عیسائی عقائد سے بیزاری کا بڑھتا ہوا رجحان

چوہدری خالد سیف اللہ خان

۱۹۹۶ میں یہاں جو مردم شماری ہوئی تھی اس کے نتائج اخباروں میں آ رہے ہیں۔ ایک تجزیہ کے مطابق آسٹریلیا کے عیسائیوں کی تعداد نسبتاً گھٹ رہی ہے۔ پچاس سال قبل کی مردم شماری جو ۱۹۴۷ء میں ہوئی تھی۔ اس میں ۸۸فیصد لوگوں نے اپنے آپ کو عیسائی ظاہر کیاتھا۔ یہ تعداد گرکر ۱۹۹۱ء میں ۷۴ فیصد اور ۱۹۹۶ء میں ۷۱ فیصد ہو گئی۔

۱۹۹۶ء میں ۱۶فیصد نے لکھا کہ ان کا کوئی مذہب نہیں اور ۶۷ء۸ نے مذہب کے خانہ کو خالی چھوڑ دیا اور یوں آج کل ۲۵فیصد آبادی کسی بھی مذہب سے منسلک نہیں ہے۔ اس کے بالمقابل ۱۹۴۷ء میں صرف۳ء۰ فیصد نے کہا تھا کہ ان کاکوئی مذہب نہیں ہے ۔

آسٹریلیا میں دس بڑے مذاہب کے لوگ بستے ہیں ۔ ان میں سے سب سے زیادہ پھیلنے والا مذہب بدھ مت ہے ۔ ۱۹۹۱ء اور ۱۹۹۶ء کے درمیان ان کی تعداد میں ۴۲فیصد اضافہ ہوا ہے ۔ دوسرے نمبر پر جس مذہب کے پیروکاروں میں نسبتاً زیادہ اضافہ ہوا ہے وہ مسلمان ہیں ۔ ان کی تعداد میں اس عرصہ میں ۳۵فیصد اضافہ ہوا ہے اور اب ان کی تعداد دو لاکھ تک پہنچ چکی ہے جو تقریباً سبھی ترک وطن کر کے یہاں آباد ہوئے ہیں۔ مذہب سے باغی ہونے والے طبقہ میں اکثریت نوجوان نسل کی ہے۔ ہر نسل اپنے سے پہلی نسل کے مقابلے میں زیادہ مذہب کو چھوڑ تی جا رہی ہے ۔ چنانچہ ۲۰تا ۲۴ سالہ نوجوان مرد و عورت میں سے ۲۲ فیصد نے اب کہا ہے کہ ان کاتوکوئی مذہب ہی نہیں۔ لیکن گزشتہ نسل کے لوگ جو اب ۵۰ تا ۵۴ سال کی عمر کے ہیں ان میں سے ۱۲فیصد نے کہا ہے کہ ان کاکوئی مذہب نہیں ۔موجودہ نسل کے دادے نانے وغیرہ جو اب ۷۵سال سے زائد عمر کے ہیں ان میں سے صرف ۵ء۵ فیصد نے کہا کہ ان کا کوئی مذہب نہیں ۔ اور یوں ہر آنے والی نسل پہلی کے مقابلہ میں مذہب سے زیادہ برگشتہ ہوتی چلی جا رہی ہے ۔ لیکن اخبار کے مطابق یہ بات دوسرے مذاہب پر چسپاں نہیں ہوتی۔

آسٹریلیا کا غالباً سب سے مؤقر روزنامہ (سڈنی مارننگ ہیرلڈ) اپنے ایک حالیہ اداریہ میں اس بڑھتی ہوئی عیسائی عقائد سے بیزاری پر اظہار خیال کرتے ہوئے لکھتاہے:

“…… What all this suggests is that conventional understanding of Christmas can no longer enjoy the currency it once did. The claims made about meaning of Christmas for all people are no longer the claim of all people. Indeed even some Christians have begun to question key aspects of the Christmas story such as whether the account of Virgin birth can be taken as literal truth__ which were once considered central to its understanding. The meaning people attach to Christmas is increasingly a matter of private intuition and reasoning rather than declarations of a Creed”. (Sydney Morning Herald 24.12.98)

یعنی’’ان ساری باتوں سے جو معلوم ہوتاہے وہ یہ ہے کہ کرسمس کو تقلید کے طور پر جو کچھ پہلے سمجھا جاتا تھا اب اس کا رواج نہیں رہا۔ کرسمس کے مدعا کے بارہ میں جو دعوے کئے جاتے تھے کہ یہ سب کے لئے ہے اب یہ سب کا دعویٰ نہیں رہا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ خود بعض عیسائیوں نے کرسمس کے کلیدی پہلوؤں پر سوالات اٹھانے شروع کر دئے ہیں مثلاً یہ کہ آیابن بیاہی پیدائش کو حرف بحرف سچ تسلیم کیاجا سکتاہے۔ حالانکہ یہ ایسی باتیں ہیں جوکسی زمانہ میں کرسمس کے عقیدہ کو سمجھنے میں مرکزی حیثیت رکھتی تھیں۔ اب تو لوگ کرسمس کو جو بھی سمجھتے ہیں اس کا تعلق ان کے اپنے وجدان اور عقل سے ہے نہ کہ کسی عقیدہ کے اعلان سے ‘‘۔

عیسائیوں کی اپنے عقائد سے بدظنی خدا کی ایک بڑی تقدیر کی طرف اشارہ کر رہی ہے جس کا ذکر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی کتاب ’’تذکرۃ الشہادتین‘‘ کے صفحہ ۶۷ پر فرمایا ہے۔ آپ فرماتے ہیں:

’’یاد رکھو کہ کوئی آسمان سے نہیں اترے گا ۔ ہمارے سب مخالف جو اب زندہ موجود ہیں وہ تمام مریں گے اور کوئی ان میں سے عیسیٰ ؑ بن مریم کو آسمان سے اترتے نہیں دیکھے گا۔ اور پھر ان کی اولاد جو باقی رہے گی وہ بھی مرے گی اور ان میں سے بھی کوئی آدمی عیسیٰ ؑ بن مریم کو آسمان سے اترتے نہیں دیکھے گا اور پھر اولاد کی اولاد مرے گی وہ بھی مریم کے بیٹے کو آسمان سے اترتے نہیں دیکھے گی۔ تب خدا ان کے دلوں میں گھبراہٹ ڈالے گا کہ زمانہ صلیب کے غلبہ کا بھی گزر گیا اور دنیا دوسرے رنگ میں آ گئی مگر مریم کابیٹا عیسیٰ ؑ اب تک آسمان سے نہ اترا۔ تب دانشمند یکدفعہ اس عقیدہ سے بیزار ہو جائیں گے اور ابھی تیسری صدی آج کے دن سے پوری نہیں ہوگی کہ عیسیٰ ؑ کے انتظار کرنے والے کیا مسلمان اور کیا عیسائی سخت نومید اور بدظن ہو کر اس جھوٹے عقیدہ کو چھوڑ دیں گے ۔ اوردنیا میں ایک ہی مذہب ہو گا اور ایک ہی پیشوا۔ میں تو ایک تخم ریزی کرنے آیا ہوں سو میرے ہاتھ سے وہ تخم بویا گیا اور اب وہ بڑھے گا اور پھولے گا اور کوئی نہیں جو اس کو روک سکے‘‘۔ (تذکرۃ الشہادتین، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۶۷)