حقیقی عالمی وحدت کا قیام رحمۃ للعالمین ؐ کے عالمی پیغام پرعمل کے ذریعہ ہی ممکن ہے

نصیر احمد قمر

یہ حج کے مبارک ایام ہیں اور دنیا بھر میں بیت اللہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے والے کروڑہا بندگان خدا میں سے بہت سے خوش نصیب ان ایام میں حج بیت اللہ کی سعادت سے مشرف ہو رہے ہیں اور بیت اللہ کے طواف اور صفا و مروہ کے درمیان سعی اور حجر اسود کے بوسہ اور دیگر مقامات مقدسہ کی زیارت اور مناسک حج کی ادائیگی کے ذریعہ اللہ تعالیٰ سے اس کی بخشش اور رحمت اور فضل کے طالب ہیں ۔ ارض حرم میں حج کے موقعہ پر اکٹھے ہونے والوں میں مشرقی بھی ہیں اور مغربی بھی۔ شمال کے رہنے والے بھی ہیں اورجنوب کے رہنے والے بھی۔ گورے بھی ہیں اور کالے بھی اور زرد رنگ کے لوگ بھی اور گندم گوں بھی۔ ان میں امیر بھی ہیں او ر غریب بھی، مرد بھی ہیں اور عورتیں بھی، غرضیکہ حج کا یہ موقع عالمی وحدت کا ایک عجیب منظر پیش کرتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اس گھر کو (مَثَابَۃً لِلنّاسِ وَ اَمْنًا) قرار دیا ہے ۔ یعنی تمام بنی نوع انسان کے باربار یہاں جمع ہونے کا مقام اور امن کی جگہ۔ اور اس میں کیا شک ہے کہ اسی مکہ معظمہ سے اس عظیم المرتبت نبی کا ظہور ہوا جسے خدا تعالیٰ نے تمام انسانوں کی طرف رسول بنا کر بھیجا اور اسے رحمۃ للعالمین قرار دیا۔ یعنی حضرت اقد س محمد مصطفی ﷺ۔ آپ سے پہلے جتنے بھی انبیاء مبعوث ہوئے وہ ایک محدود قوم، محدود علاقہ اور محدود زمانے کے لئے تھے۔ مگر بلا تفریق رنگ و نسل قیامت تک کے لئے بنی نوع انسان کے لئے خدا کا کامل اور عالمی پیغام لے کر آنے والے صرف حضرت محمد مصطفی ﷺ ہی ہیں اور آپ کا ظہور اس ارض حرم سے ہوا۔ چنانچہ جو تعلیم آپ نے پیش فرمائی یعنی قرآن کریم وہ بھی(ھُدیً للناس)تمام انسانوں کے لئے ہدایت کا ذریعہ قرار دی گئی۔ اور یہی وہ تعلیم ہے جو تمام نسلی امتیازات اور تعصبات کو ختم کر کے نوع انسان کو وحدت کی لڑی میں پرو کر انہیں حقیقی امن مہیا کر سکتی ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:

’’ کون شخص اس سے انکار کر سکتا ہے کہ ابتدائے زمانہ کے بعد دنیا پر بڑے بڑے انقلاب آئے ۔ پہلے زمانہ کے لوگ تھوڑے تھے اورزمین کے چھوٹے سے قطعہ پر آباد تھے اور پھر وہ زمین کے دور دور کناروں تک پھیل گئے اور زبانیں بھی مختلف ہو گئیں اور اس قدر آبادی بڑھی کہ ایک ملک دوسرے ملک سے ایک علیحدہ دنیا کی طرح ہو گیا تو ایسی صورت میں کیا ضرور نہ تھا کہ خدا تعالیٰ ہر ایک ملک کے لئے الگ الگ نبی اور رسول بھیجتا اورکسی ایک کتاب پر کفایت نہ رکھتا۔ ہاں جب دنیا نے پھر اتحاد اور اجتماع کے لئے پلٹا کھایا اور ایک ملک کے دوسرے ملک سے ملاقات کرنے کے لئے سامان پیدا ہو گئے اور باہمی تعارف کے لئے انواع و اقسام کے ذرائع اوروسائل نکل آئے تب وہ وقت آ گیا کہ قومی تفرقہ درمیان سے اٹھا دیا جائے اور ایک کتاب کے ماتحت سب کو کیا جائے تب خدا نے سب دنیا کے لئے ایک ہی نبی بھیجا تا وہ سب قوموں کو ایک ہی مذہب پر جمع کر ے اور تا وہ جیسا کہ ابتدا میں ایک قوم تھی آخر میں بھی ایک قوم ہی بنا دے۔

۔۔۔۔۔۔ جیسا کہ خدا تعالیٰ کی ذات میں وحدت ہے ایسا ہی وہ نوع انسان میں بھی جوہمیشہ کی بندگی کے لئے پیدا کئے گئے ہیں وحدت کو ہی چاہتا ہے اور درمیانی تفرقہ قوموں کا جو بباعث کثرتِ نسلِ انسان نوع انسان میں پید ا ہو اوہ بھی دراصل کامل وحدت پیدا کرنے کے لئے ایک تمہید تھی کیونکہ خدا نے یہی چاہا کہ پہلے نوع انسان میں وحدت کے مختلف حصے قائم کر کے پھر ایک کامل وحدت کے دائرہ کے اندر سب کو لے آوے۔ سو خدا نے قوموں کے جدا جدا گروہ مقرر کئے اور ہر ایک قوم میں ایک وحدت پیدا کی اور اس میں یہ حکمت تھی کہ تا قوموں کے تعارف میں سہولت اور آسانی پیدا ہو اور ان کے باہمی تعلقات پیدا ہونے میں کچھ دقت نہ ہو اور پھر جب قوموں کے چھوٹے چھوٹے حصوں میں تعارف پیدا ہو گیا تو پھر خدا نے چاہا کہ سب قوموں کو ایک قوم بنادے ۔۔۔۔۔۔۔ اس تدریجی وحدت کی مثال ایسی ہے جیسے خدا تعالیٰ نے حکم دیا کہ ہر ایک محلہ کے لوگ اپنی اپنی محلہ کی مسجد وں میں پانچ وقت جمع ہوں اور پھر حکم دیا کہ تمام شہر کے لوگ ساتویں دن شہر کی جامع مسجد میں جمع ہوں یعنی ایسی وسیع مسجد میں جس میں سب کی گنجائش ہو سکے اور پھر حکم دیا کہ سال کے بعد عید گاہ میں تمام شہر کے لوگ اور نیز گردونواح دیہات کے لوگ ایک جگہ جمع ہوں اور پھر حکم دیا کہ عمر بھر میں ایک دفعہ تمام دنیا ایک جگہ جمع ہو یعنی مکہ معظمہ میں ۔ سو جیسے خدا نے آہستہ آہستہ امت کے اجتماع کو حج کے موقعہ پر کمال تک پہنچایا۔ اول چھوٹے چھوٹے موقعے اجتماع کے مقرر کئے اور بعد میں تمام دنیا کو ایک جگہ جمع ہونے کا موقع دیا ۔ سو یہی سنت اللہ الہامی کتابوں میں ہے اور اس میں خداتعالیٰ نے یہی چاہا ہے کہ وہ آہستہ آہستہ نوع انسان کی وحدت کا دائرہ کمال تک پہنچا دے ۔ اول تھوڑے تھوڑے ملکوں کے حصوں میں وحدت پیدا کرے اور پھر آخر میں حج کے اجتماع کی طرح سب کو ایک جگہ جمع کر دیوے جیسا کہ اس کاوعد ہ قرآن شریف میں ہے۔ وَنُفِخَ فِی الصّوْرِ فَجَمَعنَا ھُم جَمْعًا یعنی آخری زمانہ میں خدا اپنی آواز سے تمام سعید لوگوں کو ایک مذہب پر جمع کر دیگا جیسا کہ وہ ابتدا میں ایک مذہب پر جمع تھے تا کہ اول اور آخر میں مناسبت پیدا ہو جائے‘‘۔(چشمہ معرفت ، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحہ ۱۴۴۔۱۴۶)

پس حج بیت اللہ کے موقع پر دنیا بھر سے آنے والے افراد کا یہ عظیم اجتماع ہمیں اس گھر کی تعمیر کاوہ مقصد بھی یاد دلاتا ہے کہ تما م قوموں کووحد ت پر قائم کیا جائے۔ اور یہ وحدت عالمی رسول حضرت محمد رسول اللہﷺ کے ذریعہ آپ کی پیش کردہ عالمی تعلیم پر عمل کے نتیجہ میں ہی ممکن ہے۔ ہمارا یہ ایمان ہے کہ اس زمانہ میں تمام قوموں کو ایک ہاتھ پر جمع کرنے کا کام خدا تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کے عظیم روحانی فرزند، آپ کے مہدی و مسیحؑ کے ذریعہ مقدر کر رکھا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو الہاماً بتایا تھا کہ ’’ ہر ایک قوم اس چشمہ سے پانی پئے گی‘‘ ۔ ہاں اسلام اور احمدیت کے اس چشمہ رواں سے جو ’’یک قطرہ زبحر کمال محمد‘‘ ہے ۔ چنانچہ اس عالمی وحدت کے قیام کا سلسلہ جماعت احمدیہ مسلمہ کے ذریعہ بتدریج وسعت پذیر ہے ۔ ہمارا فرض ہے کہ ہم ہر ممکن تدبیر اور دعاؤں کے ساتھ اس مقدس جہاد میں مصروف رہیں تا آنکہ ساری دنیا خدائے واحد یگانہ پر ایمان لا کر توحید کے پرچم تلے اکٹھی ہوجائے۔ اللہ تعالیٰ ہم میں سے ہر ایک کو اس پہلو سے اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کی توفیق بخشے۔

(مطبوعہ:الفضل انٹرنیشنل ۳؍اپریل ۱۹۹۸ء تا۹؍اپریل ۱۹۹۸ء)