مقدمہ ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک

پروفیسر سعود احمد خان

سو سال پہلے سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام پر پادری ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک کی طرف سے اقدام قتل کا ایک جھوٹا مقدمہ دائر کیا گیا ۔ مسلمان مولویوں بالخصوص محمد حسین بٹالوی صاحب اور آریوں نے عیسائیوں کی طرف سے اس مقدمہ میں جھوٹی گواہیاں دیں۔ حضر ت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی بذریعہ الہام اس مقدمہ اور حکام کی طرف سے تہدید سے متعلق خبر دے دی تھی اور آپ کی باعزت بریت اور معاندین کی ذلت و اہانت کے متعلق بتا دیا تھا چنانچہ ایسا ہی وقوع میں آیا ۔ اس مقدمہ سے متعلق حضور علیہ السلام نے اپنی تصنیف ’’ کتاب البریہ‘‘ میں تفصیل سے ذکر فرمایا ہے اور فرمایا کہ :۔ ’’ یہ حکم بری کرنے کا جو ۲۳ ؍ اگست ۱۸۹۷ ؁ء کو مجسٹریٹ ضلع کی قلم سے نکلا اور یہ نوٹس جو بطور تہدید لکھا گیا یہ دونوں باتیں ایسی ہیں جن سے ہماری جماعت کو فائدہ اٹھانا چاہئے کیونکہ ان کو ایک مدت پہلے خدا تعالیٰ سے الہام پاکر ان دونوں باتوں کی خبر دی گئی تھی۔ اب انہیں سوچنا چاہئے کہ کیونکر ہمار ے خدا نے یہ دونو ں غیب کی باتیں پیش از وقت اپنے بندہ پر ظاہر کردیں۔ جن لوگوں نے یہ نشان بچشم خود دیکھ لیا ہے چاہئے کہ وہ ایمان اور تقویٰ میں ترقی کریں اور خدا کے نشانوں کو دیکھ کر پھر غفلت میں زندگی بسر نہ کریں‘‘۔( کتاب البریہ روحانی خزائن جلد ۱۳صفحہ ۳۰۱)

سو سال ہوئے کہ یکم اگست ۱۸۹۷ ؁ء کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خلاف ایک پادری ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک نے امرتسر (ہندوستان) کے ڈپٹی کمشنر جو ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ بھی کہلاتا تھا ،کی عدالت میں ایک فوجداری مقدمہ دائر کیا کہ (نعوذباللہ ) آپ نے ایک شخص عبدالحمید کو ا س کے قتل کرنے کے لئے قادیان سے امرتسر بھیجا۔ ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک عیسائیت کے اینگلیکن فرقہ کی چرچ مشنری سوسائٹی کی طرف سے ضلع امرتسر کے ایک گاؤں جنڈیالہ میں میڈیکل مشن کے انچارج تھے۔ وہ ایک پٹھان عورت کے بیٹے تھے جس نے ان کو پشاور کے مشن ہسپتال میں جنا تھا۔ انہو ں نے عدالت کو بتایا کہ ان کو اپنے باپ کے نام کا علم نہیں۔ایک بڑے پادری رابرٹ مارٹن کلارک نے لے پالک بنا کر ان کی پرورش کی اور ان کو اپنے نام مارٹن کلارک کے ساتھ ہنری نام دیا۔ انگریز بچوں کی طرح پرورش کی اور اعلیٰ تعلیم دلائی اور وہ ڈاکٹر ہو کر مشن کے ہسپتال کے انچارج بنا دئے گئے۔ مقدمہ انتہائی سنگین نوعیت کا تھا کیونکہ اقدام قتل کا کیس تھا جس کی انتہائی سزا پھانسی بھی ہو سکتی تھی۔ ایک عیسائی پادری نے الزام لگا یا ، انگریز پادری کا لے پالک ہونے کی وجہ سے انگریزی حکومت میں اعلیٰ حلقوں میں رسوخ حاصل تھا اس لئے ان کو زعم تھا کہ حکومت بھی ان کا ساتھ دے گی اور ایسے شواہد بھی موجود تھے جو آگے بیان کئے جائیں گے کہ واقعی حکومت کے ذمہ دار لوگ ذاتی حیثیت میں مقدمہ میں دلچسپی لے رہے تھے ۔

پس منظر

اس مقدمہ کا پس منظر یہ تھا کہ ۱۸۹۳ ؁ء میں جنڈیالہ میں پادری ہنری مارٹن کلارک نے مسلمانوں کو مناظرہ کا چیلنج دیا ۔ وہا ں احمدی کوئی نمایاں حیثیت میں تو نہ تھے لیکن مسلمانوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے درخواست کی کہ آپ اس چیلنج کو قبول فرمائیں۔ مختصر یہ کہ یہ مناظرہ ہوا اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے ایک شرط یہ بھی چاہی کہ دونوں مذاہب اپنے زندہ مذہب ہونے کے ثبوت میں نشان نمائی کریں ۔ عیسائیوں نے پرانے نشانات پیش کرنا کافی سمجھا البتہ آپ کو اجازت دی کہ اگرآپ کوئی نیا نشان دکھائیں تو ان کو اعتراض نہ ہوگا۔ چونکہ جنڈیالہ ایک چھوٹا سا گاؤں ہے اس لئے تجویز ہوئی کہ مناظرہ کسی بڑے شہر میں ہو ۔ چنانچہ فریقین کی رضامندی سے مناظرہ امرتسر میں ہونا قرار پایا۔ مئی کے مہینہ میں مناظرہ دو ہفتے تک جاری رہا۔ دونوں طرف سے تحریری پرچے پیش ہوتے جو مقرر ہ محدود تعداد میں حاضرین میں سنا دئے جاتے ۔ عیسائیوں نے نشانات الٰہیہ کا تمسخر بھی اڑایا اور حضور سے سنت اللہ کے خلاف نشان کا مطالبہ کیا ۔ حضور ؑ نے سنت اللہ کے مطابق نشان کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعا کی اور آخری پرچے میں حضور نے پیش گوئی فرمائی کہ دونوں فریقوں میں سے جو فریق حق کو جھٹلا رہا ہے وہ پندر ہ مہینے کے اندرہلاک ہو گا۔ بشرطیکہ وہ حق کی طرف رجوع نہ کرے۔ ساتھ ہی آپ نے یہ بھی فرمایا کہ فریق مخالف کے مناظر عبداللہ آتھم اب آنحضرت ﷺ کی صداقت کا نشان دیکھیں گے کیونکہ انہوں نے آنحضور ﷺ کو اپنی کتاب اندرونہ بائبل میں دجال لکھا ہے۔ اس لئے وہ اللہ کی قہری تجلی کا نشان بنیں گے۔ تو اسی وقت جائے مناظرہ میں عبداللہ آتھم نے اپنے کانوں کوہاتھ لگائے اور کہا کہ میں نے جان بوجھ کر نبء اسلام کی شان میں گستاخی نہیں کی ۔جو کچھ لکھا گیا ہے اس کا یہ مطلب نہیں کہ میں ان کی شان میں گستاخی کروں اور پھر وہ پندرہ مہینے بالکل خاموش رہے اور اسلام اور حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کے خلاف ایک لفظ منہ سے نہ نکالا۔ بلکہ وہ یہی کہتے تھے کہ ان کو ہتھیار بند لوگ گھوڑوں پر سوار نظر آتے ہیں جو ان کو مارڈالیں گے ۔حالانکہ وہ سخت پہرے میں رہتے تھے اور کوئی آدمی ان کے قریب نہیں جا سکتا تھا۔ آخری دو مہینے تو باقاعدہ پولیس کا پہرہ بھی رہا لیکن چونکہ ان کا ضمیر ان کو ملامت کرتا تھا اس لئے وہ نفسیاتی مریض ہو گئے۔ یہی ان کا رجوع بحق تھا ورنہ ہر ایک غیر مسلم پر عذاب نہیں آتا ۔ اس لئے وہ پندر ہ ماہ میں فوت نہ ہوئے۔ عیسائیوں اور مخالفین نے شورمچایا کہ پیش گوئی جھوٹی نکلی۔ اس پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اعلان فرمایا کہ اگر عبداللہ آتھم قسم کھا کر کہہ دیں کہ انہوں نے مخالفت سے توبہ نہیں کی اور اب بھی اسلام کو جھوٹا مذہب اور آنحضرت ﷺ کو دجال سمجھتے ہیں تو وہ ایک سال میں مر جائیں گے۔ انہوں نے قسم نہ کھائی اور اس طرح ان کا رجوع حق ثابت ہوگیا۔ آخر ۲۷؍ جولائی ۱۸۹۶ ؁ء کو وہ فوت ہو گئے ا ور ایک پہلو سے پیشگوئی پوری ہوئی کہ فریقین میں سے حق کو جھٹلانے والا سچے کے سامنے فوت ہو جائیگا۔ ا س طرح مناظرہ کو کو عیسائیوں کا دیا ہوا نام ’’ جنگ مقدس‘‘ اسلام کے حق میں سچا ثابت ہوا۔

اس مناظرہ اور اس سارے مخاصمہ کے بانی مبانی ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک تھے ۔ انہوں نے مسلمانوں کو چیلنج کیا ۔ ان کا خیال تھا کہ کوئی مقابلہ پر نہیں آئے گا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے چیلنج کو قبو ل فرما کر ان کی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ عیسائی مناظر پندرہ روز ہ مناظرہ میں عیسائیت کو اسلام کے مقابلہ میں سچا مذہب ثابت نہ کر سکے۔ چنانچہ اس زمانہ میں ایک عیسائی امریکن مشنری نے اس مناظرہ کے بارے میں رپورٹ کرتے ہوئے ایک اخبار میں لکھا: The replies of the Christian debater had been inadequate کہ عیسائی مناظر کے جوابات بالکل ناکارہ تھے

علمی لحاظ سے بھی ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک کو مایوسی ہوئی ۔ ادھر ۶؍ مارچ ۱۸۹۷ ؁ء کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پیشگوئی کے مطابق آریہ سماجی ہندو لیڈر پنڈت لیکھرام کی موت بذریعہ قتل واقع ہوئی اور قاتل پکڑا نہ گیا۔ آریوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر الزام لگایا کہ آپ نے قاتل بھیج کر لیکھرام کو قتل کروایا ہے۔ اس پر پولیس نے پوری کارروائی کی اور حضور کے مکانات کی اور قادیان میں خوب تلاشی ہوئی۔ آریوں کی نشاندہی پر مشکوک لوگوں کی پوچھ گچھ کی گئی، کوئی سراغ نہ ملا اور معاملہ ٹھنڈا پڑ گیا اور حکومت نے مزید کوشش ترک کر دی۔ لیکن ڈاکٹر مارٹن کلارک پھر بھی پیچ و تاب میں رہے اور آخر انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف اقدام قتل کا الزام لگایا اور اس سازش میں اپنے ساتھ آریوں کو بھی ملا لیا حتیٰ کہ مولوی محمد حسین بٹالوی بھی اس میں شامل ہوگئے۔

عبدالحمید

اس سازش کا مزعومہ قاتل عبدالحمید جہلم کا رہنے والا نوجوان تھا۔ وہ ایک دفعہ قادیان حضرت مولانا نورالدین صاحب (خلیفۃ المسیح الاول) رضی اللہ عنہ کے پاس بغرض علاج آیا ۔ اس نے بتایا کہ وہ حضرت مولانا برہان الدین صاحب جہلمی کا بھتیجا ہے اس لئے حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ نے اس کے ساتھ شفقت کا سلوک کیا اور آپ کے علاج سے وہ ٹھیک بھی ہوگیا تو اس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے بیعت کی خواہش ظاہر کی جو حضور نے نامنظور فرمائی۔ یوں بھی اکثر اوقات حضور ہر بیعت کنندہ کی بیعت پہلی درخواست پر قبول نہ فرماتے تھے بلکہ مزید تحقیق کا موقع دیا کرتے تھے لیکن یہاں یہ تصرف الٰہی کا کرشمہ تھا کیونکہ درخواست حضو ر کے ایک مقرب مرید صحابی مولوی برہان الدین کے بھتیجے نے کی اور سفارش حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ نے کی تھی۔ لیکن پھر بھی اللہ تعالیٰ نے آپ کے دل میں ڈالا کہ بیعت قبول نہ کی جائے۔ کچھ عرصہ کے بعد وہ پھر قادیان آیا ۔ اس دفعہ اس کے تایا حضرت مولوی برہان الدین صاحبؓ بھی وہا ں موجود تھے ۔ انہوں نے اس کو وہاں دیکھ کر فرمایا کہ یہ یہاں کیوں آیا ہے اور پھر سب کو اس کے لچھن بتائے کہ بڑا لا ابالی قسم کا نوجوان ہے۔ کوئی کام نہیں کرتا ، آوارہ پھرتا رہتا ہے۔ کبھی کسی فرقے میں کبھی کسی فرقے میں جاتا ہے۔ حتی کہ ہندو اور عیسائی بھی بن چکا ہے ۔ اس کو اپنے حلوے مانڈے سے غرض ہے۔ جس کے پاس جاتا ہے وہاں اس کی نئے ہونے کی وجہ سے خاطر مدارات کی جاتی ہے۔ جب اس میں کمی آ جاتی ہے تو پھرکہیں جا کر کچھ اور بن جاتا ہے۔ اس کا ذکر غالباً حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بھی کیا اس لئے حضور نے اندر سے بذریعہ تحریر ارشاد فرمایا کہ اس کو یہاں نہ رکھا جائے ۔ چنانچہ اس کو جلد چلتا کیا گیا۔

عبدالحمید قادیان سے امرتسر میں امریکن مشن آیا ۔ وہاں پادری نورالدین اور انچارج پادری گرے سے ملا۔ اس نے کہا کہ میں ہندو پیدا ہوا تھا ، رلیا رام نام تھا پھرمسلمان ہوگیا اب قادیان سے آیا ہوں عیسائی ہونا چاہتاہوں۔ پادری گرے کو اس کی باتوں پر یقین نہ آیا تو پادری نورالدین کو کہا کہ اس کو کہو تمہاری مالی مدد نہیں کریں گے۔ اس پر نورالدین نے کہا کہ ا س کو پادری ہنری مارٹن کلارک کے پاس اینگلیکن مشن میں بھیج دیتے ہیں۔ یہ بات بہت معنی خیز ہے کہ پادری ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک کا خیال کیوں آیا۔ معلوم ہوتا ہے کہ اس کوہنری مارٹن کلارک کے خیال کا پتہ تھا کہ وہ کسی شخص کو اس بات پر آمادہ کرنا چاہتا تھا جو یہ کہے کہ اس کو مرزا صاحب نے ہنری کو قتل کرنے کے لئے بھیجا ہے۔ چونکہ یہ ایک لالچی شخص تھا اس لئے یہ لالچ میں آ کر ایسا کردار ادا کرنے پر راضی ہو جائے گا۔ چنانچہ وہ پادری ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک کے پاس چلا گیا۔

یہاں وہ تو یہ کہتا رہا کہ پہلے ہندو تھا پھر مسلمان ہوا اور اب قادیان سے یہاں عیسائی ہونے آیا ہے اور ہنری مارٹن کلارک کے ساتھ کے پادری عبدالرحیم وارث دین اور بھگت پریم داس اس کو یہی کہتے رہے کہ نہیں تم یہاں خون کرنے آئے ہو کیونکہ تم کہتے ہو کہ تم قادیان سے آئے ہو اس لئے ضرور تم کو مرزا صاحب نے ہنری مارٹن کلارک کو قتل کرنے کے لئے بھیجا ہے۔ ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک نے اس کو اپنے ان ماتحت پادریوں کے ساتھ بیاس بھجوا دیا اور وہ اس کو ا س بات پر آمادہ کرتے رہے اسی عرصہ میں ڈاکٹر کلارک خود بھی بیاس آئے اور اپنے کیمرہ سے اس کی تصویر کھینچی۔ پھروہ امرتسر آیا یہاں بھی اس کی تصویریں فوٹو گرافر سے کھنچوائیں۔ فوٹو کیوں کھینچا اور اس کو کس طرح مزعومہ قتل کی سازش میں شر یک کیا گیا آگے مضمون میں بیان ہوگا۔ لیکن اس کے بہلانے پھسلانے ،ڈرانے دھمکانے میں کئی دن گذر گئے۔ اس عرصہ میں ڈاکٹر کلارک نے عبدالرحیم کو قادیان بھیجا۔ وہ حضر ت مسیح موعود علیہ السلام سے ملا اور آپ نے اس کو بتایا کہ عبدالحمید قادیان آیا تھا مگر لالچی آدمی ہے تم اس کو روٹی کپڑا دو تو وہ عیسائی ہو جائے گا۔ اور آپ نے بتایا کہ وہ مسلمان پیدا ہوا۔ پیدائشی نام رلیا رام نہ تھا۔

امرتسر ضلع سے وارنٹ گرفتاری

عبدالحمید کے راضی ہونے پر ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک نے فوراً مارٹینو ڈپٹی کمشنر ضلع امرتسر کو جو ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ بھی تھے درخواست دی جنہوں نے عبدالحمید اور ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک کے بیانات لے کر دفعہ ۱۱۴ ضابطہ فوجداری کے تحت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی گرفتاری کے لئے وارنٹ جاری کر دیا اور ساتھ حفظ امن کے لئے ایک سال کے واسطے ۲۰ ہزار روپے کا مچلکہ اور بیس بیس ہزار کی دو ضمانتیں بھی طلب کیں۔ چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ضلع گورداسپورتھا اس لئے ڈپٹی کمشنر اور ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ گورداسپور کو جو کیپٹن مانٹیگو ڈگلس تھے یہ وارنٹ وغیرہ بھجوا دئے کہ وہ اپنی ضلعی پولیس سے اس پر عمل کرا کے ملزم کو امرتسر بھجوا دیں۔ ادھر پادریوں نے اس خبر کو شہر میں پھیلا دیا اور ہر روز مخالفین نے امرتسر کے ریلوے سٹیشن پر جانا شروع کر دیا کہ وہ وارنٹ پر عملدرآمد خود اپنی آنکھوں سے دیکھیں۔ لیکن ایسا نہ ہوا بلکہ مارٹینو ڈپٹی کمشنر امرتسر کو اپنی غلطی کا احساس ہوا کہ ملزم نے جہاں اقدام قتل کا ارادہ کیا اور اپنے ایجنٹ کوقتل پر آمادہ کر کے روانہ کیا وہیں کے ضلع میں مقدمہ درج ہونا چاہئے اور کارروائی وہیں ہونی چاہئے نہ کہ کسی اور ضلع میں۔ اس لئے اس نے تار بھیجا کو جو وارنٹ گرفتاری گورداسپور بھجوایا گیا ہے اسکو منسوخ سمجھا جائے اور کارروائی کے لئے کیس گورداسپور بھیجا جا رہا ہے۔ تارملنے پر کیپٹن ڈگلس حیران ہوا کہ یہ کون سا وارنٹ ہے کہ ضلع گورداسپور کے دفتر میں پہنچا ہی نہیں۔ اور پھر بعد میں اس وارنٹ کا پتہ ہی نہیں چلا کہ وہ گیا کہاں۔

اتفاق سے اس دن حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے ایک صحابی حضرت چوہدری رستم علی صاحبؓ جو خود پراسیکیوٹر انسپیکٹر آف پولیس تھے گورداسپور آئے ہوئے تھے انہوں نے وارنٹ اور اس کی گمشدگی کے بارے میں سنا تو فوراً قادیان روانہ ہوگئے ا ور حضور اقدس کو اطلاع دی۔ جماعت قادیان کے احباب سخت پریشان ہو ئے کہ بہرحال آج نہ سہی کل پرسوں وارنٹ گرفتاری پہنچ جائے گا اور اس پر عمل بھی ہوگا۔ لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام باہر تشریف لائے تو آپ بالکل مطمئن تھے اور ہشاش بشاش ۔ فرمایا کہ فکر کی کوئی بات نہیں بلکہ خوشی کی بات ہے کہ جو خبر ایک ہفتہ قبل خدا نے دی اس کے پورے ہونے کا وقت آ گیا ہے ۔ آپ لوگوں کو یاد ہوگا وہ الٰہی خبر یہ تھی:

مقدمہ سے متعلق پیشگوئی

’’ ۲۹؍ جولائی ۱۸۹۷ ؁ء کو میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک صاعقہ ۔۔۔میرے مکان کی طرف چلی آتی ہے اور نہ اس کے ساتھ کوئی آواز ہے اور نہ اس نے کچھ نقصان کیا ہے بلکہ وہ ایک ستارہ روشن کی طرح آہستہ حرکت سے میرے مکان کی طرف متوجہ ہوئی ہے ۔۔۔ اور جبکہ وہ قریب پہنچی تومیرے دل میں تو یہی ہے کہ یہ صاعقہ ہے مگر میری آنکھوں نے صرف ایک چھوٹا سا ستارہ دیکھا ۔۔۔ اور مجھے الہام ہوا کہ ’’ ما ھذا الا تھدید الحکام ‘‘ یعنی یہ جو دیکھا اس کا بجز اس کے کچھ اثر نہیں کہ حکام کی طرف سے کچھ ڈرانے کی کاروائی ہوگی۔۔۔ پھر بعد اس کے الہام ہوا ’’ قد ابتلی المومنون یعنی مومنوں پر ایک ابتلا آیا ‘‘۔

اسی طرح فرمایا:

’’ پھر بعد اس کے یہ الہام ہوا کہ مخالفوں میں پھوٹ اور ایک شخص متنافس کی ذلت اور اہانت اور ملامت خلق ( اور پھر اخیر حکم ابراء) یعنی بے قصور ٹھہرانا۔ پھر بعد اس کے الہام ہوا ’’و فیہ شی ء۔۔۔‘‘ پھر ساتھ اس کے یہ بھی الہام ہوا کہ’ بلجت آیاتی‘ کہ میرے نشان روشن ہونگے‘‘ (تریاق القلوب روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحہ ۳۴۱)

پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے احباب کو تسلی دی اور نصیحت فرمائی کہ اب دعاؤں کاوقت ہے کہ ایک حصہ پیشگوئی کا پورا ہوا کہ ایک ضلع میں حکام نے کارروائی کی ہے جو خوفناک تھی لیکن ابھی اس کا اثر ظاہر نہیں ہوا،آگے بھی یہ بے اثر ہی ثابت ہواور بجائے کسی رسوائی کے یہ ابتلا ہمارے لئے ایک نشان الٰہی بن جائے اور مخالفین کی شکست اور ناکامی کا موجب بنے۔

کیس واقعی بڑی سنگین نوعیت کا تھا ۔ اگر وارنٹ گرفتاری گورداسپور پہنچ جاتا اور ضابطہ کی کارروائی میں کسی کو غلطی کا خیال نہ آتا تو تعجب کی بات نہیں۔ ایک دفعہ عمل درآمد ہو جاتا تو اگر بعد میں اس کے خلاف کارروائی بدل بھی جاتی پھر بھی دشمنوں کو دو دن کے لئے ہی سہی خوشی کا موقع مل جاتا لیکن اللہ تعالیٰ نے یہ بھی نہ چاہا اور ان کو جھوٹی خوشی بھی میسر نہ ہوئی ۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کا ایک معجزہ تھا جو اس مقدمہ کے شروع میں ظاہر ہوا۔

کیس کیپٹن ڈگلس کی عدالت گورداسپور میں

دو دن بعد کیس تفصیل کے ساتھ گورداسپور کے ڈپٹی کمشنر اور ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے سامنے آیا ۔ اس اثناء میں ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک بھی گورداسپور پہنچ گئے تا کہ کیپٹن ڈگلس پر بھی اپنا اثر و رسوخ اور اپنے چرچ کا اثر ڈالیں اور اپنی من پسند کارروائی کروائیں۔ لیکن کیپٹن ڈگلس ایک انصاف پسند حاکم تھے ۔ کیس کو دیکھتے ہی فیصلہ کیا کہ ساری کارروائی غلط ہوئی ہے۔ عبدالحمید جب اپنے ارادہ میں ناکام ہوا اور پادریوں نے اسے پکڑ لیا تو کیس پولیس کو جانا چاہئے تھا ۔ پھر مجسٹریٹ سے عبدالحمید کا ریمانڈ لیا جاتا۔ اور تفتیش پوری ہو کر کیس سیشن کے سپرد کیا جاتا ۔ نہ پولیس میں رپورٹ، نہ اقبالی ملزم کا ریمانڈ ، محض شبہ کی بنیاد پر ایک تیسرے شخص کی گرفتاری اور بیس ہزار کا مچلکہ اور بیس بیس ہزار کی د و ضمانتیں کیا نامعقول کارروائی ہے۔ انہوں نے کہا میں یہ کیس پولیس کو دیتا ہوں وہ تفتیش کی کارروائی کرے۔ ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک نے کہا دراصل میں بیماری کی چھٹی پر جانا چاہتاہوں اس لئے میں چاہتاہوں کہ جتنی جلدی ہو سکے میرا ملزم جو قادیا ن کے مرزا صاحب ہیں گرفتار ہونا چاہئے۔ ڈگلس نے کہا اچھا تو میں مرزا صاحب کو اپنی عدالت میں بلاتا ہوں اور خود عبدالحمید اورمرزا صاحب کے بیانات سن کر فیصلہ کروں گا۔ اس کے لئے وارنٹ کی ضرورت نہیں صرف سمن کافی ہے اور امن قائم رکھنے کے لئے صرف ایک ہزار کامچلکہ اور ایک ہزار کی ضمانت مانگی جا سکتی ہے۔ چنانچہ انہوں نے ۱۰؍ اگست ۱۸۹۷ ؁ء کو بجائے گورداسپور کے بٹالہ تحصیل سب ڈسٹرکٹ میں حاضر ہونے کاسمن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے نام مچلکہ اور ضمانت کے ساتھ جاری کیا۔ گویا یہ بھی الٰہی تصرف تھا کہاں گرفتاری اور بیس بیس ہزار کا مچلکہ اور دو ضمانتیں اور کہاں صرف سمن اور ایک ہزار کا مچلکہ ، ایک ہزار کی ایک ضمانت جس کے داخل کئے جانے کا فیصلہ بھی بہر حال بیانات کے بعد ہوگا۔

سماعت سے ایک روز قبل ڈپٹی کمشنر گورداسپور کے ریڈر غلام حیدر صاحب جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مرید نہ تھے امرتسرسے واپس اپنے کام پر جانے کے لئے بٹالہ کی گاڑی میں بیٹھے تو دیکھا کہ اسی سیکنڈ کلاس کے ڈبے میں بیٹھنے کے لئے پادری ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک جن کو گورے رنگ اور وضع قطع سے (یاد رہے کہ ہنری کو ایک یورپین پادری نے انگریز بچوں کی طرح پالا تھا) لوگ یوروپین ہی سمجھتے تھے ایک اوریوروپین کے ساتھ داخل ہوئے ۔ اتنے میں مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی بھی آگئے۔ چونکہ غلام حیدر صاحب، ڈاکٹر ہنری کلارک اور مولوی صاحب تینوں ایک دوسرے سے واقف تھے اس لئے باتیں شروع ہوئیں اور غلام حیدر صاحب کو پتہ چلا کہ دونوں کسی کام سے ایک ساتھ جا رہے ہیں اور مولوی صاحب کا ٹکٹ بھی پادری صاحب نے خریدا ہے۔ جب ان دونوں کو پتہ چلا کہ غلام حیدر ان دنوں ڈپٹی کمشنر گورداسپور کے ریڈر ہیں تو دونوں نے خوش ہو کر کہا ’’ تب تو شیطان کا سر کچلنے کے لئے آپ بہت کارآمد ہونگے‘‘ ۔ غلام حیدر صاحب نے کہا ’’ میں سمجھا نہیں آپ کیا کہہ رہے ہیں‘‘ تب انہوں نے مقدمہ کے بارے میں بتایا۔ غلام حیدر صاحب کو بہت افسوس ہوا کہ مولوی صاحب دشمن اسلام کے ساتھ مل کر ایک ایسے شخص کے خلاف مقدمہ میں شریک ہیں جو عیسائیوں سے اسلام کے دفاع میں مقابلہ کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’یہ عدالت کا معاملہ ہے میں اس میں مددنہیں دے سکتا ہاں اتنا کہہ سکتاہوں کہ جو شیطان ہے اس کا سر خود بخود کچلا جائے گا‘‘۔

دوسرے دن سماعت سے پہلے صبح نماز کے بعد غلام حیدر صاحب سیر کے لئے باہر نکلے تو مولوی فضل الدین صاحب وکیل بھی مل گئے ۔ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے وکیل تھے۔ اگرچہ وہ ابھی احمدی نہ تھے ۔ دونوں باتیں کرتے کرتے اینگلیکن مشن کے پاس سے گزر ے جو ایک کوٹھی میں تھا جس میں گھاس کا لان تھا۔ گرمی کا موسم تھا اس لئے لوگ باہر ہوا میں بیٹھے تھے ۔دونوں کویہ دیکھ کرحیرت ہوئی کہ مولوی محمد حسین صاحب بھی پادریوں کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے اور کچھ اور لوگ تھے یہ سب ایک نوجوان کے ہاتھ پر پینسل سے کچھ نشانات لگا رہے تھے ۔ مولوی فضل الدین صاحب کو حیرت ہوئی کہ مولوی محمد حسین یہاں مرزا صاحب کے مقدمہ کے دن پادری صاحب کے پاس آئے ہیں اس پر غلام حید ر صاحب نے ان کو بتایا کہ کل یہ دونوں امرتسر سے ایک ساتھ آئے اور ٹکٹ بھی مولوی صاحب کا پادری صاحب نے خریدا۔ جو لوگ وہاں موجو د تھے ان میں مولوی فضل الدین صاحب نے لاہور کے ایک مشہور ہندو وکیل رام بھجدت کو بھی دیکھا گویا کہ عیسائی پادری ، آریہ وکیل اور مسلمان مولوی محمد حسین سب آپس میں مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف صف آرا تھے ۔ بعض پولیس والے بھی وہاں موجود تھے اس طرح کچھ پولیس کے اہلکار بھی ان کی مدد کر رہے تھے ۔

بٹالہ میں سماعت

وقت مقررہ سے ذرا پہلے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مع اپنے خدام کے بٹالہ کی کچہری پہنچ گئے۔ دوسرے لوگ بھی آ گئے۔ کیپٹن ڈگلس جب احاطہ کچہری میں داخل ہوئے تو حضرت اقدس کو وہاں دیکھا۔ ضرور پتہ کیا ہوگا کہ یہ کون ہیں تو معلوم ہونے پر کہ یہی مرزا غلام احمد صاحب علاقہ کے رئیس ہیں ۔ دفتر کے کمرہ میں پہنچ کر انہوں نے اپنے اردلی سے حضور اقدس کو سلام بھجوایا (حیات احمد مصنفہ حضرت عرفانی صاحب)۔ گویا حضور کے پاکیزہ چہرہ کا ان کے دل پر ایک اثر ہوا۔ جب عدالت کی کارروائی شروع ہوئی تو حضور کو کرسی پر بیٹھنے کے لئے اشارہ کیا ۔ اس پر ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک نے مولوی محمد حسین صاحب کے لئے کرسی کی سفارش کی کہ وہ مسلمانوں کے فرقہ اہل حدیث کے سرغنہ ہیں اور میرے گواہ ہیں۔ اس پرڈپٹی کمشنر نے غلام حیدر صاحب ریڈر کو کرسی نشینوں کی فہرست دیکھنے کو کہا ، اس میں ان کا نام نہ تھا۔ البتہ غلا م حیدر صاحب نے کہا کہ جب کبھی مولوی صاحب کو حکام سے ملنے کاموقع ہوتا ہے تو وہ ان کو دفتر میں کرسی دے دیا کرتے ہیں۔ مولوی صاحب عدالت میں موجود تھے اور انہوں نے بھی کرسی کا مطالبہ کیا۔ ڈپٹی کمشنر نے کہا کہ آ پ کانام ضلع کے کرسی نشینوں کی فہرست میں نہیں اس لئے کرسی پیش نہیں کی جاسکتی۔ اس پر مولوی صاحب نے کہا میں لاٹ صاحب یعنی گورنر پنجاب وغیرہ سے ملتا ہوں تو کرسی پر بٹھا کر بات کرتے ہیں۔ ڈپٹی کمشنر نے کہا وہ نجی ملاقات ہوتی ہے یہ عدالت ہے۔ مولوی صاحب نے کچھ کہنا چاہا تو کیپٹن ڈگلس ڈی سی نے ڈانٹ کر کہا سیدھے کھڑے رہو اور زیادہ بک بک نہ کرو۔جوبیان مولوی صاحب نے دیا اس کا ذکر تو آئے گا لیکن وہ عدالت سے نکلے تو برآمدہ میں کرسی پر بیٹھ گئے ۔ چپراسی نے اس پر بھی نہ بیٹھنے دیا کہ کپتان صاحب پولیس کی اجازت نہیں۔ وہ وہاں سے اٹھے تو دیکھا کہ کچھ مسلمان چادر بچھا ئے بیٹھے تھے وہ اس کے ایک کونہ پر بیٹھ گئے ۔ جب ان مسلمانوں کو پتہ چلا کہ یہ مولوی صاحب مرزا صاحب کے خلاف پادریوں کے حق میں گواہی دینے آئے ہیں تو انہوں نے بھی اپنی چادر گھسیٹ لی اور کہا کہ مسلمانوں کے سرغنہ ہو کر جھوٹی گواہی دیتے ہو، ہمارے کپڑے کو ناپاک نہ کرو۔ اس پر غلام حیدر صاحب غیر احمدی کا بیان ہے کہ مولانا نورالدین صاحب نے مولوی صاحب کا ہاتھ پکڑ کر کہا ’’آپ یہاں ہمارے پاس بیٹھ جائیں۔ ہر چیز کی حد ہونی چاہئے ‘‘۔ گویا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی عزت و توقیر باوجود الزام لگنے کے اللہ تعالیٰ خود دکھا رہا تھا اور پادری صاحب کی کوئی بات اپنی مرضی کے مطابق نہ ہو رہی تھی اور مولوی محمد حسین صاحب کو ذلت و رسوائی مل رہی تھی اور مقدمہ کے فیصلے سے قبل ہی اللہ تعالیٰ کی بات پوری ہو رہی تھی کہ ایک شخص متنافس کی ذلت و ملامت خلق۔

بیانات شروع ہوئے عبدالحمید کا بیان وہی تھا کہ اس کو مرزا صاحب نے پادری ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک کو مارنے کے لئے امرتسر بھیجا تھا لیکن اس کے بیان کی تفصیل میں اس بیان سے جو اس نے امرتسر میں وہاں کے ڈپٹی کمشنر اور ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ مارٹینو کی عدالت میں دیا تھا بہت فرق تھا ۔ بلکہ جو بات اس نے ہنری مارٹن کلارک کو بتائی کہ بٹالہ کا پیدائشی ایک برہمن ہندو ہوں جس کو مرزا صاحب نے مسلمان کیا ۔ ڈپٹی کمشنر اور ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ امرتسر مارٹینو کے سامنے نہ کہی بلکہ وہاں اس نے اپنے آپ کو سلطان محمود کا بیٹا جہلم کا رہنے والا بتایا۔ ڈپٹی کمشنر اور ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ گورداسپور کیپٹن ڈگلس کے سامنے کہا میں پہلے مسلمان تھا اب میں عیسائی ہونا چاہتا ہوں جبکہ مارٹینو ڈپٹی کمشنر امرتسر کو کہا کہ میں ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک کے پاس اس کے قتل کرنے کے ارادے سے گیا تھا کیونکہ مرزا صاحب نے کہا تھا کہ مسلمان کا عیسائی کو قتل کرنا جائز ہے۔ تو گویا جب ڈاکٹر کلارک کو کہا کہ میں عیسائی ہونا چاہتا ہوں تو وہ دھوکہ دہی کے لئے تھا لیکن اب کیپٹن ڈگلس ڈپٹی کمشنر کے سامنے متلاشی عیسائی کیوں کہا ۔ مارٹینو کے سامنے بیان میں کہا کہ مرزا صاحب نے مجھ سے کہا تھا کہ ’’ ڈاکٹر کلارک کو قتل کرنے کے بعد قادیان چلے آنا تم بالکل محفوظ رہو گے‘‘۔ جبکہ کیپٹن ڈگلس کے سامنے کہا کہ ’’ امرتسر میں ایک شخص قطب الدین مرید مرزا صاحب کاہے۔ مرزا صاحب نے بتلایا تھا کہ تم اس کے پاس جانا وہ تمہیں قادیان پہنچا دے گا‘‘۔ کیا تضاد ہے ۔ پہلے ایک دم قادیان چلے آنا کہیں نہ جانا۔ دوسری دفعہ قطب الدین کا نام لیا کہ اس کے پاس جانا۔ قادیان موقع مصلحت کے مطابق پہنچانا اس کا کام ہوگا۔ تو یہ بات پہلے کیوں نہ کہی۔ کہیں اپنے باپ کا نام سلطان محمود بتایا اور کہیں لقمان بتایا ۔

غلام حیدر صاحب کا بیان ہے کہ چونکہ مولوی فضل الدین وکیل حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ۱۰؍ اگست کی صبح کو بٹالہ میں عبدالحمید کو اینگلیکن مشن ہاؤس میں دیکھ چکے تھے جہاں ا س کے ہاتھ پر پنسل سے کچھ لکھا جا رہا تھا یا نشان لگائے جا رہے تھے اس لئے جب انہوں نے عدالت میں عبدالحمید سے مشن ہاؤس میں اور رام بھجدت وکیل اور بعض پولیس والوں کے ساتھ ہونے کے بارے میں سوال کیا تو عبدالحمیدنے اس کوتسلیم کیا۔ اسی طرح مولوی فضل الدین صاحب یہ بات بھی عدالت کے نوٹس میں لائے کہ عبدالحمید کے ہاتھ پر پنسل سے اس کی یادداشت کے لئے کچھ اشارے بھی اسی دن صبح بنائے گئے جس سے پتہ چلتا ہے کہ بیان خود اس کا نہیں بلکہ اس کو سکھایا پڑھایا گیا کہ تم مرزا صاحب کے خلاف اقدام قتل کا الزام لگاؤ کہ انہوں نے تمہیں پادری ہنری مارٹن کلارک کو مارنے کے لئے بھیجا تھا ۔

ا س کے بعد ڈاکٹر پادری ہنری مارٹن کلارک کا بیان ہوا۔ اس میں امرتسر والے بیان سے بعض باتیں مختلف تھیں بلکہ عبداللہ آتھم کو نفسیاتی طور پر خوف میں گھوڑے سوار اور ہتھیار بند لوگ نظر آتے یا سانپ بچھو نظر آتے ۔ یہ سب انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف منسوب کئے کہ آپ انہیں بھیجتے تھے جو کمال ہوشیاری سے آتھم کو ڈرا کر اس کے پہرہ داروں کی نظروں سے اوجھل رہتے ہوئے بھاگ جاتے تھے( حالانکہ آخری دو ماہ تو وہ پولیس کی حفاظت میں تھے )۔ خود انہوں نے اپنے بارے میں کہا کہ مجھ کو بھی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ میرے بارے میں بھی پیشگوئی کی گئی ہے ۔مجھ کو ڈسنے کے لئے سانپ بھی بھیجا گیا جو مارڈ الا گیا وغیرہ ۔ انہوں نے لیکھرام کے قتل کے بارے میں پیشگوئی کا ذکر کر کے اس کے قتل کا ذمہ دار بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ٹھہرایا (حالانکہ اس کے لئے پولیس تفتیش ہوئی ۔ آریوں نے جس جس پر شک کیا اس سے پوچھ گچھ ہوئی لیکن پھر بھی کسی کے ہاتھ کچھ نہ آیا) ۔ وکیل مولوی فضل الدین صاحب نے ان پر سوال کر کے خود ان کی زبان سے کہلوایا کہ رام بھجدت نے ان سے کوئی فیس نہیں لی۔ گویا وہ بھی لیکھرام کے انتقام میں اس سازش میں شریک تھے۔

اس کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا بیان ہوا جو سادہ الفاظ میں مختصر تھا ۔ فرمایا :

’’ ہم نے کبھی پیشگوئی نہیں کی کہ کلارک صاحب مر جائیں گے ۔ ہر گز ہمارا منشاء کسی لفظ سے یہ نہ تھا کہ صاحب موصوف مرجاویں گے۔ عبداللہ آتھم کی بابت ہم نے شرطیہ پیشگوئی کی تھی کہ اگر رجوع بحق نہ کرے گا تو مر جاوے گا۔ عبداللہ آتھم صاحب کی درخواست پر پیشگوئی صرف اس کے واسطے کی تھی ۔ کل متعلقین مباحثہ کی بابت پیشگوئی نہ کی تھی ۔ لیکھرام کی درخواست پر اس کے واسطے بھی پیشگوئی کی گئی تھی۔ ہم نے کی تھی چنانچہ پوری ہوئی‘‘۔

اس کے علاوہ ایک بیان ۲۰؍ اگست کو بھی ہوا وہ ذرا تفصیل سے تھا ۔ اس میں یہی باتیں دہرائیں البتہ عبدالحمید کا ذکر بھی تھا۔ فرمایا :

’’ عبدالحمید کو ایک دفعہ میں نے مسجد میں دیکھا تھا کسی شخص نے ذکر کیا تھا ۔ یہ شخص عیسائی ہو گیا تھا اب یہاں آیا ہے۔ میرے ساتھ اس کی کوئی گفتگو نہ ہوئی تھی۔ مجھے نہیں معلوم کس نے اس کو مزدوری کا کام دیا تھا۔ میں نے کوئی کام نہیں دیا تھا۔ میں نے سنا تھا کہ عبدالحمید اچھے چال چلن کا لڑ کا نہیں ہے۔ اس لئے میں نے گھر سے رقعہ لکھ کر بھیج دیا تھا کہ اس کو نکال دینا چاہئے ۔ مجھے پھر خبر نہیں کہاں چلا گیا تھا ۔ میں نے ایک پیسہ تک اس کو جاتے ہوئے نہیں دیا۔ نہ امرتسر بھیجا ‘‘۔ (کتاب البریہ روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحہ ۲۰۶)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے علاوہ آپ کی طرف سے حضرت مولانا نورالدین ( خلیفۃ المسیح الاول) رضی اللہ عنہ اور جناب شیخ رحمت اللہ صاحب کے بیانات ہوئے جو سادہ اور بے لاگ تھے ۔ عبدالحمید کے قادیان جانے کا ذکر تھا۔ عبدالحمید کا حضرت خلیفۃ المسیح الاول نے مولوی برہان الدین صاحب کا بھتیجا ہونے کے سبب علاج کیا ۔ بیعت کی درخواست منظور نہیں ہوئی ۔ مولوی برہان الدین صاحب نے بتایا کہ نکما ہے۔ اس کو نکال دو یہ تکلیف کا باعث بنے گا۔ میں نے اس کو دو آنے دئے تھے۔ مرز اصاحب نے اس کو کچھ نہیں دیا تھا ۔ سنا تھا کہ لڑ کر گیا ہے۔ وغیرہ ۔

شیخ رحمت اللہ صاحب نے بھی بتایا کہ مجھ سے میری دوکان پر ملا تھا۔ کہتا تھا مولوی برہان الدین صاحب کا بھتیجا ہوں پہلے عیسائی ہو گیا تھا اب پھر مسلمان ہونا چاہتا ہوں۔ قادیان جانے کیلئے کرایہ مانگا ۔ میں نے آٹھ آنے دئے ۔ سنا تھا کہ قادیان گیاتھا۔ اس کے بعد میں نے نہیں دیکھا۔ دونوں نے بتایا کہ مرزا صاحب گھر کے اندر کسی سے نہیں ملتے۔ مسجد میں آتے ہیں یا سیر کو جاتے ہیں۔ یہ بات اس لئے کہی کہ عبدالحمید کا بیان تھا کہ اس کو مرزا صاحب گھر کے اندر بلایا کرتے تھے اور وہ آپ کو دبایا کرتا تھا۔ اور کلارک کو قتل کرنے کی بات بھی گھرمیں کہی تھی۔ یہ گھڑی ہوئی بات تھی۔

غلام حید ر صاحب کہتے ہیں کہ ڈپٹی کمشنر ڈگلس نے مولانا نورالدین کی سادہ باوقار شخصیت اور بے لاگ بیان سے نیک اثر لیا اور آپ کو حضرت عیسیٰ کے مشابہ قرار دیا ۔ دراصل یہ بھی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی قوت قدسیہ کا بالواسطہ اعتراف تھا جو اللہ تعالیٰ نے ڈگلس کی زبان سے کرایا ۔ آخر وہ عیسوی جھلک جو انہو ں نے دیکھی کہاں سے آئی۔ حقیقت یہی ہے کہ’’ جمال ہم نشیں در من ا ثر کرد۔۔۔ ‘‘ کا کرشمہ تھا ۔ اگر ایسی بات کرسی عدالت پر بیٹھ کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بارے میں ان کے منہ سے نکلتی تو ایسے اظہار سے ان کے انصاف پر حرف آ جاتا ۔

بٹالہ میں سماعت تین دن ہوئی ۔ استغاثہ کے کئی گواہ آئے جو سب پادری کلارک کے ماتحت عملہ کے آدمی تھے۔ اس لئے ان کی گواہیاں مشتبہ رہیں۔ وہ موقع کے گواہ تو تھے لیکن یہی بات زیر بحث تھی کہ سازش امرتسر میں بنی یا قادیان میں۔ موقع کا گواہ قادیان کا ہوتا تو بات بنتی۔ جس سے عبدالحمید کے بیان کی تائید ہوتی۔ بقول عبدالرحیم پادری وہ قادیان گیا تھا لیکن اس کے بیان میں بھی قادیان کے ذکر سے کوئی بات وہاں سازش کے بنائے جانے کے حق میں نہ ملی۔ پادری عبدالرحیم کی قادیان میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ا لگ اکیلے میں ملاقات بنائی ہوئی بات تھی۔

ان گواہوں کے علاوہ ایک گواہ پادری صا حب کے حق میں مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی بھی تھے جن کے کرسی کے مطالبہ کا ذکر پہلے آ چکا ہے ۔ انہوں نے پادری صاحب کی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر اپنے مخالفین کے مرنے کی پیشگوئیوں کا الزام لگایا ۔ اور کہا کہ یہ باتیں جھوٹی بھی نکلیں اور جو سچی ہوتی ہیں وہ دراصل یہ قتل کرا دیتے ہیں جیسے لیکھرام کے ساتھ ہوا۔ ( اس طرح مولوی صاحب نے ایک دشمن اسلام کے مرنے پر واویلا مچایا اور ہندوؤں کی ہمنوائی کی)۔ اب یہ پادری ہنری مارٹن کلارک کو قتل کر ا کے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں کہ میری پیشگوئی پوری ہو گئی وغیرہ ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ مولوی صاحب کو حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کے بارے میں عیسائیوں کی گندہ دہنی پر کوئی غیرت نہ تھی۔ اس پر کیپٹن ڈگلس نے لکھا:

I consider sufficient evidence has been recorded regarding the hostility of the witness to the Mirza and there is no necessity to stray further from the main lines of the case
( کتاب البریہ روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحہ ۲۵۴)

یعنی میرے خیال میں مرزا صاحب کے خلاف گواہ کی عداوت کے بارے میں کافی شہادت قلمبند ہو چکی ہے اور مقدمہ کی اصل کاروائی سے ہٹنے کی اب چنداں ضرور ت نہیں۔

غلام حیدر صاحب ریڈر ڈپٹی مجسٹریٹ کے بیان کے مطابق حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے وکیل مولوی فضل الدین صاحب نے مولوی محمد حسین صاحب پر جرح کے دوران سوال کیا کہ کیا آج صبح آپ پادری کلارک کے ساتھ ان کے مشن ہاؤس میں نہیں تھے؟ یہ سوال اس لئے پوچھا کہ مولوی صاحب نے بیان میں کہا کہ وہ پادری صاحب سے آخری بار ۱۸۹۵ ؁ء میں ملے تھے ۔ مولوی صاحب نے جواب انکار میں دیا۔ اس پر غلام حیدر صاحب چونک پڑے۔ کیپٹن ڈگلس نے چونکنے کی وجہ پوچھی تو انہوں نے پادری صاحب کی طرف اشارہ کیا۔ کیپٹن صاحب نے ان سے پوچھا تو انہوں نے ہاں میں جواب دیا۔ پھر وکیل فضل الدین صاحب نے سوال کیا کہ آپ امرتسر سے بٹالہ پادری صاحب کے ساتھ آئے اور آپ کا ریل کا ٹکٹ بھی پادری صاحب نے خریدا۔ مولوی صاحب نے پھر انکار کیا ۔ اس پر غلام حیدر صاحب کی زبان سے نکلا یہ جھوٹ ہے۔ ڈگلس صاحب نے پھر پادری صاحب سے پوچھا تو انہوں نے اقرار کیا ۔ مولوی محمد حسین صاحب تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو جھوٹا کہہ رہے تھے اللہ تعالیٰ نے ان کی پردہ دری کر دی اور خود ان کے منہ سے ان کا جھوٹا ہونا ثابت کر دیا لیکن جس کو وہ جھوٹا کہہ رہے تھے اس کے اخلاق کریمانہ کا سکہ وہیں عدالت میں سب کے دلوں پر بٹھا دیا۔ ہوا یوں کہ مولوی فضل الدین صاحب وکیل نے مولوی صاحب سے معذرت کے ساتھ ایک ایسا سوال کرنا چاہا جس کی زد مولوی صاحب کے اخلاقی کردار پر پڑتی تھی۔ غلام حیدر صاحب کہتے ہیں کہ مرزا صاحب اپنی کرسی سے اٹھے اور فضل الدین صاحب کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا اور فرمایا کہ’’ میری طرف سے یہ سوال کرنے کی نہ ہدایت ہے نہ اجازت ۔ آپ اپنی مرضی سے بہ اجازت عدالت اگر پوچھنا چاہیں تو آپ کو اختیار ہے‘‘ ۔ ڈگلس صاحب نے اجازت تو نہ دی لیکن ان کو یہ دلچسپی ضرور ہوئی کہ یہ کیا بات ہے۔ انہوں نے ریڈر غلام حیدر صاحب سے عدالت بر خاست کرنے کے بعد پوچھا تو انہوں نے کہا کہ میں معلو م کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ انہوں نے جناب شیخ رحمت اللہ صاحب کے ذریعہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام سے دریافت کرایا تو غلام حیدر صاحب لکھتے ہیں کہ حضور نے نہایت افسوس کے ساتھ فرمایا ’’ مولوی محمد حسین صاحب کے والد کا ایک خط ہمارے قبضہ میں ہے جس میں کچھ نکاح کے حالات ہیں اور مولوی محمد حسین صاحب کی بدسلوکیوں کے قصے ہیں جو نہایت قابل اعتراض ہیں۔ ہم ہر گز نہیں چاہتے کہ اس قصہ کا ذکر مسل پر لایا جائے یا ڈپٹی کمشنر صاحب اس سے متاثر ہو کر کوئی رائے قائم کریں‘‘۔

پھر غلام حیدر صاحب نے لنچ والے کمرہ میں جا کر کیپٹن ڈگلس کو سارا ماجرا کہہ سنایا ۔ اس وقت ڈاکٹر پادری ہنری مارٹن کلارک بھی موجود تھے ۔ پادری صاحب تو بہت ہنسے ۔ ڈگلس صاحب نے کہا یہ امر توہمارے اختیار میں ہے کہ ہم اس ماجرے کو قلمبند نہ کریں مگر یہ بات ہمارے اختیار سے باہر ہے کہ ہمارے دل پر اثر نہ ہو۔ (ڈاکٹربشارت احمد، مجدد اعظم صفخہ ۵۴۱ تا ۵۴۴)

ایک بات یہ بھی ظاہر ہے کہ پادری ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک کو حکومت میں اتنا اثر حاصل تھا کہ ڈپٹی کمشنر بھی باوجود ان کے فریق مقدمہ ہونے کے ان کو اپنے ساتھ لنچ کرنے سے انکار نہ کر سکے۔ پھر کیوں نہ ان کو زعم ہوتا کہ وہ اقدام قتل کی جھوٹی سازش کریں تب بھی مقدمہ میں وہ کامیاب ہونگے۔

حقیقت کا اظہار

مقدمہ کی کارروائی کے بعد ڈپٹی کمشنر ڈگلس بہت پریشان تھے۔ ان کی پریشانی اتنی عیاں تھی کہ ان کے ریڈر غلام حیدر صاحب نے پوچھ ہی لیا کہ کیا وجہ ہے کہ آپ اتنے پریشان ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مرزا صاحب اپنی شکل سے معصوم نظر آتے ہیں۔ ایسا شخص ایسے جرم کا ارتکاب نہیں کر سکتا۔عبدالحمید کا بیان جگہ جگہ بدلا ہوا ہے۔ امرتسر میں اور پھر یہا ں بھی اس نے کئی بیان دیے ان میں فرق ہے لیکن ہر بیان میں وہ کہتا ہے کہ مرزا صاحب نے اسے پادری ہنری کلارک کوقتل کرنے کے لئے بھیجا۔ ا س پر ریڈر صاحب نے کہا کہ عجیب بات ہے کہ وہ قتل کے ارادے سے پادری صاحب کے پاس جانے کا اقراری ہے پھر بھی انہی کے پاس رہ رہا ہے اس کو تو پولیس کی کسٹوڈی میں ہونا چاہئے ۔ یہ بات ڈگلس صاحب کی سمجھ میں آ گئی ۔ جب عبدالحمید نے اپنا پہلا بیان ڈگلس صاحب کی عدالت میں قلمبند کروایا تو آخر میں کہا کہ ’’ اس کو جان کا خطرہ ہے‘‘۔ ڈاکٹر صاحب نے اس پر کہا کہ وہ اپنی حفاظت میں رکھنا چاہتے ہیں۔ چنانچہ مسل پر ڈگلس صاحب نے لکھا ’’ گواہ کو اجازت ڈاکٹر صاحب کے پاس رہنے کی دی گئی‘‘۔(کتاب البریہ صفحہ۲۱۱)۔

اب ڈگلس صاحب ان کی چال سمجھ گئے فوراً ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس (DSP) لی مارچنڈ کو بلایا اور سارا قصہ سنا کر مشورہ کیا ۔ انہوں نے کہا آپ اپنا پہلا حکم عارضی طور پر منسوخ کردیں اور لڑکے کو ہمیں اپنے پاس لانے دیں۔ اگر ضرور ت ہوئی تو پھر ہم آپ سے ریمانڈ لے لیں گے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ اب عبدالحمید پولیس کے پاس لایا گیا ۔ مگر ڈی ایس پی اس وقت مصروف تھے انہوں نے انسپیکٹر جلال الدین سے کہا کہ اس سے پوچھ گچھ کرو۔ ان کو تو وہ دو گھنٹہ تک وہی پرانی بات دہراتا رہا آخر انہوں نے ڈی ایس پی سے کہا کہ یہ کچھ اور نہیں بتاتا وہی پرانی کہانی سناتا ہے ۔ اگر کہیں تو اس کو واپس چھوڑ آئیں۔ اب ڈی ایس پی لی مارچنڈفارغ تھے ۔ انہوں نے کہا اس کو میرے پاس لاؤ۔ ان کو بھی دو صفحے پرانا قصہ لکھواتا رہا۔ اس پر انہوں نے کہا دیکھو یہ بات تو پہلے سنا چکے ہو۔ تمہارے پہلے بیانات میں اختلافات ہیں۔ اگر اصل مجرم نہ پکڑا گیا تب بھی تم تو اقراری ہو کہ قتل کی نیت سے ڈاکٹر پادری صاحب کے پاس گئے تم کو سزا ہوجائے گی۔ بہتر ہے حقیقت بتا دو ۔ اس پر وہ روتے ہوئے ان کے قدموں میں گر پڑا اور کہا صاحب مجھ کو بچا لو۔ اصل میں تو میں مسلمان پیدا ہوا ہوں۔ کئی مذہب بدلے پھر دوبارہ مسلمان ہوا۔ اور اس کے بعد قادیان گیا وہاں مرزا صاحب نے میری بیعت قبول نہ کی اس لئے اب پھر عیسائی ہونے کے لئے پہلے امرتسر میں امریکی مشن گیا۔ وہاں پادری گرے صاحب نے مجھ کو قابل اعتبار نہ سمجھا اور اپنے ماتحت پادری نور دین کے سپرد کیا کہ اپنے خرچ پر ہم سے عیسائیت کی تعلیم لے تو رکھ لو ورنہ چلتا کرو۔ انہوں نے مجھ کو پادری ہنری مارٹن کلارک کے پاس بھیج دیا کہ وہ تم کو مفت رکھیں گے ، کھانا کپڑا دیں گے اور دوسرے اخراجات کے لئے بھی مدد کریں گے۔ میں ان کے پاس گیا اور کہا کہ عیسا ئی ہونا چاہتا ہوں۔ قادیان سے آیا ہوں ۔ انہوں نے فوراً اپنے شفا خانہ میں کام کرنے کے لئے مجھ کوپادری عبدالرحیم کے سپرد کیا ۔ یہاں عبدالرحیم نے مجھ کو ورغلایا اور کہا کہ تم یہاں قتل کرنے آئے ہو اور مجھ کو ڈاکٹر پادری ہنری مارٹن کلارک کے پاس لے گیا۔ وہ میرے ساتھ ہنسی مذاق کرتے رہے اور فوٹو کھینچ لیا اور پھر بیاس بھیج دیا ۔ ہاں پادری عبدالرحیم ، وارث دین اور پریم داس نے مجھے بہلایا پھسلایا۔ جب میں قتل کے ارادہ سے آنے کا بیان دینے پر راضی نہ ہوا تو انہوں نے ڈرایا کہ اب تو تمہارا فوٹو بھی لے لیا ہے کہا ں بھاگ کر جاؤ گے۔ پولیس فوٹو کی مدد سے پھر گرفتار کر لے گی۔ اگر تم ابھی بیان دے دو کہ تم کو مرزا صاحب نے ڈاکٹر پادری صاحب کو مارنے کے لئے بھیجا ہے تو چونکہ ڈاکٹر صاحب کا حکومت میں بڑا اثر و رسوخ ہے وہ تم کو بچا لیں گے اور اصل مجرم مرزا صاحب قرار پائیں گے۔ تم عیش سے ہمارے ساتھ رہنا ۔

وہ تو تھا ہی لالچی وہ راضی ہوگیا۔اس کے راضی ہونے پر جلد باز ی سے کام لیتے ہوئے اس کو امرتسر میں ڈپٹی کمشنر اور ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ مارٹینو کے سامنے پیش کیا گیا اور مقدمہ درج کر کے مرزا صاحب کے وارنٹ گرفتاری جار ی کر دئے ۔ عبدالحمید نے مزید کہا کہ اس کے بعد ان لوگوں نے رام بھجدت وکیل کو لاہور سے بلایا اور میرا وہ بیان تیار کیا گیا جو بٹالہ میں پہلی بار دیا۔ اس میں مجھ کو بتایا گیا کہ مرزا صاحب کا مرید قطب الدین امرتسر میں ہے تم کہنا کہ مرزا صاحب نے اس کے پاس چھپنے کے لئے کہا تھا ۔ رام بھجدت نے کہا تم پرندے نہیں ہو کہ اڑ کر پہنچ جاؤ قطب الدین کے گھر کا راستہ تم کو معلوم ہونا چاہئے۔ چنانچہ بٹالہ میں میرے ہاتھ پر قطب الدین کا نام پتہ اور اس کے نشانات بنائے گئے۔ ہر روز مجھ کو نئے سے نیا بیا ن سکھایا جاتا ۔ چنانچہ یہاں بتایا کہ میں کہوں کہ مرزا صاحب نے گھر میں ایک کمرہ میں لے جا کر ہنری کو قتل کرنے کو کہا اور کہا کہ اب تم قادیان مولوی نورالدین کو خط لکھ دو کہ تم امرتسر میں ہو اور اب تم عیسائی ہو رہے ہو۔ اور انہوں نے مجھے بتایا کہ میں کہوں کہ میں نے اپنا ارادہ اس لئے بدلا کہ میرا وہا ں قادیان میں جھگڑاہو گیا اور میں مرزا صاحب کو گالیاں دے کر آ گیا۔ حالانکہ ایسی کوئی بات نہیں ہوئی تھی۔ دو آدمیوں سے تکرار ضرور ہوئی تھی۔ میں نے مرزا صاحب کو گالیاں نہیں دی تھیں۔ یہ سب بیان انہوں نے مجھ سے دلوائے۔ انہوں نے بٹالہ میں میرے بیان میں یہ بھی اضافہ کیا کہ میں اندر گھر میں جا کر مرزا صاحب کو دبایا کرتا تھا۔ حالانکہ میں کبھی ان کے مکان میں نہیں گیا۔ صرف ایک بار مسجد میں ان کو دیکھا تھا ۔ انہوں نے مجھے ڈاکٹر پادری ہنری مارٹن کلارک کو قتل کرنے کے لئے نہیں کہا۔

چونکہ عبدالحمید نے امریکن مشن جانے کا ذکر کیا تھا اس لئے لی مارچنڈ، ڈی ایس پی نے پادری گرے سے تحریری بیان لے کر عدالت میں پیش کر دیا جس میں پادری گرے نے یہ تسلیم کیا کہ وہ یعنی عبدالحمید ا ن کے پاس آیا تھا۔ اور عیسائی ہونے کو کہتا تھا ۔ میں نے کہا پہلے میں اس کو عیسائیت کی تعلیم دلواؤں گا چاہے وہ رو زانہ آئے یا ہفتہ میں ایک دو دن۔ لیکن اس نے دریافت کیا کہ گذارہ کی کیا صورت ہوگی ۔ اس پر میں نے کہا میں ایک پیسہ بھی گذارہ کے لئے نہیں دونگا۔ اس بات سے ان کو خیال ہوا کہ وہ ایک نکمااور مفتری آدمی ہے جو ان سے روپیہ یا خوراک کا گزارہ چاہتا ہے۔ ڈی ایس پی لی مارچنڈ نے عبدالحمید کاریمانڈ لے کر اس کو پولیس کی نگرانی میں آئندہ سماعت کو گودارسپور میں پیش کیا ۔ اسی طرح پادری نورالدین نے ۲۲؍اگست کو عدالت میں یہ بیان دیا کہ گرے صاحب نے عبدالحمید کو عیسائیت کی تعلیم دینے کے لئے ان کے پاس بھیجا لیکن چونکہ ہمارے ہاں اس کو روٹی کپڑا نہیں ملتا تھا عبدالحمید نے پھر دوسرے مشنوں کے بارے میں پوچھا تھا ۔ پادری نورالدین نے کہا کہ شاید ڈاکٹر کلارک صاحب کے مشن کا ذکر بھی ہوا۔ مگر ڈاکٹر صاحب کا صریح ذکر نہیں ہوا تھا۔ مجھ سے اس نے یہ نہیں کہا تھا کہ وہ مرزا صاحب کی طرف سے آیا ہے مگر کہا کہ وہ مرزا صاحب کا شاگرد ہے۔ اپنے پہلے ہندو ہونے کا ذکر بھی کیا تھا۔

ایسا معلوم ہوتا ہے پادری نورالدین محتاط بیان دے رہے تھے یہ اقراری ہیں کہ عبدالحمید نے دوسرے مشنوں کے بارے میں پوچھا۔ یہ بھی مانتے ہیں کہ ڈاکٹر کلارک کے مشن کا ذکر ہوا پھر ایک دم وہ خود پادری ہوتے ہوئے ڈاکٹر کلارک کا صریح ذکر ہونے کا انکار کرتے ہیں۔ ایک طرف کہتے ہیں کہ مرزا صاحب کی طرف سے آنے کا ذکر نہیں کیا پھرکہتے ہیں کہ اس نے کہا کہ وہ مرز ا صاحب کا شاگرد ہے۔گویا سچی بات بھی ان کو معلوم ہے۔ لیکن سچ کو چھپانا بھی چاہتے ہیں۔ لیکن یہ ثابت ہے کہ دونو ں امریکن مشن سے متعلق پادری صاحبان اس کو ایک مفتری اور نکما سمجھتے تھے جو پیسے اور گذارہ کے لئے ان کے پاس گیا تھا بلکہ حضرت یعقوب علی عرفانی رضی اللہ عنہ ایڈیٹر الحکم نے اپنے صحافتی ذرائع سے معلوم کیا کہ نورالدین نے اس کو ہنری کا تحفہ کہہ کر اینگلیکن مشن میں بھیجا تھا۔ (حیات احمد مصنفہ عرفانی صاحب)

فیصلہ

اب کیپٹن ڈگلس ڈپٹی کمشنر اور دسٹرکٹ مجسٹریٹ کے لئے کسی نتیجہ پر پہنچنا آسان ہوگیا۔ چنانچہ ۲۳؍ اگست ۱۸۹۷ ؁ء کو فیصلہ لکھا :’’ جہاں تک ڈاکٹر کلارک کے مقدمہ سے تعلق ہے ہم کوئی وجہ نہیں دیکھتے کہ غلام احمد سے حفظ امن کے لئے ضمانت لی جائے یا یہ کہ مقدمہ پولیس کے سپرد کیا جائے ۔ لہذا وہ بری کئے جاتے ہیں‘‘۔

(کتاب البریہ روحانی خزائن ایڈیشن ۱۹۸۴ء جلد ۱۳ صفحہ ۳۰۰ ۔ ۳۰۱)

انہوں نے اپنے فیصلے کی مندرجہ ذیل وجوہات لکھیں:

  1.  خود عبدالحمید ایسی جانبازی اورذمہ داری کے کام کے لائق نہیں وہ ۔۔۔ ایک کمزور دل کا نوجوان ہے ۔۔۔۔
  2.  یہ تسلیم کیا گیا کہ غلام احمد نے صرف اس کو قریب دو ہفتے کے دیکھا ۔ بڑے سے بڑا وقت یہی ہے۔ وہ ایسے تھوڑے عرصہ میں کافی طور سے ایسی واقفیت پیدا نہیں کر سکتے تھے کہ ایسے نازک کام کے لئے اس پر بھروسہ کرتے ۔نہ یہ بات ہے کہ وہ اس پر کوئی بڑا اثر پیدا کر سکے ہوں۔
  3.  جس طریق سے عبدالحمید نے اس کام کو بیان کیا ہے اس کی تدبیر بھی بالکل بھونڈی اور احمقانہ معلوم ہوئی ہے۔ یہ امر قرین قیاس نہیں ہے کہ عبدالحمید کواس بات کے کہنے کی تعلیم دی گئی ہو کہ وہ بٹالہ کا ایک ہندو تھا ۔ اور یہ ایسا بیان ہے جس کی تکذیب ڈاکٹر کلارک د و ایک گھنٹے میں کر سکتا۔ غلام احمد کے ۲۵؍ جولائی کے اس اقبال کے بعد کہ وہ نوجوان قادیان میں آیاتھا ۔ اگر ڈاکٹر کلارک پر کوئی حادثہ پڑ تا تو یہ یقینی امر تھا کہ مرزا صاحب کے خلاف اس کی جان کے بدلے میں کوئی عدالتی کارروائی کی جاتی۔ اور اس امر کی نسبت خو د مرزا صاحب بھی قبل از وقت پیش بینی کر سکتے تھے ۔ یہ بات کسی طرح بھی باور نہیں ہو سکتی کہ مرزا صاحب نے اپنے آپ کو ایسے خطرہ میں ڈالا ہو۔
  4.  یہ ثابت ہے کہ وہ نوجوان اوّل ڈاکٹر گرے کے پاس امرتسر میں گیا اور اگر وہ اس کو کھانے پینے اور مکان کا وعدہ کرتے تو وہ اس کے پاس رہتا ۔ اگر فی الاصل ڈاکٹر کلارک کے پاس بھیجا گیا تھا تو پھر اس امر کی کوئی دلیل نہیں کہ مسٹر گرے امریکن مشن کے عیسائی کے پاس وہ کیوں چلا گیا۔ یہ ظاہر ہو چکا ہے کہ وہ محض اتفاق سے ڈاکٹر کلارک کی طرف رستہ بتلایا گیا ۔
  5.  اس نے نورالدین عیسائی امریکن مشن کو کہا تھا کہ وہ قادیان سے آیا ہے اور کہ وہ فی الاصل ہندو تھا۔ اور ہم یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ اس کا یہ بیان کرنا نہ تو مرزا صاحب کی سا زش ہے اور نہ لیکھرام کے قاتل کے فعل سے مشابہت کے لئے ہے بلکہ بقول اس کے بیان کے اس واسطے ہے کہ مشنریوں سے اس امر واقعہ کو پوشیدہ رکھے کہ وہ گجرات مشن سے نکالا گیا تھا۔(عبدالحمید ایک بار پہلے بھی گجرات میں عیسائی ہوا تھا اور بدچلنی کی بنا پر وہاں سے نکالاگیا تھا۔ ناقل) اسی وجہ سے اس نے عبدالحمید کی بجائے جھوٹا نام عبدالمجید بیا ن کیا ۔
  6.  اگر عبدالحمید کا بیان جو بمقام بیاس اس نے کیا ہے سچا ہوتا تو کوئی وجہ معلوم نہیں ہوتی کہ کیوں اس نے بعد تسلیم کر لینے اس ضروری امر کے کہ وہ ڈاکٹر مارٹن کلارک کے مارنے کے لئے آیا ہے، تفصیلات کے بیان کرنے سے رکا رہا۔ یہ بات ظاہر ہے کہ بہت سی تفصیلات اس وقت ظاہر ہوئیں جبکہ وہ نوجوان وارث الدین اور پریم داس اور عبدالرحیم کی حفاظت میں بٹالہ تھا۔ لہذا ہماری یہ رائے ہے کہ عبدالرحیم اور وارث الدین اور پریم داس ہی صرف اس پہلی کہانی کے جوابدہ ہیں اور غالباً وہی اس کو تمام وقت ورغلاتے رہے۔ (کتاب البریہ روحانی خزائن ایڈیشن ۸۴ء جلد ۱۳ صفحہ ۲۹۵، ۲۹۷)

دوران مقدمہ عبدالحمید کی اصل شہادت ہو جانے کے معاً بعد جس میں اس نے تسلیم کیا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اس کو ڈاکٹر کلارک کے قتل کرنے کے لئے نہیں بھیجا تھا بلکہ وہ محض عیسائی ہونے کے لئے ڈاکٹر کلارک کے پاس امریکن مشن کے پادری نورالدین کے کہنے پر آیا تھا مگر یہاں پادری عبدالرحیم ، پادری وارث دین اور پادری پریم داس نے اس کو ورغلا کر یہ بیان دلوایا کہ ا سکو ڈاکٹر کلارک کو مارنے کے لئے قادیان سے بھیجا گیا ہے تو ڈاکٹر کلارک کی تمام امیدوں پر پانی پھر گیا اور اپنی جان بچانے کی خاطر فوراً عدالت میں یہ بیان دیا جس کو کیپٹن ڈگلس ڈپٹی کمشنر اور ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نے مسل پر درج کر دیا :

Dr Clark states he wishes to resign the post of prosecutor adjourned to 23rd August . Sd. M Douglas, District Magistrate

یعنی ڈاکٹر کلارک کہتے ہیں کہ وہ استغاثہ سے دستبردار ہوتے ہیں اور سماعت ۲۳؍ اگست تک ملتوی کی جاتی ہے۔ ایم ڈگلس

اور ۲۳؍اگست ۱۸۹۷ ؁ء کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو باعزت طورر پر بری کر دیا۔ اور زبانی فرمایا کہ اگر آپ چاہیں تو اب ان لوگوں کے خلاف عدالتی کارروائی کر سکتے ہیں۔ حضر ت اقدس علیہ السلام نے فرمایا ’’ میرا مقدمہ زمین پر نہیں آسمان میں اللہ تعالیٰ کی عدالت میں ہے‘‘۔(حیات احمد مصنفہ حضرت یعقوب علی صاحب عرفانیؓ)

مقدمہ کی سنگینی اور نصرت الٰہی

مقدمہ اپنی نوعیت کے لحاظ سے نہایت سنگین تھا ۔ استغاثہ کے گواہان نہایت بااثر لوگ تھے ۔ پادری ڈاکٹر ہنری مارٹن کلار ک عیسائی مذہب کے ایک میڈیکل مشن کے انچارج تھے جو انگلستان کے سرکاری مذہب اینگلیکن کی چرچ مشنری سوسائٹی چلا رہی تھی اور خود ڈاکٹر ہنری کلارک ہندوستانی نژاد ہوتے ہوئے اپنے سفید رنگ اور ایک انگریز سینئر پادری رابرٹ کلارک کے لے پالک ہونے کی وجہ سے اپنی حیثیت میں کسی انگریز پادری سے اثر و رسوخ میں کم نہیں تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بزرگ جلیل القدر صحابی حضرت مولوی شیر علی صاحب رضی اللہ عنہ نے ۱۹۳۶ ؁ء میں احمدیہ مسجد فضل لندن کی ایک تقریب میں جس میں مسٹر مانٹیگو ڈگلس جو ترقی کر کے کرنل کے مرتبہ پر پہنچ کر چیف کمشنر جزائر اینڈیمان کے عہدے سے ریٹائر ہو چکے تھے مہمان خصوصی کی حیثیت سے شامل تھے بیان فرمایا کہ ڈگلس صاحب نے حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب درد رضی اللہ عنہ کو ( کہ وہ بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی تھے) جو اس وقت لندن مسجد کے امام تھے بتایا تھا کہ خود گورنر پنجاب چرچ مشنری سوسائٹی کا ممبر تھا جبکہ یہ بھی سننے میں آیا تھا کہ کسی اہم شخصیت کی طرف سے

Public Prosecutor was instructed to see the case through. (Maulana Dard, Life of Ahmad)

یعنی پبلک پراسیکیوٹر کو ہدایت ملی تھی کہ وہ اس مقدمے کو کامیاب بنانے کی کوشش کریں۔

مسٹر ڈگلس نے حضرت مولانا شیر علی صاحب کی تقریر میں یہ بات سن کر انکار نہیں کیا۔ اگر و ہ اہم شخصیت گورنر پنجاب خود نہ تھے تب بھی ایسی ہدایت دینے والا اہم شخص یہ جان کر ہی ہدایت دینے کی جرات کر سکتا تھا کہ چرچ مشنری سوسائٹی کو گورنر پنجاب کی ممبر شپ کی پشت پناہی حاصل تھی۔ نیز یہ بات تو پوری طرح واضح ہو جاتی ہے کہ ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک اپنے اور مشن کے حکومت میں اثر و رسوخ کو پور ی طرح استعمال کر رہے تھے ۔

مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے بھی حکومت میں اتنا اثر و رسوخ بڑھا لیا ہوا تھا کہ حکومت انگلشیہ کی طرف سے ان کو چار مربع زمین عطا ہوئی تھی۔ (مولوی صاحب کا اپنا اخبار اشاعت السنۃ نمبر ۱ جلد ۹ صفحہ ۱) اور خود انہوں نے کرسی نشینی کے استحقاق کے لئے کہا تھا کہ لاٹ صاحب گورنر پنجاب مجھ کو گورنر ہاؤس میں عزت سے اپنے پاس کرسی پر بٹھاکر باتیں کرتے ہیں۔ (معلوم ہوا کہ مولوی صاحب حکومت کی نظر میں اس کے خاص آدمی تھے جبکہ تاریخ گواہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کبھی کسی گورنر کو ملنے نہیں گئے، نہ انہوں نے آپ کو بلایا ، اور نہ آپ کو کوئی زمین حکومت کی طرف سے عطا ہوئی۔ آپکے پاس اپنے آباء و اجداد کی اپنے علاقہ میں قضا کی خدمات کے صلہ میں سلطنت مغلیہ کی عطا کی ہوئی وسیع رقبہ زمین کا تھوڑا سا باقی بچا ہوا حصہ تھا کیونکہ پہلے سکھوں نے پھر انگریز حکومت نے بہت بڑے حصہ پر قبضہ کر لیاتھا)۔ مولوی محمد حسین جیسے لوگوں کی گواہیاں بھی بعض اوقات قابل اعتماد سمجھ لی جاتی ہیں اور شاید اسی زعم میں وہ ایک غیر متعلقہ گواہی دینے آ گئے تھے۔

عبدالحمید کو امرتسر سے بیاس لے جانے والے حصہ کو نکال بھی دیا جائے کہ اس کا علم تو بعد کے بیان سے ہوا تو موقع کے گواہ توامرتسر کے پادری وارث دین ، عبدالرحیم اور پریمداس ہی تھے ۔ مزید برآں مقدمہ پولیس کی ایف آئی آر پر زیر غور نہ تھا بلکہ خود انگریز ڈپٹی کمشنر مسٹر مارٹینو نے مزعومہ قاتل سے بیان لے کر کیس تیار کر کے ڈپٹی کمشنر گورداسپور کیپٹن ڈگلس کے پاس بھیجا تھا۔ ان باتوں کو کیپٹن ڈگلس کے لئے نظر انداز کرنا آسان بات نہ تھی۔ نیز خودعیسائی حکومت میں پادریوں کی حمایت کر کے اپنے سے اوپر کے ذمہ دار افسروں کو خوش کرنے میں ذاتی منفعت بھی پیش نظر ہو سکتی تھی۔ لیکن کیپٹن ڈگلس نے ان باتوں کی کوئی پرواہ نہ کی اور انصاف سے کام لیا۔

مسٹر ڈگلس صرف ایک رعایت ڈاکٹر کلارک سے کر سکے اور غالباً وہ بھی اس لئے کہ حکومت برطانیہ کا سرکاری مذہب کا مشن بدنام نہ ہو ۔ ویسے ڈاکٹر کلارک نے ہوشیاری سے عبدالحمید کو مزعومہ قاتل بنانے کا کام عبدالرحیم ، وارث دین اور پریم داس کے سپرد کر دیا تھا ۔ البتہ ایک جگہ عبدالحمید نے اپنے اصل بیا ن میں بتایا کہ جب بیان یاد کرنے کی غرض سے اس نے لکھا کہ مرزا صاحب نے مجھ کو کہا کہ امرتسر جا اور ڈاکٹر کو مار ڈال تو ڈاکٹر صاحب نے سب کے ساتھ مل کر کہا ’’ ہمارے دل کی مراد پوری ہو گئی ہے ‘‘۔ مگرڈگلس صاحب نے اس سازش کی ذمہ داری ان تینوں دیسی پادریوں پر ڈال دی اور غالباً اس کی جسارت بھی ان کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے اخلاق فاضلہ سے ہوئی جس کا مظاہرہ وہ مولوی محمد حسین صاحب کے بارہ میں کر چکے تھے ۔چنانچہ فیصلہ میں ڈاکٹر صاحب کو سازش سے بری الذمہ قرار دینے سے قبل انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے رجوع کرنا ضروری سمجھا اور پھر فیصلہ میں حضور کی تعریف کے ساتھ یوں لکھا :’’ یہ بات بھی لکھنے کے قابل ہے کہ مرزا غلام احمد نے اس امر کو کشادہ پیشانی سے مان لیا ہے او ر عدالت میں ڈاکٹر کلارک کو ہر ایک قسم کی شمولیت سے مبرا قرار دیا ہے‘‘۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی رضامندی حاصل کرنا ہی ثابت کرتا ہے کہ ڈاکٹر کلارک کو یہ رعایت دینا بھی کیپٹن ڈگلس کا ایک احسان تھا ورنہ اگر یہ رعایت نہ دی جاتی تب بھی انصاف کی خلاف ورزی نہ ہوتی۔ اور کیپٹن ڈگلس نے اس احسان کا کریڈٹ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دے کر آپ کے اخلاق فاضلہ کو عدالت میں ریکارڈ کر دیا۔ گویا یہ احسان وہ نہیں بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے دشمن پر کر رہے ہیں۔

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو صلیب دئے جانے کے بارے میں رومن مجسٹریٹ پیلاطوس پر صرف یہودی رعایا کا دباؤ تھا یاپھر اس کی بیوی کی اپنے ایک خواب کی بنا پر سفارش تھی ۔ وہ خواب یقیناًایک ا لٰہی تصرف تھا جو پیلاطوس پر بالواسطہ پہنچا۔ لیکن یہاں الٰہی تصرف خود ڈگلس پر کار فرما تھا۔ اس نے اپنے پر اپنے مذہب کے اثر کی پرواہ نہ کی۔ گورنر کے چرچ مشنری سوسائٹی کی ممبرشپ کی پرواہ نہ کی۔ پبلک پراسیکیوٹر پر کسی اعلیٰ منصب دار کی ہدایت کی پروا ہ نہ کی۔ گواہان کے گزارے جانے کے بعد جو اضطرابی کیفیت اس پر طاری ہوئی بجائے خود ایک الٰہی تصرف تھا۔ اس کا اپنا ریڈر سے کہنا کہ مرزا صاحب کی شکل مجھ کو معصوم نظرآتی ہے بتاتا ہے کہ چہرہ کی وہ معصومیت اس کی آنکھ سے اوجھل نہیں ہو رہی تھی۔ چنانچہ غلام حیدر کا وہ بیان جو انہوں نے جناب ڈاکٹر بشارت احمد صاحب مصنف مجدد اعظم کو اپنی مرض الموت میں دیا جبکہ انسان کو سب سے زیادہ خشیۃ اللہ ہوتی ہے۔ وہ کہتے ہیں ڈگلس نے ان کو بتایا کہ وہ شکل میرے سامنے آتی ہے اور کہتی ہے میں بے قصور ہوں تو ایسا ہونا ہر گز بعید نہیں۔ اور عجیب بات یہ ہے کہ اپنے اس اضطراب کا ذکر اپنے ریڈر سے کرتے ہیں ۔ انہوں نے ذرا بھی باک محسوس نہ کیا اور اپنے ماتحت کے مشورہ پر کہ عبدالحمید پادریوں کے پاس کیوں ہے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ آف پولیس کو بلا کر عبدالحمید کو حوالات میں لینے کا حکم دیا۔

ڈپٹی کمشنر ڈگلس کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا چہرہ صرف عدالت میں ہی معصوم نظر نہیں آ رہا تھا جہاں بہر حال حضور کے حق میں بعض گواہیاں تھیں اور آپ کے وکیل صاحب بھی بحث کر رہے تھے بلکہ اس چہرہ مبارک کی پاکیزگی کے تووہ احاطہ عدالت میں آتے ہی شکار ہو گئے جبکہ انہیں معلوم بھی نہ تھا کہ یہی وہ مرزا صاحب ہیں جن کا کیس ان کے سامنے پیش ہونا ہے۔ تب ہی تو انہوں نے کیس کے سنے جانے سے قبل آپ کو سلام بھجوایاتھا ۔ پھر جو بات ہر شریف النفس پر اثر کرتی ہے وہ آپ کا اخلاق کریمانہ تھا جو مولوی محمد حسین بٹالوی جیسے جانی دشمن کی عزت کا محافظ بن کر اس عدالت میں ظاہر ہوا جہاں مولوی صاحب آپ کو اقدام قتل کے جرم میں پھانسی کی سزا دلوانے آئے تھے ۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے تو مولوی صاحب کی عزت کی حفاظت فرمائی لیکن ان کی بے عزتی کے اس اثر کو جو مسٹر ڈگلس کے دل و دماغ پر ہونا لازمی تھا الٰہی تصرف نے خود قائم کر دیا۔

اس میں شک نہیں کہ یہ دو شرافتوں کا آپس میں ملاپ تھا جو اللہ تعالیٰ نے معجزانہ طورپر یکجا کر دیا ۔ ایک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اخلاق کی پاکیزگی کی شرافت اور چہر ہ پر روحانی معصومیت کی شرافت ۔ جب وہ ڈگلس کی فطرت صحیحہ پر پڑی تو ان کی شرافت نفس بھی اس سے چمک اٹھی۔ اوراسی شرافت کا اعتراف ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی تصنیف کتاب البریہ کے نام سے اس واقعہ پر تحریر فرمائی اور دیگر کتابوں میں اس کا ذکر کے ڈگلس کے نام کوزندہ جاوید بنا دیا۔ چنانچہ اپنی ایک کتاب کشتی نوح میں فرماتے ہیں:

’’جب تک دنیا قائم ہے اور جیسے جیسے یہ جماعت لاکھوں کروڑوں افراد تک پہنچے گی ویسے ویسے تعریف کے ساتھ اس نیک نیت حاکم کاتذکرہ رہے گا‘‘۔

الفضل انٹرنیشنل۲۶؍ستمبر ۱۹۹۷ء ؁ تا۲؍اکتوبر ۱۹۹۷ء ؁