بلّی نے اپنے مالک کو قتل کے الزام میں پکڑوادیا

چوہدری خالد سیف اللہ خان

عدالتوں میں ثبوت جرم کے لئے انسانوں کے ڈی این اے (DNA)تو اب تک استعمال ہوتے رہے ہیں لیکن کینیڈا کی عدالتی تاریخ میں پہلی بار ایک ملزم کو کسی حیوان کے ڈی این اے کی گواہی پر سزا ملی ہے۔ رسالہ ’’ نیچر‘‘ واقعہ کو بیان کر کے لکھتا ہے کہ یہ ایک ایسی عدالتی نظیر ہے جس سے جرم کی تفتیش کا ایک نیا باب کھل گیا ہے۔

واقعات کے مطابق اکتوبر ۱۹۹۴؁ء میں ایک بتیس سالہ عورت جو کینیڈا کے پرنس ایڈورڈ آئی لینڈ کی رہنے والی تھی اچانک گھر سے غائب ہو گئی۔ پولیس نے چند روز کے بعد اس کی خون آلود کار کو برآمد کر لیا جو وقوعہ قتل کے بعدکہیں چھوڑ دی گئی تھی ۔ مزید تین ہفتوں کے بعد ایک مردانہ جیکٹ بھی کہیں پڑی ہوئی مل گئی جس پر مقتولہ کے خون کے چھینٹے اور کسی بلی کے ستائیس بال گرے ہوئے تھے ۔ یہ بال قاتل کی اپنی بلّی کے تھے اورانہی نے اپنے مالک کے خلاف گواہ بن کر اسے پکڑوا دیا۔

پولیس نے پہلے تو جیکٹ پر گرے ہوئے بالوں کا تجزیہ کر کے ان کا ڈی این اے حاصل کیا اور پھر مشتبہ فرد کی بلّی کے ڈی این اے سے مقابلہ کیا تو وہ دونوں ایک نکلے۔ پھر مزید تسلّی کے لئے کینیڈا اور امریکہ کی اٹھائیس بلّیوں کے ڈی این اے حاصل کر کے ان سے مقابلہ کیا لیکن وہ سب مختلف نکلے۔ چنانچہ بلّی کا مالک گرفتار کر لیا اورجیوری کے سامنے بلّی کی گواہی پیش کی گئی جو تسلیم کر لی گئی اور قاتل کو سزائے موت دی گئی۔ قاتل مقتولہ کا ڈی فیکٹو (بالفعل) خاوند تھا۔ اور دونوں کے تعلقات کچھ عرصہ سے کشیدہ تھے۔ قاتل بھی آہ بھر کر کہتاہوگا میری بلّی اور مجھ ہی کو میاؤں۔

انسان کا عمل بھی طائر یا پرندے کی طرح ہے جو خود تو اڑ جاتا ہے لیکن پیچھے اپنے آثار اور نشان چھوڑ جاتا ہے۔ اور اس طرح انسان کے اچھے برے اعمال کے لاتعداد نشانات اس کے اپنے وجود کے اندر اور ارد گرد گواہیوں کے طور پر جمع ہوتے رہتے ہیں۔ ان کا اکثر حصہ تو زندگی میں مخفی ہی رہتاہے لیکن اس روز وہ سب ظاہر ہو جائیں گے جس کے بارہ میں خدا نے فرمایا یَومَ تُبلَی السّرآئِر یعنی جس دن پوشیدہ بھید ظاہر کر دئے جائیں گے (الطارق :۱۰) سوائے اس کے جس پر اللہ رحم فرمادے۔ الّا مَن رّحمَ اللہ (الدخان:۴۳)۔

(مطبوعہ :الفضل انٹرنیشنل ۲۳؍جنوری ؁۱۹۹۸ء تا ۲۹؍جنوری؁۱۹۹۸ء)