حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئیاں

2

اب اسی سلسلہ میں اگلی پیشگوئی بھی سن لو:۔

آپ نے اپنے ابا جان یا امی یا کسی اور احمدی کے ہاتھ میں ایک ایسی انگوٹھی دیکھی ہو گی جس پر عربی میں کچھ الفاظ لکھے ہوئے ہیں۔ یہ قرآن مجید کی ایک آیت ہے۔ “اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ“۔ یہ اللہ تعالیٰ کا ایک الہام بھی ہے جو حضرت صاحب کو اُن کے والد کی وفات کے دن ہوا۔ اور یہ الہام آپ کی زندگی میں دس بیس بار نہیں بلکہ سینکڑوں بار پورا ہوا۔ ابھی اوپرآپ نے پڑھا کہ حضرت صاحب تو سارادن اور ساری رات اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مصروف رہتے۔ دنیا داری کے کاموں سے تعلق نہ تھا۔ والد کی وفات کوئی معمولی بات نہ تھی کیونکہ آمدنی کے قریباً سارے ہی ذرائع کا تعلق اُن کی زندگی سے تھا۔ سرکار انہیں پنشن دیتی تھی اور انعام کی ایک بہت بڑی رقم ملا کرتی جو ان کی وفات کے بعد بند ہوجانی تھی۔ اب ساری زندگی کی مشکلات اور مسائل سامنے تھے۔ آمد کا کوئی ذریعہ نظر نہیں آرہا تھا۔ جائیداد کا انتظام بڑے بھائی کے ہاتھوں میں تھا اور یوں نظر آرہا تھا گویا کہ محتاجی کی زندگی ہو گی فکروں کے دن اور تشویش کی راتیں ہوں گی۔ یہ پہاڑ سی زندگی کیسے کٹے گی۔ اب تو اللہ ہی ہے جو کوئی ڈھب کی صورت بنا دے۔ بس انہی فکروں میں تھے کہ ایک دوسرا الہام ہوااَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ“۔

یہ عربی کا فقرہ ہے اور قرآن مجید کی ایک آیت بھی ہے اور اس کے معنی ہیں “کیا اللہ تعالیٰ اپنے بندہ کے لیے کافی نہیں “اورحضرت صاحب لکھتے ہیں کہ اس الہام کے ساتھ ہی میرا دل ایسا مضبوط ہوگیا جیسے کسی بڑے ہی دردناک زخم پر نہایت ہی آرام دینے والی مرہم لگا دی جائے اور وہ اچھا ہوجائے اور پھر میں نے اسی وقت سمجھ لیا کہ خدا مجھے تباہ اور برباد نہیں کرے گا۔ اسی وقت حضور نے گاؤں کے ایک ہندو کو بلایا اور اسے یہ سارا واقعہ سنایا۔ اور الہام لکھ کر دیا کہ وہ امرتسر جائے اور کسی نگینہ پر کھدوا کر ایک انگوٹھی بنوا لائے۔ اس ہندو کا نام ملاوامل تھا۔ بچو! میں نے اس شخص کو اپنی آنکھوں سے 1945ء میں دیکھا ہے۔ لیکن اس وقت یہ بہت ضعیف ہو چکا تھا۔ اور حضرت صاحب نے یہ بھی لکھا ہے کہ یہ کام اس لیے اس ہندو کے ذریعہ کروایا تاکہ یہ اس شاندار پیشگوئی کا گواہ بھی ہوجائے۔ اس وقت یہ انگوٹھی پانچ روپے میں تیار ہوئی تھی۔ اور یہ اس وقت تیار ہوئی جبکہ آپ کو کوئی بھی نہ جانتا تھا۔ قادیان ایک ویران سا گاؤں تھا۔ اور وہ وقت بھی آیا کہ جب دنیا کے لوگ جوش اور شوق سے بھاگے چلے آتے تھے اور خدا تعالیٰ نے اتنا مال دیا کہ حضور لکھتے ہیں کہ میرے پاس خدا کے شکریہ ادا کرنے کے لیے الفاظ بھی نہیں ہیں اور اتنی بھی امید نہ تھی کہ دس روپیہ ماہوار بھی آئیں گے لیکن خدا نے ایسی مدد کی کہ لاکھوں روپیہ حضور کی خدمت میں آیا اور تم اس روپیہ کا اندازہ اس بات سے کر لو کہ آج سے اسّی برس پہلے صرف لنگر خانہ کا خرچ ڈیڑھ ہزار روپے ماہوار ہوا کرتا تھا اور پھر سکول بھی تھا اس پر بھی خرچ ہوتا تھا۔ اور کتابوں کی چھپائی تھی اور انہیں سارے ہندوستان اور باہر بھجوانا ہوتا تھا۔ یہ سب کچھ آخر پیسوں سے ہی ہوتا تھا۔ اور یہ سامان خدا کی اس عظیم الشان پیشگوئی کی وجہ سے مہیا ہوا۔ ساری زندگی آپ کو روپے پیسے کی وجہ سے کبھی پریشانی اور تشویش نہیں ہوئی۔ یہ سب کچھ اس لیے ہوا کہ خدا جب کوئی وعدہ کرتا ہے تو اسے پورا کرتا ہے حالات چاہے کیسے بھی ہو جائیں خدا کی باتیں پوری ہوکر رہتی ہیں۔ اور دوسرے عام انسانوں کے لیے یہ عجیب بات ہوتی ہے۔ یہ بات بھی تمہارے علم کے لیے بتا دوں کہ اس وقت یہ انگوٹھی ہمارے امام سیّدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکے پاس ہے اور آپ کبھی حضور سے ملیں گے تو دیکھیں گے کہ یہ انگوٹھی حضور کے دائیں ہاتھ میں ہوگی اور نگینہ کے اوپر کپڑا سیا ہوا ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہوگی کہ نگینہ گھسنے سے محفوظ رہے۔