سیرت مسیح موعود علیہ السلام

فہرست مضامین

احمد قادیانی علیہ السلام اور آپ کے خاندانی حالات

احمد جوسلسلہ احمدیہ کے بانی تھے۔ آپ کا پورانام غلام احمد تھا اور آپؑ قادیان کے باشندے تھے جو بٹالہ ریلوے اسٹیشن سے گیارہ 11میل، امرتسرسے چوبیس24میل اور لاہور سے قریباً ستاون 57میل جانب مشرق پرایک قصبہ ہے۔ آپ قریباً1836ء یا 1837ء میں اِسی گاؤں میں مرزا غلام مرتضیٰ صاحب کے ہاں جمعہ کے دن پیدا ہوئے٭ اور آپ کی ولادت توام تھی یعنی آپ کے ساتھ ایک لڑکی بھی پیدا ہوئی تھی جو تھوڑی ہی مدت بعدفوت ہوگئی۔

پیشتر اس کے کہ میں آپؑ کے حالات بیان کروں ضروری معلوم ہوتاہے کہ مختصراً آپ کے خاندان کے بھی کچھ حالات بیان کر دیے جائیں۔

آپ کا خاندان اپنے علاقے میں ایک معزّز خاندان تھا اور اس کا سلسلہ نسب برلاس سے جو امیر تیمور کا چچا تھا ملتا ہے اور جبکہ امیرتیمورنے علاقہ کُش پربھی جس پر اس کا چچا حکمران تھا قبضہ کر لیا تو برلاس خاندان خراسان میں چلاآیا اور ایک مدت تک یہیں رہا لیکن دسویں صدی ہجری یا سولہویں صدی مسیحی کے آخر میں اس خاندان کا ایک ممبر مرزا ہادی بیگ بعض غیر معلوم وجوہات کے با عث اس ملک کو چھوڑ کر قریباً 200 دو سَو آدمیوں سمیت ہندوستان آگیا اور دریائے بیاس کے قریب کے علاقہ میں اُس نے اپنا ڈیرہ لگایا اور بیاس سے نو میل کے فاصلہ پرایک گاؤں بسایا اور اُس کا پورا نام اِسلام پور رکھا (یعنی اسلام کا شہر) چونکہ آپ ایک نہایت قابل آدمی تھے دہلی کی حکومت کی طرف سے اِس علاقہ کے قاضی مقرر کیے گئے اور اِس عُہدہ کی وجہ سے آپ کے گاؤں کا نام بجائے اسلام پور کے اِسلام پور قاضی ہوگیایعنی اِسلام پورجو قاضی کا مقام ہے اور بگڑتے بگڑتے اسلام پور کا نام تو بالکل مٹ گیا اور صرف قاضی رہ گیاجو پنجابی تلفظ میں قادی بن گیا اور آخر اس سے بگڑکر اس گاؤں کانام قادیان ہوگیا۔

غرض مرزا ہادی بیگ صاحب نے خراسان سے آکر بیاس کے پاس ایک گاؤں بساکراس میں بودو باش اختیارکی اور اسی جگہ پران کا خاندان ہمیشہ قیام پذیررہا اور باوجوددہلی پایہ تختِ حکومت سے دور رہنے کے اِس خاندان کے ممبرمغلیہ حکومت کے ماتحت معزز عہدوں پر مامور رہے اور جب مغلیہ خاندان کو ضعف پہنچا اور پنجاب میں طوائف الملوکی پھیل گئی تو یہ خاندان ایک آزاد حکمران کے طور پر قادیان کے اردگردکے علاقہ پر جو قریباً ساٹھ میل کا رقبہ تھا حکمران رہا لیکن سکّھوں کے زور کے وقت رام گڑھیا سِکّھوں نے بعض اور خاندانوں کے ساتھ مِل کر اِس خاندان کے خلاف جنگ شروع کی اور گو اُن کے پڑدادا نے تو اپنے زمانہ میں ایک حدتک دُشمن کے حملوں کو روکا لیکن آہستہ آہستہ (حضرت) مرزا صاحبؑ کے دادا کے وقت اِس ریاست کی حالت ایسی کمزور ہو گئی کہ صرف قادیان جو اُس وقت ایک قلعہ کی صورت میں تھا اور اس کے چاروں طرف فصیل تھی اُن کے قبضہ میں رہ گیا اور باقی سب علاقہ اُن کے ہاتھوں سے نکل گیا اور آخر بعض گاؤں کے باشندوں سے سازش کر کے سِکھ اِس گاؤں پر بھی قابض ہو گئے اور اِس خاندان کے سب مرد و زن قید ہو گئے لیکن کچھ دِنوں کے بعد سِکھوں نے اُن کو اس علاقے سے چلے جانے کی اجازت دے دی اور وہ ریاست کپورتھلہ میں چلے گئے اور وہاں قریباَ سولہ سال رہے۔ اس کے بعد مہاراجہ رنجیت سِنگھ کا زمانہ آگیا اور انہوں نے سب چھوٹے چھوٹے راجوں کو اپنے ماتحت کرلیا اور اس انتظام میں حضرت مرزاصاحبؑ کے والد کو بھی اُس کی جاگیر کا بہت کچھ حصہ واپس کردیا اور وہ اپنے بھائیوں سمیت مہاراجہ کی فوج میں ملازم ہو گئے اور جب انگریزی حکومت نے سِکھوں کی حکومت کو تباہ کیاتو اُن کی جاگیر ضبط کی گئی مگر قادیان کی زمین پر اُن کومالکیّت کے حقوق دیے گئے۔

آپ کا خاندانی تذکرہ تاریخوں میں

یہ مختصر حالات لکھنے کے بعد سر لیپل گریفن کی کتاب۔۔۔ “پنجاب چیفس” کا وہ حصّہ جو حضرت مرزا صاحبؑ کے خاندان کے متعلق ہے ہم لکھ دینا مناسب سمجھتے ہیں۔ :۔

’’شہنشاہ بابرکے عہدِ حکومت کے آخری سال یعنی 1530ء میں ایک مغل مسمی ہادی بیگ باشندئہ سمرقند اپنے وطن کو چھوڑکر پنجاب میں آیا اور ضلع گورداسپور میں بودو باش اختیار کی۔ یہ کسی قدر پڑھا لکھاآدمی تھا (۱) اور قادیان کے گرد و نواح کے ستّر مواضعات کا قاضی یا مجسٹریٹ مقرر کیا گیا۔ کہتے ہیں کہ قادیان اُس نے آباد کیا اور اُس کا نام اِسلام پور قاضی رکھا جو بدلتے بدلتے قادیان (۲)ہو گیا۔ کئی پشتوں تک یہ خاندان شاہی عہدِ حکومت میں معزز عہدوں پرممتاز رہا اور محض سکھوں کے عروج کے زمانہ میں یہ افلاس کی حالت میں ہو گیا تھا۔ (مرزا) گُل محمد اور اُس کا بیٹا عطا محمد رام گڑھیا اور کنھیا مِسلوں سے جن کے قبضہ میں قادیان کے گرد و نواح کا علاقہ تھا ہمیشہ لڑتے رہے۔ آخر کار اپنی تمام جاگیر کو کھو کر عطا محمد بیگووال میں سردار فتح سنگھ اہلووالیہ (۳)کی پناہ میں چلا گیا اور بارہ سال تک امن و امان سے زندگی بسر کی۔ اُس کی وفات پر رنجیت سنگھ نے جو رام گڑھیا مِسْل کے تمام جاگیر پر قابض ہو گیا تھا، غلام مرتضیٰ کو قادیان واپس بلا لیا اور اس کی جدی جاگیر کا ایک بہت بڑا حصہ اُسے واپس دے دیا۔ اِس پر غلام مرتضیٰ اپنے بھائیوں سمیت مہاراجہ کی فوج میں داخل ہوا اور کشمیر کی سرحد اور دوسرے مقامات پر قابل قدر خدمات انجام دیں۔ نونہال سنگھ، شیر سنگھ اور دربارِ لاہور کے دَور دَورے میں غلام مرتضیٰ ہمیشہ فوجی خدمت پر مامور رہا۔ 1841ء میں یہ جرنیل ونچورا کے ساتھ منڈی اور کلّو کی طرف بھیجا گیا اور 1843ء میں ایک پیادہ فوج کا کمیدان بنا کرپش اور روانہ کیا گیا۔ ہزارہ کے مفسدہ میں اُس نے کارہائے نمایاں کیے اور جب 1848ء کی بغاوت ہوئی تو یہ اپنی سرکار کا نمک حلال رہا اور اس کی طرف سے لڑا۔ اس موقعہ پر اس کے بھائی غلام محی الدین نے بھی اچھی خدمات کیں۔ جب بھائی مہاراج سنگھ اپنی فوج لیے دیوان مولراج کی امداد کے لیے ملتان کی طرف جا رہا تھا تو غلام محی الدین اور دوسرے جاگیرداران لنگر خان ساہیوال اور صاحب خان ٹوانہ نے مسلمانوں کو بھڑکایا اور مصر صاحب دیال کی فوج کے ساتھ باغیوں سے مقابلہ کیا اور اُن کو شکست فاش دی۔ اُن کو سوائے دریائے چناب کے کسی اور طرف بھاگنے کا راستہ نہ تھا جہاں چھ سَو سے زیادہ آدمی ڈوب کر مَر گئے۔

الحاق کے موقعہ پر اِس خاندان کی جاگیر ضبط کی گئی مگر 700روپیہ کی ایک پنشن غلام مرتضیٰ اور اس کے بھائیوں کو عطا کی گئی اور قادیان اور اُس کے گردو نواح کے مواضعات پر اُن کے حقوق مالکانہ رہے۔

اِس خاندان نے غدر 1857ء کے دوران میں بہت اچھی خدمات کیں۔ غلام مرتضیٰ نے بہت سے آدمی بھرتی کیے اور اُس کا بیٹا غلام قادر جرنیل نکلسن صاحب بہادر کی فوج میں اُس وقت تھا جب کہ افسر موصوف نے تریموگھاٹ پر 46 نیٹو انفنٹری کے باغیوں کو جو سیالکوٹ سے بھاگے تھے تہِ تیغ کیا۔ جنرل نکلسن صاحب بہادر نے غلام قادر کو ایک سَند دی جس میں یہ لکھا ہے کہ 1857ء میں خاندانِ قادیان ضلع گورداسپور کے تمام دوسرے خاندانوں سے زیادہ نمک حلال رہا۔

غلام مرتضیٰ جو ایک لائق حکیم تھا 1876ء میں فوت ہوا اور اس کا بیٹا غلام قادر اس کا جانشین ہوا۔ غلام قادر حکام مقامی کی امداد کے لیے ہمیشہ تیار رہتا تھا اور اُس کے پاس اُن افسران کے جن کا انتظامی امور سے تعلق تھا بہت سے سرٹیفکیٹ تھے۔ یہ کچھ عرصہ تک گورداسپور میں دفتر ضلع کا سپرنٹنڈنٹ رہا۔ اُس کا اکلوتا بیٹا کم سِنی میں فوت ہوگیا اور اُس نے اپنے بھتیجے سلطان احمد کو متبنّٰی کر لیا جو غلام قادر کی وفات یعنی 1883ء سے خاندان کا بزرگ خیال کیا جاتا ہے۔ مرزا سلطان احمد نے نائب تحصیلداری سے گورنمنٹ کی ملازمت شروع کی اب اکسٹرا اسسٹنٹ ہے۔ یہ قادیان کا نمبردار بھی ہے۔۔۔۔ نظام الدین کا بھائی امام الدین جو 1904ء میں فوت ہوا دہلی کے محاصرے کے وقت ہاڈسن ہورس (رسالہ) میں رسالدار تھا۔ اس کا باپ غلام محی الدین تحصیلدار تھا۔

یہ بیان کرنا ضروری ہے کہ غلام احمد جو غلام مرتضیٰ کا چھوٹا بیٹا تھا مسلمانوں کے ایک مشہور مذہبی فرقہ احمدیہ کا بانی ہوا۔ یہ شخص 1837ء میں پیدا ہوا اور اس کو تعلیم نہایت اچھی ملی۔ 1891ء میں اُس نے بموجب مذہب اسلام مہدی یا مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا، چونکہ یہ ایک عالم اور منطقی تھا اِس لیے دیکھتے ہی دیکھتے بہت سے لوگ اس کے معتقد ہوگئے اور اب احمدیہ کی تعداد پنجاب اور ہندوستان کے دوسرے حصوں میں تین لاکھ کے قریب بیان کی جاتی ہے۔ مرزا، عربی فارسی اور اُردو کی بہت سی کتابوں کا مصنّف تھا جن میں اُس نے جہاد کے مسئلہ کی تردید کی اور یہ گمان کیا جاتا ہے کہ اُن کتابوں نے مسلمانوں پر اچھا اثر کیا ہے۔ مدت تک یہ بڑی مصیبت میں رہا کیونکہ مخالفین مذہب سے اس کے اکثر مباحثے اور مقدمے رہے لیکن اپنی وفات سے پہلے جو 1908ء میں ہوئی اس نے ایک رتبہ حاصل کر لیا کہ وہ لوگ بھی جو اُس کے خیالات کے مخالف تھے اس کی عزت کرنے لگے۔ اس فرقہ کا صدر مقام قادیان ہے جہاں انجمن احمدیہ نے ایک بہت بڑا سکول کھولا ہے اور چھاپہ خانہ بھی ہے جس کے ذریعہ سے اس فرقہ کے متعلق خبروں کا اعلان کیا جاتا ہے۔ مرزا غلام احمد کاخلیفہ ایک مشہور حکیم مولوی نورالدین ہے جو چند سال مہاراجہ کشمیر کی ملازمت میں رہا ہے۔

اِس خاندان کے سالم موضع قادیان پرجو ایک بڑا موضع ہے، حقوق مالکانہ ہیں اور نیز تین ملحقہ مواضعات پر بشرح پانچ فیصدی حقوق تعلق داری حاصل ہیں ‘‘۔ (دی پنجاب چیفس حصہ اوّل مطبوعہ 1919ء لاہور)


٭ صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم۔اے  کی تحقیقات کی رو سے حضرت اقدس علیہ السلام کی پیدائش ۱۳ ؍ فروری ۱۸۳۵ء ہے۔ (منہ)

۱۔ دراصل وہ بہت ذی علم و فہم اور مومن مردِ خدا تھا۔ (ناقل)

۲۔ پنجابی لوگ ’ضؔ‘ کو ’د‘ بولتے ہیں اِس لئے اسلام پور قاضیاں کا نام صرف قاضیاں یعنی قادیان بن گیا اور اسلام پور بالکل حذف ہوگیا۔ (ناقل)

۳۔ یہ نام یعنی  اہلوؔ والیہ مسل۔ رام گڑھاؔ مسل۔ کنھیا مسل سکھوں کے گروہوں کے نام ہیں۔