عالمگیر ایٹمی جنگ

اس کے نتائج اور انجام کے بارہ میں سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئیاں

سید میرمسعود احمد

سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:۔

’’۔۔۔۔۔۔ نبیوں کا عظیم الشان کما ل یہ ہے کہ وہ خدا سے خبریں پاتے ہیں۔ چنانچہ قرآن شریف میں آیاہے لا یظھر علی غیبہ احدا الا من ارتضی من رسول (الجن: ۲۷،۲۸) یعنی خدا تعالیٰ کے غیب کی باتیں کسی دوسرے پر ظاہر نہیں ہوتیں ہاں اپنے نبیوں میں سے جس کو وہ پسند کرے ۔ جو لوگ نبوت کے کمالات سے حصہ لیتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کو قبل از وقت آنے والے واقعات کی اطلاع دیتاہے۔ اور یہ بہت بڑا عظیم الشان نشان خدا کے مامور اور مُرسَلوں کاہوتا ہے۔ اس سے بڑھ کر اور کوئی معجزہ نہیں۔

پیشگوئی بہت بڑا معجزہ ہے۔ تمام کتب سابقہ اور قرآن کریم سے یہ بات واضح طور پر ثابت ہے کہ پیشگوئی سے بڑھ کر کوئی نشان نہیں ہوتا ۔۔۔۔۔۔۔

قطع نظر اس بات کے کہ رسول اللہﷺ کی پیشگوئیوں سے قرآن شریف بھرا پڑا ہے اور قیامت تک اور اس کے بعد تک کی پیشگوئیاں اس میں موجود ہیں سب سے بڑھ کر ثبوت رسول اللہ ﷺ کی پیشگوئیوں کا یہ ہے کہ ہر زمانہ میں ان پیشگوئیوں کا زندہ ثبوت دینے والا موجود ہوتا ہے۔ چنانچہ اس زمانہ میں اللہ تعالیٰ نے مجھے بطور نشان کھڑا کیااور پیشگوئیوں کاایک عظیم الشان نشان مجھے دیا ۔ تا میں ان لوگوں کو جو حقائق سے بے بہرہ اور معرفت الٰہی سے بے نصیب ہیں روز روشن کی طرح دکھا دوں کہ ہمارے پیغمبر خدا ﷺ کے معجزات کیسے مستقل اور دائمی ہیں۔۔۔۔۔۔۔ پس جو نشانات خوارق عادات مجھے دئے گئے ہیں ، جو پیشگوئیوں کا عظیم الشان نشان مجھے عطا ہوا ہے یہ دراصل رسول اللہ ﷺ کے زندہ معجزات ہیں۔۔۔۔۔۔‘‘۔(ملفوظات جلد اول مطبوعہ لندن صفحہ ۴۱۲،۴۱۴)

حضور علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے علم پا کر جو پیشگوئیاں فرمائی ہیں انہیں سمجھنے کے لئے مذکورہ بالا ارشاد میں رہنما اصول بیان ہیں ۔ آپؑ کی ہزارہا ایسی کُھلی کُھلی پیشگوئیاں ہیں جو نہایت صفائی سے پوری ہو چکی ہیں۔ بہت سی پیشگوئیاں ہیں جو آج اس دور میں پورا ہو کر آپ ؑ کی سچائی اور آنحضرت ﷺ کی صداقت کی عظمت کی گواہی دے رہی ہیں۔ اور بہت سی ایسی غیب کی خبریں ہیں جو آئندہ زمانوں میں مختلف ادوار میں اپنے وقت پر پوری ہو کر ان الٰہی وعدوں کی حقانیت کو ثابت کرتی چلی جائیں گی۔

مکرم و محترم سید میر مسعود احمد صاحب نے ذیل کے مضمون میں عالمگیر ایٹمی تباہیوں اور ان کے نتائج سے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئیوں کواکٹھا کر کے مرتب کیا ہے۔ ان میں سخت انذاری پیشگوئیاں بھی ہیں اور تبشیری بھی۔ ان میں خدا کی وعیدیں یاد دلا کر نہایت پُردَرد نصائح بھی ہیں اور اپنے متبعین کو ان کی ذمہ داریوں کا احساس بھی دلایاگیاہے۔

ہمیں امید ہے کہ قارئین اس مضمون کا گہرے غور اور گداز دل کے ساتھ مطالعہ کریں گے ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو دنیا و آخرت کو بلاؤں سے محفوظ رکھے، اپنی رضا کی راہوں پر ثباتِ قدم سے آگے بڑھنے کی توفیق بخشے اور عالمگیر غلبۂ اسلام کے سلسلہ میں ہم اپنی ذمہ داریوں کہ کما حقّہ ادا کرنے والے ہوں اور اس کے فضلوں کے مبشر وعدے ہم اپنی آنکھوں سے پورا ہوتے دیکھیں۔ (مدیر)

زلزلۃ الساعۃ یعنی ایٹمی جنگ کے بارہ میں پیشگوئی

سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام۸؍اپریل ۱۹۰۵؁ء کے اشتہار ’الانذار‘ میں تحریر فرماتے ہیں :

’’آج رات تین بجے کے قریب خدا تعالیٰ کی پاک وحی مجھ پر نازل ہوئی جو ذیل میں لکھی جاتی ہے : تازہ نشان۔ تازہ نشان کا دھکہ۔ زلزلۃ الساعۃ ۔ قوا انفسکم ۔ ان اللہ مع الابرار۔ دَنیٰ منک الفضلُ۔ جاء الحق و زھق الباطل

ترجمہ مع شرح ۔ یعنی خدا ایک تازہ نشان دکھائے گا ۔ مخلوق کو اس نشان کا ایک دھکہ لگے گا ۔ وہ قیامت کا زلزلہ ہوگا۔(مجھے علم نہیں۔۔۔۔۔۔ دیا گیا کہ زلزلہ سے مراد زلزلہ ہے یا کوئی اور شدید آفت ہے جو دنیا پر آئے گی جس کو قیامت کہہ سکیں گے اور مجھے علم نہیں دیا گیا کہ ایسا حادثہ کب آئے گا۔۔۔۔۔۔ بہرحال وہ حادثہ زلزلہ ہو یا کچھ اور ہو ۔ قریب ہو یا بعید ہو پہلے سے بہت خطرناک ہے ۔ سخت خطرناک ہے۔۔۔۔۔۔ جو آنے والا حادثہ ہے وہ بہت بڑھ کر ہے ۔

خدا تعالیٰ لوگوں پر رحم کرے ۔ ان کو تقویٰ اور نیک اعما ل کا خیال آ جاوے۔ ۔۔۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ نیکی کر کے اپنے تئیں بچا لو۔ قبل اس کے کہ وہ دن آوے جو ایک دم میں تباہ کر دے گا۔ اور فرماتاہے کہ خدا ان کے ساتھ ہے جو نیکی کرتے ہیں اور بدی سے بچتے ہیں اور پھر اس نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ میرا فضل تیرے نزدیک آ گیا ۔ یعنی وہ وقت آ گیا کہ توُ کامل طور پر شناخت کیاجاوے۔ حق آ گیا اور باطل بھاگ گیا۔

حاصل مطلب یہ ہے کہ جو کچھ نشان ظاہر ہوا اور ہوگا اس سے یہ غرض ہے کہ لوگ بدی سے باز آ ویں اور اس خدا کے فرستادہ کو جو ان کے درمیان ہے شناخت کر لیں۔

پس اے عزیزو !جلد ہر ایک بدی سے پرہیز کرو کہ پکڑ ے جانے کا دن نزدیک ہے ۔ ہر ایک جو شرک کو نہیں چھوڑتاوہ پکڑا جائے گا ۔ ہر ایک جو فسق وفجور میں مبتلا ہے وہ پکڑا جاوے گا۔ ہر ایک جودنیا پرستی میں حد سے گزر گیا ہے اور دنیا کے غموں میں مبتلاہے وہ پکڑا جائے گا۔ ہر ایک جو خدا کے وجود سے منکر ہے وہ پکڑا جائے گا۔ ہر ایک جو خدا کے مقدس نبیوں اور رسولوں اورمُرسَلوں کو بدزبانی سے یاد کرتاہے اور باز نہیں آتا و ہ پکڑا جائے گا ۔

دیکھو! آج میں نے بتلا دیا ۔ زمین بھی سنتی ہے اور آسمان بھی ۔ کہ ہر ایک جو راستی کو چھوڑ کر شرارتوں پرآمادہ ہوگا اور ہر ایک جو زمین کو اپنی بدیوں سے ناپاک کرے گاوہ پکڑاجائے گا۔خدا فرماتا ہے کہ قریب ہے جو میرا قہر زمین پر اترے کیونکہ زمین پاپ اور گناہ سے بھر گئی ہے ۔

پس اٹھو اور ہوشیار ہوجاؤ کہ وہ آخری وقت قریب ہے جس کی پہلے نبیوں نے بھی خبر دی تھی ۔ مجھے اس ذات کی قسم جس نے مجھے بھیجا کہ یہ سب باتیں اُس کی طرف سے ہیں، میری طرف سے نہیں۔ کاش یہ باتیں نیک ظنی سے دیکھی جاویں۔ کاش میں ان کی نظر میں کاذب نہ ٹھہرتا تا دنیا ہلاکت سے بچ جاتی ۔یہ میری تحریر معمولی تحریر نہیں ۔ دلی ہمدرد ی سے بھرے ہوئے نعرے ہیں۔ اگر اپنے اندر تبدیلی کرو گے اور ہر ایک بدی سے اپنے تئیں بچا لو گے تو بچ جاؤگے ۔ کیونکہ خد ا حلیم ہے جیساکہ وہ قہّار بھی ہے۔ اور تم سے اگرایک حصہ بھی اصلاح پذیر ہوگا تب بھی رحم کیا جائے گا ۔ ورنہ وہ دن آتاہے کہ انسانوں کو دیوانہ کر دے گا۔

نادان بدقسمت کہے گا کہ یہ باتیں جھوٹ ہیں ۔ ہائے وہ کیوں اس قدر سوتا ہے ۔ آفتاب تو نکلنے کو ہے۔۔۔۔۔۔ انسان کا کیاحرج ہے کہ اگر وہ فسق و فجور کو چھوڑ دے۔ کون سا اُس کا اِس میں نقصان ہے اگر وہ مخلوق پرستی نہ کرے۔ آگ لگ چکی ہے اٹھو اور اس آگ کو اپنے آنسوؤں سے بجھاؤ۔۔۔ ۔۔۔اس قدر توبہ استغفار کرو کہ گویا مر ہی جاؤ۔ تا وہ حلیم خدا تم پر رحم کرے ۔ آمین ۔

والسلام علی من اتبع الھدیٰ ۔

راقم خاکسار مرزا غلام احمد قادیانی ۔۸؍اپریل ۱۹۰۵ء‘‘

(اشتہارا لانذار مطبوعہ قادیان)۔(مجموعہ اشتہارات ، جلد سوم ، مطبوعہ لندن ،صفحہ ۵۲۲،۵۲۴)

کرو توبہ کہ تا ہو جائے رحمت

دکھاؤ جلد تر صدق و انابت

کھڑی ہے سر پہ ایسی ایک ساعت

کہ یاد آ جائے گی جس سے قیامت

مجھے یہ بات مولیٰ نے بتا دی

فسبحان الذی اخزی الاعادی

(اشعار سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام مطبوعہ نومبر۱۹۰۱ء)

’’آئندہ زلزلہ کی نسبت جو پیشگوئی کی گئی ہے وہ کوئی معمولی پیشگوئی نہیں۔۔۔ مجھے خدا تعالیٰ خبر دیتاہے کہ و ہ آفت جس کا نام اس نے زلزلہ رکھا ہے نمونۂ قیامت ہوگا اور پہلے سے بڑھ کر اس کا ظہور ہوگا۔۔۔۔۔۔ اگر چہ بظاہر لفظ زلزلہ کا آیا ہے مگر ممکن ہے کہ وہ کوئی اور آفت ہو جو زلزلہ کا رنگ اپنے اندر رکھتی ہو۔ مگر نہایت شدید آفت ہو جو پہلے سے بھی زیادہ تباہی ڈالنے والی ہو ۔ جس کا سخت اثر مکانات پر بھی پڑے‘ ‘ (براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ ۹۳۔۱۹۰۵ء)۔ روحانی خزائن جلد ۲۱صفحہ ۲۵۳ ،۲۵۴ مطبوعہ لندن)

’کیا تم خیال کرتے ہوکہ تم۔۔۔۔۔۔ امن میں رہو گے یاتم اپنی تدبیروں سے اپنے تئیں بچا سکتے ہو ؟ ہرگز نہیں ۔ انسانی کاموں کا اُس دن خاتمہ ہو گا ۔۔۔۔۔۔ اے یوروپ توبھی امن میں نہیں اور اے ایشیا تو بھی محفوظ نہیں اور اے جزائر کے رہنے والو کوئی مصنوعی خدا تمہاری مدد نہیں کریگا۔ میں شہروں کوگرتے دیکھتاہوں اور آبادیوں کو ویران پاتاہوں۔وہ واحد یگانہ ایک مدّت تک خاموش رہا ۔ اس کی آنکھوں کے سامنے مکروہ کام کئے گئے وہ چپ رہا ۔ مگر اب وہ ہیبت کے ساتھ اپنا چہرہ دکھلائے گا۔ جس کے کان سننے کے ہوں سنے ‘‘۔ (حقیقۃ الوحی صفحہ ۲۵۷مطبوعہ۱۹۰۶ء۔ روحانی خزائن جلد ۲۲مطبوعہ لندن صفحہ ۲۶۹)

نظم سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام منقول از نوٹ بک حضور اقدس ؑ

بحوالہ درّثمین

یہ نشانِ زلزلہ جو ہو چکا منگل کے دن

یہ تو اک لقمہ تھا جو تم کوکھِلایاہے نہار

اک ضیافت ہے بڑی اے غافلو کچھ دن کے بعد

جس کی دیتاہے خبر فرقاں میں رحماں بار بار

فاسقوں اور ظالموں پر وہ گھڑی دشوار ہے

جس سے قیمہ بن کے پھر قیمہ کا دیکھیں گے بگھار

خوب کھل جائے گا لوگوں پر کہ دیں کس کاہے دیں

پاک کر دینے کا تیرتھ کعبہ ہے یا ہَردَوار

وحیٔ حق کے ظاہر ی لفظوں میں ہے وہ زلزلہ

لیک ممکن ہے کہ ہو کچھ اَور ہی قِسموں کی مار

کچھ ہی ہو پروہ نہیں رکھتازمانہ میں نظیر

فوقِ عادت ہے کہ سمجھا جائے گا روزِ شمار

یہ جو طاعوں ملک میں ہے اِس کو کچھ نسبت نہیں

اُس بلا سے ۔ وہ تو ہے اِک حشر کا نقش و نگار

وقت ہے توبہ کرو جلدی۔ مگر کچھ رحم ہو

سست کیوں بیٹھے ہو جیسے کوئی پیکر کُو کنار

تم نہیں لوہے کے کیوں ڈرتے نہیں اُس وقت سے

جس سے پڑ جائے گی اکدم میں پہاڑوں میں بُغار

وہ تباہی آئے گی شہروں پہ اور دیہات پر

جس کی دنیا میں نہیں ہے مثل کو ئی زینہار

ایک دم میں غمکدہ ہو جائیں گے عشرت کدہ

شادیاں جو کرتے تھے بیٹھیں گے ہو کر سوگوار

وہ جو تھے اونچے محل اور وہ جو تھے قصرِ بریں

پست ہو جائیں گے جیسے پست ہو اِک جائے غار

ایک ہی گردش سے گھر ہوجائیں گے مٹی کا ڈھیر

جس قدر جانیں تلف ہونگی نہیں اُن کاشمار

پر خدا کا رحم ہے کوئی بھی اُس سے ڈر نہیں

ان کو جو جھکتے ہیں اس دَر گہ پہ ہو کر خاکسار

یہ خوشی کی بات ہے سب کام اسی کے ہاتھ ہے

وہ جو ہے دھیما غضب میں اور ہے آمُرزگار

کب یہ ہوگا یہ خدا کو علم ہے پر اس قدر

دی خبر مجھ کو کہ وہ دن ہونگے ایّامِ بہار

’’پھر بہار آئی خدا کی بات پھر پوری ہوئی‘‘

یہ خدا کی وحی ہے اب سوچ لو اے ہوشیار

یاد کر فرقاں سے لفظ زُلزِلَتْ زِلْزَالَھَا

ایک دن ہوگا وہی جو غیب سے پایا قرار

سخت ماتم کے وہ دن ہونگے مصیبت کی گھڑی

لیک وہ دن ہونگے نیکوں کے لئے شیریں ثمار

آگ ہے پر آگ سے وہ سب بچائے جائیں گے

جو کہ رکھتے ہیں خدائے ذُوالعجائب سے پیار

انبیاء سے بغض بھی اے غافلو اچھا نہیں

دُو ر تَر ہٹ جاؤ اس سے ہے یہ شیروں کی کچھار

کیوں نہیں ڈرتے خدا سے کیسے دل اندھے ہوئے

بے خدا ہرگز نہیں بدقسمتو ! کوئی سَہَار

یہ نشانِ آخری ہے کام کر جائے مگر

ورنہ اب باقی نہیں ہے تم میں امید سُدھار

آسماں پر ان دنوں قہرِخدا کا جوش ہے

کیا نہیں تم میں سے کوئی بھی رشیدو ہونہار

اس نشاں کے بعد ایماں قابلِ عزّت نہیں

ایسا جامہ ہے کہ نو پوشوں کاجیسے ہو اُتار

اس میں کیا خوبی کہ پڑ کر آگ میں پھر صاف ہوں

خوش نصیبی ہو اگر اب سے کرو دل کی سنوار

اب تو نرمی کے گئے دن اب خدائے خشمگیں

کا م وہ دکھلائے گا جیسے ہتھوڑے سے لُہار

اس گھڑی شیطاں بھی ہوگا سجدہ کرنے کو کھڑا

دل میں یہ رکھ کر کہ حکم سجدہ ہو پھر ایک بار

بے خدا اس وقت دنیا میں کوئی مأ من نہیں

یا اگر ممکن ہو اب سے سوچ لو راہِ فرار

تم سے غائب ہے مگر میں دیکھتا ہوں ہر گھڑی

پھرتا ہے آنکھوں کے آگے وہ زماں و ہ روزگار

گر کرو توبہ تو اَب بھی خیر ہے کچھ غَم نہیں

تم تو خود بنتے ہو قہرِ ذُوالمِنَنْ کے خواستگار

وہ خدا حِلم و تفضل میں نہیں رکھتا نظیر

کیوں پھرے جاتے ہو اس کے حکم سے دیوانہ وار

میں نے روتے روتے سجدہ گاہ بھی ترَ کر دیا

پر نہیں اِن خشک دل لوگوں کو خوفِ کردگار

یا الٰہی اک نشاں اپنے کرم سے پھر دکھا

گردنیں جھک جائیں جس سے اور مکذّب ہو ویں خوار

اک کرشمہ سے دکھا اپنی و ہ عظمت اے قدیر

جس سے دیکھے تیرے چہرہ کو ہراک غفلت شِعار

تیری طاقت سے جو منکر ہیں انہیں اب کچھ دکھِا

پھر بدل دے گلشن و گلزار سے یہ دشتِ خار

زور سے جھٹکے اگر کھاوے زمیں کچھ غم نہیں

پر کسی ڈھب سے تزلزل سے ہومِلّت رستگار

دین و تقویٰ گم ہو ا جاتا ہے یارب رحم کر

بے بسی سے ہم پڑے ہیں ۔کیا کریں ۔ کیا اِختیار

میرے آنسو اس غم دلسوز سے رُکتے نہیں

دیں کا گھر ویراں ہے اور دنیا کے ہیں عالی مَنار

دیں تو اِک ناچیز ہے اور دنیا ہے جو کچھ چیز ہے

آنکھ میں انکی جو رکھتے ہیں زر و عِزّو وقار

جس طرف دیکھیں وہیں ایک دَہریت کاجوش ہے

دیں سے ٹھٹھّا اور نمازوں روزوں سے رکھتے ہیں عار

مال و دولت سے یہ زہریلی بلا پیدا ہوئی

موجب نخوت ہوئی رفعت کہ تھی اک زہرِ مار

ہے بلندی شانِ ایزد گر بشر ہووے بُلند

فخر کی کچھ جا نہیں وہ ہے مَتاعِ مُستعار

ایسے مغروروں کی کثرت نے کیا دِیں کو تباہ

ہے یہی غم میرے دل میں جس سے ہوُں میں دلفگار

اے مرے پیارے مجھے اس سَیلِ غم سے کر رِہا

ورنہ ہوجائے گی جاں اس درد سے تجھ پرنثار

(درمکنون حصہ دوم صفحہ ۲تا ۲۱۔ شائع کردہ احمدیہ بک ایجنسی قادیان۴؍ اپریل۱۹۱۷ء۔درثمین)

’’ظاہر الفاظ ۔۔۔۔۔۔ اس وحی کے جو مجھ پر ہوئی زلزلہ کی ہی خبر دیتے ہیں لیکن سنت اللہ ہمیں مجبور کرتی ہے کہ تاویلی احتمال بھی پیش نظر رہے ۔ اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں ایک قوم کے لئے ایک جگہ فرماتاہے۔’’و زلزلوا زلزالاً شدیداً‘‘ یعنی ان پرسخت زلزلہ آیا حالانکہ ان پر کوئی زلزلہ نہیں آیاتھا۔ پس دوسری آفت کانام اس جگہ زلزلہ رکھا گیاہے ‘‘۔ (براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ ۹۴ مطبوعہ ۱۹۰۵ء۔ روحانی خزائن مطبوعہ لندن جلد ۲۱ صفحہ ۲۵۵ )

’’خدا تعالیٰ نے مجھے صرف یہی خبر نہیں دی کہ پنجاب میں زلزلے وغیرہ آفات آئیں گی کیونکہ میں صرف پنجاب کے لئے مبعوث نہیں ہوا بلکہ جہاں تک دنیا کی آبادی ہے ان سب کی اصلاح کے لئے مامورہوں۔ میں سچ سچ کہتاہوں کہ یہ آفتیں اور زلزلے صرف پنجاب سے مخصوص نہیں بلکہ تمام دنیا ان آفات سے حصہ لے گی۔۔۔۔۔۔ یہی گھڑی کسی دن یوروپ کے لئے درپیش ہے اور پھر یہ ہولناک دن پنجاب اور ہندوستان اور ہر حصۂ ایشیا کے لئے مقدر ہے جو شخص زندہ رہے گا دیکھ لے گا‘‘۔ (حقیقۃ الوحی صفحہ ۱۹۳ حاشیہ۔ مطبوعہ ۱۹۰۶ء۔ روحانی خزائن مطبوعہ لندن جلد ۲۲ صفحہ ۲۰۰ حاشیہ )

’’یاد رہے کہ جس عذاب کے لئے یہ پیشگوئی ہے اس عذاب کو خدا تعالیٰ نے باربار زلزلہ کے لفظ سے بیان کیاہے اگرچہ بظاہر وہ زلزلہ ہے اور ظاہر الفاظ یہی بتاتے ہیں کہ وہ زلزلہ ہی ہوگا لیکن چونکہ عاد ت الٰہی میں استعارات بھی داخل ہیں اس لئے یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ غالباً تو وہ زلزلہ ہوگا ورنہ کوئی اور جانکاہ اور جانگداز اور فوق العادت عذا ب ہے جو زلزلہ کارنگ اپنے اندر رکھتا ہے ‘‘۔ (در مکنون حصہ دوم ۔ تاریخ اشاعت اپریل ۱۹۱۷ء)

’’وحی الٰہی سے معلوم ہوتا ہے کہ پانچ زلزلے آئیں گے اور پہلے چار زلزلے کسی قدرہلکے اور خفیف ہونگے اور دنیا ان کو معمولی سمجھے گی۔ پھر پانچواں زلزلہ قیامت کا نمونہ ہوگاکہ لوگوں کو سودائی اوردیوانہ کر دے گا یہاں تک کہ وہ تمنا کریں گے کہ وہ اس دن سے پہلے مرجاتے ‘‘ (حقیقۃ الوحی صفحہ ۹۳ حاشیہ مطبوعہ ۱۹۰۶ء۔ روحانی خزائن مطبوعہ لندن جلد ۲۲صفحہ ۹۶)

سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے الہام کیا کہ :

’’بھونچال آیا اور شدّت سے آیا زمین تہ و بالا کر دی ۔ یومَ تأتی السٖمآء بِدُخَانٍ مُبِیْنٍ وَ تَرَی الاَرضَ یَومَئِذٍ خَامِدَۃً مُصْفَرٖۃ ۔ اُکرِمُکَ بَعْدَ تَوھِیْنِک۔یُریدُونَ اَنْ لایَتِمٖ اَمْرُکَ اِنّی اَنَا الرٖحْمٰنُ ۔ سَاَجْعَلُ لَکَ سُہُولَۃٌ فی کُلِّ اَمْرٍ ۔ اُرِیْکَ بَرکَاتٍ مِنْ کُلِّ طَرَفٍ‘‘۔

ان الہامات کی تشریح کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ’’اس دن آسمان سے کھلا کھلا دھواں نازل ہوگا اور اس دن زمین زرد پڑ جائے گی ۔ یعنی سخت قحط کے آثار ظاہر ہونگے۔ میں بعد اس کے جو مخالف تیری توہین کریں گے تجھے عزت دو ں گا اور تیرا اکرام کروں گا ۔ وہ ارادہ کریں گے جو تیرا کام ناتمام رہے اور خدا نہیں چاہتا کہ جو تجھے چھوڑدے جب تک تیرے کام پورے نہ کرے میں رحمن ہوں اور ہر ایک امر میں تجھے سہولت دونگا اور ہر ایک امر میں تجھے برکتیں دکھلاؤں گا۔ ( حقیقۃ الوحی صفحہ ۹۴،۹۵ مطبوعہ ۱۹۰۶ء۔روحانی خزائن مطبوعہ لندن جلد ۲۲ صفحہ ۹۸)

’’اس زلزلہ کی جو قیامت کا نمونہ ہوگا یہ علامتیں ہیں کہ کچھ دن پہلے اس سے قخط پڑے گا اور زمین خشک رہ جائے گی نہ معلوم کہ معاً اسکے بعد یا کچھ دیر کے بعد زلزلہ آ ئے گا۔۔۔‘‘۔( حقیقۃ الوحی صفحہ ۹۴ مطبوعہ ۱۹۰۶ء۔روحانی خزائن مطبوعہ لندنجلد ۲۲ صفحہ ۹۸ حاشیہ )

’’اے سننے والو ! تم سب یاد رکھو کہ اگر یہ پیشگوئیاں صرف معمولی طور پر ظہور میں آئیں تو سمجھ لو کہ میں خدا کی طرف سے نہیں ہوں لیکن اگر ان پیشگوئیوں نے اپنے پورے ہونے کے وقت دنیا میں ایک تہلکہ برپا کر دیا اور شدت گھبراہٹ سے دیوانہ سابنا دیا اور اکثر مقامات میں عمارتوں اور جانوں کو نقصان پہنچا تو تم اس خدا سے ڈرو جس نے میرے لئے یہ سب کچھ کر دکھایا ‘‘۔ (تجلیات الٰہیہ صفحہ ۴ مطبوعہ ۱۹۰۶ء۔ روحانی خزائن مطبوعہ لندن، جلد ۲۰ صفحہ ۳۹۶)

’’میں باربار کہتا ہوں کہ توبہ کرو کہ زمین پر اس قدر آفات آنے والی ہیں کہ جیساکہ ناگہانی طور پر ایک سیاہ آندھی آتی ہے ۔۔۔۔۔۔ خدا عناصر اربعہ میں سے ہر ایک عنصر میں نشان کے طور پر ایک طوفان پیدا کرے گا اور دنیا میں بڑے بڑے زلزلے آئیں گے یہاں تک کہ وہ زلزلہ آ جائے گا جو قیامت کانمونہ ہے ۔ تب ہر قوم میں ماتم پڑے گا کیونکہ انہوں نے اپنے وقت کو شناخت نہ کیا یہی معنی خدا کے اس الہام کے ہیں کہ ’’دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اسے قبول نہ کیا لیکن خدا اسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کر دے گا‘‘۔

یہ پچیس برس کا الہام ہے جو براہین احمدیہ میں لکھا گیا اور ان دنوں میں پورا ہوگا جس کے کان سننے کے ہیں سنے‘‘۔ ( حقیقۃ الوحی صفحہ ۱۹۲ مطبوعہ ۱۹۰۶ء۔روحانی خزائن جلد ۲۲ مطبوعہ لندن صفحہ ۱۹۹،۲۰۰)

’’یاد رہے کہ مسیح موعودؑ کے وقت میں موتوں کی کثرت ضروری تھی۔۔۔۔۔۔ یہی معنی اس حدیث کے ہیں کہ جو لکھا ہے کہ مسیح موعودؑ کے دم سے لوگ مریں گے اور جہاں تک مسیح کی نظر جائے گی اس کا قاتلانہ دم اثر کرے گا۔۔۔۔۔۔۔ معنی ٰ اس حدیث کے یہ ہیں کہ اس کے نفخا ت طیبات یعنی کلمات اس کے جہاں تک زمین میں شائع ہونگے تو چونکہ لوگ ان کا انکارکریں گے اور تکذیب سے پیش آئیں گے اور گالیاں دیں گے اس لئے وہ انکار موجب عذاب ہو جائے گا ۔۔۔۔۔۔اصل بات یہ ہے کہ نبی عذاب کو نہیں لاتا بلکہ عذاب کا مستحق ہو جانا ۔ اتمام حُجّت کے لئے نبی کو لاتاہے۔ اور اس کے قائم ہونے کے لئے ضرورت پید ا کر تا ہے۔ اور سخت عذاب بغیر نبی کے قائم ہونے کے آتاہی نہیں جیسا کہ قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے:وَمَاکُنٖا مُعَذِّبِیْنَ حَتّٰی نَبْعَثَ رَسُوْلاً۔۔۔۔۔۔ ۔ اے غافلو! تلاش تو کرو شاید تم میں خدا کی طرف سے کوئی نبی قائم ہو گیاہو‘‘۔ (تجلیات الٰہیہ صفحہ ۷ تا ۹ مطبوعہ ۱۹۰۶ء۔ روحانی خزائن مطبوعہ لندن صفحہ ۳۹۹ تا ۴۰۱)

قیامت کی نمونہ تباہی میں تاخیر ڈال دی گئی

’’پہلے یہ وحی الٰہی ہوئی تھی کہ وہ زلزلہ جو نمونۂ قیامت ہوگابہت جلد آنے والا ہے ۔۔۔۔۔۔ مگر بعد اس کے میں نے دعا کی کہ اس زلزلہ ٔنمونۂ قیامت میں کچھ تاخیر ڈال دی جائے اور اس دعا کا اللہ تعالیٰ نے اس وحی میں خود ذکر فرمایا اور جواب بھی دیا ہے جیسا کہ وہ فرماتاہے:رَبِّ اَخِّرْ وَقْتَ ھٰذا ۔ اَخٖرَہُ اللّٰہ اِلیٰ وَقْتٍ مُسَمیً یعنی خدا نے دعا قبول کر کے اس زلزلہ کو کسی اور وقت پر ٹال دیا ہے ‘‘۔ ( حقیقۃ الوحی صفحہ۱۰۰حاشیہ۔ مطبوعہ ۱۹۰۶ء۔روحانی خزائن جلد ۲۲ مطبوعہ لندن صفحہ ۱۰۳)

عالمگیر تباہیوں کا انجام اور ان کے نتائج

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا:

’’ان نشانوں کے بعد دنیا میں ایک تبدیلی پیدا ہوگی اور اکثر دل خدا کی طرف کھینچے جائیں گے اور اکثر سعید دلوں پر دنیا کی محبت ٹھنڈی ہو جائے گی اور غفلت کے پردے درمیان سے اٹھا دئے جائیں گے۔ اور حقیقی اسلام کا شربت انہیں پلایاجائے گا ۔ جیسا کہ خدا تعالیٰ خود فرماتا ہے ؂

چو دور خسروی آغاز کردند

مسلماں را مسلماں باز کردند

دور خسروی سے مراد اس عاجز کا عہد دعوت ہے۔۔۔۔۔۔ معنٰی اس الہام کا یہ ہے کہ جب دور خسروی یعنی دور مسیحی جو خدا کے نزدیک آسمانی بادشاہت کہلاتی ہے ۔۔۔۔۔۔ شروع ہوا جیسا کہ خدا کے پاک نبیوں نے پیشگوئی کی تھی تو اُس کا یہ اثر ہوا کہ وہ جو صرف ظاہری مسلمان  تھے وہ حقیقی مسلمان بننے لگے‘‘۔(تجلیات الٰہیہ ، صفحہ ۴،۵ مطبوعہ ۱۹۰۶ء۔ روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۳۹۶ ،۳۹۷)

’’یادرہے کہ ۔۔۔۔۔۔ جس قدر خدا نے تباہی کاارادہ کیا ہے وہ پورا ہو چکے گا۔ تب خدا کارحم پھر جوش مارے گا اور پھر غیر معمولی اور دہشتناک زلزلوں کاایک مدّت تک خاتمہ ہو جائے گا۔۔۔۔۔۔ اور جیسا کہ نوحؑ کے وقت میں ہوا کہ ایک خلق کثیر کی موت کے بعد امن کا زمانہ بخشا گیا ایسا ہی اس جگہ بھی ہوگا۔۔۔۔۔۔ یعنی پھر لوگوں کی دعائیں سنی جائیں گی اور وقت پر بارشیں ہونگی اور باغ اور کھیت بہت پھل دیں گے اور خوشی کا زمانہ آ جائے گا اور غیرمعمولی آفتیں دور ہو جائیں گی تا لوگ یہ خیال نہ کریں کہ خدا صرف قہّار ہے رحیم نہیں ہے اور تا اس کے مسیح ؑ کو منحوس قرار نہ دیں‘‘۔ (تجلیات الٰہیہ ، صفحہ۶،۷ مطبوعہ ۱۹۰۶ء۔ روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۳۹۹)

’’خدا تعالیٰ نے مجھے باربار خبر دی ہے کہ وہ مجھے بہت عظمت دے گا اور میری محبت دلوں میں بٹھا ئے گا اور میرے سلسلہ کو تمام زمین میں پھیلائے گا۔۔۔۔۔۔ میرے فرقہ کے لوگ اس قدر علم اور معرفت میں کمال حاصل کریں گے کہ اپنے سچائی کے نور اور اپنے دلائل اور نشانوں کی رو سے سب کا منہ بند کر دیں گے۔ اور ہر ایک قوم اس چشمہ سے پانی پئے گی اور یہ سلسلہ زور سے بڑھے گا اورپھولے گا یہاں تک کہ زمین پر محیط ہو جاوے گا۔ بہت سی روکیں پیدا ہونگی اور ابتلاء آئیں گے مگر خدا سب کو درمیان سے اٹھا دے گا اور اپنے وعدہ کو پورا کرے گا۔۔۔۔۔۔۔

خدا نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ میں تجھے برکت پر برکت دوں گا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے ۔ سو اے سننے والو ان باتوں کو یاد رکھو اور ان پیش خبریوں کو اپنے صندوقوں میں محفوظ رکھ لو کہ یہ خدا کا کلام ہے جو ایک دن پورا ہوگا‘‘۔ (تجلیات الٰہیہ، صفحہ ۱۷،۱۸ مطبوعہ ۱۹۰۶ء۔ روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۴۰۹)

’’جو جاہل مسلمان کہتے ہیں کہ اسلام تلوار کے ذریعہ پھیلا ہے وہ نبیٔ معصوم علیہ الصلوٰۃ والسلام پر افتراء کرتے ہیں اور اسلام کی ہتک کرتے ہیں خوب یاد رکھیں کہ اسلام ہمیشہ اپنی پاک تعلیم اور ہدایت اور اپنے ثمرا تِ انوار و برکات اور معجزات سے پھیلا ہے اور آنحضرتﷺ کے عظیم الشان نشانات آپ کے اخلاق کی پاک تاثیرات نے اسے پھیلا یاہے اور وہ نشانات اور تاثیرات ختم نہیں ہو گئیں بلکہ ہمیشہ اور ہر زمانہ میں تازہ بتازہ موجود رہتی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ میں کہتاہوں کہ ہمارے نبی ﷺزندہ نبی ہیں اس لئے آپ کی تعلیمات ہمیشہ اپنے ثمرات دیتی رہتی ہیں اور آئندہ جب اسلام ترقی کرے گا تو اس کی یہی راہ ہوگی نہ کوئی اور ‘‘۔ (لیکچر لدھیانہ ، صفحہ۲۵،۲۶، مطبوعہ ۱۹۰۵ء۔ روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۲۷۳،۲۷۴)

’صرف اسلام ہی ایک ایسامذہب ہے جو کامل اور زندہ مذہب ہے اور اب وقت آ گیاہے کہ اسلام کی عظمت و شوکت ظاہر ہو اور اسی مقصد کو لے کر میں آیاہوں۔۔۔۔۔۔۔

میں بڑے زور سے اور پورے یقین اور بصیرت سے کہتاہوں کہ اللہ تعالیٰ نے ارادہ فرمایاہے کہ دوسرے مذاہب کو مٹا دے اور اسلام کو غلبہ اور قوت دے۔اب کوئی ہاتھ اور طاقت نہیں جو خدا تعالیٰ کے اس ارادہ کا مقابلہ کر ے ۔ وہ فَعّالٌ لِمَا یُریْد ہے ۔ مسلمانو! یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ نے میرے ذریعہ تمہیں یہ خبر دی ہے اور میں نے اپنا پیغام پہنچا دیا ہے ۔ اب اس کو سننا ، نہ سننا تمہارے اختیار میں ہے‘‘۔ (لیکچر لدھیانہ ، صفحہ ۴۲، مطبوعہ ۱۹۰۵ء۔ روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۲۹۰)

’’اس کا یہ مطلب نہیں کہ بجز اسلام کوئی مذہب باقی نہیں رہے گا کیونکہ ایسا ہونا قرآن کے منافی ہے ۔ ان آیتوں پر غور کرو جہاں لکھا ہے کہ یہود اور نصاریٰ قیامت تک رہیں گے۔

مطلب یہ ہے کہ تمام مذاہب مردہ اور ذلیل ہو جائیں گے اور اسلام کے مقابل پر مر جائیں گے مگر اسلام۔۔۔۔۔۔ اپنی روشنی اور زندگی اور غلبہ ظاہر کرے گا‘‘۔ (سراج منیر، صفحہ ۴۰ حاشیہ،مطبوعہ ۱۸۹۷ء۔ روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحہ ۴۲ حاشیہ)

’’خدا تعالیٰ چاہتاہے کہ ان تمام روحوں کو جو زمین کی متفرق آبادیوں میں آباد ہیں کیا یوروپ اور کیا ایشیا۔ ان سب کو جونیک فطرت رکھتے ہیں توحید کی طرف کھینچے او ر اپنے بندوں کو دینِ واحد پرجمع کرے ۔یہی خدا تعالیٰ کا مقصد ہے جس کے لئے میں دنیا میں بھیجا گیا ۔ سو تم اس مقصد کی پیروی کرو ۔ مگر نرمی اور اخلاق اور دعاؤں پر زور دینے سے ‘‘۔ (رسالہ الوصیت، صفحہ ۶ مطبوعہ ۱۹۰۵ء۔ روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ۳۰۶، ۳۰۷)

’’اس زمانہ میں جو مذہب اور علم کی نہایت سرگرمی سے لڑائی ہو رہی ہے اس کو دیکھ کر اور علم کے مذہب پر حملے مشاہدہ کر کے بے دل نہیں ہونا چاہئے کہ اب کیا کریں۔ یقیناًسمجھو کہ اس لڑائی میں بھی اسلام کو مغلوب اور عاجز دشمن کی طرح صلح جوئی کی حاجت نہیں بلکہ اب زمانہ اسلام کی روحانی تلوار کا ہے۔۔۔۔ یہ پیشگوئی یادرکھو کہ ۔۔۔۔۔۔اس لڑائی میں بھی دشمن ذلّت کے ساتھ پسپاہوگا۔

حال کے علوم جدیدہ کیسے ہی زور آور حملے کریں ،کیسے ہی نئے نئے ہتھیاوں کے ساتھ چڑھ چڑھ آویں مگرانجام کار ان کے لئے ہزیمت ہے ۔۔۔۔۔۔۔اسلام نہ صرف فلسفہ ٔ جدید کے حملے سے اپنے تئیں بچائے گا بلکہ حال کے علومِ مخالفہ کی جہالتیں ثابت کر دے گا۔ اسلام ۔۔۔۔۔۔ کو ان چڑھائیوں سے کچھ بھی اندیشہ نہیں جو فلسفہ اور طبعی کی طرف سے ہو رہے ہیں‘‘۔ (آئینہ کمالات اسلام صفحہ ۲۵۴،۲۵۵ حاشیہ۔ مطبوعہ ۱۸۹۳ء ۔ روحانی خزائن جلد ۵ صفحہ ۲۵۴،۲۵۵ حاشیہ)

’’خدا نے جو اس مامور کو مبعوث فرمایا ہے ۔ یہ اس لئے کہ تا اس کے ہاتھ سے دین اسلام کو تمام دینوں پر غلبہ بخشے۔۔۔۔۔۔۔

ابتداء میں ضرور ہے کہ اس مامور اور اس کی جماعت پر ظلم ہو ۔ لیکن آخر میں فتح ہوگی اور یہ دین اِس مامور کے ذریعہ سے تمام ادیان پر غالب آ جائے گا۔ اور دوسری تمام ملتیں بیّنہ کے ساتھ ہلاک ہو جائیں گی۔ (سراج منیر صفحہ ۴۰ ،۴۱ مطبوعہ ۱۸۹۷ء ۔ روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحہ ۴۲،۴۳)

’’اسلام کے لئے پھراس تازگی اورروشنی کا دن آئے گاجو پہلے وقتوں میں آ چکاہے اور وہ آفتاب اپنے پورے کمال کے ساتھ پھر چڑھے گا جیساکہ پہلے چڑھ چکا ہے لیکن ابھی ایسا نہیں ۔ ضرور ہے کہ آسمان اسے چڑھنے سے روکے رہے جب تک محنت اور جانفشانی سے ہمارے جگر خون نہ ہو جائیں اور ہم سارے آراموں کو اس کے ظہور کے لئے کھو نہ دیں۔

اسلام کا زندہ ہونا ہم سے ایک فدیہ مانگتاہے ۔ وہ کیاہے؟ ہمارا اس راہ میں مرنا۔ یہی موت ہے جس پر اسلام کی زندگی ، مسلمانوں کی زندگی اور زندہ خدا کی تجلّی موقوف ہے جس کا دوسرے لفظوں میں اسلام نام ہے۔۔۔۔۔۔۔

ضرور تھا کہ وہ اس مہمِّ عظیم کے روبراہ کرنے کے لئے ایک عظیم الشان کارخانہ جو ہر ایک پہلو سے مؤثر ہو اپنی طرف سے قائم کرتا۔ سو اس حکیم و قدیر نے اس عاجز کو اصلاحِ خلائق کے لئے بھیج کر ایسا ہی کیا‘‘۔ (فتح اسلام صفحہ ۱۵ تا ۱۸ ۔مطبوعہ دسمبر ۱۸۹۱ء ۔ روحانی خزائن جلد ۳ صفحہ ۱۰،۱۱)

’’یہ زمانہ وہی زمانہ ہے جس میں خدا تعالیٰ نے ارادہ فرمایا ہے کہ مختلف فرقوں کوایک قوم بنا دے ۔ ان مذہبی جھگڑوں کو ختم کر کے آخر ایک ہی مذہب میں سب کوجمع کر دے ۔۔۔۔۔۔ دنیا کے مذاہب کا بہت شور اٹھے گا ۔ ایک مذہب دوسرے مذہب پر ایسا پڑے گا جیسا کہ موج دوسری موج پر پڑتی ہے اور ایک دوسرے کوہلاک کرنا چاہیں گے ۔ تب آسمان وزمین کا خدا اس تلاطمِ امواج کے زمانہ میں اپنے ہاتھوں سے بغیر دنیوی اسباب کے ایک نیا سلسلہ پیدا کرے گا اور اس میں ان سب کو جمع کرے گا جو استعداد اور مناسبت رکھتے ہیں۔

تب وہ سمجھیں گے کہ مذہب کیا چیز ہے۔ اور ان میں زندگی اور حقیقی راستبازی کی روح پھونکی جائے گی اور خدا کی معرفت کا ان کو جام پلایا جائے گا۔۔۔۔۔۔ ۔ضرور ہے کہ یہ سلسلہ دنیا کا منقطع نہ ہو جب تک یہ پیشگوئی کہ آج سے تیرہ سو برس پہلے قرآن شریف نے دنیا میں شائع کی ہے پوری نہ ہو جائے‘‘۔ ( لیکچر لاہور صفحہ ۳۶،۳۷ ۔مطبوعہ ۱۹۰۵ء ۔ روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۱۸۲،۱۸۳)

’’نہ بُت رہیں گے نہ صلیب رہے گی اور سمجھدار دلوں پر سے اُن کی عظمت اٹھ جائے گی اور یہ سب باتیں باطل دکھائی دیں گی اور سچے خدا کا چہرہ نمایاں ہو جائے گا ۔ خدا اپنے بزرگ نشانوں کے ساتھ اور اپنے نہایت پاک معارف کے ساتھ اور نہایت قوی دلائل کے ساتھ دلوں کو اسلام کی طرف پھیرے گا اور وہی منکر رہ جائیں گے جن کے دل مسخ شدہ ہیں۔

خدا ایک ہوا چلا جائے گا جس طرح موسم بہار کی ہوا چلتی ہے اور ایک روحانیت آسمان سے نازل ہوگی اور مختلف بلاد اور ممالک میں بہت جلد پھیل جائے گی جس طرح بجلی مشرق و مغرب میں اپنی چمک ظاہر کر دیتی ہے ایسا ہی روحانیت کے ظہور کے وقت میں ہوگا ۔ تب جو نہیں دیکھتے تھے وہ دیکھیں گے اور جونہیں سمجھتے وہ سمجھیں گے اور امن اور سلامتی کے ساتھ راستی پھیل جائے گی۔‘‘  ( کتاب البریّہ صفحہ ۲۷۰ حاشیہ مطبوعہ ۱۸۹۸ء ۔ روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحہ ۳۱۱،۳۱۲ حاشیہ)

’’اے تمام لوگو ! سن رکھو کہ یہ اس کی پیشگوئی ہے جس نے زمین و آسمان بنایا ۔ و ہ اپنی اس جماعت کو تمام ملکوں میں پھیلا دے گا اور حجت اور بُرہان کی رو سے سب پر ان کو غلبہ بخشے گا۔۔۔۔۔۔ دنیا میں صرف یہی ایک مذہب ہوگا جو عزت کے ساتھ یاد کیا جائے گا۔

خدا اس مذہب اور اس سلسلہ میں نہایت درجہ اور فوق العادت برکت ڈالے گا اور ہر ایک کو جو اس کے معدوم کرنے کا فکر رکھتاہے نامراد رکھے گا اور یہ غلبہ ہمیشہ رہے گا یہاں تک کہ قیامت آ جائے گی۔اگر مجھ سے ٹھٹھا کرتے ہیں تواس سے کیا نقصان کیونکہ کوئی نبی نہیں جس سے ٹھَٹھّا نہیں کیا گیا۔ پس ضرور تھا کہ مسیح موعود سے بھی ٹھَٹھّا کیا جاتا۔ ‘‘(تذکرۃ الشہادتین صفحہ۶۴،۶۵ مطبوعہ ۱۹۰۳ء ۔ روحانی خزائن جلد۲۰ صفحہ۶۶)

’’نادان مخالف خیال کرتاہے کہ میرے مکروں اور منصوبوں سے یہ بات بگڑ جائے گی اور یہ سلسلہ درہم برہم ہو جائے گا مگر یہ نہیں جانتا کہ جو آسمان پر قرار پا چکا ہے زمین کی طاقت نہیں کہ اس کو محو کر سکے۔۔۔۔۔۔ اور ضروری ہے کہ وہ اس سلسلہ کو چلاوے اور بڑھاوے اور ترقی دے جب تک وہ پاک اور پلید میں فرق کرکے نہ دکھلا وے۔

ہر ایک مخالف کو چاہئے کہ جہاں تک ممکن ہو اس سلسلہ کے نابود کرنے کے لئے کوشش کرے اور ناخنوں تک زور لگا وے اور پھر دیکھے کہ انجام کار وہ غالب ہوا یا خدا۔

پہلے اس سے ابوجہل اور ابولہب اور ان کے رفیقوں نے حق کے نابود کرنے کے لئے کیا کیا زور لگائے تھے مگر اب وہ کہاں ہیں ۔ وہ فرعون جو موسیٰؑ کو ہلاک کرنا چاہتاتھا اب اس کا کچھ پتہ ہے ؟ پس یقیناًسمجھو کہ صادق ضائع نہیں ہو سکتا۔۔۔۔۔۔ بدقسمت وہ جو اِس وقت کو شناخت نہ کرے‘‘۔ (ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ ۱۲۸ مطبوعہ ۱۹۰۵ء ۔ روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحہ ۲۹۵)

’’باربار کے الہامات اورمکاشفات سے جو ہزارہا تک پہنچ گئے ہیں اور آفتاب کی طرح روشن ہیں خدا تعالیٰ نے میرے پر ظاہرکیا کہ میں آخر تجھے فتح دونگا اور ہر ایک الزام سے تیری بریت ظاہر کردوں گا اور تجھے غلبہ ہوگا اور تیری جماعت قیامت تک اپنے مخالفوں پر غالب رہے گی اور فرمایا کہ میں زور آور حملوں سے تیری سچائی ظاہر کروں گا۔۔۔۔۔۔ ہرایک چیز کے لئے ایک موسم اور وقت ہے۔۔۔۔۔۔۔

جب ان الہاما ت کے ظہور کا وقت آئے گا تو اس وقت یہ تحریر مستعد دلوں کے لئے زیادتیٔ ایمان اور تسلّی اور یقین کاموجب ہوگی‘‘۔ (انوارالاسلام صفحہ ۵۳ مطبوعہ ۱۸۹۴ء ۔ روحانی خزائن جلد ۹ صفحہ ۵۴)

’’مخالف لوگ عبث اپنے تئیں تباہ کر رہے ہیں۔ میں وہ پودا نہیں ہوں کہ ان کے ہاتھ سے اکھڑ سکوں۔ اگر ان کے پہلے اور ان کے پچھلے اور ان کے زندے اور ان کے مرُدے تمام جمع ہوجائیں اور میرے مارنے کے لئے دعائیں کریں تو میرا خدا ان تمام دعاؤں کولعنت کی شکل پر بنا کر ان کے منہ پر مارے گا۔

دیکھو ! صدہا دانشمند آدمی آپ لوگوں کی جماعت میں سے نکل کر ہماری جماعت میں ملتے جاتے ہیں ۔ آسمان پرایک شور برپا ہے اور فرشتے پاک دلوں کو کھینچ کر اس طرف لارہے ہیں ۔ اب اس آسمانی کارروائی کو کیاانسان روک سکتاہے۔ بھلا اگرکچھ طاقت ہے تو روکو۔ و ہ تمام مکرو فریب جو نبیوں کے مخالف کرتے رہے ہیں وہ سب کرو اور کوئی تدبیر اٹھا نہ رکھو۔ ناخنوں تک زور لگاؤ۔ اتنی بددعائیں کرو کہ موت تک پہنچ جاؤ پھر دیکھو کہ کیا بگاڑ سکتے ہو‘‘۔ (اشتہار مؤرخہ ۲۹؍دسمبر ۱۹۰۰ء ۔ مجموعہ اشتہارات جلد ۳ صفحہ ۳۹۲ ۔ اشتہار ۲۹؍دسمبر ۱۹۰۰؁ء)

بادشاہوں کا سلسلہ احمدیہ میں داخل ہونا

’’مجھے ۔۔۔۔۔۔کشف صحیح سے معلوم ہوا ہے کہ ملوک بھی اس سلسلہ میں داخل ہونگے ۔۔۔۔۔۔ و ہ ملوک مجھے دکھائے بھی گئے وہ گھوڑوں پر سوار تھے۔ اور یہ بھی اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں تجھے یہاں تک برکت دونگا کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے ۔ اللہ تعالیٰ ایک زمانہ کے بعدہماری جماعت میں ایسے لوگوں کو داخل کرے گا اور پھر ان کے ساتھ ایک دنیا اس طرف رجوع کرے گی‘‘۔( الحکم ۳۱؍جولائی و ۱۰؍اگست ۱۹۰۴ء)

’’عالم کشف میں وہ بادشاہ دکھلائے گئے جو گھوڑوں پر سوار تھے اور کہا گیا کہ یہ ہیں جو اپنی گردنوں پر تیری اطاعت کا جؤا اٹھائیں گے اور خدا انہیں برکت دے گا‘‘۔(تجلیات الٰہیہ صفحہ ۱۷ مطبوعہ ۱۹۰۶ء۔ روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۴۰۹ حاشیہ)

’’یہ برکت ڈھونڈنے والے بیعت میں داخل ہونگے اور ان کے بیعت میں ہونے سے گویا سلطنت بھی اس قوم کی ہوگی۔۔۔۔۔۔ اصل بات یہ ہے کہ خداکے کام تدریجی ہوتے ہیں ۔ جب آنحضرت ﷺ مکہ معظمہ کی گلیوں میں تکلیف اٹھاتے پھرتے تھے اس وقت کون خیال کر سکتا تھا کہ اس شخص کا مذہب دنیا میں پھیل جائے گا‘‘۔ (الحکم ۲۴؍اکتوبر ۱۹۰۲ء )

’بید انی رئیت فی مبشرۃ اریتھا جماعۃ من المومنین المخلصین والملوک العادلین الصالحین۔ بعضھم من ھذا الملک و بعضھم من العرب و بعضھم من فارس و بعضھم من بلاد الشام و بعضھم من ارض الروم و بعضھم من بلاد لا اعرفھا ثم قیل لی من حضرۃ الغیب ان ھؤلاء یصدّقونک و یؤمنون بک و یُصلّون علیک و یدعون لک و اُعطِی لک برکات حتی یَتبرّک الملوکُ بثیابک اُدْخِلُھُم فی المخلصین۔‘‘

ترجمہ :’’میں نے ایک رؤیا میں ایک مخلص مومنوں اور عادل اور نیک بادشاہوں کی جماعت دیکھی۔ جن میں بعض اس ملک کے تھے اور بعض عرب کے تھے اور بعض فارس کے تھے اور بعض شام کے علاقوں کے تھے۔ اور بعض روم کے ملک کے تھے۔ اور بعض ایسے علاقوں کے تھے جنہیں میں نہیں جانتا ۔

پھر مجھے غیب جاننے والے خدا نے بتایاکہ یہ لوگ تیرے مصدق ہونگے اور تجھ پر ایمان لائیں گے اور تجھ پر درود پڑھیں گے اور تیرے لئے دعا ئیں کریں گے اور میں تجھے اتنی برکتیں دونگا کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکتیں پائیں گے‘‘۔ (لجّۃ النور صفحہ ۳،۴ ۔ روحانی خزائن جلد ۱۶ صفحہ ۳۳۹،۳۴۰)

’’ذلک قدر اللہ و لا رآدّ لقدرہ وما قلت ھذاالقول من الھویٰ ۔ ان ھو الا وحی من رب السمٰوٰت العلی۔ و اوحی الی ربی و وعدنی انہ سینصرنی حتی یبلغ امری مشارق الارض و مغاربھا۔تتموج بحورالحق حتی یعجب الناس حباب غواربھا۔

ترجمہ:’’ یہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر ہے اور اس کی تقدیر کوئی ردّ نہیں کر سکتا۔۔۔۔۔۔ اللہ تعالیٰ نے مجھ پر وحی کی اور مجھ سے وعدہ فرمایا کہ وہ میری مدد فرمائے گا یہاں تک کہ میرا امر زمین کے مشرقوں اور مغربوں تک پہنچ جائے گا اور سچائی کے سمندر موجیں ماریں گے یہاں تک کہ ان کی بلند موجوں کے بلبلے لوگوں کوحیران کر دیں گے‘‘۔(لجّۃ النور صفحہ ۶۶ ،۶۷۔ روحانی خزائن جلد ۱۶ صفحہ ۴۰۸)

’’حکم اللہ الرحمن الخلیفۃ اللہ السلطان ۔ یوتی لہ الملک العظیم۔ وتفتح علی یدہ الخزائن ۔ ذٰلک فضل اللہ و فی اعینکم عجیب‘‘

عربی الہام کا ترجمہ :’’خدائے رحمن کا حکم ہے اس کے خلیفہ کے لئے جس کی آسمانی بادشاہت ہے۔ اس کو ملک عظیم دیاجائے گا اور خزائن اس کے لئے کھولے جائیں گے ۔ یہ خدا کا فضل ہے اور تمہاری آنکھوں میں عجیب‘‘۔ (حقیقۃ الوحی صفحہ ۹۲ ۔ روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۹۴)

حاشیہ: ’’کسی آئندہ زمانہ کی نسبت یہ پیشگوئی ہے جیسا کہ آنحضرت ﷺ کے ہاتھ میں کشفی رنگ میں کنجیاں دی گئی تھیں مگران کنجیوں کا ظہور حضرت عمر فاروقؓ کے ذریعہ سے ہوا۔

خدا جب اپنے ہاتھ سے ایک قوم بناتاہے تو پسند نہیں کرتا کہ ہمیشہ ان کو لوگ پاؤں کے نیچے کچلتے رہیں۔

آخر بعض بادشا ہ ان کی جماعت میں داخل ہو جاتے ہیں اس طرح پر وہ ظالموں کے ہاتھ سے نجات پاتے ہیں جیساکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے لئے ہوا ‘‘۔ (حقیقۃ الوحی صفحہ ۹۲ حاشیہ۔ روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۹۴حاشیہ)

اہل مکہ اور عرب اقوام حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان لائیں گی

’’و انی رأیت ان اھل مکۃ یدخلون افواجا فی حزب اللہ القادر المختار۔ وھذا من رب السمآء و عجیب فی اعین اھل الارضین‘‘۔

ترجمہ: اور میں دیکھتا ہوں کہ اہل مکہ خدائے قادر کے گروہ میں فوج در فوج داخل ہو جائیں گے اور یہ آسمان کے خدا کی طرف سے ہے اور زمینی لوگوں کی آنکھ میں عجیب ۔(نورالحق حصہ دوم صفحہ ۱۰۔ روحانی خزائن جلد ۸ صفحہ ۱۹۷)

’’و ان ربی قد بشّر نی فی العرب واَلْھَمَنِی ان اَمُونھم و اُرِیھم طریقھم و اُصْلِحَ لھم شُیونَھم ۔ (حمامۃ البشریٰ صفحہ ۷ روحانی خزائن جلد ۷صفحہ ۱۸۲)

ترجمہ: اور میرے رب نے عرب کی نسبت مجھے بشارت دی اور الہا م کیا کہ میں ان کی خبر گیری کروں اور ٹھیک راہ بتاؤں اور ان کاحا ل درست کروں۔

’’ان ارض دمشق تنیر و تشرق بدعوات المسیح الموعود بعد ما اظلمت بانواع البدعات‘‘۔

ترجمہ: دمشق کی سرزمین منورہوگی اورروشن ہوگی مسیح موعود کی تبلیغ سے بعد اس کے کہ وہ مختلف بدعات کی وجہ سے اندھیری ہوگئی تھی۔ (حمامۃ البشریٰ صفحہ ۳۷ ۔ مطبوعہ ۱۸۹۴ء۔ روحانی خزائن جلد ۷ صفحہ ۲۲۵)

فلسطین پر یہودیوں کا قبضہ عارضی ہوگا

اخبار الحکم ۲۷؍اکتوبر ۱۹۰۲؁ء میں لکھا ہے کہ:

’’اس تذکرہ پر کہ عیسائیوں اور یہودیوں میں پھر اس امر کی تحریک ہو رہی ہے کہ ارض مقدس کو ترکوں سے خرید لیاجاوے۔ فرمایا: انٖ الاَرضَ یَرِثھُاَ عِبَادِیَ الصٖالِحُون۔ ا س آیت سے صاف معلوم ہوتاہے کہ الارض سے مراد شام کی سرزمین ہے ۔ یہ صالحین کاورثہ ہے اور جو اب تک مسلمانوں کے قبضہ میں ہے ۔ خداتعالیٰ نے یَرِثُھافرمایا، یَمْلِکُھَا نہیں فرمایا۔ اس سے صاف پایا جاتاہے کہ وارث اس کے مسلمان ہی رہیں گے اور اگر کسی اور کے قبضہ میں کسی وقت چلی جائے تو وہ قبضہ اس قسم کا ہے جیسے راہن اپنی چیز کا قبضہ مُرتہن کودے دیتاہے۔ یہ خدا تعالیٰ کی پیشگوئی کی عظمت ہے ۔ ارض شام چونکہ انبیاء کی سرزمین ہے اس لئے خدا تعالیٰ اس کی بے حرمتی نہیں کرنا چاہتا‘‘۔ (الحکم ۲۷؍اکتوبر ۱۹۰۲ء)

مغربی ممالک اسلام کے نور سے منور کئے جائیں گے

’’طلوع شمس کاجو مغرب کی طرف سے ہوگا ہم اس پر ۔۔۔۔۔۔ ایمان لاتے ہیں لیکن اس عاجز پر جوایک رؤیا میں ظاہر کیا گیا وہ یہ ہے جو مغرب کی طرف سے آفتاب کا چڑھنا یہ معنی رکھتاہے کہ ممالک مغربی جو قدیم سے ظلمت کفر و ضلالت میں ہیں آفتاب صداقت سے منور کئے جائیں گے اور ان کو اسلام سے حصہ ملے گا‘‘۔(ازالہ اوہام حصہ دوم صفحہ ۵۱۵ مطبوعہ ۱۸۹۱ء۔روحانی خزائن جلد ۳ صفحہ ۳۷۶،۳۷۷)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک رؤیا

’’میں دیکھتاہوں کہ ایک بڑا بحر ذخّار کی طرح دریا ہے جو سانپ کی طرح بل پیچ کھاتا مغرب سے مشرق کو جا رہا ہے اور پھر دیکھتے دیکھتے مشرق سے مغرب کو الٹا بہنے لگا‘‘۔ (اخبار الحکم ۱۷؍اپریل ۱۹۰۳ء )

’’جب ممالک مغربی کے لوگ فوج درفوج دین اسلام میں داخل ہوجائیں گے تب ایک انقلابِ عظیم ادیان میں پیدا ہوگا اورجب یہ آفتاب پورے طور پر ممالک مغربی میں طلوع کرے گا تووہی لوگ اسلام سے محروم رہ جائیں گے جن پر دروازہ تو بہ کا بند ہے ۔ یعنی جن کی فطرتیں بالکل مناسبِ حال اسلام کے واقعہ نہیں ۔۔۔۔۔۔اُن کے دل سخت ہوجائیں گے اور ان کو توبہ کی توفیق نہیں دی جاوے گی‘‘۔ (ازالہ اوہام حصہ دوم صفحہ ۵۱۷ ۔ روحانی خزائن جلد ۳ صفحہ ۳۷۷،۳۷۸)

روس اور اس کے متعلقہ علاقوں کے بارہ میں بشارت

رؤیا: سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:

’’میں نے دیکھا کہ زار روس کا سونٹا میرے ہاتھ میں آ گیاہے۔ وہ بڑا لمبااور خوبصورت ہے ۔ پھر میں نے غور سے دیکھا تو وہ بندوق ہے اور یہ معلوم نہیں ہوتا کہ وہ بندوق ہے بلکہ اس میں پوشیدہ نالیاں بھی ہیں گویا بظاہر سونٹامعلوم ہوتاہے اور وہ بندوق بھی ہے۔ اور پھر دیکھا کہ خوارزم بادشاہ جو بوُعلی سینا کے وقت میں تھا اس کی تیر کمان میرے ہاتھ میں ہے ۔ بو علی سینا بھی پاس ہی کھڑا ہے اور اس تیر کمان سے میں نے ایک شیر کو بھی شکار کیا ‘‘۔ (الحکم ۳۱؍جنوری ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۵)

روایت شیخ عبدالکریم صاحب ولد شیخ غلام محمد صاحب جلد ساز کراچی ، صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام۔

’’۱۹۰۴ء میں ایک روز سیرکے موقعہ پر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا:

’’میں اپنی جماعت کو رشیاکے علاقہ میں ریت کی مانند دیکھتاہوں‘‘۔(رجسٹرروایات صحابہ جلد ۱۳صفحہ ۱۱۴)

مشرقی ممالک اور ایشیائی اقوام کے بارہ میں پیشگوئیاں

’’مجھے یہ ۔۔۔۔۔۔صاف لفظوں میں فرمایا گیاہے کہ پھر ایک دفعہ ہندو مذہب کا اسلام کی طرف زور کے ساتھ رجوع ہوگا ۔ ابھی وہ بچے ہیں انہیں معلوم نہیں کہ ایک ہستی قادر مطلق موجودہے۔ مگر وہ وقت آتاہے کہ ان کی آنکھیں کھلیں گی اور زندہ خدا کو اس کے عجائب کے ساتھ بجزاسلام کے اور کسی جگہ نہ پائیں گے‘‘۔ (اشتہار مؤرخہ ۱۲؍مارچ ۱۸۹۷ء ۔ مجموعہ اشتہارات جلد ۲ صفحہ ۳۴۱)

’’سناتن دھرم والے صرف گزشتہ اوتاروں سے محبت نہیں رکھتے بلکہ کلجُگ کے زمانہ میں وہ ایک آخری اوتار کے بھی منتظر ہیں جوزمین کو گناہ سے پاک کردے گا۔ پس کیا تعجب ہے کسی وقت خدا کے نشانوں کو دیکھ کر سعاد ت مند اُن کے خدا کے اس آسمانی سلسلہ کو قبول کر لیں کیونکہ ان میں ضد اور ہٹ دھرمی بہت ہی کم ہے‘‘۔ (سناتن دھرم صفحہ ۸ مطبوعہ ۱۹۰۳ء ۔ روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحہ ۴۷۵حاشیہ)

’’آریہ ورت کے محقق پنڈت بھی کرشن اوتار کازمانہ یہی قرار دیتے ہیں اوراس زمانہ میں اس کے آنے کے منتظر ہیں۔۔۔۔۔۔ وہ لوگ ابھی مجھے شناخت نہیں کرتے مگر وہ زمانہ آتاہے ۔۔۔۔۔۔ کہ مجھے شناخت کر لیں گے کیونکہ خدا کا ہاتھ انہیں دکھائے گا کہ آنے والا یہی ہے ‘‘۔ (تتمہ حقیقۃ الوحی صفحہ ۸۵،۸۶ مطبوعہ ۱۹۰۶ء ۔ روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۵۲۲،۵۲۳)

ہندو راجپوتوں اور ڈوگروں کے احمدی ہونے کی پیشگوئی

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ۴؍نومبر ۱۹۰۴؁ء کو ایک رؤیا دیکھی:

’’۲۵؍شعبان ۱۳۲۳؁ھ بروز جمعہ مقام سرائے بٹالہ بوقت واپسی از سیالکوٹ خواب میں میں نے دیکھاکہ راجہ گلاب سنگھ مہاراجہ کشمیر میرے پیر دبا رہاہے۔ پھر دیکھا کہ بہت سے زیورات سونے کے جمع ہو رہے ہیں اور مولوی نورالدین صاحب نے پوچھا ہے کہ یہ کیسے زیورات ہیں ۔ میں نے کہا کہ گوالیار کے راجہ نے خیرات کے لئے بھیجے ہیں ‘‘۔ (تذکرہ ایڈیشن سوم، اکتوبر ۱۹۶۹ء صفحہ ۵۲۱)

’’جیساکہ خدا نے مجھے مسلمانوں اور عیسائیوں کے لئے مسیح موعود کرکے بھیجا ہے ایسا ہی میں ہندوؤں کے لئے بطوراوتار ہوں۔۔۔۔۔۔ جیسا کہ مسیح ابن مریم کے رنگ میں ہوں ایساہی راجہ کرشن کے رنگ میں بھی ہوں جوہندومذہب کے تمام اوتاروں میں سے ایک بڑا اوتار تھا۔ یا یوں کہنا چاہئے کہ روحانی حقیقت کی رُو سے میں وہی ہوں۔۔۔۔۔۔ وہ خدا جو زمین و آسمان کاخدا ہے اس نے میرے پر یہ ظاہر کیا ہے اور نہ ایک دفعہ بلکہ کئی دفعہ مجھے بتلایا ہے کہ توُ ہندوؤں کے لئے کرشن اور مسلمانوں اور عیسائیوں کے لئے مسیح موعود ہے۔۔۔۔۔۔۔

راجہ کرشن جیسا کہ میرے پر ظاہر کیا گیا ہے درحقیقت ایک ایسا کامل انسان تھاجس کی نظیر ہندوؤں کے کسی رشی اور اوتار میں نہیں پائی جاتی اور اپنے وقت کا اوتار یعنی نبی تھا جس پر خدا کی طرف سے روح القدس اترتا تھا۔ ۔۔۔۔۔۔ جس نے آریہ ورت کی زمین کو پاپ سے صاف کیا وہ اپنے زمانہ کا درحقیقت نبی تھا جس کی تعلیم کو پیچھے سے بہت سی باتوں میں بگاڑ دیاگیا۔۔۔۔۔۔۔

خدا کا وعدہ تھاکہ آخری زمانہ میں اس کا برُوز یعنی اوتار پیدا کرے سو یہ وعدہ میرے ظہور سے پورا ہوا۔۔۔۔۔۔۔ میں کرشن سے محبت کرتاہوں کیونکہ میں اس کا مظہر ہوں‘‘۔ (لیکچر سیالکوٹ صفحہ ۳۳،۳۴ مطبوعہ ۱۹۰۵ء ۔ روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۲۲۸،۲۲۹)

’’ دو دفعہ ہم نے رؤیا میں دیکھا کہ بہت سے ہندو ہمارے آگے سجدہ کرنے کی طرح جھکتے ہیں اورکہتے ہیں کہ یہ اوتار ہیں اور کرشن ہیں اور ہمارے آگے نذریں دیتے ہیں اور ایک دفعہ الہام ہوا:

’’ہے کرشن رودّر گوپال تیری مہما ہوتیری اَسْتَتِی گیتا میں موجودہے ۔ لفظ رودّر کے معنیٰ نذیر اور گوپال کے معنی بشیر کے ہیں‘‘۔ (اخبار الحکم ۲۴؍اپریل ۱۹۰۲ء)

سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی رؤیا

’’ ایک بڑا تخت مربّع شکل کا ہندوؤں کے درمیان بچھا ہوا ہے جس پر میں بیٹھا ہوں۔ ایک ہندو کسی کی طرف اشارہ کر کے کہتاہے کہ کرشن جی کہاں ہیں؟ جس سے سوال کیا گیا وہ میری طرف اشارہ کر کے کہتاہے کہ یہ ہے۔ پھر تمام ہندو روپیہ وغیرہ نذر کے طور پر دینے لگے اتنے میں ہجوم میں سے ایک ہندو بولا ہے کرشن جی رودّر گوپال ۔یہ عرصہ دراز کی رؤیا ہے ‘‘۔ (اخبار البدر ۲۹؍اکتوبر و ۸؍نومبر ۱۹۰۳ء)

’ لوگ بزرگوں کی تعلیم کو بوجہ امتداد زمانہ بھول جاتے ہیں اور ان کی سچی تعلیموں میں بہت کچھ بے جا تصرف کر لیا کرتے ہیں اور مرور زمانہ سے ان کی اصلی تعلیم پر سینکڑوں پردے پڑ جاتے ہیں اور حقیقت حال دنیا کی نظروں سے پوشیدہ ہو جاتی ہے۔ اصل بات یہی ہے کہ ان کامذہب موجودہ مذہب اہلِ ہنود سے بالکل مختلف اور توحید کی سچی تعلیم پر مبنی تھا۔۔۔۔۔۔ ایک بارہم نے کرشن جی کو دیکھا کہ وہ کالے رنگ کے تھے اور پتلی ناک ، کشادہ پیشانی والے ہیں ۔ کرشن جی نے اٹھ کر اپنی ناک ہماری ناک سے اور اپنی پیشانی ہماری پیشانی سے ملا کر چسپاں کر دی‘‘۔ (اخبارالحکم ۶؍مارچ ۱۹۰۸ء)

(مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل یکم جنوری ۱۹۹۹ء تا ۱۵ جنوری ۱۹۹۹ء)