبندی حلقوں میں انہیں ’’حکیم الاسلام‘‘ کے خطاب سے یاد کیا جاتاہے۔ ادارہ تالیفات اشرفیہ ملتان نے ان کا ایک مجموعہ تقاریر ’’خطبات طیب‘‘ کے نام سے شائع کیا ہے ۔ کتاب کے دیباچہ میں ان کے کلام کو پانچ مرتبہ ’’الہامات‘‘ سے موسوم کیا گیاہے۔ ذیل میں اس مجموعہ تقاریر کے چند اقتباسات ہدیہ قارئین کئے جاتے ہیں جن سے جماعت احمدیہ کے نظریہ فیضان ختم نبوت کی تائید ہوتی ہے ۔

آنحضرت ؐ کمالات نبوت کے خاتم بھی ہیں اور فاتح بھی

جناب قاری صاحب نے تحریر فرمایا:

’’سیرت کے ایک معنی ہیں کہ حضور ؐ کے فضائل، مناقب، بزرگیاں ، کمالات اور خصوصیات بیان کئے جاویں تا کہ ایمانوں میں تازگی پیدا ہو اور امت کو تسلی ہو کہ اللہ نے ہمیں ایسا پیغمبر عطا فرمایا کہ جو دنیا میں بے مثل ہے اور انبیاء میں بھی ان کی نظیر نہیں ۔ وہ افضل الانبیاء ہیں ۔ سیدالمرسلین ہیں۔ اس لئے ختم نبوت کا لفظ کافی ہے ۔ آپ ؐ فقط نبی ہی نہیں ہیں بلکہ خاتم الانبیاء ہیں ۔ تو خاتم کے لفظ میں سارے فضائل چھپے ہوئے ہیں اس لئے کہ خاتم اس کو کہتے ہیں جو منتہٰی ہو سارے کمالات کا کہ اگلے پچھلے جتنے بھی کمالات ہیں نبوت کے سب ایک ذا ت میں لا کر جمع کر دئے گئے ہیں اور انتہاء ہوگئی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کمالات نبوت علمی ہوں یا عملی اپنے انتہائی عروج کے ساتھ آپ کی ذات مقدس میں جمع کر دئے گئے۔۔۔۔۔۔۔

اور پھر یہی نہیں کہ آپ صرف امت کے نبی ہوں بلکہ آپ نبیوں کے بھی نبی ہیں اسی لئے آپ نے ایک حدیث میں بھی فرمایا اَنَا نَبِیُّ الاَنْبِیَاءِ کہ میں فقط امتوں کا ہی نبی نہیں ہوں بلکہ نبیوں کا بھی نبی ہوں کیونکہ قرآن کریم میں انبیاء سے بھی آپ پر ایمان لانے کا عہد لیا گیا ہے ۔فرمایا( وَاِذْاَخَذَ اللّٰہ مِیْثَاقَ النبِیّینَ لَما اٰتَیْتُکُمْ مِّنْ کِتَابٍ و حِکْمَۃٍ ثُمَّ جَآئَ کُمْ رَسُوْلٌ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَکُمْ لَتُؤمِنُنّ بِہ وَلَتَنْصُرُنّہٗ ۔قَالَ ئَ اَقْرَرْتُمْ وَاَخَذْتُمْ عَلٰی ذٰلِکُمْ اصْرِی قَالُوااَقْرَرْنَا قَالَ فَاشْھَدُوْا وَ اَنَا مَعَکُمْ مِّنَ الشّاہِدِیْنَ) ۔ تمام انبیاء سے عالم ازل میں حق تعالیٰ نے عہد لیا کہ جب میں رسول آخرالزمان کو دنیا میں بھیجوں اس وقت اگر تم خود موجود ہو تو تم ان پر ایمان لاؤ ورنہ تم اپنی امتوں کو ہدایت کرو کہ وہ ایمان لائیں۔ اور اب ایمان لاؤ تو سارے انبیاء نے ایما ن قبول کیا اور ایمان لانے کا جسے مکلف کیاجائے وہی امتی ہوتاہے تو جب نبیوں پر بھی فرض کیا گیا کہ وہ ایمان لاویں گے تو گویا آپ پرایمان لانا بحیثیت امت کے ہوا، اسی لئے آپ ؐ نے فرمایا اَنَا نَبِیّ الاَنْبِیَائِ میں نبیوں کا بھی نبی ہوں۔یہ خاتم کے معنی ہیں جو خاتم النبیین میں ہے۔ یعنی تمام کمالات نبوت آ پ پر ختم ہیں۔ اور یہ ایک اصول کی بات ہے کہ جو وصف کسی چیز پر ختم ہوتاہے وہیں سے شروع بھی ہوتاہے ۔ اگر وہاں ختم نہ ہو تو شروع بھی نہیں ہو سکتا ہے۔ مثال کے طورپر یوں سمجھئے کہ جیسے بجلی کے قمقمے پورے شہر میں روشن ہیں یہ سب ختم کہاں ہوتے ہیں؟ پاور ہاؤس پرجا کر ختم ہوتے ہیں، تو پاور ہاؤس کو ہی خاتم البروق کہیں گے کہ ا س پرساری بجلیوں کی انتہاء ہے یعنی وہ بجلیوں کا منتہا ہے ۔مگر وہ مبداء بھی تو ہے وہاں اگر بجلیاں نہ ہوں تو قمقموں میں کہاں سے آئیں گی۔ تو جہاں ختم ہوتی ہے چیز وہیں سے شروع بھی ہوتی ہے ۔ تو پاور ہاؤس پر اگر اختتام ہے بجلیوں کا تووہیں سے افتتاح بھی ہے۔ لاکھوں نل آپ کے گھروں میں لگے ہوئے ہیں ۔ ا ن میں پانی آ رہاہے ۔ ان سب پانیوں کی انتہاء واٹرورکس پرہوتی ہے، سارے پانی وہیں جاکر ختم ہوجاتے ہیں تو وہ خاتم المیاہ کہلائے گا اور وہی فاتح المیاہ بھی کہلائے گا کیونکہ وہیں سے پانی شروع بھی ہوتاہے۔ اگروہاں پانی نہ ہو تو نلوں میں کہاں سے آئے گا اورکیسے آئے گا جیسے آپ یوں کہیں کہ آدم علیہ السلام سب کے باپ ہیں اور وہ خاتم الآباء ہیں یعنی باپ ہونا ان پر ختم ہے ان سے آگے کوئی باپ ہی نہیں۔ وہی آخری باپ ہیں۔ اسلئے وہ خاتم الآباء ہیں تو فاتح الآباء بھی تو وہی ہیں۔ وہ اگر باپ نہ بنتے تو ہم اور آپ کیسے ہوتے، بجلیاں جہاں ختم ہوئیں وہیں سے شروع بھی ہوئیں ، پانیوں کی انتہاء جہاں سے ہوئی ابتداء بھی وہیں سے ہوئی ۔ آپ یوں کہتے ہیں کہ ہم سب موجود ہیں۔ سب میں وجود ہے اور سب کے وجود کی انتہاء ذات حق پر ہو جاتی ہے تو حق تعالیٰ خاتم الوجود ہیں۔ آگے پھر وجود کاکوئی سلسلہ نہیں ہے تو وہی فاتح الوجود بھی ہیں ۔ وہیں سے وجودکا سلسلہ چلاہے ہم موجود ہیں ۔ وہاں وجود نہ ہو تو ہم اورآپ کیسے موجود ہونگے۔ تو جو وصف جس ذات پر ختم ہوتاہے اسی ذات سے شروع بھی ہوتاہے ۔ تو جب نبوت کے سارے کمالات آپ ؐ پر ختم ہو گئے ہیں اور آپؐ خاتم الکمالات ہیں تو فاتح الکمالات بھی تو آپ ؐہی ہیں۔ وہاں سے کمالات نہ چلتے تو انبیاء کوکیسے ملتے ،اولیاء کو کیسے ملتے تو اسلئے آپ ؐ فاتح بھی ہیں اور خاتَم بھی ہیں اسی لئے ایک حدیث میں آپ نے ارشاد فرمایا ’’اَنَا اَوَّلھُم خَلْقًا وَ آخِرُھُم ‘‘۔(صفحہ ۱۱۹ تا ۱۲۲)

امتی نبی اور خاتَم النّبیین کے عکس کامل کے ظہور کی ضرورت

اب سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ کیا آنحضرت ﷺ کے بعد کسی امتی نبی اور آپ کے عکس کامل کی ضرورت ہے یانہیں۔ سواس کا جواب جناب قاری محمد طیب صاحب نے درج ذیل الفاظ میں دیاہے ۔ آپ تحریر فرماتے ہیں:

’’ اگر خاتَم النّبیّین کے دور ۔۔۔میں ہمہ گیر کمالات کا ظہور ایک امر طبعی تھا تو اسی کے دور ۔۔۔ میں ان کمالات کی اضداد اور ہمہ انواع فسادات کا شیوع بھی ایک امر طبعی تھا اوراس لئے خاتم الدجالین کوبھی جو خاتم فسادات ہے خاتَم النٖبیّین ہی کے دور۔۔۔ میں خروج کرنا چاہئے تھا کہ اس کے عمیق دجل و فساد کا مقابلہ محض نبوت کی طاقت نہ کر سکتی جب تک کہ اس کے ساتھ خاتمیت کی بے پناہ قوت نہ ہو۔ نیز خاتم کمالات کی پوری پوری عظمت و شان اور روحانی قوت بھی اس وقت تک نہ کھل سکتی تھی جب تک کہ اس کے کمالات کی اضداد یعنی سارے ہی شر و فسادات اپنے پورے کروفر کے ساتھ اپنی آخری شخصیت خاتم الدجالین کے ہاتھ پر ظاہر ہو کر بری طرح شکست نہ کھا جائیں۔

ہاں مگر مقابلہ کی اگر یہ صورت ہوتی کہ دجال اعظم کو حضور کے زمانہ خیر میں ظاہر کرکے شکست دلا دی جاتی تو ظاہر ہے کہ فتح وشکست کا یہ مظاہرہ ناقص رہ جاتا کیونکہ نہ فسادات دجال ہی سب کے سب بتدریج نمایاں ہوسکتے او ر نہ کمالات نبوی ہی سب کے سب کھل کر انہیں شکست دے سکتے۔ نتیجہ یہ ہوتا کہ خیرکے ہر ہر پہلو کی طاقت اور شر کے ہر ہر پہلو کی کمزوری کھلے بغیر ہی مقابلہ ختم ہو جاتا اور دنیا آخرت کے کنارے جا لگتی۔ حالانکہ خاتمیت سے مقصود تکمیل ہوتی ہے اور اسی لئے خاتم کو سب سے آخر میں لایا جاتاہے مگراس صورت میں کسی پہلو کی بھی تکمیل نہ ہوتی اور خاتموں کا آنا عبث ہو جاتا ۔ اس لئے دجال اعظم کوبھی قیامت تک موقعہ دیاگیا کہ وہ ہر ہر پہلو سے چھپ کر اورکھل کر فساد پھیلائے ۔ بواسطہ اور بلا واسطہ اپنی دجالیت سے دنیا میں تلبیس حق بالباطل کاجال پھیلائے تاکہ ایک دفعہ یہ ساری سے شرور اوراپنی سطحی چمک دمک کے ساتھ ظاہر ہو جائیں اور اپنا فروغ دکھلا کربے وزن قلوب کو اپنی طرف مائل کر سکیں۔ اور ہر ختم نبوت کی طاقت کو بھی قیامت تک باقی رکھ کر موقعہ دیا گیا کہ وہ اپنی مخفی طاقتوں سے دجالی کرّ وفرّ کے پرخچے اڑاتی رہے۔ اگر یہ دجل و فساد علوم نبوی میں فتنۂ شہوات کھڑا کرے تو صبر و تحمل کے نبوی اخلاق سے اسے پسپا کر دے ۔ اگر تمدنی لائن میں فتنے برپا کرے تو سیاستِ نبوت آڑے آ کر انہیں ختم کردے ۔غرض جس رنگ میں بھی دجل وفساد ظاہر ہو اسی رنگ میں کمالاتِ نبوت اس کو دفع کرتے رہیں۔ یہاں تک کہ فساد کی استعداد کامل ہو کر گویادجال اعظم کے ظہور کا تقاضا کرنے لگے اور ادھر صلاح و کما ل کی قابلیت بھی اپنادورہ مکمل کر کے اس کی کھلی شکست کی طلبگار ہو جائے تاآنکہ ختم نبوت اس خاتم دجّالین کو شکست دے کر ہمیشہ کے لئے دجل کا خاتمہ کردے۔

پس جبکہ خروج دجال زمانہ نبوی میں مناسب نہ ٹھہرابلکہ خاتمہ دنیا پرمناسب ہواتو پھر اب اس کے مقابلہ کی ایک صورت تویہ تھی کہ حضرت خاتم الانبیاء ﷺ کو خروج دجال کے وقت قبر مبارک سے تکلیف دی جاتی کہ آپ بنفس نفیس اس کے مفاسد کو مٹا ئیں۔ لیکن یہ ظاہر ہے کہ یہ صورت شان اقدس سے فروتر تھی۔ اورآپ اس سے اعزواکرم تھے کہ آپ پر دوموتیں طاری کی جائیں یاایک دفعہ قبر مبارک سے نکال کر پھر دوبارہ قبر دکھلائی جائے ۔

پھر ایک شکل یہ تھی کہ حضور کوخروج دجال تک دنیا ہی میں مقیم رکھا جاتالیکن اس صورت کا شان اقدس کے لئے نازیبا ہوناپہلی صورت سے بھی زیادہ واضح ہے۔ کیونکہ اول تو اس صورت میں حضور ؐکی بعثت کاآخری اور اصلی مقصد محض مدافعت دجال ٹھہرجاتا حالانکہ ایسا نہیں ہے ۔دوسرے دجا ل کی اہمیت اس قدر بڑھ جاتی کہ گویااسی کے خوف کی خاطر حضور کو دنیا میں صدیوں ٹھہرایا جا رہا ہے۔ نیز امت کے کمالات بھی اس صورت میں پردۂ اخفا میں رہ جاتے ۔ کیونکہ آفتاب نبوت کی موجودگی میں کس ستارہ کی مجال تھی کہ اپنا نور نمایاں کر سکے۔ اس طرح تمام طبقات امت کے جو ہر چھپے رہ جاتے۔ اور گویا عُلَمَائُ اُمّتی کاَنْبِیَائِ بَنِی اِسْرَائِیْل کا ظہور ہی نہ ہو سکتا۔ اوراس سب کے علاوہ یہ صورت خود اصل موضوع ہی کے خلاف پڑتی ۔ یعنی دجال کا خروج ہی ناممکن ہو جاتا جس کے لئے مدافعت کی یہ صورتیں درکار تھیں۔ کیونکہ دجا ل اوراس کے مفاسد کا زور پکڑنا تو حضور ہی کے زمانہ سے بعد ہو جانے کے سبب سے ہو سکتا تھا ۔ اورجبکہ آپ خود ہی قیامت تک دنیا میں تشریف رکھتے تواس کے یہ معنی تھے کہ عالم میں کوئی فتنہ ہی نہ پھیلتا کہ قلوب میں شر کی استعداد بڑھے اورخروج دجال کی نوبت آئے۔ پس اس صورت میں خروج دجال ہی ممکن نہیں رہتاچہ جائیکہ اس کی مدافعت کی کوئی صورت فرض کی جائے۔ بہرحال اس صورت میں نہ امت کے کمالات کھلتے نہ ختم نبوت کی بے پناہ طاقت واضح ہوتی جس سے یہ واضح ہو سکتا کہ ذات بابرکات خاتم مطلق کی سب سے اکمل روحانیت اور بے انتہاء مکمل انسانیت جس طرح اگلوں کوفیض روحانیت پہنچارہی تھی اسی طر ح وہ پچھلوں میں تکمیل کمالات کا کام کر رہی ہے اور وہ ان محدود روحانیتوں کی مانند نہیں ہے جو دنیا میں آئیں اور گزر گئیں اورامتوں میں ان کا کوئی نقش قدم باقی نہ رہا۔

لیکن پھر سوال یہ ہے کہ جب خاتم الدجالین کا اصلی مقابلہ تو خاتَم النّبیّین سے ہے مگر اس مقابلہ کے لئے نہ حضور ؐ کا دنیا میں دوبارہ تشریف لانا مناسب ،نہ صدیوں باقی رکھاجانا شایان شان ، نہ زمانہ نبوی میں مقابلہ ختم کرا دیا جانا مصلحت اور ادھر اس ختم دجالیت کے استیصال کے لئے چھوٹی موٹی روحانیت توکیا بڑی سے بڑی ولایت بھی کافی نہ تھی۔ عام مجددین اور ارباب ولایت اپنی پوری روحانی طاقتوں سے بھی اس سے عہدہ برآ نہ ہو سکتے تھے جب تک کہ نبوت کی روحانیت مقابل نہ آئے ۔ بلکہ محض نبوت کی قوت بھی اس وقت تک مؤثر نہ تھی جب تک کہ اس کے ساتھ ختم نبوت کا پاور شامل نہ ہو تو پھر شکست دجالیت کی صورت بجز اس کے اور کیا ہو سکتی تھی کہ اس دجال اعظم کو نیست و نابود کرنے کے لئے امت میں ایک ایسا خاتم المجددین آئے جو خاتَم النبیّین کی غیرمعمولی قوت کو اپنے اندر جذب کئے ہوئے ہو اور ساتھ ہی خاتَم النبیّین سے ایسی مناسبت تامہ رکھتا ہو کہ اس کامقابلہ بعینہ خاتَم النبیّین کامقابلہ ہو۔ مگر یہ بھی ظاہر ہے کہ ختم نبوت کی روحانیت کا انجذاب اسی مجدد کا قلب کر سکتا تھا جو خود بھی نبوت آشنا ہو۔ محض مرتبۂ ولایت میں یہ تحمل کہاں کہ وہ درجہ ٔ نبوت کی بھی برداشت کر سکے چہ جائیکہ ختم نبوت کا کوئی انعکاس اپنے اندر اتار سکے ۔ نہیں بلکہ اس انعکاس کے لئے ایک ایسے نبوت آشنا قلب کی ضرورت تھی جوفی الجملہ خاتمیت کی شان بھی اپنے اندر رکھتا ہو ۔تاکہ خاتم مطلق کے کمالات کاعکس اس میں اترسکے۔ اور ساتھ ہی اس خاتم مطلق کی ختم نبوت میں فرق بھی نہ آئے ۔ اس کی صورت بجز اس کے اور کیا ہو سکتی تھی کہ انبیاء سابقین میں سے کسی نبی کو جو ایک حدتک خاتمیت کی شان رکھتاہو اس امت میں مجدد کی حیثیت سے لایاجائے جو طاقت تو نبوت کی لئے ہوئے ہو مگر اپنی نبوت کا منصب تبلیغ اور مرتبۂ تشریع لئے ہوئے نہ ہو۔ بلکہ ایک امتی کی حیثیت سے اس امت میں کام کرے اور خاتم النبیین کے کمالات کو اپنے واسطے سے استعمال میں لائے‘‘۔(’’تعلیمات اسلام اور مسیحی اقوام‘‘ صفحہ ۲۲۶ تا ۲۲۹۔ ناشر نفیس اکیڈیمی کراچی ۔اشاعت مئی ۱۹۸۶ء)

ایک غلطی کی اصلاح ۔ حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی کے قلم سے

بالآخر یہ وضاحت کرنا از بس ضروری ہے کہ جہاں قاری محمد طیب صاحب نیخاتَم النّبیّین کے عکس کامل اور امتی نبی کے ظہور کو بیان کرکے کھلے لفظوں میں احمدی علم کلام پر مہر تصدیق ثبت کر دی ہے وہاں یہ خوفناک غلطی بھی کی ہے کہ وہ امتی نبی سے مراد اسرائیلی مسیح قرار دیتے ہیں حالانکہ انہیں منصب نبوت آنحضرت ﷺ کے ظہور قدسی سے قبل عطا کیا گیا تھا اور امتی نبی کی تعریف یہ ہے کہ وہ ہر فیض نبیٔ متبوع سے حاصل کرتاہے ۔ دوسرے ان کے دادا حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی معرکۃ الآراء کتاب ’’تحذیرالناس‘‘ میں خاتَم النّبیّینکے معنی ہی نبیوں کے باپ کے لئے ہیں۔ حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی ؒ کے مبارک الفا ظ کا متن یہ ہے کہ :

’’حاصل مطلب آیہ کریمہ اس صورت میں یہ ہوگاکہ ابوّت معروفہ تو رسو ل اللہ صلعم کو کسی مرد کی نسبت حاصل نہیں پر ابوّۃ معنوی اقسیوں کی نسبت بھی حاصل ہے اورانبیاء کی نسبت بھی ۔انبیاء کی نسبت تو فقط خاتَم النبیّین شاہد ہے‘‘۔(تحذیر الناس صفحہ ۱۳ ناشر دارالاشاعت کراچی نمبر ۱)

اسی عارفانہ تفسیرکے پیش نظر آگے چل کر ڈنکے کی چوٹ آپ نے یہ اعلان بھی کردیاہے کہ:

’’اگر بالفرض بعد زمانہ نبوی صلعم بھی کوئی نبی پیدا ہو تو پھر بھی خاتمیت محمدی میں کچھ فرق نہیں آئے گا‘‘۔(صفحہ ۳۴)

اور اس دعویٰ کی دلیل یہ دی ہے کہ :

’’جونبی آپؐ کے ہم عصر ہوگاوہ متبع شریعت محمدیہ کاہوگا‘‘۔ (صفحہ ۵۱)

اللھم صل علی محمد وآل محمد وبارک وسلم انک حمید مجید

(مطبوعہ :الفضل انٹرنیشنل ۹؍اپریل۱۹۹۹ء تا۱۵؍اپریل ۱۹۹۹ء)