اسلام میں چار شادیوں کی اجازت پر اعتراض کا جواب

محمد سلطان ظفر، برمپٹن کینیڈا

مخالفینِ اسلام اکثر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ مسلمان مرد، عیاشی کے لئے ایک سے زائد شادیاں کرتے ہیں۔ نیز چونکہ اسلام میں عورتوں کے حقوق مردوں کے برابر نہیں ہیں لہذا مردوں کو تو ایک سے زائد شادی کی اجازت ہے لیکن عورتوں کو نہیں۔

خاکسار عورتوں اور مردوں کے حقوق کی نسبت ایک اور مضمون میں یہ ثابت کرچکا ہے کہ اسلام میں عورت کا مطلب ہرگز کمتر یا غلام نہیں ہے ، لہذا ذیل میں اس اعتراض کا جواب دے گا کہ مردوں کو ایک سے زائد شادیوں کی اجازت کیوں ہے اور عورتوں کو کیوں نہیں؟ خاکسار نے اس مضمون کو 6 بنیادی حصوں میں تقسیم کیا ہے۔

1. شادی کا مقصد افزائشِ نسل ہے

2. شادی ایک ذمہ داری ہے

3. چارشادیاں: چار ذمہ داریاں ہیں

4. مرد کی چار شادیوں سے افزائشِ نسل تیز ہوتی ہے

5. عورت کی چار شادیوں سے افزائشِ نسل میں تیزی نہیں آتی

6. اختتامیہ

1. شادی کا مقصد افزائشِ نسل ہے۔

اس ضمن میں سب سے پہلے یہ بات یاد رکھنے والی ہے کہ مرد وعورت کے ملاپ کا اوّلین مقصد،افزائشِ نسل ہے۔ اس بات پر عیسائیت میں بھی بہت زور دیا جاتا ہے بلکہ برتھ کنٹرول تک کی اجازت نہیں ہے۔ 2010 میں پوپ بینڈیکٹ نے بہ امرِ مجبوری ایڈز کے پھیلاو کو روکنے کے لئے حفاظتی تدابیر کی اجازت اس وضاحت کے ساتھ دی تھی کہ اس کو برتھ کنٹرول کی اجازت نہ سمجھا جائے۔

(http://www.nytimes.com/2010/11/21/world/europe/21pope.html)

مغرب میں جس طرح عورت کو کھلونا سمجھا جاتا ہے اور اس سے تعلق عموماً جسمانی لذت کی حد تک ہے، اوراس کی نفی نہ صرف اسلام کرتا ہے بلکہ عیسائیت بھی کرتی ہے۔

شادی کا بندھن سب لوگوں کی نظر میں باعزت ہو اور ازدواجی تعلقات پاک رہیں کیونکہ خدا حرام‌کاروں اور زِناکاروں کی عدالت کرے گا۔ (‏عبرانیوں 13:‏4)

2. شادی ایک فرض اور ذمہ داری ہے

مذاہب میں شادی کو ایک ذمہ داری قرار دیا گیا ہے جیسا کہ عیسائیت کا اپناایمان ہے کہ:

پھر فریسی اُن کے پاس آئے اور اُن کا اِمتحان لینے کے لیے پوچھا:‏ ”‏کیا اپنی بیوی کو کسی بھی وجہ سے طلا‌ق دینا جائز ہے؟‏“‏ 4 یسوع نے جواب دیا:‏ ”‏کیا آپ نے نہیں پڑھا کہ جس نے اِنسانوں کو بنایا،‏ اُس نے شروع سے اُنہیں مرد اور عورت بنایا 5 اور کہا:‏ ”‏اِس لیے مرد اپنے ماں باپ کو چھوڑ دے گا اور اپنی بیوی کے ساتھ جُڑا رہے گا اور وہ دونوں ایک بن جائیں گے“‏؟‏ 6 لہٰذا وہ دو نہیں رہے بلکہ ایک ہو گئے ہیں۔‏ اِس لیے جسے خدا نے جوڑا ہے،‏ اُسے کوئی اِنسان جُدا نہ کرے۔‏“‏ 7 اِس پر فریسیوں نے کہا:‏ ”‏تو پھر موسیٰ نے یہ کیوں کہا تھا کہ بیوی کو طلا‌ق‌نامہ دے کر چھوڑ دو؟‏“‏ 8 یسوع نے کہا:‏ ”‏موسیٰ نے آپ کی سنگ‌دلی کی وجہ سے آپ کو اپنی بیوی کو طلا‌ق دینے کی اِجازت دی لیکن شروع سے ایسا نہیں تھا۔‏ 9 مَیں آپ سے کہتا ہوں کہ جو شخص اپنی بیوی کو حرام‌کاری* کے علا‌وہ کسی اَور وجہ سے طلا‌ق دیتا ہے اور دوسری عورت سے شادی کرتا ہے،‏ وہ زِنا کرتا ہے۔‏“‏ 10 یہ سُن کر شاگردوں نے یسوع سے کہا:‏ ”‏اگر ایسا ہے تو شادی ہی نہیں کرنی چاہیے۔‏“‏ 11 یسوع نے کہا:‏ ”‏ہر کوئی غیرشادی‌شُدہ نہیں رہ سکتا بلکہ صرف وہی جسے خدا ایسا کرنے کی طاقت* بخشتا ہے۔

(متی 19)

اسلامی تعلیم کے مطابق بھی شادی کرنا فرض ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں حکم فرماتا ہے:

وَ مَنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ مِنْکُم طَوْلاً اَنْ یَّنْکِحَ الْمُحْصَنٰتِ الْمُؤَمِنٰتِ فَمِنْ مَّا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ مِّنْ فَتَیٰتِکُمُ الْمُؤَمِنٰتِ  (سُورۃ النِّسَاء آیت 26)

ترجمہ: اور تم میں سے جو کوئی مالی وسعت نہ رکھتے ہوں کہ آزاد مومن عورتوں سے نکاح کر سکیں تو وہ تمہاری مومن لونڈیوں میں سے جن کے تمہارے داہنے ہاتھ مالک ہوئے(کسی سے) نکاح کرلیں۔

یہ بات یاد رکھنے والی ہے کہ مرد کے لئے شادی ایک نہایت اہم ذمہ داری ہے۔اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے:

اَلرِّجَالُ قَوَّمُوْنَ عَلَی النِّسَآءِ بِمَافَضَّلَ اللّٰہُ بَعْضَھُمْ عَلٰی بَعْضٍ وَّ بِمَآ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِھِمْ  (سُورۃ النِّسَاء آیت 35)

ترجمہ: مرد عورتوں پر نگران ہیں اس فضیلت کی وجہ سے جو اللہ نے ان میں سے بعض کو بعض پر بخشی ہے اور اس وجہ سے بھی کہ وہ اپنے اموال (ان پر) خرچ کرتے ہیں۔

یہ مرد ہی کی ذمہ دار ی ہے کہ وہ ’’خرچ‘‘ کرنے کے لئے ’’اموال‘‘ کمائے۔ یعنی رزقِ حلال کا انتظام کرے چاہے اُسے کسی درجہ کا بھی کام کرنا پڑے، اُس کا فرض ہے کہ اپنے اہل و عیال کےلیے؛ گھر، کھانے پینے اور پہننے کے لیے مناسب انتظام کرے۔ یہ بھی ایک وجہ ہے کہ مرد کو اپنے والد کے ترکہ میں اپنی بہن کے مقابلہ میں دُگنا ترکہ ملتا ہے۔کیونکہ اُس نے اپنی بیوی کی نگہداشت کرنا ہوتی ہے جبکہ اُس کی بہن کی یہ ذمہ داری نہیں کہ وہ اپنے شوہر یا بچوں کے اخراجات پورے کرے۔ چنانچہ یہ ثابت ہوتا ہے کہ بنیادی طورپر مرد کے لیے شادی ایک نہایت اہم ذمہ داری ہے۔

3. چار شادیاں، چار ذمہ داریاں ہیں

مرد کے لیے ایک سے زائد شادیوں کی اجازت مخصوص حالات میں ہے اور انصاف سے مشروط ہے۔جو کہ انسان سے بیویوں کے معاملہ میں بعید ہے۔

اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے

وَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تُقْسِطُوْ فِی الْیَتٰمٰی فَانْکِحُوْ مَاطَابَ لَکُمْ مِّنَ النِّسآ ءِ مَثْنٰی وَثُلٰثَ وَ رُبٰع ج فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّاتَعْدِلُوْا فَوَاحِدَۃً اَوْ مَامَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ ط ذٰلِکَ اَدْنٰٓی اَلَّا تَعُوْلُوْا  (سُورۃ النِّسَاء آیت 4)

ترجمہ: اور اگر تم ڈرو کہ تم یتامیٰ کے بارے میں انصاف نہیں کرسکو گے تو عورتوں میں سے جو تمہیں پسند آئیں ان سے نکاح کرو۔ دو دو اور تین تین اور چار چار۔ لیکن اگر تمہیں خوف ہو کہ تم انصاف نہیں کر سکو گے تو پھر صرف ایک (کافی ہے) یا وہ جن کے تمہارے داہنے ہاتھ مالک ہوئے۔ یہ (طریق) قریب تر ہے کہ تم ناانصافی سے بچو۔

یہاں بھی اللہ تعالیٰ یہ ارشاد فرمایا ہے کہ ناانصافی سے بچنے کے لئے بہتر یہی ہے کہ ایک ہی شادی کافی ہے۔مرد کے لئے ایک سے زائد شادیوں ، جن کی تعداد زیادہ سے زیادہ چار ہوسکتی ہے، کی اجازت کے دو بنیادی ، ذاتی اور معاشرتی ،پہلو ہیں۔

• ذاتی وجہ

ذاتی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ عورت اولاد پیدا کرنے کے قابل نہ ہو۔ جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے کہ شادی کا بنیادی مقصد ہی افزائشِ نسل ہے۔ یہ وجہ بھی ممکن ہے کہ عورت کو ایسی بیماری ہو جس کی وجہ وہ اپنے حقوقِ زوجیت ادا نہ کرسکے۔

• معاشرتی وجہ

ایک سے زائد شادیاں کرنے کی وجہ، معاشرہ کے حالات بھی ہوسکتے ہیں۔ مثلاً ایسی جنگوں کا ہونا جن میں مردوں کی کثیر تعداد اپنی جان سے ہاتھ دوھو بیٹھے اور معاشرے میں عورتوں اور مردوں کی تعداد کا تناسب بگڑ جائے۔ مثلاً جنگ عظیم اول اور جنگ عظیم دوم میں بالترتیب 17 ملین اور 60 ملین افراد ہلاک ہوئے جن میں بھاری اکثریت فوجیوں، اور فوج سے متعلقہ لوگوں کی تھی۔ ظاہر ہے کہ اُس دور میں تقریباً تمام افواج مردوں پر مشتمل ہوتی تھیں۔ جو خواتین فوج میں ہوتی تھی اُن کے ذمہ بھی براہ راست لڑائی کی بجائے نرسنگ اور کھانا پکانے کی ذمہ داریاں ہوتی تھی۔ یہ جنگ عظیم دوئم ہی تھی جس کی وجہ سے مغربی معاشرہ میں عورتوں کے گھر سے باہر نکل کر کام کرنے اور مردانہ ذمہ داریوں کو ادا کرنے کی رسم چل پڑی۔ ان عورتوں میں سے ایک بہت بڑی تعداد روزگار کی مواقع کی عدم دستیابی کی وجہ سے جسم فروشی پر مجبور ہوگئی جو اب مغربی ممالک میں ایک وسیع وعریض قانونی کاروبار بن چکا ہے اور یہاں کی لاکھوں عورتیں جانوروں کی طرح فی گھنٹہ 80ڈالر کے حساب سے کرایے پر ملتی ہیں اور بڑے بڑے اخبارات میں اُن کے باقاعدہ اشتہارات آتے ہیں۔

اس کے مقابلہ میں اسلام ہمیں تعلیم دیتا ہے کہ مرد اپنی ذمہ داریوں میں اضافہ کرکے ان عورتوں کو اپنی حفاظت میں لے اور ان کو ایک باعزت زندگی گزارنے کا موقع فراہم کرے۔ وہ خود تو مزید محنت اور مشقت کرے لیکن معاشرہ میں برائیوں کو نہ پنپنے دے۔

4. مرد کی چار شادیوں سے افزائش نسل تیز ہوتی ہے

مرد کی چار شادیوں کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اگر جنگوں یا کسی وجہ سے مردوں کی کمی اور عورتوں کی زیادتی ہوجائے تو مرد ایک سے زائد شادیاں کرلیں۔ چونکہ شادی کا بنیادی مقصد بہرحال افزائشِ نسل ہے لہذا زیادہ بیویوں کی وجہ سے زیادہ اولاد ہوگی جو کہ معاشرہ میں ہونی والی کمی کو جلدی پورا کرسکے گی۔

5. عورت کی چار شادیوں سے افزائش نسل میں تیزی نہیں آتی

جو لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ اسلام میں اگر مرد اور عورت کا مقام ایک جیسا ہے تو عورت کو کیوں چار شادیوں کی اجازت نہیں ہے تو اُن کو یہ جواب ہے کہ عورت چاہیے جتنی بھی شادیاں کرلے وہ ایک وقت میں ایک ہی حمل ٹھہرا سکتی ہے۔ لہذا ایک سے زائد مردوں سے شادی کرنے سے وہ مقصد ہی حاصل نہیں ہوسکتا، یعنی افزائش نسل، جو شادی کا بنیادی مطمع نظر ہوتا ہے۔

6. اختتامیہ

یہاں برسبیل تذکرہ یہ بیان کرنا بھی ضروری ہے کہ اسلامی ممالک میں بھی عموماً ایک سے زائد شادیاں نہیں کی جاتیں۔جو لوگ پاکستان، بنگلہ دیش وغیرہ میں رہتے ہیں وہ اپنے محلہ، گاؤں یا شہر کے کتنے لوگوں کو ذاتی طور پر جانتے ہیں جو ایک سے زائد شادیاں کرچکے ہیں؟ عرب ممالک میں تھوڑا بہت رواج ہے لیکن وہ بھی اتنا نہیں جتنا مغربی معاشرہ میں بتایا جاتا ہے۔ کیونکہ یہ ممکن نہیں کہ ایسے معاشرے جہاں عورتوں اور مردوں کی تعداد تقریباً برابر ہووہاں مرد چار شادیاں کرسکیں۔ اس طرح تو 25 فیصد مرد تو شادی شدہ ہوں گے اور باقی 75 فیصد کنوراے۔ اور جو لوگ اپنی امارت کی وجہ سے بلاوجہ ایک سے زائد شادیاں کرتے ہیں تو اس طرح کی مثالیں مغرب میں زیادہ ملتی ہیں۔ صرف یہ فرق ہے کہ مسلمان ممالک میں ایسے لوگ اپنی عیاشی کے لئے اپنے اپنے ممالک کے قوانین کے تحت نکاح کرتے ہیں، جبکہ مغربی ممالک میں ایسے لوگ اپنے اپنے ممالک کے قوانین کے تحت بغیر کسی نکاح/رجسٹریشن کے عورتوں سے تعلق قائم کرلیتے ہیں۔

مغربی ممالک میں ایک سروے کے مطابق 20 سال سے 59 سال کے مرد حضرات اوسطاً 7 عورتوں سے تعلق قائم کرتے ہیں ۔

http://www.nbcnews.com/id/37853719/ns/health-sexual_health/t/surprising-sex-statistics/#.WLg2JPnyvIU

مندرجہ بالا رپورٹ میں ، دوسری عورتوں سے تعلق قائم کرنے کی وجوہات بیان کی گئی ہیں اُن میں ایک اہم وجہ مالی وسعت ہے۔ اور اگر یہی وجہ مسلمانوں میں موجود ہوتو مغربی ممالک اس کو اسلامی تعلیم کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔

ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ اسلامی احکامات کی بنیاد صرف ذاتی زندگی نہیں بلکہ معاشرتی حالات بھی ہوتے ہیں اور ہمیں ان کو سمجھنے کے لئے بڑی تصویر دیکھنے کی ضرورت ہوتی ہےصرف ایک فقرہ ، ایک شِق سے تو دُنیاوی قوانین بھی لوگوں کو سمجھ نہیں آتے اور ان کو سمجھنے کے لئے اور اس کی وضاحت کرنے کے لئے وکلاء کی ضرورت پڑتی ہے۔

اللہ تعالیٰ ہمیں اسلامی تعلیمات کو سمجھنے، اور اُن پر اُن کی روح کے مطابق عمل کرنے کی توفیق عطاء فرمائے۔ آمین۔