جرمنی میں چار لاکھ سال پرانے لکڑی سے تراشے ہوئے پھینکنے والے نیزے دریافت ہوئے

چوہدری خالد سیف اللہ خان

انسانوں کو اپنے ابتدائی حالات معلوم کرنے کا بہت تجسس ہے ۔ چنانچہ نت نئی باتیں معلوم ہوتی رہتی ہیں۔ چونکہ اندازوں میں بہت اختلاف پایا جاتا ہے اس لئے نئی نئی تھیوریاں وجود میں آتی رہتی ہیں۔ جس دریافت کا ذکر مقصود ہے وہ بھی ایسی ہی ہے جس سے پرانے اندازوں سے بہت ہٹ کر کچھ باتیں سامنے آئی ہیں۔ یہ تحقیق فروری ۱۹۹۷؁ء میں رسالہ’’نیچر‘‘ میں شائع ہوئی ہے جہاں سے لے کر مختلف اخبارات نے شائع کی ہے۔

جرمنی کی Institute of Ancient Monuments,Hanover کے ڈاکٹر تھیم (Dr Hartmut Thieme) اپنے مقالہ میں لکھتے ہیں کہ جرمنی کے مقامSchoningen Harz Mountains سے کوئلہ کی کان کنی کے دوران ایک چارلاکھ سال پرانا نیزہ ملا ہے جس کو پھینک کر ا س وقت کے لوگ شکار کیا کرتے تھے اوروہ لکڑی سے تراشا ہوا ہے۔ وہ کہتے ہیں اس سے پہلے دنیا میں اتنا پرانا مکمل شکار کا ہتھیار کہیں دستیاب نہیں ہوا ۔ معجزہ تو یہ ہے کہ اتنے عرصہ کا بنا ہوا کیسے سلامت رہ گیا۔ حالانکہ اتنا عرصہ تک لکڑی عموماً نہیں بچ سکتی ہاں پتھر اور ہڈی البتہ رہ سکتی ہے ۔ اس نیزے سے پتہ لگتا ہے کہ چار لاکھ سال پہلے بھی انسانوں کے پیش رو اتنی عقل اور سمجھ رکھتے تھے کہ باقاعدہ منصوبہ بندی کرکے باہمی تعاون کے ساتھ اورمنظم طریق پر شکار کر سکیں۔ نیزوں کے قریب ہزاروں گھوڑوں کی ہڈیاں بھی ملی ہیں۔ اور ان میں سے بعض پرایسے نشانات بھی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کو ذبح کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ ایسے چولہے بھی ملے ہیں جن سے پتہ لگتا ہے کہ وہ آگ کا استعمال بھی کیا کرتے تھے۔ یہ دریافت آج کل پائے جانے والے ان اندازوں کوبھی غلط ثابت کرتی ہیں جن کے مطابق چالیس ہزار سال سے پہلے کے انسان حیوانوں کی طرح گند مند کھاکرہی زندہ رہتے تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ خود سائنس دانوں نے اس دریافت پر بہت حیرت کا اظہار کیا ہے۔ چنانچہ یونیورسٹی آف شیفیلڈ کے پروفیسر Robin Donnel ’’ نیچر‘‘ کے ہی ایک مضمون میں لکھتے ہیں:۔

’’ اس طرح کی لکڑی کی بنی ہوئی چیز کوئی تین ہزار سال پرانی بھی دریافت ہوتی تو وہ بھی سنسنی خیزہوتی لیکن اس سے بھی سو گنا پرانی چیز کا دریافت ہوناتو ناقابل تصورہے۔ وہ لوگ جرمنی کے علاقہ کی شدید سردی میں جو بچ جاتے تھے تو اس کی یہی وجہ تھی کہ انہیں شکار کرنے کی عمدہ صلاحیت حاصل تھی۔ جو کچھ ہم نے دیکھا ہے اس میں خاصی گہری منصوبہ بندی ، ڈیزائن کی پیچیدگی اور وہ صبر جولکڑی گھڑنے کے لئے درکار ہے، پایا جاتا ہے۔ اور یہ سب چیزیں وہ ہیں جو صرف موجودہ انسانوں کی طرف منسوب کی جاتی ہیں‘‘۔

نیچرل ہسٹری میوزیم لندن کے Dr Chris Stringer کہتے ہیں :۔

’’ یہ پھینکنے والے نیزے ہیں جو بہت خوبصورتی اور صحیح توازن کے ساتھ بنائے گئے ہیں۔ ان کوپھینکنے کے لئے ایک اچھا اتھلیٹ درکار ہے۔ اوران کے جسموں کے بارہ میں ہمارے ایسے ہی اندازے ہیں۔ یہ بہت شاندار دریافت ہے‘‘۔(بحوالہ دی گارڈین و سڈنی ہیرلڈ ۹۷۔۲۔۲۸)

خلاصہ اس نئی تحقیق کا یہ ہے کہ موجودہ انسانوں کے پیش رَو چارلاکھ سال پہلے بھی سمجھدار اورذہین تھے۔ اورایسا کام بندروں(Chimpanzee)وغیرہ سے آج چارلاکھ سال گزرنے کے بعد بھی ممکن نہیں۔ نوع انسانی ہمیشہ سے ہی دوسری انواع سے افضل اور احسن تقویم کی حامل رہی تھی اور پہلے اندازے کہ چالیس ہزار سال پہلے تک وہ حیوانوں کی طرح نجاست یا مردار ہی کھایا کرتے تھے ، درست نہیں۔وَاللّٰہُ اَعْلَمُ بِالصَّوَاب۔

(مطبوعہ:الفضل انٹرنیشنل ۱۳؍فروری۱۹۹۸ء تا۱۹؍فروری ۱۹۹۸ء)