ذکر سالانہ جلسوں میں پڑھی جانے والی نظموں کا

ثاقب زیروی

احمدیت کے اسٹیج سے میرے نظم پڑھنے کے سلسلہ کا آغاز ۱۹۳۹ء میں خدام الاحمدیہ کے سالانہ اجتماع کے دوران میں مسجد اقصیٰ (قادیان) کے صحن میں منعقد ہونے والے اس خصوصی اجلاس سے ہوا ۔ جس سے حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓنے خطاب فرمایا ۔ حضور کے خطاب سے قبل مجھے اپنی نظم پڑھنے کی اجازت مرکزی قائد خدام الاحمدیہ صاحبزادہ مرزا ناصر احمد نے ہزار ہچکچاہٹوں کے بعد عطا کی تھی ۔ اُن کا کہنا تھا کہ حضور کی موجودگی میں معمولاً حضور ہی کا کلام پڑھا جاتا ہے اور اکثر وہ صاحب پڑھتے ہیں جنہیں حضور خود اجازت مرحمت فرمائیں جو صحیح التّلفظ ہوں اور جن کا طرز ادائیگی پسندیدہ ہو۔ میرے عاجزانہ اصرار بسیار پر نظم دیکھ لینے کے بعد موصوف مجھے ’’مشروط‘‘اجازت دینے پر آمادہ ہوئے۔ شرط یہ ٹھہری کہ حضرت صاحبزادہ صاحب نظم پڑھتے وقت اسٹیج کے سامنے مسجد اقصیٰ کی سیڑھیوں کی ایک بُرجی پر کھڑے ہوں گے، میں ان کی طرف بھی دیکھتا رہوں ۔ اگر وہ ہاتھ ہلاکر بیٹھ جانے کا اشارہ کریں تو میں نظم پڑھنا بند کر دوں ۔ الحمد للہ کہ ایسا کوئی سانحہ پیش نہ آیا بلکہ جب حضور نے مجھ سے نظم کا یہ دوسرا شعر بفر مائش کریمانہ مکرّر پڑھوایا کہ ؂

نغمۂ نور سے یوں چھیڑ رباب ہستی

قلب بیتاب کا ہر ذرہ دعا دے ساقی

تو حضرت صاحبزادہ صاحب وہاں سے غائب ہوگئے اور میں زیادہ اطمینان سے پڑھنے لگا۔ اس کے بعد حضور نے مزید تین چار شعر مکرر پڑھوائے۔جس کے بعد بفضلہ تعالیٰ آئندہ کے لئے تمام راستے صاف ہوگئے اور میں اسی سال جب جلسہ سالانہ میں شرکت کے لئے قادیان آیا تو جماعت احمدیہ زیرہ ؔ (ضلع فیروز پور) کی ملاقات کے دوران میں اس ناچیز کو شرف مصافحہ سے نوازتے وقت حضور نے فرمایا:’’کیا آپ پرسوں میری تقریر سے قبل میری نظم پڑھ دیں گے۔‘‘

اللہ اللہ یہ کرم بے حساب کہ کنواں پیاسے سے دریافت کرے کیا تم میرے پانی سے اپنے کام و دہن کو سیراب کرنا پسند کرو گے ؟ جواب میں حضور ضرور‘‘……. کے الفاظ کے ساتھ ہی میری آنکھوں سے مسرت کے دو آنسو بھی چھلک پڑے۔ حکم ہوا ’’ کل صبح آٹھ بجے آکر نظم لے جانا۔‘‘ میری وہ رات کیونکر گزری ہوگی اور میں نے اپنی خوش بختی پر کیا کیا ناز کئے ہوں گے اس کا اندازہ اور احساس میرے سوا اور کون کرسکتا ہے ! ….. بہرحال اگلی صبح وقتِ معینہ پر حاضر ہوا ۔ حضور نے پیڈ کے ایک ورق پرجس کاایک کونہ پھٹا ہوا اور غائب تھا ، لکھے ہوئے چند اشعار میرے ہاتھ میں دینے کے بعد فرمایا:۔

’’ذرا ٹھہرو! میں مریم سے کہتا ہوں کہ انہیں صاف کرکے لکھ دیں‘‘ ۔ میں نے عرض کیا ۔ حضور میں پڑھ لوں گا ۔ حضور نے مسکراتے ہوئے فرمایا : ’’مجھ سے تو کبھی کبھی اپنا لکھا خود نہیں پڑھا جاتا تم کیسے پڑھ لو گے ‘‘۔

ادھر مجھے یہ زعم کہ میں تو سیشن کورٹ کی ملازمت میں پولیس اہلکاروں کی کھدّری کاغذوں پر پنسل سے لکھی ہوئی ضمنیاں پڑھ لیتا رہا ہوں ۔ میں نے پھر وہی گزارش دہرا دی تو فرمایا:’’ اچھا کوشش کر دیکھو ۔ اگر سارے اشعار ٹھیک پڑھ لئے تو انعام ملے گا‘‘۔

میں نے جب اشعار پر دو دفعہ نظر دوڑا لی تو اجازت ملنے پر تمام اشعار تحت اللّفظ پڑ ھ کر سنا دئیے۔ حضور خوش ہوئے ، فرمایا۔’’ ٹھہرو میں تمہارا انعام لاتا ہوں‘‘۔ اور چند منٹوں کے بعد حضور ایک پلیٹ پر شیشے کا ایک دودھ بھرا گلاس لے کر نمودار ہوئے ۔ گلاس جالی دار نپکن سے ڈھکا ہوا تھا۔ فرمایا ’’لو اسے پی لو ‘‘۔ اللہ رے خوش بختی ۔ میں نے فوراً جالی ہٹائی اور پینا شروع کردیا ۔ دودھ گرم تھا۔ حضور نے میرا شوق اور میری بیتابی بھانپتے ہوئے متبسم لہجے میں فرمایا۔

’’ دیکھو اس میں سے مَیں ہرگز نہیں پیوں گا۔ یہ سارا تمہارے ہی لئے ہے ۔ آہستہ آہستہ پیو۔ دودھ گرم ہے ۔ اگر گلا خراب ہوگیا تو کل میری نظم خراب پڑھو گے‘‘۔

اس نظم کا مطلع تھا:

معصیت و گناہ سے دل مرا داغدار تھا

پھر بھی کسی کے وصل کے شوق میں بیقرار تھا

اخلاق عالیہ کی ایک جھلک

اور پھر یہ اعزاز، یہ شفقت ، یہ کرم یہ سعادت مجھ کندہ ٔ نا تراش کے لئے گویا وقف ومختص ہوگئی ۔ اور وہ بھی اس اخلاقِ عالیہ کے ساتھ کہ ہر سال دسمبر کے آغاز میں مجھے پرائیویٹ سیکرٹری صاحب کی طرف سے ایک ’’ رجسٹرڈ‘‘ لفافہ ملتا کہ حضور فرماتے ہیں:۔

’’ کیا آپ امسا ل۲۷یا ۲۸ دسمبر کو یا ۲۷ اور ۲۸ دسمبر دونوں دن میری نظم یا نظمیں پڑھ دیں گے؟‘‘

ہر حساس قاری بخوبی اندازہ کرسکتا ہے کہ غلام کا کیا جواب ہوتا ہوگا۔ پھر کرم نامہ آتا کہ ۲۶؍ دسمبر کو فلاں وقت آکر نظم لے جائیں۔

میر ا معمول تھا کہ میں نظم شروع کرنے سے قبل تعارفاً کبھی ’’ کلام محمود ‘‘ بزبانِ ثاقبؔ ، کبھی’’ حضور ایدہ اللہ کے تازہ ترین منظوم ارشادات ‘‘ اور کبھی

’’ کلام الامام ،امام الکلام‘‘ کے الفاظ کہتا جنہیں سنتے ہی سامعین ہمہ تن گوش ہوجاتے اور مقطع تک ہمہ تن گوش ہی رہتے ۔ عام طور پر حضور ۲۷؍ اور ۲۸ ؍ دسمبر کے لئے دو نظمیں کہہ لیا کرتے تھے لیکن جس سال صرف ایک نظم کہنے کی فرصت ملتی تو مجھے اپنی سلسلہ سے متعلق کوئی نظم یا نعتِ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پڑھنے کے لئے ارشاد فرمادیا جاتا۔

قیامِ پاکستان کے بعد بھی

یہ سلسلہ قیام پاکستان کے بعد دارالہجرۃ ربوہ میں بھی حضو ر کی آخری علالت تک اسی اہتمام سے جاری رہا ۔ یہاں تک کہ علالت کے باعث ایک جلسہ سالانہ پر حضور ۲۷؍ دسمبر کو خطاب کے لئے تشریف نہ لاسکے او ر حضرت صاحبزادہ مرزابشیر احمد نے اپنی جلال انگیز آواز میں، لکھی ہوئی تقریر پڑھنے سے قبل ،مجھے نظم پڑھنے کے لئے ارشاد فرمایا ۔ میں نے تعمیل ارشاد میں حضور کی صحت کے لئے ایک دعائیہ نظم پڑھی جسے عشاقِ احمدیت نے بہتے ہوئے آنسوؤ ں سے سنا ۔ لیکن مجھے خبر نہ تھی کہ ابھی ایک اور امتحان سے بھی گزرنا باقی ہے ۔ ۲۸ ؍ دسمبر کو حضور پالکی میں بیٹھ کر جلسہ میں تشریف لے آئے اور تلاوت کے بعد اپنے مختصر ترین خطاب سے قبل فرمایا:

’’ثاقب کو بلاؤ اور کہو کہ وہ اپنی کل والی نظم پڑھے‘‘۔

حضور کی موجودگی میں حضور کی فرمودہ یا اپنی کوئی نظم پڑھتے وقت تو ویسے ہی حجاب ، احترام ، خوف اور فخرو انبساط کی ملی جلی کیفیت قلب وذہن پر مستولی رہتی تھی ۔ مگر آج تو صور تحال کا ملاً مختلف تھی ۔ آج مجھے اپنے ان اشعار کو اسی مرکزِ حسن وخوبی کے سامنے پڑھنے کے مرحلہ سے گزرنا تھا جس کی صحت ونقاہت سے متعلق وہ کہے گئے تھے۔ اللہ تعا لیٰ کا فضل کہ یہ مرحلہ جوں توں گزر گیا۔ میں نے وہ اشعار پڑھے اور سننے والوں نے انہیں چیخوں اور کراہوں کے ساتھ سنا ۔ اس دعائیہ نظم کے چند اشعار ملاحظہ ہوں۔ ؂

چشم میگوں میں یہ دلدوز سی حسرت کیا ہے

رُوئے روشن پہ پریشان سی نگہت کیا ہے

تجھ کو دیکھا تو بجھے دل کو قرار آ ہی گیا

تیری بیمار نگاہوں میں بھی برکت کیا ہے

جس نے ہر سانس لیا دین محمدؐ کے لئے

اس کی ہستی کے سوا ، میری ضرورت کیا ہے

شمع افسردہ ہو پروانوں کی حالت معلوم

جانے اس کرب میں مالک کی مشیّت کیا ہے

ساری دنیا کے مریضوں کو شفا دے یا ربّ

آج معلوم ہوا ہے کہ علالت کیا ہے

لیکن الہٰی تقدیریں تو وارد ہوکر رہتی ہیں ۔ مسیح موعود کا گرامی وارجمند فرزند دلبند ایک دن آسمان سے بلاوا آنے پر اپنے خالقِ حقیقی کی بارگاہ میں پہنچ گیا۔

خلافتِ ثالثہ کا پہلا جلسہ سالانہ

الہٰی سلسلوں کے کام تو نہیں رکتے ۔اس سال کے آخر میں بھی سالانہ جلسہ منعقد ہوا اور نگاہوں نے کرسیٔ صدارت پر سیدنا محمودؔ کی بجائے آپ کے پسرِ کامگار سیدناناصرؔ کو متمکن پایا۔ تلاوت کلام پاک ہو چکی تو ارشاد ہوا نظم پڑھوا ور آپ کے غلام نے ’’ پیمان شاعر‘‘ کے عنوان سے درج ذیل ’’ نوحہ نما خیر مقدمیہ‘‘ پڑھا۔ ؂

تونے کی مشعلِ احساس فروزاں پیارے

دل بھلا کیسے بھلا دے ترا احساں پیارے

پہلے بخشا مرے بہکے ہوئے نغموں کو گُداز

پھر مری روح پہ کی درد کی افشاں پیارے

اب نگاہیں تجھے ڈھونڈیں بھی تو کس جا پائیں

جانے کب پائے سکوں یہ دلِ ویراں پیارے

شکرِ ایزد کہ تیری گود کا پالا آیا

اپنے دامن میں لئے دولتِ عرفاں پیارے

فکر میں جس کے سرایت تیری تخئیل کی ضو

گفتگو میں بھی وہی حُسن نمایاں پیارے

دیکھ کر اس کو لگی دل کی بجھا لیتا ہوں

آنے والے پہ نہ کیوں جان ہو قُرباں پیارے

تیری اس شمع کا پروانہ صفت ہوگا طواف

تیرے ثاقبؔ کا ہے اب تجھ سے یہ پیماں پیارے

اگلی صبح جب میں جلسہ گاہ میں پہنچا ۔ تو ناظر صاحب اصلاح وارشاد نے مجھے حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ کا یہ ارشاد پہنچایا کہ !’’ثاقبؔ ہماری ( خواتین کی) جلسہ گاہ میں آکر اپنی کل والی نظم پڑھیں ‘‘۔

اس رقعہ کو پڑھ کر مجھے احساس ہوا کہ میں نے کل کیا کچھ کہہ دیا ہے اور سننے والوں نے اس ’’نوحہ نماخیر مقدمیئے‘‘ کو کن کانوں سے سنا ہے ۔ مگر یہ مرحلہ میرے لئے کسی امتحان سے کم نہ تھا۔ میں نے اس سے بچنے کی کوشش کرتے ہوئے ناظر صاحب محترم سے گزارش کی کہ نظم ٹیپ ہوچکی ہے۔ آپ وہ ٹیپ وہاں بھجوادیں ۔ موصوف نے تو تعاون کیا ۔ لیکن چند منٹوں کے بعد جواب آیا:’’جب ثاقب موجود ہے تو ٹیپ پہ کیوں اکتفا کیا جائے‘‘۔

جس کے بعد سرتابی ومعذرت کی تمام جرأتیں ختم ہوگئیں۔ پہنچا تو حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ نے ان الفاظ میں نظم کا تعارف کرایا:

’’اب آپ ثاقب زیروی صاحب کی زبانی اُن کی دلوں کو آنسوؤں سے دھوکر ان میں نئے امام کی محبت بھر دینے والی نظم سنئے‘‘۔

اور پھر نظم پڑھتے ہوئے میری ماؤں ، بہنوں اور بیٹیوں کی جو سسکیاں میری سماعت سے ٹکرائیں، میر ا دل اِس وقت بھی اُنہیں سن رہاہے ۔

سیاست دین بن گئی

خلافتِ ثالثہ کے دور میں پاکستان کی سیاست نے ایسا رنگ بدلا کہ دین کا لبادہ اوڑھ لیا ۔ دلائل و براہین سے عاجز آئے ہوئے مولویوں کے طائفہ نے حکومتی غلام گردشوں کا طواف شروع کردیا اور بو الہوس مقتدر نے اپنے دور حکومت کو طول دینے کے لئے اللہ تعالی کے احکامات ، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات اور قرآنِ کریم کے تمام فرامین کو بالائے طاق رکھ کر خدائے جبّار وقہار کے غضب کو للکارتے ہوئے پاکستان میں جماعت احمدیہ کے لکھو کھہا افراد کو غیر مسلم قرار دے دیا جس سے اس عاجز کی سوچ کا انداز تبدیل ہوگیا۔ جلسہ سالانہ اس سال بھی ہوا۔ وارفتگانِ احمدیت مرکزِ سلسلہ میں جوق درجوق پہنچے۔ اس سال ۲۷؍ دسمبر کو میں نے حضرت سیدنا ناصرؔ کے ارشاد پر حالاتِ حاضرہ پر یہ نظم پڑھی

یہ بجا کہ راستہ پُر خطر ہے سِتم کی رات سیاہ بھی

مگر اہل دل کو ہو فکر کیوں کہ جنُوں ہے مشعلِ راہ بھی

جو گزر گئی ہیں قیامتیں ، نہ کہیں گے اُن کی حکائتیں

کوئی کرلے ظلم کی انتہا ، نہ کریں گے ہم کوئی آہ بھی

جو لگے تھے زخم وہ سی لئے ، جو ملے تھے اشک وہ پی لئے

درِ شکوہ سارے ہی بند ہیں ، نہ سنو گے دل کی کراہ بھی

میں فدائے دین ہدیٰ بھی ہوں ، در مصطفےٰؐ کا گدا بھی ہوں

میری فردجُرم میں درج ہو ، میرے سر پہ ہے یہ گناہ بھی

تیرے پاس ثاقبؔ بےِ نوا ، ہیں یہ سب خدا کی امانتیں

اُسی درپہ جا کہ جھکائیو یہ جبیں بھی ، دل بھی ، نگاہ بھی

مختصر لیکن بہترین تبصرہ

اس جلسہ سالانہ پر حکومت نے جلسہ گاہ کے اردگرد خصوصی پولیس خاص طور پر متعین کی تھی ۔ نظم پڑھنے کے بعد میں نے بیتابانہ معانقے کرنے والوں کے چہروں کو دیکھ کر محسوس کیا کہ جیسے میں نے اپنے دل ہی کی نہیں اُن کے دل کی بات بھی کہی ہے ۔ مگر اگلی صبح ایک عجیب وغریب واقعہ ہوا ۔ میں جلسہ گاہ کی اسٹیج کے پاس پہنچا تو ناظر صاحب امور عامہ چودھری ظہور احمد صاحب باجوہ نے مجھے ایک طرف لے جاکر بتایا کہ ایک ’’ ایس پی‘‘ تمہیں رات سے ڈھونڈ رہا ہے ۔ میں نے کہا ’’پٖاگل ہے اب ڈھونڈنے کا کیا فائدہ؟ نظم تو میں نے پڑھ لی۔ اِس بات کا حضور کو علم تو نہیں ہوا؟‘‘ جواب ملا ۔ وہ تو میں نے بتادیا ہے ۔ مجھے افسوس ہے کہ باجوہ صاحب نے مضطرب ہو کر حضور کو بھی پریشان کیا ۔ میں نے کہا میں اسٹیج پر فلاں جگہ بیٹھوں گا اگر اب وہ ایس پی صاحب یا اُن کا کوئی ماتحت پولیس افسر ادھر آنکلے تو مجھے بلوا لینا ۔ تھوڑی دیر کے بعد انہوں نے مجھے باہر آنے کا اشارہ کیا۔ میں اسٹیج سے اُترا تو دیکھا کہ میرے ایک پُرانے شناسا ادب پرست پولیس افسر ہیں ۔قریب آئے اور ہم بڑی گرمجوشی سے جو ایک دوسرے سے لپٹے تو باجوہ صاحب کے چہرے پر اطمینان کی لہر دوڑ گئی۔ میں نے حیرت سے پوچھا ۔ ’’شاہ جی! اتنے سارے پھول کیسے لگ گئے؟‘‘ کہنے لگے ’’ آج ہم سات سال کے بعد مل رہے ہیں۔کیاسات سال میں مجھ ایسے لائق پولیس افسر کا انسپکٹر سے ایس پی ہوجانا اچنبھے کی بات ہے ؟‘‘ اسٹیج کے پیچھے حضرت مولوی محمد دین صاحب کے لئے جیپ کھڑی تھی۔ مکرم باجوہ صاحب ، حضرت چودھری احمد مختار صاحب، مولانا احمد خان نسیم ، شاہ صاحب (ایس پی) اور خاکسار کو لے کر اس میں جا بیٹھے ۔ اور مہمان کی چائے اور خشک میووں سے تواضع کی۔

پھر شاہ صاحب اپنے ماتحت افسروں کے ساتھ راؤنڈ پر چلے گئے اور میں بھاگا بھاگا قصرِ خلافت پہنچا کہ حضور کی پریشانی دور کروں ۔ اس وقت شاید سیالکوٹ کی جماعت کی ملاقات ہورہی تھی۔ حضور نے مجھے دیکھا ۔ میرے چہرے کا بغور جائزہ لیا کہ پریشان نہیں ہے ۔ پھر اشارے سے اپنے پاس بلایا ۔دو منٹ کے لئے ملاقات روک دی گئی۔ میں نے من وعن سارا واقعہ سنایا تو حضور اپنے مزاج اور عادت کے خلاف بے ساختہ کھلکھلا کر ہنس پڑے اور فرمایا۔

’’لو تمہار ا’’جہاں میں ہوں‘‘ (لاہور کا ایک مستقل کالم)بن گیا ‘‘۔ اس سے بہتر اور جامع تبصرہ اس صورت حال پر نہیں ہوسکتا۔

حالات حاضرہ کی عکاّسی

یہ ماہ وسال ہی ایسے تھے کہ ان سالوں میں جلسہ سالانہ پر ۲۷؍دسمبر کو میرا’’حالاتِ حاضرہ‘‘ پر نظم پڑھنا معمول کا رنگ اختیار کر گیا جو ۱۹۸۳ء تک جاری رہا ۔ ان سالوں میں پڑھی جانے والی دو ایک نظموں کے چند اشعار پیش خدمت ہیں۔ ؂

(۱)

وہ جو گرد سی تھی جمی ہوئی وہ جبیں سے ہم نے اُتار دی

شبِ غم اگرچہ طویل تھی شبِ غم بھی ہنس کے گُزار دی

نہ بُجھا سکیں اُنہیں آندھیاں جو چراغ ہم نے جلائے تھے

کبھی لَو ذرا سی جو کم ہوئی تو لہُو سے ہم نے اُبھار دی

وُہی ٹھہرے مَوردِ کُفر بھی جنہیں دین جاں سے عزیز تھا

وُہی خار بن کے کھٹک رہے ہیں جنہوں نے فصلِ بہار دی

(۲)

مَے کی مانند ہر ایک جام میں ڈھلتے رہنا

ہم نے سیکھا نہیں ایمان بدلتے رہنا

ٹھوکریں کھا کے بہر گام سنبھلتے رہنا

دوستو! تُم کو قسم ہے یونہی چلتے رہنا

خود بخود دے گی صدا تم کو کناروں کی ہوا

دل میں موجوں کی تڑپ لے کے مچلتے رہنا

گلشنِ دینِ محمدؐ کے مہکتے پھولو

لاکھ ہوں جورِ خزاں پھولتے پھلتے رہنا

اوربھی آئیں گے اِن راہوں میں کچھ سخت مقام

عزم کی شمع لئے سینوں میں چلتے رہنا

ایک اور سرکش

یہاں تک کہ ۱۹۷۷ء میں مقتدرِ وقت پسِ زنداں پہنچ گیا۔ چنانچہ میں نے حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ سیدنا ناصرؔ کی اجازت سے ۷۷ء کے جلسہ سالانہ میں ۲۷؍دسمبر کو ایک نظم ’’انجام‘‘ کے عنوان سے پڑھی جس کے چند اشعار یوں تھے ؂

فرصت ہے کسے جو سوچ سکے پس منظر ان افسانوں کا

کیوں خواب طرب سب خواب ہوئے کیوں خون ہوا ارمانوں کا

طاقت کے نشے میں چور تھے جو توفیق نظر جن کو نہ ملی

مفہوم نہ سمجھے وہ ناداں قدرت کے لکھے فرمانوں کا

پستے ہیں بالآخر وہ اِک دن اپنے ہی ستم کی چکّی میں

انجام یہی ہوتا آیا فرعونوں کا ہامانوں کا

جب زخم لگیں تو چہروں پر پھولوں کا تبسم لہرائے

فرزانوں کا اتنا ظرف کہاں ، یہ حوصلہ ہے دیوانوں کا

اے صبر و رضا کے متوالو ، اُٹھو تو سہی ، دیکھو تو سہی

طُوفانوں کے مالک نے آخر رُخ پھیر دیا طوفانوں کا

اب آئے جو یار کی محفل میں جاں رکھ کے ہتھیلی پر آئے

اس راہ پہ ہر سُو پہرہ ہے کم فہموں کا نادانوں کا

آندھی کی طرح جو اُٹھے تھے وہ گرد کی صورت بیٹھے ہیں

ہے میری نگاہوں میں ثاقب ؔ انجام بلند ایوانوں کا

۱۹۷۷ء کے اس جلسہ سالانہ میں جھنگ کے ڈپٹی کمشنر اور ایس پی کے علاوہ حکومت کی طرف سے ایک فوجی کرنیل صاحب بھی اون ڈیوٹی (on duty)تھے ۔راولپنڈی کے ایک صحافی نے جو رپورٹنگ کے لئے بطورِ خاص آئے تھے بتایا کہ نظم پڑھے جانے کے دوران حاضرین کے بے محابا جوش وخروش اور نعرہ بازی کو دیکھ کر (جسے موصوف ’’اشتعال‘‘ سمجھتے تھے) کرنل صاحب بہت مضطرب تھے۔ انہوں نے دو ایک دفعہ بڑے اضطراب سے کہا کہ ’’مجمع قابو سے باہر ہوتا جارہا ہے‘‘۔ جب تیسری دفعہ بھی انہوں نے اسی رنگ میں اپنے اضطراب کا اظہار کیا تو ڈپٹی کمشنر (جھنگ ) نے چند منٹ اور صبر وضبط سے نظارہ دیکھنے کی استدعا کرتے ہوئے کہا:۔

’’آپ شاید اس جماعت کے مزاج سے واقف نہیں ۔ نظم ختم ہونے کے بعد جونہی اس کے امام مائیک کے سامنے آئیں گے۔ آپ کو یوں محسوس ہوگا جیسے یہاں کوئی بیٹھا ہوا ہی نہیں‘‘۔

اور وہی ہوا۔ جونہی مرزا صاحب نے سورۃ فاتحہ کی تلاوت شروع کی ہر طرف ایک گھمبیر سناٹا چھاگیا۔ جس پر کرنل صاحب نے بڑی حیرت سے کہا :۔

’’یہ کس ملک کے باشندے ہیں؟ کس قدر کنٹرول ہے انہیں اپنے جذبات پر‘‘۔

۲۸دسمبر کو نعتِ رسولؐ ربوہ کے جلسوں میں

۲۸دسمبر کو میں حضرت خلیفۃ المسیح کی علمی تقریر کی رعایت سے نعتِ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پڑھا کرتا تھا گو ۱۹۷۴ء کے بعد نعتوں میں بھی دلی کرب کا اظہار ہونے لگا تھا۔ ایسی نعتوں کے چند اشعار ملاحظہ ہوں ؂

شعور دے کے محمدؐ کے آستانے کا

مزاج بدلیں گے ہم اس نئے زمانے کا

یہ میرا دل جسے دنیا بھی دل ہی کہتی ہے

یہ ایک جام ہے یثرب کے بادہ خانے کا

مرے سفینۂ ہستی کے ناخدا ہیں حضورؐ

مجھے نہیں کوئی اندیشہ ڈوب جانے کا

زہے نصیب کہ میرا لہو بھی کام آئے

مجھے جنوں ہے چراغِ حرم جلانے کا

زمانہ جتنے ستم چاہے توڑلے ثاقبؔ

دلوں سے عشقِ محمدؐ نہیں ہے جانے کا

*

ہر التجا سے پہلے ۔ ہر اک التجا کے بعد

آتا ہے لب پہ نام محمدؐ خدا کے بعد

ہے ذاتِ حق حضورؐ کی صورت میں جلوہ گر

آئینے سب ہیں ماند رُخِ مصطفٰےؐ کے بعد

ہے کون بدنصیب جو باندھے گا غیر سے

عہد وفا ۔ حضورؐ سے عہدِ وفا کے بعد

یا رب مجھے بنا دے درِ مصطفٰےؐ کی خاک

مانگوں گا اب نہ کوئی دعا اس دعا کے بعد

ثاقبؔ پہ ہو حضورؐ! کبھی وہ عطائے خاص

رہتی نہیں ہے کوئی طلب جس عطا کے بعد

*

جمالِ مہر و وفا کے قصے۔ کمال صدق و صفا کی باتیں

جو ہوسکے تو سنائے جاؤں تمہیں حبیبؐ خدا کی باتیں

وہی ہیں اول ، وہی ہیں آخر ، وہی ہیں ظاہر ، وہی ہیں باطن

رہیں گی تا حشر اب زبانوں پہ خاتم الانبیائؐ کی باتیں

میں داعی دینِ مصطفٰےؐ ہوں فدائی دینِ مجتبیٰؐ ہوں

ڈرا سکیں گی نہ میرے دل کو کبھی سزا و جزا کی باتیں

قدم قدم ان کی رہنمائی جہاں جہاں ان کی روشنائی

فضا میں پھیلی ہوئی ہیں اب تک سکوتِ غار حرا کی باتیں

مری لگن ان کا آستاں ہے یہی تڑپ تو متاعِ جاں ہے

کبھی تو ہوں گی شفیعِ محشرؐ سے ثاقبِ بینوا کی باتیں

نگاہِ خلافت

خلافتِ ثالثہ کے دور میں جماعت کی مخالفت زیادہ ہونے لگی تھی اور زبان وقلم پر قدغنوں میں آئے دن اضافہ ہوتا رہتا تھا۔ میرا معمول تھا کہ جلسہ میں پڑھی جانے والی نظم ہو یا نعت، میں کسی نہ کسی رنگ میں حضور کو دکھا ضرور دیتا تھا۔ حضور کا غذ میرے ہاتھ سے لیتے، رواروی میں اُس پر ایک سرسری نگاہ دوڑاتے اور کاغذ مجھے واپس دے دیتے۔ جس پر مجھے یہ وہم سا تھا کہ شاید حضور صرف حسن ظنی بھری نگاہ سے دیکھتے ہیں، پڑھتے نہیں ۔جبکہ میرے دکھانے کا مقصد تو یہ تھا کہ چونکہ مجھے یہ اشعار حضور کی موجودگی میں پڑھنے ہیں اس لئے ان کی ذمہ داری حضور پر بھی آسکتی ہے۔ اسی طرح ایک سال میں نے اپنی ایک نعت حضور کی خدمت میں مطالعہ و ملاحظہ کے لئے پیش کی جس کا ایک شعر یوں تھا: ؂

پڑی ہے دھوم زمانے میں حسن یوسف کی

وہ عکس تیرےؐ ہی سائے کا ہوبہو ہوگا

حضور نے نعت دیکھی اور اس پر معمول کی ایک نظر دوڑانے کے بعد مجھے لوٹا دی یہ فرماکر کہ ’’ہاں پڑھ دیں‘‘۔ اس کے بعد کوئی آدھ گھنٹے تک یہ غلام خدمت میں حاضر رہا۔ بالآخر جب رخصت ہونے لگا تو فرمایا ۔’’وہ حسن یوسف والا کیا شعر تھا؟‘‘ میں نے پڑھا تو بڑے ہی کریمانہ لب ولہجے میں فرمایا ’’حضرت یوسف کی نبوت تو واقعی نبوت تھی،عکسِ نبوت تو نہ تھی‘‘۔

میں نے فوراً عرض کیا ۔ حضور یہ شعر نہیں پڑھوں گا۔ فرمایا۔’’ ہاں نہ پڑھیں ‘‘۔ اس کے ساتھ ہی مجھ پر یہ حقیقت بھی واضح ہوگئی کہ نگاہِ خلافت کس قدر جلد اشعار میں مضمر بنیادی مفاہیم کو پاجاتی ہے ۔ جس کے بعد میرا دل اپنی اس فکری لغزش پر دیر تک استغفار کرتا رہا۔

(مطبوعہ :الفضل انٹرنیشنل۲۶؍جولائی ۲۰۰۲ء تا ۸؍اگست ۲۰۰۲ء)