سیرت مسیح موعود علیہ السلام

فہرست مضامین

ڈپٹی عبداللہ آتھم سے مباحثہ کے حالات

کچھ دن کے بعد آپ واپس قادیان تشریف لے آئے۔ چند ماہ کے بعد1892ء میں پھر ایک سفر کیا۔ پہلے لاہور گئے وہاں مولوی عبدالحکیم کلانوری سے مباحثہ ہوا وہاں سے سیالکوٹ اور وہاں سے جالندھر اور پھر وہاں سے لدھیانہ تشریف لائے۔ لدھیانہ سے پھر قادیان تشریف لے آئے۔

مسیحیوں سے مباحثہ “جنگِ مقدس”

اس کے بعد 1893ء میں حضور کا مباحثہ مسیحیوں سے قرار پایا اور مسیحیوں کی طرف سے ڈپٹی عبداللہ آتھم مباحث مقرر ہوئے۔ یہ مباحثہ امرتسر میں ہوا اور پندرہ دن تک رہا اور “جنگِمقدس” کے نام سے شائع ہو چکا ہے۔

اس مباحثہ میں بھی جیسا کہ ہمیشہ آپ کے مخالفین کو زک ہوتی رہی ہے، مسیحی ناظرین کو سخت زک ہوئی اور اس کا نہایت مفید اثر ہوا۔ اِس مباحثہ کے پڑھنے سے (یہ مباحثہ تحریری ہوا تھا اور طرفین آمنے سامنے بیٹھ کر ایک دوسرے کے پرچہ کا جواب دیتے تھے اور وہ اصل تحریریں ایک کتاب کی صورت میں شائع کی گئی ہیں ) معلوم ہوتا ہے کہ مسیحی مباحث آپ کے زبردست استدلال سے تنگ آ جاتا تھا اور بار بار دعویٰ بدلتا جاتا تھا اور بعض جگہ تو مسیحیوں کی طرف سے ناروا سخت کلامی تک کی گئی ہے۔ آپ نے اس جدید علمِ کلام کو پیش کیا کہ ہر ایک فریق اپنے مذہب کی صداقت کے دعاوی اور دلائل اپنی مسلّمہ کتب سے ہی پیش کرے۔

ایک عجیب واقعہ

اِس مباحثہ میں ایک عجیب واقعہ گزرا جس میں دوست دشمن آپ کی خداداد ذہانت بلکہ الٰہی تائید کے قائل ہو گئے اور وہ یہ کہ گو بحث اور اُمور پر ہو رہی تھی مگر مسیحیوں نے آپ کو شرمندہ کرنے کے لیے ایک دن کچھ لولے، لنگڑے اور اندھے اکٹھے کیے اور عین دوران مباحثہ میں آپ کے سامنے لا کر کہا کہ آپ مسیح ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، وہ تو لولے لنگڑے اور اندھوں کو اچھا کیاکرتے تھے۔

پس آپ کا دعویٰ تب ہی سچا ہو سکتا ہے جب کہ آپ بھی ایسے مریضوں کو اچھا کر کے دکھلائیں اور دور جانے کی ضرورت نہیں مریض حاضر ہیں۔ جب انہوں نے یہ بات پیش کی سب لوگ حیران رہ گئے اور ہر ایک شخص محو حیرت ہو کر اِس بات کا انتظار کرنے لگا کہ دیکھیں کہ مرزا صاحب اِس کا کیا جواب دیتے ہیں ؟ اور مسیحی اپنی اِس عجیب کارروائی پر بہت خوش ہوئے کہ آج اِن پر نہایت سخت حجت تمام ہوئی ہے اور بھری مجلس میں کیسی خجالت اُٹھانی پڑی ہے۔ لیکن جب آپ نے اِس مطالبہ کا جواب دیا تو اُن کی ساری خوشی مبدل بہ افسوس و ندامت ہوگئی اور فتح شکست سے بدل گئی اور سب لوگ آپ کے جواب کی برجستگی و معقولیت کے قائل ہوگئے۔ آپ نے فرمایا کہ اِس قسم کے مریضوں کو اچھا کرنا تو انجیل میں لکھا ہے ہم تو اِس کے قائل ہی نہیں بلکہ ہمارے نزدیک تو حضرت مسیحؑ کے معجزات کا رنگ ہی اور تھا۔ یہ تو انجیل کا دعویٰ ہے کہ وہ ایسے بیماروں کو جسمانی رنگ میں اچھا کرتے تھے اور اس طرح ہاتھ پھیر کر نہ کہ دعا اور دوا سے۔ لیکن انجیل میں لکھا ہے کہ اگر تم میں ذرّہ بھر بھی ایمان ہو تو تم لوگ اِس سے بڑھ کر عجیب کام کر سکتے ہو۔ پس اِن مریضوں کا ہمارے سامنے پیش کرنا آپ لوگوں کا کام نہیں بلکہ ہمارا کام ہے اور اب ہم اِن مریضوں کو جو آپ لوگو ں نے نہایت مہربانی سے جمع کر لیے ہیں آپ کے سامنے پیش کر کے کہتے ہیں کہ براہِ مہربانی انجیل کے حکم کے ماتحت اگر آپ لوگوں میں ایک رائی کے دانہ کے برابر بھی ایمان ہے تو اِن مریضوں پر ہاتھ رکھ کر کہیں کہ اچھے ہو جاؤ۔ اگر یہ اچھے ہوگئے تو ہم یقین کر لیں گے کہ آپ لوگ اور آپ کا مذہب سچا ہے ورنہ جو دعویٰ آپ لوگوں نے خود کیا ہے اُسے بھی پورا نہ کر سکیں تو پھر آپ کی صداقت پر کس طرح یقین کیا جا سکتا ہے۔ اِس جواب کا ایسا اثر ہوا کہ مسیحی بالکل خاموش ہوگئے اور کچھ جواب نہ دے سکے اور بات ٹال دی۔

اس کے بعد انہی دنوں آپ ایک دفعہ فیروز پور تشریف لے گئے۔ اِن تمام سفروں میں ہر جگہ آپ کو دِق کیا گیا اور لوگوں نے آپ کو بڑا دکھ دیا اور جو کچھ تحریر کے ذریعہ شائع کیا گیا اس کی کوئی حد ہی نہیں۔ جہاں آپ جاتے وہیں لوگ مل کر آپ کو دکھ دیتے۔

تعطیل جمعہ کی کوشش

یکم جنوری 1896ء کو آپ نے اسلامی عظمت کے اظہار اور زبردست اسلامی شعار نماز جمعہ کے عام رواج کے لیے ایک کوشش کا آغاز فرمایا۔ یعنی گورنمنٹ ہند سے تعطیل جمعہ کی تحریک کی کارروائی شروع کی۔ بدقسمتی سے مسلمانوں میں جمعہ کے متعلق جو اُن کے لیے مسیح موعود کا ایک زبردست عملی نشان تھا ایسی غلط فہمیاں پیدا ہوگئی تھیں کہ بعض شرائط کو ملحوظ رکھ کر جمعہ کی فرضیت پر ہی بحث چھڑ چکی تھی اور عملی طور پر جمعہ بہت جگہ متروک ہو گیا تھا آپ نے اُس کو زندہ کیا اور چاہا کہ گورنمنٹ جمعہ کی تعطیل منظور فرمائے۔ اِس بارہ میں جو میموریل گورنمنٹ کی خدمت میں بھیجنا آپ نے تجویز فرمایا اُس کی تیاری سے پہلے ہی مولویوں نے اپنی عادت کے موافق مخالفت کی اور اس کام کو اپنے ہاتھ میں لیناچاہا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام یہ کام محض للّٰہیّت سے کر رہے تھے آپ کو کسی تحسین و داد کی تمنا نہ تھی۔ آپ کا مدعا تو اِس اہم دینی خدمت کا انجام پانا تھا خواہ کسی کے ہاتھ سے ہو۔ آپ نے کل کام مولوی محمد حسین بٹالوی کی درخواست پر اُن کے سپرد کر دینے کا اعلان کر دیا کہ وہ جمعہ کی تعطیل کے لیے خود کوشش کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں تو کریں۔ مگر افسوس! انہوں نے اِس مفید کام کو اس راہ سے روک دیا مگر آپ کی یہ تحریک الٰہی تحریک تھی آخر خدا تعالیٰ نے آپ ہی کی جماعت کے ذریعہ اس کو پورا کیا۔