اتحاد بین المسلمین کی دعوت حقائق کی روشنی میں

مولانا دوست محمد شاہد، مؤرخ احمدیت

آج امت مرحومہ اختلاف و تفرقہ کے جس درد انگیز اورکربناک مرض میں مبتلا ہے نہ صرف یہ کہ چودہ سو سال قبل اس کا نظارہ جناب الٰہی کی طرف سے خاتم المرسلین محمد مصطفی ﷺ کو دکھلایا گیا بلکہ آنحضوؐر کی زبان مبارک سے اس کے حقیقی اور فطری علاج کے لئے ایک حَکَم عَدَل کے ظہور کی خوشخبری بھی دی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ سیدنا حضرت مسیح موعود ؑ کو بذریعہ الہام ارشاد ملا :

’’ سب مسلمانوں کو جو روئے زمین پر ہیں جمع کرو۔ عَلَی دِیْنٍ وَاحِد‘‘ (بدر و الحکم قادیان ۲۴؍ نومبر ۱۹۰۵ء صفحہ ۱،۲)

اس ارشا د رَبّانی پر حضرت اقدس نے کامل بصیرت اور محکم یقین کے ساتھ پیشگوئی فرمائی :

’’ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ مسلمانان روئے زمین علیٰ دین واحد جمع ہوں اور وہ ہو کررہیں گے‘‘۔(الحکم ۳۰؍ نومبر ۱۹۰۵ء صفحہ ۲)

الحمدللہ یہ آسمانی سکیم پوری شان و شوکت کے ساتھ کامیابی سے ہمکنار ہو رہی ہے اور ہر فرقے کے مسلمان مامور زمانہ کی قرناء پر ملت واحدہ بنتے جا رہے ہیں اور یہ سلسلہ دنیا کے تمام ممالک میں پوری شان سے جاری ہے اورخلافت رابعہ پرچمکنے والا ہر نیا دن اس کی کامیابی کوقریب سے قریب تر کرنے کا موجب ہو رہاہے۔ فتح و ظفر کی اس کلید کو چھوڑ کر آج تک اتحاد ملت کی جو تنظیمیں سیاسی اور سرکاری سطح پر بنائی گئی ہیں اُن کا حشر ساری دنیا کے سامنے ہے اور ؂

’’دیکھو مجھے جو دیدۂ عبرت نگاہ ہو‘‘ کا مصداق ہے۔ ضیاء الحق آنجہانی نے بذریعہ آرڈیننس سرکار ی اسلام نافذ کیا تو مسلمانوں کو متحد کرنے کے لئے سرکاری سطح پر ’’ تحریک اتحادالمسلمین‘‘ بھی اٹھی جس کے مدارالمہام ’’بریلوی امت‘‘ کے ’’مجاہد‘‘ اور ’’ورلڈاسلامک مشن ‘‘ کے وائس پریذیڈنٹ عبدالستار نیازی تھے جنہوں نے ’’ اتحاد بین المسلمین‘‘ پر ایک کتابچہ بھی لکھا۔

مولوی عبدالقادرآزاد خطیب بادشاہی مسجد لاہور کا بیان ہے کہ فوجی آمر مطلق ضیاء الحق نے یونیورسٹی گرانٹ کمیشن کی ایک ضیافت میں یہ دعویٰ کیا کہ’’ اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضو ر ﷺ کی ختم نبوت کی چوکیداری کی بھی توفیق عطا فرمائی ہے ۔ یہ بات انہوں نے اسلام آباد میں ضیاء الحق کی زیر صدارت ’’ دوسرے کل علماء کنوینشن (منعقدہ ۴،۵ جنوری ۱۹۸۴ء) میں بتلائی۔ یہی وہ کنوینشن تھی جس میں ڈاکٹر تنزیل الرحمان چیئر مین اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان نے انکشاف کیا کہ ہم نے قادیانیوں کے خلاف تجویز پیش کر دی ہے کہ حکومت بذریعہ قرآن اپنے تئیں مسلم کہنے ،اپنی عبادتگاہ کو مسجد کہنے اورمسلمانوں کی نماز اور اذان پر انہیں وہ سزائے تعزیز دی جائے جو ہم نے متعین کی ہے ۔ (مطبوعہ روداد ،صفحہ ۱۳۰)

ایک کروڑ کلمہ گو احمدیوں اور خدام ختم المرسلین کو کافر اورغیر مسلم قرا ر دینے کی شرمناک سازش اور خفیہ منصوبہ تیا ر کئے جانے کے بعد یہ کنوینشن اتحاد امت کے نام پر بلائی گئی جس میں پاکستان کے غریب عوام کا روپیہ نہایت بے دردی کے ساتھ پانی کی طرح بہایا گیا۔ کنوینشن میں اُس وقت کے وزیر امور مذہبی حکومت سرحد جناب ڈاکٹر خالد رضا پیرزکوڑی شریف نے کہا ،’’ جناب جنرل ضیاء الحق صاحب کی قیادت میں جو کچھ ہوا ہے وہ امت مسلمہ میں حضرت عمر بن عبدالعزیز کے بعد احیائے اسلام کی بہت بڑی کوشش ہے‘‘۔(روداد ،صفحہ ۴۲)

مولوی عبدالقادرآزاد اور ان کے ہم مشرب ملاّؤں نے ضیاء حکومت کی قصیدہ خوانی کا حق ادا کرتے ہوئے کہا کہ وہ تقاریر جو کسی زمانہ میں بخاری، ابوالحسنات اور دوسرے لوگ کیا کرتے تھے ختم نبوت کے سلسلہ میں ’’ صدرمملکت‘‘ خود اور ان کے وزراء کہہ رہے ہیں۔

ا س کنوینشن میں ملاّؤں اور دیگر شرکاء نے اتحاد بین المسلمین پر دھواں دار تقریریں کیں،کمیٹیوں میں تجاویز رکھیں اور بڑے بڑے بلند بانگ دعاوی کئے۔ کمیٹی کے پینتالیس ارکان پانچ گھنٹے اس ضمن میں اپنی تجاویز و شفارشات پر بحث و مباحثہ میں سرگرم رہے ۔ضیاء الحق نے دو ٹوک لفظوں میں یہ اعتراف کیا کہ :

’ ’ اسلام پر ہم جتنا زوردیتے ہیں،اتفاق اوراتحاد پر جتنا وعظ کرتے ہیں ہماری صفوں میں اتنا ہی نفاق پرورش پانے لگتاہے۔فرقہ واریت اتنا ہی سر اٹھانے لگتی ہے او ر وہ بھی مذہب کے نام پر‘‘۔(مطبوعہ روداد ، صفحہ ۲۲)

بالکل یہی صورتحال آج بھی پاکستان کی نظرآتی ہے۔جہاں وزارت مذہبی امور کی سرپرستی کے باوجود ’’مذہبی‘‘ دہشت گردی کا سیلاب تھمنے میں نہیں آتا اور فرقہ پرستی کی آگ نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ مگر جنرل ضیاء کی معنوی اولاد اصل حقائق پر دبیزی پردے ڈال کراپنی ظفرمندی کے طبل بجا رہی ہے اور اس کی مثال کانوں میں ا ندھا راجہ کی سی ہے۔

اس حقیقت کے ثبوت میں آئیے شیعہ حضرات کے مشہور ترجمان ماہنامہ ’’ خیرالعمل‘‘ (نومبر ۱۹۹۷ء) کے الفاظ میں اس مسئلہ کی سنگینی کا اندازہ اور احساس کریں۔ ماہنامہ کے معروف اہل قلم جناب ڈاکٹرعسکری بن احمد’’ اتحاد ملت پاکستان‘‘ کے زیرعنوان اپنے فاضلانہ مقالہ میں رقمطراز ہیں:

’’اختلافات فروعی نہیں ، اعتقادی اور بنیادی ہیں شترمرغ کی طرح دشمن کو آتے دیکھ کر اپنا سر ریت میں چھپا لینا یا کبوتر کی طرح نشانہ باز کو دیکھ کر آنکھیں بند کر لینا جہاں دانش مندی نہیں، وہاں اصول و مسلمات دین میں اختلافات کو فروعی یا بے حقیقت کہہ دینا بھی سراسر حماقت ہے۔

*۔۔۔ایک فرقہ کے عقائد:

ایک فرقہ کے عقائد ملاحظہ ہوں:

۱۔۔۔’’ سرور کائنات علیہ السلام کو پکارنا، شفیع المذنبین سمجھنا، ختم پڑھنا، صورت مبارکہ اور قبر شریف کا تصور کرنا، حاجت روا، صاحبِ تصرف ، مختار جملہ صفات کو باذن اللہ تعالیٰ باعطاء الٰہی ماننا بھی شرک ہے اور شرک بھی ابوجہل جیسا‘‘ ۔(محمد عبدالوہاب نجدی ، کتاب التوحید عربی مطبوعہ ریاض ، ملخصاً)

۲۔۔۔’’شافع محشر علیہ التحیۃ والثناء سے استغاثہ طلب کرنا شیطانی فعل ہے اور شرک ہے‘‘۔ (محمد بن عبدالوہاب ، نجدی ، کشف الشبہات عربی ، مطبوعہ ریاض، صفحہ ۵۷)

۳۔۔۔ ’’رسول معظم ﷺ کی تعظیم کرنا شرک ہے‘‘۔ (شوکانی،قاضی ، الدر النفیذ ، صفحہ۳۶ و ۵۱)

۴۔۔۔ ’’نور مجسم ﷺ مر کر مٹی میں مل گئے‘‘۔ (اسماعیل دہلوی،مولوی۔ تقویۃالایمان مطبوعہ میر محمد کتب خانہ کراچی، صفحہ ۵۷)

۵۔۔۔ ’’الصلوٰۃ والسلام علیک یا رسول اللہ پڑھنے والا بدعت اورگنہگار ہے‘‘ ۔ (اخبار اہل حدیث امرتسر ،۸اکتوبر ۱۹۱۵ء صفحہ ۱۲)

۶۔۔۔ ’’ہر وہ شخص جو شہر اجمیر یا سالار مسعود کی قبر یا کسی ایسی ہی دوسری جگہ (سرہند، پاکپٹن، بغداد، گنج بخش وغیرہ) حاجت طلب کرنے جاتا ہے وہ ایسے شدید گناہ کا مرتکب ہوتا ہے جو قتل اور زنا سے بھی بڑا ہے۔ او ر یہ شخص اپنے جرم میں ویسا ہی ہے جیسے کوئی خود بنائی ہوئی چیز کی عبادت کرتا یا لات و منات سے دعائیں مانگتا ہے‘‘۔(ہفت روزہ اہل حدیث لاہور۔ ۱۶؍جولائی ۱۹۷۶ء صفحہ اول)

۷۔۔۔’’ (نمازی کو) شیخ یا ان ہی جیسے اور بزرگوں کی طرف خواہ جناب رسالت ماب ہی ہوں ، اپنی ہمت (خیال) کو لگا دینا اپنے بیل اور گدھے کی صورت میں مستغرق ہونے سے زیادہ برا ہے‘‘۔(اسماعیل دہلوی، مولوی۔صراط مستقیم اردو مطبوعہ اسلامی اکادمی، لاہور، صفحہ ۱۶۹)

۸۔۔۔ ’’آقائے نامدار ﷺ کے مزارشریف کی تعظیم کرنا کفر و شرک ہے‘‘۔(الدار النفید صفحہ۵۹)

۹۔۔۔ ’’ صاحب لولاک ﷺ کی قبر مبارک بُت ہے‘‘۔ (ایضاً صفحہ ۱۷، ۵۹ ، ۶۲)

۱۰۔۔۔ ’’ جس کا نام محمد یا علی ہے وہ کسی چیز کا مختار نہیں‘‘۔(تقویۃ الایمان، صفحہ ۴۳)

۱۱۔۔۔ قادری، نقشبندی، چشتی کہلانا بدعات کفریہ ہیں۔ (اسماعیل دہلوی، مولوی۔ تذکیر الاخوان مطبوعہ میر محمد کتب خانہ کراچی، صفحہ ۶۴)

۱۲۔۔۔’’اللہ چاہے تو کروڑوں محمد(ﷺ) جیسے پیدا کر سکتا ہے‘‘۔(تقویۃ الایمان صفحہ ۳۶)

۱۳۔۔۔ ’’ جو لوگ محجوب،یا ابن عباسؓ یا انبیاء ؑ یا ملائکہ یا اولیاء کو اپنے اور خدا کے درمیان واسطہ جانتے ہیں تا کہ یہ ان کے حق میں سفارش کریں ۔۔۔ پس ایسا عقیدہ رکھنے والا مشرک کافر ہے۔ اس کا خون روا ہے اور مال مباح ہے اگرچہ ’’اشھَدُاَن لا اِلٰہَ اِلاّ اللّٰہَُ و اَنّ محمد رسول اللہ ‘‘ پڑھے اور نماز ، روزہ پر بھی عامل ہو اور خود کو مسلمان کہے پھر بھی اس کے اعمال باطل ہوئے‘‘۔ (سلیمان بن عمان، نجدی، الھدیۃ السنیتہ اردو ترجمہ اسماعیل غزنوی ،مولانا۔ تحفۃ وہابیہ مطبوعہ امرتسر ۱۹۲۷ء صفحہ ۸۸)

*۔۔۔ایک دوسرے فرقے کے عقائد:

ان سے ملتے جلتے ایک دوسرے فرقے کے عقائد یہ ہیں:

۱۔۔۔ ’’ پھر یہ کہ آپ کی ذات مقدسہ پرعلم غیب کا حکم کیا جانا اگر بقول زید صحیح ہو تو دریافت طلب یہ امر ہے کہ اس غیب سے مراد بعض ہے یا کل غیب۔ اگر بعض علوم غیبیہ مراد ہیں تو اس میں حضورؐ کی ہی کیا تخصیص ہے۔ ایسا علم غیب تو زید و عمر بلکہ ہر صبی و مجنون بلکہ جمیع حیوانات وبہائم کے لئے بھی حاصل ہے‘‘۔ (از اشرف علی تھانوی،مولانا۔ حفظ الایمان مع بسط البنان مطبوعہ کتب خانہ اعزازیہ، دیوبند، صفحہ ۸)

۲۔۔۔’’ اکثر لوگ پیروں اور پیغمبروں کو اور اماموں کو اور شہیدوں کو اور فرشتوں کو اور پریوں کو مشکل کے وقت پکارتے ہیں اور ان سے مرادیں مانگتے ہیں ۔۔۔ سووہ شرک میں گرفتار ہیں‘‘۔( تقویۃ الایمان صفحہ ۱۹)

۳۔۔۔ ’’انسان آپس میں سب بھائی ہیں۔ جو بڑا بزرگ ہو ،وہ بڑا بھائی ہے تو اس کی بڑ ے بھائی کی سی تعظیم کیجئے ۔اولیاء و انبیاء امام اور امام زادے ، پیر اورشہید یعنی جتنے اللہ کے مقرب بندے ہیں وہ سب انسان ہی ہیں او ر بندے عاجز اور ہمارے بھائی‘‘۔(ایضاً صفحہ ۵۶)

۴۔۔۔کوئی کسی کے لئے حاجت روا اور مشکل کشا و دست گیر کس طرح ہو سکتاہے۔ ایسے عقائد والے لوگ پکے کافر ہیں۔ ان کا کوئی نکاح نہیں ۔ ایسے عقائد باطلہ پر مطلع ہو کر جو انہیں کافر مشرک نہ کہے وہ بھی ویسا ہی کافر ہے‘‘۔ (غلام اللہ خان ، مولوی۔ جواہرالقرآن مطبوعہ مکتبہ رشیدیہ راولپنڈی ، صفحہ ۱۴۷ ملخصاً)

۵۔۔۔ ’’ شیطان و ملک الموت کو یہ وسعت (علم محیط زمین) نص سے ثابت ہوئی۔ فخر عالم کی وسعت علم کی کون سی نص قطعی ہے کہ جس سے تمام نصوص کو رد کر کے ایک شرک ثابت کرتا ہے‘‘۔(خلیل اینٹھوی، مولانا۔ البراہین القاطعہ علی ظلام الانوارالساطعہ مطبوعہ کتب خانہ امدادیہ دیوبند ۱۹۶۲ء صفحہ ۵۵)

۶۔۔۔ ’’انبیاء اپنی امت سے (اگر) ممتاز ہوتے ہیں تو علم ہی میں ممتازہوتے ہیں، باقی رہاعمل اس میں بسااوقات بظاہر امتی مساوی ہو جاتے ہیں بلکہ بڑھ جاتے ہیں‘‘۔(محمدقاسم نانوتوی،بانی مدرسہ دیوبند، تحذیر الناس ، مطبوعہ کتب خانہ رحیمیہ، صفحہ ۵)

۷۔۔۔’’نبی کو جو حاضر و ناظر کہے بلاشک شرع اس کوکافر کہے۔(جواہر القرآن صفحہ ۶)

۸۔۔۔ ’’یہ ہر روز اعادہ ولادت (حضورﷺ) کا تو مثل ہنود کے کہ سانگ کنہیا کی ولادت کاہر سال کرتے ہیں‘‘۔ (البراھین القاطعہ علی ظلام الانوار الساطعہ صفحہ ۱۵۲)

۹۔۔۔(الف):کذب داخل تحت قدرت باری تعالیٰ جل و علیٰ ہے کیو ں نہ ہو۔ وھو علی کل شئی قدیر (رشید احمد گنگوہی ، مولوی۔ فتاویٰ رشیدیہ، مطبوعہ سعید اینڈ سنز کراچی صفحہ ۹۲)

۔۔۔(ب): ’’ لا نسلم کہ کذب مذکور محال بمعنی مسطور باشد۔‘‘ (ترجمہ فارسی مطبوعہ فاروقی کتب خانہ ملتان صفحہ ۱۷) ’’ و الا لازم آید کہ قدرت انسانی ا زید از قدرت ربانی باشد‘‘۔ ترجمہ : اگر خدا جھوٹ نہ بول سکے تو لازم آئے کہ آدمی کی قدرت اس سے بڑھ جائے گی۔ (ایضاً صفحہ ۱۷)

۔۔۔(ج):’’امکان کذب (باری تعالیٰ) کا مسئلہ تو اب جدید کسی نے نہیں نکالا بلکہ قدماء میں اختلاف ہوئے ہیں‘‘۔ (البراہین القاطعہ علی ظلام الانوار الساطعہ صفحہ ۶)

۱۰۔۔۔ ’’ یہ عقیدہ رکھنا کہ آپ ؐ کو علم الغیب تھا صریح شرک ہے‘‘۔ (فتاویٰ رشیدیہ صفحہ ۹۶)

’’علم غیب خاصہ حق تعالیٰ ہے۔اس لفظ کو کسی تاویل سے دوسرے پر اطلاق کرنا ابہام شرک سے خالی نہیں‘‘۔(ایضاً صفحہ۹۳)

۱۱۔۔۔(الف):’’ اگر بالفرض بعد زمانہ نبوی صلعم بھی کوئی نبی پیدا ہو تو پھر بھی خاتمیت محمدی میں کچھ فرق نہ آئے گا۔ (تحذیرالناس مطبوعہ دارالاشاعت ، کراچی صفحہ۳۴)

۔۔۔(ب):’’عوام کے خیال میں تو رسول اللہ صلعم کا خاتم ہونا بایں معنی ہے کہ آپ کا زمانہ انبیاء سابق کے زمانے کے بعد اور آپ سب میں آخر (آخری) نبی ہیں مگر اہل فہم پر روشن ہوگاکہ تقدیم یاتاخیر زمانہ (زمانی) میں بالذات کچھ فضیلت نہیں۔ پھر مقام مدح میں وَلٰکِنْ رّسُولَ اللّٰہ وَ خَاتَمَ النّبِیّینفرمانا اس صورت میں کیونکر صحیح ہو سکتا ہے ‘‘۔ (تحذیرالناس مطبوعہ کتب خانہ امدادیہ ، دیوبند، صفحہ ۳)

۱۲۔۔۔ (الف): دروغ صریح بھی کئی طرح ہوتا ہے جن میں سے ہر ایک کا حکم یکساں نہیں، ہرقسم سے نبی کو معصوم ہونا ضرور (ضروری) نہیں۔ (محمد قاسم نانوتوی ، مولانا۔ تصفیۃ العقائد مطبوعہ دارالاشاعت کراچی ۱۹۷۶ء ص ۲۹)

۔۔۔(ب):’’بالجملہ علی العموم کذب کو منافی شان نبوت بایں معنی سمجھنا کہ یہ معصیت ہے اور انبیاء علیھم السلام معاصی سے معصوم ہیں خالی غلطی سے نہیں‘‘۔ (ایضاً صفحہ ۳۱،۳۲)

۱۳۔۔۔اور انسان خود مختار ہے ۔اچھے کام کریں یانہ کریں اور اللہ کو پہلے اس سے کوئی بھی علم نہیں کہ کیا کریں گے بلکہ اللہ کو ان کے کرنے کے بعد معلوم ہوگا‘‘۔(حسین علی ، مولوی۔ بلغۃ الحیران فی ربط آیات الفرقان مطبوعہ حمایت اسلام پریس لاہور۔ ص ۱۵۷، ۱۵۸)

*۔۔۔ انقلابات ہیں زمانے کے:

(دونوں مذکورہ فرقوں کا رشتہ پیوند نوٹ کریں)

حضرات علمائے دیوبند نے اپنی کتب میں باربار عقائد نجدیہ وہابیہ کی زبردست تردید کی ہے ۔مثلاً:

۱۔۔۔ مولانا خلیل احمد اینٹھوی دیوبندی (۱۸۵۲ء۔ ۱۹۲۷ء) لکھتے ہیں:

’’ ان کا ( محمد بن عبدالوہاب نجدی او ر اس کے تابعین) عقیدہ یہ ہے کہ بس وہ ہی مسلمان ہیں اور جو ان کے عقیدہ کے خلاف ہو وہ مشرک ہے اوراس بناء پر انہوں نے اہل سنت کا قتل مباح سمجھ رکھاتھا‘‘۔(المسند علی المفند، مطبوعہ کراچی صفحہ ۲۲)

(نوٹ)۔۔۔اس کتاب پر شیخ الہند و شیخ الدیوبند مولانامحمود حسن(۱۸۵۱ء ۔ ۱۹۲۰ء) حکیم الامت دیوبند مولانا اشرف علی صاحب تھانوی (۱۸۶۳ء ۔ ۱۹۳۴ء) مولانا المفتی کفایت اللہ دہلوی (۱۸۷۵ء۔ ۱۹۵۳ء ) جیسے اکابر کے تصدیقی دستخط موجود ہیں۔

۲۔۔۔ مولانا محمد انور شاہ صاحب کشمیری (۱۸۷۵ء۔ ۱۹۳۴ء) سابق شیخ الحدیث دیوبند لکھتے ہیں کہ ’’اما محمد بن عبدالوہاب النجدی فانہ کان رجلا بلیدا قلیل العلم فکان یتسارع الی الحکم بالکفر‘‘ ۔(فیض الباری مطبوعہ قاہرہ ۱۹۳۸ء)

ترجمہ:’’یعنی محمد بن عبدالوہاب نجدی ایک کم علم اور کم فہم انسان تھا۔ اس لئے کفر کا حکم لگانے میں اسے باک نہ تھا‘‘۔

۳۔۔۔مولانا حسین احمد مدنی (۱۸۷۹ء۔ ۱۹۵۷ء) شیخ الحدیث دیوبند رقم طراز ہیں:

(الف):’’ محمد بن عبدالوہاب کا عقیدہ تھا کہ جملہ اہل عالم و تمام مسلمانان دیار مشرک و کافر ہیں اور ان سے قتل و قتال کرنا اور ان کے اموال کو ان سے چھین لینا حلال اور جائز بلکہ واجب ہے۔ (الشہاب الثاقب علی المسترق الکاذب مطبوعہ کتب خانہ رحیمیہ، دیوبند صفحہ ۲۳)

۔۔۔(ب)’’زیارت رسول مقبول ﷺ وحضوری آستانہ شریفہ و ملاحظہ روضہ مطہرہ کو یہ طائفہ بدعت حرام وغیرہ لکھتا ہے۔ (ایضاً صفحہ ۴۵)

۔۔۔(ج):’’ شان نبوت و حضرت رسالت علی صاحبہا الصلوٰۃ والسلا م میں وہابیہ نہایت گستاخی کے کلمات استعمال کرتے ہیں اور اپنے آپ کو مماثل ذات سرور کائنات خیال کرتے ہیں۔۔۔ توسل دعا میں آپ کی ذات پاک سے بعد وفات ناجائز کہتے ہیں۔ ان کے بڑوں کامقولہ ہے کہ معاذاللہ معاذاللہ ۔ نقل کفر کفر نباشد۔ کہ ہمارے ہاتھ کی لاٹھی ذات سرور کائنات علیہ الصلوٰۃ والسلام سے ہم کوزیادہ نفع دینے والی ہے، ہم اس سے کتےّ کو بھی دفع کر سکتے ہیں ، اور ذات فخر عالم ﷺ سے تو یہ بھی نہیں کر سکتے‘‘۔ (ایضاً صفحہ ۴۷)

۔۔۔(د):’’وہابیہ کثرت صلوٰۃ و سلام و درود برخیرالانام علیہ السلام اور قرات دلائل الخیرات و قصیدہ بردہ و قصیدہ ہمزیہ وغیرہ۔۔۔ کو سخت قبیح ومکروہ جانتے ہیں‘‘(ایضاً صفحہ۶۶)

’’الحاصل وہ (محمد بن عبدالوہاب نجدی) ایک ظالم و باغی خو نخوار فاسق شخص تھا‘‘۔(ایضاً صفحہ ۴۲)

نوٹ:۔ مولانا حسین احمد مدنی صاحب کی وفات پر اکابر علماء اہل حدیث نے خراج عقیدت پیش کیا ۔ مولانا سید محمد داؤد غزنوی، مولانا محمد اسماعیل سلفی گوجرانوالہ او ر مولانا محمد صدیق لائل پوری نے غائبانہ نمازجنازہ ادا کی اور تعزیت کی قراردادیں پاس کیں۔

مولانا حسین احمد مدنی کتاب ’’ الشہاب الثاقب علی المسترق الکاذب‘‘ کے مندرجہ ذیل اقتباسات وہابیہ نجدیہ کے متعلق سواد اعظم اہل سنت کے نقطہ نگاہ کو بالکل واضح ، غیرمبہم اور صاف لفظوں میں پیش کرتے ہیں:۔

*۔۔۔’’وہابیہ کسی خاص امام کی تقلید کو شرک فی الرسالۃ جانتے ہیں اور ائمہ اربعہ اور ان کے مقلدین کی شان میں الفاظ واہیہ ، خبیثہ استعمال کرتے ہیں اوراس کی وجہ سے مسائل میں وہ گروہ اہل سنت والجماعت کے مخالف ہو گئے ۔ چنانچہ غیر مقلدین ہند اسی طائفہ شنیعہ کے پیرو ہیں۔ وہابیہ نجد عرب اگرچہ بوقت اظہار دعویٰ حنبلی ہونے کا اقرار کرتے ہیں لیکن عمل درآمد کا ہرگز جملہ مسائل سے امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کے مذہب پر نہیں ہے۔ بلکہ وہ بھی اپنے فہم کے مطابق جس حدیث کو مخالف فقہ حنابلہ خیال کرتے ہیں اس کی وجہ سے فقہ کو چھوڑ دیتے ہیں، ان کابھی مثل غیرمقلدین کے اکابر امت کی شان میں الفاظ گستاخانہ بے ادبانہ استعمال کرنا معمول بہ ہے‘‘۔(الشہاب الثاقب علی المسترق الکاذب صفحہ۶۲،۶۳)

*۔۔۔’’ان (وہابیہ نجدیہ) کا اعتقاد یہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام کے واسطے حیات فی القبور ثابت نہیں بلکہ وہ بھی مثل دیگر مسلمین کے متصف بالحیوۃ البرزخیہ اسی مرتبہ سے ہیں۔ پس جو حال دیگر مومنین کا ہے وہ ہی ان کا ہوگا۔ یہ جملہ عقائد ان کے ان لوگوں پر بخوبی ظاہر وباہر ہیں جنہوں نے دیار نجد عرب کا سفر کیاہویا حرمین شریفین میں رہ کر ان لوگوں سے ملاقات کی ہو یاکسی طرح سے ان کے عقائد پر مطلع ہواہو۔ یہ لوگ جب مسجد شریف نبوی میں آتے ہیں تو نماز پڑھ کر نکل جاتے ہیں اور روضہ اقدس پر حاضر ہو کر صلوٰۃ وسلام و دعا وغیرہ پڑھنا مکروہ و بدعت شمارکرتے ہیں۔ ان ہی ا فعال خبیثہ و اقوال واہیہ کی وجہ سے اہل عرب کو ان سے نفرت بے شمار ہے‘‘۔(ایضاً صفحہ ۶۵، ۶۶)

لطف کی بات یہ ہے کہ صاحب شہاب ثاقب عقائد نجدیہ وہابیہ کی نہ صرف شدت و غلظت کے ساتھ تردید کرتے ہیں بلکہ مثبت انداز میں ان کے عقائد مردودہ کے جواب میں ذات رسالت مآب ﷺ ، اولیائے کرام کی بابت اپنے عقائد، سواد اعظم اہل سنت والجماعت کے مطابق پیش کرتے ہیں۔

(۱)۔۔۔حضور ﷺ کی حیات دنیا تک محدود نہیں بلکہ ہرحال میں زندہ و پائندہ ہیں ۔ (الشہاب الثاقب علی المسترق الکاذب صفحہ ۴۵)

(۲)۔۔۔ دربار رسالت ؐ میں حاضری کی نیت سے سفر کرنا جائز ہے اورہمارے اکابر نے اس کے لئے سفر کیا ہے۔(ایضاً صفحہ ۴۶)

(۳)۔۔۔ہم توسل بالنبی ﷺ کے قائل ہیں (ایضاً صفحہ ۵۷)

(۴)۔۔۔ہم اشغال باطنیہ کے قائل وعامل ہیں۔(ایضاً صفحہ ۶۰)

(۵)۔۔۔ذکر رسالت مآب ﷺ بلکہ اولیاء اللہ کے ذکر کو بھی ہم مستوجب برکت سمجھتے ہیں۔(ایضاً صفحہ ۶۷)

(۶)۔۔۔ہم ہر قسم کے درود کو جائز سمجھتے ہیں۔(ایضاً صفحہ ۶۶)

(۷)۔۔۔مسجد نبوی ؐ یا کسی اور مقام پر یارسول اللہ کہنا بھی ہمارے نزدیک جائز ہے۔(ایضاً صفحہ ۶۵)

*۔۔۔ علی ہذالقیاس تبلیغی جماعت نے اپنی مشہور کتاب ’’تبلیغی نصاب‘‘ صفحہ ۷۸۹ پر یا رسول اللہ اور یا محمد کے ذکر کو باعث خیر و برکت بتایاہے۔ نیز جماعت مودودیہ کے بانی نے حج کے انتظامات اور دیگر رسومات کی ادائیگی میں حکومت نجدیہ پرشدید تنقید کی ہے۔

مگرزمانے کے انقلابات دیکھئے کہ ’’پیٹروڈالر‘‘ کی چکاچوند نے ان تمام عقائد و نظریات کو نہ صرف نسیاً منسیاً کر دیا ہے بلکہ وہ حکومت سعودیہ نجدیہ کی تعریف میں رطب اللسان ہیں۔ نواب محمد صدیق حسن خان (۱۲۴۸ھ۔ ۱۳۰۷ھ) اورمولانا ثناء اللہ صاحب امرتسری (م۔ ۱۹۴۸ء) نے طائفہ نجدیہ وہابیہ سے نہ صرف بیزاری و لاتعلقی کا اظہار کیا ہے بلکہ محمد بن عبدالوہاب نجدی کی شخصیت اور تعلیمات کو درخور اعتناء بھی نہیں سمجھا اور ایک لحاظ سے اسے مسترد کر دیا ہے۔

چنانچہ انہوں نے سرکار انگلشیہ سے پورے شدومد کے ساتھ التجاء کی تھی کہ بجائے فرقہ وہابیہ کے ان کواہل حدیث لکھا جائے ۔ پس بموجب چٹھی گورنمنٹ انڈیا بنام پنجاب گورنمنٹ نمبر ۱۷۵۸ مورخہ ۳؍ دسمبر ۱۸۸۹ء سرکاری دفتروں میں انہیں وہابی فرقہ کی بجائے ’’اہل حدیث‘‘ لکھنے کا حکم جاری کیا گیا اور وہابی لکھنے کی قانوناً ممانعت کر دی گئی۔

*۔۔۔انقلاب روزگارملاحظہ فرمائیے کہ یہ لوگ آج محمد بن عبدالوہاب کو اپنا ہیرو قرار دے رہے ہیں ۔ کتاب التوحید وغیرہ کی اشاعت میں سرگرم

ہیں ۔ اس کا ترجمہ پشتو زبان میں کروا کر مہاجرین افغانستان میں تقسیم کر رہے ہیں اوراس کے نام سے کئی ادارے قائم کر رکھے ہیں۔ اس باب میں

اہل حدیث،دیوبندی اورمودودیہ ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر حکومت سعودیہ نجدیہ کی خوشنودی مزاج کے لئے مستعد ہیں۔ اس کے ثبوت میں چند حوالے درج ذیل ہیں۔

*۔۔۔’’ جو کتاب مَیں( صدیق حسن خان) نے ۱۲۹۲ہجری میں لکھی ہے اور اس کانام ہدایۃ السائل ہے۔ اس ۔۔۔ میں وہابیہ کے حال میں لکھا ہے کہ ان کی کیفیت کچھ نہ پوچھو ۔۔۔ سراسر نادانی اورحماقت میں گرفتار ہیں۔ ‘‘۔ (محمدصدیق حسن خان،ترجمان وہابیہ مطبوعہ لاہور ۱۳۱۲ھ صفحہ ۲۱)

*۔۔۔پھرآگے چل کر نواب صاحب موصوف ’’ترجمان وہابیہ‘‘ میں وہابی مذہب کی تاریخ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:

’’ مسلمان ہند میں کوئی مسلمان وہابی مذہب کا نہیں ہے اس لئے کہ جو کارروائی ان لوگوں نے ملک عرب میں عموماً اور مکّہ معظمہ اورمدینہ منورہ میں خصوصاً کی اور جو تکلیف ان کے ہاتھوں سے ساکنان حجاز و حرمین شریفین کوپہنچی وہ معاملہ کسی مسلمان ہند وغیرہ کے ساتھ اہل مکہ و مدینہ کے نہیں کیا۔ اوراس طرح کی جرأت کسی شخص سے نہیں ہو سکتی اور یہ بھی معلوم ہوا کہ یہ فتنہ وہابیوں کا ۱۸۱۸ء میں بالکل خاموش ہو گیا۔ اس کے بعد کسی شخص امیر وغریب نے اس ملک میں بھی پھر سر نہ اٹھایا‘‘۔(ایضاً صفحہ۴۰)

’’۔۔۔ مشہور ہے کہ اہل حدیث کے مذہب کا بانی عبدالوہاب نجدی ہوا ہے مگر حاشا و کلا ہمیں اس سے کوئی بھی نسبت نہیں ۔۔۔ آج تک کسی نے نہ دیکھا ہوگا کہ اہل حدیث نے کبھی بھولے سے بھی عبدالوہاب نجدی کے اقوال کو سنداً پیش کیا ہو کہ ھذا قول امامنا عبدالوھاب و بہ ناخذ (یہ قول ہمارے امام عبدالوہاب کا ہے اور اس سے ہم اخذ کرتے ہیں) ۔(ثناء اللہ امرتسری، مولانا۔ اہل حدیث کا مذہب مطبوعہ لاہور ۱۹۷۵ء صفحہ ۱۰۸، ۱۰۹)

*۔۔۔ گردش دوراں سے اب ان کو ’’فیصل ایوارڈ ‘‘ ملتے ہیں اور حکومت سعودیہ نجدیہ کے زیر اہتمام مساجد کی عالمی تنظیم کے معتبر رکن بنے ہوئے ہیں۔ نجدیت پرستی میں یہاں تک غلو کیاہے کہ اہل سنت والجماعت کی دینی سرگرمیوں کے خلاف متملقانہ جاسوسی کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔

ہمیں ان کی اقتدار نجدیت کے سامنے جبہ سائی اور مدح سرائی سے کوئی غرض نہیں ۔ سوال یہ ہے کہ آج جب یہ لوگ اتحاد بین المسلمین کے داعی بن کر میدان میں نکلے ہوئے ہیں تو کیا انہیں اس امرکا احساس نہیں کہ ذات رسالت ماب ؐ ، صحابہ کرامؓ اور اولیاء اللہ ؒ کے خلاف انہوں نے جو گل افشانیاں کی ہیں ان پر بھی ذرا توجہ فرمائیں۔ اپنے پیرومرشد حاجی امداداللہ مہاجرمکی کے فیصلہ ہفت مسئلہ اوراپنے مجموعہ عقائد موسومہ المہند کی سفارشات کو بھی نافذالعمل کریں ۔ نیز جہاں جماعت مودودیہ اپنے بانی کی نگارشات بسلسلہ نجدیت وہابیت سے رجوع کر کے آج ان کی نمائندگی اور گماشتگی کے فرائض ادا کر رہی ہے وہاں ’’حدیث دجال‘‘ کے متعلق مودودی صاحب کی تحقیقات سورہ تحریم میں امہات المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ و سیدہ حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنھما کی بابت قابل اعتراض تفہیمات ، سورہ و الضحیٰ کی تفسیر میں حضور ﷺ کے ’’جاہلی معاشرہ میں گم ہو جانے کا اندیشہ ‘‘ اور سورہ نصر میں ’’منصب نبوت کی ادائیگی میں کوتاہیوں سے مغفرت‘‘ وغیرہ جیسی قرآنی تفہیمات اورحضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر اقربا نوازی اورمال غنیمت میں غلط تصرف جیسے الزامات کو علی الاعلان مسترد کر کے اجماع امت کے طے شدہ مسلمہ عقائد و نظریات پر واپس آ جائیں۔

مگر وہ ایسا نہیں کریں گے کیونکہ اہل سنت والجماعت کے پاس قوت و شوکت کا وہ سامان نہیں جو حکومت نجدیہ سعودیہ کے پاس موجود ہے۔ بہرحال اگراتحاد مقصود ہے تو صدق دل سے ہونا چاہئے زبانی کلامی پروپیگنڈا سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ (یہ اقتباسات مجاہدمولانا عبدالستار خان نیازی کی کتاب اتحاد بین المسلمین وقت کی اہم ضرورت کے صفحہ ۷۱ تا ۷۹ اور صفحہ ۸۷ تا صفحہ ۹۵ سے ہیں)

(مطبوعہ:الفضل انٹرنیشنل ۱۳؍فروری۱۹۹۸ء تا۱۹؍فروری ۱۹۹۸ء)