خاتم النبیین کے اجماعی معنے

مولانا محمد صادق سماٹری

بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کو خدا تعالیٰ نے خاتم النبین قرار دیا ہے اور تمام امت کا اس پر اجماع ہے کہ اس کے معنی ہیں ’’ تمام انبیاء کو ختم کرنے والا‘‘ اس میں سے نہ تو کوئی مستثنیٰ ہے اور نہ ہی ان معنوں کی تخصیص جائز ہے بلکہ علماء نے لکھا ہے کہ اس میں سے استثناء کرنا یاتخصیص کرنا کفر ہے اور جو ایسا کرے وہ کافر ہے۔ اس کے جواب میں ہم پوچھتے ہیں کہ پھر:

۱۔ ان علماء کا کیا فتویٰ ہے سرور کونین سید الثقلین محمد ﷺ کے متعلق جنہوں نے مسلمانوں کو خوشخبری دی کہ آخری زمانہ میں نبی اللہ عیسیٰ کو ان کی اصلاح اور ہدایت کے لئے مبعوث کیا جائے گا۔

۲۔ ان علماء کا کیا فتویٰ ہے ان تمام صحابہ کرام اور محدثین کے متعلق جنہوں نے نزول مسیح کی احادیث کوروایت کیا اور تواتر سے روایت کیا اور ساتھ ہی یقین ظاہر کیا کہ عیسیٰ علیہ السلام کا آخری زمانہ میں آنا برحق ہے اوروہ نبی اللہ ہوگا۔

۳۔ ان علماء کا کیا فتویٰ ہے کہ تمام اہل السنت والجماعت کے آئمہ اور مقلدین کے متعلق جو اس اعتقاد پر قائم ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کی پیشگوئی یقینی ہے ۔ وہ یقیناًآئیں گے اور اسلام کو دنیا پر غالب کریں گے اور دجالی فتنے کا ازالہ فرمائیں گے۔

۴۔ ان علماء کا کیا فتوی ہے ان تما م متکلمین اور مفسرین کے متعلق جنہوں نے آیت خاتم النبین کی تفسیر بیا ن کرتے ہوئے ساتھ ہی عیسیٰ علیہ السلام کے آنے کو تسلیم کیا ہے اور لکھاہے کہ وہ متبع شریعت محمدیہ ہو کر آئیں گے اس لئے ان کا آنا ختم نبوت کے منافی نہیں۔

۵۔ پھر ان علماء کا کیا فتویٰ ہے ان علماء کرام اور آئمہ عظام کے بارے میں جنہوں نے خاتم النبین کے معنے اور تفسیر ایسی بیان کی ہے جو اس مطلب سے زیادہ اعلیٰ اورمطلب خیز ہے اور وہ امتی نبی کے آنے میں روک بھی نہیں بن سکتی۔۔۔۔

۶۔ پھر خاتم النبین کے معنی ’’ تمام انبیاء کو ختم کرنے والا ‘‘ بالکل مبہم ہیں ، سوال یہ ہے کہ جو انبیاء گزر چکے اور وفات پا گئے ہیں انہیں بند یا ختم کرنے کے کیا معنی؟ وہ تو پہلے ہی ختم ہو چکے ہیں اور ایک نبی ( عیسیٰ علیہ السلام) جو عوام کے خیال کے مطابق ابھی زندہ تھے انہیں نہ ختم کر سکے اور نہ ہی ان کا آنا بند ہوا۔

۷۔ ایک اور سوا ل بھی اس ترجمہ کے متعلق یہ پیدا ہوتا ہے کہ نبی بھیجنا یا نہ بھیجنا کس کا کام ہے۔ خدا تعالیٰ کا یا نبی کریم ﷺ کا؟

قرآن کریم (سور ہ الدخان آیت ۴،۵) میں فرمایا ’’ انا کنا مرسلین‘‘ کہ ہم ہی رسول بھیجتے ہیں۔ پس جب رسول بھیجنا خدا تعالیٰ کے اختیار میں ہے تو بند کرنا یا ختم کرنا بھی اسی کے اختیار میں ہے۔ اس طرح خاتم النبین تو خدا کی صفت قرار پائی۔ وہی مرسل النبین ہوا اور وہی خاتم النبین ہوا۔حالانکہ قرآن مجید کی گواہی یہ ہے کہ رسول پاک ﷺ خاتم النبین ہیں۔

۸۔ پھر دوسرے انبیاء تو ہمیشہ خواہش کرتے بلکہ دعا مانگتے رہے کہ خدا تعالیٰ ان کے متبعین کو بڑے روحانی درجات عطا فرمائے اور اپنے قرب سے انہیں نوازتا رہے۔ حضرت ابراہیم اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعائیں ہمارے سامنے ہیں لیکن نبی کریم ﷺ تشریف لائے تو اعلان ہو گیا کہ میری امت میں سے کسی کو نبوت کا اعلیٰ اور بلند مرتبہ نصیب نہ ہوگا کیا یہی فضیلت ہے جو آپ کو عطا کی گئی، کیا یہی اعلیٰ درجہ ہے جو آ پ کی امت کے حصہ میں آیا؟ پہلی امتوں میں شہداء اور صدیقین کے علاوہ خدا تعالیٰ انبیاء بھی مبعوث فرماتا رہا لیکن اس امت میں شہداء اور صدیقین تو ہونگے مگر کسی فرد کو نبوت کے شرف سے نہ نوازا جائے گا۔ شیخ رشید رضا ’’ من یطع اللہ والرسول فاولٰئک مع الذین انعم اللہ علیھم من النبیین والصدیقین والشھداء والصالحین‘‘ کی تفسیر میں فرماتے ہیں:

’’ ھذہ الاصناف الاربعۃ ھم صفوۃ اللہ من عبادہ و قد کانوا موجودین فی کل امۃ ۔ ومن اطاع اللہ والرسول من ھذہ الامۃ کان منھم و حشر یوم القیامۃ معھم۔ لانہ و قد ختم اللہ النبوۃ والرسالۃ لابد ان یرتقی فی الاتباع الیٰ درجۃ احد الاصناف الثلثۃ: الصدیقین والشھداء والصٰلحین‘‘۔ (تفسیر القرآن الحکیم جزء ۵ صفحہ ۲۴۷)

کہ یہ چار قسمیں (نبی ، صدیق ، شہید اور صالح) خدا تعالیٰ کے برگزیدہ بندوں میں سے ہیں اور یہ لوگ پہلی تمام امتوں میں موجود تھے اور اس امت میں جو شخص اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کرے گا وہ ان میں سے ہوگا اور قیامت کے دن ان کے ساتھ اٹھایا جائے گا اور چونکہ اللہ تعالیٰ نے نبوت اور رسالت کو ختم کر دیا ہے اس لئے آئندہ ان تین قسموں میں سے کسی ایک قسم تک ہی ترقی ہو سکے گی یعنی صدیق، شہید اور صالح تک۔

ہم پوچھتے ہیں کہ پھر امت اسلام کی فضیلت کیا ہوئی؟ پھر کس وجہ سے اس امت کو خیر امت کہا جائے؟ جب ختم نبوت کے یہ معنی لئے جائیں کہ اس امت میں کوئی شخص نبی نہیں ہو سکتا آخر اسے کیوں بہترین امت تسلیم کیا جائے ۔ صرف دعویٰ ہی تو کافی نہیں ہو سکتا۔

تفاسیر سے معلوم ہوتا ہے کہ یہودی ، عیسائی بلکہ مجوسی اور عرب لوگ ہمیشہ اپنے دین کو زیادہ اعلیٰ قرار دیتے۔ لکھا ہے:

’’ افتخر اھل الادیان فقالت الیھود کتابنا خیر الکتب و اکرمھا علی اللہ و نبینا اکرم الانبیاء علی اللہ موسیٰ خلابہ و کلمہ نجیا و دیننا خیرالادیان و قالت النصاری عیسیٰ خاتم النبیین اتاہ اللہ التوراۃ والانجیل ولو ادرکہ محمد اتبعہ و دیننا خیرالدین و قالت المجوس و کفار العرب دیننا اقدم الادیان و خیرھا وقال المسلمون محمد رسول اللہ خاتم الانبیاء و سیدالرسل‘‘۔ (تفسیر الدر المنثور جزء ۲ صفحہ ۲۲۶)

’’ یعنی مختلف ادیان کے لوگوں نے فخر کرنا شروع کیا۔ یہود نے کہا کہ ہماری کتاب (تورات) سب سے افضل ہے ۔ اللہ نے اس سے تخلیہ میں سرگوشیاں کیں اور کلام کیا، عیسائیوں نے کہا کہ عیسیٰ خاتم النبیین ہے اللہ نے اسے تورات بھی دی اور انجیل بھی، اگر محمد اس کا زمانہ پاتا تو اس کی پیروی کرتا اور ہمارا دین بہتر ہے اور مسلمانوں نے کہا کہ محمدؐ اللہ کے رسول اور خاتم النبین ہیں اور تمام رسولوں کے سردار ہیں‘‘۔

دیکھا، کیسے ہر مذہب کے پیرو اپنے دین کوافضل اور اعلیٰ قرار دیتے ہیں۔ پس خاتم النبین کے معنی ’’ تمام نبیوں کو ختم کرنے والا‘‘ کئے جائیں تو خود نبی کریم ﷺ کی ہتک اور امت اسلام کی ایک قسم کی ذلت کاموجب ہیں کیونکہ ان معنوں سے لازم آتا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے گویا اعلان فرما دیا کہ میری امت میں سے کسی کو نبوت کا اعلیٰ منصب نصیب نہ ہوگا ۔ زیادہ سے زیادہ وہ صدیق کا درجہ حاصل کر سکیں گے اور یہ کوئی ایسادرجہ نہیں جسے دوسری امتوں کے مقابل فخر کے ساتھ پیش کیا جا سکے، کیونکہ دوسری امتوں میں بھی شہید اور صدیق بکثرت ہوئے۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے:

’’ والذین آمنو باللہ ورسلہ اولٰئک ھم الصدیقون والشھداء عند ربھم‘‘۔ (الحدید آیت ۱۹)۔ کہ جو لوگ اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے وہ خدا کے نزدیک صدیق اور شہید ہیں‘‘۔

ایک دفعہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان لوگوں کو جو ان کے پاس بیٹھے تھے فرمایا: کلکم صدیق و شہید کہ تم میں سے ہر ایک صدیق اور شہید ہے۔

حضرت مجاہد سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: ’’کل مؤمن صدیق و شہید‘‘ (الدر المنثور الجزء ۶ صفحہ ۱۷۶)۔ کہ ہر مومن صدیق اور شہید ہے۔

پس خدارا غور کیجئے کہ خاتم النبین کے یہ معنے حضور ﷺ کی کس شان کا اظہار کرتے ہیں جبکہ دوسرے انبیاء کی امتوں میں کئی تابع نبی مبعوث ہوئے اور آنحضرت ﷺ کا کوئی امتی اس درجہ کو حاصل نہ کر سکا۔

۹۔ اگر ’’تمام انبیاء کو ختم کرنے والا ‘‘ کا یہ مطلب لیا جائے کہ نبی کریم ﷺ کو خدا تعالیٰ نے جو شریعت کاملہ عطا فرمائی تھی اس کے ذریعہ خدا تعالیٰ نے تما م انبیاء سابقین کی شرائع کو منسوخ کر دیا ہے ۔ اب آئندہ ان شرائع پر عمل کرنا جائز نہیں ہوگا صرف شریعت اسلام ہی کی پیروی ضروری ہوگی اور چونکہ یہ شریعت کامل بھی ہے اور اس کی حفاظت کا وعدہ بھی خدا تعالیٰ نے فرما دیا ہے اس لئے کسی نئی شریعت کے اترنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔تو اس مطلب کی رو سے کوئی ایسا نبی تو نہیں آ سکتا جو نئی شریعت لائے اور نبی کریم ﷺ کا امتی نہ ہو لیکن ایسا نبی جو اسی شریعت سے فیضیاب ہو اور نبی کریم ﷺ کی اتباع کی برکت سے ہی اس کو نبوت کے منصب پر فائز کیا گیا ہو اسے اسلام اور امت اسلام کے احیاء کے لئے مبعوث کیا گیا ہو آ سکتا ہے اور اس کے آنے میں کوئی شرعی روک نہیں ہے۔

۱۰۔ ہم کہتے ہیں کہ نئی شریعت کی انتظار عبث ہے کیونکہ شریعت اسلام کامل ہے ۔ اس میں کسی قسم کی کمی اور نقص نہیں ہے ۔ فرمایا : ’’الیوم اکملت لیکم دینکم ‘‘ ( سورہ المائدہ آیت ۴) کہ ہم نے تمہارا دین مکمل کر دیا ہے۔

اس کی حفاظت کا وعدہ کیا گیا ہے اور ہمارا مشاہدہ ہے کہ وہ وعدہ پورا ہو رہا ہے ۔ فرمایا : ’’ انا نحن نزلنا الذکر و انا لہ لحافظون‘‘ (سور ہ الحجر آیت ۹) کہ ہم اس کے محافظ ہیں۔ لیکن ایسی کامل اور محفوظ شریعت کی موجودگی میں بھی نبی کا وجود انسان کے لئے وقتا فوقتا ضروری ہو جاتا ہے کیونکہ اس کا کام یہ ہوتا ہے کہ خدائے تعالیٰ کی قدرت کے نشان دکھائے جن سے دلوں میں نئی زندگی اور تازہ ایمان پیدا ہو۔ تعلیم الٰہی کو وضاحت سے بیان کرے اور ہر موقع پر راہنمائی فرمائے۔ جو اختلاف پیدا ہوں ان کا فیصلہ کرے اور اتحاد و اتفاق کی روح پھونکے۔ پاک اور نیک نمونہ پیش کر کے لوگوں کو بھی پاکباز اور متقی بنائے۔ غفلت اور سستی جو قوم میں پائی جاتی ہو دور کرے۔ چونکہ وہ مستجاب الدعوات ہوتا ہے وہ اپنی دعاؤں کی برکت سے انہیں روحانی و ظاہری ترقی کے راستہ پر گامزن کرے اور کامیاب بنائے۔

آئیے غور کریں کہ کلیۃً نبوت کا دروازہ کیسے بند ہو سکتا ہے۔

( ماخوذ از حقانیت احمدیت صفحہ ۳۱۳ تا ۳۱۷)

(الفضل انٹرنیشنل ۱۹؍ستمبر ۱۹۹۷ء تا ۲۵؍ستمبر ۱۹۹۷ء)