اربوں سال پہلے جو واقعات کائنات میں گزرے ان کو دیکھنے کی تیاریاں

چوہدری خالد سیف اللہ خان

یوں تو پہلے بھی کئی عظیم دور بینیں کائنات کا مشاہدہ کر رہی ہیں لیکن اب Gemini Project کے ذریعہ جو دور بینیں بنائی جا رہی ہیں وہ دنیا میں سب سے بڑی ہونگی۔

حکومت آسٹریلیا نے اعلان کیا ہے کہ وہ بھی ساڑھے تیرہ ملین ڈالر کاحصہ اس منصوبہ میں ڈال رہے ہیں جس پر خرچ کا کل اندازہ ۲۹۲ ملین ڈالر ہے۔ جو امریکہ ، برطانیہ ، کینیڈا، آسٹریلیا ، چلّی ، ارجنٹائن اور برازیل برداشت کر رہے ہیں ۔ ایک دور بین ہوائی میں نصب کی جائے گی اور دوسری چلیّ میں۔

یہ منصوبہ جس کے تحت یہ دو Optical Infra- Redدوربینیں لگائی جائیں گی پانچ سال میں مکمل ہو گا ۔ دوربینیں اتنی بڑی بڑی ہونگی کہ ان کا Aperture (جہاں سے روشنی داخل ہوتی ہے) آٹھ میٹر کا ہوگا۔

سائنس دان کہتے ہیں کہ ہم ان دوربینوں کی مدد سے کائنات کے اندر اتنی گہرائی تک دیکھ سکیں گے جہاں تک پہلے ہمیں رسائی حاصل نہ تھی۔ ہم دیکھنا چاہتے ہیں کہ چودہ ارب سا ل پہلے جو واقعہ کائنات میں گزرا اور جس کے نتیجے میں یہ کائنات، بے شمار کہکشائیں اور ستارے وجود میں آئے تھے وہ کیسا تھا۔ جب یہ کائنات اپنے ارتقاء کی منازل سے گزر رہی تھی اس وقت کیسی لگ رہی تھی۔ ہم کائنات کی تاریخ کو خود اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کرنا چاہتے ہیں یہ بھی کہ زمین کے علاوہ زندگی کہیں اوربھی پائی جاتی ہے یا نہیں اور یہ کہ پرُاسرار بلیک ہول کے بارہ میں بھی کچھ مزید پتہ لگے ۔

آسٹریلیا کے سائنس دان Prof Jeremy Mould جو اس منصوبہ سے متعلق ہیں کہتے ہیں کہ اب ہم کہکشاؤں کے ارتقاء کی تاریخ کو تب سے لے کر جب ان کی عمر چند ارب سال تھی اب تک مشاہدہ کر سکیں گے۔ سائنس دانوں کی نظر تقریباً اس مقام تک پہنچ جائے گی جہاں سے کائنات اور وقت کا آغاز ہوا تھا۔(ماخوذ از سڈنی ہیرلڈ ۹۸۔۲۔۱۹)

روشنی جو اربوں سال پہلے ان کہکشاؤں سے ایک لاکھ چھیاسی ہزار میل فی سیکنڈ کی رفتار سے سفر کرتی ہوئی زمین کی طرف روانہ ہوئی تھی وہ اتنی لمبی مسافت طے کر کے اب ہم تک پہنچ رہی ہے جس کی وجہ سے وہ واقعات جواس وقت گزرے تھے جب روشنی نے سفر کا آغاز کیا تھا وہ ہمیں اب نظر آ رہے ہیں۔ اگر کوئی پوچھے کہ اِس وقت ان کہکشاؤں کاکیا حال ہے تو وہ کوئی نہیں بتا سکتا، کوئی چودہ ارب سال بعد آئے تو دیکھے۔ لیکن ہمارے اپنے سورج اور نظام شمسی کی عمر کہتے ہیں صرف پانچ ارب سال باقی رہ گئی ہے اس لئے جو کچھ اِس وقت اُن کہکشاؤں پر گزر رہی ہے ہم کبھی معلوم نہ کرسکیں گے۔ سچ ہے ؂

تیری قدرت کا کوئی بھی انتہا پاتا نہیں

کس سے کھل سکتا ہے پیچ اس عقدۂ دشوار کا

(مطبوعہ:الفضل انٹرنیشنل ۳؍اپریل ۱۹۹۸ء تا۹؍اپریل ۱۹۹۸ء)