صحف سابقہ کی تاریخ ، پیشگوئیوں اور عقائد کو توڑ مررڑ کر بیان کرنے والا کون ہے؟

سید میر محمود احمد ناصر

پادری وہیری صاحب کہتے ہیں کہ قرآن مجید، نبی عربی ﷺ کے (نعوذباللہ) مفتری ہونے کا ثبوت اس طرح بھی مہیا کرتا ہے کہ :

”In his putting into the mouth of God garbled statements as to scripture history, prophecy, and doctrine, to suit the purpose of his prophetic pretensions”,

پادری صاحب ان الفاظ میں ہمارے نبی ﷺ پر یہ ناپاک الزام لگاتے ہیں کہ آپ ؐ نے صحفِ سابقہ کی تاریخ کے بارہ میں ،پیشگوئی کے بارہ میں اور عقیدہ کے بارہ میں مروڑ تروڑ کر بیانات خدا کے منہ میں ڈالے ہیں جو آپ کے دعویٰ نبوت کے ساتھ موافقت رکھتے ہیں۔ پادری صاحب کو اگر قرآن کریم کے بیانات پر کوئی شبہات تھے اور وہ ادب کے ساتھ اس پر کوئی سوال یا اعتراض کرتے تو ہمیں ناراضگی کا کوئی حق نہیں تھا مگر پادری صاحب نے جس انداز میں یہ اعتراض اٹھایا ہے اور اللہ تعالیٰ کے سب سے جلیل القدر نبی ﷺ پر زبان طعن دراز کی ہے وہ ہمیں اجازت دیتا ہے کہ ہم بھی انہی کے سکہ میں ان کی ادائیگی کریں اور ان کو دکھائیں کہ جو اعتراض انہوں نے اٹھایا ہے وہ قرآن مجید پر نہیں بلکہ اناجیل پر وارد ہوتا ہے۔ اناجیل پرانے عہد نامہ کی پیشگوئیوں ، تاریخ اور عقائد کو توڑ مروڑ کر پیش کرتی ہیں

سو واضح ہو کہ اناجیل نے پرانے عہدنامے کی پیشگوئیوں اور تاریخ اور حوالجات سے مسلسل جو سلوک کیا ہے وہ قابل شرم جھوٹ کے نام سے ذکر کیا جاتا ہے۔ اوراگرآپ کو خیال ہو کہ ہم تعصب سے کام لے رہے ہیں تو ہم خود آ پ کے بھائی مغربی علماء بائبل کے اقوال سند کے طور پر پیش کریں گے۔

متی ولوقا کی اناجیل اور حضرت مسیح علیہ السلام کا نسب نامہ

سب سے پہلے متی کی انجیل کے پہلے باب کوہی لیجئے ۔ متی کے انجیل نویس نے پہلے باب میں حضرت مسیح کا ایک خود ساختہ نسب نامہ پیش کیا ہے ۔ اس نسب نامے کا ایک مقصد یہ ہے کہ حضرت مسیح کو ابن داؤد ثابت کیا جائے یعنی حضرت داؤد علیہ السلام کی نسل میں سے ثابت کیا جائے اس کی وجہ یہ ہے کہ یہود میں یہ تصور رائج ہو چکا تھا کہ آنے والا مسیح داؤد کی نسل سے ہوگا۔( یہود کے اس تصور کی بنیاد زبور باب ۳۲ ۱آیت ۱۱، یسعیاہ باب ۱۱ آیت ۱، یرمیاہ باب۲۳ آیت ۵، وغیرہ پر تھی)۔ یسوع کی مسیحیت ثابت کرنے کے لئے متی کا انجیل نویس مجبور ہوا ہے کہ کسی طرح انہیں داؤد کی نسل سے ثابت کرے۔ ان کے والد تو تھے ہی نہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ انجیل نویس کو ان کی والدہ کے داؤد کی نسل سے ہونے کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔ (لوقا کی انجیل سے قرینہ ملتا ہے کہ وہ لاوی قبیلہ سے تھیں اس لئے داؤد کی نسل سے نہیں ہو سکتیں)۔ لہذا انجیل نویس نے پیش گوئی پوری کرنے کا ایک نرالا ڈھنگ نکالا ہے کہ ایک نسب نامہ ( جو اپنی ذات میں بھی مشتبہ ہے) حضرت مریم کے خاوند یوسف کا دیا ہے اور اس نسب نامے میں یوسف کو حضرت داؤد کی نسل سے دکھایا ہے۔ اوراس طرح حضرت مسیح کو داؤد کی نسل سے قرار دینے کی کوشش کی ہے۔

پادری وہیری صاحب ! آپ قرآن پر، نبی عربی ﷺ پر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ وہ صحائف کی تاریخ بگاڑتا ہے تا کہ اپنی نبوت کے دعاوی ثابت کرے۔ دیکھئے آ پ کی کتاب مقدس نے حضرت مسیح کو ابن داؤد ثابت کرنے کے لئے کیسے تاریخ کا حلیہ بگاڑا ہے کہ اس کی تائید میں یوسف کا نسب نامہ پیش کیا ہے حالانکہ یوسف کو حضرت مسیح سے کوئی نسبی تعلق نہیں۔ نہ حضرت مسیح یوسف کے بیٹے ہیں کہ یوسف کے نسب نامے سے ان کے داؤد کی نسل ہونے کا ثبوت مل سکے۔ یوسف حضرت مسیح کے فرضی باپ ہیں ۔ اگر یہ ثابت بھی ہوجائے کہ یوسف داؤد کی نسل سے ہیں تب بھی حضرت مسیح ابن داؤد ثابت نہیں ہوتے۔ انجیل نویس نے کوشش بھی کی، تاریخ کو بگاڑا بھی اور اس بگاڑ کے ذریعہ یسوع کے دعویٰ مسیحیت کو ثابت کرنا مقصود تھا۔ گویا جو اعتراض قرآ ن پر اور نبی عرب ﷺ پر آ پ نے اٹھایا تھا وہ متی کی انجیل پر وارد ہوا۔ ابھی بات ختم نہیں ہوئی ۔ متی کا انجیل نویس نسب نامہ درج کرنے کے بعد لکھتا ہے کہ :

’’سب پشتیں ابرہام سے داؤد تک چودہ پشتیں ہوئیں اور داؤد سے لے کر گرفتار ہو کر بابل جانے تک چودہ پشتیں اور گرفتار ہو کر بابل جانے سے لے کر مسیح تک چودہ پشتیں ہوئیں۔ (متی باب ۱ آیت ۱۷)

یہاں متی کا انجیل نویس اپنے کسی ذوقی خیال کی بنا پر نسب نامے کو چودہ چودہ پشتوں کی تین جماعتوں میں تقسیم کرنا چاہتا ہے۔ معلوم نہیں کیوں؟ (شاید اس لئے کہ داؤد کو عبرانی میں’ دودِ‘ کہتے ہیں اور اس کے ابجد کے حساب سے اعداد کی میزان چودہ بنتی ہے)۔

مگر اس ذوق و شوق میں متی کے انجیل نویس نے باب۱ آیت۸ میں یورام کے بعد تین نام اخزیاہ، یواس اور امضیاہ چھوڑ دئے ہیں جو پرانے عہد نامے کی کتاب ا ۔ تواریخ باب ۳ آیت ۱۱،۱۲ میں مذکور ہیں۔ اورآیت نمبر ۱۱ میں یوسیاہ کے بعد الیاقیم کانام چھوڑ دیا ہے جو پرانے عہدنامے کی کتاب ۲ سلاطین باب ۲۳ آیت ۳۴ میں مذکور ہے۔

دیکھئے پادری صاحب نیا عہدنامہ جو آپ کے نزدیک کتاب مقدس اور کلام الٰہی ہے کس طرح پرانے عہد نامہ کی کہ وہ بھی آپ کے نزدیک کتاب مقدس اور کلام الٰہی ہے کتربیونت کرتا ہے۔ اور صرف پرانے عہد نامے تک ہی محدود نہیں خود متی کے انجیل نویس نے جو چودہ چودہ کے تین گروپ بنائے ہیں اس کے آخری گروپ میں ۱۳ نام ہیں نہ کہ چودہ۔

یہ تو تھا متی کے انجیل نویس کا نسب نامہ مگر ایک نسب نامہ لوقا کی انجیل میں بھی درج ہے ۔ لوقا باب ۲۳ آیت ۳۸ میں یہ نسب نامہ متی کے نسب نامے سے کلیۃً مختلف ہے ۔ یہ نسب نامہ بھی یوسف کا ہی ہے حضرت مریم کا نہیں (برصغیر ہندوپاکستان میں بعض پادری یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ایک نسب نامہ مریم کا ہے او ر دوسرا یوسف کا ۔ یہ بات دونوں نسب ناموں کے واضح الفاظ کے خلاف ہے)۔اس نسب نامے میں حضرت داؤد سے لے کر یوسف تک ۵۴ نام ہیں ۔ متی کے نسب نامے میں خود متی کی گنتی کے مطابق ۲۸ نام ہیں۔ ناموں کی تعداد کے علاوہ دونوں نسب ناموں میں ناموں کی تعیین بالکل مختلف ہے۔ حد یہ ہے کہ متی کی رو سے حضرت مسیح حضرت داؤد کے بیٹے حضرت سلیمان کی اولاد میں سے تھے ( متی باب ۱ آیت ۷) مگر لوقا کی رو سے وہ حضرت داؤد کے بیٹے ناتن کی نسل سے ہیں۔ اور پادری صاحب ذرا غور سے اپنے پادری بھائی کی یہ تحریر پڑھیں:

“Both genealogies reflect current rabbinical ideas about the Messiah descent. It was disputed, for instance, wether He would be descended from David through Solomon, or wether, owing to the curse on this live (Jer: 22 28 30 36) through an other son, Nathan(1Ch:3-5)

Accordingly St. Matthewis genealogy traces our Lords descent through Solomon, St Luke through Nathan.(A commentary on the Holy Bible Edited by the Rev. J.R. Dummellow

Macnillan & Co. Ltd. London .St.Matthew introduction , page 623)

یہود میں یہ بحث ہوا کرتی تھی کہ آنے والا مسیح داؤد کی نسل تو ہوگا مگر داؤد کے کس بیٹے کی نسل ہوگا؟ کچھ کہتے تھے سلیمان کی نسل سے ، کچھ کہتے تھے ناتن کی نسل سے۔ متی نے اپنے زمانے ، اپنے علاقے اور اپنے ماحول کی فضا کے مطابق ایک نسب نامہ حضرت مسیح کا تیار کر دیا جس میں ثابت کر دیا کہ حضرت مسیح داؤد کے بیٹے سلیمان کی نسل سے تھے۔ لوقا نے اپنے زمانے میں اپنے علاقے میں ، اپنے ماحول کی فضا میں ایک نسب نامہ تیار کردیا اور ثابت کر دیا کہ حضرت مسیح داؤد کے بیٹے ناتن کی نسل سے تھے !!

پادری صاحب! آ پ نے دیکھا کہ جو الزام آ پ نے قرآن مجید پر تاریخ اور پیشگوئیوں کو بگاڑنے کا لگایا تھا وہ کس ’’ شان‘‘ کے ساتھ خود آپ کی کتاب مقدس پر وارد ہوتا ہے۔

*۔۔۔ یہ تو تھی کوشش متی اور لوقا کی یسوع کو ابن داؤد ثابت کرنے کی ۔ تا کہ پرانے عہدنامے کی پیشگوئیوں کے مطابق آپ کو ابن داؤد ثابت کر کے آپ کا مسیح ہونا ثابت کرے۔ مگر دیکھئے خود حضرت مسیح اس بارہ میں کیا کہتے ہیں۔معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح پر یہ اعتراض بڑی شدت سے ہوتا تھا کہ وہ داؤد کی نسل سے نہیں ا س لئے مسیح کس طرح ہو سکتے ہیں۔ (یوحنا میں اشارۃً یہ اعتراض موجود ہے ۔ دیکھیں یوحنا باب ۷ آیت ۴۰ تا ۴۳)

حضرت مسیح کے پاس اپنے ابن داؤد ہونے کے لئے متی اور لوقا کے خود ساختہ نسب نامے تو تھے نہیں ۔ پس حضرت مسیح نے اس اعتراض کے بارہ میں جو کہا وہ ذرا غور سے پڑھئے :

متی باب ۲۲ میں لکھا ہے ’’ اور جب فریسی جمع ہوئے تو یسوع نے ان سے پوچھا کہ تم مسیح کے حق میں کیا سمجھتے ہو؟ وہ کس کا بیٹا ہے؟ انہوں نے اس سے کہا داؤد کا۔ اس نے ان سے کہا پس داؤد روح کی ہدایت سے کیونکر اسے خداوند کہتا ہے کہ خداوند نے میرے خدا وند سے کہا ۔ میری دہنی طرف بیٹھ۔ جب تک میں تیرے دشمنوں کو تیرے پاؤں کے نیچے نہ کر دوں؟ پس جب داؤد اس کو خداوند کہتا ہے تو وہ اس کا بیٹا کیونکر ٹھہرا۔ ؟ اورکوئی اس کے جواب میں ایک حرف نہ کہہ سکا۔ اور نہ اس دن سے پھر کسی نے اس سے سوال کرنے کی جرأت کی‘‘۔(متی باب ۲۲ آیت ۴۱ تا ۴۶)

محترم پادری صاحب ! اس حوالے کو پڑھئے اور پھر پڑھئے ۔ متی اور لوقا کے انجیل نویس کھینچ تان کر پورا زور لگا کر آپس میں حد درجہ مختلف اور متضاد اور پرانے عہد نامے سے بھی مختلف نسب نامے تراش کر حضرت مسیح کی صداقت ثابت کرنے کے لئے آ پ کو ابن داؤد ثابت کر رہے ہیں اور حضرت مسیح ان کی تمام محنت پر پانی پھیرتے ہوئے پرانے عہد نامہ سے استنباط کرتے ہیں کہ آنے والا مسیح داؤد کا بیٹا نہیں ہوسکتا۔

پیش گوئیوں اور تاریخ کو مسخ کرنے کا جو الزام آ پ نے نبی عربی ﷺ پر لگایا تھا وہ کس طرح boomrang کی طرح لوٹ کر آپ کی کتب مقدسہ اور آپ کے انجیلی یسوع پر وارد ہوا۔

اناجیل اور یسوع مسیح کی پیدائش کا تذکرہ

*۔۔۔ اور ابھی تو یہ کہانی چل رہی ہے ۔ نسب نامے کے بعد متی کا انجیل نویس یسوع کی پیدائش کا ذکر کرتا ہے اور اس سلسلہ میں بھی پرانے عہد نامے کی ’’ پیشگوئیاں‘‘ چسپاں کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔ لکھا ہے:

’’ اب یسوع مسیح کی پیدائش اس طرح ہوئی کہ جب اس کی ماں مریم کی منگنی یوسف کے ساتھ ہو گئی تو ان کے اکٹھے ہونے سے پہلے وہ روح القدس کی قدرت سے حاملہ پائی گئی۔ پس اس کے شوہر یوسف نے جو راستباز تھا اور اسے بدنام کرنا نہیں چاہتا تھا ۔ اسے چپکے سے چھوڑ دینے کا ارادہ کیا۔ و ہ ان باتوں کو سوچ ہی رہا تھا کہ خداوند کے فرشتے نے اسے خواب میں دیکھائی دے کر کہا اے یوسف ابن داؤد اپنی بیوی کو اپنے ہاں لے آنے سے نہ ڈر کیونکہ جو اس کے پیٹ میں ہے وہ روح القدس کی قدرت سے ہے ۔ا س کے بیٹا ہوگا اور تو اس کا نام یسوع رکھنا کیونکہ وہی اپنے لوگوں کو ان کے گناہوں سے نجات دے گا ۔ یہ سب کچھ اس لئے ہوا کہ جو خداوند نے نبی کی معرفت کہا تھا وہ پورا ہو کہ ’’ دیکھو ایک کنواری حاملہ ہوگی اور بیٹا جنے گی اور اس کا نام عمانوایل رکھیں گے‘‘۔ جس کا ترجمہ ہے خدا ہمارے ساتھ ۔ پس یوسف نے نیند سے جاگ کر ویسا ہی کیا جیسا خداوند کے فرشتے نے اسے حکم دیا تھا اور اپنی بیو ی کو اپنے ہاں لے آیا۔ اور اس کو نہ جانا جب تک اس کے بیٹا نہ ہوا اور اس کا نام یسوع رکھا‘‘۔(متی باب ۱ آیات ۱۸ تا ۲۵)

متی کے انجیل نویس نے یسوع کی پیدائش پر چسپاں کرنے کے لئے جو پیشگوئی درج کی ہے وہ یسعیاہ باب ۷ آیات ۱۴ تا ۱۶ سے تعلق رکھتی ہے۔ جس کے اصل الفاظ کا ترجمہ کچھ اس طرح ہونا چاہئے:

’’ دیکھو ایک جوان عورت حاملہ ہوگی اور بیٹا پیدا ہوگا اوروہ اس کا نام عمانوایل رکھے گی اور وہ دہی او ر شہد کھائے گا جب تک کہ وہ نیکی اور بدی کے رد و قبول کے قابل نہ ہو۔ پر اس سے پیشتر کہ یہ لڑکا نیکی اور بدی کے رد وقبول ہو یہ ملک جس کے دونوں بادشاہوں سے تجھے نفرت ہے ویران ہو جائے گا‘‘۔

اب دیکھئے اس چھوٹی سی عبارت میں متی کے انجیل نویس نے اپنے دینی مقاصد کے لئے کس قدر تحریف سے کا م لیا ہے۔

اول: اس نے یسعیاہ کی کتاب میں پائے جانے والے لفظ ’’ہ عَلَمَہ‘‘ کا ترجمہ کنواری کیا ہے اور اس طرح یسوع کی صداقت پر مہر ثبوت لگانے کی کوشش کی ہے مگر(ہ عَلَمَہ) کے معنی کنواری تونہیں ہوتے جوان عورت کے ہوتے ہیں۔ خواہ شادی شدہ ہو خواہ کنواری ہو ۔ اگر یسعیاہ نے کنواری کے حق میں پیشگوئی کرنی ہوتی تو وہ عبرانی لفظ بتولہ استعمال کرتا ۔مگر اس نے جوان عورت کا لفظ استعمال کیا ہے ۔ مگرانجیل نویس نے اس کو اپنے مقصد کے لئے مروڑ تروڑ کر (وہیری صاحب ! یہ لفظ garbled کا ترجمہ ہے جو آپ نے قرآن مجید کے لئے استعمال کیا تھا) کنواری ترجمہ کیا ہے تا کہ پیشگوئی کو حضرت مریم اور حضرت مسیح پر چسپاں کر سکے۔

Peake کی معروف تفسیر کے ایڈیٹر لکھتے ہیں:

“The rendring “Virgin” is unjustifiable, for this bethulah would have been used; the word employed here, almah, means young womans a young woman of marrigeable age, without any suggestion that she is not married”. (A commentary on the bible, edited byArthur S.Peake M.A.D.D. Thomas Nelson & Sons Ltd. London. Page442)

متی کے انجیل نویس نے بظاہر ایک چھوٹی سی تبدیلی یسعیاہ کے الفاظ میں مزید کی ہے ۔ یسعیاہ میں لکھا ہے کہ وہ (بچے کی والدہ) اس کا نام عمانوایل رکھے گی مگر ۔ متی میں ہے ’’ وہ اس کا نام عمانوایل رکھیں گے‘‘ یسعیاہ میں عمانوایل یعنی ’’ خدا ہمارے ساتھ‘‘ کے الفاظ بچے کے نام کے طور پر ہیں اور دنیا جانتی ہے کہ نام میں تفاؤل مدنظر ہوتا ہے گویاماں اپنے بچے کے لئے اس خواہش کا اظہار کر رہی ہے کہ خدا ہمارے ساتھ ہو۔ مگر متی میں جو بظاہر چھوٹی سی تبدیلی کی گئی ہے اس کا مقصد یہ ہو سکتا ہے (واللہ اعلم) کہ کہا جائے کہ بچے کے بارے میں گویا لوگ کہیں گے کہ یہ خدا ہے جو ہمارے ساتھ ہے۔ اگر ایسا ہی ہے تو انجیل نویس نے پرانے عہد نامے کے الفاظ میں ایک معمولی لفظی تبدیلی کر کے ’’ الوہیت مسیح‘‘ کے عقیدے کی طرف ایک قدم اٹھایا ہے۔

مگر اس سارے بیان میں سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ متی کے انجیل نویس نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ یسعیاہ کے ان الفاظ میں حضرت مسیح کی پیدائش کی پیشگوئی ہے ۔متی کے انجیل نویس نے یسعیاہ کی اصل عبارت میں سے یہ چھوٹی سی عبارت مروڑ تروڑ کر پیش کر دی ہے اور اپنے قارئین کو یہ تاثر دیا ہے کہ گویا یہ آنے والے مسیح کے بارہ میں پیشگوئی ہے جو یسوع پہ چسپاں ہوتی ہے ۔افسوس کہ یہ بات حقیقت سے بالکل مختلف ہے اور انجیل نویس کی دیانت داری کو مشتبہ کر رہی ہے۔ اگر ہمارے قارئین یسعیاہ کی کتاب کھول کر اس کا ساتواں باب نکالیں تو انجیل نویس کی یہ ہشیاری ا ن پر خوب کھل جائے گی ۔ یسعیاہ کو پڑھ کردیکھیں اس میں کسی حضرت مسیح کی پیدائش کی طرح کئی صدیوں بعد ہونے والے واقعہ کا کوئی ذکر ہی نہیں۔ اس میں تو ایک نشان کا ذکر ہے کہ ایک بچے کے پیدا ہو کر نیکی کے رد و قبول کی عمر کو پہنچنے تک فلسطین میں قائم دونوں یہودی مملکتوں کی تباہی واقع ہو جائے گی ۔ Peake کی تفسیر کے ایڈیٹر لکھتے ہیں

”The sign is to be fulfilled in the near future, since it is given for a pressing emergency. It has therefore no reference to the birth of jesus more than seven hundred years later.”(A commentaryon the Bible .page442. Edited by Arthur S Peake M.A.D.D. Thomas Nelson & Sons Ltd.)

پادری وہیری صاحب نے لکھا تھا کہ قرآن میں حضور ﷺ کا سابقہ صحائف کی کتب کی پیشگوئیوں کو مروڑ تروڑ کر اپنے دعویٰ کے ثبوت کے لئے پیش کرنا اسکے افتراء ہونے کا ثبوت مہیا کرتا ہے ۔ اب پادری وہیری صاحب کی نئے عہدنامہ کے بارے میں کیا رائے ہے؟

ا ب آگے چلئے متی کا انجیل نویس لکھتاہے:

’’ جب یسوع ہیرودیس بادشاہ کے زمانہ میں یہودیہ کے بیت لحم میں پیدا ہوا تو دیکھو کئی مجوسی پورب سے یوروشلم میں یہ کہتے ہوئے آئے کہ یہودیوں کا بادشاہ جو پیدا ہوا ہے وہ کہاں ہے؟ کیونکہ پورب میں اس کا ستارہ دیکھ کر ہم اسے سجدہ کرنے آئے ہیں۔ یہ سن کر ہیر ودیس بادشاہ اور اس کے ساتھ یوروشلم کے سب لوگ گھبرا گئے۔ اور اس نے قوم کے سب سردار کاہنوں اور فقیہوں کو جمع کر کے ان سے پوچھا کہ مسیح کی پیدائش کہاں ہونی چاہئے؟ انہوں نے کہا یہودیہ کے بیت لحم میں کیونکہ نبی کی معرفت یوں لکھا گیا ہے کہ :

’’ اے بیت لحم یہودیہ کے علاقے تو یہوداہ کے حاکموں میں ہرگز سب سے چھوٹا نہیں کیونکہ تجھ میں سے ایک سردار نکلے گا جو میری امت اسرائیل کی گلہ بانی کرے گا‘‘۔

اس پر ہیرودیس نے مجوسیوں کو چپکے سے بلا کر ان سے تحقیق کی کہ وہ ستارہ کس وقت دکھائی دیا تھا۔ اور یہ کہہ کر انہیں بیت لحم کو بھیجا کہ جا کر اس بچے کی بابت ٹھیک ٹھیک دریافت کرو اور جب و ہ ملے تو مجھے خبر دو تا کہ میں بھی آ کر اسے سجدہ کروں ۔ وہ بادشاہ کی بات سن کر روانہ ہوئے اور دیکھو جو ستارہ انہوں نے پورب میں دیکھا تھا وہ ان کے آگے آگے چلا یہاں تک کہ اس جگہ کے اوپر ٹھہرگیا جہاں وہ بچہ تھا ۔وہ ستارے کو دیکھ کر نہایت خوش ہوئے اور اس کے گھر میں پہنچ کر بچے کو اس کی ماں مریم کے پاس دیکھا اور اس کے آگے گر کر سجدہ کیا اور اپنے ڈبے کھول کر سونا اور لبان اور مُر اس کی نذر کیا ۔ اور ہیرودیس کے پاس پھر نہ جانے کی ہدایت خواب میں پاکر دوسری راہ سے اپنے ملک کو روانہ ہوئے۔

جب وہ روانہ ہو گئے تو دیکھو خداوند کے فرشتہ نے یوسف کو خواب میں دکھائی دے کر کہا اٹھ بچے اور اس کی ماں کو ساتھ لے کر مصر کو بھاگ جا اورجب تک میں تجھ سے نہ کہوں وہیں رہنا کیونکہ ہیرودیس اس بچے کی تلاش کرنے کوہے تا کہ اسے ہلاک کرے۔ پس وہ اٹھا اوررات کے وقت بچے اور اس کی ماں کو ساتھ لے کر مصر کی طرف روانہ ہو گیا۔ اور ہیرودیس کے مرنے تک وہیں رہا تا کہ جو خداوند نے نبی کی معرفت کہا تھا وہ پورا ہو کہ مصر میں سے میں نے اپنے بیٹے کو بلایا۔ جب ہیرودیس نے دیکھا کہ مجوسیوں نے میرے ساتھ ہنسی کی تو نہایت غصے ہوا اور آدمی بھیج کر بیت لحم اور اس کی سب سرحدوں کے اندر کے ان سب لڑکوں کو قتل کروا دیا جو دو دو برس کے یااس سے چھوٹے تھے۔ اس وقت کے حساب سے جو اس نے مجوسیوں سے تحقیق کی تھی اس وقت وہ بات پوری ہوئی جو یرمیاہ نبی کی معرفت کہی گئی تھی کہ:

رامہ میں آواز سنائی دی رونا اور بڑا ماتم راخل اپنے بچوں کو رو رہی ہے اور تسلی قبول نہیں کرتی اس لئے کہ وہ نہیں ہیں۔جب ہیرودیس مر گیا تو دیکھو خدا کے فرشتے نے مصر میں یوسف کو خواب میں دکھائی دے کر کہا اٹھ اس بچے اور اس کی ماں کو لے کر اسرائیل کے ملک میں چلا جا کیونکہ جو بچے کی جان کے خواہاں تھے وہ مر گئے۔ پس وہ اٹھا اور بچے اور اس کی ماں کو ساتھ لے کر اسرائیل کے ملک میں آ گیا مگر جب سنا کہ ارخلاؤس اپنے باپ ہیرودیس کی جگہ یہودیہ میں بادشاہی کرتا ہے تو وہاں جانے سے ڈرا۔ اور خواب میں ہدایت پا کر گلیل کے علاقہ کوروانہ ہوگیا۔ اور ناصرہ نام ایک شہرمیں جا بسا تا کہ جو نبیوں کی معرفت کہا گیا تھا وہ پورا ہوا کہ وہ ناصری کہلائے گا‘‘۔( متی: باب۲ )

اس باب میں متی کے انجیل نویس نے صحائف سابقہ کے چار حوالے پیش کئے ہیں اور صحائف سابقہ کے حوالہ جات کے بارہ میں پادری وہیری صاحب نے جو الزام قرآن کریم پہ لگانے کی کوشش کی ہے وہ پورے زور کے ساتھ نئے عہد نامہ پر وارد ہوتے ہیں۔

ان حوالہ جات کے مطابق حضرت مسیح کا بیت لحم میں پیدا ہونا بھی ضروری ہے جو یہودیہ کے صوبہ میں ہے اور ناصرہ میں رہائش اور اس کے نتیجہ میں ناصری کہلانا بھی ضروری ہے اور ناصرہ کا شہر گلیل کے صوبہ میں ہے۔

اب دیکھئے وہیری صاحب آپ کی کتاب مقدس کے دو حصے ان دونوں پیشگوئیوں کو کس ہشیاری سے پورا کرتے ہیں۔ متی کا بیان آپ نے اوپر پڑھا۔ متی کا انجیل نویس یہ Imply کرتا ہے کہ حضرت مسیح کا خاندان یہودیہ کا رہنے والا تھا بہرحال ناصرہ (گلیل) سے نہیں آیا تھا اور یہودیہ کے شہر بیت لحم میں حضرت مسیح کی پیدائش ہو گئی۔ لہذا یہ پیشگوئی پوری ہو گئی جو آنے والے مسیح کے متعلق میکاہ باب ۵ میں کی گئی تھی۔ پھر یہ خاندان ہیرودیس کے ظلم کے ڈر سے خواب میں ہدایت پا کر مصر چلا گیا اور مصر میں رہا ۔ جب ہیرودیس مر گیا تو خواب میں ہدایت پاکر واپس فلسطین کے لئے روانہ ہوا۔ مگر یہودیہ میں ہیرودیس کا بیٹا ارخلاؤس حاکم تھا جواپنے ظلم میں مشہور تھا اسلئے یہ خاندان یہودیہ واپس جانے کی بجائے گلیل چلا گیا اور وہاں ناصرہ نامی ایک گاؤں میں آباد ہو گیا اور دیکھو نبیوں کی معرفت جو پیشگوئی آنے والے مسیح کے بارہ میں تھی پوری ہو گئی کہ وہ ناصری کہلائے گا۔

*۔۔۔اب متی کے انجیل نویس کے سامنے دو پیشگوئیاں ہیں۔ آنے والا مسیح بیت لحم میں پیدا ہوگا۔ اورآنے والا مسیح ناصری کہلائے گا۔ متی کے انجیل نویس نے اپنے زعم میں واقعات کی روشنی میں دونوں پیشگوئیوں کو پورا کر دکھایا ہے۔

اب دیکھئے لوقا کا انجیل نویس اس بارے میں کیا کہتا ہے:

’’ ان دنوں میں ایسا ہوا کہ قیصر اوگُوستُس کی طرف سے یہ حکم جاری ہوا کہ ساری دنیا کے لوگوں کے نام لکھے جائیں۔ یہ پہلی اسم نویسی سوریہ کے حاکم کورنیس کے عہد میں ہوئی۔ اور سب لوگ نام لکھوانے کے لئے اپنے اپنے شہر کو گئے۔ پس یوسف بھی گلیل کے شہر ناصرہ سے داؤد کے شہر بیت لحم گیا جو یہودیہ میں ہے۔ اس لئے کہ وہ داؤد کے گھرانے اوراولاد سے تھا۔ تا کہ اپنی منگیتر کے ساتھ جو حاملہ تھی نام لکھوائے۔ جب وہ وہاں تھے تو ایسا ہوا کہ اس کے وضع حمل کاوقت آٰ پہنچا۔ اور اس کا پہلوٹا بیٹا پیدا ہوا اور اس نے اس کو کپڑے میں لپیٹ کر چرنی میں رکھا کیونکہ ان کے واسطے سرائے میں جگہ نہ تھی۔(لوقا باب ۲ آیات ۱ تا ۷)

’’ پھر جب موسیٰ کی شریعت کے موافق ان کے پاک ہونے کے دن پورے ہو گئے تو وہ اس کو یروشلم لائے تا کہ خدا وند کے آگے حاضر کریں ‘‘۔ (لوقا باب ۱ آیت ۲۲)

’’ اور جب وہ خداوند کی شریعت کے مطابق سب کچھ کر چکے تو گلیل میں اپنے شہر ناصرہ کو پھر گئے‘‘۔(لوقا باب ۱ آیت ۳۹)

*۔۔۔دیکھئے پادری صاحب دونوں پیشگوئیاں کس صفائی سے پوری ہو گئیں۔ لوقا کا انجیل نویس کہتا ہے کہ یوسف اور مریم گلیل کے شہر ناصرہ کے رہنے والے تھے وہاں سے مردم شماری کے لئے یہودیہ کے شہر بیت لحم آنا پڑا وہاں بچے کی ولادت کا وقت آ گیا اور یسوع کی ولادت ہوگئی۔ وہاں سے یروشلم ہوتے ہوئے واپس گلیل کے شہر ناصرہ چلے گئے ۔ گویا ناصری بھی کہلائے کیونکہ رہنے والے ہی ناصرہ کے تھے اور پیدائش کی پیشگوئی بھی پوری ہو گئی۔ یہ تو ہے لوقا کا بیان۔

متی کا بیان آپ اوپر پڑھ چکے ہیں کہ بیت لحم میں بچے کی پیدائش ہوئی (گویا یہ خاندان اسی علاقہ کا رہنے والا تھا) وہاں سے ہیرودیس کے ڈر سے بھاگ کر مصر چلے گئے ۔ ہیرودیس کی وفات کی اطلاع ملی توواپس فلسطین آئے مگر جب سنا کہ ہیرودیس کا ظالم بیٹا ارخلاؤس یہودیہ میں حاکم ہے تو وہاں جانے سے ڈرے اور گلیل چلے گئے ۔ اور وہاں کے ایک شہر ناصرہ میں آباد ہو گئے ۔ اس طرح دونوں پیشگوئیاں پوری ہو گئیں۔ دیکھی پادری صاحب آپ نے ہاتھ کی صفائی! دونوں انجیل نویسوں نے دونوں پیشگوئیاں کس صفائی سے پوری کر کے دکھا دیں۔ آپ نے جو الزام قرآن پر لگایا تھا وہ نئے عہد نامہ پر بڑے زور سے ثابت ہوا۔

*۔۔۔اور ابھی بات ختم نہیں ہوئی ۔ آپ نے کہا تھا کہ قرآن پیشگوئیوں کے علاوہ تاریخ کے متعلق بھی Garbled بیانات خدا کی طرف منسوب کرتا ہے۔ یہ تو آپ ثابت نہیں کر سکے کہ قرآن کے تاریخ کے بارے میں کون سے بیانات Garbled ہیں مگر ہم آپ کو آپ کے ہم مذہب علماء کے بیان پیش کردیتے ہیں جس سے معلوم ہو جائے گا کہ لوقا کا یہ بیان کہ یوسف اور مریم مردم شماری میں نام لکھوانے کے لئے بیت لحم گئے تھے صریحاً Garbled ہے۔ دونوں پیشگوئیاں ثابت کرنے کے لئے کہ آنے والا مسیح ناصری کہلائے گا مگر بیت لحم میں پیدا ہوگا یہ تاریخ پیش کی کہ یہ خاندان رہنے والا ناصرہ کا تھا۔ اس طرح یسوع ناصری کہلایا مگر پیدائش بیت لحم میں ہوئی کیونکہ ان دنوں وہاں گیا ہوا تھا ۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ خاندان ناصرہ کا رہنے والا تھا تو بیت لحم کس لئے گیا ہوا تھا ۔ اس کے لئے لوقا کے انجیل نویس نے یہ عذر تراشا ہے کہ قیصر اوگوستس کے حکم سے پہلی مردم شماری ہو رہی تھی اور اس میں نام لکھوانے کے لئے یوسف جو داؤد کے گھرانے سے تعلق رکھتا تھا وہاں جانے پر مجبور تھا۔

مگر لوقا یہ تاریخی واقعہ پیش کرتے ہوئے یہ بھول گیا کہ بعد کی تاریخی تحقیق یہ ثابت کر دے گی کہ یہ مردم شماری اس موقع سے کئی سال بعد ہوئی تھی۔ لوقا کے انجیل نویس کو تو بیت لحم میں ولادت کی پیشگوئی پوری کرنے کے لئے بیت لحم جانے کے لئے کسی بہانے کی ضرورت تھی ۔ مردم شماری اس کے زمانہ تحریر سے صدی پہلے کا واقعہ تھا ۔ کس کو یاد ہے کہ مردم شماری معین طور پر کن تاریخوں میں ہوئی ہاں مردم شماری ایک مشہور واقعہ تھا اور بڑا اچھا موقعہ تھا کہ اس کو یوسف اور مریم کے سفر بیت لحم کا باعث بنا دیا جائے مگر لوقا کے انجیل نویس ساتھ ہی یہ بھی لکھ بیٹھے کہ اس مردم شماری کے وقت کورنیس شام کا حاکم تھا ۔ اور کورنیس تاریخ کے مطابق کبھی بھی ہیرودیس کی زندگی میں شام کا حاکم نہیں رہا لہذا یہ سارا بیان بھی مشکوک ہے۔ انٹر پریٹرز بائبل کے عالم مصنفین جو عیسائیت سے مذہبی طور پر لگاؤ رکھتے ہیں لکھتے ہیں:

“According to Luke Joseph and Mary had been residents of Nazareth i n Galilee (Cf. 1:26) Jesus was born in the stable of an inn in Bethlehem because the exigencies of an imperial census had brought his parents to the city of David. In contrast the birth stories inMathew assume that Jesus was born in Bethlehem because that was where

Joseph & Mary had their residence. The family left Bethlehem and settled in Nazareth only after an interlude in Egypt, in response to oracles that warned against threats to the life of the Christ child. All this raises the question: was Jesus born in Bethlehem? or did both Luke &

Msyyher matthew did scount the tradition that Jesus had come out of Nazareth and tell their

variant of his birth at Bethlehem in order that he might better fulfill Jewish

messianic expectation?” (The Interpreters Bible: vol VIII, New york Abingdon Cokesbury press).

Peaks کی تفسیر میں لکھا ہے:

“In making his point Lk. seems to have made use of historical date with which he was imperfectly acquainted. A census was held about A.D.6, when Quirinius was legate of Syriaand Coponius procurator of Judea (Jos, Ant. XVII, XIII,5; XVIII,i.I). This is referred to in Ac. 5:37, and Luke was probably uncertain of its date and ignored the inconsistency involved here is associating it with the region of Herod.” (Peaks Commentary on the Bible, General Editor

and New Testament Editor Matthew Black Nelson)

*۔۔۔دیکھئے ! پادری وہیری صاحب! آپ نے قرآن مجید پر پیشگوئیوں کے علاوہ اپنے مقاصد کے لئے تاریخ کو بگاڑنے کا الزام لگایا تھا ۔آپ کے بھائی تسلیم کرتے ہیں کہ انجیل نویسوں نے حضرت مسیح کو یہودی توقعات کے مطابق پورا اتارنے کے لئے اس جرم کا ارتکاب کیا ہے؟

**۔۔۔ابھی اور آگے چلئے متی کے انجیل نویس نے حضرت مسیح کی ولادت پر ہیرودیس کے بیت لحم کے بچے مروانے کا قصہ درج کیا ہے ۔ تاریخ میں تو اس واقعہ کا کوئی ذکر نہیں ملتا۔ ہو سکتا ہے ، ہم تسلیم کر لیتے ہیں کہ تاریخ میں یہ واقعہ درج ہونے سے رہ گیا ہو (اگرچہ جوزیفس نے اس زمانے کی تفصیلی تاریخ لکھی ہے) چلئے فی الحال مان لیتے ہیں کہ ہیرودیس نے بیت لحم اور اس کی سرحدوں کے اندر دو سال تک کی عمر کے سب بچے قتل کروا دئے ۔ اب متی کا ا نجیل نویس اس مزعومہ واقعہ پر بھی پرانے عہد نامے کی ایک پیشگوئی چسپاں کرتا ہے ۔ لکھا ہے:

’’ جب ہیرودیس نے دیکھا کہ مجوسیوں نے میرے ساتھ ہنسی کی تو نہایت غصے ہوا اور آدمی بھیج کر بیت لحم اور اس کی سب سرحدوں کے اندر کے ان تمام لڑکوں کو قتل کروا دیا جو دو دو برس یا اس سے چھوٹے تھے۔ اس وقت کے حساب سے جو اس نے مجوسیوں سے تحقیق کی تھی اس وقت وہ بات پوری ہوئی جو یرمیاہ نبی کی معرفت کہی گئی تھی کہ :

رامہ میں آواز سنائی دی

رونا اور بڑا5 ماتم راخل اپنے بچوں کو رو رہی ہے اور تسلی قبول نہیں کرتی اس لئے کہ وہ نہیں ہیں(متی با ب ۲ آیات ۱۶ تا ۱۸)

*۔۔۔اب ذرا یرمیاہ کی کتاب کھول کر دیکھئے جس کا حوالہ متی نے دیا ہے۔ یرمیاہ میں حضرت راخل جو حضرت یعقوب کی ایک بیوی تھیں اور بنی اسرائیل کی ماں کی حیثیت رکھتی تھیں ۔ یہودی قبائل جونبو کدنضر کے حملہ کے نتیجہ میں قیدی بنا کر بابل لے جائے گئے ان کے رونے کا ذکر ہے (رامہ میں حضرت راخل کی قبر تھی ۔ گویا شاعر انہ انداز میں نقشہ کھینچا گیا ہے کہ بنی اسرائیل کے د س قبائل کے اسیر بنا کر جلاوطن کئے جانے پر راخل اپنی قبر سے نکل کر رو پیٹ رہی ہیں)۔

صدیوں بعد بیت لحم میں ہونے والے غالباً ایک فرضی واقعہ کا یرمیاہ میں کوئی ذکر نہیں۔ Interpreters بائبل کہتی ہے:

“Rachel, the mother of Joseph and Benjamin and hence the ancestress of the northern tribes, in her represented as weeping over the loss of her children,i.e.over the exile of the northern tribes. The Prophet comforts her with the promise that after their repentance theywill be returned and restored to their lands.” (The Interpreters Bible: vol V page: 1031)

*۔۔۔ دیکھئے پادری صاحب قرآن شریف پر اور نبی عربی ﷺ پر آپ کا یہ الزام لگانا کہ نعوذباللہ جھوٹے دعوی نبوت کی خاطر سابقہ صحف کی پیشگوئیوں اور تاریخ کو مروڑ تروڑ کر پیش کرتے ہیں خود آپ کو کتنا مہنگا پڑا۔ یرمیاہ کی وہ عبارت جو شمالی مملکت کے یہودی اسیروں کے بارہ میں تھی اور جن کی اسیری پر ان کی ماں راخل کا رونا تھا آپ کی کتاب مقدس نے مسیح کی ولات پر چسپاں کرنے کی ناکام کوشش کی اوراس کیلئے بچوں کے قتل کا ایک ایسا واقعہ تراشنا پڑا جو اس زمانہ کی تفصیلی تاریخ میں موجود نہیں۔

*۔۔۔اب ایک اور نمونہ بھی دیکھ لیجئے لوقا کا انجیل نویس لکھتا ہے کہ حضرت مسیح کا خاندان گلیل کے ناصرہ سے یہودیہ کے بیت لحم میں مردم شماری کے لئے آیا۔ وہاں حضرت مسیح کی ولادت ہوئی وہاں سے یروشلم ہوتے ہوئے اور خدا کے گھر میں حاضری دیتے ہوئے سیدھے واپس گلیل کے ناصرہ میں گئے ۔ متی کا انجیل نویس کہتا ہے کہ بیت لحم میں بچے کی پیدائش کے بعد ہیرودیس کے ڈر سے بھاگ کر مصر چلے گئے اور ہیرودیس کی وفات پر مصر سے حضرت مسیح کو ساتھ لے کر واپس آئے۔

*۔۔۔ اب متی کے انجیل نویس کو حسب عادت اس غالباً فرضی واقعہ پر بھی کو ئی پیشگوئی چسپاں کرنے کی خواہش پیدا ہوئی۔ اور پرانے عہد نامہ سے اس نے ایک حوالہ ڈھونڈ ہی لیا جس سے مسیح کا مصر سے آنا ثابت ہو۔ چنانچہ انجیل نویس لکھتا ہے:

’’ تا کہ جو خداوند نے نبی کی معرفت کہا تھا وہ پورا ہو کہ مصر سے میں نے اپنے بیٹے کو بلایا‘‘۔(متی باب ۱ آیت ۱۶)

مگر اس حوالہ کو درج کرتے ہوئے انجیل نویس نے پوری احتیاط کی ہے کہ اس فقر ہ سے پہلے اور بعد کے فقرات کہیں درج نہ ہوجائیں۔ کیونکہ مکمل حوالہ کچھ ا س طرح ہے:

’’ جب اسرائیل ابھی بچہ ہی تھا میں نے اس سے محبت رکھی اور اپنے بیٹے کو مصر سے بلایا ۔ انہوں نے جس قدر ان کو بلایا اسی قدر وہ دور ہوتے گئے ۔ انہوں نے بعلیم کے لئے قربانیاں گزارنیں اور تراشی ہوئی مورتیوں کے لئے بخور جلایا ‘‘۔ (ہوسیع باب ۱۱آیت ۱ تا ۲)

دیکھا پادری صاحب آ پ نے ! اس کو کہتے ہیں ہاتھ کی صفائی۔ ہوسیع میں کسی پیشگوئی کا کوئی ذکر نہ تھا۔ اس میں تو ہوسیع نبی سے بہت پہلے اسرائیل جو خدا کا بیٹا ہے اس کا حضرت موسیٰ کے ساتھ مصر سے آنے کا ذکر ہے۔ جہاں سے خدا نے انہیں توحید کے لئے بلایا مگر انہوں نے جھوٹے معبودوں کو خدا بنا لیا۔ متی کے انجیل نویس نے پیدائش کے بعد حضرت مسیح کے مصر لے جانے اور پھر وہاں سے واپس لائے جانے کا واقعہ اغلباً تراشا ہے۔ کیونکہ یہ بیان لوقا کے بیان سے ٹکراتاہے۔ پھر اس کی تائید میں ہوسیع کی ایک پیشگوئی درج کر دی جو پیشگوئی نہیں بلکہ ماضی کے ایک واقعہ کا بیان ہے؟

*۔۔۔ فرمائیے پادری وہیری صاحب پیشگوئیوں اور تاریخ کے متعلق Garbled Statements کون دیتا ہے قرآن یا نیا عہد نامہ ؟

اب آپ ایک آخری بات بھی سن لیجئے ۔ متی کا انجیل نویس بالآخر حضرت مسیح کو گلیل کے ناصرہ میں پہنچاتا ہے (لوقا کے بیان کے خلاف کیونکہ وہ کہتاہے کہ یوسف اور حضرت مریم تو رہنے والے ہی ناصرہ کے تھے) اب اس کے لئے بھی پیشگوئی چاہئے مگر سارے پرانے عہد نامے میں اور طالمود میں تو ناصرہ کا لفظ بھی نہیں آیا لیکن آخر ہاتھ کی صفائی کے وہ ماہر ہیں۔ متی کا انجیل نویس لکھتا ہے:

’’ جب ہیرودیس مر گیا تو دیکھو خداوند کے فرشتے نے مصر میں یوسف کو خواب میں دکھائی دے کر کہا کہ اٹھ اس بچے اور اس کی ما ں کو لے کو اسرائیل کے ملک میں چلا جا کیونکہ جو بچے کی جان کے خواہاں تھے وہ مر گئے ۔ پس وہ اٹھا اور بچے اور اس کی ماں کو ساتھ لے کر اسرائیل کے ملک میں آگیا مگر جب سنا کہ ارخلاؤس اپنے باپ ہیرودیس کی جگہ یہودیہ میں بادشاہی کرتاہے تووہاں جانے سے ڈرا اور خواب میں ہدایت پا کر گلیل کے علاقہ میں روانہ ہو گیا اور ناصرہ نام ایک شہر میں جا بسا تا کہ جو نبیوں کی معرفت کہا گیا تھا وہ پورا ہو کہ وہ ناصری کہلائے گا‘‘۔( متی باب ۲ آیات ۱۹تا ۲۳)

اب جیسا کہ اوپر بیان ہوا سارے پرانے عہد نامے میں ناصرہ کا لفظ نہیں ہے۔ کسی نبی نے ناصری کہلانے کی پیشگوئی نہیں کی۔ طالمود میں بھی یہ لفظ نہیں ہے ۔انٹرپریٹر ز بائبل کے مصنف لکھتے ہیں:

‘The village of nazareth is not mentioned in any ancient records”.(Volume VII page 262)

Peaks کی تفسیر بائبل میں لکھا ہے:

“It is curious that Nazareth is not mentioned in OT, Josephus or Talmud”.(A Commentary on the Bible by Arthurs. Peaks page 702).

پھر یہ متی کا انجیل نویس ناصرہ کا لفظ کہاں سے لے آیا۔ یہی مصنف لکھتے ہیں کہ یسعیاہ ، یرمیاہ اور صفنیاہ میں ذکر تھا کہ آنے والا مسیح داؤد کی شاخ میں سے ہوگا ۔ (صفحہ ۷۰۲) اور شاخ کے لئے عبرانی لفظ ’’ نصر‘‘ استعمال ہوا ہے ۔ متی کے انجیل نویس نے حضرت مسیح کو مصر سے لا کر ناصرہ میں بسایا اور شاخ کے لفظ سے معمولی سی تبدیلی کر کے اسے ناصرہ بنا یا ۔

*۔۔۔ دیکھئے پادری صاحب اس کو کہتے ہیں تاریخ اور پیشگوئیوں کے بارہ میں Garbled Statements !!!

اب ہم اس مضمون کے دوسرے حصے کو لیتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ قرآن مجید نے صحائف سابقہ کی پیشگوئیوں اور تاریخ کے متعلق کیا رویہ اختیار کیا ہے اور کیا قرآن مجید میں کوئی Garbled بیان پایا جاتا ہے؟ ہم نمونہ کے طور پر کچھ تاریخی واقعات کا جائزہ لیتے ہیں جو قرآن اور بائبل دونوں میں موجود ہیں۔

بائبل کی پیشگوئیاں جو قرآن مجید میں مذکور ہیں

مثیل موسی ؑ کے ظہور کی پیشگوئی

(۱) ۔۔۔بائبل کی پیشگوئیاں جن کی طرف قرآن شریف میں اشارہ ہے ان میں سے بنیادی اور اصل الاصول پیشگوئی بائبل میں موجودہ متن میں (جو سورائی متن کہلاتا ہے) ان الفاظ میں ہے:۔

’’نابی اقیم لاھم میقرب اخیھم کا موخا‘‘ یعنی میں ان کے لئے ان ہی کے بھائیوں میں سے تیری مانند ایک نبی برپا کروں گا۔ (استثناء باب ۱۸ آیت ۱۸)

آپ جانتے ہیں کہ اس پیشگوئی کی تائید میں زبور، یسعیاہ میں پیشگوئیاں پائی جاتی ہیں اور اناجیل اربعہ میں ان پیشگوئیوں کی طرف اشارہ ہے۔ اس پیشگوئی کی طرف اشارہ قرآن کریم میں ’’شھد شاہدٌ من بنی اسرائیل علی مثلہ‘‘(سورہ الاحقاف آیت ۱۱) کے الفاظ میں ہے۔ کہ بنی اسرائیل میں سے ایک عظیم الشان گواہ نے اپنے ایک مثیل کی شہادت دی تھی۔

دوسرا اشارہ اس عمومی آیت میں ہے جس میں اس پیشگوئی اوردوسری پیشگوئیوں کی طرف مجموعی طور پر اشارہ ہے۔ فرماتا ہے۔ ’’ الذین یتبعون الرسول النبی الامی الذی یجدونہ مکتوباً عِندَ ھُم فی التّوراۃِ والانجیل‘‘ ( سورۃ الاعراف آیت ۱۵۸) کہ( اللہ کی رحمت ان لوگوں کے لئے ہے) جو ا س رسول نبی امّی کی اتباع کرتے ہیں جس کا ذکر وہ توراۃ اور انجیل میں پاتے ہیں۔

تیسرا اشارہ سو رہ المدثر کی آیت ۱۵۸ میں ہے کہ ’’ اِنَّا اَرْسَلْنَا اِلَیْکُمْ رَسُوْلًا شَاھِداً عَلَیْکُمْ کَمَا اَرْسَلْنَا اِلیٰ فِرْعَوْنَ رَسُوْلًا‘‘ کہ ہم نے تمہاری طرف اسی طرح ایک رسول بھیجا ہے جیسے فرعون کی طرف ہم نے ایک رسول ( حضرت موسیٰ علیہ السلام) کو بھیجا تھا۔ ۔ اسی طرح بعض اور مقامات پر بھی بعض اشارات ہیں۔

اب بتائیے پادری وہیری صاحب کہ قرآن شریف نے کونسی پیشگوئی کو مروڑ تروڑ کر پیش فرمائی ہے؟ کیا بائبل میں واضح طور پر ایک موسیٰ جیسے نبی کے ظہور کی پیشگوئی ہے یا نہیں؟؟۔ اگرہے اور آپ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ ایسی پیشگوئی موجود ہے جس کے ذریعہ آسمان کی بادشاہی اسرائیل سے لے لی جائے گی اوراس قوم کو جو اس کے پھل لائے دے دی جائے گی ( متی باب ۲۱ آیت ۴۳) تو پھر کس بناء پر آپ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ قرآن مجید نے بائبل کی پیشگوئی کو مروڑ تروڑ کر پیش فرمایا ہے۔

شاید آپ یہ کہیں کہ قرآن مجید ان پیشگوئیوں کو حضرت محمد ﷺ پر چسپاں کرتا ہے اور یہی ان کا مروڑنا تروڑنا ہے تو کیا پادری صاحب مجھے یہ حق نہیں کہ میں کہوں کہ آپ ان پیشگوئیوں کو یسوع پر چسپاں کر رہے ہیں اور اس طرح آپ ان کو مروڑ تروڑ رہے ہیں۔ آپ کو یہ پورا حق ہے کہ دلیل سے کہیں کہ یہ پیشگوئیاں محمد رسول اللہﷺ پر چسپاں نہیں ہوتیں اور مجھے یہ پورا حق ہے کہ میں دلیل سے بات کروں کہ یہ پیشگوئیاں یسوع ناصری پر چسپاں نہیں ہوتیں۔ میں اور آپ تہذیب کے دائرہ میں رہ کر ا ن پیشگوئیوں کی علامات کو اپنے اپنے پسندیدہ مصداق پر چسپاں کرنے کی گفتگو کا حق رکھتے ہیں مگر آپ یہ ثابت نہیں کر سکتے کہ قرآن مجید نے ان پیشگوئیوں میں کوئی تبدیلی کی ہے ، کوئی کتربیونت کی ہے ، کوئی بگاڑ کر پیش کرنے کی کوشش کی ہے جو آپ کا دعویٰ تھا۔

آئیے اب آرام سے بیٹھ کر دیکھیں کہ استثناء باب ۱۸آیت ۱۸ کی پیشگوئی میں جو علامات بیان کی گئی ہیں وہ کس پر پوری اترتی ہیں ۔ اناجیل کے یسوع پر یا قرآن مجید کے محمد ﷺ پر !سو واضح ہو کہ استثناء باب ۱۸ آیت ۱۸ میں یہ پیشگوئی اس طرح ہے:’نابی اقیم لاھم میقرب اخیھم کاموخا‘‘ کہ میں ایک نبی ان کے لئے ان کے بھائیوں میں سے تیری مانند کھڑا کروں گا۔ اور اس بنیادی پیشگوئی کے بعد اس نبی کے بارے میں کچھ علامات اور اس کی شناخت کی کچھ نشانیاں درج ہیں۔

اب پہلی علامت اس پیشگوئی کے مصداق کی یہ ہے کہ وہ ایک نبی ہوگا ۔مسلمان اس پیشگوئی کو آنحضرت ﷺ پر چسپاں کرتے ہیں مگرآپ ؐ کو خدا یا خدا کا حقیقی بیٹا قرار نہیں دیتے۔ آ پ کو سب نبیوں سے افضل اور سب کا سردار قرار دیتے ہیں مگر آپ ؐ کو نبی ہی مانتے ہیں۔ آپ مسیحی لوگ اس پیشگوئی کواناجیل کے یسوع پر چسپاں کرتے ہیں مگر یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ یسوع انسان ہوتے ہوئے بھی ہر لحاظ سے ہر جہت سے ، ہرپہلو سے کامل خدا تھا۔ اور انسانی تاریخ میں کبھی یہ واقعہ نہ پہلے ہوا اور نہ بعد میں ہوگا کہ خدا تعالیٰ مع اپنی جملہ صفات اور قوت کے انسانی شکل میں ظہور پذیر ہوا۔

اب ذرا غور کی نظر سے دیکھئے کہ کیا یہ بات معقول نظر آتی ہے کہ ایک عظیم الشان جاہ و جلال والے بادشاہ یا صدر امریکہ یا روس کے سربراہ کی آمد کی بشارت ان الفاظ میں دی جائے کہ ایک ڈپٹی کمشنر علاقے میں آنے والا ہے یا ایک کمانڈر انچیف کے آنے کا ذکر اس طرح کیا جائے کہ ایک سیکشن کمانڈر کی آمد متوقع ہے۔ اگر انسانیت کی تاریخ میں پہلی دفعہ اورآخری دفعہ انسانی لباس میں خدائے عز و جل کا ظہور ہونے والا تھا تو اس کی بشارت صرف ایک نبی کے الفاظ میں دینا تو ایسا ہی ہے کہ ایک برتر اور اعلیٰ ہستی کی آمد کا تذکرہ ادنیٰ حیثیت کے لفظ سے کیا جائے۔

دوسری علامت اس آنے والے کی ان الفاظ میں بیان کی گئی ہے کہ وہ بنی اسرائیل کے بھائیو ں میں سے ہوگا۔ آپ پادری ہیں آپ نے خوب بائبل پڑھی ہے آپ جانتے ہیں کہ بنی اسرائیل کے بھائی بنی اسماعیل ہیں۔ (پیدائش باب ۲۵) ۔ بنی اسرائیل اور بنی اسماعیل دونوں ہی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ آ پ نیم پخت مسیحی منادوں کی طرح یہ عذر پیش کریں کہ بائبل میں بنی اسرائیل کو ایک دوسرے کا بھائی قرار دیا گیا ہے۔ لہذا اس پیشگوئی میں بھی بھائیوں سے مراد بنی اسرائیل ہی ہیں تو یہ عذر آپ کا درست نہ ہوگا ۔ کیونکہ جہاں استثناء وغیرہ کتب میں بنی اسرائیل کو بنی اسرائیل کے بھائی کے طور پر ذکر کیا گیا ہے وہاں کچھ احکامات دئیے گئے ہیں اور بنی اسرائیل کے ہر فرد کو خطاب کیا گیا ہے کہ وہ اپنے بھائیوں سے نیک سلوک کرے مگر استثناء باب ۱۸ آیت ۱۸ کی پیشگوئی میں تو ساری قوم بنی اسرائیل کی بحیثیت مجموعی مراد لی گئی ہے کہ بنی اسرائیل کے فائدہ کے لئے ایک موسیٰ جیسا نبی مبعوث ہوگا ۔جو ان بنی اسرائیل کے بھائیوں میں سے ہوگا۔ ظاہر ہے کہ وہ نبی سب بنی اسرائیل کے فائدہ کے لئے ہے نہ کہ چند کے لئے ۔ اور ظاہر ہے کہ سب بنی اسرائیل بحیثیت مجموعی مل کر اپنے ہی بھائی تو نہیں ہو سکتے ۔ اگر کچھ بنی اسرائیل کا ذکر ہوتا یا کچھ سے خطاب ہوتا تو ضرور وہ دیگر بنی اسرائیل کے بھائی قرار دئے جا سکتے۔ مگر جب یہاں سب بنی اسرائیل مراد ہیں تو ان سب کے بھائیوں سے مراد ضرور کوئی ایسی قوم ہوگی جو بنی اسرائیل میں شامل نہیں اور ظاہر ہے کہ وہ بنی اسماعیل ہیں جنہیں پیدائش کی کتاب بنی اسرائیل کے بھائی قرار دیتی ہے۔ اور ظاہر ہے کہ اس علامت کے لحاظ سے اناجیل کے یسوع اس پیشگوئی کا مصداق نہیں ہاں قرآن مجید کے محمد ﷺ اس کے مصداق ہیں۔

اس پیشگوئی میں تیسری علامت یہ بتائی گئی ہے کہ وہ نبی موسی کا مثیل ہوگا۔ فرمائیے پادری صاحب اور دل پر ہاتھ رکھ کر فرمائیے کہ یہ علامت آنحضرت ﷺ پر پوری اترتی ہے یا یسوع پر ؟

حضرت موسی ؑ انسان ہیں اور پوری طرح انسان اور عظیم رسول۔ حضرت محمد ﷺ کامل انسان اورعظیم ترین رسول ہیں ۔فرماتے ہیں:(انما انا بشرٌ مثلکم) اور (یا ایھا النّاس انی رسول اللہ الیکم جمیعا) مگر یسوع بقول آ پ کے خدا ہیں، خدا کا حقیقی بیٹا ہیں۔ موسیٰ کے مثیل یسوع ہوئے یا آنحضرت ﷺ ؟

*۔۔۔ حضرت موسیٰ ایک زبردست شریعت لائے جس میں بنی اسرائیل کے لئے ہدایت تھی ۔آنحضرت ﷺ ایک کامل شریعت لائے جس میں سب دنیا کے لئے ہدایت تھی۔ یسوع کوئی شریعت نہیں لائے بلکہ بقول آپ کے سابقہ شریعت کو بھی منسوخ کردیا۔ تو پھر موسیٰ کے مثیل آنحضرت ﷺ ہوئے یا یسوع؟؟

*۔۔۔حضرت موسیٰ ایک جابر قوم کی طرف بھیجے گئے۔ اور ان کی تمام تر کوشش کے باوجود ان کے شر سے محفوظ رہے اور ان کے علاقہ سے ہجرت کر گئے۔

آنحضرت ﷺ ایک ظالم قوم کی طرف بھیجے گئے اور ان کی تمام کوشش کے باوجود ان کے شر سے محفوظ رہے اور ان کے علاقہ سے ہجرت کر گئے۔

یسوع نسبتاً ایک پر امن قوم اور حکومت کی طرف بھیجے گئے مگر آ پ کے خیال کے مطابق ان کی شرارتوں سے بچ نہ سکے اورمار دئے گئے اوراگرچہ انہوں نے کہا تو تھا کہ میری اور بھی بھیڑیں ہیں جو اس بھیڑ خانہ کی نہیں مجھے ان کے پاس بھی جانا ضرور ہے مگر موت کی وجہ سے یہ ارادہ پورا نہ ہو سکا اورہجرت نہ کر سکے۔ مثیل موسیٰ کون ہے ۔ آنحضرت ﷺ یا یسوع علیہ السلام؟؟

*۔۔۔ حضرت موسیٰ اپنے اہم کام کی نسبتاً تکمیل کر کے فوت ہوئے اوراسی زمین میں دفن ہوئے اوربیت فغور میں ان کی قبر بنی۔

آنحضرت ﷺ اپنے اہم کام کی تکمیل کر کے فوت ہوئے اور اسی زمین میں دفن ہوئے اور مدینہ منورہ میں آپ کا مزار بنا۔ یسوع اپنے کام میں بڑی حد تک بقول اناجیل ناکام رہے اور جو تھوڑے سے مرید بنے تھے وہ بھی بقول اناجیل واقعہ صلیب کے وقت بھاگ گئے اور خدا تعالیٰ نے آپ کو (یہودی معاندین اور رومی حکومت سے بچانے کے لئے ) آسمان پر اٹھا لیا ۔ بتائیے مثیل موسیٰ کون ہے آنحضرت ﷺ یا یسوع؟؟

*۔۔۔ حضرت موسیٰ شریعت لائے اس کو آپ نے اپنی قوم میں رائج کیا ۔ ایک نظام قائم کیا جہاں و ہ تعلیم نافذ کی جائے۔آنحضرت ﷺ جو کامل شریعت لائے اسے آپ نے اپنی قوم میں رائج کیا ۔ نماز ،زکوٰۃ، حج وغیرہ کے احکامات کی ترویج فرمائی۔ ایک نظام قائم کیا جہاں وہ تعلیم نافذ کی جائے۔یسوع کو یہ موقعہ نہ ملا کہ اپنی تعلیم کو رائج کریں کوئی نظام قائم کر کے دکھائیں جہاں وہ تعلیم نافذ کی جائے۔بتائیے پادری صاحب مثیل موسیٰ کون ہے ۔ آنحضرت ﷺ یا یسوع؟

*۔۔۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ذات میں جلال غالب تھا مگر جمال بھی تھا ا ور توراۃ کہتی ہے کہ آپ سب روئے زمین کے لوگوں میں حلیم تھے اور بہت سے مواقع پر آپ نے اپنے دشمنوں کو معاف کیا۔

آنحضرت ﷺ میں جلال اورجمال دونوں صفات اپنے کمال پر تھیں اور صحابہ کے ذریعہ آپ کی جلالی تجلی کا نسبتاً زیادہ ظہور ہوا ( جیسا کہ اب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعے آپ ؐ کی جمالی تجلی کا نسبتاً زیادہ ظہور ہے) مگر یسوع کے ذریعہ کوئی جلالی تجلی ظاہر نہ ہوئی اورنہ آپ کو یہ موقعہ ملا کہ حکومت اور طاقت رکھتے ہوئے عفو اور درگزر سے کام لیں۔ حالانکہ آنحضرت ﷺ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرح مگر آپ سے بہت بڑھ کر طاقت اور قوت رکھتے ہوئے عفو اوردرگزر کا عظیم نمونہ دکھایا۔

سوچیں اور بتائیں پادری صاحب کہ مثیل موسیٰ آنحضرت ﷺ ہیں یا یسوع؟؟

*۔۔۔اب بتائیں پادری صاحب کہ اگر آ پ مثیل موسیٰ کی پیشگوئی یسوع پر چسپاں کرتے ہیں تو یسوع میں اور حضرت موسیٰ میں کیا مماثلت پائی جاتی ہے؟ تھوڑی بہت مماثلت تو دنیا کے مختلف سے مختلف افراد میں بھی ملتی ہے مگر جب خدا تعالیٰ کی پیشگوئی میں مماثلت کوعلامت اور شناخت بنا یا گیا ہو تو کوئی خاص مماثلت ملنی چاہئے مگر یسوع اور حضرت موسیٰ میں تو کوئی مماثلت نظر نہیں آتی۔

*۔۔۔ ممکن ہے آپ بھی وہی عذر پیش کرنا چاہیں جو عام طورپر ثانوی درجہ کے مسیحی مناد اس موقعہ پر پیش کیا کرتے ہیں کہ حضرت موسیٰ نے بنی اسرائیل کی نجات کا سامان کیا یسوع بھی صلیب پر مر کر نجات کا باعث بنا۔

مگر پادری صاحب یہ تو اعتقادی امر ہے ۔ ظاہراً ٰتو اس کا کوئی ثبوت نہیں ۔میں بڑی تحدی سے یہ بات کہتا ہوں کہ یسوع سے بہت بڑھ کر آنحضرت ﷺ نے کل دنیا کی نجات کا سامان کیا ۔یہ تو میرے اور آپ کے اعتقاد کی بات ہے مگر پیشگوئی میں جس طرح کی مماثلت کا ذکر ہے وہ مماثلت یسوع اور موسیٰ میں نہیں ملتی اور نہ ہی (خوب غور سے سنیں)یسوع نے اپنے لئے کبھی اس مماثلت کا اپنے لئے دعویٰ کیا ہے۔ مگر یہ مماثلت بڑی شان کے ساتھ حضرت موسیٰ اور آنحضرت ﷺ میں پائی جاتی ہے ( اور قرآن شریف میں یہ دعویٰ موجود ہے) اور پھر یہ مماثلت آ پ دونوں عظیم نبیوں کی ذات تک نہیں رہی بلکہ دونوں عظیم نبیوں کی امتوں کے حالات میں بھی یہ مماثلت پائی جاتی ہے۔ حتی کہ جس طرح موسیٰ کی امت میں ۱۳۰۰ سال کے بعد مسیح کا ظہور ہوا اسی طرح اتنے ہی عرصے کے بعد امت محمدیہ میں ایک عظیم الشان مسیح کا ظہور ہوا۔

چوتھی علامت اس مثیل موسیٰ نبی کی استثناء میں یہ بتائی گئی ہے :

’’اور اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالوں گا اورجو کچھ میں اسے حکم دونگا وہ ان سے کہے گا۔ (استثنناء باب ۱۸ آیت ۱۸)

بتائیے پادری صاحب اگر آپ یسوع پر اس پیشگوئی کو چسپاں کرتے ہیں تو وہ کلام کہاں ہے جو خدا تعالیٰ نے یسوع کے منہ میں ڈالا ۔ ہندوپاکستان کے کم علم منادوں کی طرح مجھے آپ اس غلط فہمی میں ڈالنے کی کوشش نہ کریں کہ وہ کلام متی ، مرقس ، لوقا اور یوحنا کی اناجیل ہیں۔ یہ مناد سادہ لوح مسلمانوں کو انجیل کے لفظ سے اس غلط فہمی میں مبتلا کرتے ہیں کہ گویا یہ چاروں اناجیل وہ کلام ہے جو خدا کی طرف سے یسوع کے منہ میں ڈالا گیا۔ مگر پادری صاحب آ پ کو تو خو ب معلوم ہے کہ یہ چاروں اناجیل حضرت مسیح کے زمانے کے بعد لکھی گئیں اور یہ انسانی کلام میں ہیں نہ کہ خدا کا کلام ۔مگر آنحضرت ﷺ پر یہ علامت بھی خوب چسپاں ہوتی ہے اور ایک سو چودہ قرآنی سورتوں کی شکل میں وہ کلام اب بھی اسی طرح موجود اور محفوظ ہے جو اللہ تعالیٰ نے آپ کے منہ میں ڈالا ۔

پانچویں علامت اوپر کی آیت میں یہ بتائی گئی ہے ’’اور جو کچھ میں اسے حکم دوں گا وہی ان سے کہے گا‘‘۔ یہ علامت بھی جس شان سے آنحضرت ﷺ میں پوری ہوئی یسوع میں پوری ہوتی نظر نہیں آتی۔ آنحضرت ﷺ نے ۲۳ سال کے عرصہ میں خوب کھول کھول کر قرآن مجید کا ہر ہر لفظ ، ہر ہر آیت لوگوں کو سنا دی اور لکھا دی جیسا کہ خود اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’ یاایھا الرسول بلغ ما انزل الیک‘‘ اور جب یہ کتاب پوری نازل ہو چکی تو ایک لاکھ سے زائد کے مجمع میں خوب کھول کر دریافت کیا اور بلند آواز سے پوچھا ’’ھل بلّغت ، ھل بلّغت، ھل بلّغت‘‘ کیا میں نے اپنا پیغام تمہیں پہنچا دیا اورجب سب مجمع نے بیک آواز یہ گواہی دی کہ آپ نے یہ پیغام پہنچا دیا تو آسمان کی طرف انگلی اٹھا کر خدا تعالیٰ کو مخاطب کر کے فرمایا : ’’ اللھم اشھد، اللھم اشھد، اللھم اشھد‘‘۔ یعنی اے اللہ تو گواہ رہ کہ جو پیغام تو نے مجھے پہنچانے کے لئے دیا تھا وہ میں نے پہنچا دیا ہے۔

اب دیکھیں کیا یہ علامت آپ کی اناجیل کے یسوع پر بھی پوری اترتی ہے؟ آپ یسوع کو خدا مانتے ہیں ، خدا کی قوت کا مالک قرار دیتے ہیں مگر کیا یسوع نے اپنی زبان میں کبھی اس بات کا اقرار اور اظہار کیا؟ الوہیت تو درکنار یسوع کو اپنے مسیح ہونے کے اظہار سے بھی انقباض تھا۔ صاف لکھا ہے :’’ اس وقت اس نے اپنے شاگردوں کو حکم دیا کہ کسی کو نہ بتانا کہ میں مسیح ہوں‘‘ ۔ (متی باب ۱۶ آیت ۲۰)

اپنے یسوع کا ہمارے محمد ﷺ کے اس رویے سے مقابلہ کیجئے جب حنین کی تنگ وادی میں دشمن کے اچانک غیر متوقع حملہ کی وجہ سے آپ ؐ دشمن کی یلغار اور تیروں کی بوچھاڑ میں بڑی شجاعت اور بہادری کے ساتھ نہ صرف آگے بڑھتے چلے گئے بلکہ دشمن کو جن میں سے اکثریت آپ ؐ کو پہچانتے بھی نہ ہونگے یہ کہہ کر اپنی شناخت بھی کروائی اور اپنے مقام کا اعلان بھی فرمایا : ’’ انا النبی لا کذب۔۔۔‘‘۔ اس کے مقابلے میں آپ کی اناجیل کے یسوع کو اتنی احتیاط مدنظر تھی کہ انہوں نے اور ان کے تین حواریوں نے پہاڑ کے اوپر ایک کشفی نظارہ دیکھا جس میں حضرت موسیٰ اور ایلیاء نظر آئے ۔ اس کے بارہ میں مرقس کی انجیل میں لکھا ہے: ’’جب وہ پہاڑ سے اترتے تھے تو اس نے ان کو حکم دیا کہ جب تک ابن آدم مرُدوں میں سے جی نہ اٹھے جو کچھ تم نے دیکھا ہے کسی سے نہ کہنا‘‘ (مرقس باب ۹ آیت ۹)

اور یوحنا کی انجیل میں تو یسوع نے یہ مسئلہ خوب کھول کر بتا دیا ہے کہ نہ تمام باتیں کھول کر بتائی ہیں اور نہ بتا سکتے ہیں۔ ’’مجھے تم سے اور بھی بہت سی باتیں کہنا ہیں مگر اب تم ان کی برداشت نہیں کر سکتے لیکن جب وہ یعنی سچائی کا روح آئے گا تو تم کو تمام سچائی کی راہ دکھائے گا ۔ اس لئے کہ وہ اپنی طرف سے نہ کہے گا بلکہ جو کچھ سنے گا وہی کہے گا۔ اور تمہیں آئندہ کی خبر یں دے گا‘‘۔ (یوحنا باب ۱۶ آیات ۱۲، ۱۳)

اگر آپ تعصب کی نظر سے نہ دیکھیں تو یسوع دراصل یہاں اس پیشگوئی کی طرف اشارہ کر رہے ہیں جو ہمارے آ پ کے درمیان مابہ النزاع ہے اور اس پیشگوئی کے انہی الفاظ کی طرف یسوع یہاں اشارہ کر رہے ہیں ’’ کہ جو کچھ میں اسے حکم دونگا وہی وہ ان سے کہے گا‘‘۔ (استثناء باب ۱۸ آیت ۱۸)

اور یہاں یوحنا کے حوالہ میں یسوع نے اشارہ کر دیا ہے کہ میں خود اس پیشگوئی کا مصداق نہیں بلکہ وہ وجود ہے جو تمام سچائی کی راہ دکھانے والا ہے ۔جس کی گواہی دینے کے لئے یسوع تشریف لائے تھے جیسا کہ انہوں نے پیلاطوس کے سامنے بیان دیتے ہوئے کہا کہ :’’ میں اس لئے پیدا ہوا اور اس واسطے دنیا میں آیا ہوں کہ حق پر گواہی دوں‘‘۔ (یوحنا باب ۱۸ آیت ۳۷)

آئیے پادری صاحب ہم آپ کے سامنے دستاویزی ثبوت کی طرح ایک ایسی بات پیش کرتے ہیں جس کے نتیجے میں دو میں سے ایک بات بہرحال آپ کو ماننا پڑے گی یا یہ ماننا پڑے گا کہ یسوع اپنی تعلیمات کو چھپاتے رہے اور اپنے اصل مشن کو انہوں نے ظاہر نہیں ہونے دیا۔ (اگر یہ بات صحیح ہے تو آپ استثناء باب ۱۸ آیت ۱۸ کی پیشگوئی ہرگز یسوع پر چسپاں نہیں کر سکتے کیونکہ پیشگوئی میں کہا گیا ہے کہ ا س پیشگوئی کے مصداق کو ’’ جو میں کہوں گا وہی وہ ان سے کہے گا‘‘۔ یا بصورت دیگر آپ یہ بات تسلیم کرنے پر مجبور ہونگے کہ یسوع نے وہ تعلیمات (تثلیث، کفارہ ، الوہیت مسیح، مسیح کا عالمگیر مشن ، موسوی شریعت کا نسخ ہونا وغیرہ ) ہر گز نہیں دیں جو آج عیسائیت یسوع کی طرف منسوب کرتی ہے ۔یعنی وہ عقائد جو آپ یسوع کی طرف منسوب کرتے ہوئے اپنے عقائد قرار دیتے ہیں۔ اور اگر یہ بات درست ہے تو آ پ یسوع کی نمائندگی کا اختیار ہی نہیں رکھتے ۔

*۔۔۔بہرحال آپ یسوع پر اس مقدمہ کی کارروائی پڑھئے جو یہود کی عدالت عالیہ کے سامنے یسوع پر چلایا گیا ۔ آپ جانتے ہیں کہ یسوع پر دو عدالتوں میں مقدمہ چلا۔ ایک مقدمہ یہود کی مذہبی عدالت عالیہ میں اور ایک پیلاطوس کی عدالت میں۔ پیلاطوس کی عدالت میں تو یسوع کے مخالفین کا سارا زور یہ تھا کہ انہیں قیصر کا باغی ثابت کریں اور اس طرح انہیں پھانسی چڑھائیں۔مگر یہودی علماء نے خود اپنی مذہبی عدالت میں ان پر جو مقدمہ چلایا اس میں سارا زور اس بات پر تھا کہ انہیں دین موسوی سے برگشتہ ثابت کریں۔ اس عدالت کی کارروائی چاروں اناجیل میں موجود ہے ۔چنانچہ متی کی انجیل میں لکھا ہے:

’’ اور یسوع کے پکڑنے والے اس کو کائفا نام سردار کاہن کے پاس لے گئے جہاں فقیہہ اور بزرگ جمع ہو گئے تھے ۔ اورپطرس دور دور اس کے پیچھے سردار کاہن کے دیوان خانہ تک گیا اور اندر جا کر پیادوں کے ساتھ نتیجہ دیکھنے بیٹھ گیا اور سردار کاہن اور سب صدر عدالت والے یسوع کو مارڈالنے کے لئے اس کے خلاف جھوٹی گواہی ڈھونڈنے لگے مگر نہ پائی۔ گو بہت سے جھوٹے گواہ آئے لیکن آخر کار دو گواہوں نے آ کر کہا اس نے کہا ہے میں خداکے مقدس کو ڈھا سکتا اور تین دن میں اسے بنا سکتا ہوں۔ اور سردار کاہن نے کھڑ ے ہو کر اس سے کہا تو جواب نہیں دیتا؟ یہ تیرے خلاف کیا گواہی دیتے ہیں؟ مگر یسوع خاموش رہا۔ سردار کاہن نے اس سے کہا میں تجھے زندہ خدا کی قسم دیتا ہوں اگر تو خدا کا بیٹا مسیح ہے تو ہم سے کہہ دے۔ یسوع نے اس سے کہا تو نے خود کہہ د یا بلکہ میں تم سے کہتا ہوں کہ اس کے بعد تم ابن آدم کو قادر مطلق کے دہنی طرف بیٹھے اورآسمان کے بادلوں پر آتے دیکھو گے۔اس پر سردار کاہن نے یہ کہہ کر اپنے کپڑے پھاڑے کہ اس نے کفر بکا ہے۔ اب ہم کو گواہی کی کیا حاجت رہی۔ دیکھو تم نے ابھی کفر سنا ہے تمہاری کیا رائے ہے؟ انہوں نے جواب میں کہا وہ قتل کے لائق ہے‘‘۔(متی باب ۲۶ آیات ۵۷ تا ۶۵)

مرقس میں لکھا ہے: ’’ پھر وہ یسوع کو سردار کاہن کے پاس لے گیا اور سب سردار کاہن اور بزرگ اور فقیہہ اس کے ہاں جمع ہو گئے اور پطرس فاصلہ پر اس کے پیچھے پیچھے سردار کاہن کے دیوان خانہ تک گیا اور پیادوں کے ساتھ بیٹھ کر آگ تاپنے لگا۔ اور سردار کاہن اور سب صدر عدالت والے یسوع کو مار ڈالنے کے لئے اس کے خلاف گواہی ڈھونڈنے لگے مگر نہ پائی کیونکہ بہتیروں نے اس پر جھوٹی گواہیاں تو دیں لیکن ان کی گواہیاں متفق نہ تھیں اور پھر بعض نے اٹھ کر اس پر یہ جھوٹی گواہی دی کہ ہم نے اسے یہ کہتے سنا ہے کہ میں اس مقدس کو جو ہاتھ سے بنا ہے ڈھاؤں گا اور تین دن میں دوسرا بناؤں گا جو ہاتھ سے نہ بنا ہو۔ لیکن اس پر اس کی گواہی متفق نہ نکلی۔ اور پھر سردار کاہن نے بیچ میں کھڑے ہو کر یسوع سے پوچھا کہ تو کچھ جواب نہیں دیتا؟ یہ تیرے خلاف کیا گواہیاں دیتے ہیں؟ مگر وہ خاموش ہی رہا۔ اور کچھ جواب نہ دیا۔ سردار کاہن نے اس سے پھر سوال کیا اور کہا کیا تو اس ستودہ کا بیٹا مسیح ہے؟ یسوع نے کہا ہاں میں ہوں۔ اور تم ابن آدم کو قادر مطلق کی دہنی طرف بیٹھے اور آسمان کے بادلوں کے ساتھ آتے دیکھو گے۔ سردا ر کاہن نے اپنے کپڑے پھاڑ کر کہا اب ہمیں گواہوں کی کیا حاجت رہی؟ تم نے یہ کفر سنا تمہاری کیا رائے ہے؟ ان سب نے فتویٰ دیا کہ وہ قتل کے لائق ہے‘‘۔( مرقس باب ۱۴ آیات ۵۳ تا ۶۴)

لوقا کی انجیل میں لکھا ہے : ’’ جب دن ہوا تو سردار کاہن اور فقیہہ یعنی قوم کے بزرگوں کی مجلس جمع ہوئی اور انہوں نے اپنی صدر عدالت میں لے جا کر کہا اگر تو مسیح ہے تو ہم سے کہہ دے ۔ اس نے ان سے کہا اگر میں تم سے کہوں تو یقین نہ کرو گے۔ اور اگر پوچھوں تو جواب نہ دو گے لیکن اب سے ابن آدم قادر مطلق خدا کی دہنی طرف بیٹھا رہے گا۔ ا س پر ان سب نے کہا پس کیا تو خدا کا بیٹا ہے؟ اس نے ان سے کہا تم خود کہتے ہو کیونکہ میں ہوں۔ انہوں نے کہا اب ہمیں گواہی کی کیا حاجت رہی؟ کیونکہ ہم نے خود اسی کے منہ سے سن لیا ہے‘‘۔(لوقا باب ۲۲ آیات ۶۶ تا ۷۱)

یوحنا کی انجیل میں لکھا ہے:’ پھر سردار کاہن نے یسوع سے اس کے شاگردوں اور اس کی تعلیم کی بابت پوچھا۔ یسوع نے اسے جواب دیا کہ میں نے دنیا سے علانیہ باتیں کی ہیں۔ میں ہمیشہ عبادت خانوں اور ہیکل میں جہا ں سب یہودی جمع ہوتے ہیں تعلیم دی اور پوشیدہ کچھ نہیں کہا۔ تو مجھ سے کیوں پوچھتا ہے۔ سننے والوں سے پوچھ کہ میں نے ان سے کیا کہا۔ دیکھ ان کو معلوم ہے کہ میں نے کیا کیا کہا‘‘۔ ( یوحنا باب ۱۸ آیات ۱۹ تا ۲۱)

*۔۔۔ پادری صاحب چاروں اناجیل کے ان حوالوں کو غور سے پڑھئے اور دیکھئے کہ کس طرح یہ عیسائیت کے موجودہ عقائد کے خلاف دستاویزی ثبوت مہیا کر رہے ہیں۔

آخری حوالے میں لکھا ہے کہ یسوع نے کہا کہ میں نے دنیا سے علانیہ باتیں کی ہیں اورہمیشہ عبادتخانوں اورہیکل میں جہاں سب یہود جمع ہوتے ہیں تعلیم دی اور پوشیدہ کچھ نہیں کہا۔ تو مجھ سے کیوں پوچھتا ہے ۔ سننے والوں سے پوچھ۔ دیکھ ان کو معلوم ہے کہ میں نے کیا کیا کہا ۔ اور پہلی تین اناجیل میں صاف لکھا ہے کہ یسوع پر کفر کے ثبوت کے لئے گواہ پر گواہ لائے گئے۔ جھوٹی گواہیاں مہیا کی گئیں مگر کوئی گواہی قائم نہ رہ سکی ۔بالآخر یسوع کے ایک مبہم فقرہ پر سردار کاہن نے کپڑے پھاڑے کہ اس نے کفر بکا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر یسوع کا یہ دعویٰ سچا تھا کہ انہوں نے اعلانیہ تعلیم دی ہے اورعبادتخانوں اورہیکل میں یہودیوں کی موجودگی میں تعلیم دی اور پوشیدہ کچھ نہیں کہا اور اس تعلیم میں یسوع نے عیسائیت کے موجودہ عقائد کی تعلیم دی تھی یعنی تثلیث کی تعلیم دی ، یہودی شریعت کی منسوخی کا دعویٰ کیا، نجات کے متعلق یہودی عقائد کی بجائے کفارہ کی تعلیم پیش کی ، اپنے آپ کو خدا کے طور پر پیش کیا ، یہودی قوم کے چنندہ قوم ہونے کی بجائے اپنے مشن کو سب قوموں اور ملکوں کے لئے یکساں بتایا ، سبت کے احکام کو منسوخ قرار دیا اور سب باتیں علانیہ کہیں، تو یہ سب باتیں چونکہ یہودی سردار کاہنوں اور فقیہوں کے نقطہ نظر سے کفر ہیں بلکہ کفر بوّاح ہیں اس لئے صدر عدالت کے سامنے یسوع کو کافر ثابت کرنے کے لئے سینکڑوں ہزاروں کی تعداد میں سچے گواہ کھڑے کئے جا سکتے تھے۔ کیا ضرورت تھی کہ ایک سے ایک جھوٹا گواہ پیش کیا جائے اور پھر ان کی گواہی متفق نہ نکلے۔

*۔۔۔ اب لازماً اس کے دو ہی نتیجے نکلتے ہیں یا تو یسوع نے ان عقائد کی علی الاعلان کوئی تعلیم نہیں دی۔ اگر یہ بات درست ہے تو یسوع پریہ پیشگوئی چسپاں نہیں ہوتی کیونکہ اس پیشگوئی میں آنے والے مثیل موسیٰ کی علامت یہ بتائی گئی ہے کہ جو اسے حکم دیا جائے گا وہ بنی اسرائیل سے کہے گا۔

یا دوسرا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ یسوع نے جو تعلیم علانیہ طور پر سب یہودیوں کو دی وہ ان عقائد پر ہرگز مشتمل نہیں تھی جو (تثلیث ، کفارہ ، الوہیت مسیح ، نسخ شریعت موسوی وغیرہ) آج کے عیسائی یسوع کی طرف منسوب کرتے ہیں۔

پادری صاحب کے اس اعتراض کا دوسرا حصہ یہ تھا کہ قرآن مجید میں صحائف کی تاریخ کے بارہ میں Garbled بیانات دئے گئے ہیں۔ اس اعتراض کا ایک جواب تو ہم اوپر تفصیل سے دے چکے ہیں کہ یہ گناہ ہمارے شہر میں نہیں آپ ہی کے شہر میں کیا جاتا ہے۔

آئیے ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن مجید نے کن واقعات کا تذکرہ کیا ہے جہا ں اس نے سابقہ صحائف کے جو موجودہ ورشن ہیں ان کے بیانات سے اختلاف کیا ہے اورساتھ ساتھ اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ کیا ا ن واقعات کے بارہ میں قرآن مجید کا بیان عقلاً و نقلاً درست ہے یا پادری وہیری صاحب کے صحائف کا۔

حضرت آدم ؑ کا واقعہ

*۔۔۔پہلا واقعہ جو بائبل اور قرآن مجید دونوں میں بیان ہے حضرت آدم ؑ کا واقعہ ہے۔ اس واقعہ کے بیان میں قرآن مجید اور بائبل بہت کچھ اشتراک بھی رکھتے ہیں مگر کچھ اختلافات بھی رکھتے ہیں۔ آئیے ان اختلافات کا جائزہ لیں۔

*۔۔۔پہلا اختلاف قرآن مجید اور بائبل میں یہ ہے کہ بائبل کہتی ہے کہ آدم پہلا انسان تھا ۔ اس سے پہلے کرہ ارض پر کوئی انسان نہ تھا۔ مگر قرآن مجید آدم سے پہلے کرہ ارض پر عقل و ارادہ رکھنے والی مخلوق کو تسلیم کرتا ہے ۔ (والجان خلقناہ من قبل من نار السموم)

بتائیے پادر ی صاحب! آج کی سائنس اور تاریخی حقیقت قرآن مجید کی تائید کرتی ہے یا بائبل کی؟

**۔۔۔ آدم کے واقعہ کے بیان سے قرآ ن کی ایک خوبی ابھر کر سامنے آتی ہے کہ قرآن مجید اللہ تعالیٰ کو تمام صفات حسنہ کا مالک قرار دیتا ہے۔ہر عیب ، کمزوری، گناہ اور خامی سے پاک قرار دیتا ہے۔ مگر بائبل نے واقعہ آدم کے سلسلہ میں (نعوذباللہ) اللہ تعالیٰ کو جھوٹ بولنے والا اور شیطان قرار دیا ہے۔ چنانچہ لکھا ہے : ’’ خداوند نے آدم کو حکم دیا اورکہا کہ تو باغ کے ہر درخت کا پھل بے روک ٹوک کھا سکتا ہے لیکن نیک و بد کی پہچان کے درخت کا پھل کبھی نہ کھانا ۔ کیونکہ جس روز تو نے اس میں سے کھایا تو مرا‘‘۔ (پیدائش باب ۲ آیات ۱۶،۱۷)

پھر لکھا ہے:

’’عورت نے سانپ سے کہا باغ کے درختوں کا پھل تو ہم کھاتے ہیں ۔ یہ جو درخت باغ کے بیچ میں ہے اس کے پھل کی بابت خدا نے کہا ہے کہ تم نہ تو اسے کھانا اور نہ چھونا ورنہ تم مر جاؤ گے۔ تب سانپ نے عورت سے کہا تم ہرگز نہ مرو گے بلکہ خدا جانتا ہے کہ جس دن تم اسے کھاؤ گے تمہاری آنکھیں کھل جائیں گی اور تم خدا کی مانند نیک و بد کے جاننے والا بن جاؤ گے‘‘۔(پیدائش باب ۳ آیات ۲ تا ۵)

اس باب میں تفصیل سے یہ ذکر ہے کہ جب آدم اور اس کی عورت نے یہ پھل کھایا تو وہ مرے نہیں بلکہ خدا کی طرح نیک وبد کی پہچان انہیں حاصل ہو گئی۔ چنانچہ لکھا ہے: ’’ خداوند خدا نے کہا دیکھو انسان نیک وبد کی پہچان میں ہم سے ایک کی مانند ہو گیا‘‘ (پیدائش باب ۳ آیت ۲۲)۔ دیکھئے بائبل کا بیان ہے کہ خدا نے آدم سے ایک بات کہی وہ نعوذباللہ جھوٹی نکلی اور شیطان کی بات سچی نکلی (یعنی آدم مرا نہیں) اور نتائج نے اس کی تصدیق کی ۔

فرمائیے پادری صاحب تاریخ کے متعلق Garbled بیانات بائبل دیتی ہے یا قرآن مجید؟

*۔۔۔ پادری وہیری صاحب قرآن کریم پر الزام لگاتے ہیں کہ اس نے صحائف مقدسہ کی تاریخ کو بگاڑا ہے ۔ پادری صاحب سے درخواست ہے کہ وہ خود اپنے بھائیوں کے اس بیان کو غور سے پڑھیں جس میں نہ صرف یہ ذکر ہے کہ بائبل کی کائنات کی تخلیق کی کہانی نہ صرف سائنسی تحقیقات سے مطابقت نہیں ر کھتی بلکہ خود پیدائش کے پہلے باب کی کہانی ، پیدائش کے دوسرے باب کی کہانی سے بھی مختلف ہے۔

A Commentary on the Bible (مرتبہ Arthur S. Peaks M.A.) میں لکھا ہے:

“Those who are interested in the once burning question as to the relation between this narrative and modern science should consult the very thorough discussion in Driver’s Commentary. Here it must suffice to say that the value of the narrative is not scientific but religious; that it imperils faith to insist on literal accuracy in a story which can only by unjustifiable forcing be made to yield it; that it was more in hormony with the method of inspiration to take current views and purify them so that they might be fit vehicles of religious truth then to anticipate the progress of research by revealingprematurely what men could in due time discover for themselves; and finally that even if this narrative could be harmonised with our present knowledge, we should have the task of the harmonising the very different narrative in the second chapter both with the present story and with modern science.” (A commentary on the Bible, by Arthur S.Peake M.A.D.D. Page 136)

بتائیے وہیری صاحب تاریخ کو بگاڑنے کی ذمہ داری بائبل پر آتی ہے یا قرآ ن پر ؟

حضرت نوح کا واقعہ

*۔۔۔ آدم ؑ کے بعد قرآن مجید اور بائبل کی دوسری اہم شخصیت حضرت نوحؑ کی ہے۔ نوحؑ کے واقعہ میں بھی قرآن مجید اور بائبل کا ا شتراک بھی ہے اور اختلاف بھی۔

بائبل کا بیان ہے کہ نوح کی مخالفت کے نتیجہ میں اس کے مخالفین پر پانی کا زبردست طوفان آیا اور وہ طوفان سے غرق کر دئے گئے۔ قرآن مجید بھی اس سے اتفاق کرتا ہے۔ مگر بائبل کہتی ہے کہ نوح کے مخاطب کل دنیا کی آبادی تھی اور نتیجۃً یہ عذاب بھی کل دنیا پر آیا۔ دنیا کا ہر ملک اورہر خطہ اور دنیا کا ہر اونچے سے اونچا پہاڑ ( ماؤنٹ ایورسٹ کی بلندی قریباً ۳۰ ہزار فٹ ہے) تہہ آ ب آ گیا اور سوائے نوح اور اس کے خاندان کے کرہ ارض کی ساری آبادی اس طوفان کے نتیجہ میں موت کا شکار ہو گئی۔ (دیکھئے پیدائش باب ۶ ، ۷) ۔

اس کے مقابل حضور ﷺ فرماتے ہیں کہ کل انسانیت کے لئے پہلا رسول میں ہوں۔ یہ میری سابقہ انبیاء کے مقابلہ میں امتیازی خصوصیت ہے اور قرآن مجید سورہ نوح کے شروع میں ہی دو بار وضاحت فرماتا ہے کہ نوح کا مشن ان کی قوم تک محدود تھا۔ فرمایا :’’ اِناَّ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلَی قَوْمِہٖ اَنْ اَنْذِرْ قَوْمَکَ مِنْ قَبْلُ اَنَْ یاْتِیَھُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ‘‘ کہ ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف بھیجا تھا کہ اپنی قوم کو ہوشیار کرو ۔ اس سے پہلے کہ ان پر دردناک عذاب آئے ( سور ہ نوح آیت ۲) ظاہر ہے قرآن مجید کی رو سے جو عذاب نوح کے مخالفین پر آیا وہ ان کی قوم تک محدود تھا جبکہ بائبل اسے عالمگیر عذاب قرار دیتی ہے ۔پادری صاحب ! آپ کی مغربی تحقیقات اس بار ہ میں قرآن کی تائید کرتی ہیں یا بائبل کی ؟ مزید سنئے:

“Sir Leonard Wooley’s excavation of Ur showed evidence of a destructive flood at a very early date, and that fact has been used to support the belief in the accurence of a Universal deluge. But excavation on the sites of other ancient Mesopotamian cities has showen similar evidence of early destructive floods, but not at the same period. Hence the Mesopotamian evidence only proves that the Tigris-Euphrates valley was subject to severe river-floods, and that this local feature had been taken up into the myth of the destruction of mankind which a diffferent origin altogather.” (Peak’s commentary on the Bible. Matthew Blake ,page 184)

گویا دجلہ اور فرات کی وادی میں کثرت سے دریائی سیلاب آتے ہیں جن کو عالمگیر تباہی کی داستان بنا دیا گیا۔

A commentary on the Bible مرتبہ Arthur S.Peak میں لکھا ہے:

” The question as to the character of the narrative still remains. The terms seem to require a universal deluge, for all flesh on the earth was destroyed (6/17,7/4,21-23), and “all the high mountains that were under the whole heaven were covered”(7/19f). But this would involve a depth of water all over the world not far short of 30,000 ft., and that sufficient water was available at the time is most improbable. The ark could not have contained more than a very small proportion of the animal life of the globe, to say nothing of the food needed for them, nor could eight people have attended to their wants, nor apart from a constant miracle could the very different conditions they required in order to live at all have been supplied. Nor without such a miracle, could they have come from lands so remote. Moreover, the present distribution of animals would on this view be unaccountable . . . . . Nor if the human race took a new begining from three brothers and their three wives (7/13, 9/19) could we account for the origin, within the very brief period which is all that our knowledge of antiquity permits, of so many different races, for the development of largnages with a long history behind them, or for the founding states and rise of advanced civilisations. And this quite understates the difficulty, for archaeology shows a continuous development of such civilisations from a time far earlier then the earliest to which the Flood can be assigned. A partial Deluge is not consistent with the Biblical representation….. And an inundation which took seventy-three days to sink from the day when the ark rested on the mountain of Ararat till the tops of the mountains became visible (8/4f) implies a depth of water which would involve a universal deluge. The story therefore, can not be accepted as historical,(A commentary on the Bible by Arthur S. Peak pp.143)

پادری وہیری صاحب ذرا اس آخری فقرہ کو دوبارہ پڑھئے اور پھر اپنے اس اعتراض پر نظر ڈالئے کہ قرآن مجید نعوذباللہ صحائف مقدسہ کی تاریخ کو بگاڑتا ہے!!

*۔۔۔حضرت نوح ؑ کو بائبل ایک طرف ایسا نیک قرار دیتی ہے کہ کہتی ہے کہ ’’ نوح مرد راستباز اپنے زمانہ کے لوگوں میں بے عیب تھا اور نوح خدا کے ساتھ ساتھ چلتا رہا‘‘ (پیدائش باب ۶ آیت ۹)۔ مگر ساتھ ہی یہ لغو قصہ بھی نوح ؑ کے متعلق بیان کرتی ہے کہ ’’ اس نے مے پی اوراسے نشہ آیا اور وہ اپنے ڈیرہ میں برہنہ ہو گیا‘‘ (پیدائش باب ۱۰ آیت ۲۱)

اور جب (حادثۃً ) اس کے بیٹے حام نے جو کنعان کا باپ تھا اسے اس حالت میں دیکھ لیا تو نوح ؑ نے ہوش میں آ کر حام کی نسل کے خلاف یہ دعا کی ’’ کنعان ملعون ھو ، وہ اپنے بھائیوں کے ملازموں کا غلام ہوگا‘‘۔ (پیدائش باب ۱۰ آیت ۲۵)

اول تو بائبل سے معلوم ہوتا ہے کہ حام نے کوئی غلطی نہیں کی ۔ غلطی نوح کی تھی (نعوذباللہ) جس نے شراب پی اور اتنی پی کہ مدہوش ہو گیا اور مدہوشی میں ننگا ہو گیا اور حام نے اتفاقاً اس کو اس حالت میں دیکھ لیا۔ لیکن اگر حام نے کوئی غلطی بھی کی تھی تو نوح ؑ کو یہ حق تو نہیں تھا کہ حام کو تنبیہ کرنے کی بجائے اس کی آئندہ ہونے والی نسل کو جو کنعان کہلاتی تھی ملعون کر دیا۔ صاف ظاہر ہے کہ چونکہ بنی اسرائیل کنعان کے علاقہ پر حملہ کر کے جارحانہ طور پر اس پر قبضہ کرنا چاہتے تھے اس لئے تاریخ کو بگاڑ کر کہانی پیش کی گئی ہے۔ پس پادری صاحب تاریخ کو بگاڑنے والی بائبل ہے نہ کہ قرآن!

حضرت ابراہیمؑ اور حضرت لوطؑ کا واقعہ

*۔۔۔حضرت نوح ؑ کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام تاریخ صحائف میں بہت نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں بھی قرآن مجید اور بائبل دونوں کا ا تفاق بھی ہے اور اختلاف بھی۔

پیدائش باب ۱۲ آیات ۱۰ تا۲۰ اور پھر باب ۲۰ کے مطابق نعوذباللہ ابراہیم ؑ نے ایک فرضی خطرہ کی بنا ء پر نہ صرف ایک جھوٹ بولا بلکہ اس جھوٹ کے نتیجہ میں جانتے بوجھتے ہوئے اپنی بیوی کی عصمت کو خطرہ میں ڈال دیا ۔ یہ وہ ابراہیم ؑ ہے جو بائبل کے بیان کے مطابق سب برکتوں کا جامع اور زمین میں سب قبیلوں کے لئے خدا کی برکت کا وسیلہ ہے۔ (پیدائش باب ۱۲ آیت ۳)

ا س کے مقابل میں قرآن مجید نہ صرف ایسے قصوں سے پاک ہے بلکہ حضرت ابراہیم کو نہایت سچ بولنے والا راستبازنبی قرار دیتا ہے۔ (سورہ مریم آیت ۴۲)

معلوم ہوتا ہے کہ بائبل میں جو تاریخ درج کی گئی ہے وہ اس وقت کی کیفیات کو مدنظر رکھ کر تصنیف کی گئی ہے جو بنی اسرائیل کے دوسری قوموں سے تعلقات کی نوعیت کی کیفیات تھیں۔ استثناء کی کتاب سے معلوم ہوتاہے کہ بنی اسرائیل کے تعلقات موآبیوں عمونیوں سے کشیدہ ہوئے تھے اس لئے پیدائش کی کتاب میں حضرت ابراہیم ؑ کے ضمن میں جہاں حضرت لوط ؑ کا ذکر آتا ہے وہاں موآبیوں اور عمونیوں کی دشمنی میں حضرت لوط ؑ پر نہایت گندے الزامات لگائے ہیں کہ گویا نعوذباللہ انہوں نے شراب کی مدھوشی میں اپنی دونو ں بیٹیوں سے زناکاری کی۔(پیدائش باب ۱۹) جس کے نتیجے میں موآبی اور عمونی پیدا ہوئے۔

*۔۔۔ اس کے مقابل میں قرآن شریف جا بجا حضرت لوط ؑ کی تعریف فرماتا ہے ،ان کو الٰہی حکمت و علم کا مورد قرار دیتاہے۔ (سورۃ الانبیاء آیت ۷۲) ان کو تمام جہانوں پر فضیلت رکھنے والوں میں شمار فرماتا ہے (سورۃ الانعام آیت ۸۷) اور اس قسم کی ناپاک الزام تراشیوں کی طرف جو بائبل نے روا رکھی ہیں اشارہ بھی نہیں فرماتا۔

*۔۔۔ محترم پادری صاحب ! کیا آپ کی بصیرت اس بات کو تسلیم کر سکتی ہے کہ خدا تعالیٰ لوط ؑ کی قوم کو تو اس لئے صفحہ ہستی سے مٹا دے کہ وہ جنسی بے راہ روی کا ارتکاب کرتے تھے اور حضرت لوط ؑ اور ان کی ا ولاد کو اپنے فرشتے بھیج کر نجات دے مگر خود حضرت لوط ؑ اپنی قوم کی جنسی بے راہ روی سے ناپاک تر جنسی گناہ کے مرتکب ہوئے ہوں اور پھر خدا کی نظر میں مقبول بھی ہوں جیسا کہ بائبل کا بیان ہے۔

پس قرآن نے آپ کے صحائف کی تاریخ کو بگاڑ کر پیش نہیں کیا بلکہ آپ کے صحائف میں انسانی ہاتھوں نے جو ناپاک تاریخ بڑھا دی تھی اس کو پاک کر کے پیش فرمایا ہے!

حضرت اسحاقؑ اور حضرت یعقوبؑ کے واقعات

*۔۔۔جس طرح بائبل نے حضرت ابراہیم ؑ پر دو مرتبہ جھوٹ بولنے اور ایک فرضی خطرہ کی بناء پر اپنی بیوی کی عصمت کو خطرہ میں ڈالنے کا الزام لگایا ہے ۔ یہی الزام اس نے حضرت اسحاق ؑ پر بھی پیدائش باب ۲۶ میں عائد کیا ہے ۔ جس کے مقابل میں قرآن شریف حضرت اسحاق کی جابجا تعریف کرتا ہے۔

*۔۔۔حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت اسحاق کے بعد بائبل کی ایک عظیم شخصیت حضرت یعقوب ہیں جن کا لقب اسرائیل ہے۔ قرآن مجید حضرت یعقوب کی بہت تعریف فرماتا ہے اور یہو د و نصاریٰ کو ان کے بیٹے کہہ کر ان کے اسوہ پر عمل کرنے کی تلقین فرماتا ہے مگر بائبل اپنے اس قومی بزرگ کو بھی داغدار کرنے سے نہیں ہچکچاتی ۔ پیدائش باب ۲۷میں لکھا ہے:

’’ جب اضحاق ضعیف ہو گیا اوراس کی آنکھیں ایسی دھندلا گئیں کہ اسے دکھائی نہ دیتا تھا تو اس نے اپنے بڑے بیٹے عیسُو کو بلایا اور کہا اے میرے بیٹے! اس نے کہا میں حاضرہوں ۔ تب اس نے کہا دیکھ! میں تو ضعیف ہو گیا ہوں اور مجھے اپنی موت کا دن معلوم نہیں سو اب تو ذرا اپنا ہتھیار ، اپنا ترکش او ر اپنی کمان لے کر جنگل میں نکل جا اور میرے لئے شکار مار لا۔ اور میری حسب پسند لذیذ کھانا میرے لئے تیار کر کے میرے آگے لے آ تا کہ میں کھاؤں اور اپنے مرنے سے پہلے دل سے تجھے دعا دوں۔ اورجب اضحاق اپنے بیٹے عیسُو سے باتیں کر رہا تھا تو ربقہ سن رہی تھی اور عیسُو جنگل کو نکل گیا کہ شکار مار کر لائے۔

تب ربقہ نے اپنے بیٹے یعقوب سے کہا کہ دیکھ میں نے تیرے باپ کو تیرے بھائی عیسُو سے یہ کہتے سنا ہے کہ میرے لئے شکار مار کر لذیذ کھانا میرے واسطے تیار کر تا کہ میں کھاؤں اور اپنے مرنے سے پیشتر خداوند کے آگے تجھے دعا دوں۔ سو اے میرے بیٹے اس حکم کے مطابق جو میں تجھے دیتی ہوں میری بات کو مان اور جا کر ریوڑ میں سے بکری کے دو اچھے اچھے بچے مجھے لا دے اور میں ان کو لے کر تیرے باپ کے لئے اس کی حسب پسند لذیذ کھانا تیار کر دونگی۔ اور تو اسے باپ کے آگے لے جانا تا کہ وہ کھائے اور اپنے مرنے سے پیشتر تجھے دعا دے۔ تب یعقوب نے اپنی ماں ربقہ سے کہا دیکھ میرے بھائی عیسو کے جسم پر بال ہیں اور میرا جسم صاف ہے ۔شاید میرا باپ مجھے ٹٹولے تو میں اس کی نظر میں دغا بازٹھہروں گا اور برکت نہیں بلکہ لعنت کماؤں گا۔ اس کی ماں نے اسے کہا اے میرے بیٹے تیری لعنت مجھ پر آئے تو صرف میری بات مان اور جا کر وہ بچے مجھے لا دے۔ تب وہ گیا اور ان کو لا کر اپنی ما ں کو دیا اوراس کی ماں نے اس کے باپ کی حسب پسند لذیذ کھانا تیار کیا۔ اور ربقہ نے اپنے بڑے بیٹے عیسُو کے نفیس لباس جو اس کے پاس گھر میں تھے لے کر ان کو اپنے چھوٹے بیٹے یعقوب کو پہنایا اور بکری کے بچوں کی کھالیں اس کے ہاتھوں اور اس کی گردن پر جہاں بال نہ تھے لپیٹ دیں۔ اور وہ لذیذ کھانا اور روٹی جو اس نے تیار کی تھی اپنے بیٹے یعقوب کے ہاتھ میں دے دی۔ تب اس نے باپ کے پاس آ کر کہا اے میرے باپ ! اس نے کہا میں حاضر ہوں۔ تو کون ہے میرے بیٹے؟ یعقوب نے اپنے باپ سے کہا میں تیرا پہلوٹھا بیٹا عیسُو ہوں۔ میں نے تیرے کہنے کے مطابق کیا ہے۔ سو ذرا اٹھ اور بیٹھ کر میرے شکار کا گوشت کھا تا کہ تو دل سے مجھے دعا دے ۔ تب اضحاق نے اپنے بیٹے سے کہا بیٹا تجھے یہ اس قدر جلد کیسے مل گیا؟ اس نے کہا اس لئے کہ خداوند تیرے خدا نے میرا کام بنا دیا۔ تب اضحاق نے یعقوب سے کہا اے میرے بیٹے ! ذرا نزدیک آ کہ میں تجھے ٹٹولوں کہ تو میرا بیٹا عیسُو ہے یا نہیں۔ اور یعقوب اپنے باپ اضحاق کے پاس گیا اور اس نے اسے ٹٹول کر کہا کہ آواز تو یعقوب کی ہے پرہاتھ عیسُو کے ہیں۔ اور اس نے اسے نہ پہچانا اس لئے کہ اس کے ہاتھوں پر اس کے بھائی عیسو کے ہاتھوں کی طرح بال تھے۔ سو اس نے اسے دعا دی ۔ اس نے اسے پوچھا کہ تو میرا بیٹا عیسُو ہی ہے؟ اس نے کہا وہی ہوں۔ تب اس نے کہا کھانا میرے آگے لے آ اور میں اپنے بیٹے کے شکار کا گوشت کھاؤں گا تا کہ دل سے تجھے دعا دوں۔ سو وہ اسے اس کے نزدیک لے آیا اور اس نے کھایا اور وہ اس کے لئے مے لایا۔ اور اس نے پی۔ پھر اس کے باپ اضحاق نے اس سے کہا اے میرے بیٹے ! اب پاس آ کر مجھے چوم ۔ اس نے پاس جا کر اسے چوما تب اس نے اس کے لباس کی خوشبو پائی اور اسے دعا دے کر کہا :

دیکھو میرے بیٹے کی مہک ا س کھیت کی مہک کی مانند ہے جسے خداوند نے برکت دی ہوخدا آسمان کی اوس اور زمین کی فربہی اور بہت سے اناج اور مے تجھے بخشے! قومیں تیری خدمت کریں اور قبیلے تیرے سامنے جھکیں! تو اپنے بھائیوں کا سردار ہو اور تیری ماں کے بیٹے تیرے آگے جھکیں!جو تجھ پر لعنت کرے وہ خود لعنتی ہو اور جو تجھے دعا دے وہ برکت پائے!

جب اضحاق یعقوب کو دعا دے چکا اور یعقوب اپنے باپ اضحاق کے پاس سے نکلا ہی تھا کہ اس کا بھائی عیسُو اپنے شکار سے لوٹا۔ وہ بھی لذیذ کھانا پکا کر اپنے باپ کے پاس لایا اور اس نے اپنے باپ سے کہا میرا باپ اٹھ کر اپنے بیٹے کے شکار کا گوشت کھائے تا کہ دل سے مجھے دعا دے۔ اس کے باپ اضحاق نے اس سے پوچھا کہ تو کون ہے؟ اس نے کہا میں تیرا پہلوٹھا بیٹا عیسُو ہوں۔ تب تو اضحاق بشدت کانپنے لگا اور اس نے کہا پھر وہ کون تھا جو شکار مار کر میرے پاس لے آیا۔ اورمیں نے تیرے آنے سے پہلے سب میں سے تھوڑا تھوڑا کھایا اوراسے دعا دی؟ اور مبارک بھی وہی ہوگا۔ اور عیسُو اپنے باپ کی باتیں سنتے ہیں بڑی بلند آواز اور حسرتناک آواز سے چلا اٹھا اور اپنے باپ سے کہا مجھ کو بھی دعا دے۔ اے میرے باپ مجھ کو بھی۔ اس نے کہا تیرا بھائی دغا سے آیا اور تیری برکت لے گیا‘‘۔ (پیدائش باب ۲۷ آیات ۱تا ۳۶)

*۔۔۔ دیکھا پادری صاحب آ پ نے ! یہ آپ کی کتب مقدسہ کی تاریخ جس کے مطابق بنی اسرائیل کے مورث اعلیٰ نے جھوٹ ،فریب، دغا کے ذریعہ اپنے باپ سے روحانی برکت حاصل کر لی۔ باپ نابینا تھے اس لئے دھوکہ میں آگئے۔ مگر فرمائیے اللہ تعالیٰ تو عالم الغیب والشہادۃ ہے ۔ روحانی برکات تو خدا تعالیٰ کی طرف سے آتی ہیں۔ کیا خدا تعالیٰ بھی دغا، فریب، جھوٹ، حق تلفی کو دیکھتے ہوئے اور ان کا علم رکھتے ہوئے روحانی برکات عطا فرماتا ہے۔

پادری صاحب! آپ کہتے ہیں قرآن مجید صحائف سابقہ کی تصدیق کرتے ہوئے بھی ان کی تاریخ کے بیانات کو بگاڑتا ہے ۔ یقیناً قرآن شریف ان صحائف کی تصدیق کرتا ہے کیونکہ یہ ابتدائً خدا تعالیٰ کی طرف سے تھے۔ اور یقیناً ان کے بعض بیانات کی پرزور تردید کرتا ہے کیونکہ آ پ کی قوم نے ان کتابوں میں اپنی طرف سے بیانات بڑھائے ہیں جس کی ایک مثال ابھی ہم اوپر درج کر آئے ہیں۔ قرآن شریف حضرت یعقوب کے متعلق جو بنی اسرائیل کے مورث اعلیٰ ہیں، بنی اسرائیل کی تمام تر مخالفتوں کے باوجود کوئی ناگوار بات نہیں کہتا جیسا کہ بائبل نے کہی ہیں۔ بلکہ فرماتا ہے کہ حضرت یعقوب علیہ السلام، حضر ت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسحاق ؑ کی طرح اولی الایدی والابصار میں شامل تھے۔ (سورۃ ص) نیکیوں کے لئے عملی قوت بھی رکھتے تھے اور روحانی بصیرت بھی انہیں حاصل تھی اور وہ ہر قسم کے فساد سے پاک تھے ۔ (سورۃالانبیاء )

حضرت موسیٰ علیہ السلام کے واقعات

پادری صاحب جہاں آپ کے صحائف مقدسہ بنی اسرائیل کے مورث اعلیٰ کو فریبی، جھوٹا اور دغاباز قرار دیتے ہیں وہا ں بنی اسرائیل کے سب سے بڑے نبی اور شارع کو بھی معاف نہیں کرتے۔ حضرت موسیٰ کے متعلق ان صحائف نے جو الزامات لگائے ہیں وہ تو نبیوں کے دشمن، نبیوں پر لگایا کرتے ہیں۔ مگر آپ کی کتب مقدسہ نے حضرت موسیٰ ؑ کے دشمنوں کا کردار ادا کیا ہے ۔ خروج باب ۴ میں لکھا ہے:

’’ پھر خداوند نے اسے یہ بھی کہا کہ تو اپنا ہاتھ اپنے سینے پر رکھ کر ڈھانک لے ۔ اس نے اپنا ہاتھ اپنے سینے پر رکھ کر ڈھانک لیا۔ اور جب اس نے اسے نکال کر دیکھا تو اس کا ہاتھ کوڑھ سے برف کی مانند سفید تھا‘‘۔(خروج باب ۴ آیت ۶)

یہ ہے بائبل کا بیان۔

اس کے مقابل پر قرآن مجید نے فرمایا :’’ وَاضمُم یَدَکَ إلیٰ جَناحِکَ تخرُج بَیضائَ من غَیرِ سُوئٍ اٰیۃً اُخریٰ‘‘۔

“And draw thy hand close under thy arm-pit. It shall come forth white, without any disease”.

اب بتائیے پادری صاحب! آ پ شکوہ کرتے ہیں کہ قرآن بائبل کی تاریخ بدلتا ہے۔ تو کیوں نہ بدلے؟ خدا کے عظیم الشان نبی،بنی اسرائیل کے سربراہ اور شارع کے بارہ میں بائبل کہتی ہے کہ ان کاہاتھ کوڑ ھ کی وجہ سے سفید ہو گیا۔ قرآن کہتا ہے کہ وہ خدا کے نور سے سفید ہو ا کوئی بیماری نہیں تھی۔ بتائیے کون ٹھیک کہتا ہے قرآن یا بائبل؟ اس کے ساتھ ہی یہ بھی مدنظر رکھیں کہ کوڑھی کے بارہ میں حضرت موسٰیؑ کی طرف سے جو ظالمانہ تعلیم منسوب کی گئی ہے وہ یہ ہے:

’’ اور جو کوڑھی اس بلا میں مبتلا ہو اس کے کپڑے پھٹے اور اس کے سر کے بال بکھرے رہیں اور وہ اپنے اوپر کے ہونٹ کو ڈھانکے اور چلّا چلّا کر کہے ناپاک، ناپاک۔ اور جتنے دن تک وہ اس بلا میں مبتلا رہے وہ ناپاک رہے گا اوروہ ہے بھی ناپاک۔ پس وہ اکیلا رہا کرے اور اس کا مکان لشکرگاہ کے باہر ہو‘‘۔ (احبار باب ۱۳ آیات ۴۵، ۴۶)

گویا وہی موسیٰ جو خود ’’کوڑھ‘‘ کے مریض تھے (نعوذ باللہ ) دوسرے کوڑھیوں کو حکم دیتے ہیں کہ کوڑھی کے کپڑے پھٹے رہیں۔ اور اس کے سر کے بال بکھرے رہیں اور وہ چلّا چلاّ کر کہے ناپاک، ناپاک۔ بتائیے پادری صاحب ! کیا آپ کے کوڑھیوں کے ہسپتال میں اس تعلیم پر عمل ہوگا؟

*۔۔۔چلیے خیر یہ تو حضرت موسیٰ کا ذاتی معاملہ تھا مگر جو ظالمانہ طرز عمل اور جو ظالمانہ احکامات جارحانہ حملہ کے بعد غریب اقوام سے جو صدیوں سے اپنے ملک میں آباد تھیں بائبل نے حضرت موسیٰ کی طرف منسوب کیا ہے وہ حد درجہ شرمناک ہے۔ استثناء باب ۲ میں خود حضرت موسیٰ فرماتے ہیں۔

’’ اور خداوند نے مجھ سے کہا دیکھ میں سیحون اور اس کے ملک کو تیرے حوالے کرنے کو ہوں سو تو اس پر قبضہ کرنا شروع کر تا کہ وہ تیری میراث ٹھہرے۔ تب سیحون اپنے سب آدمیوں کو لے کر ہمارے مقابلہ میں نکلا اور جنگ کرنے کے لئے یہض میں آیا اورخداوند ہمارے خدا نے اسے ہمارے حوالہ کر دیا اور ہم نے اسے اور اس کے بیٹوں کو اور اس کے سب آدمیوں کو مار لیا اور ہم نے اسی وقت اس کے سب شہر کو لے لیا اور ہر آباد شہر کو عورتوں اور بچو ں سمیت بالکل نابود کر دیا اور کسی کو باقی نہ چھوڑا‘‘۔ (استثناء باب ۲ آیات ۳۱ تا ۳۴)

پادری صاحب! یہ ہے آپ کی ’’ تاریخ‘‘ جس میں تبدیلی کرنے پر اور حضرت موسیٰ کی شخصیت کو رحمدل انسان کے طورپر پیش کرنے پر آپ قرآن پر افتراء کا الزام لگاتے ہیں!!!۔اور یہ ظالمانہ الزام آپ کی کتاب ’’مقدس ‘‘ نے ایک دفعہ نہیں لگایا بلکہ باربار لگایا۔ چنانچہ اسی کتاب کے تیسرے باب میں لکھا ہے:

’’ چنانچہ خداوند ہمارے خدا نے بسن کے بادشاہ عوج کو بھی اس کے سب آدمیوں سمیت ہمارے قابو میں کر دیا اورہم نے ان کو یہاں تک مارا کہ ان میں سے کوئی باقی نہ رہا اور ہم نے اسی وقت اس کے سب شہر لے لئے اور ایک شہر بھی ایسا نہ رہا جو ہم نے ان سے لے نہ لیا ہو۔ یوں ارجوب کا سارا ملک جو بسن میں عوج کی سلطنت میں شامل تھا اور اس میں ساٹھ شہر تھے ہمارے قبضہ میں آیا ۔ یہ سب شہر فصیلدار تھے اور ان کی اونچی اونچی دیواریں اور پھاٹک اور بینڈ ے تھے ۔ ان کے علاوہ بہت سے ایسے قصبے بھی ہم نے لے لئے جو فصیلدار نہ تھے ۔ اور جیسا ہم نے حسبون کے بادشاہ سیحون کے ہاں کیا ویسا ان سب آبادشہروں کو مع عورتوں اوربچوں کے بالکل نابود کر ڈالا لیکن سب چوپایوں اور شہروں کے مال کو لوٹ کر ہم نے اپنے لئے رکھ لیا‘‘۔(استثناء باب ۳ آیات ۳ تا ۸)

پادری صاحب ہمیں معاف کیجئے اگر ہماری کتاب مقدس اپنے اورآپ کے انبیاء پر ایسے ظالمانہ اعتراضات نہیں کرتی اور تاریخ کو نہیں بگاڑتی کیونکہ یہ کتاب نہ جارحیت کی تعلیم دیتی ہے ، نہ جارحیت کی اجازت دیتی ہے۔ یہ تو اس خدا کی کتاب ہے جو شروع میں ہی اپنے آپ کو الرحمان اور الرحیم قرار دیتا ہے اور اس رسول ؐ پر نازل ہوئی جو رحمۃ للعالمین ہے۔یہ ظلم اور خونخواری آپ کی کتاب کو مبارک ہوجس کی روشنی میں آج آپ کی کتاب کو ماننے والے دنیا کے مختلف حصوں میں اس ظلم و خونخواری کی داستان دہرا رہے ہیں۔

ہاں شاید آپ یہ اعتراض کریں کہ تاریخ صحائف کاایک نہایت شاندار اورزبردست پہلو بھی قرآن نے چھوڑ دیا کہ بسّن کو فتح کرنے کے بعد اس کے بادشاہ عوج کا پلنگ بھی آ پ لوگوں کو مال غنیمت میں ملا جس کے متعلق آپ کی کتاب مقدس کہتی ہے:

’’ اس کا پلنگ لوہے کا بنا ہوا تھا اور وہ بنی عمّون کے شہر ربّہ میں موجود ہے اور آدمی کے ہاتھ کے ناپ کے مطابق نو(۹) ہاتھ لمبا اور چار (۴) ہاتھ چوڑا ہے‘‘۔(استثناء باب ۳ آیت ۱۱)

دیکھا آپ نے تاریخ کا اتنا اہم پہلو اور تاریخ انسانی کا اتنا زبردست واقعہ قرآن شریف نے اشارۃً بھی ذکر نہیں کیا۔ نہ عوج کے پلنگ کا ذکر، نہ اس کی ساخت کا بیان، نہ اس کی لمبائی چوڑائی کا اندازہ، نہ اس کے ربّہ شہر میں موجودگی کا تذکرہ، سب کا سب قرآن سے غائب ہے۔ یہ کیا کہ توحید کے اسرار و معارف، صداقت انسانی فطرت کی گہرائیاں،اخلاق انسانی کے کمالات ، زندگی کے ہر شعبہ میں کامیابی کی راہیں تو قرآن نے بتادیں مگر عوج کے پلنگ کا جو لوہے کا بنا ہواتھا جو نو ہاتھ لمبا اور چارہاتھ چوڑا تھا (گویا آجکل مغرب کے Matrimonia بیڈ سے بھی بڑا) کا کوئی ذکر ہی نہیں کیا۔

ہاں پادری صاحب یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ بائبل کہہ رہی ہے کہ یہ پلنگ شہرربّہ میں اب تک موجود ہے۔ مگراب تو وہ پلنگ موجود نہیں۔ شاید ربّہ کا نام بھی بدل چکا ہو۔ بائبل اگر دائمی کتاب ہے، آپ کے عقیدہ کے مطابق آج بھی ذریعہ ہدایت ہے اور آئندہ تاقیامت مشعل راہ ہے تو کیااس کایہ بیان درست ہے کہ وہ پلنگ اب تک ربّہ میں موجود ہے؟ اور اگریہ بیان آج کے دور میں درست نہیں توکیا یہ نتیجہ نکالنا غلط ہوگاکہ اس کتاب کا دور ختم ہو چکا اور اس کا نسخہ صرف اس کی عبارتوں میں ہی Built in ہے۔

پادری وہیری صاحب! آپ کی کتاب نے حضرت موسیٰؑ پر اس حد تک ہی ظلم روا نہیں رکھا بلکہ اس کا سلسلہ ابھی جاری ہے۔

*۔۔۔ استثناء کے ساتویں باب میں جارحانہ حملوں کے بعد اپنے علاقہ میں صدیوں سے آباد قوموں کو مغلوب کرنے کے بعد ان سے جو سلوک کرنا ہے وہ حضرت موسیٰ کی طرف اس طرح منسوب کیا ہے :

’’ جب خداوند تیرا خدا تجھ کو اس ملک میں جس پر قبضہ کرنے کے لئے تو جارہا ہے پہنچا دے اور تیرے آگے سے ان بہت سی قوموں کو یعنی ِ حتّیوں اور جِرجاسیوں اور اموریوں اور کنعانیوں اور فرزیّوں اور حِدیوں اور یبوسیوں کو جو ساتوں قومیں تجھ سے بڑی اور زورآور ہیں نکال دے۔ اور جب خداواند تیرا خدا ان کو تیرے آگے شکست دلائے اور تو انکو مارے لے تو تو ان کو بالکل نابود کر ڈالنا۔ توانسے کوئی عہد نہ باندھنا اور نہ ان پر رحم کرنا۔ تو انسے بیاہ شادی بھی نہ کرنا۔ نہ ان کے بیٹوں کو اپنی بیٹیاں دینا اورنہ اپنے بیٹوں کے لئے ان کی بیٹیاں لینا کیونکہ وہ تیرے بیٹوں کو میری پیروی سے برگشتہ کر دیں گے تا کہ وہ اور معبودوں کی عبادت کریں ۔ یوں خداوند کا غضب تم پر بھڑکے گااوروہ تجھ کو جلاکر ہلاک کر دے گا۔ بلکہ تم ان سے یہ سلوک کرنا کہ ان کے مذبحوں کو ڈھا دینا ، ان کے ستونوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر دینا اور ان کی یسیرتوں کو کاٹ ڈالنا اور ان کی تراشی ہوئی مورتیوں کو آگ میں جلا دینا‘‘۔(استثناء باب ۷ آیات ۱ تا ۶)

’’تو ان سب قوموں کو جن کو خداوند تیرا خدا تیرے قابو میں کر دے گا نابود کر ڈالنا۔ تو ان پر ترس نہ کھانا‘‘۔(استثناء باب ۷ آیت ۱۶)

پادری صاحب! ذرا تقابل کیجئے اس تحریر کا ان تحریرات سے جو ایران کے جارحانہ حملوں کے جواب میں مسلمانوں کے دفاعی حملوں کے بعد فتوحات کے موقعہ پر معاہدات کی شکل میں لکھی گئیں۔ بطور نمونہ ہم دو تین تحریریں درج کرتے ہیں۔ آذربائیجان کی فتح کے بعد یہ معاہدہ تحریر ہوا:۔

*۔۔۔’’ آذربائیجان کے میدانی علاقہ اور پہاڑی علاقہ اور سرحدی اورکناروں کے علاقے کے رہنے والوں اور تمام مذاہب والوں کے لئے یہ تحریر ہے۔ ان سب کو امان ہے اپنے نفوس کے لئے، اپنے اموال کے لئے، اپنے مذاہب کیلئے، اپنی شریعتوں کے لئے اس شرط پر کہ وہ جز یہ ادا کریں اپنی طاقت کے مطابق۔ یہ جزیہ نہ بچے پر ہے نہ عورت پر نہ لمبے بیمار پر جس کے پاس مال نہیں۔ نہ اس عابد گوشہ نشین پر جس کے پاس کچھ مال نہیں۔ او ر یہ یہاں کے باشندوں کے لئے بھی ہے اور ان کے لئے بھی جو باہر سے آ کر ان کے ساتھ آباد ہیں۔ ان کے ذمہ اسلامی لشکر کی ایک رات دن مہمان نوازی ہے اور اس کو راستہ بتانا ہے۔ اگر کسی سے کوئی فوجی خدمت لی جائے گی تو اس سے جز یہ ساقط ہو جائے گا۔ جو یہاں قیام کرے اس کے لئے یہ شرائط نہیں اور جو یہاں سے باہر جانا چاہے وہ امن میں ہے حتی کہ اپنے امن کے مقام پر چلا جائے۔

یہ تحریر جندب نے لکھی ہے اور اس کے گواہ ہیں بکیر بن عبداللہ اور کاک بن فرشہ ‘‘۔( تاریخ طبری جزء ثالث صفحہ ۳۳۴)

*….. آرمینیہ کی مصالحت کے بعد یہ تحریر لکھی گئی:

’’ یہ وہ تحریر ہے جو امیرالمومنین عمرؓ بن خطاب کے گورنر سراقہ بن عمر نے شہر براز اور آرمینیہ اور ارمن کے باشندوں کو دی ہے۔ وہ انہیں امان دیتے ہیں ان کی جانوں پر، اموال پر اورمذہب پر۔ انہیں کوئی نقصان نہ پہنچایا جائے ۔ وہ حملہ کی صورت میں فوجی خدمت سرانجام دیں گے اورجزیہ ان پر نہیں لگایا جائے گابلکہ فوجی خدمت جزیہ کے بدلہ میں ہوگی۔ مگر جو فوجی خدمت نہ دیں ان پر اہل آذربائیجان کی طرح جز یہ ہے اور راستہ بتانا ہے اورپورے ایک دن کی میزبانی ہے ۔ لیکن اگر انسے فوجی خدمت لی جائے گی تو جزیہ نہ لگایا جائے گا اور اگر فوجی خدمت نہ لی جائے گی تو جزیہ لگایا جائے گا۔

گواہ شد : عبدالرحمان بن ربیعہ، سلمان بن ربیعہ، بکیر بن عبداللہ۔ یہ تحریر فرضی بن مقرن نے لکھی وہ بھی گواہ ہیں‘‘۔ (تاریخ طبری جزء ثالث صفخہ ۳۳۵)

مؤرخ بلاذری لکھتا ہے:

’’ مغیرہ بن شعبہ جب مدینہ سے کوفہ کے گورنر مقرر کر کے بھیجے گئے تو آپ کے ساتھ حذیفہ بن یمان کی آذربائیجان پر ولایت کا پروانہ تھا۔ حذیفہ ؓ آذربائیجان روانہ ہوئے اور شہر اردبیل پہنچ کر وہاں کے رئیس نے جس کے سپرد خراج جمع کرنے کا کام تھا بہت سی افواج مسلمانوں کے مقابلہ کے لئے جمع کر رکھی تھیں۔ کئی روز تک شدید لڑائی ہوتی رہی بالآخر وہاں کے رئیس نے اس شرط پر صلح کر لی کہ :

’’کوئی قتل نہ کیاجائے گا نہ ہی کوئی گرفتار کیا جائے گا ۔ کوئی آتشکدہ نہ گرایا جائے گا اورکسی قسم کی مذہبی رسوم یا تہوار کے موقعہ پر ان کے مظاہروں اور رقص وغیرہ میں کوئی دخل اندازی نہ کی جائے گی ۔ اہل آذربائیجان جزیہ ادا کریں گے‘‘۔ (فتوح البلدان صفحہ ۳۲۱، ۳۲۲)

اہل موقان کو یہ تحریر دی گئی:

’’ یہ وہ تحریر ہے جو بکیر بن عبداللہ نے کہستان قبح میں اہل موقان کو دی ہے ۔ ان کو امان ہے ان کی جانوں پر ، ان کے مالوں پر ، ان کے مذہب پر ، ان کی شریعتوں پر ۔ ا س شرط پر کہ وہ جزیہ دیں جو ہر بالغ پر ایک دینار یا اس کی قیمت ہے۔اور خیر خواہی کریں اورمسلمانوں کو راستہ دکھائیں اور ایک دن رات میزبانی کریں۔ ان کے لئے یہ امان ہوگی جب تک وہ اس عہد پر قائم رہیں اور ہمارے ذمہ ان سے وفاداری ہے۔ واللہ المستعان ۔ لیکن اگر وہ اس عہد کو ترک کر دیں اورکوئی فریب ان سے سرزد ہو تو ان کی امان باقی نہ ہوگی۔ مگر یہ کہ وہ دھوکہ کرنے والوں کو حکومت کے سپرد کردیں ورنہ وہ بھی ان کے شریک سمجھے جائیں گے۔

گواہ شد شماخ بن صرار، اساس بن جنادب، حملہ بن جوید۔( تاریخ طبری جزء ثالث صفحہ ۲۳۸)

پادری وہیری صاحب ! آ پ کہتے ہیں کہ قرآن مجید نے بائبل کی تاریخ کو بدل دیا ہے، بائبل کے بنیادی احکام کو بدل دیا۔ اگر قرآن نے ایسا سلوک کیا ہے تو انسانیت پراحسان کیا ہے کہ حضرت موسیٰ جیسے بردبار انسان کی طرف جو ظالمانہ تاریخ اور ظالمانہ احکامات بائبل نے منسوب کئے تھے ان کا تذکرہ نہیں کیا۔ قرآن اس نبی ﷺ پرنازل ہوا تھا جس نے بڑی سختی سے اپنے ہراول دستہ کے کمانڈرکو یہ حکم صادر فرمایا ۔ لکھا ہے:

’’وعلی المقدمۃ خالدؓ بن ولید فبعث رجلا فقال لخالدؓ لا تقتل إمرأۃ و لا عنیفاً‘‘۔ ( سنن ابی داؤد)

کہ حضور ﷺ کے ہراول دستہ کے کمانڈر خالد بن ولید کو آدمی بھیج کر حکم دیا کہ کسی عورت کو ، کسی مزدور کو(جو لشکر کے ساتھ ساتھ ہوتا ہے) قتل نہ کرو۔ اسی طرح فرمایا:

’’اِنْطَلِقُوا بِسْمِ اللّٰہِ وَعَلَی مِلَّۃِ رَسُوْلُ اللّٰہِ۔ لَا تَقْتُلُوا شَیْخًا فَانِیًا وَلَا طِفْلاً صَغِیْرًا وَ لَا إِمْرَأَۃً‘‘۔ ( سنن ابی داؤد)

اللہ کا نام لے کر روانہ ہو اور اللہ کے رسول ؐ کے طریق پر چلو۔ نہ کسی بڑے بوڑھے کوقتل کرو نہ کسی چھوٹے بچے کو اورنہ کسی عورت کو۔

بنی اسرائیل کے مصر سے خروج کاواقعہ

*۔۔۔ پادری وہیری صاحب کے صحائف مقدسہ کی تاریخ کا ایک اور دعویٰ جس سے قرآن مجید اختلاف کرتاہوا نظرآتا ہے یہ بنی اسرائیل کے مصر سے حضرت موسیٰ کے ساتھ نکلنے کے وقت ان کی تعداد کا ہے۔ خروج سے معلوم ہوتا ہے کہ جب بنی اسرائیل مصر سے نکل کر کنعان کی طرف روانہ ہوئے تو ان کے مردوں کی تعداد چھ لاکھ تھی۔ عورتیں اور بچے اس کے علاوہ تھے اور ایک ملی جلی بھیڑ ان کے ہمراہ تھی۔ (خروج باب ۱۲ آیات ۳۷، ۳۸)

قرآن شریف اس کے مقابل میں دعویٰ کرتا ہے کہ بنی اسرائیل کی تعداد جب وہ اپنے گھروں سے نکلے چند ہزار تھی۔ ’’ اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ خَرَجُوْا مِنْ دِیَارِھِمْ وَھُمْ اُلُوْفٌ حَذَرَالْمَوْت‘‘ (البقرہ: ۲۴۴) ۔ اب دیکھتے ہیں کہ بائبل کا بیان درست ہے یا قرآ ن مجید کا ۔ اس بارہ میں خود بائبل کا بیان ہے کہ بنی اسرائیل جب کنعان گئے تو ۷۰یا ۷۵ افراد تھے ۔اعما ل کی کتاب میں لکھا ہے:

’’ پھریوسف نے اپنے باپ یعقوب اور سارے کنبے کو جو پچھتر جانیں تھیں بلا بھیجا اور یعقوب مصر میں گیا ‘‘۔(اعمال باب ۷ آیات ۱۴، ۱۵)

’’اسرائیل کے بیٹوں کے نام جو اپنے اپنے گھرانے کو لے کر یعقوب کے ساتھ مصرمیں آئے یہ ہیں۔ روبن ، شمعون، لاوی،یہوداہ، اشکار، زبولون، بنیمین، دان، نفتالی، جد، آشر۔ اورسب جانیں جو یعقوب کے صلب سے پیدا ہوئیں ستر تھیں اوریوسف تو مصر میں پہلے ہی سے تھا‘‘۔(خروج باب ۱ آیات ۱ تا ۵) بائبل ہمیں یہ بھی بتاتی ہے کہ مصر آنے کے بعد بنی اسرائیل اس ملک میں ۴۳۰ برس تک رہے۔ چنانچہ خروج میں لکھا ہے:

’’ بنی اسرائیل کو مصر میں بودوباش کرتے ہوئے چارسو تیس (۴۳۰) برس ہوئے تھے اور ان چار سو تیس برسوں کے گزر جانے پر ٹھیک اسی روز خداوند کا سارا لشکر ملک مصر سے نکل گیا ‘‘۔(خروج باب ۱۲آیات ۴۰تا ۴۲)

پادری صاحب کیا ۴۳۰ سال میں ۷۵ افراد کا عورتوں اور بچوں کے سوا صرف مردوں کا چھ لاکھ ہو جانا قرین قیاس ہے!!!

دیکھئے انٹرپریٹرز بائبل کے مرتبین کیا کہتے ہیں:

“The adult men alone numberd six hundred thousand. It is plausible that this impossible number rets on a numerical interpretation of the Hebrew letters in the phrase “Sons of Israel” (cf.beer,exous, page 69). That the figure has no basis in fact is clear from almost every point of view. Such a large number could not have lived in Egypt or survived in the desert. Nor could they have found room in Cana’n. The actual situation is intimated by 23:29-30:Judge 5.8.” (Interpreters Bible Vol. I Page 925)

قضاۃ باب ۵ آیت ۸ کا جو حوالہ مذکورہ بالا حوالے میں مذکور ہے اس میں بنی اسرائیل کا ذکر ۴۰ ہزار کے طور پر ہے۔ Peak’s Commentary کے مرتبین لکھتے ہیں:

“There numbers, 600,000 (cf.Num.II:1) ,are impossible: a total population ofbetween two and three millions would be implied.”

(Peak’s Commentary on the Bible , General edition Matthew Blake, Page 220)

ا س بناء پراسرائیل کی یہودی حکومت کے پہلے وزیر اعظم بین گورین کے متعلق یہ خبر آئی تھی کہ انہوں نے یہ بیان دیا ہے کہ حضرت موسیٰ جب مصر سے نکلے تو ان کے ساتھ صرف ۶۰۰ مرد تھے اور اس پر یہود کی قدیم الخیال مذہبی پارٹیوں نے بڑا شور ڈالا اور وزیر اعظم کے خلاف اپنی پارلیمنٹ میں عدم اعتماد کا ووٹ پیش کیا جسے وزیراعظم نے بآسانی شکست دے دی۔

بہرحال جو نظریہ قرآن شریف نے مصر سے نکلنے والے بنی اسرائیل کی تعداد کے بارہ میں پیش کیا ہے وہی آج کے یہودی اور عیسائی علماء میں مقبول ہے اوربائبل کے نظریہ کو وہ impossible قرار دیتے ہیں۔

حضرت ہارون کے واقعات

تاریخ کے بارہ میں قرآن مجید اور بائبل کا ایک اور اختلاف حضرت ہارون علیہ السلام کے بارہ میں ہے۔

بائبل کہتی ہے کہ حضرت موسیٰ جب خدا تعالیٰ کے حضور کچھ عرصہ کے لئے پہاڑ پر تشریف لے گئے اوربنی اسرائیل میں بے چینی پیدا ہوئی تو حضرت ہارون ؑ نے بنی اسرائیل کی درخواست پر ان کے لئے ایک سونے کا بچھڑا معبود کے طورپر بنایا۔ لکھا ہے:

’’ جب موسیٰؑ نے پہاڑسے اترنے میں دیر لگائی تو وہ ہارون کے پاس جمع ہو کر کہنے لگے کہ اٹھ ہمارے لئے دیوتا بنادے جوہمارے آگے آگے چلے کیونکہ ہم نہیں جانتے کہ اس مرد موسیٰ کوجوہم کو ملک مصر سے نکال کر لایاہے کیا ہو گیا ہے۔ ہارون نے ان سے کہا تمہاری بیوی اورلڑکوں اور لڑکیوں کے کانوں میں جو سونے کی بالیاں ہیں ان کواتار کرمیرے پاس لے آؤ۔ چنانچہ سب لوگ ان کے کانوں سے سونے کی بالیاں اتاراتار کر ان کو ہارون کے پاس لے آئے اور اس نے اِن کو اُن کے ہاتھوں سے لے کر ایک ڈھالا ہوا بچھڑا بنایا جس کی صورت چھینی سے ٹھیک کی۔ تب وہ کہنے لگے اے اسرائیل یہی تیرا وہ دیوتاہے جو تجھ کو ملک مصر سے نکال کر لایا ۔ یہ دیکھ کر ہارون نے اس کے آگے ایک قربان گاہ بنائی اور اس نے اعلان کردیا کہ کل خداوند کے لئے عید ہوگی اوردوسرے دن صبح سویرے اٹھ کر انہوں نے قربانیاں چڑھائیں اور سلامتی کی قربانیاں گذرانیں۔ پھر ان لوگوں نے بیٹھ کر کھایا پیا اورا ٹھ کر کھیل کود میں لگ گئے‘‘۔( خروج باب ۳۲ آیات ۱ تا ۶)

پھر لکھا ہے:

’’ اور موسیٰ نے ہارون سے کہا ان لوگوں نے ترے ساتھ کیا کیاتھا جو تو نے ان کو اتنے بڑے گناہ میں پھنسادیا ؟ ہارون نے کہا میرے مالک کا غضب نہ بھڑکے تو ان لوگوں کو جانتا ہے کہ بدی پر تلے رہتے ہیں۔ چنانچہ انہی نے مجھ سے کہا کہ ہمارے لئے دیوتا بنا دے جو ہمارے آگے آگے چلے کیونکہ ہم نہیں جانتے کہ اس آدمی موسی کو جو ہم کو مصر سے نکال کر لایا ،کیاہو گیا۔ تب میں نے ان سے کہا کہ جس جس کے پاس سوناہو وہ اسے اتار لائے۔ پس انہوں نے اسے مجھ کو دیا اور میں نے اسے آگ میں ڈالا تو یہ بچھڑا نکل پڑا‘‘۔(خروج باب۳۲ آیات ۲۰ تا ۲۴)

یہ ہے بائبل کا بیان جو سراسر حضرت ہارون ؑ کو نعوذباللہ بچھڑا بنانے کا مجرم قرار دیتا ہے۔

اس کے مقابل پر قرآن مجید کا بیان ملاحظہ فرمائیے۔ سورۃ طٰہٰ آیات ۸۴ تا ۹۹ میں فرماتاہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ سے فرمایا۔ (ان آیات کا مفہوم یہ ہے):

’’ ہم نے کہا اے موسیٰ تم اپنی قوم کوچھوڑ کر کس لئے جلدی جلدی آ گئے ہو۔ موسیٰ نے جواب میں کہا کہ وہ لوگ میرے پیچھے آ رہے ہیں اور اے میرے رب میں اس لئے تیرے پاس جلدی سے آیا ہوں تا کہ تو خوش ہو جائے۔ خدا نے کہا ہم نے تیری قوم کو تیرے بعد ایک آزمائش میں ڈال دیا ہے اور سامری نے ان کو گمراہ کر دیا ہے۔ اس پر موسیٰ اپنی قوم کی طرف غصے سے بھرے ہوئے افسردہ لوٹ گئے اور کہا اے میری قوم کیا تمہارے رب نے تم سے ایک اچھا وعدہ نہیں کیا تھا۔ یا اس وعدہ کے پورا ہونے میں کوئی دیر ہو گئی تھی یا تم یہ چاہتے ہو کہ تم پر تمہارے رب کی طرف سے کوئی غضب نازل ہو سو تم نے میرے وعدے کو رد کر دیا۔ انہوں نے کہا ہم نے تیرے وعدے کو اپنی مرضی سے رد نہیں کیا بلکہ فرعون کی قوم کے زیورات کا جو بوجھ ہم پر لاد دیا گیاتھا اس کوہم نے پھینک دیا اور اس طرح سامری نے بھی ان کو پھینک دیا پھر اس نے ان کے لئے ایک بچھڑا تیار کیا جو محض جسم ہی تھا ۔اس سے ایک بے معنی آواز نکلتی تھی پھرانہوں نے کہا یہ تمہارا بھی اور موسیٰ کا بھی خدا ہے جو اسے بھول گیا ہے۔ مگرکیا وہ دیکھتے نہیں تھے کہ وہ بچھڑا ان کی کسی بات کا جواب نہیں دیتا تھا۔ نہ انہیں کوئی نفع نقصان پہنچا سکتا تھا۔ اورہارون نے اس سے پہلے ان سے کہہ دیا تھا کہ اے میری قوم تم کو اس بچھڑے کے ذریعے آزمائش میں ڈالا گیا ہے اور تمہارا رب تو رحمان ہے پس میری اتبا ع کرو۔ اور میراحکم مانو۔ مگر انہوں نے کہا کہ جب تک موسیٰ ہماری طرف واپس نہ آئے ہم برابر اس کی عبادت میں مشغول رہیں گے۔ جب موسیٰ واپس آئے تو انہوں نے کہا اے ہارون! جب تم نے اپنی قوم کو گمراہ ہوتے دیکھا تو تمہیں کس نے منع کیا تھا کہ تم میرے پیچھے چلے آؤ کیا تم نے میرے حکم کی نافرمانی کی۔ ہارون نے کہا اے میر ی ماں کے بیٹے میری داڑھی اور سر کے بال نہ پکڑ۔ میں تو اس بات سے ڈرتا تھا کہ تم یہ نہ کہو کہ تم نے بنی اسرائیل کو بانٹ دیا ہے۔ اور میری ہدایت کا انتظار نہیں کیا ۔ اس پر موسیٰ نے کہا اے سامری تیرا کیا معاملہ ہے۔ اس نے کہا میں نے وہ کچھ دیکھا جو ان لوگوں نے نہیں دیکھا تھا اور میں نے رسول کی باتوں میں سے کچھ تو اختیار کر لیں پھر (جب موقع آیا) تو میں نے ان ( اختیار کی ہوئی باتوں) کو بھی پھینک دیا اور میرے نفس نے یہی چیز مجھے اچھی کر کے دکھائی۔ موسیٰ نے کہا اچھا جا۔ تیری اس دنیا میں یہی سزا ہے کہ تو اس دنیا میں ہرایک سے یہی کہتارہے کہ مجھے چھوؤ نہیں۔ اور تیرے لئے ایک وقت مقرر ہے جسے تو ٹلا نہیں سکے گا۔ اور تو اپنے معبود کی طرف دیکھ جس کی تو پرستش کرتا رہتاتھا ۔ ہم اس کو جلائیں گے اور پھر اسے سمندر میں پھینک دیں گے تمہارا معبود تو صرف اللہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں وہ ہر ایک چیز کو جانتا ہے‘‘۔(سورۃ طٰہٰ)

اب پادری صاحب یہ ہیں ا یک واقعہ کے دو ورشن۔ ایک طرف بائبل کا بیان کہ سونے کا بچھڑا بنانے اور سونے کے بچھڑے کو معبود بنانے کے پہلے مجرم نعوذباللہ حضرت ہارون تھے۔

دوسری طرف قرآن مجید کا بیان کہ اس کا اصل مجرم سامری تھا اور حضرت ہارون نے اسے سختی سے منع کیا تھا مگر صرف اس ڈر سے کہ بنی اسرائیل دو حصوں میں بٹ نہ جائیں انہوں نے حضرت موسیٰ ؑ کی ہدایت کا انتظار کیا اور ایسا اقدام نہیں کیا جس سے قوم میں تفرقہ پیدا ہو جائے۔

پادری صاحب! آپ عقلی اور روحانی نقطہ نظر سے دیکھیں کہ ان میں سے کون سا بیان درست ہے ۔ کیا وہ شخص جس کو خدا نے خود ہی نبی کے طور پر چنا ہو، جس سے خود رب العالمین نے کلام کیا ہو اور فرعون جیسے جابر بادشاہ کے مقابلے کے لئے بھیجا ہو، جس کے ذریعہ خدا تعالیٰ نے زبردست نشانات ظاہر کئے ہوں کیا وہ خدا کوچھوڑ کر ایک بچھڑا بنا کر اس کی پوجا کر سکتاہے!؟؟ ۔ کیا خدا ایسے لوگوں کو اپنا نمائندہ بنا کر انسانیت کی راہنمائی کے لئے بھیج سکتا ہے جو اس سے غداری کرنے والے ہوں؟ کیا کوئی کمزور سے کمزور حاکم بھی ایسے شخص کو اپنا ایلچی بنا کر بھیجا کرتا ہے!!؟ ۔

قرآن کا بیان کیسی حکمت اور معقولیت اپنے اندر رکھتا ہے کہ نہ ہارون نے ایسا گھناؤنا جرم کیا نہ وہ اس پر راضی تھا بلکہ اس نے اس جرم کے خلاف اپنی قوم سے مجاہدہ کیا، انہیں بڑے زور سے منع کیا اور باز رکھنے کی کوشش کی۔

پادری صاحب! کیا اب بھی آپ کو شکوہ ہے کہ قرآن بائبل کی تاریخ کو ’’ بگاڑ‘‘ کر پیش کرتا ہے؟

*۔۔۔ اور ابھی بات ختم نہیں ہوئی خود بائبل سے ہی بائبل کے اس بیان کے خلاف استنباط ہو سکتا ہے۔ بائبل سے معلوم ہوتا ہے کہ بچھڑا بنانے والوں اور اس کی عبادت کرنے والوں کو حضرت موسیٰؑ نے قتل کی سزا دی اور تین ہزار افراد موت کے گھاٹ اتار دئے گئے۔ خرو ج میں لکھا ہے:

’’ جب موسیٰ نے دیکھا کہ لوگ بے قابو ہو گئے کیونکہ ہارون نے ان کو بے لگام چھوڑ کر ان کو ان کے دشمنوں کے درمیان ذلیل کر دیا تو موسیٰ نے

لشکر گاہ کے دروازے پر کھڑے ہو کر کہا جو جوخداوند کی طرف سے ہے وہ میرے پاس آ جائے۔ تب سب بنی لاوی اس کے پاس جمع ہو گئے ۔ اور اس نے ان سے کہا کہ خداوند اسرائیل کا خدا یوں فرماتا ہے کہ تم اپنی اپنی ران سے تلوار لٹکا کر پھاٹک پھاٹک گھوم گھوم کر سارے لشکر گاہ میں اپنے بھائیوں اور اپنے اپنے ساتھیوں اور اپنے اپنے پڑوسیوں کو قتل کرتے پھرو۔ اور بنی لاوی نے موسیٰ کے کہنے کے موافق عمل کیا۔ چنانچہ اس دن لوگوں میں سے قریباً تین ہزار مرد کھیت آئے۔ اورموسیٰ نے کہا کہ آج خدا وند کے لئے اپنے آپ کو مخصوص کرو بلکہ ہر شخص اپنے ہی بیٹے اوراپنے ہی بھائی کے خلاف ہو تا کہ وہ تم کو آج ہی برکت دے اور دوسرے دن موسیٰ نے لوگوں سے کہا کہ تم نے بڑا گناہ کیا اوراب میں خداوند کے پاس اوپر جاتا ہوں ۔ شاید میں تمہارے گناہ کا کفارہ دے سکوں۔ اور موسیٰ خداوند کے پاس لوٹ کر گیا اور کہنے لگا ہائے ان لوگوں نے بڑا گناہ کیا کہ اپنے لئے سونے کا دیوتا بنایا۔ اور اب اگر تو ان کا گناہ معاف کر دے تو خیر ورنہ میرا نام اس کتاب میں سے جو تونے لکھی ہے مٹادے۔ اورخداوند نے موسیٰ سے کہا کہ جس نے میرا گناہ کیا ہے میں اسی کے نام کو اپنی کتاب میں سے مٹاؤں گا۔ اب تو روانہ ہو اور لوگوں کو اس جگہ لے جا جومیں نے تجھے بتائی ہے ۔ دیکھ میرا فرشتہ تیرے آگے آگے چلے گا لیکن میں اس مطالبہ کے دن ا ن کو ان کے گناہ کی سزا دوں گا اور خداوند نے ان لوگوں میں مَری بھیجی کیونکہ جو بچھڑا ہارون نے بنایا وہ ان ہی کا بنوایا ہوا تھا‘‘۔ (خروج باب ۳۲ آیات ۲۵ تا ۳۵)

اب دیکھئے پادری صاحب! بچھڑا بنانے اور اس کی پرستش کرنے کی دو سزائیں دی گئی ۔ حضرت موسیٰ کی طرف سے قتل عام کی اور خدا تعالیٰ کی طرف سے خدا کی کتاب سے نام مٹا کر مَری کے ذریعہ موت کی۔ مگر دونوں سزاؤں سے حضرت ہارونؑ بچائے گئے جو بقول بائبل بڑے مجرم تھے ۔ جن کے کہنے پر بنی اسرائیل اپنی عورتوں اوربچیوں کے کانوں سے بالیاں تک اتار لائے تھے اور جنہوں نے آگ میں زیور ڈال کر بچھڑا بنایا تھا۔ یہ عجیب انصاف ہے کہ اصل مجرم تو بالکل محفوظ ہے اور کمتر مجرموں کو حضرت موسیٰ بھی قتل کی سزا دے رہے ہیں ( قرآن شریف کے بیان کے مطابق بچھڑا بنانے کے اصل مجرم کو قتل کی نہیں بلکہ بائیکاٹ کی سزا دی گئی) مگر ہارون کو کوئی سزا نہیں دیتے اور اللہ تعالیٰ بھی حضرت ہارونؑ کو سزا نہیں دیتا جبکہ ثانوی مجرموں کو مَری کے ذریعہ ہلاک کرتا ہے۔ معلوم ہوا کہ حضرت ہارون ؑ نے جیسا کہ قرآن کہتا ہے اس جرم کا ارتکاب کیا ہی نہیں تھا تبھی وہ دونوں سزاؤں سے بچائے گئے اور پھر نہ صرف یہ کہ و ہ سزاؤں سے بچائے گئے ان کو خدا کے حضور معزّز اور بنی اسرائیل میں ایک بلند مقام ایک باعزت مرتبہ دیا گیا اور خیمہ اجتماع جو قبلہ کی حیثیت رکھتا تھا تیار کر کے اس کی خدمت اور نگہبانی کا اعزاز ہارون اور ان کی اولاد کو دیا گیا۔ چنانچہ لکھا ہے کہ خدا تعالیٰ نے موسیٰ سے کہا :

’’اور تو سوختنی قربانی کے مذبح اور اس کے سب ظروف کو مسح کر کے مذبح کو مقدس کرنا اور مذبح نہایت ہی مقدس ٹھہرے گا اور تو حوض اور اس کی کرسی کو بھی مسح کر کے مقدس کرنا۔ اور ہارون اور اس کے بیٹوں کو خیمہ اجتماع کے دروازہ پر لا کر ا ن کو پانی سے غسل دلانا اور ہارون کو مقدس لباس پہنانا اور اسے مسح اور مقدس کرنا تا کہ وہ میرے لئے کاہن کی خدمت کوا نجام دے ۔اور اس کے بیٹوں کو لا کر ان کو کرتے پہنانا اورجیسے ان کے باپ کو مسح کرے ویسے ہی ان کو بھی مسح کرنا تاکہ وہ میرے لئے کاہن کی خدمت کو انجام دیں۔ اور ان کا مسح ہونا ان کے لئے نسل در نسل ابدی کہانت کا نشان ہوگا۔ اور موسیٰ نے سب کچھ جیسا خداوند نے اس کو حکم کیا تھا اسی کے مطابق کیا‘‘۔(خروج باب ۴۰ آیات ۱۰ تا ۱۵)

دیکھئے حضرت ہارونؑ کوکتنا بڑا اعزاز ملا اور ان کے طفیل تا قیامت ان کی اولاد کوبھی۔ کیا یہ تصور ممکن ہے کہ بچھڑا بنانے کے اصل مجرم کو تو یہ اعزاز دیا جائے اور کم ترمجرموں کو قتل کی سزا دی جائے یا مَری کے ذریعہ ہلاک کیا جائے۔

پس بات وہی ہے جو قرآن نے کہی تھی کہ ہارون نے شرک نہیں کیا بلکہ شرک سے منع کیا اور قرآن نے بائبل کی تاریخ کو بگاڑا نہیں بلکہ اس کی تصحیح کی ۔

اس ضمن میں ایک اور اختلاف بھی بائبل اور قرآن میں پایا جاتا ہے ۔ جب حضرت موسیٰ کی غیر موجودگی میں بنی اسرائیل نے بچھڑا بنایا تو اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کو اس کی اطلاع دی ۔ اس سے قبل اللہ تعالیٰ حضرت موسیٰ ؑ کو خود اپنے ہاتھ سے تختیوں پر شریعت کے بنیادی احکامات لکھ کر دے چکا تھا۔ حضرت موسیٰ ان تختیوں کو لے کر نیچے اترے اور قوم کو بچھڑے کے فتنہ میں مبتلا دیکھا تو ا نہوں نے اللہ تعالیٰ کے ہاتھ کی لکھی ہوئی دونوں تختیاں توڑ ڈالیں ۔ لکھا ہے:

’’ اور موسیٰ شہادت کے دونو لوحیں ہاتھ میں لئے ہوئے الٹا پھرا اور پہاڑ سے نیچے اترا اور وہ لوحیں اِدھر سے اور اُدھر سے وونوں طرف سے لکھی ہوئی تھیں۔ اور وہ لوحیں خدا ہی کی بنائی ہوئی تھیں اور جو لکھا ہوا تھا وہ بھی خدا ہی کا لکھا اوران پر کندہ کیا ہوا تھا۔ اور جب یشوع نے لوگوں کی للکار کی آواز سنی تو موسیٰ سے کہا کہ لشکر گاہ میں لڑائی کا شور ہو رہا ہے۔ موسیٰ نے کہا یہ آواز تو فتح مندوں کا نعرہ ہے نہ مغلوب کی فریاد۔ بلکہ مجھے تو گانے والوں کی آواز سنائی دیتی ہے اور لشکر گاہ کے نزدیک آ کر اس نے وہ بچھڑا اور ان کا ناچنا دیکھا۔ تب موسیٰ کا غضب بھڑکا اور اس نے ان لوحوں کو اپنے ہاتھوں سے پٹک دیا اور ان کو پہاڑ کے نیچے توڑ ڈالا‘‘۔(خروج باب ۳۲ آیات ۱۵ تا ۲۰)

یہ ہے بائبل کا بیان ۔ اور قرآن فرماتا ہے:

(وَلَمَّا رَجَعَ مُوْسٰی اِلَی قَوْمِہٖ غَضْبَانَ اٰسِفاً قَالَ بِئْسَمَا خَلَفْتُمُوْنِیْ مِنْ بَعْدِی اَعَجِلْتُمْ اَمرَ رَبّکُمْ وَاَلْقَی الْاَلْوَاحَ۔۔۔۔۔۔ وَلَمََّا سَکَتَ عَن مُوْسیٰ الْغَضَبُ اَخَذَ الْاَلْوَاحَ وَ فِی نُسْخَتِھَا ھُدًی وَّرَحْمَۃٌ لِلَّذینَ ھُمْ لِرَبّھِمْ یَرْھَبُوْن)( سورۃ الاعراف :۱۵۱ تا ۱۵۵)

کہ جب موسی اپنی قوم کی طرف غصہ اور افسوس سے بھرا ہوا لوٹا تو اس نے کہا میرے بعد جو تم نے میری نمائندگی کی وہ بہت بری تھی ۔ کیا تم نے اپنے رب کے حکم کے معاملہ میں جلدی کی اس وقت موسیٰ نے وہ تختیاں رکھ دیں ۔۔۔ پھر جب موسیٰ کا غصہ ٹھنڈا ہوا تو اس نے وہ تختیاں جن پر احکام الٰہی لکھے ہو ئے تھے پھر اٹھالیں تو ان کے لئے جو اپنے رب سے خوف کرتے ہیں ان تختیوں کی تحریر میں رحمت اور ہدایت موجود تھی۔

دیکھئے پادری صاحب! بائبل اور قرآن کے بیان میں جوفرق ہے کس طرح عقل اور فطرت قرآنی بیان کی تصدیق کرتی ہے۔ موسیٰ خدا کے نبی تھے ۔ خدا کوان سے اور ان کو خدا سے بے حد پیار تھا۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ حضرت موسیٰ اپنے پیارے کے ہاتھ کی بنی ہوئی اس کے ہاتھ کی تراشی ہوئی اور اس کے ہاتھ کی لکھی ہوئی الواح کے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالتے ۔ کیا دنیا کے عاشق بھی اپنے محبوب کا تحفہ سنبھال سنبھال کر نہیں رکھتے ؟ کیا حضرت موسیٰ کو خدا نے خود اپنے پیغام کے لئے نہیں چنا تھا اور ان کے لئے عظیم الشان نشان اور ہیبت ناک معجزے نہیں دکھائے تھے۔ قرآن کا بیان کیسا سچا ہے کہ جب حضرت موسیٰ نیچے اترے تو قوم فتنہ میں مبتلا تھی اور اس مقام سے بھی نیچے گر چکی تھی جس میں حضرت موسیٰ ان کو چھوڑ کر گئے تھے۔ لہذا حضرت موسیٰ نے نیا پروگرام وقتی طور پر رکھ چھوڑا اور پہلے فتنہ کا اپنی دعا اورجلال کے ذریعہ مقابلہ کیا۔ پھر جب وہ فتنہ ختم ہو گیا اور مزید جلالی سلوک کی ضرورت نہ رہی تو انہوں نے وہ الواح واپس اٹھا کر ان کی تعلیم کے مطابق رحمت و ہدایت کا کام شروع کیا۔

حضرت موسیٰؑ بائبل کے ہیرو ہیں اور آپ پادری قرآن کو بنی اسرائیل کا دشمن سمجھتے ہیں۔ مگر عجیب بات ہے کہ بائبل حضرت موسیٰ پر مکروہ داغ لگاتی ہے اور قرآن اس داغ کو دھوتا ہے۔

حضرت سموئیل کے واقعات

حضرت موسیٰؑ اور ہارون ؑ کے عرصہ بعد بائبل اور قرآن مجید نے ایک نبی کے ذریعہ جس کا نام بائبل سموئیل بتاتی ہے بنی اسرائیل کے منتشر قبائل پر ایک بادشاہ کے ذریعہ ایک مرکزی حکومت کے قیام کا ذکرکیا ہے تا کہ بیرونی حملہ آوروں کا جو بکھرے ہوئے بنی اسرائیل کے بارہ قبائل پر حملہ آور تھے مقابلہ کیا جائے ۔ چنانچہ سموئیل کی کتاب میں لکھا ہے:

’’ تب سب اسرائیلی بزرگ جمع ہو کر رامہ میں سموئیل کے پاس آئے اوراس سے کہنے لگے دیکھ تو ضعیف ہے اور تیرے بیٹے تیری راہ پرنہیں چلتے ۔ اب تو کسی کو ہمارا بادشاہ مقررکردے جو اور قوموں کی طرح ہماری عدالت کرے ۔ (۱۔سموئیل باب ۸ آیات ۴ تا ۶)۔ سموئیل نے جب اس درخواست پر کچھ انقباض کا اظہار کیا تو انہوں نے کہا: ’’ ہم تو بادشاہ چاہتے ہیں جو ہمارے اوپر ہوتا کہ ہم بھی اور سب قوموں کی مانند ہوں اور ہمارا بادشاہ ہماری عدالت کرے اور ہمارے آگے آگے چلے اور ہماری طرف سے لڑائی کرے اور سموئیل نے لوگوں کی سب باتیں سنیں اور ان کو خداوند کے کانوں تک پہنچایا۔ اور خداوند نے سموئیل کو فرمایا تو ان کی بات مان اور ان کے لئے ایک بادشاہ مقرر کر ۔(۱۔سموئیل باب ۸ آیات ۱۹ تا ۲۲)

پھر اس کتاب کے باب ۱۰میں لکھا ہے:

’’ سموئیل نے تیل کی کپی لی اور اس( ساؤل) کے سر پرانڈیلی اور اسے چوما اورکہا کہ کیا یہی بات نہیں کہ خداوند نے تجھے مسح کیا تاکہ تو اس کی میراث کا پیشوا ہو ‘‘۔(۱۔ سموئیل باب ۱۰ آیت ۱ تا ۲)

پھر سموئیل نے ساؤل سے کہا : ’’ خداوند کی روح تجھ پرزور سے نازل ہو گی اور تو ان کے ساتھ نبوت کرنے لگے گا۔ اور بدل کر اورہی آدمی ہو جائے گا‘‘۔(۱۔ سموئیل باب ۱۰ آیت ۶)

پھر سموئیل نے باقاعدہ ساؤل کے خدا تعالیٰ کے انتخاب کے مطابق بادشاہ ہونے کی تقریب منعقد کی ۔ چنانچہ لکھا ہے : ’’ جب وہ لوگوں کے درمیان کھڑا ہوا تو ایسا قدآور تھا کہ لوگ اس کے کندھے تک آتے تھے اور سموئیل نے ان لوگوں سے کہا تم اسے دیکھتے ہو جسے خداوند نے چن لیا کہ ا س کی مانند سب لوگوں میں سے ایک بھی نہیں؟ تک سب لوگ للکار کر بول اٹھے کہ بادشاہ جیتا رہے‘‘۔(ا۔ سموئیل باب ۱۰ آیات ۲۳ ، ۲۴)

مگر بائبل کہتی ہے کہ ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا ، ابھی سموئیل زندہ تھا کہ ساؤل حددرجہ بگڑ گیا ۔ لکھا ہے:

’’ تب خداوند کا کلام سموئیل کو پہنچا کہ مجھے افسوس ہے کہ میں نے ساؤل کو بادشاہ ہونے کے لئے مقرر کیا کیونکہ وہ میری پیروی سے پھر گیا ہے اور اس نے میرے حکم نہیں مانے‘‘۔(۱۔ سموئیل باب ۱۵ آیت ۱۱)

پھر لکھا ہے:’’ خداوند کی روح ساؤل سے جدا ہو گئی اور خداوند کی طرف سے ایک بری روح اسے ستانے لگی‘‘۔ (۱۔ سموئیل باب ۱۶ آیت ۱۴)

یہ کمال ہے بائبل کی تاریخ دانی کا کہ بنی اسرائیل کے بارہ قبال سموئیل سے درخواست کرتے ہیں کہ چونکہ آپ ضعیف ہو چکے ہیں اس لئے ہم پر بادشاہ مقرر کر دیں ۔ سموئیل نے خود بادشاہ مقرر نہیں کیا بلکہ خدا تعالیٰ کے حضور عرض کیا اور خدا تعالیٰ نے خود ساؤل کو بادشاہ مقرر کیا۔ مگر ابھی سموئیل زندہ ہی تھے کہ ساؤل بگڑ گیا اوراس نے خداتعالیٰ کی نافرمانی اختیار کی اور بری روح اس کو ستانے لگی اور نعوذباللہ خدا تعالیٰ پچھتایا اور اس نے کہا مجھے ساؤل کو بادشاہ بنانے پر افسوس ہے۔

یہ تصور ہے پادری وہیری صاحب! آپ کی کتب مقدسہ کا عالم الغیب رب العالمین خدا کے متعلق کہ گویا اس نے خود ہی ایک غلط آدمی کا تقررکیا اور پھر اس پرافسوس کا اظہار کیا ۔گویاخداتعالیٰ کو آئندہ کا علم ہی نہیں تھا۔ اور اس نے نعوذباللہ اپنی لاعلمی کی بناء پر غلط آدمی کا ا نتخاب کیا ۔ یہ ہے پادری صاحب آپ کی کتاب مقدس کا بیان جس کی تصحیح پر آپ قرآن شریف کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں۔

اب سنئے قرآن کیا کہتا ہے ۔ملاحظہ ہو ں سورہ البقرہ کی آیات ۲۴۷ تا ۲۵۷۔ان آیات کریمہ کا مفہوم یہ ہے کہ:

’’ کیا تمہیں بنی اسرائیل کے ان سرکردہ لوگوں کا حال معلوم نہیں جو موسیٰؑ کے بعد گز رے ہیں جب انہوں نے اپنے ایک نبی سے کہا ہمارے لئے کوئی شخص بادشاہ کے طور پر مقرر کیجئے تا کہ ہم اسکے ماتحت ہو کراللہ کی راہ میں جنگ کریں ۔ اس نے کہا کہیں ایسا تونہیں ہوگا کہ اگر تم پر جنگ فرض کی جائے تو تم جنگ نہ کرو۔ انہوں نے کہا ایسا نہیں ہوگا۔ ہمیں کیا ہوگیا ہے کہ ہم اللہ کی راہ میں جنگ نہ کریں گے حالانکہ ہمیں اپنے گھروں سے نکالا گیا ہے اور اپنے بچوں سے جداکیا گیا ہے۔ مگر جب ان پرجنگ فرض کی گئی تو ان میں سے ایک چھوٹی سی جماعت کے سوا باقی سب پھر گئے اور اللہ ظالموں کو خوب جانتا ہے۔ اور ان کے نبی نے ان سے کہا کہ اللہ نے تمہارے لئے طالوت کو بادشاہ بنا کر اس کام کے لئے کھڑا کیا ہے۔ انہوں نے کہا اسے ہم پر حکومت کس طرح مل سکتی ہے جبکہ ہم اس کی نسبت حکومت کے زیادہ حق دار ہیں اور اسے مالی فراخی بھی کوئی ایسی زیادہ عطا نہیں ہوئی۔ اس نے کہا اللہ نے اسے تم پر یقیناً فضیلت دی ہے اور اسے علمی اورجسمانی لحاظ سے فراخی عطا فرمائی ہے اور اللہ جسے پسند کرتا ہے اسے اپنا ملک عطاکرتا ہے اور اللہ کشائش دینے والا اور بہت جاننے والا ہے۔ اور ان کے نبی ؑ نے ان سے کہا کہ اس کی حکومت کی دلیل یہ بھی ہے کہ تمہیں ایک ایساتابوت ملے گا جس میں تمہارے رب کی طرف سے تسکین ہوگی اوراس چیز کا بقیہ ہوگا جو موسیٰؑ کے متبعین اور ہارون ؑ کے متبعین نے پیچھے چھوڑا ۔فرشتے اسے اٹھائے ہوئے ہونگے ۔ اگر تم مومن ہو تو اس بات میں تمہارے لئے یقیناً ایک بڑا نشان ہے۔ پھر طالوت اپنی فوجوں کو لے کر نکلا تو اس نے کہا اللہ ایک ندی کے ذریعہ سے تمہارا امتحان لینے والا ہے پس جس نے اس ندی سے پیٹ بھر کر پانی پی لیا وہ مجھ سے وابستہ نہیں رہے گا سوائے اس کے جس نے اپنے ہاتھ سے ایک چلو بھر پی لیا ۔پھرہوا یہ کہ ان میں سے تھوڑے سے لوگو ں کے سوا سب نے اس میں سے پانی پی لیا پھر جب وہ خود اور نیز وہ لوگ جواس کے ساتھ ایمان لائے تھے اس ندی سے پار اتر گئے تو لوگوں نے کہا کہ آج ہم میں جالوت اور اس کے لشکر وں کے مقابلہ کی بالکل طاقت نہیں مگرجو لوگ یقین رکھتے تھے کہ وہ ایک دن اللہ سے ملنے والے ہیں انہوں نے کہا کہ اے ہمارے رب بہت سی چھوٹی جماعتیں اللہ کے حکم سے بڑی جماعتوں پرغالب آچکی ہیں اوراللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ اورجب و ہ جالوت اوراس کی فوجوں کے مقابلہ کے لئے نکلے تو انہوں نے کہا اے ہمارے رب ہمیں صبر اوراستقلال عطا فرما اورہمارے قدم جمائے رکھ اور ان کافروں کے خلاف ہماری مدد کر اور انہوں نے اللہ کے حکم سے دشمنوں کو شکست دی اور جالوت کا خاتمہ داؤد ؑ نے کیا اور اللہ نے اسے حکومت اور حکمت بخشی اور جو کچھ اللہ کو منظور تھا اس کا علم اللہ نے داؤد کو عطا کیا۔ اور اگراللہ بعض انسانوں کو شرارت سے دوسرے انسانوں کے ذریعہ نہ روکتا تو زمین تہہ و بالا ہو جاتی لیکن اللہ تمام جہانوں پر بڑافضل کرنے والا ہے۔ یہ اللہ کی آیات ہیں جنہیں ہم تمہیں پڑھ کرسناتے ہیں اس حالت میں کہ تم حق پر قائم ہو اور تم یقیناً رسولوں میں سے ہو‘‘۔

یہ ہے بیان قرآن مجید کا ۔ اب پادری صاحب !اس اشتراک اور اختلاف کو نوٹ کیجئے جو قرآن اور بائبل میں ہے۔ قرآن اور بائبل دونوں ا س بات پر متفق ہیں کہ حضرت موسیٰؑ کے بعد بنی اسرائیل پر ایک ایسا دور آیا کہ مضبوط مرکزی راہنما موجود نہ ہونے کی وجہ سے بیرونی حملے زور پکڑگئے اور ضرورت محسوس ہوئی ایک مضبوط شخصیت کی جو ان کے مقابلہ میں قیادت کے فرائض سرانجام دے۔ قرآن اور بائبل دونوں اس بات پر متفق ہیں کہ خداتعالیٰ نے اس نبی کی معرفت ایک بادشاہ مقرر کیا اس کے بعد قرآن کہتا ہے کہ اس راہنما نے نہایت مشکل حالات میں مجاہدانہ انداز اختیار کرتے ہوئے دنیوی نعماء سے منہ موڑ کر بھاری تعداد میں دشمن پر غلبہ پا لیا اور اسے شکست دی۔ مگر بائبل کہتی ہے کہ بادشاہ اگر چہ خدا تعالیٰ نے مقرر کیا تھا اور اس کا مقصد

زیادہ تر یہ تھا کہ سموئیل نبی کے بعد قیادت میں خلاء نہ پیدا ہو مگر وہ جسے خدا تعالیٰ نے مقرر کیا تھا بگڑ گیا اور بدروح اس کو ستانے لگی اور اس نے خدا تعالیٰ کی نافرمانی کی ا ور خدا تعالیٰ نے افسوس کیا کہ اس نے ایسا بادشاہ مقرر فرمایا۔

بتائیے پادری صاحب ! عقل اور روحانیت کے لحاظ سے خدا تعالیٰ کی مقدس صفات کو مدنظر رکھتے ہوئے قرآن کا بیان زیادہ صحیح ہے یا بائبل کا۔ کیا آپ اب بھی یہ کہیں گے کہ قرآن نے بائبل کے تاریخی بیانات کی تصحیح کر کے نعوذباللہ اپنے افتراء ہونے کی گواہی مہیا کی ہے!!

حضرت داؤدعلیہ السلام کے واقعات

حضرت داؤدعلیہ السلام کے بارے میں بھی قرآن مجید اور بائبل کے بیانات اشتراک اور اختلاف رکھتے ہیں۔ ایک طرف بائبل حضرت داؤدؑ کو خدا کا مقرب او ر خداکی طرف سے مقرر کردہ اور ساؤل کے مقابلہ میں سموئیل نبی کی معرفت خدا کا ممسوح کہتی ہے اور دوسری طرف نہایت گندے اور ناپاک الزام حضرت داؤد ؑ پر عائد کرتی ہے۔ چنانچہ حضرت داؤد ؑ کے خدا کے ممسوح کئے جانے کے بارے میں لکھا ہے:

’’سموئیل نے یسّی سے پوچھا تیرے سب لڑکے یہی ہیں؟ اس نے کہا سب سے چھوٹا ابھی رہ گیاہے وہ بھیڑ بکریاں چراتا ہے۔ سموئیل نے یسّی سے کہا اسے بلا بھیج کیونکہ جب تک وہ یہاں نہ آ جائے ہم نہیں بیٹھیں گے ۔ سو وہ اسے بلواکر اندر لایا۔ وہ سرخ رنگ اور خوبصورت اور حسین تھا او ر خداوند نے فرمایا اٹھ اور اسے مسح کر کیونکہ وہ یہی ہے۔ تب سموئیل نے تیل کا سینگ لیا اور اسے اس کے بھائیوں کے درمیان مسح کیا اور خداوند کی روح اس دن سے آگے کو داؤد پر زور سے ناز ل ہوتی رہی‘‘۔(۱۔ سموئیل باب ۱۶ آیات ۱۱ تا ۱۳)

اور اس کتاب میں تفصیل سے اس عظیم الشان واقعہ کا ذکر ہے جس میں حضرت داؤد ؑ نے جو ابھی چھوٹے سے لڑکے تھے دشمنوں کے زبردست پہلوان جولیت کو جس کے سامنے سے سب اسرائیلی مرد بھاگتے تھے اور ڈرتے تھے محض اپنی غلیل کے پتھر کے ذریعہ ہلاک کیا ۔ پھر لکھاہے:

’’ داؤد اپنی سب راہوں میں دانائی کے ساتھ چلتا تھا اور خداوند اس کے ساتھ تھا‘‘۔ (ا۔ سموئیل باب ۱۸ آیت ۱۴)

اور حضرت داؤ د کا اپنے رب کے حضور یہ پیارا نغمہ بھی بائبل نے درج کیا ہے۔

’’ خداوند میری چٹان اور میرا قلعہ اور میرا چھڑانے والا ہے۔ خدا میری چٹان ہے ۔ میں اسی پر بھروسہ رکھوں گا ۔ وہی میری سپر اورمیری نجات کا سینگ ہے۔ میرا اونچا برج اور میری پناہ ہے۔ میرے نجات دینے والے تو ہی مجھے ظلم سے بچاتاہے میں خداوند کو جو ستائش کے لائق ہے پکاروں گا یوں میں اپنے دشمنوں سے بچایا جاؤں گا کیونکہ موت کی موجوں نے مجھے گھیرا۔ بے دینی کے سیلابوں نے مجھے ڈرایا۔ پاتال کی رسیاں میرے چوگرد تھیں۔ موت کے پھندے مجھ پر آ پڑے تھے ۔ اپنی مصیبت میں ،مَیں نے خداوند کو پکارا۔ میں اپنے خدا کے حضور چلّایا۔ اس نے اپنی ہیکل میں میری آواز سنی اور میری فریاد اس کے کان میں پہنچی۔ تب زمین ہل گئی اور کانپ اٹھی اور آسمان کی بنیادوں نے جنبش کھائی اور ہل گئیں۔ اس لئے کہ وہ غضبناک ہوا۔۔۔ خداوند آسمان سے گرجا اور حق تعالیٰ نے اپنی آواز سنائی۔۔۔ اس نے اوپر سے ہاتھ بڑھا کر مجھے تھام لیا۔ اور مجھے بہت پانی سے کھینچ کر باہر نکالا۔ اس نے میرے زورآور دشمن اور میرے عداوت رکھنے والوں سے مجھے چھڑا لیا کیونکہ وہ میرے لئے نہایت زبردست تھے۔ وہ میری مصیبت کے دن مجھ پر آ پڑے پر خداوند میرا سہارا تھا۔ وہ مجھ کو کشادہ جگہ میں نکال بھی لایا۔ اس نے مجھے چھڑایا اس لئے کہ وہ مجھ سے خوش تھا۔ خداوند نے میری راستی کے موافق مجھے جزا دی اور میرے ہاتھوں کی پاکیزگی کے مطابق مجھے بدلہ دیا۔ کیونکہ میں خداوند کی راہوں پر چلتا رہا اور شرارت سے اپنے خدا سے الگ نہ ہوا۔ کیونکہ اس کے سارے فیصلے میرے سامنے تھے ۔ اور میں اس کے آئین سے برگشتہ نہ ہوا۔ میں اس کے حضور کامل بھی رہا اور اپنی بدکاری سے باز رہا۔ اسی لئے خداوند نے مجھے میری راستی کے موافق بلکہ میری اس پاکیزگی کے مطابق جو اس کی نظر کے سامنے تھی بدلہ دیا۔ رحم دل کے ساتھ تو رحیم ہوگا اور کامل آدمی کے ساتھ کامل۔نیکوکار کے ساتھ نیک ہوگا اور کجرو کے ساتھ ٹیڑھا۔ مصیبت زدہ لوگوں کو تو بچائے گا۔ پر تیری آنکھیں مغروری پر لگی ہیں تا کہ تو انہیں نیچا کرے ۔ کیونکہ اے خداوند! تو میرا چراغ ہے اور خداوند میرے اندھیرے کو اجالا کرے گا کیونکہ تیری بدولت میں فوج پر دھاوا کرتا ہوں اور اپنے خدا کی بدولت دیوار پھاند جاتا ہوں۔ لیکن خدا کی راہ کامل ہے۔ خدا وند کا کلام تایا ہوا ہے۔ وہ ان سب کی سپر ہے جو اس پر بھروسہ رکھتے ہیں۔ کیونکہ خداوند کے سوااور کو ن خداہے؟ اور ہمارے خدا کو چھوڑ کر اورکو ن چٹان ہے ؟ خدا میرا مضبوط قلعہ ہے ۔ وہ اپنی راہ میں کامل شخص کی رہنمائی کرتا ہے۔ وہ اس کے پاؤں ہرنیوں کے سے بنا دیتاہے۔ وہ مجھے میری اونچی جگہوں میں قائم کرتا ہے۔ وہ میرے ہاتھوں کو جنگ کرنا سکھاتاہے۔ یہاں تک کہ میرے بازو پیتل کی کمان کوجھکا دیتے ہیں تو نے مجھ کو اپنی نجات کی سپر بھی بخشی اور تیری نرمی نے مجھے بزرگ بنایا ہے ۔ تونے میرے نیچے میرے قدم کشاد ہ کردئے اور میرے پاؤں نہیں پھسلے۔ میں نے اپنے دشمنوں کا پیچھا کر کے ان کو ہلاک کیا اور جب تک وہ فنا نہ ہو گئے میں واپس نہیں آیا۔۔۔ تو نے مجھے میری قوم کے جھگڑوں سے بھی چھڑایا۔ تونے مجھے قوموں کا سردار ہونے کے لئے رکھ چھوڑ ا ہے۔ جس قوم سے میں واقف بھی نہیں وہ میری مطیع ہوگی۔۔۔ اس لئے اے خداوند ! میں قوموں کے درمیان تیری شکر گزاری اور تیرے نام کی مدح سرائی کروں گا۔ وہ اپنے بادشاہ کو بڑی نجات عنائت کرتا ہے اور اپنے ممسوح داؤد اور اس کی نسل پر ہمیشہ شفقت کرتا ہے‘‘۔ (۲۔ سموئیل باب ۲۲ آیات ۲ تا ۵۱)

اور حضرت داؤد کے انجام کے متعلق ۲۔ سموئیل باب ۲۳ میں لکھا ہے:

’’ داؤد کی آخری باتیں یہ ہیں۔ داؤد بن یسّی کہتا ہے یعنی یہ اس شخص کا کلام ہے جو سرفرا ز کیا گیا۔ اور یعقوب کے خدا کا ممسوح اور اسرائیل کا شیریں نغمہ ساز ہے۔ خداوند کی روح نے میر ی معرفت کلام کیا اوراس کا سخن میری زبان پر تھا۔ اسرائیل کے خدا نے فرمایا اسرائیل کی چٹان نے مجھ سے کہا ۔ایک ہے جو صداقت سے لوگوں پرحکومت کرتا ہے ۔ جو خدا کے خوف کے ساتھ حکومت کرتا ہے۔ وہ صبح کی روشنی کی مانند ہوگا جب سورج نکلتاہے۔ ایسی صبح جس میں بادل نہ ہوں۔ جب نرم نرم گھاس زمین میں سے بارش کے بعد کسی صاف چمک کے باعث نکلتی ہے۔ میرا گھر تو سچ مچ خدا کے سامنے ایسا ہے بھی نہیں۔ تو بھی اس نے میرے ساتھ ایک دائمی عہد جس کی سب باتیں معین اور پائیدار ہیں باندھا ہے۔ کیونکہ یہی میری ساری نجات اور ساری مراد ہے گو و ہ اس کو بڑھاتا نہیں ۔ (۲۔ سموئیل باب ۲۳ آیات ۱ تا ۵)

یہ ہے حضرت داؤد ؑ کے حسن و احسان کا نغمہ جو ایک طرف بائبل گاتی ہے اور ان باتوں کواس کی آخری باتیں قرار دیتی ہے۔

*۔۔۔اب دیکھئے کہ بائبل کس طرح آسمان سے زمین پر گرتی ہے اور نعوذباللہ حضرت داؤد کو بھی گرانے کی کوشش کرتی ہے ۔ لکھا ہے:

’’ اور شام کے وقت داؤد اپنے پلنگ پر سے اٹھ کر بادشاہی محل کی چھت پر ٹہلنے لگا اور چھت پر سے اس نے ایک عورت کو دیکھا جو نہا رہی تھی اوروہ عورت نہایت خوبصورت تھی ۔ تب داؤد نے لوگ بھیج کر اس عورت کا حال دریافت کیا اور کسی نہ کہا کیا وہ العام کی بیٹی بت سبع نہیں جو حتّی اوریاہ کی بیوی ہے؟ اور داؤد نے لوگ بھیج کر اسے بلا لیا۔ وہ اس کے پاس آئی اور اس نے اس کے ساتھ صحبت کی( کیونکہ وہ اپنی ناپاکی سے پاک ہو چکی تھی) پھر وہ اپنے گھر کو چلی گئی اور وہ عورت حاملہ ہوگئی۔ سو اس نے داؤد کے پاس خبر بھیجی کہ میں حاملہ ہوں اورداؤد نے یوآب کو کہلا بھیجا کہ حِتّی اور یاہ کو میرے پاس بھیج دے۔ سو یوآب نے اوریاہ کو داؤد کے پاس بھیج دیا اور جب اوریاہ آیا تو داؤد نے پوچھا کہ یوآب کیساہے۔ اور لوگوں کا کیا حال ہے اور جنگ کیسی ہو رہی ہے؟ پھر داؤد نے اوریاہ سے کہا کہ اپنے گھر جا اور اپنے پاؤں دھو اور او ریاہ بادشاہ کے محل سے نکلا اور بادشاہ کی طرف سے اس کے پیچھے پیچھے ایک خوان بھیجا گیا ۔ پھر اوریاہ بادشاہ کے گھر کے آستانہ پراپنے مالک کے اور سب خادموں کے ساتھ سویا اور اپنے گھر نہ گیا۔ اورجب انہوں نے داؤد کو یہ بتایا کہ اوریاہ اپنے گھر نہیں گیا تو داؤد نے اوریاہ سے کہا کیا تو سفر سے نہیں آیا؟ پس تو اپنے گھر کیوں نہ گیا ؟ اوریاہ نے داؤد سے کہا کہ صندوق اور اسرائیل اور یہوداہ جھونپڑیوں میں رہتے ہیں اور میرامالک یوآب اور میرے مالک کے خادم کھلے میدان میں ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں تو کیا میں اپنے گھر جاؤں اور کھاؤں پیوں اور اپنی بیوی کے ساتھ سوؤں؟ تیری حاجت اور تیری جان کی قسم مجھ سے یہ بات نہ ہوگی۔پھرداؤد نے اوریاہ سے کہا کہ آ ج بھی تو یہیں رہ جا کل میں تجھے روانہ کروں گا۔ سو اوریاہ اس دن بھی اور دوسرے دن بھی یروشلم میں رہا اور جب داؤد نے اسے بلایا تو اس نے اس کے حضور کھایا پیا اور اس نے اسے پلا کر متوالا کیا اور شام کو وہ باہر جا کر اپنے مالک کے خادموں کے ساتھ اپنے بستر پر سو رہا پر اپنے گھرکو نہ گیا۔صبح کو داؤد نے یوآب کے لئے ایک خط لکھا او ر اسے اوریاہ کے ہاتھ بھیجا ۔ اور اس نے خط میں یہ لکھا کہ اوریاہ کو گھمسان میں سب سے آگے رکھنا اور تم اس کے پاس سے ہٹ جانا تا کہ وہ مارا جائے اور جان بحق ہو۔ اور یوں ہوا کہ جب یوآب نے اس شہر کا ملاحظہ کر لیا تو اس نے اوریاہ کو ایسی جگہ رکھا جہاں وہ جانتاتھا کہ بہادر مرد ہیں۔ اوراس شہرکے لوگ نکلے او ر یوآب سے لڑے اور وہاں داؤد کے خادموں میں سے تھوڑے سے لوگ کا م آئے اور حِتّی اوریاہ بھی مر گیا۔ تب یوآب نے آدمی بھیج کر جنگ کا سب حال داؤد کو بتایا اوراس نے قاصد کو تاکید کر دی کہ جب تو بادشاہ سے جنگ کا سب حال عرض کر چکے تب اگر ایسا ہو کہ بادشا ہ کو غصہ آ جائے اور وہ تجھ سے کہنے لگے کہ تم لڑنے کو شہر کے ایسے نزدیک کیوں چلے گئے؟ کیا تم نہیں جانتے تھے کہ وہ دیوار پر سے تیر ماریں گے۔ یُربسّت کے بیٹے ابِیملک کو کس نے مارا؟ کیا ایک عورت نے چکی کا پاٹ دیوار پر سے اس کے اوپر ایسا نہیں پھینکا کہ وہ تیبض میں مر گیا ؟ سو تم شہر کی دیوار کے نزدیک کیوں گئے ؟ تو پھر تو کہنا کہ تیرا خادم حتی اور یاہ بھی مر گیاہے۔ سو وہ قاصد چلا اور آ کر جس کام کے لئے یوآب نے اسے بھیجا تھا وہ سب داؤد کو بتایا۔ اور اس قاصد نے داؤ د سے کہا کہ وہ لوگ ہم پر غالب ہوئے اورنکل کر میدان میں ہمارے پاس آ گئے۔پھر ہم ان کو رگیدتے ہوئے پھاٹک کے مدخل تک چلے گئے۔ تب تیر اندازوں نے دیوار پر سے تیرے خادموں پر تیر چھوڑے ۔ سو بادشاہ کے تھوڑے سے خادم بھی مرے اور تیرا خادم اوریاہ بھی مر گیا۔ تب داؤد نے قاصد سے کہا کہ تو یُو آب سے یوں کہنا کہ تجھے اس بات سے ناخوشی نہ ہو اس لئے کہ تلوار جیسا ایک کو اڑاتی ہے ویسا ہی دوسرے کو۔ سو تو شہر سے اور سخت جنگ کر کے اسے ڈھا دے اور تو اسے دم دلاسا دینا۔

جب اوریاہ کی بیوی نے سنا کہ اس کا شوہر اوریاہ مر گیا تو وہ اپنے شوہرکے لئے ماتم کرنے لگی اور جب سوگ کے د ن گزر گئے تو داؤد نے اسے بلوا کر اسے محل میں رکھ لیا اور وہ اس کی بیوی بن گئی اور اس سے اس کے ایک لڑکا ہوا پر اس کام سے جسے داؤد نے کیا تھا خداوند ناراض ہوا۔

اور خداوند نے ناتن کو داؤد کے پاس بھیجا ۔ اس نے اس کے پاس آ کر اس سے کہا کسی شہر میں دو شخص تھے ۔ ایک امیر دوسرا غریب۔ اس امیر کے پاس بہت سے ریوڑ اور گلے تھے ۔ پر اس غریب کے پاس بھیڑ کی ایک پٹھیا کے سوا کچھ نہ تھا جسے اس نے خرید کر پالاتھا۔ اور وہ اس کے اوراس کے بال بچوں کے ساتھ بڑھی تھی۔ ۔۔۔۔۔۔ اور اس امیر کے ہاں کوئی مسافر آیا۔ سو اس نے اس مسافر کے لئے جو اس کے ہاں آیا تھا پکانے کو اپنے ریوڑ اور گلہ میں سے کچھ نہ لیا بلکہ اس غریب کی بھیڑ لے لی اور اس شخص کے لئے جو اس کے ہاں آیا تھا پکائی۔ تب داؤد کا غضب اس شخص پر بشدت بھڑکا اوراس نے ناتن سے کہا کہ خداوند کی حیات کی قسم کہ وہ شخص جس نے یہ کام کیا واجب القتل ہے۔ سو اس شخص کو اس بھیڑ کا چوگنا بھرنا پڑے گا کیونکہ اس نے ایسا کام کیا ہے اوراسے ترس نہ آیا۔

تب ناتن نے داؤد سے کہا کہ وہ شخص تو ہی ہے۔ خداوند اسرائیل کا خدا یوں فرماتا ہے کہ میں نے تجھے مسح کر کے اسرائیل کابادشاہ بنایا اور میں نے تجھے ساؤل کے ہاتھ سے چھڑایا۔ اور میں نے تیرے آقا کا گھر تجھے دیا اور تیرے آقا کی بیویاں تیری گود میں کر دیں اور اسرائیل اور یہوداہ کا گھرانہ تجھ کو دیا اور اگر یہ سب کچھ تھوڑا تھا تو میں تجھ کو اور چیزیں بھی دیتا۔ سو تونے کیوں خداوند کی بات کی تحقیر کر کے اس کے حضور بدی کی؟ تونے حتّی اوریاہ کو تلوار سے مارا اور اس کی بیوی لے لی تا کہ وہ تیری بیوی بنے اور اس کو بنی عمّون کی تلوار سے قتل کروایا۔ سو اب تیرے گھر سے تلوار کبھی الگ نہ ہوگی کیونکہ تو نے مجھے حقیر جانا اور حتّی اوریّاہ کی بیوی لے لی تا کہ وہ تیری بیوی ہو۔ سو خداوند یوں فرماتا ہے کہ دیکھ میں شر کو تیرے ہی گھر سے تیرے خلاف اٹھاؤں گا اور میں تیری بیویوں کو لے کر تیری آنکھوں کے سامنے تیرے ہمسائے کو دونگا اور وہ دن دہاڑے تیری بیویوں سے صحبت کرے گا کیونکہ تو نے تو چھپ کر یہ کیا پر میں سارے اسرائیل کے روبرو دن دہاڑے یہ کرونگا۔ تب داؤد نے ناتن سے کہا میں نے خداوند کا گناہ کیا۔ ناتن نے داؤد سے کہا خداوند نے بھی تیرا گناہ بخشا۔ تو مرے گا نہیں ۔تو بھی چونکہ تو نے اس کام سے خداوند کے دشمنوں کو کفر بکنے کا بڑا موقع دیا ہے اس لئے وہ لڑکا بھی جو تجھ سے پیدا ہوگا مرجائے گا‘‘۔(۲۔ سموئیل باب ۱۱ آیت ۲ تا باب ۱۲ آیت ۱۵)

دیکھئے پادر ی صاحب یہ وہی داؤد ہے جس کے عدل و انصاف کے بارہ میں اسی کتاب میں لکھا ہے: ’’ اور داؤد نے کل اسرائیل پر سلطنت کی اور داؤد اپنی سب رعیت کے ساتھ عدل و انصاف کرتا تھا‘‘۔(۲۔ سموئیل باب ۱ آیت ۱۵)اس داؤد پر آپ کی کتاب زناکاری اور زناکاری کے لئے اپنے نہایت نیک دل اور قابل جرنیل کو مروانے کا الزام لگاتی ہے۔ اورجب قرآن ان باتوں کی تردید کرتا ہے توآپ کہتے ہیں کہ قرآن نے صحائف مقدسہ کی تاریخ کو Garble کر کے اپنے افتراء کا ، نعوذباللہ ، ثبوت دیاہے:۔

آپ یہ دعویٰ بھی نہیں کر سکتے کہ داؤد پہلے بہتر تھا پھر بعد میں بگڑ گیا کیونکہ یہ ناپاک واقعہ ۲۔ سموئیل کے ۱۱،۱۲باب میں مذکور ہے اور اس کتاب کے ۲۲ با ب میں زندگی کے آخر تک داؤد کی پاکیزگی کا ذکرہے جیسا کہ وہ کہتا ہے ’’ میں اس کے آئین سے برگشتہ نہ ہوا میں اس کے حضور کامل بھی رہا اور اپنی بدکاری سے باز رہا‘‘۔ (۲۔ سموئیل باب ۲۲ آیات ۲۳، ۲۴)

اور ۲۳باب میں لکھا ہے کہ داؤد کی آخری باتیں یہ ہیں: ’’ داؤد بن یسّی کہتا ہے یعنی یہ اس شخص کا کلام ہے جو سرفراز کیا گیا او یعقوب کے خدا کا ممسوح اور اسرئیل کا شیریں نغمہ ساز ہے ۔ خداوند کی روح نے میری معرفت کلام کیا اوراس کا سخن میری زبان پر تھا‘‘۔( ۲۔ سموئیل باب ۲۳ آیات ۱،۲)

پس خود بائبل ایک طرف آخر وقت تک داؤد کو کامل اور بدی سے پاک اور خدا کا ممسوح اور اسرائیل کا شیریں نغمہ ساز اور خدا کی روح سے کلام کرنے والا قرار دیتی ہے اور دوسری طرف اس پرناپاک جرائم کا الزا م لگاتی ہے۔ حضرت داؤد کے آخری وقت تک راستی اورصداقت پرقائم رہنے کااقرار ’’ ۱۔ سلاطین ‘‘ میں بھی موجود ہے۔ داؤد کے متعلق لکھا ہے:’’کہ وہ تیر ے حضور راستی اور صداقت اور تیرے ساتھ سیدھے دل سے چلتا رہا اور تو نے اس کے واسطے یہ بڑا احسان رکھ چھوڑا تھا کہ تو نے اسے ایک بیٹا عنایت کیا جو اس کے تخت پر بیٹھے ‘‘۔ ( ۱۔ سلاطین باب ۳ آیت ۶)

*۔۔۔حضرت داؤد کے آخر ی عمر تک خدا کے حضور پاک روش ہونے کے بارہ میں حضرت سلیمان کے یہ الفاظ بھی مدنظر رہیں جو ۱۔ سلاطین میں ہیں۔

’’ سو اب اے خداوند اسرائیل کے خداوند اپنے بندہ میرے باپ داؤد کے ساتھ اس قول کو بھی پورا کر جو تو نے اس سے کیا تھا کہ تیرے آدمیوں سے میرے حضور اسرائیل کے تخت پر بیٹھنے والے کی کمی نہ ہوگی بشرطیہ کہ تیری اولاد جیسے تو میرے حضور چلتا رہا ویسے ہی میرے حضور چلنے کے لئے اپنی راہ کی احتیاط رکھے ‘‘۔ (۱۔ سلاطین باب ۸ آیت ۲۵)

*۔۔۔اور داؤد کے آخر وقت تک خدا کے حضور کامل رہنے کا ثبوت اس سے بھی ملتا ہے کہ ۱۔سلاطین میں لکھا ہے:

’’ جب سلیمان بڈھا ہو گیا تو اس کی بیویوں نے اس کے دل کو غیر معبودوں کی طرف مائل کر ا دیا اوراس کا دل خداوند اپنے خدا کے ساتھ کامل نہ رہا جیسا اس کے باپ داؤد کا دل تھا‘‘۔(۱۔ سلاطین باب ۱۱ آیت ۴)

یہ تھا داؤد کے بارے میں بائبل کا بیان جو مسلسل تذبذب اور تضاد کا شکار ہے۔ ایک طرف داؤد کو خداوند کا ممسوح او ر کامل قرار دیتی ہے ۔ دوسری طرف عام انسانی معیار سے گرے ہوئے جرائم بھی اس کی طرف منسوب کرتی ہے۔

*۔۔۔اب سنئے قرآن مجید کا بیان کہ داؤد ؑ کا کتنا خوبصورت نقشہ کھینچتا ہے جس میں کوئی اختلاف نہیں ، کوئی تضاد نہیں، کوئی تذبذب نہیں۔

ان آیات کریمہ کا مفہوم یہ ہے:

*۔۔۔ داؤد نے جالوت جیسے زبردست حملہ آور دشمن کوختم کیا اور اللہ نے داؤد کو حکومت اورحکمت بخشی اورجو کچھ اللہ نے چاہا اس کا داؤد کو علم دیا۔ (سور ہ البقرہ : ۲۵۲)

*۔۔۔ہم نے تم پر بھی اسی طرح وحی نازل فرمائی جس طرح نوح اوراس کے بعد تمام انبیاء پر وحی کی تھی۔ اورہم نے اسماعیلؑ اور ابراہیمؑ اور اسحاقؑ اور یعقوب ؑ اور اس کی اولاد اور عیسیٰؑ اور ایوبؑ اور یونسؑ اور ہارون ؑ اور سلیمان ؑ پر وحی نازل فرمائی۔ اور داؤد کو ہم نے زبور جیسی کتاب عطا فرمائی۔ (النسائ:۱۶۴)

*۔۔۔ اور جو وجود بھی آسمان اور زمین میں بسنے والے ہیں انہیں تمہارا رب سب سے زیادہ جانتا ہے۔ اور ہم نے یقیناً بعض انبیاء کو دوسروں پر فضیلت دی ہے۔ اور (داؤد کی فضیلت تو دیکھو کہ) داؤد کو ہم نے زبور عطا کی ۔(بنی اسرائیل:۵۶)

*۔۔۔اور ہم نے داؤد کے ساتھ پہاڑی علاقہ کے باشندوں کوبھی اور روحانی آسمان کے پرندوں کو بھی کام پر لگا دیا تھا۔ وہ سب خدا کی تسبیح کرتے تھے اور ہم یہ سب کچھ کرنے پر قادر تھے۔ اور ہم نے داؤد کو ایک لباس کا بنانا سکھایا تھا کہ وہ لڑائی سے تمہاری جان بچائے۔ پس کیا تم شکرگزا ر بنوگے (الانبیائ:۸۰، ۸۱)

*۔۔۔ اور ہم نے زبور میں نصیحت کے بعد یہ وعدہ بھی لکھا تھا کہ زمین کے وارث میرے نیک بند ے ہونگے اس (مضمون) میں ایک عبادت گذار قوم کے لئے ایک خاص پیغام ہے۔(الانبیائ: ۱۰۶، ۱۰۷)

*۔۔۔اور ہم نے داؤدؑ اور سلیمان ؑ کو علم عطا فرمایا اور ان دونوں نے کہا کہ حمد کا مالک اللہ تعالیٰ ہی ہے جس نے ہمیں اپنے بہت سے بندوں پر فضیلت عطا فرمائی ہے۔(النمل:۱۶)

*۔۔۔اور سلیمان داؤد کا وارث ہوا اور اس نے کہا لوگو! ہمیں روحانی فضا میں اڑنے والوں کی زبان عطا کی گئی ہے اور ہر ضروری تعلیم ہمیں دی گئی ہے او ریہ کھلا کھلا فضل ہے۔(النمل: ۱۷)

*۔۔۔ اور ہم نے داؤد کو اپنی طرف سے فضل عطا فرمایا تھا ۔ اور کہاتھا کہ اے پہاڑ کے رہنے والو! اور اے روحا نی فضامیں اڑنے والو! تم داؤد کے ساتھ ہم نوا ہو کر خداکی تسبیح کرو اور ہم نے اس کے لئے لوہے کو نرم کر دیا تھا اور کہا تھا کہ پورے سائز کی زرہیں بناؤ۔ اور ان کے حلقے چھوٹے بنانا اور اے داؤد اوراس کے ساتھیو! اپنے ایمان کے مطابق عمل کرو۔ میں تمہارے اعمال دیکھ رہا ہوں۔ (سبائ: ۱۱، ۱۲)

*۔۔۔اور جو کچھ وہ کہتے ہیں اس پر صبر سے کام لو ( انہوں نے داؤد کے متعلق کیا کچھ نہیں کہا) اورہمارے بندے داؤد ؑ کو یاد کرو جو بڑ ی طاقت کا مالک تھا (اتنی طاقت کے باوجود)جو باربار خدا کے حضور جھکتاتھا۔ ہم نے پہاڑی علاقہ کے باشندوں کو بھی اس کے تابع کر دیا تھا۔ وہ شام اور صبح تسبیح میں لگے رہتے تھے۔ اور بلند پرواز انسانوں کو بھی جمع کر کے اس کے ساتھ لگا دیا تھا۔ وہ سب کے سب خدا کے حضور جھکنے والے تھے ۔اور ہم نے اس کی حکومت کو مضبوط کیا تھا ۔ اور اس کو حکمت اور قاطع دلیل بخشی تھی اور کیا تمہیں ان دشمنوں کی خبر معلوم ہے جب وہ دیوار پھاند کر اندر آ گئے تھے ۔ جب وہ داؤد کے پاس پہنچے تو اس نے خطرہ محسوس کیا۔ انہوں نے کہا ڈرنہیں ہم دو جھگڑنے والے فریق ہیں ۔ہم میں سے ایک دوسرے پر زیادتی کر رہا ہے ۔ پس تم ہمارے درمیان انصاف سے فیصلہ کر دو اور زیادتی نہ کرنا اور ہمیں سیدھے راستے کی رہنمائی کرو۔ یہ میرا بھائی ہے اس کی ننانوے دنبیاں ہیں اور میری صرف ایک دنبی ہے۔ پھر بھی وہ کہتا ہے کہ اپنی دنبی مجھے دے دے۔ اوربحث میں مجھے دباتا ہے۔ اس پر داؤد نے کہا تیری دنبی طلب کرنے میں اس نے ظلم سے کام لیا ہے۔ اور بہت سے شرکاء ایسے ہوتے ہیں جو ایک دوسرے پر ظلم کرتے ہیں سوائے ان مومنوں کے جو ایمان کے مطابق عمل کرتے ہیں اور وہ لوگ تھوڑے ہیں ۔ اور داؤد کو یقین ہو گیا کہ ہم نے اسے آزمائش میں ڈالا ہے دشمنوں کے سر اٹھانے کی وجہ سے۔ پس اس نے اپنے رب سے استغفار کرنا شروع کیا اور اپنے رب کی اطاعت میں زمین پر گر گیا۔ اور خدا کی طرف متوجہ ہو گیا۔ پس ہم نے اس کی مغفرت اور پردہ پوشی فرمائی کیونکہ حقیقتاً وہ ہمارا مقرب تھا۔ اور اسے ہمارے پاس اچھا ٹھکانہ ملے گا۔ اے داؤد ہم نے تجھے زمین میں خلیفہ بنایا ہے۔ پس تم لوگوں سے انصاف کے ساتھ حکومت کر و اور اپنی خواہش کی پیروی نہ کرنا۔ وہ تمہیں اللہ کی راہ سے بھٹکا دے گی ۔ وہ لوگ جواللہ کے راستہ سے بھٹک جاتے ہیں ان کو سخت عذاب ملتا ہے کیونکہ وہ حساب کے دن کو بھلا بیٹھے ہیں۔ (ص: ۱۸ تا ۲۷)

*۔۔۔ اور ہم نے داؤد کو سلیمان عطا کیا۔ وہ کیا ہی اچھا بندہ تھا ۔یقیناً وہ خدا کی طرف بہت جھکنے والا تھا۔ (ص: ۳۱)

یہ ہے قرآن شریف کا نہایت لطیف، واضح ، غیرمتذبذب اور ہر قسم کے اختلاف اور تضاد سے پاک بیان حضرت داؤد ؑ کے متعلق جو ایک مأخذ سے نکلا ہے۔ مگر اس کے بالمقابل بائبل کے بیانات تضاد سے پر ہیں۔ ایک طرف حضرت داؤد ؑ کو آخری زندگی تک عدل و انصاف اور خداکی محبت سے معمور قرار دیتی ہے اور دوسری طرف ناپاک اتہامات لگاتی ہے۔

بائبل کے اس تضاد کی وجہ معلوم کرنا بھی مشکل نہیں ۔ حضرت داؤد ؑ نے ایک عظیم الشان حکومت کی داغ بیل ڈالی اور آپ کے عظیم بیٹے حضرت سلیمان ؑ کے بعد ان کا نالائق بیٹا رحبعام تخت نشین ہوا اور سات سال کے اندر حکومت میں پھوٹ پڑ گئی اور دس قبائل نے افرائیم قبیلہ کے یربعام کے ماتحت شمال میں اپنی حکومت قائم کر لی ۔ اور یروشلم میں حضرت داؤد ؑ کی اولاد اور خاندان کی حکومت قائم رہی جو دو قبائل پر مشتمل تھی ۔ اب اس طرح حضرت داؤدؑ کے خاندان کی حکومت بھی قائم ہو گئی اور خاندان کے خلاف حکومت بھی قائم ہو گئی۔ اور یہ دونوں حکومتیں ایک دوسرے کی رقیب رہیں۔ گو کبھی کبھی صلح کے دور بھی آئے ۔ پس جب پرانے عہد نامے کی کتب سموئیل، سلاطین ، تواریخ مرتب ہوئیں تو دونوں حکومتوں کے دونوں علاقوں کے علماء کی تحریرات اور خیالات ان کتابوں میں راہ پاگئے اور اس طرح تاریخ کا حلیہ بگاڑ دیا گیا ۔

پس پادری صاحب ! تاریخ کے متعلق Garbled بیانات پرانے عہد نامہ کے ہیں نہ کہ قرآن شریف کے ۔

حضرت سلیمان علیہ السلام کے واقعات

حضرت داؤد ؑ کے بعد یہی سلوک بائبل نے حضرت سلیمان ؑ کے ساتھ کیا ۔ ایک طرف ان کو حکمت و دانش کا پتلا کہا تو دوسری طرف مشرک اور عیاش بنایا۔ حضرت داؤد ؑ کی مذمت بھی کی مگر حضرت سلیمان ؑ کے مقابلہ میں ان کی مدح بھی کی ہے۔ حضرت سلیمان ؑ کی تعریف میں بائبل کہتی ہے کہ خدا تعالیٰ نے حضرت داؤدؑ کومخاطب ہو کر فرمایا:

’’ خداوند تجھ کو بتاتا ہے کہ خداوند تیرے گھر کو بنائے رکھے گا اور جب تیرے دن پورے ہو جائیں گے اور تو اپنے باپ داد ا کے ساتھ سو جائے گا تو میں تیرے بعد تیری نسل کو جو تیرے صلب سے ہوگی کھڑا کر کے اس کی سلطنت کو قائم کروں گا۔ وہی میرے نام کا ایک گھر بنائے گا اور میں اس کی سلطنت کا تخت ہمیشہ کے لئے قائم کروں گا۔ اور میں اس کا باپ ہوں گا اور وہ میرا بیٹا ہوگا۔ اگر و ہ خطا کرے تو میں اسے آدمیوں کی لاٹھی اور بنی آدم کے تازیانوں سے تنبیہ کروں گا ۔ پر میری رحمت اس سے جدا نہ ہوگی۔ جیسے میں نے اسے ساؤل سے جدا کیا جسے میں نے تیرے آگے سے دفع کیا۔ اور تیرا گھر اور تیری سلطنت سدا بنی رہے گی۔ تیرا تخت ہمیشہ کے لئے قائم کیا جائے گا‘‘۔ (۲۔ سموئیل باب ۷ آیات ۱۱ تا ۱۷)

*۔۔۔حضرت داؤدؑ نے سلیمان ؑ اور اپنی نسل کے بارہ میں اس بشارت کو پا کر خدا تعالیٰ کے حضور جو مناجات کی ہیں وہ اس طرح ہیں:

’’ اے خداوند خدا اس بات کو جو تو نے اپنے بندہ اور اس کے گھرانے کے حق میں فرمائی ہے سدا کے لئے قائم کر دے۔ اور جیسا تو نے فرمایا ہے ویسا ہی کر اور سدا یہ کہہ کہہ کر تیرے نام کی بڑائی کی جائے کہ ربّ الافواج اسرائیل کا خدا ہے اور تیرے بندہ داؤد کا گھرانہ تیرے حضور قائم کیا جائے گا کیونکہ تو نے اے ربّ الافواج اسرائیل کے خدا اپنے بندہ پر ظاہر کیا۔ اور فرمایا کہ میں تیرا گھرانہ بنائے رکھوں گا۔ اس لئے تیرے بندہ کے دل میں یہ آیا کہ تیرے آگے یہ مناجات کرے اور اے مالک خدا وند تو خدا ہے اور تیری باتیں سچی ہیں اور تونے اپنے بندہ سے اس نیکی کا وعدہ کیا ہے۔ سو اب اپنے بندہ کے گھرانے کو برکت دینا منظور کر تا کہ وہ سدا تیرے روبرو پائیداررہے کہ تو ہی نے اے مالک خداواند یہ کہا ہے اور تیری ہی برکت سے تیرے بندہ کا گھرانہ سدا مبارک رہے‘‘۔

(۲۔ سموئیل باب ۷ آیات ۲۵ تا ۲۹)

اس کتاب میں حضرت سلیمان ؑ اور حضرت داؤدؑ کی بقیہ نسل کے لئے یہ بشارت بھی ملتی ہے کہ خدا تعالیٰ’’ اپنے ممسوح داؤد اور اس کی نسل پرہمیشہ شفقت کرتا ہے‘‘۔(۲۔ سموئیل باب ۲۲ آیت ۵۱)

*۔۔۔بائبل سلیمان ؑ کو حضرت داؤد کا حقیقی جانشین قرار دیتی ہے اور بتاتی ہے کہ بادشاہت کے جھوٹے دعویداروں کے مقابل میں بادشاہ داؤد نے خود سلیمان کو جانشین مقرر کیا اور خدا کے نبی ناتن کی پوری تائید اسے حاصل تھی جیسے لکھا ہے:

’’ داؤد بادشاہ نے فرمایا کہ صدوق کاہن اور ناتن نبی اور یہویدع کے بیٹے بنایاہ کو میرے پاس بلاؤ۔ سو وہ بادشاہ کے حضور آئے ۔ بادشاہ نے ان کو فرمایا کہ تم اپنے مالک کے ملازموں کو اپنے ساتھ لو اور میرے بیٹے سلیمان کو میرے ہی خچر پر سوار کراؤ۔ اور اسے جیحون کو لے جاؤ۔ اور وہاں صدوق کاہن اور ناتن نبی اسے مسح کریں کہ وہ اسرائیل کا بادشاہ ہو اورتم نرسنگا پھونکنا اور کہنا کہ سلیمان بادشاہ جیتا رہے۔ پھر تم اس کے پیچھے پیچھے چلے آنا اور وہ آ کر میرے تخت پر بیٹھے کیونکہ وہی میری جگہ بادشاہ ہوگا اور میں نے اسے مقرر کیا ہے کہ وہ اسرائیل اور یہوداہ کاحاکم ہو۔ تب یہویدع کے بیٹے بنایاہ نے بادشاہ کے جواب میں کہا آمین۔ خداوند میرے مالک بادشاہ کا خدا بھی ایسا ہی کہے۔ جیسے خداوند میرے مالک بادشاہ کے ساتھ رہا ویسے ہی وہ سلیمان کے ساتھ رہے اور اس کے تخت کو میرے مالک داؤد بادشاہ کے تخت سے بڑا بنائے‘‘۔(۱۔ سلاطین باب ۱ آیات ۳۲ تا ۳۷)

*۔۔۔اس کتاب میں یہ بھی لکھا ہے سلیمان بھی یہ یقین رکھتے تھے کہ ان کو خدا تعالیٰ نے بادشاہ بنایا ہے ۔چنانچہ لکھا ہے:’’ خداوند کی حیات کی قسم جس نے مجھ کو قیا م بخشا اور مجھ کو میرے باپ داؤد کے تخت پر بٹھایا اور میرے لئے اپنے وعدہ کے مطابق ایک گھر بنایا یقیناً ادونیاہ آ ج ہی قتل کیا جائے گا‘‘۔(۱۔سلاطین باب ۲ آیت ۲۴)

*۔۔۔پھر سلیمان کے متعلق لکھا ہے:

’’ سلیمان خداوند سے محبت رکھتا اور اپنے باپ داؤد کے آئین پر چلتا تھا‘‘۔(۱۔ سلاطین باب ۳ آیت ۳)

*۔۔۔سلیمان کا خدا تعالیٰ سے پیار کا تعلق بائبل میں اس طرح ظاہر کیا گیا ہے کہ :

’’ جبعون میں خداوند رات کے وقت سلیمان کو خواب میں دکھائی دیا اور خدانے کہا مانگ میں تجھے کیا دوں۔ سلیمان نے کہا تو نے اپنے خادم میرے باپ داؤد پر بڑا احسان کیا اس لئے کہ وہ تیرے حضور راستی اور صداقت اور تیرے ساتھ سیدھے دل سے چلتا رہا اور تو نے اس کے واسطے یہ بڑا احسان رکھ چھوڑا کہ تو نے اسے ایک بیٹا عنایت کیاجواس کے تخت پر بیٹھے جیسا آج کے دن ہے۔ اور اب اے خداوند میرے خدا تو نے اپنے خادم کو میرے باپ داؤد کی جگہ بادشاہ بنایا اورمیں چھوٹا لڑکا ہی ہوں اور مجھے باہر جانے اور بھیتر آنے کا شعورنہیں۔ اور تیراخادم تیری قوم کے بیچ میں ہے جسے تو نے چن لیا ہے ۔ وہ ایسی قوم ہے جو کثرت کے باعث نہ گنی جا سکتی ہے نہ شمار ہو سکتی ہے۔ اور تو اپنے خادم کو اپنی قوم کا انصاف کرنے کے لئے سمجھنے والا دل عنایت کر تاکہ میں برے اور بھلے میں امتیاز کر سکوں۔ کیونکہ تیری اس بڑی قوم کاانصاف کون کر سکتا ہے؟ اور یہ بات خداوند کو پسند آئی کہ سلیمان نے یہ چیز مانگی اور خدانے اس سے کہا چونکہ تو نے یہ چیز مانگی اور اپنے لئے عمر کی درازی کی درخواست نہ کی اور نہ اپنے لئے دولت کا سوال کیا اور نہ اپنے دشمنوں کی جان مانگی بلکہ انصاف پسندی کے لئے تو نے اپنے واسطے عقلمندی کی درخواست کی ہے تو دیکھ میں نے تیری درخواست کے مطابق کیا ۔ میں نے ایک عاقل اور سمجھنے والا دل تجھ کو بخشا ۔ ایسا کہ تیری مانند نہ تو کوئی تجھ سے پہلے پیدا ہو ااور نہ کوئی تیرے بعد تجھ سا برپا ہوگا اور میں نے تجھ کو کچھ اور بھی دیاجو تو نے نہیں مانگا یعنی دولت اور عزت۔ ایسا کہ بادشاہوں میں عمر بھر کوئی تیری مانند نہ ہوگا۔ اور اگر تو میری راہوں پر چلے اور میرے آئین اور احکام کو مانے جیسے تیرا باپ داؤد چلتا رہا تو میں تیری عمر دراز کروں گا‘‘۔ (۱۔ سلاطین باب ۳ آیات ۵ تا ۱۵)

*۔۔۔پھر سلیمان کی تعریف میں لکھا ہے کہ اللہ نے اسے اپنے مکالمہ مخاطبہ سے نوازا:

’’اور خداوند کاکلام سلیمان پر نازل ہو اکہ یہ گھر جو تو بناتا ہے سو اگر تو میرے آئین پرچلے اور میرے حکموں کو پورا کرے اور میرے فرمانوں کو مان کر ان پر عمل کرے تو میں اپنا وہ قول جو میں نے تیرے باپ داؤد سے کیا تیرے ساتھ قائم رکھوں گا۔ اورمیں بنی اسرائیل کے درمیان رہونگا اور اپنی قوم اسرائیل کو ترک نہ کروں گا‘‘۔(۱۔ سلاطین باب ۶ آیات ۱۱ تا ۱۳)

*۔۔۔سلیمان کی تعریف میں یہ بھی لکھا ہے کہ:’’ خدا نے سلیمان کوحکمت اور سمجھ بہت ہی زیادہ اور دل کی وسعت بھی عنایت کی جیسی سمندر کے کنارے کی ریت ہوتی ہے۔ اور سلیمان کی حکمت سب اہل مشرق کی حکمت او ر مصر کی ساری حکمت پر فوقیت رکھتی تھی‘‘۔(۱۔ سلاطین باب ۴ آیات ۲۹ تا ۳۱)

*۔۔۔بائبل کہتی ہے کہ یہ سعادت بھی سلیمان کے حصہ میں آئی کہ اس نے خدا کے لئے ایک گھر بنایا اور یہ عظیم برکت اسے حاصل ہوئی ۔ لکھا ہے:

’’ تب سلیمان نے کہا کہ خداوند نے فرمایا تھا کہ وہ گہری تاریکی میں رہے گا ۔ میں نے فی الحقیقت ایک گھر تیرے رہنے کے لئے بلکہ تیری دائمی سکونت کے واسطے ایک جگہ بنائی ہے۔ اور بادشاہ نے اپنا منہ پھیرا اور اسرا ئیل کی ساری جماعت کو برکت دی اور اسرائیل کی ساری جماعت کھڑی رہی اور اس نے کہا خداوند اسرائیل کا خدا مبارک ہو جس نے اپنے منہ سے میرے باپ داؤد سے کلام کیا اور اسے اپنے ہاتھ سے یہ کہہ کر پورا کیا کہ جس دن سے میں اپنی قوم اسرائیل کو مصر سے نکال لایا میں نے اسرائیل کے سب قبیلوں میں سے بھی کسی شہر کو نہیں چنا کہ ایک گھر بنایا جائے تا کہ میرا نام وہاں پر ہو پرمیں نے داؤد کو چن لیا کہ وہ میری قوم اسرائیل پر حاکم ہو۔ اور میرے باپ داؤد کے دل میں تھا کہ خداوند اسرائیل کے خدا کے نام کیلئے ایک گھربنائے ۔ لیکن خداوند نے میرے باپ داؤد سے کہا چونکہ میرے نام کے لئے ایک گھربنانے کاخیال تیرے دل میں تھا سو تو نے اچھا کیا کہ اپنے دل میں ایسا ٹھانا۔ تو بھی تُو اس گھر کو نہ بنانا بلکہ تیرابیٹا جو تیرے صلب سے نکلے گا وہ میرے نام کے لئے گھر بنائے گا اور خداوند نے اپنی بات جو اس نے کہی تھی قائم کی ہے کیونکہ میں اپنے باپ داؤد کی جگہ اٹھا ہوں اور جیسا خداوند نے وعدہ کیا تھا میں اسرائیل کے تخت پر بیٹھا ہوں اور میں نے خداوند اسرائیل کے خدا کے نام کے لئے اس گھر کو بنایا ہے۔ اور میں نے وہاں ایک جگہ اس صندوق کیے لئے مقرر کر دی ہے جس میں خدا وند کاوہ عہد ہے جو اس نے ہمارے باپ دادا سے جب وہ ان کو مصر سے نکال لایا ، باندھا تھا ۔

اور سلیمان نے اسرائیل کی ساری جماعت کے روبرو خداوند کے مذبح کے آگے کھڑے ہو کر اپنے ہاتھ آسمان کی طر ف پھیلائے اور کہا کہ اے خداوند اسرائیل کے خدا تیری مانند نہ تو اوپر آسمان میں نہ نیچے زمین پر کوئی خدا ہے۔ تو اپنے ان بندوں کے لئے جو تیرے حضور اپنے سارے دل سے چلتے ہیں عہد اوررحمت کو نگاہ رکھتا ہے ۔ تو نے اپنے بندہ میرے باپ داؤد کے حق میں وہ بات قائم رکھی جس کا تو نے اس سے وعدہ کیاتھا ۔ تو نے اپنے منہ سے فرمایا اوراپنے ہاتھ سے اسے پوراکیا جیسا آج کے دن ہے۔ سو اب اے خدا وند اسرائیل کے خدا تو اپنے بندہ پر میرے باپ داؤد کے ساتھ اس قول کو بھی پورا کر جو تو نے اس سے کیاتھا کہ تیرے آ دمیوں سے میرے حضور اسرائیل کے تخت پر بیٹھنے والے کی کمی نہ ہوگی۔ بشرطیکہ تیری اولاد جیسے تو میرے حضور چلتا رہا ویسے ہی میرے حضور چلنے کے لئے اپنی راہ کی احتیاط رکھے ‘‘۔(۱۔ سلاطین باب ۸ آیت ۱۲ تا ۲۶)

*۔۔۔ملکہ سبا کی زبان سے بائبل نے بادشاہ سلیمان کی اس طر ح تعریف بیان کی ہے:

’’خوش نصیب ہیں تیرے لوگ اور خوش قسمت ہیں تیرے یہ ملازم جو برابر تیرے حضور کھڑے رہتے اور تیری حکمت سنتے ہیں۔ خداوند تیرا خدا مبارک ہوجو تجھ سے ایسا خوشنود ہو ا کہ تجھے اسرائیل کے تخت پر بٹھایا ہے چونکہ خدا وند نے اسرائیل سے سدا محبت رکھی ہے اس لئے اس نے تجھے عدل اورانصاف کرنے کوبادشاہ بنایا‘‘۔( ۱۔ سلاطین باب ۱۰ آیات ۸ تا ۱۰)

*۔۔۔پھر بائبل سلیمان کے حق میں یوں مدح سرا ہے:’’ سلیمان بادشاہ دولت اور حکمت میں زمین کے سب بادشاہوں پر سبقت لے گیا اور سارا جہان سلیمان کے دیدار کا طالب تھا تاکہ اس کی حکمت کو جو خدا نے اس کے دل میں ڈالی تھی سنے‘‘۔(۱۔ سلاطین باب۱۰ آیات۲۳، ۲۴)

حضرت سلیمان ؑ کو اس بلند مقام پر پہنچا کرپھر بائبل جو بدسلوکی حضرت سلیمان ؑ سے کرتی ہے وہ اس سے بھی بدتر اور اس سے بھی زیادہ قابل یقین ہے جوبدسلوکی وہ حضرت داؤدؑ سے کرچکی ہے۔ بائبل کہتی ہے کہ وہ شخص جو حکمت او ر دانش مندی میں دنیا میں سب سے بڑھ گیا تھا ،جس نے خدا کا دائمی گھر بنا یا، جس سے خدا ہم کلام ہوتا تھا ،جس نے زندگی بھر خدا تعالیٰ کی تائید و نصرت دیکھی تھی وہ خدا تعالیٰ سے پھر گیا اور جھوٹے مصنوعی دیوتاؤں کی عبادت کرنے لگا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔

قصور سلیمان کا نہیں ان لکھنے والوں کا ہے جنہوں نے یہود کی حکومت کے دو حصوں میں بٹنے کے بعد حضرت داؤد ؑ اور حضرت سلیمان ؑ کے خاندان کی حکومت کے مقابل میں کھڑے ہو کر خود حضرت سلیمان اور داؤد کو ہی بدنام کرنے کا بیڑا اٹھا لیا اور قصور پادری صاحب کا ہے جو بائبل میں داخل ان انسانی تحریروں کو مقدس صحائف سمجھ کر پھر قرآن مجید پران کی تردید اور ان کی تصحیح کیوجہ سے ناراض ہوتے ہیں۔ دیکھئے بائبل نے کیسے ظالمانہ اور گھناؤنے الزام خو د اپنے ہیرو پر لگائے ہیں۔ لکھا ہے:

’’ اور سلیمان بادشاہ فرعون کی بیٹی کے علاوہ بہت سی اجنبی عورتوں سے یعنی مُوآبی، عمّونی، اوومی، صیدانی اور حِتّی عورتوں سے محبت کرنے لگا۔ یہ ان قوموں کی تھیں جن کی بابت خدا وند نے اسرائیل سے کہا تھا کہ تم ان کے بیچ نہ جانا اور نہ وہ تمہارے بیچ آئیں کیونکہ وہ ضرور تمہارے دلوں کو اپنے دیوتاؤں کی طرف مائل کر لیں گی۔ سلیمان ان ہی کے عشق کا دم بھرنے لگا۔ اور اس کے پاس سات سو شہزادیاں اس کی بیویاں اورتین حرمیں تھیں۔ اور اس کی بیویوں نے اس کے دل کو پھیردیا۔ کیونکہ جب سلیمان بڈھا ہو گیا تواس کی بیویوں نے اس کے دل کو غیر معبودوں کی طرف مائل کر لیا اور اس کا دل خداوند اپنے خدا کے ساتھ کامل نہ رہا۔ جیسااس کے باپ داؤد کا دل تھا‘‘۔(بائبل نویس بھول گئے ہیں کہ وہ حضرت داؤد پر بھی الزام لگا چکے ہیں۔ ناقل)۔ ’’ کیونکہ سلیمان صیدانیوں کی دیوی عستارات اور عمونیوں کے نفرتی ملکوم کی پیروی کرنے لگا۔ اور سلیمان نے خداوند کے آگے بدی کی اوراس نے خداوند کی پوری پیروی نہ کی جیسی اس کے باپ داؤد نے کی تھی‘‘۔(۲۔ سموئیل میں داؤد پر خدا تعالیٰ سے روگردانی ، اور اوریاہ کی بیوی سے زناکاری اور اس جرم پر پردہ ڈالنے کے لئے اوریّاہ کو قتل کروانے کا ذکر اوپر گزر چکا ہے)۔’’پھر سلیمان نے موآبیوں کے نفرتی کموس کے لئے اس پہاڑ پرجو یروشلم کے سامنے ہے اوربنی عمون کے نفرتی مولک کے لئے بلند مقام بنا دیا ۔ اوراس نے ایسا ہی اپنی سب اجنبی بیویوں کی خاطر کیا جو اپنے دیوتاؤں کے حضور بخور جلاتی اور قربانی گزرانتی تھیں اور خداوند سلیمان سے ناراض ہوا کیونکہ اس کا دل خداوند اسرائیل کے خدا سے پھر گیا تھا جس نے اسے دوبارہ دکھائی دے کر اس کواس بات کاحکم کیا تھا کہ وہ غیر معبودوں کی پیروی نہ کرے پر اس نے وہ بات نہ مانی جس کا حکم خداوند نے دیا تھا‘‘۔(۱۔ سلاطین باب ۱۱ آیات ۱تا ۱۰)

دیکھئے پادری صاحب یہ سلوک بائبل کا اپنے بزرگوں، اپنے بہادروں سے جن پر خدا کا کلام نازل ہوتاتھا، جن کو خدا نے بادشاہ بنایا تھا ، اپنے قرب سے نوازا تھا،اپنی حکمت انہیں عطا کی تھی، کہ ایک طرف تو بائبل ان کو آسمان پر بٹھاتی ہے دوسری طرف زمین کی پاتال میں گراتی ہے۔ اب پڑھئے قرآن شریف کا بیان ۔ فرماتاہے۔(ان آیات کریمہ کا مفہوم یہ ہے):

*۔۔۔’’ یہ (رسول اللہ ﷺ کے مخالفین ) اس طریق عمل کی پیروی کررہے ہیں جس کے پیچھے سلیمانؑ کی حکومت کے زمانے میں اس کی حکومت کے شرارت کرنے والے، حق سے دور باغی پڑے رہتے تھے اور سلیمان کافر نہ تھا‘‘ (بائبل نے جی بھر کے سلیمان پر کفر کا الزام لگایا ہے) ’’بلکہ باغی کافر تھے ۔ وہ لوگوں کو دھوکہ دینے والی باتیں سکھاتے تھے‘‘۔ (سورۃ البقرہ : ۱۰۳)

*۔۔۔ہم نے اے محمد(ﷺ) تم پر اسی طرح وحی نازل فرمائی جس طرح ہم نے نوح اور اس کے بعد تمام انبیاء پر وحی نازل فرمائی تھی اور ہم نے ابراہیم اور اسماعیل اور اسحاق اور یعقوب او ر اس کی اولاد اورعیسیٰ اور ایوب اور یونس اور ہارون اور سلیمان پر بھی وحی نازل کی تھی اورہم نے ابراہیم کو اسحاق اور یعقوب دئے تھے ۔ اور ہم نے ان سب کو ہدایت دی تھی اور اس سے پہلے ہم نے نوح کو ہدایت دی تھی ۔ اورابراہیم کی اولاد میں سے داؤد اور سلیمان اور ایوب اور یوسف اور موسیٰ اور ہارون کو بھی اور اسی طرح ہم اچھی طرح کام کرنے والوں کو بدلہ دیا کرتے ہیں۔ اور داؤد اور سلیمان کو یاد کر و جبکہ وہ دونوں ایک کھیتی کے جھگڑے میں فیصلہ کر رہے تھے اس وقت جبکہ ایک قوم کے عامی لوگ اس کو کھا گئے اور تباہ کر گئے اورہم ان کے فیصلہ کے گواہ تھے۔ اورہم نے اصل معاملہ سلیمان کو سمجھا دیا اور سب کو ہی ہم نے حکم اور علم عطا فرمایا تھا‘‘۔( سورۃ الانبیاء)

یہاں قرآن مجید بائبل کے ان بیانات کی تصحیح کرتا ہے جس کے نتیجہ میں مغربی مفکرین نے اس خیال کااظہار کیا ہے کہ حضرت داؤد کی بعض پالیسیاں صحیح تھیں مگر حضرت سلیمان نے غلط پالیسیاں اختیار کیں ۔

پہلا الزام بائبل نے یہ لگایا ہے کہ نعوذباللہ حضرت سلیمان نے غلط اور خلاف توحید عقائد اختیار کئے اس کی تردید قرآن شریف نے شروع میں ہی کر دی کہ، ماکفر سلیمان ، سلیمان نے کفر نہیں کیا تھا بلکہ اس کے مقابل پر سرکشی کرنے والے کافر تھے۔

دوسرا اعتراض بائبل نے یہ اٹھایا ہے کہ حضرت سلیمان نے دشمن کے خلاف غلط Strategy اختیار کی اور بڑی فوج کی بجائے چھوٹی اورمتحرک فوج کا استعمال کیا۔ چنانچہ بائبل نے پہلے ا س بات کو شریعت کا حصہ بنایا ہے کہ بادشاہ گھوڑے نہ رکھے اور مصر سے گھوڑے تو ہر گز نہ منگوائے۔ لکھا ہے تواپنے بھائیوں میں سے ہی کسی کو اپنا بادشاہ بنانا اور پردیسی کو جو تیرا بھائی نہیں اپنے اوپر حاکم نہ کر لینا۔ اتنا ضرور ہے کہ وہ اپنے لئے بہت گھوڑے نہ بنائے اور نہ لوگوں کو مصر میں بھیجے تا کہ اس کے پاس بہت سے گھوڑے ہو جائیں۔ (استثناء باب ۱۷ آیات ۱۵، ۱۶ )

اس حکم کو شریعت کا حصہ بنانے کے بعد پھر حضرت سلیمان پر ہی حکم کی نافرمانی کا الزام لگا یا گیا ہے ۔ لکھاہے:

’’جو گھوڑے سلیمان کے پاس تھے وہ مصر سے منگائے گئے تھے اور بادشاہ کے سوداگر ایک ایک جھنڈ کی قیمت لگا کر ان کے جھنڈ کے جھنڈ لیاکرتے تھے‘‘۔(۱۔ سلاطین باب ۱۰آیت ۲۸)

بائبل کا یہ الزام بالکل بے معنی ہے۔ حضرت سلیمانؑ نے بہت بڑی پیدل فوج کی بجائے ا س سے نسبتاً چھوٹی زیادہ متحرک اور فوری طورپر حرکت میں آنے والی گھڑ سوار فوج تیار کی اور بڑی فوج جہاں آج کے زمانے کے تیسری دنیا کے ممالک کے تجربے بتاتے ہیں ، ملکی وسائل کو سخت زیر بار کر دیتی ہے اور جنگی نقطہ نظر سے بھی حضرت سلیمان پراعتراض ایسا ہی ہے کہ کہا جائے کہ کسی ملک نے انفنٹری کے بجائے Motorised Divisions اختیار کر لئے ہوں تو اس پر اعتراض کیاجائے ۔

تیسرا اعتراض حضرت سلیمانؑ پر یہ کیا جاتاہے کہ حضرت سلیمان ؑ نے غیر یہودی اقوام سے تعلقات استوار کئے حالانکہ یہ حضرت سلیمانؑ کی خارجہ پالیسی کی کامیابی تھی نہ کہ قابل اعتراض بات ۔مگر بائبل نے اس بات کو بگاڑ کر اس رنگ میں پیش کیا ہے۔ لکھا ہے:

’’سلیمان بادشاہ فرعون کی بیٹی کے علاوہ بہت سی اجنبی عورتوں سے یعنی موآبی ، عمونی، ادومی ، صیدانی اور حِتّی عورتو ں سے محبت کرنے لگا ۔ یہ ان قوموں کی تھیں جن کی بابت خداوند نے بنی اسرائیل سے کہا تھا کہ تم ان کے بیچ نہ جانا اور نہ وہ تمہارے بیچ آئیں‘‘۔(۱۔ سلاطین باب ۱۱ آیت ۱،۲)

بائبل نے حضرت سلیمان کی نہایت زبردست خارجہ پالیسی کو مکروہ رنگ میں پیش کیاہے۔ انہوں نے فرعون سے ( اس دور کی سپر پاور سے ) اور ارد گرد کی اقوام سے نہایت عمدہ تعلقات قائم کئے۔ اور جب یہ تعلقات حضرت سلیمان کے بعد ختم ہوئے تو یہی سلاطین کی کتاب گواہ ہے کہ کس طرح انہیں حکومتوں اور طاقتوں نے بنی اسرائیل کی دونوں شمالی اور جنوبی حکومتوں کو باربار مغلوب کیا اور بالآخر ہمسایہ قوتوں کے ہاتھوں یہ دونوں حکومتیں یکے بعد دیگرے تباہ ہوئیں۔

چوتھا اعتراض بائبل کے بیانات کی روشنی میں مغربی مفکر حضرت سلیمان کی غلط پالیسیوں کے بارے میں لگاتے ہیں حالانکہ بائبل خود اقرار کرتی ہے کہ حضرت سلیمان نے نہ صرف اندرونی طورپر ضروریات زندگی کو پورا کرنے میں مد د دی بلکہ بیرونی قوموں کو بھی اپنے عطیات سے مرہون منت کرلیا چنانچہ ۱۔ سلاطین کے دس باب میں اور ۲۔ تواریخ باب ۹ میں یہ باتیں بیان ہیں۔

پھر قرآن کریم فرماتا ہے:

*۔۔۔’’اور سلیمان کے لئے ہم نے تیز ہوا کو بھی مسخر کر چھوڑا تھا ۔ ( دو زبردست بیڑے انہوں نے تیار کئے تھے ) جو اس کے حکم کے مطابق چلتی تھی۔ اس زمین کی طرف جس میں ہم نے برکت رکھی تھی اور ہم سب کچھ جانتے ہیں اور کچھ سرکش قبائل بھی تھے جو سرکشی چھوڑ کر سلیمان کے مفید کاموں کے لئے سمندروں میں غوطے لگاتے تھے اور اس کے سوا اور کام بھی کرتے تھے۔ اورہم ان کے کام کے نگران تھے‘‘۔ (سورۃ الانبیاء)

’’اور ہم نے داؤد اور سلیمان کو علم عطا کیا اور دونوں نے کہا اللہ ہی سب تعریف کا مالک ہے۔ جس نے ہم کو اپنے بہت سے مومن بندوں پر فضیلت دی ہے۔ اور سلیمان داؤد کا وارث بنا اور اس نے کہا اے لوگو ہمیں بلند پرواز روحانی لوگوں کی زبان سکھائی گئی ہے اور ہر ضروری مادی چیز اور روحانی تعلیم ہمیں عطا ہوئی ہے اور یہ کھلا کھلا فضل ہے۔ اور سلیمان کے سامنے جنّو ں اور انسانوں اور پرندوں میں سے اس کے لشکر ترتیب وار اکٹھے کئے گئے پھر انہیں کوچ کاحکم ملا یہاں تک کہ وہ جب وادی نمل میں پہنچے تو نملہ قوم میں سے ایک شخص نے کہا اے نملہ قوم اپنے اپنے گھروں میں چلے جاؤ ایسا نہ ہو کہ سلیمان اور اس کے لشکر لاعلمی اور بے خبری میں تمہیں مسل دیں۔ پس سلیمان اس کی یہ بات سن کر مسکرایا ( کہ دشمن کو بھی احساس ہے کہ ہماری افواج لاعلمی میں کسی معصوم کو تکلیف پہنچا دیں تو پہنچا دیں ارادۃً ایسا نہیں کر سکتی) اور اس نے کہا اے رب مجھے توفیق دے کہ میں تیری نعمت کا جو تو نے مجھ پر اور میرے والد پر کی ہے شکر ادا کر سکوں اور ایسا مناسب عمل کروں جسے تو پسند فرمائے اور اے خدا اپنے فضل سے مجھے اپنے بزرگ بندوں میں داخل کر لے۔ اور اس نے سب پرندوں کی حاضری لی اور کہا کہ مجھے کیا ہوا ہے کہ میں ہدہد کو نہیں دیکھتا یا وہ جان بوجھ کر غیر حاضر ہے ۔ میں اس کو یقیناً سخت سزا دوں گا یا اسے قتل کر دوں گا یا وہ میرے سامنے اپنی غیر حاضری کا کوئی مضبوط جواز پیش کرے۔ پس وہ کچھ دیر ٹھہرا اتنے میں ہدہد حاضر ہوا اور اس نے کہا ۔ میں نے ایک ایسی چیز کا علم حاصل کیا ہے جو آپ کو حاصل نہیں۔ اور میں سبا کی قوم کے علاقہ سے آپ کے پاس ایک یقینی اطلاع لے کر آیا ہوں جو یہ ہے کہ میں نے وہاں ایک عورت کو دیکھا ہے جو ان کی ساری قوم پر حکومت کر رہی ہے اور ہر طرح کی نعمت اسے حاصل ہے۔ اور اس کا ایک بڑا تخت ہے اور میں نے اس کو اور اس کی قوم کو اللہ کو چھوڑ کر سورج کے آگے سجدہ کرتے دیکھا اور شیطان نے ان کے عمل ان کو خوبصورت کر کے دکھائے ہیں۔ اور ان کو سچے راستے سے روک دیا ہے جس کی وجہ سے وہ ہدایت نہیں پاتے کہ اللہ کو سجدہ کریں جو کہ آسمانو ں اور زمین کی ہر پوشیدہ تقدیر کو ظاہر کرتا ہے اور جو کچھ تم چھپاتے ہو اور جو کچھ ظاہر کرتے ہو ان تدبیروں کو بھی وہ جانتا ہے ۔وہ اللہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں ۔ وہ ایک بڑے تخت کا مالک ہے ۔ اس پر سلیمان نے کہا ہم دیکھیں گے کہ تو نے سچ بولا ہے یاتو جھوٹوں میں سے ہے۔ تو میرا یہ خط لے جا اور اسے سبا کی قوم تک پہنچا دے پھر ان سے منہ موڑ لو دیکھو کہ وہ کیا جواب دیتے ہیں ۔ جب اس نے ایسا کیا تو وہ ملکہ بولی اے سردارو! مجھے ایک معزز خط دیا گیا ہے جو سلیمان کی طرف سے ہے کہ اللہ کے نام کے ساتھ جو بے ا نتہا رحم کرنے والا بارباررحم کرنے والا ہے تم مجھ پر زیادتی نہ کرو اور میرے حضور فرمانبرداری اختیار کرتے ہوئے حاضر ہو ۔ ملکہ نے کہا اے سردارو میرے اس کام میں اپنی پختہ رائے دو کیونکہ میں قطعی فیصلہ نہیں کروں گی جب تک تم موجود نہ ہو ۔

سرداروں نے کہا ہم بڑی طاقت والے ہیں اور بڑے جنگجو ہیں اورمعاملہ آ پ کے ہاتھ میں ہے ۔ آپ غور کر لیں کہ آپ کیا حکم دینا چاہتی ہیں۔ اس نے کہا بادشاہ جب کسی ملک میں داخل ہوتے ہیں تو اسے تباہ کر دیتے ہیں اور اس کے معزز باشندوں کو ذلیل کر دیا کرتے ہیں اوروہ اسی طرح کرتے چلے آئے ہیں۔میں نے فیصلہ کیا ہے کہ میں ان کی طرف تحفہ بھیجوں گی کہ ایلچی کیا جواب لاتے ہیں۔ پھر جب وہ تحفہ سلیمان کے پاس آیا تو اس نے کہا کیاتم مال کے ذریعہ میری مددکرنا چاہتے ہو اگر یہ بات ہے تو یاد رکھو کہ اللہ نے جو کچھ مجھے دیا ہے وہ اس دنیوی مال سے جو اس نے تم کو عطا کیا ہے بہت بہتر ہے بلکہ تم اپنے تحفے پر بہت نازاں ہو۔ اے ہدہدتم ان کے پاس واپس جاؤ اور ان سے کہہ دو کہ ہم بڑے لشکروں کے ساتھ ان کے پاس آئیں گے جن کا مقابلہ کرنے کی انہیں طاقت نہیں اور ان کو سبا سے ذلیل ہونے کی حالت میں نکال دیں گے اور وہ نیچے ہو چکے ہونگے۔ پھر اس نے اپنے سرداروں سے کہا کہ تم میں سے کون اس تخت کو میرے پاس لائے گا قبل اس کے کہ وہ فرمانبردار ہو کر میرے پاس آئیں۔پہاڑی قوموں میں سے ایک سرکش سردار نے کہا آپ کے اس مقام سے جانے سے پہلے میں وہ تخت لے آؤں گا اور میں اس بات پر قدرت رکھنے والا امانت دار ہوں۔ اس پر اس شخص نے کہا جس کو الٰہی کتاب کا علم حاصل تھا کہ میں آپ کے پاس اس کو آنکھ جھپکنے سے پہلے لے آؤں گا۔ پس جب سلیمان نے اس کو اپنے پاس رکھا ہوا دیکھا تو کہا یہ میرے رب کے فضل کی وجہ سے ہوا ہے تا کہ وہ مجھے آزمائے کہ میں شکر کرتا ہوں یا ناشکری کرتا ہوں اور جو شکر کرے وہ اپنی جان کے فائدہ کے لئے ایسا کرتا ہے اور جو ناشکری کرے تو یقیناً میرا رب بے نیاز اور بڑی سخاوت کرنے والا ہے۔ پھر سلیمان نے ارشاد کیا کہ اس ملکہ کے لئے اس کا تخت حقیر کر کے دکھاؤ ۔ ہم دیکھیں کیا وہ ہدایت پاتی ہے یا ان لوگوں میں سے بنتی ہے جو ہدایت نہیں پاتے۔ پس جب وہ آ گئی تو کہا گیا کہ کیا تیرا تخت ایسا ہی ہے۔ اس پر اس نے کہا یوں معلوم ہوتا ہے کہ یہ وہی ہے۔ اورسلیمان نے ملکہ کو اللہ کے سوا پرستش کرنے سے روکا وہ یقیناً کافر قوم میں سے تھی۔ اور اسے کہا گیا کہ محل میں داخل ہو جاؤ ۔ پس جب اس نے اس کو دیکھا تو اسے گہرا پانی سمجھا اور گھبرا گئی تب سلیمان نے کہا یہ تو محل ہے جس میں شیشے کے ٹکڑے لگائے گئے ہیں تب وہ ملکہ بولی اے میرے رب میں نے اپنی جان پر ظلم کیا اور میں سلیمان کے ساتھ رب العالمین پر ایمان لاتی ہوں۔(سورۃ النمل: آیات ۱۶ تا ۴۵)

’’اور سلیما ن کے لئے ایسی ہوا کام پر لگائی جس کا صبح کا چلنا ایک مہینے کے برابر ہوتاتھا اور شام کا چلنا بھی ایک مہینہ کے برابر ہوتا تھا ۔ اور ہم نے اس کے لئے تانبے کا چشمہ پگھلایا اور ہم نے بڑے بڑے سرکش لوگوں کی ایک جماعت بھی عطا کی تھی جو اس کے رب کے حکم سے اس کے تابع فرمان عمل کرتی تھی اور ہم نے یہ بھی کہہ دیا تھا کہ ان میں سے جو کوئی ہمارے حکم سے کجروی اختیار کرے گا ہم اس کو بھڑکتا ہوا عذاب پہنچائیں گے۔ وہ جو کچھ چاہتا تھا وہ سرکش قوموں کے سردار اس کے لئے بناتے تھے ۔ یعنی مساجد اور ڈھلے ہوئے مجسمے اور بڑے بڑے لگن جو حوضوں کے برابرہوتے تھے اور بھاری بھاری دیگیں جو ہر وقت چولہوں پر دھری رہتی تھیں اورہم نے کہا اے داؤد کے خاندان کے لوگو شکر گزاری کے ساتھ عمل کرو اور میرے بندوں میں سے بہت کم شکر گزار ہوتے ہیں۔ (سورۃ سباء آیات ۱۲ تا ۱۴)

جناب پادری صاحب!یہ ہے قرآن کریم کا بیان جس میں بائبل کے بیان کے مقابل نہ تو کوئی تضاد ہے نہ کوئی تذبذب ہے ۔ نہ خدا کی طرف سے اہم اور عظیم الشان ذمہ داریوں پرفائز کئے جانے والوں پر شرک اور کفر اور اخلاقی جرائم کے ارتکاب کا کوئی الزام ہے، نہ ہی خدا کی پاک وحی اور اس کے مکالمہ مخاطبہ کا مورد بننے والوں پر کوئی داغ لگایا گیاہے۔اب یہ ہے قرآن شریف کی پاک تاریخ بائبل کے مقابلہ میں جسے آپ Garbled تاریخ کہتے ہیں۔

(مطبوعہ :الفضل انٹرنیشنل ۲۸نومبر ۱۹۹۷ء تا۲۲جنوری۱۹۹۸ء)