مفید علمی حوالہ جات: حضرت خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا فیضان

آیات قرآنیہ

(۱) مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنۡ رِّجَالِکُمۡ وَ لٰکِنۡ رَّسُوۡلَ اللّٰہِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَ (الاحزاب :۴۱)

ترجمہ:۔ (از اہل سنت دیو بندی عالم محمود الحسن)’’محمد باپ نہیں کسی کا تمہارے مردوں میں سے لیکن رسول ہے اللہ کا اور مہر ہے سب نبیوں پر ‘‘

علامہ شبیر احمد عثمانی صاحب کے آیت خاتم النبیین کے ماتحت تشریحی نوٹ کا نتیجہ یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ رتبی اور زمانی ہر حیثیت سے خاتم النبیین ہیں اور جن کو نبوت ملی ہے آپ ہی کی مہر لگ کر ملی ہے ۔

مفردات میں امام راغب نے ختم کے حقیقی معنی نقش پیدا کرنا کئے ہیں جبکہ اس کے مجازی معنی آخری کے بھی ہو سکتے ہیں (مفردات امام راغب)

یہاں حقیقی معنی کے چسپاں ہونے میں ہی آنحضرت ﷺکی زیادہ شان اور فضیلت ہے یہی معنی اس حدیث کے ہیں کہ اَنَاخَاَتمُ الْاَنْبِیَاءِ وَاَنْتَ یَا عَلِیُّ خَاتَمُ الْاَوْلِیَاءِ (تفسیر عمدۃالبیان ج۲ص۲۸۴مناقب آل ابی طالب مصنفہ محمد بن علی بن شہر اشوب متوفی۵۸۸ھ۔ج۳ص۲۶۱)

ترجمہ:۔میں خاتم الانبیاء ہوں اور اے علی تو خاتم الاولیاء ہے یعنی ولیوں میں ایسے بلند مرتبہ والا جس کی پیروی سے ولایت مل سکتی ہے ۔

اسی طرح مسلم کتاب الحج باب فضل الصلوٰۃ بمسجدی مکۃ والمدینۃ میں رسول اللہ ﷺکا اپنی مسجد نبوی کو آخری مسجد فرمانا بھی انہی معنی میں ہے یعنی مقام اور مرتبہ کے لحاظ سے آخری۔

چنانچہ نامور صوفی حضرت ابو عبداللہ محمد بن علی حسین الحکیم الترمذی (متوفی۳۰۸ھ)کے نزدیک خاتم النبیین کے معنی محض آخری کرنے سے آنحضرت ﷺکی کوئی شان ظاہر نہیں ہوتی آپ لکھتے ہیں :

’’یُظَنُّ اَنَّ خاََتَمَ النَّبِیّٖنَ تَاْوِیْلُہٗ اَنَّہٗ اٰخِرُھُمْ مَبْعَثاً فَاَیُّ مَنْقَبَةٍ فیِْ ھٰذَاوَاَیُّ عِلْمٍ فِیْ ھٰذَا؟ھٰذَاَتأوِیْلُ الْبُلْہِ الْجَہَلَةِ‘‘ (کتاب ختم الاولیاء صفحہ۳۴۱ مطبع الکاثولیکیۃ بیروت)

ترجمہ :۔ یہ جو گمان کیا جاتا ہے کہ خاتم النبیین کی تاویل یہ ہے کہ آپ مبعوث ہونے کے اعتبار سے آخری نبی ہیں بھلا اس میں آپ کی کیا فضیلت وشان ہے؟ اور اس میں کونسی علمی بات ہے ؟یہ تاویل تو کم علم اور کم فہم لوگوں کی ہے ۔

بانی دیو بند مولانا محمد قاسم نانوتوی نے بھی خاتم النبیین کے اسی معنی کو درست قرار دیتے ہوئے تحریر فرمایا:۔

’’عوام کے خیال میں تو رسول اللہ صلعم کا خاتم ہونا بایں معنی ہے کہ آپؐ کا زمانہ انبیاء سابق کے زمانے کے بعد اور آپؐ سب میں آخری نبی ہیں مگر اہل فہم پر روشن ہوگا کہ تقدم یا تاخر زمانی میں بالذات کچھ فضیلت نہیں پھر مقام مدح میں وَلٰکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَخَاتَمَ النَّبِیِّیْن فرمانا اس صورت میں کیونکر صحیح ہو سکتا ہے ہاں اگر اس وصف کو اوصاف مدح میں سے نہ کہیے اور اس مقام کو مقام مدح قرار نہ دیجئے تو البتہ خاتمیت باعتبار تاخر زمانی صحیح ہو سکتی ہے مگر میں جانتا ہوں کہ اہل اسلام میں سے کسی کو یہ بات گوارا نہ ہو گی ‘‘( تحذیر الناس از مولانا محمد قاسم نانوتوی ۔صفحہ۳۔مطبع مجتبائی دہلی)

نیز فرماتے ہیں کہ

’’اگر بالفرض بعد زمانہ نبوی ﷺ بھی کوئی نبی پیدا ہوا تو پھر بھی خاتمیت محمدی میں کچھ فرق نہ آئے گا ‘‘ (تحذیر الناس ۔از مولانا محمد قاسم نانوتوی صاحب۔صفحہ۲۸)

مزید بر آں خود اہلسنت حضرت مسیح کی آخری زمانہ میں آمد کے قائل ہیں جن کے بارہ میں مسلم کی حدیث میں چار مرتبہ ذکر ہے کہ عیسیٰ نبی اللہ آئے گا۔( مسلم کتاب الفتن باب ذکر الدجال)

حدیث اِمَامُکُمْ مِنْکُمْ مزید وضاحت کر دیتی ہے کہ وہ امتی نبی ہو کر آئے گا (بخاری کتاب الانبیاء باب نزول عیسیٰ ابن مریم)

(۲) وَ مَنۡ یُّطِعِ اللّٰہَ وَ الرَّسُوۡلَ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمَ اللّٰہُ عَلَیۡہِمۡ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَ الصِّدِّیۡقِیۡنَ وَ الشُّہَدَآءِ وَ الصّٰلِحِیۡنَ ۚ وَ حَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِیۡقًا‏ (النساء۔ ۷۰)

ترجمہ:۔ (از احمد رضا خان بریلوی)اور جو اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانے تواسے ان کا ساتھ ملے گا جن پر اللہ نے فضل کیا یعنی انبیاء اور صدیق اور شہید اور نیک لوگ اور یہ کیا ہی اچھے ساتھی ہیں ۔

اس آیت اللہ اور اس کے رسول حضرت محمد مصطفی ﷺ کی اطاعت کرنے والوں کو چار قسم کے انعامات دئیے جانے کا وعدہ کیا گیا ہے نبوت ۔صدیقیت ۔شہادت۔ صالحیت اس آیت میں بعض لوگ مع کے معنی ساتھ کے کر دیتے ہیں حالانکہ امام راغب نے مع کے معنی زمان ومکان کی بجائے رتبی معیت کے لئے ہیں ( مفردات امام راغب)

مع کے ان معنوں کی تصدیق قرآن کریم سے بھی ہوتی ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّ الْمُنٰفِقِيْنَ فِىْ الدَّرْکِ الْاَسْفَلِ مِنَ النَّارِ‌ۚ وَلَنْ تَجِدَ لَهُمْ نَصِيْرًاۙ‏ ۔ اِلَّا الَّذِيْنَ تَابُوْا وَاَصْلَحُوْا وَاعْتَصَمُوْا بِاللّٰهِ وَاَخْلَصُوْا دِيْنَهُمْ لِلّٰهِ فَاُولٰٓٮِٕکَ مَعَ الْمُؤْمِنِيْنَ ( النساء۱۴۶ ۔۱۴۷)

یعنی تحقیق منافق دوزخ کے نچلے طبقہ میں ہوں گے اور تو ان کا کسی کو مدد گار نہیں پائے گا سوائے ان لوگوں کے جنہوں نے توبہ کر لی اور اصلاح کر لی اور اللہ تعالیٰ کوخوب مضبوط پکڑ لیا اور اپنے دین کو محض اللہ ہی کے لئے کردیا اور عمل صالح کرنے والوں اور اللہ تعالیٰ ہی کے ہو کررہنے والوں اور اطاعت کو خاص کر لینے والوں کی نسبت مَعَ الْمُوْمِنِیْنَ کے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں پس اگر مع کے معنی اس جگہ ساتھ کے لئے جاویں تو اس کے یہ معنی ہونگے کہ باوجود ان سب باتوں کے وہ مومن نہیں بنیں گے بلکہ صرف مومنوں کے ساتھ رکھے جائیں گے اور یہ بات بالبداہت باطل ہے پس مع کے معنی کبھی درجہ کی شراکت کے بھی ہوتے ہیں اور انہی معنوں میں اُوْلٓئِکَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ کی آیت میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے ۔

(۳)اَللّٰہُ یَصۡطَفِیۡ مِنَ الۡمَلٰٓئِکَۃِ رُسُلًا وَّ مِنَ النَّاسِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ سَمِیۡعٌۢ بَصِیۡرٌ(الحج :۷۶)

ترجمہ:۔ (از دیو بندی عالم مولوی اشرف علی تھانوی صاحب) اللہ تعالیٰ (کو اختیار ہے رسالت کے لیے جس کو چاہتا ہے )منتخب کر لیتا ہے فرشتوں میں سے (جن فرشتوں کو چاہے)احکام پہنچانے والے (مقرر فرما دیتا ہے )اور(اسی طرح) آدمیوں میں سے یقینی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ خوب سننے والااور خوب دیکھنے والا ہے۔ ان آیات کی روشنی میں جماعت احمدیہ کے نزدیک نبی کریم ﷺ کے بعد بھی آپ کی پیروی کے نتیجہ میں آپ کی مہر یعنی تصدیق سے ہی کوئی نبی ہوسکتا ہے ورنہ نہیں ۔

(۴) یٰبَنِیۡۤ اٰدَمَ اِمَّا یَاۡتِیَنَّکُمۡ رُسُلٌ مِّنۡکُمۡ یَقُصُّوۡنَ عَلَیۡکُمۡ اٰیٰتِیۡ ۙ فَمَنِ اتَّقٰی وَ اَصۡلَحَ فَلَا خَوۡفٌ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا ہُمۡ یَحۡزَنُوۡنَ‏(الاعراف۳۶)

ترجمہ:۔از(احمد رضا خان بریلوی ):اے آدم کی اولاد اگر تمہارے پاس تم میں سے رسول آئیں میری آیتیں پڑھتے تو جو پرہیزگاری کرے اور سنورے تو اس پر نہ کچھ خوف اور نہ کچھ غم ۔

اس آیت میں زمانہ مستقبل میں رسولوں کے مبعوث ہونے کا ذکر ہے یہاں مخاطب نزول آیات کے وقت موجود اور آئیندہ زمانہ کے بنی آدم ہیں اس سے پہلی آیات سے بھی پتہ چلتا ہے کہ یہاں مخاطب اس وقت موجود اور آئیندہ زمانہ کے بنی آدم ہیں جیسے آیت ۳۲میں ہے’’ اے آدم کے بیٹو ہر مسجد کے قریب زینت کے سامان اختیار کرو ‘‘۔

(۵) وَ اِذۡ اَخَذَ اللّٰہُ مِیۡثَاقَ النَّبِیّٖنَ لَمَاۤ اٰتَیۡتُکُمۡ مِّنۡ کِتٰبٍ وَّ حِکۡمَۃٍ ثُمَّ جَآءَکُمۡ رَسُوۡلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَکُمۡ لَتُؤۡمِنُنَّ بِہٖ وَ لَتَنۡصُرُنَّہٗ ؕ قَالَ ءَاَقۡرَرۡتُمۡ وَ اَخَذۡتُمۡ عَلٰی ذٰلِکُمۡ اِصۡرِیۡ ؕ قَالُوۡۤا اَقۡرَرۡنَا ؕ قَالَ فَاشۡہَدُوۡا وَ اَنَا مَعَکُمۡ مِّنَ الشّٰہِدِیۡنَ‏ (اٰل عمران: ۸۲)

ترجمہ:۔ جب اللہ تعالیٰ نے نبیوں سے عہد لیا کہ جو کچھ میں تمھیں کتاب وحکمت دوں پھر تمہارے پاس وہ رسول آئے جو تمہارے پاس کی چیز کو سچ بتائے تو تمہارے لئے اس پر ایمان لانا اور اس کی مدد کرنا ضروری ہے فرمایا کہ تم اس کے اقراری ہو اور اس پر میرا ذمہ لے رہے ہو ؟ سب نے کہا کہ ہمیں اقرار ہے ،فرمایا تو اب گواہ رہو اور خود میں بھی تمہارے ساتھ گواہوں میں ہوں۔ (از شاہ فہد قرآن کریم پرنٹنگ کمپلکس)

ترجمہ:(از مولانا محمود الحسن دیو بندی عالم)اور جب لیا اللہ نے عہد نبیوں سے کہ جو کچھ میں نے تم کو دیا کتاب اور علم پھر آوے تمہارے پاس کوئی رسول کہ سچا بتاوے تمہارے پاس والی کتاب کو تو اس رسول پر ایمان لاؤ گے اور اس کی مدد کرو گے فرمایا کہ کیا تم نے اقرار کیا اور اس شرط پر میرا عہد قبول کیا بولے ہم نے اقرار کیا فرمایا تو اب گواہ رہو اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہ ہوں۔

اس آیت میں ہر نبی سے قوم کی نمائندگی میں آیئندہ آنے والے نبی حضرت محمد مصطفی ﷺ پر ایمان لانے اور آپ کی مدد کرنے کا عہد لیا گیا ہے یہ عہد رسول کریم ﷺ سے بھی سورۃ الاحزاب آیت۸ میں ومنککے الفاظ میں لیا گیا ہے تا مسلمان آئیندہ آنے والے امتی نبی پر ایمان لائیں ۔

احادیث نبویہ

(۱) آیت خاتم النبیین ۵ھ میں نازل ہوئی اور نبی کریم ﷺ نے اپنے بیٹے کی وفات پر ۹ھ میں فرمایا لَوْ عَاشَ لَکَانَ صِدِّیْقاً نَّبِیًّا (ابن ماجہ کتاب الجنائز ۔ باب ما جاء فی الصلوٰۃ علی ابن رسول وذکر وفاتہ )

ترجمہ:۔ اگر ( صاحبزادہ ابراہیم)زندہ رہتے تو ضرور سچے نبی ہوتے ۔

(۲) اَبُوْبَکْرٍ خَیْرُالنَّاسِ اِلَّا اَنْ یَّکُوْنَ نَبِیٌّ (کنزالعمال جلد نمبر۱۱۔حدیث۳۲۵۴۸۔مطبوعہ مکتبۃ الترا ث اسلامی۔حلب)

ترجمہ:۔ حضرت ابوبکرؓ سب انسانوں سے بہتر ہیں سوائے اس کے کہ آئیندہ کوئی نبی پیدا ہو ۔

اقوال بزرگان سلف

(۱) جس طرح آنحضرت ﷺ کا یہ فرمان ہے کہ لٰااِلٰہَ اِلَّااللّٰہُکہنے والا جنت میں داخل ہوگا لوگوں میں غلط فہمی کا موجب بن سکتا تھا اس لئے حضرت عمرؓ نے اس فرمان نبویؐ کی اشاعت سے منع کیا اسی طرح لَانَبِیَّ بَعْدِیْکے فرمان سے غلط فہمی پیدا ہونے کے خطرہ کے پیش نظر حضرت عائشہؓ نے فرمایا :۔

قُوْلُوْا خَاتَمَ النَّبِیِّیْنَ وَلَا تَقُوْلُوا لَانَبِیَّ بَعْدَہٗ (مصنف ابن ابی شیبہ جز سادس حدیث نمبر۲۱۹مکتبہ دارالفکر)

ترجمہ:۔ یہ تو کہو کہ آنحضرت ﷺ خاتم النبیین ہیں مگر یہ کبھی نہ کہنا کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا ۔

(۲) حضرت امام عبدالوہاب شعرانی فرماتے ہیں :۔

وَقَوْلُہٗ ﷺ ’’فَلَا نَبِیَّ بَعْدِیْ وَلَا رَسُوْلَ‘‘ اَلْمُرَادُ بِہٖ لَا مُشَرِّعَ بَعْدِیْ (الیواقیت والجواہر جز۲ صفحہ۳۴۶۔مطبوعہ بیروت)

ترجمہ:۔ آنحضرت ﷺ کا یہ فرمانا کہ میرے بعد کوئی صاحب شریعت نبی نہیں یا رسول نہیں اس سے مراد یہ ہے کہ میرے بعدکوئی تشریعی نبی نہیں ۔

(۳) حضرت شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی فرماتے ہیں :۔

خُتِمَ بِہٖ النَّبِیُّوْنَ اَیْ لَا یُوْجَدُ بَعْدَہٗ مَنْ یَّاْمُرُہُ اللّٰہُ سُبْحَانَہٗ بِالتَّشْرِیْعِ عَلَی النَّاسِ (تفہیمات الٰہیہ۔ تفہیم ۵۴)

ترجمہ:۔ آنحضرت ﷺ پر نبی ختم ہو گئے یعنی آپ کے بعد کوئی ایسا شخص نہیں ہو سکتا جس کو اللہ تعالیٰ شریعت دے کر مبعوث کرے۔

(۴) حضرت محی الدین ابن عربی فرماتے ہیں ۔

اِنَّ النُّبُوَّةَ الَّتِیْ انْقَطَعَتْ بِوُجُوْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ ﷺ اِنَّمَا ھِیَ نُبُوَّةُالتَّشْرِیْعِ لَا مُقَامَھَا فَلاَ شَرْعَ یَکُوْنُ نَاسِخاً لِشَرْعِہٖ وَلَا یَزِیْدُ فِیْ شَرْعِہٖ حُکْماً اٰخَرَ وَھَذَا مَعْنٰی قَوْلِہٖ ﷺ اَنَّ الرَّسَالَةَ وَالنُّبُوَّةَ قَدِ انْقَطَعَتْ فَلَا رَسُوْلَ بَعْدِیْ وَلَا نَبِیَّ اَیْ لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ یَکُوْنُ عَلَی شَرْعٍ یُخَالِفُ شَرْعِیْ بَلْ اِذَاکَانَ یَکُوْنُ تَحْتَ حُکْمِ شَرِیْعَتِی وَلَا رَسُوْلَ اَیْ لَا رَسُوْلَ بَعْدِیْ اِلٰی اَحَدٍٍ مِنْ خَلْقِ اللّٰہِ بِشَرْعٍ یَدْعُوْھُمْ اِلَیْہِ فَھٰذَا ھُوَالَّذِیْ انْقَطَعَ وَسُدَّ بَابُہٗ لَا مُقَامُ النُبُوَّةِ(فتوحات مکیہ جلد۲ص۳ مطبع دارالکتب العربیہ الکبرٰی مصر)

ترجمہ:۔وہ نبوت جو آنحضرت ﷺ کے وجود پر ختم ہوئی وہ صرف تشریعی نبوت ہے پس آنحضرتؐ کی شریعت کو منسوخ کرنے والی کوئی شریعت نہیں آسکتی اور نہ اس میں کوئی حکم بڑھا سکتی ہے اور یہ معنی ہیں آنحضرت ﷺکے اس قول کے کہ رسالت اور نبوت منقطع ہو گئی اور میرے بعد کوئی رسول یا نبی نہیں آئے گا یعنی میرے بعد کوئی ایسا نبی نہیں جو میری شریعت کے خلاف کسی اور شریعت پر ہو ہاں اس صورت میں نبی آسکتا ہے جو میری شریعت کے حکم کے ماتحت آئے اور میرے بعد کوئی رسول نہیں یعنی میرے بعد دنیا کے کسی انسان کی طرف کوئی ایسا رسول نہیں آسکتا جو شریعت لے کر آئے اور لوگوں کو اپنی شریعت کی طرف بلانے والا ہو پس یہ وہ قسم نبوت ہے جو بند ہوئی اور اس کا دروازہ بند کر دیا گیا ورنہ مقام نبوت بند نہیں ۔

(۵) حضرت ملا علی قاری فرماتے ہیں :۔

قُلْتُ وَمَعَ ھَذَالَوْعَاشَ اِبْرَاہِیْمُ وَصَارَ نَّبِیًا وَکَذَا لَوْ صَارَ عُمُرُؓ نَبِیَّا لَکَانَا مِنْ اَتْبَاعِہٖ عَلَیْہِ السَّلَام ۔۔۔۔ فَلاَ یُنَاقِضُ قَوْلَہٗ تَعَالیٰ خَاَتمَ النَّبِیِّیْنَ اِذِالْمَعْنیٰ اَنَّہٗ لَا یَاْتِیْ نَبِیٌّ بَعْدَہٗ یَنْسَخُ مِلَّتَہٗ وَلَمَْیکُنْ مِّنْ اُمَّتِہٖ۔ (موضوعات کبیر۵۹۔۵۸۔مطبع مجتبائی دہلی)

ترجمہ۔ یعنی میں کہتا ہوں کہ اس کے ساتھ آنحضرت ﷺ کا فرمانا کہ اگر میرا بیٹا ابراہیم زندہ رہتا تو نبی ہوجاتااور اگر اسی طرح اگر عمرؓ نبی ہو جاتا تو یہ دونوں آنحضرت ﷺ کے متبعین میں سے ہوتے پس یہ ارشاد ’’خاتم النبیین‘‘ کے مخالف نہیں کیونکہ خاتم النبیین کا مطلب یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کے بعد کوئی ایسا نبی نہیں آسکتا جو آنحضرت ﷺ کی شریعت کو منسوخ کرے اور آپ کی امت سے نہ ہو ۔

(۶) علامہ عبدالحئی لکھنوی لکھتے ہیں ۔

’’علمائے اہل سنت بھی اس امر کی تصریح کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کے عصر میں کوئی نبی صاحب شرع جدید نہیں ہو سکتا اور نبوت آپ کی تمام مکلفین کو شامل ہے اور جو نبی آپ کے ہم عصر ہو گا وہ متبع شریعت محمدیہ ہو گا ‘‘ ( دافع الوساوس فی اثر ابن عباس ص ۳ ۔مطبع یوسفی واقع فرنگی محل لکھنوء)