حضرت مسیح موعودؑ کی متضرعانہ دعائیں

انتصاراحمد نذر

دعاؤں کی تاثیر آب و آتش سے بڑھ کر ہے

حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی مسیح موعود علیہ السلام کی سیرت کا مطالعہ کرنے سے یہ بات نمایاں طورپر سامنے آتی ہے کہ آپ کااوڑھنا بچھونا گویادعا ہی تھا اورآپ کا سارا انحصار محض اپنے رب کریم کی ذات پر تھا ۔ چنانچہ آپ فرماتے ہیں:

’’دعا میں خدا تعالیٰ نے بڑی قوتیں رکھی ہیں۔ خدا تعالیٰ نے مجھے باربار بذریعہ الہامات کے یہی فرمایا ہے کہ جو کچھ ہوگا دعا ہی کے ذریعہ ہوگا‘‘۔(ملفوظات جدید ایڈیشن جلد ۵ صفحہ ۳۶)

آپ نے اپنے ذاتی تجربات کی بنا پر دعا کی تاثیرات دنیا کے سامنے پیش کیں اور فرمایا :

’’میں اپنے ذاتی تجربہ سے بھی دیکھ رہاہوں کہ دعاؤں کی تاثیرآب و آتش کی تاثیر سے بڑھ کر ہے بلکہ اسباب طبعیہ کے سلسلہ میں کوئی چیز ایسی عظیم التاثیر نہیں جیساکہ دعا ہے‘‘۔ (برکات الدعا ، روحانی خزائن مطبوعہ لندن ۱۹۸۴ء جلد ۶ صفحہ ۱۱)

آپ کو یہ یقین کامل تھا کہ ’’دعا ایسی چیز ہے کہ خشک لکڑی کو بھی سرسبز کرسکتی ہے اور مردہ کو زندہ کر سکتی ہے اس میں بڑی تاثیریں ہیں‘‘۔(ملفوظات جلد ۳ صفحہ ۱۰۰)

دعا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی کا عنوان تھا۔ آ پ نے اپنی جماعت کو بھی دعائیں کرنا سکھایا اور اس کی حقیقت سمجھا ئی اور فرمایا کہ دعا جنتر منتر کی طرح الفاظ پڑھنے کا نام نہیں بلکہ اس کی حقیقت کو سمجھنا چاہئے اور اس میں رقّت اور اضطراب پیدا کرنا چاہئے ۔ آپ فرماتے ہیں:

’’دعا کے لئے رقّت والے الفاظ تلاش کرنے چاہئیں ۔ یہ مناسب نہیں کہ انسان مسنون دعاؤں کے ایسا پیچھے پڑے کہ ان کوجنتر منتر کی طرح پڑھتا رہے اور حقیقت کو نہ پہچانے۔۔۔۔۔۔ اپنی زبان میں جس کو تم خوب سمجھتے ہو، دعاکرو تاکہ دعا میں جوش پیدا ہو‘‘۔(ملفوظات جلد ۱ صفحہ ۵۳۸)

خود آپ کو اپنی دعاؤں میں جوش حاصل تھا چنانچہ فرماتے ہیں:

’’خدا نے مجھے دعاؤں میں وہ جوش دیاہے جیسے سمندرمیں ایک جوش ہوتاہے‘‘۔(ملفوظات جلد ۳ صفحہ ۱۲۷)

یہ تمام گواہیاں روز روشن کی طرح عیاں کر دیتی ہیں کہ دعا کے ساتھ آ پ کا گہرا تعلق تھا۔ آپ نے دعا کرنے کا صحیح طریق اپنی جماعت کو بتایا اوراس کی قدروقیمت کا احساس دلایا کہ یہ کسی نسخہ کیمیا سے کم نہیں۔

دعاکی اہمیت، فضیلت اور اس کی برکات کا مضمون تو بہت تفصیلی ہے ۔ سردست ان دعاؤں کا ذکرکرنا پیش نظر ہے جو آپ خود بھی کرتے رہے اور اپنی جماعت کوبھی دعائیں سکھائیں ۔ بہت سی دعائیں تو خدا نے آپ کو الہام کیں لیکن پہلے یہ ذکر کرتا چلوں کہ آپ دعا کا کیا طریق بالعموم اختیار فرماتے تھے ۔

کیسے دعا کرتے تھے

حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحبؓ فرماتے ہیں کہ جب حضرت صاحب مجلس میں بیعت کے بعد یاکسی کی درخواست پر دعا فرمایا کرتے تھے تو آپ کے دونوں ہاتھ منہ کے نہایت قریب ہوتے تھے اور پیشانی اور چہرہ مبارک ہاتھوں سے ڈھک جاتاتھا اور آ پ آلتی پالتی مار کر دعا نہیں کیاکرتے تھے بلکہ دوزانو ہوکر دعا فرماتے تھے ۔ اگر دوسری طرح بھی بیٹھے ہوں تب بھی دعا کے وقت دوزانو ہو جایاکرتے تھے ۔ یہ دعا کے وقت حضورکا ادبِ الٰہی تھا۔ (سیرت المہدی حصہ سوم صفحہ ۱۶۱۔ روایت نمبر ۷۳۶)

حضرت مسیح موعودؑ فرمایا کرتے تھے کہ سورۃ فاتحہ قرآن کا خلاصہ اور اس کا مغز ہے اوراس سورۃ کوکثرت کے ساتھ پڑھنا چاہئے۔ اگر کوئی آپ سے یہ پوچھتاکہ کوئی وظیفہ بتائیں تو آپ اسے نمازپڑھنے کے ساتھ ساتھ سورۃ فاتحہ کثرت سے پڑھنے کی ہدایت فرماتے اور آپ کا خود بھی یہ معمول تھا کہ ہر دعا سے پہلے سورۃ فاتحہ پڑھتے تھے۔ حضرت یعقوب علی صاحب عرفانیؓ اپنی کتاب’’ سیرۃ مسیح موعودؑ ‘‘ میں تحریر کرتے ہیں:

’’ حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ فرمایا کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں میں ہمیشہ یہ کوشش کرتا تھا کہ ہر مجلس میں اور ہر موقع پر حضرت صاحب کے قریب ہو کر بیٹھوں ۔ بعض دفعہ جب کوئی دوست حضرت مسیح موعود کی خدمت میں دعا کی تحریک کرتے اور حضور اس مجلس میں دعا کے لئے ہاتھ اٹھاتے تو میں بہت قریب ہو کر یہ سننے کی کوشش کرتا کہ حضور کیا الفاظ منہ سے نکال رہے ہیں۔ باربار کے تجربہ سے مجھے یہ معلوم ہوا کہ حضرت مسیح موعود ؑ ہر دعامیں سب سے پہلے سور ہ فاتحہ ضرور پڑھتے تھے اور بعد میں کوئی اور دعا کرتے تھے ۔‘‘ (سیرۃ مسیح موعودؑ از حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی صفحہ ۵۲۱)

بعض دعاؤں کے بارہ میں تویہ ذکر ملتاہے کہ حضور انہیں التزاماً کیاکرتے تھے ۔ خود فرماتے ہیں:

’’ میں التزاماً چند دعائیں ہر روزمانگا کرتاہوں:

اول: اپنے نفس کے لئے دعا مانگتاہوں کہ خداوند کریم مجھ سے وہ کام لے جس سے اس کی عزت وجلال ظاہر ہو اور اپنی رضا کی پوری توفیق عطا کرے۔

دوم: پھر اپنے گھرکے لوگوں کے لئے دعا مانگتاہوں کہ ان سے قرۃعین عطاہو اور اللہ تعالیٰ کی مرضیات کی راہ پرچلیں۔

سوم: پھراپنے بچوں کے لئے دعا مانگتاہوں کہ یہ سب دین کے خدام بنیں۔

چہارم: پھر اپنے مخلص دوستوں کے لئے نام بنام۔

پنجم: اور پھران سب کے لئے جو اس سلسلہ سے وابستہ ہیں خواہ ہم انہیں جانتے ہیں یا نہیں جانتے ۔‘‘ (ملفوظات جلد ۱صفحہ ۳۰۹)

سب سے عمدہ دعا

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ حقیقت بھی ہم پر آشکار فرمائی کہ اصل دعا تو رضائے الٰہی کے حصول کی دعا ہے اور زندگی کا اصل مقصود بھی یہی ہے ۔ اسی لئے اس مقصد کے حصول کے لئے دعا کرنی چاہئے ۔ زندگی کے باقی معاملات خدا خود ہی حل فرما دیتاہے۔ فرمایا:

’’سب سے عمدہ دعا یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی رضا مندی اور گناہوں سے نجات حاصل ہو کیونکہ گناہوں ہی سے دل سخت ہو جاتا اور انسان دنیا کا کیڑا بن جاتاہے ۔ ہماری دعا یہ ہونی چاہئے کہ خدا تعالیٰ ہم سے گناہوں کو جو دل کو سخت کر دیتے ہیں دورکردے اور اپنی رضا مندی کی راہ دکھلائے‘‘۔ ( ملفوظات جلد ۴ صفحہ ۳۰)

عاجزانہ دعائیں

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت نواب محمد علی خان صاحب کے نام مکتوب میں دعا کی تلقین کرتے ہوئے تحریر فرمایا:

’’ دعا بہت کرتے رہو اور عاجزی کو اپنی خصلت بناؤ۔ جو صر ف رسم اور عادت کے طورپر زبان سے دعا کی جاتی ہے کچھ بھی چیز نہیں ۔ جب دعا کرو تو بجز صلوٰۃ فرض کے یہ دستور رکھو کہ اپنی خلوت میں جاؤ اور اپنی نماز میں نہایت عاجزی کے ساتھ جیسے ایک ادنیٰ سے ادنیٰ بندہ ہوتا ہے خدائے تعالیٰ کے حضور میں دعاکرو۔

اے رب العالمین تیرے احسانوں کامیں شکر نہیں کر سکتا۔ تو نہایت ہی رحیم و کریم ہے اور تیرے بے غایت مجھ پراحسان ہیں ۔ میرے گناہ بخش تامیں ہلاک نہ ہو جاؤں ۔ میرے دل میں اپنی خاص محبت ڈال تا مجھے زندگی حاصل ہو اور میری پردہ پوشی فرما اور مجھ سے ایسے عمل کرا جن سے تو راضی ہو جائے ۔ میں تیرے وجہ کریم کے ساتھ اس بات سے پناہ مانگتاہوں کہ تیرا غضب مجھ پر وار د ہو ۔ رحم فرما اور دنیا اور آخرت کی بلاؤں سے مجھے بچا کہ ہر ایک فضل وکرم تیرے ہی ہاتھ میں ہے۔ آمین ثم آمین‘‘۔ (مکتوبات احمدیہ جلد پنجم نمبر ۴ صفحہ۵)

اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت مولانا نورالدین صاحب کو ان کے صاحبزادہ کی وفات پرایک تعزیتی مکتوب میں (اگست ۱۸۸۵ء میں) اس دعا کی طرف کمال انکساری سے توجہ دلاتے ہوئے تحریر فرمایا کہ:

’’یہ دعا اس عاجز کے معمولات میں سے ہے اور درحقیقت اس عاجز کے مطابق حال ہے‘‘ ۔

نیزفرمایا کہ مناسب ہے کہ بروقت اس دعا کے فی الحقیقت دل کے کامل جوش سے اپنے گناہ کااقرار اور اپنے مولیٰ کے انعام و اکرام کا اعتراف کرے کیونکہ صرف زبان سے پڑھنا کچھ چیز نہیں جوش دلی چاہئے اور رقت اورگریہ بھی۔ دعا کا طریق حضور نے یہ بیان فرمایا۔ ’’رات کے آخری پہر میں اٹھو اور وضو کرو اور چند دوگانہ اخلاص سے بجا لاؤ اور دردمندی اور عاجزی سے یہ دعا کرو۔

’’ اے میرے محسن اے میرے خدا میں ایک تیراناکارہ بندہ پرمعصیت اور پرغفلت ہوں۔ تونے مجھ سے ظلم پر ظلم دیکھا اورانعام پر انعام کیا اورگناہ پرگناہ دیکھااوراحسان پراحسان کیا ۔ تو نے ہمیشہ میری پردہ پوشی کی اور اپنی بے شمار نعمتوں سے مجھے متمتع کیا۔ سو اب بھی مجھ نالائق اور پرگناہ پر رحم کر اور میری بے باکی اور ناسپاسی کو معاف فرما اورمجھکو میرے اس گناہ سے نجات بخش کہ بغیر تیرے کوئی چارہ گر نہیں ۔ آمین ثم آمین‘‘۔ (مکتوبات احمدیہ جلد ۵ نمبر۲ صفحہ ۳)

خداکو اس کی توحید کا واسطہ

حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی رسول اللہ ﷺ کی اتباع میں خدا کو اس کی توحید کا واسطہ دے کر دعا کرتے تھے کہ جو گروہ تیری عبادت اور تیری توحید کے قیام کے لئے وقف ہے اگرو ہ ہلاک ہو گیا تو تیری عبادت کون کرے گا۔ جنگ بدر کی دعا کے حوالہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :’’جیسے آنحضرت ﷺ نے بدر میں دعا کی تھی کہ اے اللہ اگر تو نے آج ا س گروہ کو ہلاک کر دیا تو تیری کبھی عبادت نہ ہوگی ۔ یہی دعا آج ہمارے دل سے بھی نکلتی ہے‘‘ ۔(ملفوظات جلد ۴صفحہ ۲۷۸)

یہ دعا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو الہام بھی ہوئی ۔(ملاحظہ ہو تذکرہ صفحہ ۴۳۰)

نماز میں حصول حضور کی دعا

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے دوستوں کو نماز میں حصول حضور کی دعا سکھائی۔ آپ فرمایاکرتے تھے کہ نماز میں حصول حضور کا ذریعہ خود نماز ہے۔ اسے ذوق و شوق سے پڑھا جائے تو خدا کے فضل سے نماز میں لذت آنی شروع ہو جاتی ہے۔ یہ دعا ہمیں بکثرت پڑھنی چاہئے۔

’’اے خدا تعالیٰ قادروذوالجلال ! میں گناہ گار ہوں اور اس قدر گناہ کے زہر نے میرے دل اور رگ وریشہ میں اثر کیا ہے کہ مجھے رقت اور حضور نماز حاصل نہیں توُ اپنے فضل و کرم سے میرے گناہ بخش اور میر ی تقصیرات معاف کر اور میرے دل کو نرم کر دے اور میرے دل میں اپنی عظمت اور اپنا خوف اور اپنی محبت بٹھا دے تاکہ اس کے ذریعہ سے میری سخت دلی دور ہو کرحضور نمازمیں میسر آوے‘‘۔ (فتاویٰ مسیح موعود صفحہ ۷ مطبوعہ ۱۹۳۵ء)

توفیق روزہ کے حصول کی دعا

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمیں یہ دعا بھی سکھائی کہ اگر انسان روزوں سے محروم ہو رہا ہوتو وہ درد سے خداسے یہ دعا کرے کہ میں روزوں سے محروم رہا جاتاہوں اس لئے توُ مجھے طاقت دے ۔

فرمایا : ’’ایک دفعہ میرے دل میں خیال آیا کہ فدیہ کس لئے مقرر کیا گیاہے۔ تو معلوم ہوا کہ توفیق کے واسطے ہے۔ تا کہ روزہ کی توفیق اس سے حاصل ہو۔ خدا تعالیٰ ہی کی ذات ہے جو توفیق عطا کرتی ہے اور ہر شے خدا تعالیٰ ہی سے طلب کرنی چاہئے۔ خدا تعالیٰ تو قادر مطلق ہے وہ اگر چاہے تو ایک مدقوق کو بھی روزہ کی طاقت عطا کر سکتاہے۔ توفدیہ سے یہی مقصود ہے کہ وہ طاقت حاصل ہو جائے اور یہ خدا تعالیٰ کے فضل سے ہوتاہے۔

پس میرے نزدیک خوب ہے کہ (انسان) دعا کرے کہ الٰہی یہ تیرا ایک مبارک مہینہ ہے اور میں اس سے محروم رہا جاتاہوں اورکیامعلوم کہ آئندہ سال زندہ رہوں یا نہ ۔ یاان فوت شدہ روزوں کو اداکر سکوں یا نہ۔ اوراس سے توفیق طلب کرے تو مجھے یقین ہے کہ ایسے دل کوخدا تعالیٰ طاقت بخش دے گا‘‘۔( ملفوظات جلد ۲ صفحہ ۵۶۳)

حل مشکلات کا طریق

ایک شخص نے اپنی مشکلات کے لئے عرض کی۔ فرمایا ، استغفار کثرت سے پڑھا کرو اور نمازوں میں یٰا حَیُّ یٰاقَیُّومُ اَسْتَغِیْثُ بِرَحْمَتِکَ یٰااَرْحَم الرَّاحِمِیْنَ پڑھو۔ پھر اس نے عرض کی کہ استغفار کتنی مرتبہ پڑھوں؟ فرمایا:

’’کوئی تعداد نہیں ۔ کثرت سے پڑھو یہاں تک کہ ذوق پیدا ہو جائے اور استغفار کو منتر کی طرح نہ پڑھو بلکہ سمجھ کر پڑھو، خواہ اپنی زبان میں ہی ہو ۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ اے اللہ ! مجھے گناہوں کے برے نتیجوں سے محفوظ رکھ اور آئندہ گناہوں سے بچا‘‘۔( ملفوظات جلد ۴ صفحہ ۲۵۰)

اسم اعظم

فرمایا:’’رات کو میر ی ایسی حالت تھی کہ اگر خدا کی وحی نہ ہوتی تو میرے اس خیال میں کوئی شک نہ تھا کہ میرا آخری وقت ہے ۔ اسی حالت میں میری آنکھ لگ گئی۔ تو کیا دیکھتاہوں کہ ایک جگہ پرمیں ہوں اور وہ کوچہ سربستہ سا معلوم ہوتا ہے کہ تین بھینسے آئے ہیں ۔ ایک ان میں سے میری طرف آیا تو میں نے اسے مار کر ہٹادیا ۔ پھردوسرا آیا تو اسے بھی ہٹادیا۔ پھر تیسراآیا اور وہ ایسا پرزور معلوم ہوتا تھا کہ میں نے خیال کیا کہ اب اس سے مفر نہیں ہے ۔ خدا تعالیٰ کی قدرت کہ مجھے اندیشہ ہوا تو اس نے اپنا منہ ایک طرف پھیر لیا۔ میں نے اس وقت یہ غنیمت سمجھا کہ اس کے ساتھ رگڑ کر نکل جاؤں۔ میں وہاں سے بھاگا اور بھاگتے ہوئے خیال آیاکہ وہ بھی میرے پیچھے بھاگے گا ۔ مگر میں نے پھر کر نہ دیکھا ۔ اس وقت خواب میں خدا تعالیٰ کی طرف سے میرے پر مندرجہ ذیل دعا القا کی گئی:

’’رَبِّ کُلُّ شَئیٍ خَادِمُکَ رَبِّ فَاحْفَظْنِیْ وَانْصُرْنِی وَارْحَمْنِی‘‘۔ یعنی اے میرے رب ! پس مجھے محفوظ رکھ اور میری مدد فرما اور مجھ پررحم فرما۔

’’اور میرے دل میں ڈالاگیا کہ یہ اسم اعظم ہے اور یہ وہ کلمات ہیں کہ جواسے پڑھے گا ہر ایک آفت سے نجات ہوگی‘‘۔ (تذکرہ صفحہ ۴۴۲،۴۴۳)

نسیان کاعلاج

اسی دعا کے حوالہ سے حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ اپنی کتاب سیرۃ المہدی میں تحریر کرتے ہیں کہ :

’’مولوی محمد ابراہیم صاحب بقاپوری نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ انہوں نے حضور سے عرض کیا کہ مجھے نسیان کی بیماری بہت غلبہ کر گئی ہے۔ اس پرحضور نے فرمایا کہ رَبِّ کُلُّ شَئیٍ خَادِمُکَ رَبِّ فَاحْفَظْنِیْ وَانْصُرْنِی وَارْحَمْنِی پڑھا کرو۔ الحمدللہ کہ اس سے مجھے بہت ہی فائدہ ہوا‘‘۔(سیرۃ المہدی حصہ سوم صفحہ ۱۹ روایت نمبر ۴۹۰)

علوم قرآن کے حصول کی دعا

حضر ت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں دعا ایک بے نظیرحربہ ہے ۔ وہ ہر کام دعاہی سے لیتے تھے ، دعا ہی کے ذریعہ سے عربی زبان کے ہزاروں الفاظ کا علم آپ کو دیا گیا۔ اکثر امراض کا ازالہ دعاؤں سے ہوا۔ دشمن کے مقابلہ میں اسی حربہ سے فتح حاصل کی ۔ یہ زمانہ آپ کی جوانی کا تھا اور آپ اس زمانہ میں سیالکوٹ میں بسلسلہ ملازمت تھے۔ آپ کی عام عادت شروع سے یہ تھی کہ اپنا دروازہ بند کر کے خلوت میں رہتے تھے ۔ سیالکوٹ میں یہی طریق تھا۔ بعض لوگ اسی ٹوہ میں تھے کہ یہ دروازہ بند کر کے کیاکرتے ہیں ۔ آخر ایک دن انہوں نے موقعہ پا لیا اور آپ کی مخفی زندگی کا ان پرانکشاف ہوا اور وہ یہ تھا کہ آپ مصلیٰ پر بیٹھے ہوئے قرآن مجید ہاتھ میں لے کر دعا کر رہے تھے کہ :

’’ یا ا للہ تیرا کلام ہے مجھے تو توُ ہی سمجھائے گا تو میں سمجھ سکتاہوں‘‘۔(سیرت المہدی صفحہ۵۴۵ از حضرت یعقوب علی صاحب عرفانی )

آپ کی طرف سے خانہ کعبہ میں کی جانے والی دعا

یہ دعا آپ ؑ نے لکھ کر حضرت منشی احمد جان صاحبؓ مرحوم و مغفور کو دی تھی۔ جبکہ وہ حج کے لئے تشریف لے گئے تھے۔ منشی احمد جان صاحب مرحوم،صاحبزادہ پیر افتخار احمد و پیر منظورمحمد صاحب کے والد ماجد تھے۔ اور خود صاحب سلسلہ تھے مگر آپ نے اس حق کو پایا اور اپنے مریدین اور اولاد کو قبول حق کی وصیت کی جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آپ کی ساری اولاد الحمد للہ اس وقت قادیان میں مہاجرین کی صورت میں رہتی ہے اور حضرت منشی صاحب سے جناب خلیفۃ المسیح الاول کی نسبت صہری تھی ۔اس ارشاد عالی کی تعمیل میں حضرت منشی احمد جان صاحب نے بیت اللہ میں جا کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الفاظ میں دعا کی اور بآواز بلند دعا کی اور جماعت آمین کہتی تھی۔ مقام عرفات پر بھی یہ دعا کی ۔

’’اے ارحم الراحمین! ایک تیرا بندہ عاجزوناکارہ پرُخطا اور نالا ئق غلام احمد جو تیری زمین ملک ہند میں ہے ۔اس کی یہ عرض ہے کہ اے ارحم الراحمین تو مجھ سے راضی ہو اور میرے خطیئات اور گناہوں کو بخش کہ تو غفور اور رحیم ہے اور مجھ سے وہ کرا جس سے تو بہت ہی راضی ہو جائے۔ مجھ میں اور میرے نفس میں مشرق ا ور مغرب کی دوری ڈال اور میری زندگی اور موت اور میری ہر ایک قوت جو مجھے حاصل ہے اپنی ہی راہ میں کر اور اپنی ہی محبت میں مجھے زندہ رکھ اور اپنی ہی محبت میں مجھے مار۔ اور اپنے ہی کامل محبّین میں اٹھا‘‘ (مکتوبات احمد یہ جلد ۵ صفحہ ۱۷،۱۸)

ایک خطرناک مرض سے شفا پانے کی دعا

۱۸۸۰ء کے قریب آ پ قولنج زحیری میں مبتلا ہوئے۔ اور سولہویں دن حالت سخت نازک ہو گئی۔ تین مرتبہ سورۃ یٰسین سنائی گئی۔ آپ ؑ فرماتے ہیں تمام عزیزوں کے د ل میں یہ پختہ یقین تھا کہ آج شام تک یہ قبر میں ہوگا ۔ تب ایساہوا کہ جس طرح خدا تعالیٰ نے مصائب سے نجات پانے کے لئے بعض اپنے نبیوں کو دعائیں سکھلائی تھیں مجھے بھی خدا نے الہام کر کے ایک دعا سکھلائی اور وہ یہ ہے :

’’سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْم۔اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِ مُحَمَّدٍ‘‘۔(تریاق القلوب روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحہ ۲۰۸)

اولاد کے حق میں دعائیں

کر ان کو نیک قسمت دے ان کو دین و دولت

کر ان کی خود حفاظت ہو ان پہ تیری رحمت

دے رشد اور ہدایت اور عمر اور عزت

یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ یَّرَانِیْ

میری دعائیں ساری کریو قبول باری

میں جاؤں تیرے واری کر تو مدد ہماری

ہم تیرے در پہ آئے لے کر امید بھاری

یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ یَّرَانِی

اہل وقار ہوویں فخر دیار ہوویں

حق پر نثار ہوویں مولا کے یار ہوویں

بابرگ و بار ہوویں اک سے ہزار ہوویں

یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ یَّرَانِی

مرے مولیٰ مری یہ اک دعا ہے

اولاد کے حق میں آپؑ نے یہ دعا بھی کی کہ :

مرے مولیٰ مری یہ اک دعا ہے

تری درگاہ میں عجز و بکا ہے

وہ دے مجھ کو جو اس دل میں بھرا ہے

زباں چلتی نہیں شرم و حیاء ہے

مری اولاد جو تیری عطا ہے

ہر اک کو دیکھ لوں وہ پارسا ہے

تری قدرت کے آگے روک کیا ہے

وہ سب دے ان کو جو مجھ کو دیا ہے

( درثمین اردو)

گناہوں کی بخشش کی منظوم دعا

اے خداوند من گناہم بخش

سوئے درگاہ خویش راہم بخش

روشنی بخش در دل و جانم

پاک کن از گناہ پنہانم

دلستانی و دلربائی کن

بہ نگاہے گرہ کشائی کن

در دو عالم مرا عزیز توئی

وآنچہ میخواہم از تو نیز توئی

(درثمین فارسی)

ترجمہ: اے میرے اللہ میرے گناہ بخش اور اپنی درگاہ کی طرف میری رہنمائی فرما ۔ میرے دل و جان کو روشنی عطا کر اور مجھے اپنے مخفی گناہوں سے پاک کر دے۔ میر ے ساتھ محبت اور پیار کا سلوک فرما اور اپنی نگاہ کرم کے ساتھ سب عقدے کھول دے ۔دونوں جہاں میں تو ہی مجھے پیاراہے اور میں تجھ سے صرف تجھے ہی مانگتاہوں۔

بیماری سے شفا یابی کی دعا

ایک وبائی بیماری میں خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یہ بتایاکہ ان ناموں کا ورد کیا جائے :’’ یا حفیظُ یا عزیزُ یا رفیق‘‘۔یعنی اے حفاظت کرنے والے، اے عزت والے اور غالب ، اے دوست اور ساتھی ! فرمایا ’’رفیق خدا تعالیٰ کا نیا نام ہے جو کہ ا س سے پیشتر اسمائے باری تعالیٰ میں کبھی نہیں آیا‘‘۔ (البدر جلد ۲ نمبر ۵۳ صفحہ ۲۸ مورخہ ۱۸؍ستمبر ۱۹۰۳ء)

دائمی برکت کے حصول کی دعا

قریباً ۱۸۸۳ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے الہامی طور پر ایک طرف برکت کے حصول کی یہ دعا سکھائی اور پھرکمال لطف و احسان سے اس کے منظور ہوجانے کی خبر بھی عطافرمائی:

’’رَبِّ اجْعَلْنِیْ مُبَاَرکًا حَیْثُ مَا کُنْتُ

کہ اے میرے رب مجھے ایسا مبارک کر کہ ہر جگہ میں بودوباش کروں برکت میرے ساتھ رہے‘‘ ۔ (براہین احمدیہ روحانی خزائن جلد ۱ صفحہ ۶۲۱)

ہمیں اپنی روز مرہ زندگی میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ارشاد فرمودہ یہ دعائیں کثرت سے کرنی چاہئیں خاص طور پر وہ دعائیں جو الہاماً آ پکو سکھائی گئیں اور کثرت سے ان کی قبولیت کے وعدے دئے گئے۔

(الفضل انٹرنیشنل۳۱؍ دسمبر ۱۹۹۹ء تا۶؍جنوری ۲۰۰۰ء)