دنیا کے نجات دہندہ صرف اور صرف آنحضور ﷺ

خطبہ جمعہ 5؍ اکتوبر 2012ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔

اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:

’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے واقعات پیش آمدہ‘‘ (یعنی جو واقعات و حالات آپ کو پیش آئے) ’’کی اگر معرفت ہو اور اس بات پر پوری اطلاع ہو کہ اُس وقت دنیا کی کیا حالت تھی اور آپؐ نے آ کر کیا کیا؟ تو انسان وجد میں آ کر اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ کہہ اُٹھتا ہے‘‘۔ فرمایا ’’مَیں سچ سچ کہتا ہوں، یہ خیالی اور فرضی بات نہیں ہے۔ قرآنِ شریف اور دنیا کی تاریخ اس امر کی پوری شہادت دیتی ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے کیا کیا۔ ورنہ کیا بات تھی جو آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے لئے مخصوصاً فرمایا گیا اِنَّ اللّٰہَ وَمَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ۔ یٰٓاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْہِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا (الاحزاب: 57)‘‘۔ یعنی اللہ تعالیٰ اور اُس کے تمام فرشتے رسول پر درود بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم بھی درود و سلام بھیجو نبی پر۔ فرمایا ’’کسی دوسرے نبی کے لئے یہ صدا نہیں آئی۔ پوری کامیابی پوری تعریف کے ساتھ یہی ایک انسان دنیا میں آیا جو محمد کہلایا صلی اللہ علیہ وسلم‘‘۔ (ملفوظات جلد اوّل صفحہ 421، ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

فرمایا: ’’اس آیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وسلم) کے اعمال ایسے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے اُن کی تعریف یا اوصاف کی تحدید کرنے کے لئے‘‘(یعنی حد لگانے کے لئے) ’’کوئی لفظ خاص نہ فرمایا۔ لفظ تو مل سکتے تھے لیکن خود استعمال نہ کئے۔ یعنی آپؐ کے اعمال صالحہ کی تعریف تحدید سے بیرون تھی‘‘۔ (ہر قسم کی حدوں سے بالا تھی۔) ’’اس قسم کی آیت کسی اور نبی کی شان میں استعمال نہ کی۔ آپؐ کی روح میں وہ صدق و وفا تھا اور آپؐ کے اعمال خدا کی نگاہ میں اس قدر پسندیدہ تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ کے لئے یہ حکم دیا کہ آئندہ لوگ شکرگزاری کے طور پر درود بھیجیں‘‘۔ (ملفوظات جلد اوّل صفحہ 24، ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

پس یہ مومن کا کام ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی تعلیم کو جب پڑھے، آپ کے اُسوۂ حسنہ کو جب دیکھے تو جہاں اس پر عمل کرنے اور اسے اپنانے کی کوشش کرے، وہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام بھیجے کہ اس محسنِ اعظم نے ہم پر کتنا عظیم احسان کیا ہے کہ زندگی کے ہر پہلو کو خدا تعالیٰ کی تعلیم کے مطابق عمل کر کے دکھا کر اور ہمیں اس کے مطابق عمل کرنے کا کہہ کر خدا تعالیٰ سے ملنے کے راستوں کی طرف ہماری رہنمائی کر دی۔ اللہ تعالیٰ کی عبادت کے معیار حاصل کرنے کے راستے دکھا دئیے۔ اللہ تعالیٰ کی مخلوق کا حق ادا کرنے کی ذمہ داری کا احساس مومنین میں پیدا کیا جس سے ایک مومن خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کر سکتا ہے۔ یہ سب باتیں تقاضا کرتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام بھیجتے ہوئے ہم دنیا کو بھی اس تعلیم اور آپ کے اُسوہ سے آگاہ کریں۔ آپ کے حسن و احسان سے دنیا کو آگاہ کریں۔ جب بھی غیروں کے سامنے آپ کی سیرت کے پہلو آئے تو وہ لوگ جو ذرا بھی دل میں انصاف کی رمق رکھتے تھے، وہ باوجود اختلافات کے آپ کی سیرت کے حسین پہلوؤں کی تعریف کئے بغیر نہیں رہ سکے۔ آج کل اسلام کے مخالفین آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر یا آپؐ کی لائی ہوئی تعلیم پر اعتراض کرتے ہیں۔ یہ لوگ یا تو انصاف سے خالی دل لئے ہوئے ہیں یا آپ کی سیرت کے حسین پہلوؤں کو جانتے ہی نہیں اور اس کے لئے کوشش کرنی بھی نہیں چاہتے۔ پس دنیا کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت سے آگاہی دینا بھی ہمارا کام ہے۔ اس کے لئے ہر قسم کا ذریعہ ہمیں استعمال کرنا چاہئے۔ اس کے بارے میں پہلے بھی مَیں کئی دفعہ کہہ چکا ہوں۔ بعض لوگوں کی فطرت ایسی ہوتی ہے یا دنیا میں ڈوب کر ایسے بن جاتے ہیں کہ اُن پر دنیاداروں کا اثر زیادہ ہوتا ہے۔ دنیادار اگر کوئی بات کہہ دے تو ماننے کو تیار ہو جاتے ہیں یا اُن پر اپنے لوگوں کی باتوں کا اثر زیادہ ہوتا ہے بجائے اس کے کہ ایک بات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ایک مسلمان سے سنیں۔ اگر اُن کے اپنے لوگ کہیں تو بعض دفعہ اُس پر غور کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس لئے اُن کے اپنے لوگوں کے، مشہور لوگوں کے جو کتابیں لکھنے والے ہیں، سکالرز ہیں، رائٹرز ہیں، اُن کے تاثرات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے بارے میں ایسے لوگوں تک پہنچانے چاہئیں۔ اس وقت مَیں ایسے ہی کچھ لوگوں کی تحریریں پیش کروں گا جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلمکی سیرت سے متأثر ہو کر، آپ کی شخصیت سے متاثر ہو کر آپ کے بارے میں لکھا ہے۔ ان میں سے بعض مخالفین بھی تھے اور مخالفت میں بڑھے ہوئے تھے لیکن حقیقت لکھنے پر مجبور ہوئے۔

George sale ایک مصنف ہیں جنہوں نے انگریزی ترجمہ قرآن (The Koran) میں To the reader کے عنوان سے ایک باب لکھا ہے۔ یہ اسلام کے بارے میں کوئی ہمارے حق میں نہیں ہیں۔ اسی طرح ایک مصنف سپین ہیمس (Spanhemius) ہے۔ وہ بھی اسلام کا کافی مخالف ہے۔ لیکن اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بعض باتیں کہی ہیں اور یہ اس کے بارہ میں لکھتا ہے کہ یہ تو نیک آدمی ہے۔ وہ نیک تو بہرحال نہیں ہے لیکن کم از کم انصاف لکھنے پر مجبور تھا۔ اُس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام کے بارہ میں جو لکھا ہے یہ اُس کے حوالے سے لکھ رہے ہیں۔ وہ لکھتا ہے کہ:

’’محمد صلی اللہ علیہ وسلم کامل طور پر فطری قابلیتوں سے آراستہ تھے، شکل میں نہایت خوبصورت، فہیم اور دُوررَس عقل والے۔ پسندیدہ و خوش اطوار۔ غرباء پرور، ہر ایک سے متواضع۔ دشمنوں کے مقابلہ میں صاحبِ استقلال و شجاعت۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ خدائے تعالیٰ کے نام کا نہایت ادب و احترام کرنے والے تھے۔ جھوٹی قسم کھانے والوں، زانیوں، سفّاکوں، جھوٹی تہمت لگانے والوں، فضول خرچی کرنے والوں، لالچیوں اور جھوٹی گواہی دینے والوں کے خلاف نہایت سخت تھے۔ بردباری، صدقہ و خیرات، رحم و کرم، شکرگزاری، والدین اور بزرگوں کی تعظیم کی نہایت تاکید کرنے والے اور خدا کی حمدوتعریف میں نہایت کثرت سے مشغول رہنے والے تھے‘‘۔ (The Koran by George Sale, Gent, fifth edition, Philadelphia; J.B. Lippincott & Co 1860, page iv-iiv)

اور یہ سب کچھ لکھنے کے باوجود وہ بعض جگہ جا کے آپ پر الزام تراشی بھی کرتا ہے۔

پھر ایک مصنف سٹینلے لین پول Stanley Lane-Poole ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ: حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اپنے آبائی شہر مکہ میں جب فاتحانہ داخل ہوئے اور اہل مکہ آپ کے جانی دشمن اور خون کے پیاسے تھے تو اُن سب کو معاف کر دیا۔ یہ ایسی فتح تھی اور ایسا پاکیزہ فاتحانہ داخلہ تھا جس کی مثال ساری تاریخ انسانیت میں نہیں ملتی۔ (The Speeches and Tablets of the Prophet Mohammad by Stanley Lane-poole, Macmillan and Co. 1882, page xlvi-xlvii)

پھر The Outline of History کے مصنف ہیں پروفیسر ایچ جی ویلز (H.G.Wells)۔ یہ کہتے ہیں کہ ’’پیغمبر اسلام کی صداقت کا یہی بڑا ثبوت ہے کہ جو آپ کو سب سے زیادہ جانتے تھے، وہی آپ پر سب سے پہلے ایمان لائے۔ … حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ہرگز جھوٹے مدعی نہ تھے۔ … اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اسلام میں بڑی خوبیاں اور باعظمت صفات موجود ہیں۔ … پیغمبرِ اسلام نے ایک ایسی سوسائٹی کی بنیاد رکھی جس میں ظلم اور سفاکی کا خاتمہ کیا گیا‘‘۔ (The Outline of History by H.G.Wells, part II)

پھر دی لیسی اولیرے (De Lacy O’Leary) اپنی کتاب اسلام ایٹ دی کراس روڈز(Islam at the Cross roads) میں لکھتا ہے کہ:

’’تاریخ نے اس بات کو کھول کر رکھ دیا ہے کہ شدت پسند مسلمانوں کا دنیا پر فتح پا لینا اور تلوار کی نوک پر مقبوضہ اقوام میں اسلام کو نافذ کر دینا تاریخ دانوں کے بیان کردہ قصوں میں سے فضول ترین اور عجیب ترین قصہ ہے‘‘۔ (Islam at the Cross Roads by De Lacy O’Leary, London 1923 p.8)

یعنی یہ جو تاریخ دان لکھتے ہیں ناں کہ تلوار کی نوک پر فتح پائی۔ کہتاہے یہ قصے فضول ترین قصے ہیں۔ پھر مہاتما گاندھی ایک جریدہ young Indiaمیں لکھتے ہیں کہ:

’’مَیں اُس شخص کی زندگی کے بارہ میں سب کچھ جاننا چاہتا تھا جس نے بغیر کسی اختلاف کے لاکھوں پر حکومت کی۔ اُس کی زندگی کا مطالعہ کر کے میرا اس بات پر پہلے سے بھی زیادہ پختہ یقین ہو گیا کہ اسلام نے اُس زمانے میں تلوار کی وجہ سے لوگوں کے دلوں میں جگہ نہیں بنائی بلکہ اس پیغمبر کی سادگی، اپنے کام میں مگن رہنے کی عادت، انتہائی باریکیوں کے ساتھ اپنے عہدوں کو پورا کرنا اور اپنے دوستوں اور پیروکاروں کے ساتھ انتہائی عقیدت رکھنا، بیباک و بے خوف ہونا اور خدا کی ذات اور اپنے مشن پر کامل یقین ہونا، اُس کی یہی باتیں تھیں جنہوں نے ہر مشکل پر قابو پایا اور جو سب کو ساتھ لے کر چلیں۔ جب مَیں نے اس پیغمبر کی سیرت کے متعلق لکھی جانے والی کتاب کی دوسری جلد بھی ختم کر لی تو مجھ پر اس کتاب (سیرت کے بارے میں جو بھی کتاب پڑھ رہے تھے) کے ختم ہو جانے کی وجہ سے اداسی طاری ہو گئی‘‘۔ (Mahatma Gandhi, Statement published in “Young India”, 1924)

پھر Sir John Bagot Glubb یہ لیفٹیننٹ جنرل تھے۔ 1986ء میں ان کی وفات ہوئی۔ یہ لکھتے ہیں کہ:

’’قاری اس کتاب کے آخر پر(جو کتاب وہ لکھ رہے تھے) جو بھی رائے قائم کرے اس بات کا انکار ممکن نہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے روحانی تجربات اپنے اندر پرانے اور نئے عہدناموں کے قصوں اور عیسائی بزرگوں کے روحانی تجربات سے حیران کُن حد تک مشابہت رکھتے ہیں۔ اسی طرح ممکن ہے کہ ہندؤوں اور دیگر مذاہب کے ماننے والے افراد کے ان گنت رؤیا اور کشوف سے بھی مشابہت رکھتے ہوں۔ مزید یہ کہ اکثر اوقات ایسے تجربات تقدس اور فضیلت والی زندگی کے آغاز کی علامت ہوتے ہیں۔ ایسے واقعات کو نفسانی دھوکہ قرار دینا کوئی موزوں وضاحت معلوم نہیں ہوتی کیونکہ یہ واقعات تو بہت سے لوگوں میں مشترک رہے ہیں۔ ایسے لوگ جن کے درمیان ہزاروں سالوں کا فرق اور ہزاروں میلوں کے فاصلے تھے۔ جنہوں نے ایک دوسرے کے بارے میں سنا تک نہ ہو گا لیکن اس کے باوجود ان کے واقعات میں ایک غیر معمولی یکجائی پائی جاتی ہے۔ یہ رائے معقول نہیں کہ ان تمام افرادنے حیران کن حد تک مشابہ رؤیا اور کشوف اپنے طور پر ہی بنا لئے ہوں۔ باوجود اس کے کہ یہ افراد ایک دوسرے کے وجود ہی سے لابلد تھے‘‘۔

پھر جن لوگوں نے ہجرت حبشہ کی تھی اُن کے بارے میں لکھتا ہے: ’’اس فہرست سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں تقریباً تمام وہ افراد شامل تھے جو کہ اسلام قبول کر چکے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کے متشدد باسیوں کے درمیان یقینا بہت کم پیروکاروں کے ساتھ رہ گئے تھے۔ یہ ایک ایسی حالت ہے جو ثابت کرتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اخلاقی جرأت اور ایمان کی مضبوطی کے اعلیٰ معیار پر قائم تھے‘‘۔ (The Life and Times of Muhammad)

پھر John William Draperاپنی کتاب History of the intellectual Development of Europeمیں لکھتے ہیں کہ:

’’Justinianکی وفات کے چار سال بعد 569 عیسوی میں مکّہ میں ایک ایسا شخص پیدا ہوا جس نے تمام شخصیات میں سب سے زیادہ بنی نوع انسان پر اپنا اثر چھوڑا اور وہ شخص محمد ہے(صلی اللہ علیہ وسلم) جسے بعض یورپین لوگ جھوٹا کہتے ہیں … لیکن محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کے اندر ایسی خوبیاں تھیں جن کی وجہ سے کئی قوموں کی قسمت کا فیصلہ ہوا۔ وہ ایک تبلیغ کرنے والے سپاہی تھے۔ ممبرفصاحت سے پُر ہوتا (یعنی جب تقریر فرماتے) میدان میں اترتے تو بہادر ہوتے۔ اُن کا مذہب صرف یہی تھا کہ خدا ایک ہے۔ (مذہب کا خلاصہ ایک ہی تھا کہ خدا ایک ہے۔ ) … اس سچائی کو بیان کرنے کے لئے انہوں نے نظریاتی بحثوں کو اختیار نہیں کیا بلکہ اپنے پیروکاروں کو صفائی، نماز اور روزہ جیسے امور کی تعلیم دیتے ہوئے اُن کی معاشرتی حالتوں کو عملی رنگوں میں بہتر بنایا۔ اُس شخص نے صدقہ و خیرات کو باقی تمام کاموں پر فوقیت دی‘‘۔ (History of the intellectual Development of Europe by John William Draper M.D., LL.D., New York: Harper and Brothers, Publishers, Fraklin Square 1863, page 244)

پھر ایک مشہور مستشرق ہیں William Montgomery، اپنی کتاب Muhammad at Madinah میں لکھتے ہیں کہ:

’’محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) اور اسلام کی ابتدائی تاریخ پر جتنا غور کریں، اتنا ہی آپ کی کامیابیوں کی وسعت کو دیکھ کر انسان دنگ رہ جاتا ہے۔ اُس وقت کے حالات نے آپ کو ایک ایسا موقع فراہم کیا جو بہت کم لوگوں کو ملتا ہے۔ گویا آپ اُس زمانے کے لئے موزوں ترین انسان تھے۔ اگر آپ کے پاس دوراندیشی، حکومت کرنے کی انتظامی صلاحیتیں، توکل علی اللہ اور اس بات پر یقین کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بھیجا ہے، نہ ہوتا تو انسانی تاریخ میں ایک اہم باب رقم ہونے سے رہ جاتا۔ مجھے امید ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے متعلق یہ کتاب ایک عظیم الشان ابن آدم کو سمجھنے اور اُس کی قدر کرنے میں مدد کرے گی‘‘۔ (William Montgomery Watt, Muhammad at Madinah, Oxford at the Clarendon Press 1956, pp. 335)

یہ اس سوانح نویس کی شہادت ہے جو آنحضرت(صلی اللہ علیہ وسلم) کے بارے میں مثبت رویہ نہیں رکھتا۔

پھر مشہو ر عیسائی مؤرخ Reginald Bosworth Smith لکھتا ہے کہ ’’مذہب اور حکومت کے رہنما اور گورنر کی حیثیت سے پوپ اور قیصر کی دو شخصیتیں حضرت محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کے ایک وجود میں جمع تھیں۔ آپ پوپ تھے مگر پوپ کی طرح ظاہر داریوں سے پاک۔ آپ قیصر تھے مگر قیصر کے جاہ و حشمت سے بے نیاز۔ اگر دنیا میں کسی شخص کو یہ کہنے کا حق حاصل ہے کہ اُس نے باقاعدہ فوج کے بغیر، محل شاہی کے بغیر اور لگان کی وصولی کے بغیر صرف خدا کے نام پر دنیا میں امن اور انتظام قائم رکھا تو وہ صرف حضرت محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) ہیں۔ آپ کو اس سازو سامان کے بغیر ہی سب طاقتیں حاصل تھیں‘‘۔

پھر یہی Bosworth Smith اپنی کتاب محمد اینڈ محمدن ازم (Muhammed and Muhammedanism) میں لکھتے ہیں کہ:

’’آپ کے مشن(یعنی نبوت و رسالت) کو سب سے پہلے قبول کرنے والے وہ لوگ تھے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اچھی طرح جانتے تھے۔ مثلاً آپ کی زوجہ، آپ کا غلام، آپ کا چچا زاد بھائی اور آپ کا پرانا دوست، جس کے بارے میں حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے کہا تھا کہ اسلام کے داخل ہونے والوں میں سے وہ واحد انسان تھا جس نے کبھی اپنی پیٹھ نہیں موڑی تھی اور نہ ہی وہ کبھی پریشان ہوا تھا۔ عام پیغمبروں کی طرح حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی قسمت معمولی نہ تھی کیونکہ آپ کی عظمت کا انکارکرنے والے صرف وہی لوگ ہیں جنہیں آپ کی ذات کا صحیح علم حاصل نہیں تھا‘‘۔ (Muhammed and Muhammedanism by R. Bosworth Smith, Smith Elder and Co. 1876, page 127)

پھر Bosworth ہی آگے لکھتے ہیں کہ:

’’وہ رسوم و رواج جن سے محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) نے منع فرمایا، نہ صرف آپ نے ان کی ممانعت فرمائی بلکہ اُن کا مکمل طور پر قلع قمع کر دیا۔ جیسے انسانی قربانیاں (یعنی انسانوں کو قربان کرنا) چھوٹی بچیوں کے قتل، خونی جھگڑے، عورتوں کے ساتھ غیر محدود شادیاں، غلاموں کے ساتھ نہ ختم ہونے والے ظلم و ستم، شراب نوشی اور جؤا بازی۔ (اگر آپ ایسا نہ کرتے تو) یہ سلسلہ بلا روک ٹوک عرب اور اس کے ہمسائے ملکوں میں جاری رہتا‘‘۔ (اور آپ نے ان سب کو ختم کر دیا۔) (ایضاً صفحہ 125)

پھر یہی آگے لکھتا ہے کہ:

’’حضرت محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) نے اپنے مقصد کی سچائی اور نیکی میں عمیق ترین ایمان رکھ کر جو کچھ کیا تھا، کوئی دوسرا شخص اس میں گہرے یقین کے بغیر کچھ بھی نہیں کر سکتا‘‘۔ (یہ گہرا ایمان اور یقین جو تھا، وہ آپ کو اپنے مقصد کے بارے میں، اپنے دعویٰ کے بارے میں، اپنا خدا تعالیٰ کی طرف سے ہونے کے بارے میں ہوا, تبھی یہ انقلاب آیا۔ ) وہ کہتا ہے کہ’’آپ کی زندگی کا ہر واقعہ آپ کو ایسا حقیقت پسند اور پُر جوش انسان ثابت کرتا ہے جو اپنے مسلمہ عقائد اور نظریات تک آہستہ آہستہ تکالیف برداشت کرتے ہوئے پہنچنے کی کوشش کرتا ہے‘‘۔ (ایضاً صفحہ 127)

پھر آگے لکھتے ہیں کہ ’’یہ کہنا کہ عرب کو انقلاب کی ضرورت تھی یا بالفاظ دیگر یہ کہنا کہ نئے پیغمبر کے ظہور کا وقت آ گیا تھا۔ اگر ایسا ہی تھا تو پھر حضرت محمد ہی وہ پیغمبر کیوں نہ ہوں؟ اس موضوع پر موجودہ زمانے کے مصنف سپرنگر نے یہ ثابت کیا ہے کہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی آمد سے سالہا سال قبل ایک پیغمبر کے ظہور کی توقع بھی تھی اور پیشگوئی بھی تھی‘‘۔ (ایضاً صفحہ 133)

پھر آگے یہی Bosworth ہی بیان کرتاہے کہ: ’’مجموعی طور پر مجھے یہ حیرانی نہیں کہ حضرت محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) مختلف حالات میں کتنے بدل گئے تھے۔ بلکہ تعجب تو یہ ہے کہ آپ کی شخصیت میں کتنی کم تبدیلی پیدا ہوئی تھی۔ صحرائی گلہ بانی کے ایام میں (یعنی جب بھیڑیں چَراتے تھے) شامی تاجر کے طور پر، غارِ حرا کی خلوت گزینی کے ایام میں، اقلیتی جماعت کے مصلح کی حیثیت سے، (جب مکّہ میں تھے)، مدینہ میں جِلا وطنی کے ایام میں، ایک مسلّمہ فاتح کی حیثیت سے، یونانی بادشاہوں اور ایرانی ہرقلوں کے ہم مرتبہ ہونے کی حالت میں ہم آپ کی شخصیت میں ایک غیر متزلزل استقلال کا مشاہدہ کر سکتے ہیں‘‘۔ کہتا ہے کہ’’مجھے نہیں لگتا کہ اگر کسی اور آدمی کے خارجی حالات اس قدر زیادہ بدل جاتے تو کبھی اُس کی ذات میں اس قدر کم تبدیلی رونما ہوتی۔ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے خارجی حالات تو تبدیل ہوتے رہے مگر ان تمام حالتوں میں مجھے اُن کی ذات کا جوہر ایک جیسا ہی دکھائی دیتا ہے‘‘۔ (ایضاً صفحہ 133)

واشنگٹن اروِنگ (Washington Irving) اپنی کتاب ’’لائف آف محمدؐ‘‘ میں لکھتا ہے کہ: ’’آپ کی جنگی فتوحات نے آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے اندر نہ تو تکبر پیدا کیا، نہ کوئی غرور اور نہ کسی قسم کی مصنوعی شان و شوکت پیدا کی۔ اگران فتوحات میں ذاتی اغراض ہوتیں تو یہ ضرور ایسا کر تیں۔ اپنی طاقت کے جوبن پر بھی اپنی عادات اور حلیہ میں وہی سادگی برقرار رکھی جو کہ آپ کے اندر مشکل ترین حالات میں تھی۔ یہاں تک کہ اپنی شاہانہ زندگی میں بھی اگر کوئی آپ کے کمرہ میں داخل ہوتے وقت غیر ضروری تعظیم کا اظہار کرتا تو آپ اسے ناپسند فرماتے‘‘۔ (The Life of Mahomet by Washington Irving, Leipzig Bernhard Touchritz 1850, pp.272-273)

پھر سر ولیم میور (Sir William Muir) یہ بھی ایک مستشرق ہے اور کافی کچھ خلاف بھی لکھتا ہے۔ یہ بھی لکھتا ہے کہ:

’’اپنا ہرایک کام مکمل کرتے اور جس کام کو بھی ہاتھ میں لیتے جب تک اس کو ختم نہ کر لیتے اُسے نہ چھوڑتے۔ معاشرتی میل جول میں بھی آپ کا یہی طریق رہتا۔ جب آپ کسی کے ساتھ بات کرنے کے لئے اپنا رُخ موڑتے تو آپ آدھا نہ مڑتے بلکہ پورا چہرہ اور پورا جسم اُس شخص کی طرف پھیر لیتے۔ کسی سے مصافحہ کرتے وقت آپ اپنا ہاتھ پہلے نہ کھینچتے۔ اسی طرح کسی اجنبی کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے درمیان میں نہ چھوڑتے اور اگلے شخص کی بات پوری سنتے۔ آپ کی زندگی پر آپ کی خاندانی سادگی غالب تھی۔ آپ کو ہر کام خود کرنے کی عادت تھی۔ جب بھی آپ صدقہ دیتے تو سوالی کو اپنے ہاتھ سے دیتے۔ گھریلو کام کاج میں اپنی بیویوں کا ہاتھ بٹاتے …‘‘۔

پھر لکھتا ہے: ’’آپ تک ہرکس و ناکس کی پہنچ ہوتی جیسے دریا کی پہنچ کنارے تک ہوتی ہے۔ باہر سے آئے ہوئے وفود کو عزت و احترام سے خوش آمدید کہتے۔ ان وفود کی آمد اور دیگر حکومتی معاملات کے متعلق تاریخ سے ثابت ہوتا ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے اندر ایک قابل حکمران کی تمام صلاحیتیں موجود تھیں۔ سب سے زیادہ حیران کُن بات یہ ہے کہ آپ لکھنا نہیں جانتے تھے‘‘۔ (The Life of Mahomet by by William Muir, Vol. IV, London: Smith, Elder and Co., 65 Cornhill, 1861, pp.510-13)

پھر یہی ولیم میور لکھتا ہے کہ: ’’ایک اہم خوبی وہ خوش خلقی اور وہ خیال تھا جو آپ اپنے معمولی سے معمولی پیروکار کا رکھا کرتے۔ حیا، شفقت، صبر، سخاوت، عاجزی آپ کے اخلاق کے نمایاں پہلو تھے اور ان کے باعث آپ اپنے ماحول میں ہر شخص کو اپنا گرویدہ کر لیتے۔ انکار کرنا آپ کو ناپسند تھا۔ اگر کسی سوالی کی فریاد پوری نہ کر پاتے تو خاموش رہنے کو ترجیح دیتے۔ کبھی یہ نہیں سنا کہ آپ نے کسی کی دعوت ردّ کی ہو خواہ وہ کتنی ہی معمولی کیوں نہ ہو۔ اور کبھی یہ نہیں ہوا کہ آپ نے کسی کا پیش کیا ہو اتحفہ رد کر دیا ہو خواہ وہ کتنا ہی چھوٹا کیوں نہ ہو۔ آپ کی ایک نرالی خوبی یہ تھی کہ آپ کی محفل میں موجود ہر شخص کو یہ خیال ہوتا کہ وہی اہم ترین مہمان ہے۔ اگر آپ کسی کو اپنی کامیابی پر خوش پاتے تو گرمجوشی سے اس سے مصافحہ کرتے اور گلے لگاتے اور محروموں اور تکلیف میں گھِرے افرادسے بڑی نرمی سے ہمدردی کا اظہار کرتے۔ بچوں سے بہت شفقت سے پیش آتے اور راہ کھیلتے بچوں کو سلام کرنے میں کوئی عار محسوس نہ کرتے۔ وہ قحط کے ایام میں بھی دوسروں کو اپنے کھانے میں شریک کرتے اور ہر ایک کی آسانی کے لئے ہمیشہ کوشش کرتے رہتے۔ ایک نرم اور مہربان طبیعت آپ کے تمام خواص میں نمایاں نظرآتی تھی۔ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ایک وفادار دوست تھا۔ اس نے ابو بکر سے بھائی سے بڑھ کر محبت کی۔ علی سے پدرانہ شفقت کی۔ زید، جو آزاد کردہ غلام تھا، کو اس شفیق نبی سے اس قدر لگاؤ تھا کہ اس نے اپنے والد کے ساتھ جانے کی بجائے مکہ میں رہنے کو ترجیح دی۔ اپنے نگران کا دامن پکڑتے ہوئے اس نے کہا، ’میں آپ کو نہیں چھوڑوں گا، آپ ہی میرے ماں اور باپ ہیں‘۔ دوستی کا یہ تعلق زید کی وفات تک رہا اور پھر زید کے بیٹے اسامہ سے بھی اس کے والد کی وجہ سے آپ نے ہمیشہ بہت مشفقانہ سلوک کیا۔ عثمان اور عمر بھی آپ سے ایک خاص تعلق رکھتے تھے۔ آپ نے حدیبیہ کے مقام پر بیعتِ رضوان کے وقت اپنے محصور داماد کے دفاع کے لئے جان تک دینے کا جو عہد کیا وہ اسی سچی دوستی کی ایک مثال ہے۔ دیگر بہت سے مواقع ہیں جو کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی غیر متزلزل محبت کے طور پر پیش کئے جاسکتے ہیں۔ کسی بھی موقع پر یہ محبت بے محل نہ تھی، بلکہ ہر واقعہ اسی گرمجوش محبت کا آئینہ دار ہے‘‘۔

پھر لکھتا ہے کہ’’اپنی طاقت کے عروج پر بھی آپ منصف اور معتدل رہے۔ آپ اپنے اُن دشمنوں سے نرمی میں ذرہ بھی کمی نہ کرتے جو آپ کے دعاوی کو بخوشی قبول کر لیتے۔ مکہ والوں کی طویل اور سرکش ایذارسانیاں اس بات پر منتج ہو نی چاہئے تھیں کہ فاتح مکّہ اپنے غیظ و غضب میں آگ اور خون کی ہولی کھیلتا۔ لیکن محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے چند مجرموں کے علاوہ عام معافی کا اعلان کر دیااور ماضی کی تمام تلخ یادوں کو یکسر بھلا دیا۔ ان کے تمام استہزائ، گستاخیوں اور ظلم و ستم کے باوجود آپ نے اپنے سخت ترین مخالفین سے بھی احسان کا سلوک کیا۔ مدینہ میں عبد اللہ اور دیگر منحرف ساتھی (یعنی جو منافقین تھے) جو کہ سالہا سال سے آپ کے منصوبوں میں روکیں ڈالتے اور آپ کی حاکمیت میں مزاحم ہوتے رہے، ان سے درگزر کرنا بھی ایک روشن مثال ہے۔ اسی طرح وہ نرمی جو آپ نے اُن قبائل سے برتی جو آپ کے سامنے سرنگوں تھے۔ اور قبل ازیں جو فتوحات میں بھی شدید مخالف رہے تھے، ان سے بھی نرمی کا سلوک فرمایا‘‘۔ (ایضاً صفحہ 305 تا 307)

پھر یہی ولیم میور لکھتا ہے کہ: ’’یہ محمد کی سچائی کے لئے ایک تائیدی نشان تھا‘‘ (کئی جگہ پر مخالفت میں بھی، اور قرآن کے بارے میں بھی لکھتا ہے، لیکن یہاں لکھ رہا ہے) کہ ’’یہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی سچائی کے لئے ایک تائیدی نشان تھا کہ جو بھی آپ پر اوّل اوّل ایمان لائے وہ اعلیٰ کردار کے مالک تھے۔ بلکہ آپ کے قریبی دوست اور گھر کے افراد بھی، جو کہ آپ کی ذاتی زندگی سے اچھی طرح واقف تھے آپ کے کردار میں وہ خامیاں نہ دیکھ سکے جو عام طور پر ایک منافق دھوکہ باز کے گھریلو تعلق اور باہر کے رویہ میں ہوتی ہیں‘‘۔ (ایضاً صفحہ 97-98)

Sir Thomas Carlyle آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اُمّی ہونے کے متعلق لکھتے ہیں کہ: ’’ایک اور بات ہمیں ہر گز بھولنی نہیں چاہئے کہ اُسے کسی مدرسہ کی تعلیم میسر نہ تھی۔ اس چیز کو جسے ہم سکول لرننگ (School Learning) کہتے ہیں، ایسا کچھ بھی نہیں تھا۔ لکھنے کا فن تو عرب میں بالکل نیا تھا۔ یہ رائے بالکل سچی معلوم ہوتی ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کبھی خودنہ لکھ سکا۔ اس کی تمام ترتعلیم صحراء کی بودو باش اور اس کے تجربات کے گرد گھومتی ہے۔ اس لامحدود کائنات، اپنے تاریک علاقہ اور ا پنی انہی مادی آنکھوں اور خیالات سے وہ کیا کچھ حاصل کر سکتے تھے؟ مزید حیرت ہوتی ہے جب دیکھا جائے کہ کتابیں بھی میسر نہ تھیں۔ عرب کے تاریک بیابان میں سُنی سُنائی باتوں اور اپنے ذاتی مشاہدات کے علاوہ وہ کچھ بھی علم نہ رکھتے تھے۔ وہ حکمت کی باتیں جو آپ سے پہلے موجود تھیں یا عرب کے علاوہ دوسرے علاقہ میں موجود تھیں، ان تک رسائی نہ ہونے کے باعث وہ آپ کے لئے نہ ہونے کے برابرتھیں۔ ایسے حکام اور علماء میں سے کسی نے اس عظیم انسان سے براہِ راست مکالمہ نہیں کیا۔ وہ اس بیابان میں تنِ تنہا تھے اور یونہی قدرت اور اپنی سوچوں کے محور میں پروان چڑھا‘‘۔ (Six Lectures by Thomas Carlyle, Edition 1846, Lecture 2 page 47)

پھرآپؐ کی شادی کے بارے میں اور آپ کے گھریلو تعلقات کے بارہ میں لکھتا ہے کہ وہ کیسے خدیجہ کا ساتھی بنا؟ کیسے ایک امیر بیوہ کے کاروباری امور کامہتمم بنا اور سفر کر کے شام کے میلوں میں شرکت کی؟ اُس نے یہ سب کچھ کیسے کر لیا؟ ہر ایک کو بخوبی علم ہے کہ اُس نے یہ انتہائی وفاداری اور مہارت کے ساتھ کیا۔ خدیجہ (رضی اللہ عنہا) کے دل میں اُن کا احترام اور ان کے لئے شکر کے جذبات کیونکر پیدا ہوئے؟ ان دونوں کی شادی کی داستان، جیسا کہ عرب کے مصنفین نے ذکر کیا ہے، بڑی دلکش اور قابلِ فہم ہے۔ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی عمر 25سال تھی اور خدیجہ کی عمر40 سال تھی‘‘۔ پھر لکھتا ہے کہ ’’معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے اس محسنہ کے ساتھ انتہائی پیار بھری، پرسکون اور بھرپور زندگی بسر کی۔ وہ خدیجہ سے حقیقی پیار کرتے تھے اور صرف اُسی کے تھے۔ اس کو جھوٹا نبی کہنے میں یہ حقیقت روک ہے کہ آپ نے زندگی کا یہ دور اس انداز سے گزارا کہ اس پر کوئی اعتراض نہیں کر سکتا۔ یہ دور انتہائی سادہ اور پُر سکون تھا یہاں تک کہ آپ کی جوانی کے دن گزر گئے‘‘۔ (Six Lectures by Thomas Carlyle, Edition 1846, Lecture 2 page 48)

پھر Thomas Carlyle ہی لکھتے ہیں کہ: ’’ہم لوگوں یعنی عیسائیوں میں جو یہ بات مشہور ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ایک پُرفن اور فطرتی شخص اور جھوٹے دعویدارِ نبوت تھے اور ان کا مذہب دیوانگی اور خام خیالی کا ایک تودہ ہے، اب یہ سب باتیں لوگوں کے نزدیک غلط ٹھہرتی چلی جاتی ہیں‘‘۔ کہتا ہے ’’جو جھوٹ باتیں متعصب عیسائیوں نے اس انسان یعنی (آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم) کی نسبت بنائی تھیں اب وہ الزام قطعاً ہماری رُوسیاہی کا باعث ہے اور جو باتیں اس انسان (یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم) نے اپنی زبان سے نکالی تھیں، بارہ سو برس سے اٹھارہ کروڑ آدمیوں کے لئے بمنزلہ ہدایت کے قائم ہیں‘‘۔ (جب یہ انیسویں صدی میں تھا، اُس وقت کی باتیں ہیں )، ’’اس وقت جتنے آدمی محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اعتقاد رکھتے ہیں اس سے بڑھ کر اور کسی کے کلام پر اس زمانے کے لوگ یقین نہیں رکھتے۔ میرے نزدیک اس خیال سے بدتر اور ناخدا پرستی کا کوئی دوسرا خیال نہیں ہے کہ ایک جھوٹے آدمی نے یہ مذہب پھیلایا‘‘۔ (یعنی یہ بالکل غلط چیز ہے)۔ (Six Lectures on Heroes, Hero-Worship and the Heroic in History by Thomas Carlyle)

پھر ایک فرنچ فلاسفر لا مانٹین (Lamartine) اپنی کتاب ’ہسٹری آف ٹرکی‘ (History of Turkey) میں لکھتا ہے کہ: ’’اگرکسی شخص کی قابلیت کو پرکھنے کیلئے تین معیار مقرر کئے جائیں کہ اُس شخص کا مقصد کتنا عظیم ہے، اُس کے پاس ذرائع کتنے محدود ہیں اور اُس کے نتائج کتنے عظیم الشان ہیں توآج کون ایسا شخص ملے گا جو محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) سے مقابلہ کرنے کی جسارت کرے۔ دنیا کی شہرہ آفاق شخصیات نے صرف چند فوجوں، قوانین اور سلطنتوں کو شکست دی۔ اور انہوں نے محض دنیاوی حکومتوں کا قیام کیا اور اُن میں سے بھی بعض طاقتیں اُن کی آنکھوں کے سامنے ٹوٹ کر ریزہ ریزہ ہو گئیں۔ مگرمحمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے نہ صرف دنیا کی فوجوں، قوانین، حکومتوں، مختلف اقوام اور نسلوں بلکہ دنیا کی کل آبادی کے ایک تہائی کو یکجا کر دیا۔ مزید برآں اُس نے قربانگاہوں، خداؤوں، مذاہب، عقائد، افکار اور روحوں کی تجدید کی۔ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی بنیادصرف ایک کتاب تھی جس کا حرف حرف قانون بن گیا۔ اُس شخص نے ہرزبان اور ہر نسل کو ایک روحانی تشخص سے نوازا‘‘۔

پھر لکھتا ہے: ’’محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ایک فلسفہ دان، خطیب، پیغمبر، قانون دان، جنگجو، افکار پر فتح پانے والا، عقلی تعلیمات کی تجدید کرنے والا، بیسیوں ظاہر ی حکومتوں اور ایک روحانی حکومت کو قائم کرنے والا شخص تھا۔ انسانی عظمت کو پرکھنے کا کوئی بھی معیار مقرر کر لیں، کیامحمد (صلی اللہ علیہ وسلم) سے بڑھ کر کبھی کوئی عظیم شخص پیدا ہوا؟‘‘ (History of Turkey by A. De Lamartine, New York: D. Appleton and Company, 346 & 348 Broadway, 1855. vol.1 pp.154-155)

جان ڈیون پورٹ لکھتا ہے کہ: ’’کیا یہ بات سمجھ میں آ سکتی ہے کہ جس شخص نے حقیر و ذلیل بت پرستی کے بدلے، جس میں اُس کے ہم وطن یعنی اہل عرب مبتلا تھے، خدائے برحق کی پرستش قائم کر کے بڑی بڑی ہمیشہ رہنے والی اصلاحیں کیں، وہ جھوٹا نبی تھا؟ کیا ہم اس سرگرم اور پُرجوش مصلح کو فریبی ٹھہرا سکتے ہیں اور یہ کہہ سکتے ہیں کہ ایسے شخص کی تمام کارروائیاں مکر پر مبنی تھیں؟۔ نہیں، ایسا نہیں کہہ سکتے۔ بیشک محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) بجز دلی نیک نیتی اور ایمانداری کے اور کسی سبب سے ایسے استقلال کے ساتھ ابتدائے نزول وحی سے اخیر دم تک مستعدنہیں رہ سکتے تھے۔ جو لوگ ہر وقت اُن کے پاس رہتے تھے اور جو اُن سے بہت کچھ ربط ضبط رکھتے تھے اُن کو بھی کبھی آپ کی ریا کاری کا شبہ نہیں ہوا‘‘۔

پھر لکھتا ہے کہ: ’’یہ بات یقینی طور پر کامل سچائی کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ اگر مغربی شہزادے مسلمان مجاہدین اور ترکوں کی جگہ ایشیا کے حکمران ہو گئے ہوتے تو مسلمانوں کے ساتھ اس مذہبی رواداری کا سلوک نہ کرتے جو مسلمانوں نے عیسائیت کے ساتھ کیا۔ کیونکہ عیسائیت نے تو اپنے ان ہم مذہبوں کو نہایت تعصب اور ظلم کے ساتھ تشدد کا نشانہ بنایا جن کے ساتھ اُن کے مذہبی اختلافات تھے‘‘۔ (An Apology for Mohammed and the Koran by John Devenport, page 82, Chapter: The Koran, printed by J.Davy and Sons, London, 1882)

پھر یہی جان ڈیون پورٹ لکھتے ہیں کہ: ’’اس میں کچھ شبہ نہیں کہ تمام منصفوں اور فاتحوں میں ایک بھی ایسا نہیں جس کی سوانح حیات محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کی سوانح حیات سے زیادہ مفصل اور سچی ہو‘‘۔ (ایضاً)

پھر مائیکل ایچ ہارٹ (Michael H. Hart) اپنی کتاب “A Ranking of the Most Influential Persons in History” میں لکھتے ہیں کہ: ’’دنیا پر اثر انداز ہونے والے لوگوں میں محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کا نام پہلے نمبر کیلئے منتخب کرنا بعض پڑھنے والوں کو شاید حیرت زدہ کرے اور بعض اس پر سوال بھی اُٹھائیں گے۔ لیکن تاریخ میں وہ واحد شخص تھا جو کہ مذہبی اور دنیاوی ہر دو سطح پر انتہائی کامیاب تھا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کوئی اس بات کا کیسے اندازہ کرے کہ انسانی تاریخ پر محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کس طرح اثر انداز ہوئے؟ دیگر مذاہب کی طرح اسلام نے بھی اپنے پیروکاروں کی زندگیوں پر ایک گہرا اثر چھوڑاہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا میں پائے جانے والے عظیم مذاہب کے بانیوں کو اس کتاب میں اہم مقام دیا گیا ہے‘‘۔ لکھتا ہے کہ ’’ایک اندازے کے مطابق دنیا میں عیسائیوں کی تعداد مسلمانوں کی تعداد سے دو گنا ہے‘‘۔ (جب اُس نے لکھا تھا اُس وقت کی بات ہے)’’اس لحاظ سے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو عیسیٰ سے پہلے رکھنا شاید آپ کو عجیب لگے۔ لیکن میرے اس فیصلہ کے پیچھے دو بڑی وجوہات ہیں۔ پہلی وجہ یہ ہے کہ عیسائیت کے فروغ میں عیسیٰ(علیہ السلام) کے کردارکی نسبت محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کا اسلام کے فروغ میں کہیں زیادہ اہم کردار تھا۔ گوکہ عیسیٰ (علیہ السلام) ہی عیسائیت کے روحانی اور اخلاقی ضابطہ حیات (یعنی وہ عیسائی ضوابط جن کا یہودیت سے اختلاف ہے) کے موجب ہوئے مگر عیسائیت کو فروغ دینے کے حوالہ سے سینٹ پال نے بنیادی کردار ادا کیا۔ عیسائیت کو موجودہ شکل دینے والا اور نئے عہدنامہ کے ایک بڑے حصے کولکھنے والا سینٹ پال ہی تھا‘‘۔

پھر لکھتا ہے: ’’جبکہ مذہب اسلام اور اس میں موجود تمام اخلاقی و مذہبی اصولوں کے ذمہ دار محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) تھے اور محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اس نئے مذہب کو خود شکل دی اور اسلامی تعلیمات کے نفاذ میں بنیادی کردار ادا کیا۔ علاوہ ازیں مسلمانوں کے مقدس صحیفہ یعنی قرآن جو کہ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کی بصیرت پر مشتمل ایک کتاب تھی کو بھی لکھنے والا محمد تھا‘‘۔ (یعنی جو مخالف ہے اس نے یہ تو بہرحال لکھنا ہے) کہتا ہے کہ ’’جس کے بارے میں وہ(یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم) کہتے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اُن پر وحی کیا گیا۔ قرآن کے ایک بڑے حصہ کو محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی زندگی میں ہی نقل کر کے محفوظ کر لیا گیاتھا۔ اور آپ کی وفات کے کچھ عرصہ بعد ہی اس کو مجموعہ کی شکل میں محفوظ کرلیا گیا۔ اس لئے قرآن محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی تعلیمات اور تصورات کی حقیقی عکاسی کرتا ہے اور ایک مکتبہ فکر کے مطابق وہ آپ کے ہی الفاظ ہیں۔ جبکہ عیسیٰ (علیہ السلام) کی تعلیمات کا اس طرح سے کوئی مجموعہ نہیں ہے۔ مسلمانوں کے نزدیک قرآن کی وہی اہمیت ہے جو عیسائیوں کے نزدیک بائبل کی ہے۔ اس لئے قرآ ن کے ذریعہ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) لوگوں پربھرپور طریق سے اثر انداز ہوئے۔ اغلب گمان یہی ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کا اسلام پر زیادہ اثر ہے بہ نسبت اُس اثر کے جو عیسیٰ (علیہ السلام) اور سینٹ پال نے مجموعی طور پر عیسائیت پر ڈالا۔ خالصتاً مذہبی نقطہ نظر سے اگر دیکھا جائے تو محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) بھی انسانی تاریخ پر اتنا ہی اثرانداز ہوئے جتنا کہ عیسیٰ (علیہ السلام)‘‘۔ (اس کی اپنی رائے ہے لیکن بہر حال یہ تسلیم کرتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نمبر ایک ہے۔ اور پھر اس نے آگے یہ بھی لکھا ہے کہ ’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جہاں مذہبی سربراہ تھے وہاں دنیاوی حکومت کے سربراہ بھی تھے لیکن حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو یہ مقام نہیں ملا‘‘۔ پس ہر معاملے میں آپ کا اُسوہ آپ کی ذات کو مزید روشن کرتے ہوئے چمکا کر پیش کرتا ہے۔ (The 100 A Ranking of the most Insfluential Persons in HIstory by Michael H. Hart)

پھر Karen Armstrong (کیرن آرم سٹرانگ) Muhammad – A Biography of the Prophet میں تحریر کرتی ہے کہ:

’’محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کوبنیادی توحید پر مبنی روحانیت کے قیام کے لئے عملاً صفر سے کام کا آغاز کرنا پڑا۔ جب آپ نے اپنے مشن کا آغاز کیا تونا ممکن تھا کہ کوئی آپ کو اپنے مشن پر کام کرنے کاموقع فراہم کرتا۔ عرب قوم توحید کے لئے بالکل تیار نہ تھی۔ وہ لوگ ابھی اس اعلیٰ معیار کے نظریہ (یعنی توحید) کے قابل نہ ہوئے تھے۔ درحقیقت اس متشدد اور خوفناک معاشرہ میں اس نظریہ کو متعارف کروانا انتہائی خطرناک ہو سکتا تھا اور محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) یقینا بہت ہی خوش قسمت ہوتے اگر اس معاشرہ میں اپنی زندگی کو بچا پاتے۔ درحقیقت محمدکی جان اکثر خطرہ میں گھری رہتی اور ان کا بچ جاناقریب قریب ایک معجزہ تھا، پر محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)ہی کامیاب ہوئے۔ اپنی زندگی کے اختتام تک محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے قبائلی تشددکی پرانی روایت کا قلع قمع کر دیا اور عرب معاشرہ کے لئے لادینیت کوئی مسئلہ نہ رہا۔ اب عرب قوم اپنی تاریخ کے ایک نئے دور میں داخل ہونے کے لئے تیار تھی‘‘۔ (Muhammad – A Biography of the Prophet by Karen Armstrong, Page 53,54)

پھر کیرن آرم سٹرانگ ہی لکھتی ہیں کہ: ’’آخر یہ مغرب ہی تھا نہ کہ اسلام‘‘، (عیسائیت کے بارے میں، اپنے مغرب کے بارے میں لکھ رہی ہیں ) ’’آخر یہ مغرب ہی تھا نہ کہ اسلام، جس نے مذہبی مباحثات پر پابندی لگائی۔ صلیبی جنگوں کے وقت تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ یورپ دوسروں کے نظریات کو دبانے کی آرزو میں جنونی ہوچکا تھا اور جس جوش سے اس نے اپنے مخالفین کو سزائیں دی ہیں، مذہب کی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ اختلافِ رائے کرنے والوں پر مظالم، ProtestantsپرCatholicsکے مظالم اور اسی طرح Catholicsپر Protestantsکے مظالم کی بنیاد اُن پیچیدہ مذہبی عقائد پر تھی جن کی اجازت یہودیت اور اسلام نے ذاتی معاملات میں اختیاری طور پر دی ہے۔ عیسائی ملحدانہ عقائد کا یہودیت اور اسلام سے کوئی تعلق نہیں جن کے مطابق (عیسائی مذہب) الوہیت کے بارے میں انسانی تصورات کو ناقابلِ قبول حد تک لے جاتا ہے بلکہ اسے مشرکانہ بنا دیتا ہے‘‘۔ (ایضاً Page 27)

پھر اینی بسانٹ (Annie Besant) اپنی کتاب “The Life and Teachings of Muhammad” میں لکھتی ہے کہ: ’’ایک ایسے شخص کیلئے جس نے عرب کے عظیم نبی کی زندگی اور اس کے کردارکا مطالعہ کیا ہو اور جو جانتا ہو کہ اُس نبی نے کیا تعلیم دی اور کس طرح اُس نے اپنی زندگی گزاری، اس کیلئے ناممکن ہے کہ وہ خدا کے انبیاء میں سے اِس عظیم نبی کی تعظیم نہ کرے۔ مَیں جو باتیں کہہ رہی ہوں اُن کے متعلق بہت لوگوں کوشاید پہلے سے علم ہوگا لیکن میں جب بھی ان باتوں کو پڑھتی ہوں تو مجھے اس عربی استادکی تعظیم کیلئے ایک نیا احساس پیدا ہوتا ہے اور اُس کی تعریف کا ایک نیا رنگ نظر آتا ہے‘‘۔ (The Life and Teachings of Muhammad, Madras, 1932, p.4)

پھر Ruth Cranston (روتھ کرینسٹین) World Faith (ورلڈ فیتھ) میں لکھتی ہیں کہ: ’’محمد عربی (صلی اللہ علیہ وسلم) نے کبھی بھی جنگ یا خونریزی کا آغاز نہیں کیا۔ ہر جنگ جو انہوں نے لڑی، مدافعانہ تھی۔ وہ اگر لڑے تو اپنی بقا کو برقرار رکھنے کے لئے اور ایسے اسلحے اور طریق سے لڑے جو اُس زمانے کا رواج تھا۔ یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ چودہ کروڑ عیسائیوں میں سے(1949ء میں یہ کتاب چھپی تھی) جنہوں نے حال ہی میں ایک لاکھ بیس ہزار سے زائد انسانوں کو ایک بم سے ہلاک کر دیا ہو، کوئی ایک قوم بھی ایسی نہیں جو ایک ایسے لیڈر پر شک کی نظر ڈال سکے جس نے اپنی تمام جنگوں کے بدترین حالات میں بھی صرف پانچ یا چھ سو افراد کو تہ تیغ کیا ہو۔ عرب کے نبی کے ہاتھوں ساتویں صدی کے تاریکی کے دور میں جب لوگ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو رہے ہوں، ہونے والی ان ہلاکتوں کا آج کی روشن بیسویں صدی کی ہلاکتوں سے مقابلہ کرنا ایک حماقت کے سوا کچھ نہیں۔ اس بیان کی تو حاجت ہی نہیں جو قتل انکوزیشن(Inquisition) اور صلیبی جنگوں کے زمانے میں ہوئے جب عیسائی جنگجوؤں نے اس بات کو ریکارڈ کیا کہ وہ ان بے دینوں کی کٹی پھٹی لاشوں کے درمیان ٹخنے ٹخنے خون میں پھر رہے تھے‘‘۔ (World Faith by Ruth Cranston, Haper and Row Publishers, New York, 1949, page 155)

پھر Godfrey Higgins (گاڈ فرے ہیگنز) لکھتے ہیں کہ: ’’اس بات سے زیادہ عام طور پر کوئی بات سننے میں نہیں آتی کہ عیسائی پادری محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے مذہب کو اُس کے تعصب اور غیررواداری کی وجہ سے گالیاں دیتے ہیں، عجیب یقین دہانی اور منافقت ہے یہ۔ کون تھا جس نے سپین سے ان مسلمانوں کو جو عیسائی ہو چکے تھے، بھگایا تھا کیونکہ وہ سچے عیسائی نہ تھے؟ اور کون تھا جس نے میکسیکو اور پیرو میں لاکھوں لوگوں کو تہ تیغ کر دیا تھا اور اُن کو غلام بنا لیا تھا کیونکہ وہ عیسائی نہ تھے؟ اور کیا ہی عمدہ اور مختلف نمونہ تھا جو مسلمانوں نے یونان میں دکھایا۔ صدیوں تک عیسائیوں کو اُن کے مذہب، اُن کے پادریوں، لاٹ پادریوں اور راہبوں اور اُن کے گرجاگھروں کو اپنی جاگیر پر پُرامن طور سے رہنے دیا‘‘۔ (As Cited in Apology for Mohammed by Godfrey Higgins, Lahore, page 123-124)

پس یہ مقابلہ یہ کر رہا ہے عیسائیوں اور مسلمانوں کا۔

پھر یہی گاڈ فرے آگے لکھتے ہے کہ: ’’خلفائے اسلام کی تمام تر تاریخ میں انکوزیشن (Inquisition) جیسی بدنام چیز سے نصف سے بھی کم بدنام چیز ہمیں نہیں ملتی۔ کوئی ایک واقعہ بھی کسی کو مذہبی اختلاف کی بنا پر جلا دینے یا کسی کو محض اس وجہ سے موت کی سزا دینے کا نہیں ہوا کہ مذہبِ اسلام کو قبول کیوں نہیں کرتا؟‘‘ (ایضاً صفحہ 125-128)

یہ اُس تعلیم کا اثر تھا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو دی تھی۔

پھر ہسٹری آف دی سیراسان ایمپائر (History of the Saracen Empire) میں ایڈورڈگِبن (Edward Gibbon) لکھتے ہیں کہ: ’’آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) کے مذہب کی تبلیغ کے بجائے اُس کا دوام (یعنی ہمیشہ قائم رہنا) ہماری حیرت کا موجب ہے۔ حضرت محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) نے مکہ اور مدینہ میں جو خالص اور مکمل نقش جمایا وہ بارہ صدیوں کے انقلاب کے بعد بھی قرآن کے انڈین، افریقی اور ترک نو معتقدوں نے ابھی تک محفوظ رکھا ہوا ہے۔ مریدانِ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) اپنے مذہب اور عقیدت کو ایک انسان کے تصور سے باندھنے کی آزمائش اور وسوسے کے مقابل پر ڈٹے رہے۔ اسلام کا سادہ اور ناقابل تبدیل اقرار یہ ہے کہ میں ایک خدا اور خدا کے رسول محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) پر ایمان لاتا ہوں۔ یعنی یہ ہے کہ لَااِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ۔ ’’خدا کی یہ ذہنی تصویر بگڑ کر مسلمانوں میں کوئی قابلِ دید بُت نہیں بنی‘‘(یعنی یہ تصویر تھی خدا تعالیٰ کی جو مسلمانوں میں بت نہیں بنی)۔ ’’پیغمبر اسلام کے اعزازات نے انسانی صفت کے معیارکی حدود سے تجاوز نہیں کیا اور ان کے زندہ فرمودات نے ان کے پیروکاروں کے شکر اور جذبۂ احسان کو عقل اور مذہب کی حدود کے اندر رکھا ہوا ہے‘‘۔ (History of the Sarasun Empire by Edward Gibbon, Alex Murray and Sons, London, 1870, page 54)

اور وہ یہ کہنا چاہتا ہے کہ اس کے مقابلے میں عیسائیوں نے بندے کو خدا بنا لیا۔

اللہ کرے کہ دنیا اس عظیم ترین انسان کے مقام کو سمجھتے ہوئے بجائے لاتعلق رہنے یا مخالفت اور استہزاء کرنے کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دامن میں پناہ لینے کی کوشش کرے تا کہ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچ سکے۔ دنیا کے نجات دہندہ صرف اور صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور ہر حقیقت پسند منصف اور سچے غیر مسلم کا بھی یہی بیان ہو گا جیسا کہ مَیں نے آپ کو بہت سارے اقتباس پڑھ کر سنائے اور بے شمار اور بھی ہیں۔ پہلے انبیاء کی سچائی بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی سے ہی ثابت ہوتی ہے اور آپ کے ذریعہ سے ہی ثابت ہوتی ہے۔ یہ ہے مقامِ ختم نبوت جس کا ہر احمدی نے دنیا میں پرچار کرنا ہے اور اس کے لئے ہر ایک کو کوشش کرنی چاہئے۔

اس ضمن مَیں یہ بھی بتا دوں کہ کل سے ربوہ میں ختم نبوت کانفرنس ہو رہی ہے جو آج اس وقت ختم ہو گئی ہوگی، جس میں سیاسی باتوں اور اخلاق باختہ تقریروں اور احمدیوں کو گالیاں دینے، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خلاف مغلظات بکنے کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔ اور یہ سب کچھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق اور ختم نبوت کے نام پر ہو رہا ہے۔ اور سمجھتے یہ ہیں کہ ہم ختم نبوت کا مقام دنیا کو بتا رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو عقل دے۔ بہرحال یہ تو اُن کا فعل ہے، جیسا کہ میں نے کہا کہ احمدی کاکام یہ ہے کہ ختم نبوت کی حقیقت کو دنیا کو بتائے اور وہ اسی صورت میں ممکن ہے، جب ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام دنیا میں پہنچائیں گے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔

دو ہفتے پہلے کے 21؍ستمبر کے خطبہ میں، مَیں نے وکلاء کے بارے میں بھی ذکر کیا تھا کہ دنیا کے مسلمان وکلاء اکٹھے ہوں لیکن مسلمان تو پتہ نہیں اکٹھے ہوتے ہیں کہ نہیں، ہمارے احمدی وکلاء نے اس بارہ میں پاکستان میں بھی کچھ کام شروع کیا ہے کہ مذہبی جذبات کا خیال اور آزادیٔ رائے کی حدود کے بارے میں کیا کیا جا سکتا ہے، کس حد تک اُن کو محدود کیا جا سکتا ہے۔ تو بہرحال انہوں نے اس بارے میں کچھ باتیں اکٹھی کی ہیں، کچھ پوائنٹس بنائے ہیں۔ اور مختلف ملکوں کی عدالتوں کے جو فیصلے ہیں اور جو ان کے قانون ہیں، اسی طرح جو بین الاقوامی قانون ہے، اُس کو بھی سامنے رکھ کر کچھ سوال اُٹھائے ہیں، وہ یہاں بھی بھجوائے تھے جو میں نے مختلف ملکوں میں احمدی وکلاء کو بھجوائے ہیں۔ کیونکہ پاکستان میں ہمارے احمدی وکیل جنہوں نے پہلے یہ توجہ دلائی تھی، انہوں نے ہی بتایا کہ دوسرے مسلمان وکلاء کے ساتھ وہاں بیٹھے ہوئے تھے تو اُن سب وکلاء نے پاکستان میں انہیں یہ کہا کہ اگر یہ کام منظم طور پر کوئی کر سکتا ہے تو جماعت احمدیہ کر سکتی ہے۔ اس لئے تم لوگ اس سوال کو دنیا میں اُٹھاؤ۔ بہرحال یہ مَیں نے دنیا کے مختلف احمدی وکلاء کو بھجوایا ہے کہ اس پر غور کریں اور بتائیں کہ اس میں کیا کچھ ہو سکتا ہے۔ اس بارے میں ان کو چاہئے کہ جلد تر غور کریں اور جو بھی رائے بنے وہ مجھے بھجوائیں تا کہ پھر دنیا کے مختلف وکلاء کی جو رائے آئیں، اُن کا آپس میں ایکسچینج (Exchange) بھی ہو اور پھر جو رائے قائم ہو اس کے مطابق اگر کوئی عملی کارروائی کرنی ہو تو کی جا سکے۔ اللہ تعالیٰ ان سب احمدی وکلاء کو بھی توفیق عطا فرمائے کہ یہ کام جلد کر سکیں۔ اسی طرح احمدی سیاستدانوں کو جو مختلف ممالک میں ہیں یا سیاستدانوں کے جو قریب ہیں، اُن کو بھی اس معاملے کو احسن رنگ میں کسی فورم پر رکھنا چاہئے کہ آزادیٔ رائے کی کوئی حدود مقرر ہونی چاہئیں ورنہ دنیا پہلے سے بھی زیادہ فساد میں مبتلا ہو جائے گی۔

اسی طرح مَیں اس حوالے سے ایک دعا کی تحریک بھی کرنا چاہتا ہوں اور کرتا بھی رہتا ہوں کہ مسلم اُمّہ کے لئے آجکل بہت دعا کریں۔ مسلمان سربراہوں کو اللہ تعالیٰ عقل دے کہ وہ اپنے شہریوں کے خون سے نہ کھیلیں۔ شہریوں کو عقل دے کہ غلط لیڈروں کا آلۂ کار بن کر ایک دوسرے کی گردنیں نہ ماریں۔ مسلمان حکومتوں کو عقل دے کہ وہ غیروں کا آلہ کار بن کر ایک دوسرے پر حملے نہ کریں۔ آجکل پھر حملے ہو رہے ہیں ترکی اور شام کی آپس میں ٹھنی ہوئی ہے۔ مسلمان کو مسلمان سے لڑانااور خود ہر قسم کا فائدہ اُٹھانا، جو طاقتیں مسلمانوں کے خلاف ہیں اُن کا یہی کام ہے اور وہ اس پر آجکل عمل کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ یہ ایجنڈا انہوں نے سب سے پہلے رکھا ہوا ہے۔ اس چیز کو مسلمان نہیں سمجھ رہے۔ اللہ تعالیٰ مسلم اُمّہ کو اپنی حفاظت میں رکھے اور ان لوگوں کو عقل دے کہ یہ اس حقیقت کو سمجھیں اور اپنی ذمہ واریوں کو نبھانے والے ہوں۔ جمعہ کی نماز کے بعد مَیں کچھ جنازے غائب بھی پڑھاؤں گا۔ ان میں سے پہلا جنازہ تو مکرم خواجہ ظہور احمد صاحب ابن خواجہ منظور احمد صاحب سرگودھا کا ہے۔ یہ کوٹ مومن کے رہنے والے تھے۔ ان کے پڑدادا حاجی امیر دین صاحب کے زمانے میں ان کے خاندان میں احمدیت آئی۔ انہیں کل رات شہید کر دیا گیا ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

شہید مرحوم کا خاندان تجارت سے منسلک رہا۔ پہلے کافی لمبا عرصہ کوٹ مومن میں بھی رہے تھے، پھر یہ سرگودھا منتقل ہو گئے اور تاجر لوگ تھے۔ کل رات کو جیسا کہ مَیں نے کہا، ان کو شہید کیا گیا ہے۔ سوا نو بجے کے قریب یہ اپنے گھر سے سائیکل پر باہر کسی کام سے نکلے تو وہاں باہر گلی میں پہلے ہی موجود دو نامعلوم افراد موٹر سائیکل پر سوار کھڑے تھے۔ انہوں نے پستول سے ان پر فائر کیا جو آپ کے دائیں کان کے نیچے گردن پر لگا اور حملہ آور فرار ہو گئے۔ کسی راہ گیر نے دیکھا تو ریسکیو والوں کو فون کیا۔ اس پر آپ کو ہسپتال لے جایا جا رہا تھا کہ راستے میں وفات ہو گئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔ مرحوم کو مذہبی مخالفت کا لمبے عرصے سے سامنا تھا۔ اپریل میں اس سال ارد گرد کے مخالف دوکانداروں نے ان کے مالک دوکان سے، جس سے کرائے پر دوکان لی ہوئی تھی، کہا کہ اس کی دوکان خالی کرواؤ، لیکن مالک نے انکار کر دیا۔ پھر مختلف طریقوں سے ان کو تنگ کیا جاتا رہا۔ ان کی دوکان کے تالے میں کبھی ایلفی ڈال دیتے تھے یا سیل کر دیتے، جلوس نکالتے تو توڑ پھوڑ ہوتی تھی۔ بہرحال جو کوششیں تنگ کرنے کی ہوتی تھیں، کرتے رہے لیکن یہ بھی استقامت سے ڈٹے رہے اور اپنے کاروبار کو جاری رکھا۔ سادگی ان میں بے تحاشا تھی۔ مالی کشائش کے باوجود چھوٹے موٹے کام کرنے ہوں تو سائیکل کا استعمال کیا کرتے تھے۔ کسی بھی جماعتی تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والے تھے اور بڑے نیک نفس انسان تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے۔ ان کی اہلیہ کے علاوہ دو بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو صبر اور حوصلہ عطا فرمائے۔

دوسرا جنازہ مکرمہ صاحبزادی امۃ السمیع صاحبہ کا ہے جو حضرت ڈاکٹر میرمحمد اسمعیل صاحبؓ کی بیٹی اور مکرم صاحبزادہ مرزا رفیع احمد صاحب کی بیگم تھیں۔ یہ 3؍اکتوبر کو صبح دس بجے ربوہ میں وفات پا گئی ہیں۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔ آپ 1937ء میں پیدا ہوئیں اور ابتدائی تعلیم قادیان سے حاصل کی۔ پھر پاکستان آکے میٹرک کیا۔ (یہیں آ کے میٹرک کیا ہے۔ پارٹیشن سے پہلے تو نہیں کیا ہو گا)۔ 1952ء میں آپ کا نکاح حضرت مصلح موعودنے اپنے بیٹے مکرم مرزا رفیع احمد صاحب کے ساتھ پڑھایا اور دسمبر 1953ء میں ان کا رخصتانہ عمل میں آیا۔ رخصتانے کے بارے میں (آجکل تو بڑا شور شرابا ہوتا ہے اور رسم و رواج بھی بہت زیادہ بڑھ گئے ہیں ) انہوں نے اپنے بیٹے کو بتایا کہ میری شادی عجیب حالت میں ہوئی ہے کہ جلسہ سالانہ کے دن تھے۔ 28؍دسمبر کو جلسہ کے آخری دن شادی ہوئی۔ جلسہ کے دنوں میں ادھر ہی ڈیوٹی لگی ہوئی تھی۔ کوئی پروگرام شادی کا نہیں تھا۔ ڈیوٹی دے کر آئیں تو ان کی امّاں نے کہا کہ صبح تمہاری شادی ہے۔ کہتی ہیں اُس وقت میرے ہاتھ کالے تھے کیونکہ جلسہ کی ڈیوٹی کی وجہ سے دیگیں دھو کر آ رہی تھیں۔ تو لڑکیوں نے مِل کے میرے ہاتھ دھوئے، سیاہی دور کی اور اگلے روز بغیر کسی مہندی وغیرہ کے شادی ہو گئی۔ 1991ء میں لندن میں آپ کا بائی پاس آپریشن ہوا تھا۔ بڑی صابر تھیں جس ڈاکٹر نے آپریشن کیا تھااُس نے بھی آپ کے صبر کو دیکھ کر کہا کہ مَیں نے اس وقت اپنا Best Patient دیکھا ہے۔ اس کا تمہیں ایوارڈ دیتا ہوں کہ اتنا صبرمَیں نے کسیPatient میں نہیں دیکھا۔ اس سے پہلے ان کو کینسر بھی ہوا تھا۔ ہر بیماری کو بڑے صبر اور ہمت اور حوصلے سے انہوں نے برداشت کیا۔ جلسہ سالانہ میں مہمانوں کی خاص طور پر بہت خدمت کیا کرتی تھیں۔ مہمانوں سے ان کا گھر بھرا رہتا تھا۔ باوجود مہمانوں کے جلسہ کی ڈیوٹیاں باقاعدہ دیتی رہیں۔ پھر ان کاملازموں سے بڑا حسنِ سلوک تھا، کبھی کسی کو نہیں ڈانٹا۔ ان کے بچے کہتے ہیں کہ صدقہ و خیرات میں بھی ہمیں پتہ نہیں لگتا تھا، بڑی خاموشی سے دیا کرتی تھیں۔ چھوٹے سائز کا قرآن شریف تھا روزانہ جب موقع ملتا تھا اُس کو پڑھتی رہتی تھیں۔ بچے کہتے ہیں کہ وہ قرآن شریف ہم نے ان کے ہاتھ میں چالیس سا ل سے دیکھا ہے۔ خلافت کے ساتھ بھی بڑا وفا کا اور اخلاص کا تعلق تھا اور بچوں کو نصیحت کی کہ اسی میں خیروبرکت ہے، اس کو جاری رکھنا۔ اللہ تعالیٰ درجات بلند فرمائے اور ان کے بچوں کو ان کی نیکیوں کو جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔

تیسرا جنازہ مکرم چوہدری خالد احمد صاحب کا ہے جو چوہدری محمد شریف صاحب ساہیوال کے بیٹے تھے۔ 20؍ ستمبر 2012ء کو جرمنی میں ایک حادثے کے نتیجے میں چند دن قومہ میں رہے اور یکم اکتوبر کو اناسی سال کی عمر میں ان کی وفات ہو گئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔ 13؍ اکتوبر 1933ء کو تلونڈی عنایت خان تحصیل پسرور ضلع سیالکوٹ میں یہ پیدا ہوئے۔ آپ کے والد چوہدی محمد شریف صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی تھے۔ آپ کے والد تقریباً چالیس سال جماعت احمدیہ ساہیوال اور ضلع ساہیوال کے امیر جماعت بھی رہے۔ ان کے دادا حضرت نواب محمد دین صاحب تھے جنہوں نے ربوہ کی زمین کے حصول کے لئے کافی خدمات سرانجام دیں۔ آپ چوہدری شاہ نواز صاحب اور مجیدہ شاہ نواز صاحبہ کے داماد تھے جن کو یہاں یوکے میں بھی بہت لوگ جانتے ہیں۔ آجکل حلقہ ڈیفنس کراچی کے نائب صدر تھے، دس سال سے نائب صدر تھے۔ مرکزی قضاء بورڈ ربوہ کے بھی ممبر رہے ہیں۔ اسی طرح فضل عمر فاؤنڈیشن کے ڈائریکٹر بھی تھے۔ قضاء بورڈ میں بھی رہے۔ مَیں بھی قضاء میں کچھ عرصہ قاضی رہاہوں تو اُس وقت یہ میرے ساتھ بھی کام کرتے رہے ہیں۔ اللہ کے فضل سے بڑے صائب الرائے تھے۔ مالی تحریکات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والے تھے۔ خلافت کے ساتھ بڑا اخلاص و وفا کا تعلق تھا۔ ہمیشہ جلسہ پر یہاں آتے تھے۔ باوجود متمول ہونے کے سادہ مزاج اور ملنسار اور غریب پرور انسان تھے بلکہ ان کے بارے میں کسی نے مجھے ذاتی طور پر بتایا کہ بڑا عرصہ ہو گیا کہ ان کا اپنا ایک بنگالی ملازم تھا۔ اُس کو انہوں نے کہیں ذرا تھوڑا سا سخت کہہ دیا یا اونچی آواز میں بولے تو شام کو جب گھر آئے تو ان کی بیوی نے کہا کہ ہمارا بنگالی نوکر بڑا افسردہ تھا کہ صاحب نے مجھے ڈانٹا ہے۔ تو بیوی کو کہنے لگے کہ اوہو مَیں نے تو ایسی بات نہیں کی تھی لیکن پھر بھی میں ابھی اُس سے معافی مانگ لیتا ہوں۔ اتنی سادگی تھی ان میں۔ سندھ میں زمینوں پر غیرقوموں کا، ہندوؤں کا یہ بڑا خیال رکھتے تھے۔ ان کی وفات کا سن کے سب نے کہا ہے کہ ہم تدفین کے لئے ربوہ بھی جائیں گے۔ وہاں زمیندارہ میں لیبر عورتیں کام کرتی ہیں۔ دیہاتوں میں مرچوں کی یا کپاس وغیرہ کی چنائی ہوتی ہے، تو ہمیشہ یہ کہا کرتے تھے کہ اُن کی مزدوری جو ہے وہ ان کے خاوندوں کو، مَردوں کو نہ دیا کرو۔ کیونکہ وہ عورتوں کو نہیں دیتے، بلکہ عورتوں کے ہاتھ میں مزدوری دیا کرو۔ مینیجر نے مجھے لکھا کہ ان کو ہماری بڑی فکر تھی۔ سندھ کے حالات بھی ایسے تھے۔ اگر ہم کسی کام کے لئے گئے ہیں تو جب تک گھر نہ پہنچ جائیں، بار بار فکر سے فون کر کے پوچھتے رہتے تھے۔ ان کو اپنے عملہ کا بڑا خیال تھا۔ نہایت عاجز اور نفیس انسان تھے۔ بیواؤں اور یتیموں کا وظیفہ مقرر کیا ہوا تھا۔ لیکن عزت نفس کا خیال بھی رکھتے تھے بڑی خاموشی سے امداد کیا کرتے تھے۔ اپنوں، غیروں ہر ایک کے ساتھ نیک سلوک تھا۔ ان کی اہلیہ اور دو بیٹے اور ایک بیٹی ہیں۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند فرمائے اور ان کے لواحقین کو بھی، بچوں کو بھی ان کی نیکیوں کو جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔

جیسا کہ مَیں نے کہا نماز کے بعد انشاء اللہ یہ سارے جنازے ادا کئے جائیں گے۔


  • خطبہ کا مکمل متن
  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 5؍ اکتوبر 2012ء شہ سرخیاں

    آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق عالیہ اور عظمت شان کے بارہ میں بعض غیر مسلموں کے اعترافات کا تذکرہ۔

    اللہ کرے کہ دنیا اس عظیم ترین انسان کے مقام کوسمجھتے ہوئے بجائے لا تعلق رہنے یا مخالفت اور استہزا ء کرنے کے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دامن میں پناہ لینے کی کوشش کرے تاکہ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچ سکے۔ دنیا کے نجات دہندہ صرف اور صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور ہر حقیقت پسند منصف اور سچے غیر مسلم کا بھی یہی بیان ہوگا۔

    پہلے انبیاء کی سچائی بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی سے ہی ثابت ہوتی ہے اور آپؐ کے ذریعہ سے ہی ثابت ہوتی ہے۔ یہ ہے مقام ختم نبوت جس کا ہر احمدی نے دنیا میں پرچار کرناہے اور ا س کے لئے ہر ایک کو کوشش کرنی چاہئے۔

    مسلم اُمّہ کے لئے آج کل بہت دعائیں کریں۔ مسلمان سربراہوں کو اللہ تعالیٰ عقل دے کہ وہ اپنے شہریوں کے خون سے نہ کھیلیں۔ شہریوں کو عقل دے کہ غلط لیڈروں کا آلۂ کار بن کر ایک دوسرے کی گردنیں نہ ماریں۔ مسلمان حکومتوں کو عقل دے کہ وہ غیروں کا آلۂ کار بن کر ایک دوسرے پر حملہ نہ کریں۔

    مکرم خواجہ ظہور احمد صاحب ابن مکرم خواجہ منظور احمد صاحب آف سرگودھا کی شہادت۔ مکرمہ صاحبزادی امتہ السمیع صاحبہ بیگم صاحبزادہ مرزا رفیع احمد صاحب اور مکرم چوہدری خالد احمد صاحب ابن مکرم چوہدری محمد شریف صاحب کی وفات۔ مرحومین کاذکرخیر اور نمازجنازہ غائب۔

    فرمودہ مورخہ 5؍اکتوبر 2012ء بمطابق 5؍اخاء 1391 ہجری شمسی،  بمقام مسجد بیت الفتوح۔ مورڈن۔ لندن

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور