احیائے موتی کا ایک حیرت انگیز نشان

ڈاکٹر عبدالرشید خان

مکرم چوہدر ی ریاض احمد صاحب شہید (شب قدر) کے خسر مکرم و محترم ڈاکٹر عبدالرشید خان صاحب نے یکم جون ۱۹۹۶ء کو جماعت احمدیہ ہالینڈ کے سالانہ جلسہ کے موقع پر شب قدر کے واقعات سے متعلق ایک تقریر فرمائی۔ مکرم ڈاکٹر عبدالرشید خان صاحب اور ریاض احمد صاحب شہید پر نام نہاد مسلمانوں نے جو ظلم توڑے اور جس قسم کے درناک حالات سے انہیں گزرنا پڑا اور جس طرح اللہ تعالیٰ نے غیر معمولی فضل فرماتے ہوئے مکرم ڈاکٹر عبدالرشید خان صاحب کو زندگی بخشی یہ داستان بہت ہی درد انگیز بھی ہے اور ایمان افروز بھی۔ذیل میں اس تقریر کا ایک حصہ پیش کیا جارہا ہے۔ احباب مکرم ڈاکٹر صاحب موصوف اور ریاض احمدصاحب شہید کے بچوں کو خصوصیت سے اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی صحت و عمر میں برکت دے اور ان کے صبر و استقامت اور اخلاص و فدائیت کی ہر دو جہان میں بہتر جزا عطا فرمائے ۔ (ادارہ)

’’۔۔۔جس واقعہ کے متعلق میں آپ کو تھوڑے سے Hints ہی بتا سکوں گا کیونکہ وقت بہت کم ہے ۔ اس واقعہ پر حضور خلیفۃالمسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ ۱۴؍ اپریل ۱۹۹۵ء کو سپین میں تفصیل سے خطبہ دے چکے ہیں اور پروگرام ملاقات میں بھی اور عیدالاضحی پر بھی کافی تفصیل بتا چکے ہیں۔ میں ان پہلوؤں کو بتانے کی کوشش کروں گا جو یاریکارڈ میں نہیں آ سکے یا حضور نے جو خطبے دئے اور واقعات بتائے یا اخبارات کی Cuttings یا رپورٹنگ تھی یا مربیان صاحبان کی رپورٹنگ تھی اس کے علاوہ ہیں۔۔۔۔

ایک دوست تھے دولت خان اس کا نام تھا وہ میرے زیر تبلیغ تھے ۔ ہفتے کا دن تھا وہ میرے پاس کلینک میں آیا ۔ اس نے کہا کہ مجھے ربوہ لے کے جاؤ۔ میں نے کہا چلو ابھی چلتے ہیں۔ نہ راستے میں اس نے کوئی بات کی نہ میں نے کی تو جب ہم ربو ہ گئے تو اس نے تمام ربوہ دیکھا۔ دارالضیافت میں ہم ٹھہرے۔ اس نے احمدیت کے بارے میں کوئی بات نہیں کی کہ کیا ہے کیا نہیں ہے۔ تیسرے دن اس نے مجھے کہا کہ میں بیعت کرتا ہوں۔ تو میں نے اس کو کہا ،دولت خان آپ نے تین دن ہوئے نہ احمدیت کی میرے ساتھ بات کی نہ کسی عالم سے کوئی بات چیت ہوئی اچانک آپ کے دل میں یہ کیسے آ گیا کہ میں احمدی ہوتا ہوں۔ میں نے کہا احمدی ہونا آپ کا حق ہے بے شک ہو جائیں لیکن یہ احمدیت اتنی آسان نہیں ہے جتنی آ پ سمجھتے ہیں۔ یہ لوہے کے چنے چبانے ہیں کیونکہ اس علاقے کو میں جانتا ہوں جس علاقے کا یہ رہنے والا تھا۔ اگر آپ نے بیعت کرنی ہے بے شک کریں لیکن میں چاہتا ہوں کہ ابھی آ پ بیعت نہ کریں کیونکہ پھر آپ نہ یہ دولت خان رہیں گے اور نہ پھر آپ کے بچے ، نہ بیوی ، آپ کے ساتھ کوئی بھی تعلق نہیں رکھے گا۔ آپ سوچ لیں ۔ بہر حال ہم واپس آ گئے ۔

اس کے بعد اس نے اور بھی Deep Study کی۔ میں نے اس سے پوچھا کہ ربوہ آنے کی وجہ کیاتھی تو اس نے کہا میرے ماما نے جو کہ جامعہ دارالعلوم کا پرنسپل تھا اس نے جمعہ پر خطبہ دیا تھا کہ( اس علاقے میں احمدی کو قادیانی کہتے ہیں) قادیا نی جب بنتے ہیں یا قادیانی (احمدی) ہوتے ہیں تو یہ قرآن شریف پر اس کو نہلاتے ہیں (نعوذ باللہ من ذالک) اورسیڑھیوں میں انہوں نے قرآن شریف رکھے ہوتے ہیں وہ قرآن شریف پر سے گزرتے ہیں پھر جا کر وہ قادیانی بناتے ہیں۔ اس کے ساتھ میرے تعلقات تھے اور چونکہ وہ مذہبی علاقہ ہے اس کا یہ خیال تھا کہ ایسے آدمی کے ساتھ بولنا، بیٹھنا، کھانا پینا ہی حرام ہے۔ یہ قرآن کریم کی اتنی بے عزتی کرتے ہیں ۔ چونکہ وہ اس کا سگا ماما تھا اور سب سے بڑا مولوی تھا فضل ربی اس کا نام ہے۔

یہ جب ربوہ گیا اس نے دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ کے متعلق یہ شعر لکھا ہوا ہے کہ ؂

بھیج درود اس محسن پر تو دن میں سو سوبار

پاک محمد مصطفی نبیوں کا سردار

پھر دارالضیافت میں سامنے لکھا ہوا ہے ’’ جو لوگ قرآن کو عزت دیں گے وہ آسمان پر عزت پائیں گے‘‘ اور ہر کمرے میں قرآن شریف تھا ۔ اسی وقت اس نے کہا کہ یہ مولوی جو کہ میرا سگا ماما ہے سب سے بڑا جھوٹا ہے اور میں احمدیت کو حق سمجھتا ہوں۔۔۔ ۔ بہر حال ا س نے اور Study کی ۔ اگر حقیقت میں دیکھا جائے میں نے اس کواحمدی نہیں کیا بلکہ اس نے مجھے احمدی کیا ہے۔ اس وجہ سے کہ اتنی Deep Study اس نے کی مجھے اس کا جواب دینا پڑتا تھا اور مجھے اس کی تیاری کرنی پڑتی تھی مجھے اس نے احمدی بنایا۔ جب یہ عالمی بیعت ہونے والی تھی اس سے کچھ دن پہلے وہ آیا ۔ مجھے اس نے کہا کہ خدا کی قسم میرا دل اور میرا دماغ، میرا جسم ہر چیز احمدی ہے اور میں بیعت کرنا چاہتاہوں۔ تو میں نے کہادولت خان اب تم بیعت کر لو۔ خیر خدا تعالیٰ نے اس کو توفیق دی عالمی بیعت میں وہ شامل ہوا۔

جب حضور کا جواب آ گیا کہ آپ کی بیعت منظور ہو گئی ہے تو اس کو احمدیت کا ایک جنو ن ہوگیا۔دفتر میں ، گاؤں میں ہر جگہ بس یہ کام تھا کہ تمام علاقے میں احمدیت پھیلے ۔ وہ ملاں کے پاس جاتا تھا، پیر کے پاس جاتا تھا، سب کے پاس اور چونکہ اس نے اتنی دسترس حاصل کر لی تھی ، اتنی Deep Study کی تھی احمدیت کی کہ بڑے سے بڑا ملاں بھی اس کے سامنے بات نہیں کر سکتا تھا۔ جب وہ پیر ، ملاں سب عاجز آ گئے ا سکا جواب نہیں دے سکتے تھے ۔ ۲ ؍اپریل کو تمام دس گاؤں کے اکوڑہ خٹک کے دارالحقانیہ سے مولوی منگوائے گئے اور ساڑھے تین سو کے قریب ، میں بھی وہاں موجود تھا ان کے ساتھ بات ہوئی۔

ایک پیر کو اس کا نام میں اس لئے نہیں لینا چاہتا کہ اس نے کہا ہے کہ میرا نام نہ لیں اس کو ہم نے ’’حقانیت احمدیت‘‘ کی کتاب دی ہوئی تھی اور ’’ تفہیمات ربانیہ ‘‘ بھی دی ہوئی تھی جب ہم قرآن شریف کی آیت پیش کرتے تھے اس کے دو بیٹے حافظ تھے وہ قرآن شریف کی آیت اس کو پڑھ کر سنادیتے تھے۔ خیر ان تمام مولویوں ، ان لوگوں کے سامنے اس پیر نے یہ اقرار کیا کہ اگر یہ اسلام ہے تو میں احمدی ہوں۔ اور اگر یہ احمدیت ہے تو میں احمدی ہوں تو دولت خان نے کہا دیکھو پیر صاحب آ پ نے تو احمدیت کا اعلان کر دیا ہے لیکن یہ اتنی آسان بات نہیں ہے۔ آج کے بعد نہ آ پ کی پیڑھی رہے گی اور نہ یہ گدی نشینی رہے گی۔

اس کے بعد پورے علاقے میں یہ ہوا کہ یہاں تو احمدیت پھیل جائے گی۔ اس کے ایک آدمی کا کوئی آدمی جواب نہیں دے سکتا تو اس کو یہیں روکا جائے ۔ تو پھر ان تمام علاقے کے مولویوں نے وہاں ایک بڑا خان ہے افتخار اس کا نام ہے اس کے نام انہوں نے خط لکھا اور تما م علاقے میں پھیلایا۔ اس میں انہوں نے فتویٰ لگایا مجھ پر کہ اس نے اس کے ایمان پر ڈاکہ ڈالا ہے ( وہ احمدیت کو فتنہ کہتے ہیں) اور یہ فتنہ اس کیوجہ سے علاقے میں پھیلا ہے تو یہ اور دولت خان واجب القتل ہیں اس کو یہیں سے روکا جائے۔ جب یہ مجھے ملا تو رات کے تقریباًساڑھے گیارہ بجے تھے میں اس گاؤں گیا ۔ کافی لوگ جمع تھے۔ چونکہ ہر انسان کو خدا تعالیٰ نے چھوٹی موٹی خاص منفرد طاقت دی ہوتی ہے۔ مجھے بچپن سے ہی یہ ہے کہ میری ڈکشنری کے کسی خانے میں بھی ’’ڈر‘‘ کا لفظ نہیں ہے تو میں ساڑھے گیارہ بجے وہاں گیا۔ وہ مولوی وہاں جمع تھے وہ تقریباً تین چار گاؤں کا بڑا خان ہے ۔ انہوں نے یہ پروگرام بنانا تھا کہ کیا کیا جائے ۔ خان کو میں نے کافی احمدیت کا بتایا ۔ ساڑھے گیارہ بجے سے رات کوئی دو بجے تک وہیں تھا اور پھر میں سکوٹر پر پشاور آیا۔ تو میں نے اس خان کو یہ کہا تھا کہ جتنے آپ کے مولوی ہیں جتنے لوگ ہیں ان کی خوراک ،ان کا خرچہ میں دونگا آ پ ان کو بلائیں یہ ہمارے ساتھ بات کریں اگر ہم ہار گئے تو جو سزا آپ ہمیں دینا چاہیں دے دیں۔

جب رات کومیں واپس آیا انہوں نے پھر دیکھا کہ یہ تو نہ ڈرتے ہیں نہ اس بات کی پرواہ کرتے ہیں۔ حکومت سے Contact کیا کہ اس معاملے کو یہیں روکا جائے۔ انہوں نے شرارتاً ایک لائحہ عمل تیار کیا کہ ہم تمہارے ساتھ بحث کرنے کے لئے تیار ہیں لیکن ہماری یہ شرطیں ہونگی ۔ ہماری سب سے پہلی شرط یہ ہوگی کہ اگر تم ہار گئے تو ہم تمہیں قتل کر دیں گے۔ اگر تم جیت گئے تو تم ہمیں قتل کر دینا۔چونکہ شرارتاً ان کا گمان تھا کہ احمدی اس بات سے ڈر جائیں گے وہ آئیں گے ہی نہیں۔ تو ہم سار ے علاقے میں اعلان کر دیں گے کہ قادیانی نعوذباللہ جھوٹے ہیں۔ وہاں ہم نے یہ شرط بھی مان لی کہ ٹھیک ہے آ پ ہمیں بے شک قتل کر دیں لیکن ہم آپ کے ساتھ یہ شرط نہیں لگاتے ہم آپ کو قتل نہیں کریں گے آ پ صرف مسجد میں کھڑے ہوا کر احمدیت کا اعلا ن کر دیں۔

یہ لوگوں کوکیسے پتہ لگے گا کہ ہم ہار گئے ،تم جیت گئے؟؟۔ اس کا حل یہ ہے کہ میں پشاور سے ٹی وی لاتا ہوں، وی سی آر لاتاہوں یہ تمام باتیں ریکارڈ ہو جائیں گی ۔ اگر ہم ہار گئے تو تم لوگوں کو ، حکومت کو بتا سکتے ہو کہ یہ ہار گئے ہیں اس لئے ہم نے انہیں قتل کر دیا ، تمہارے پاس ایک ثبوت ہو جائے گا۔ اگر تم نے ایسے ہی ہمیں قتل کر دیا تو تمہارے پاس کیا ثبوت ہوگا۔ اس وقت تو وہ ان مولویوں نے مان لیا کہ یہ بالکل ٹھیک ہے ۔ جب بعد میں انہوں نے سوچا کہ یہ کیا کیا تم نے ، یہ تو تم نے اپنے ہاتھ سے ان کو ایک ہتھیار دے دیا۔ یہ تو تم نے ثبوت دے دیا۔ تم اس کا کیا جواب دوگے ۔ ایک آدمی اس کا تم جواب نہیں دے سکتے اگر وہ کوئی عالم لے آئے تو کیا جواب دو گے۔ پھر انہوں نے یہ شرط رکھی کہ یہ آدمی نہیں ہوگا ساتھ کیونکہ ان کو پتہ تھا کہ یہ اتنے سے نہیں ڈرتا تو ان سے کیا ڈرنا ہے اور دوسروں نے آنا نہیں۔ دوسرے ڈر کی وجہ سے آئیں گے نہیں اور یہ ساتھ ہوگا نہیں تو وی سی آر ، ٹی وی، یہ کیمرہ تو میں نے اس کو کہا کہ اچھا میں تمہارے ساتھ چلتا ہوں لیکن وہاں اس جگہ نہیں جاؤں گا لیکن وہاں اس جگہ نہیں ہونگا میں دوسری جگہ پر بیٹھا ہونگا لیکن ہونگا میں وہاں ضرور۔ بہر حال ہم گئے تو لوگوں نے کہا یہ تم نے کیا کیا ہے تم نے بیوقوفی کی ہے۔ اگر یہ ریکارڈنگ ہو جائے گی تو ان کے پاس ثبوت ہوگا کہ تمہارے پاس کو ئی جواب نہیں ہے اس کا ۔ ہمارے جانے سے کوئی ایک گھنٹہ پہلے تقریباً دس مسجدوں میں انہوں نے اعلان کیا کہ یہ کافر ہیں، مفتی محمود نے انہیں کافر بنایا ہے اس لئے ہم ان سے کوئی بات نہیں کریں گے۔

اب ہم ٹی وی بھی لے گئے ہیں ، وی سی آر بھی لے گئے ہیں، دولت خا ن کا جو بھائی تھا اس نے اونچی آواز سے کہا بلکہ مسجد میں اعلان کیا حق آ گیااور باطل بھاگ گیا۔ تو میں نے اس سے پوچھا شاہد! کیا بات ہے۔ پشتو میں پوچھا۔ تو اس نے کہا یہ مولوی بھاگ گئے ہیں۔ ہمارے پاس چونکہ ریکارڈنگ کے لئے سامان تھا کیمرہ تھا تو وہیں پر آٹھ دس گاؤں جمع تھے ۔ اب رات ہے ساڑھے گیارہ بجے ہیں وہیں پر ہمارے ساتھ بڑے نیک، مخلص احمدی ہیں جو خود احمدی ہوئے ہیں حاجی بختیار احمد اس کا نام ہے ۔ وہ اگر دنیا میں کسی نے فرشتہ دیکھنا ہو تو اس کو دیکھ لیں۔ ہیں کمزور جسم کے ، تو میں نے ان کو کہا حاجی صاحب چونکہ انہوں نے شرط لگا ئی ہے کہ یہ ساتھ نہیں ہوگا اور ہمارے پاس پشتو بولنے والا مقرر نہیں ہے آپ چلیں۔ وہ ویسے بھی کمزور سے ہیں، جسم کے کمزور مگر ایمان کے تو خدا تعالیٰ کے فضل سے وہ مضبوط ہیں، نہا دھو کر ، صاف کپڑے انہوں نے پہنے۔ جب میں ان کے پاس گیا تو ان کے چہرے پر ایسا نور تھا کہ میں نے کبھی اتنی مدت میں اس شخص کے چہرے پر ایسا نور نہیں دیکھا جیسے ایک آدمی کہے کہ میں مقتل کیلئے جا رہا ہوں۔ چونکہ مولوی بھاگ گئے تو ان کے پاس احمدیت کے بارہ میں مضمون تھا انہوں نے خود لکھا تھا وہیں پر ان تمام لوگوں کے سامنے اس مضمون کو پشتو میں ریکارڈ کیا اور تین گھنٹے کا وہ ریکارڈ تھا اور وہاں تمام جتنے لوگ تھے ان کو سنایا کہ احمدیت یہ ہے۔۔۔۔

میں پشاور آ گیا اور دولت خان کو پولیس نے گرفتار کر لیا۔ وہاں انہوں نے یہ کہا کہ اس کو تحفظ دے رہے ہیں۔ نقص امن کے لئے اس کو گرفتار کیا ہے کوئی اس پر چارج نہیں تھا۔

صبح جب مجھے فون پر بتایا گیا کہ دولت خان کو گرفتار کر لیا گیا ہے تو اس وجہ سے جب میں شب قدر گیا تو دیکھا کہ حالات تو ویسے ہی خراب تھے تو کچہریوں میں جب میں گیا تو وہاں پر بھی کافی لوگ جمع تھے لیکن ا س مجسٹریٹ نے مجھے کہا کہ دو دن کی چھٹی ہے۔ سات تاریخ تھی اور ایسے کریں آ پ نو تاریخ کو آ جائیں۔ تو یہ ریکارڈنگ جو وہاں ہو چکی تھی جو بھی دوست یا ان کے دوست آتے تھے لوگ آتے تھے وہ ریکارڈنگ لگا دیتے تھے کہ یہ احمدیت ہے۔ ان کے لئے اور بھی مصیبت بن گئی کہ یہ اب ان کی بات کرنے کی بھی ضرورت نہیں یہ ٹیپ لگا دیتے ہیں۔ بہرحال اس وقت نہ وہاں کوئی پتھر تھا نہ کوئی اینٹیں تھیں۔ کچہری میں اس احاطے میں اینٹوں پتھروں کا کیا کام ہے۔ یہ اشتہار لگے ہوئے تھے بڑے بڑے کہ قادیانی مرتد ہیں واجب القتل ہیں اور ان کو سنگسار کیا جائے۔ عدالت کے احاطے کے سامنے اور مسجدوں میں یہ اعلان کرتے تھے۔

اب خدا تعالیٰ کی مشیت کچھ ایسے کا م کر رہی تھی جس احمدی کی ہم موٹر گاڑی لے جاتے تھے اس دن، چونکہ و ہ کافی ہمارے قریب آ تا جاتا تھا نہ وہ کوئی خرچہ لیتا تھا وہ نیا احمدی تھا افغانستان کا رہنے والا تھا، وہ یہ انتظا ر کرتا رہا کہ یہ مجھے فون کرے گا میں موٹر لے کر آ جاؤں گا۔ میں نے اس کو فون نہ کیا اور وہ نہ آیا۔ وہاں سے بیس میل کا فاصلہ ہے اور ہم نے تمام دن کے لئے چھ سو روپے پر ٹیکسی کر لی کہ ہم اس کی ضمانت کرائیں گے اور چارسدے جائیں گے اور پھر پشاور ا ٓئیں گے تو پورے دن کے لئے چھ سو روپے میں ٹیکسی کر لی۔ جب وہاں لوگ جمع ہو گئے دیر سے ،سوات سے ، بڑی دور دور سے لوگ منگوائے گئے تھے، ہزاروں کی تعداد میں وہاں لوگ جمع تھے ۔ اس کے بھائیوں نے یہ کوشش کی کہ یہ کسی طریقے سے یہاں نہ آئے۔

چونکہ خدا تعالیٰ کی تقدیر کام کر رہی تھی وہ ٹیکسی کو تو پہچانتے نہیں تھے جس موٹر میں ہم جاتے تھے اس کو پہچانتے تھے۔ وہ وہاں سے تقریباً آٹھ میل دور چوک ہے اس کو ناگمان چوک کہتے ہیں چوک میں کھڑے تھے کہ جب آئیں گے ہم ان کو واپس کر دیں گے۔ جب ہم وہاں پہنچے تو کچہری کے احاطے میں ہم گئے تو دیکھا کہ لوگ ٹولیوں کی شکل میں کھڑے ہیں۔

ابھی دس پندرہ منٹ بھی نہیں گزرے تھے کہ دولت خان کا بھائی آیا اس نے آتے ہیں مجھے چپیڑ ماری ۔ چونکہ وہ تو تیار تھے اس بات میں، مجھے گریبان سے پکڑا اور وہ لوگ مجھے کھینچ کر لے گئے۔ جب وہ کھینچ کر لے گئے تو اب ہزاروں آدمی اور ایک آدمی کیا کر سکتا ہے،کچھ بھی نہیں۔ اپنی طرف سے انہوں نے مجھے ایک قسم کا قتل کر دیا۔ یعنی مار دیا۔ اور پشتو زبان میں کہا کہ ثواب کے لئے اس کو ایک ایک لات مارو۔ تو اس میں اب خدا تعالیٰ کی مشیت یہ کہ میرا جسم بے حس ہے ، مردہ ہے لیکن میرا دماغ ویسے ہی کام کر رہا ہے۔ میں ان کی تمام باتیں سن رہا ہوں تو اس کے بعد پھر انہوں نے ریاض شہید کو پکڑا اور اس کو کچہریوں کی طرف لے گئے تو چونکہ پھر مجھے نہیں پتہ کہ اس کے ساتھ کیا ہوا۔ پھر اس کے بعد عینی شاہدوں نے جو بتایا کہ اس کو ( ریاض کو) جب شہید کر دیا گیا تو اس کی لاش کو اتنا مسخ کیا گیا اور اس کے گلے میں رسی ڈال کر ایک ریڑھے کے ساتھ باندھ کر اس کو بازاروں میں گھسیٹا گیا اور پھر آنکھیں نکالی گئیں۔ تو تعلق ا ن مخالفین کا چونکہ زیادہ میرے ساتھ تھا کہ وہ مجھے نقصان پہنچانا چاہتے تھے۔ ریاض شہید تو ایک قسم کا مہمان تھا بہرحال اس کے جسم پر گوشت تقریباً نہیں تھا بلکہ اس نے میری بیٹی کو (جو ریاض شہید کی اہلیہ تھی) چند دن پہلے رات ایک بجے اٹھایاکہ اٹھو میں تمہیں کچھ باتیں کہنا چاہتاہوں۔ تم نے بچوں کا خیال رکھنا ہے اور رونا پیٹنا نہیں اور میرے جسم پرگوشت نہیں ہوگا۔ میری بیٹی نے کہا کہ آدھی رات ہے یہ تم آدھی رات کو کیا کہہ رہے ہو۔

اب سمجھ نہیں آتی کہ اللہ تعالیٰ کی کیا مشیت تھی کہ مجھے خدا تعالیٰ نے بچا لیا اور ریاض احمد کو اللہ تعالیٰ نے سعاد ت دے دی کہ وہ شہید ہو گیا۔ جب ان کی یہ تسلی ہو گئی کہ ریاض بھی شہید ہو گیا ہے اور یہ بھی ختم ہو گیا تو خوشی سے کسی نے ڈانس کیا ، کسی نے کچھ کیا۔ جب ان کی تسلی ہو گئی تو مجھے ایک مردہ کی طرح اٹھا کر جیسے ایک بوری کو پک اپ میں پھینکتے ہیں ایسے پھینکا اور مجھے چارسدہ ہسپتال لے گئے۔

تو خدا تعالیٰ کی ایسی مشیت ہے کہ تمام جسم کام نہیں کرتا ، دماغ کام کرتا ہے۔ تو جب ہسپتال لے کر گئے تو میری Dead Body کی تفصیلی تلاشی لی ۔ میرے پاس دس پندرہ ہزار روپیہ تھا جو میں ساتھ لے کر گیا تھا کہ اس میں سے وکیل کو دینا ہے یا وہاں ضما نت کے لئے خرچ کرنا ہے ۔ تو میں نے ڈاکٹر کوکہا کہ میں ایک Sensitive Case ہوں۔ تم مجھے Handle نہیں کر سکتے ۔ تم پیسے مجھ سے لے لو اور مجھے اسی سوزوکی میں پشاور ریفر کر دو۔ اس نے پوسٹ مارٹم کی رپورٹ تیار کی ، سب کچھ تیار کیا۔ جب میں نے اس کو کہا تو اس نے کہا کہ یہ تو زندہ ہے۔ خیر ساڑھے تین چار ہزار روپیہ ڈاکٹر نے لیا اور باقی پیسے پولیس والوں نے لئے اور مجھے لیڈی ریڈنگ ہسپتال لے آئے۔ وہاں احمدی ڈاکٹر بھی تھے اور بھی ڈاکٹر کھڑے تھے۔ تو ان سب کا یہی خیال تھا کہ یہ چند منٹوں کا مہمان ہے چونکہ تمام پسلیاں فریکچر تھیں، ہاتھ فریکچر تھے ، کوئی ڈاکٹر وں کی سمجھ میں کچھ نہیں آتا تھا کہ یہ کیا ہے۔

بہرحال حضور نے یہاں سے فیکس کیا مرزا خورشید احمد صاحب وہاں پشاور آئے تو مجھے چونکہ ہسپتال میں بھی بیڑیاں لگی ہوئی تھیں۔ صبح احمدی ڈاکٹر نے ایس ایس پی کو فون کیا کہ اس کو تم نے بیڑیاں کس خوشی میں پہنائی ہوئی ہیں۔ کیا اس پرکوئی چارج ہے تو ایس ایس پی نے کہا کہ نہیں یہ صرف تحفظ کے لئے لگائی ہوئی ہیں۔ جب انہوں نے بیڑیاں کھولیں ۔ ہمارا ہسپتال کے ساتھ ہی مکان ہے تقریباً دو تین سو گز کے فاصلے پر، میں گھر منتقل ہو گیا۔ ادھر صاحبزادہ مرزا خورشید صاحب آئے انہوں نے بتایا کہ یہ حضور کا فیکس ہے اور میں حضور کا نمائندہ بن کے آیا ہوں۔ آپ میرے ساتھ ربوہ چلیں۔ تو میں نے کہا کہ آپ ایسے بھی کہتے تو میں مان جاتا ۔۔۔۔۔۔ ۔

ربوہ آئے اور چونکہ رپورٹیں ایسی تھیں کہ یہ ابھی چند گھنٹوں کا مہمان ہے اور سفر نہیں کر سکے گا وہاں آکسیجن،ایمبولینس، ڈاکٹر دارالضیافت میں ہی کھڑے تھے۔ جب وہاں پہنچا تو میں نے کہا نہیں میں ہسپتال پید ل جاؤں گا تو انہوں نے کہا یہ کیسے ممکن ہے۔ میں نے کہا بس ممکن ہے۔ انتہائی نگہداشت وارڈ میں جب مجھے لے جانے لگے تو سب سے پہلے میں نے پرائیویٹ سیکرٹری صاحب کو، صاحبزادہ صاحب کو ، سلطان محمود صاحب کو کہا کہ آپ آئیں میں آپ کو تحریر دیتا ہوں۔ تو میں نے کہا آپ حضور کو لکھیں فیکس دیں کہ میں خدا تعالیٰ کے فضل سے بالکل ٹھیک ہوں اور کوئی تکلیف نہیں ہے لیکن حضور کو تکلیف نہ ہو،آ پ یہ فیکس دیں۔ اور مجھے اس وارڈ سے نکالیں۔ خیرصاحبزادہ مرزا مبشر ا حمد صاحب ایک رات تو نہ مانے پھر سلطان محمود انور صاحب اور پرائیویٹ سیکرٹری منگلا صاحب یہ سب انہوں نے مشورہ کیا کہ ہاں ٹھیک کہتا ہے اس کو یہاں سے شفٹ کر دیں۔

جب مجھے شفٹ کیا گیا تو میں نے اپنے جسم سے قمیص اتاری اور پھر ڈاکٹر صاحبزادہ مرزا مبشر احمد صاحب کو کہا کہ یہ تو آپ نے میرا سر دیکھا ہوا ہے اور جسم آپ دیکھیں تو وہ تمام جسم چھلنی تھا۔ تو پھر صاحبزادہ صاحب نے کہا کہ یہ انسانی طاقت سے بعید ہے ، ہماری سمجھ میں کچھ نہیں آتا کہ ہم آپ کو کیا دیں، کیا نہ دیں۔ تو میں نے کہا آ پ مجھے چلنے پھرنے کی اجازت دے دیں۔ میرا مقصد یہ تھا کہ اگر میں چلوں پھروں گا تو خون سرکولیشن کرے گا تو انہوں نے کہا اچھا صبح نو بجے تک آ پ میرا انتظام کریں۔ صاحبزادہ ڈاکٹر مرزا مبشر احمد صاحب گھر گئے ۔ وہ گھر سے بڑے پیار سے ایک چمچ پیک کیا ہوا اور ایک چھوٹی سی شہد کی بوتل اٹھا لائے۔ اس چمچ سے شہد نکالا اور پیالی میں حل کرکے مجھے دیا۔ جب میں نے وہ شہد پی لیا تو صاحبزادہ صاحب نے کہا کہ یہ چمچ ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے صحابہ کو شفا کے لئے استعمال کراتے تھے ۔ اور یہ وہ شہد ہے جو ام المومنین رضی اللہ عنہا نے میرے والد ( ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب مرحوم) کو دیا تھا اور یہ اسی طرح محفوظ پڑا رہا۔ نہ یہ چمچ استعمال میں آیا اور نہ یہ شہد کبھی استعمال میں آیا۔ صاحبزادہ صاحب نے کہا کہ میرے دل میں یہ خواہش پید اہوئی کہ اس سے زیادہ مستحق اور کوئی نہیں ہو سکتا ۔۔۔۔۔۔۔

آج تک مجھے نہ وہاں کوئی دوائی دی گئی، نہ ربوہ میں کوئی دوائی دی گئی۔ اب میں یہاں ہالینڈ آیا ہوں۔ یہاں کے ڈاکٹر گواہ ہیں اس بات کے کہ چار ہسپتالوں میں مجھے انہوں نے چیک اپ کے لئے بھیجا ہے۔ وہ جب ایکسرے لیتے ہیں وہ حیران اس بات پر ہوتے ہیں کہ اس کی پسلیاں ٹوٹی ہوئی ہیں، چار پانچ جگہ فریکچرہیں، ہاتھ دو جگہ سے فریکچر ہے، گھٹنا اس کا فریکچر ہے اور یہ چلتا پھرتا کیسے ہے۔ یہ ابھی تک نیدرلینڈ کے ڈاکٹروں کی سمجھ میں نہیں آیا۔ اور میں نے ان کو کہا بھی کہ یہ آ پ کی سمجھ میں آئے گا بھی نہیں۔ یہ

مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ایک معجزہ ہے کہ مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام جب آئیں گے مردوں کو زندہ کریں گے۔ میں وہ مردہ ہوں آپ کے سامنے کھڑا ہوں جو مسیح موعود علیہ السلام نے زندہ کیا ہے۔ روحانی مردے تو کروڑوں زندہ کئے ہیں۔ لیکن میں جسمانی مردہ آپ کے سامنے ہوں۔

یہ مسیح موعود علیہ السلام کی زندہ نشانی ہے ۔مجھے اپنی ذات کا پتہ ہے، کیا پدی اور کیا پدی کا شوربہ۔ میں کیا ہوں اور میر ی کیا حیثیت۔ یہ احمدیت ، مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صداقت کی نشانی ہے۔ میری یا ریاض احمد شہید کی کوئی اس میں حیثیت نہیں۔ اگر کوئی حیثیت ہے تو مسیح موعود علیہ السلام کی ہے، احمدیت کی ہے۔ آج ہم اگر زندہ بھی ہیں تو احمدیت کی برکت سے ہیں۔

(الفضل انٹرنیشنل ۲۵؍جولائی ۱۹۹۷ء تا ۷؍اگست ۱۹۹۷ء)