دورۂ جرمنی کے ایمان افروز واقعات

خطبہ جمعہ 20؍ جون 2014ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔

اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

گزشتہ دو جمعے جرمنی کے سفر کی وجہ سے مَیں نے جرمنی میں پڑھائے۔ وہاں 6؍جون کے خطبہ میں مَیں نے خلافت کی اطاعت اور خلافت سے وفا کے موضوع پر صرف جرمنی کے لئے ہی نہیں بلکہ تمام دنیا کے لئے خطبہ دیا تھا۔ گو بعض مثالیں جرمنی کے حالات کی وجہ سے وہاں کی دی تھیں۔ بہر حال مجھے خوشی ہے کہ دنیا بھر کے احمدیوں نے ردّ عمل دکھایا اور فوری طور پر خلافت کی کامل اطاعت اور مکمل وفا کا اظہار کیا۔ اور خاص طور پر اس بات پر بھی بعض نے اظہار کیا کہ ہم میں سے بعض عہدیدار بعض ہدایات کی تاویلیں اور توجیہیں نکالنے لگ جاتے ہیں اور آئندہ سے انشاء اللہ ایسا نہیں ہو گا۔

پس یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی قائم کردہ جماعت کی خوبصورتی ہے کہ جب توجہ دلاؤ تو فوری توجہ ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ سب احمدیوں کو اس اطاعت و وفا میں بڑھاتا رہے۔

جیسا کہ مَیں عموماً جلسہ کے بعد جلسہ کے بارے میں کچھ بیان کرتا ہوں تو اب مَیں اس سفر کے حوالے سے کچھ اَور باتیں کروں گا۔ جلسہ بھی ہوا۔ جلسہ پر ایک رونق تو افراد جماعت کی ان کے شامل ہونے سے ہوتی ہے۔ احمدی مرد عورتیں بچے ایک خاص جذبے کے تحت جلسہ میں شامل ہوتے ہیں یا شامل ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن اب ہمارے جلسوں کی ایک رونق غیر از جماعت اور غیر مسلم افراد سے بھی ہوتی ہے جو یہ دیکھنے اور سننے آتے ہیں کہ یہ جلسہ جس کی احمدیوں نے اتنی دھوم مچائی ہوئی ہے یہ ہوتا کیسا ہے؟ اور احمدیوں کے اس جلسے کے دوران کیسے عمل ہوتے ہیں اور یہ کیا کہتے ہیں؟ اور اگر اچھی باتیں کہتے ہیں تو کیا ان کے عمل ان باتوں سے مطابقت رکھتے ہیں یا نہیں؟ یا صرف دنیا داروں کی طرح ایک اکٹھ ہوتا ہے، ایک اجتماع ہوتا ہے، ہلّہ گُلّہ اور رونق ہوتی ہے۔ جب یہ دیکھتے ہیں کہ جلسے کا ماحول تو ایک عجیب ماحول ہوتا ہے جس کی دنیاوی میلوں اور جلسوں سے مثال نہیں دی جا سکتی تو پھر یہ جلسہ غیر مسلمانوں کے لئے، مہمانوں کے لئے اسلام کی خوبصورت تعلیم بتانے اور اسلام کے بارے میں شکوک و شبہات دور کرنے کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ اسی طرح بعض غیر مسلم اور غیر احمدی جنہوں نے احمدیت یعنی حقیقی اسلام کے بارے میں کچھ نہ کچھ معلومات لی ہوتی ہیں جلسے کے ماحول اور پروگراموں کو جب اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں اور کانوں سے سنتے ہیں تو ان میں سے بعض بیعت پر آمادہ ہو جاتے ہیں اور بیعت کر کے جاتے ہیں یا اس حد تک متاثر ہو جاتے ہیں کہ کچھ عرصے بعد ان کے دل احمدیت کی طرف مکمل طور پر مائل ہو جاتے ہیں۔ گویا کہ یہ جلسہ جہاں اسلام کے بارے میں نیک اثرات پیدا کرنے والا ہوتا ہے وہاں تبلیغ کا بھی بہت بڑا ذریعہ بن جاتا ہے۔

پس جرمنی کا جلسہ بھی یقینا ان باتوں کا ذریعہ بنا۔ اس لئے مَیں پہلے جلسے میں آنے والے مہمانوں کے بعض تاثرات پیش کروں گا کہ اللہ تعالیٰ کس طرح حیرت انگیز طور پر اپنی تائید و نصرت دکھا رہا ہے۔ کیونکہ دل تو صرف اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہی مائل ہو سکتے ہیں اور پھر صرف جلسہ ہی نہیں بلکہ ہر جماعتی فنکشن جس میں مہمانوں کو بلایا جاتا ہے وہ فنکشن جماعتی تعارف کا بہت بڑا ذریعہ بنتا ہے اور ہر فنکشن ہی اسلام کی خوبصورت تعلیم کو بتانے اور تبلیغ کے میدان کھولنے والا بن جاتا ہے۔

جرمنی کے دورے کے دوران مسجدوں کی بنیادیں رکھنے اور مسجدوں کے افتتاح کرنے کا بھی موقع ملا۔ اس سے بھی اسلام کی خوبصورت تعلیم لوگوں پر واضح ہوئی جس پر انہوں نے اظہار بھی کیا کہ یہ اسلام ہماری نظروں کے سامنے پہلے کبھی نہیں لایا گیا۔ پھر اخباروں نے جو کوریج دی اس سے بھی کئی ملینز (millions) تک یہ پیغام پہنچا۔ بہر حال سب سے پہلے تو مَیں جلسے پر آنے والے غیروں کے تاثرات یہاں بیان کرتا ہوں۔ جرمنی کے جلسے میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے مختلف ہمسایہ ممالک کے وفود بھی شامل ہوئے اور اچھی خاصی تعداد میں یہ وفد شامل ہوئے۔ جو افراد شامل تھے ان کی تعداد بھی کافی تھی۔ فرانس اور بیلجیم سے آنے والے نومبائعین اور زیر تبلیغ دوستوں کے علاوہ اسٹونیا، کروشیا، لتھوینیا، سلوینیا، رومانیہ، ہنگری، مونٹی نیگرو، بوسنیا اور رشین ممالک، کوسووو، البانیہ، بلغاریہ اور میسیڈونیا سے وفد آئے جن میں بچے بھی تھے، مرد و خواتین، زیر تبلیغ افراد اور غیر مسلم دوست شامل تھے۔

میسیڈونیا سے امسال جلسے پر 55 افراد کا وفد شامل ہوا۔ اس میں اٹھائیس عیسائی دوست تھے۔ دس غیراحمدی مسلمان اور سترہ احمدی تھے۔

اسی طرح بلغاریہ سے 82 اَفراد پر مشتمل وفد لمبا سفر کر کے آیا۔ ان وفود سے ملاقاتیں بھی ہوئیں۔ جلسے کا روحانی ماحول بھی تھا جس سے کافی متاثر ہوئے اور ایک نمایاں تبدیلی تھی جس کا برملا سب نے اظہار کیا اور جماعت کے خدمت کے جذبے کو، مہمان نوازی کے جذبے کو بہت سراہا۔

جیسا کہ بتایا میسیڈونیا سے امسال پچپن افراد کا وفد قریباً دو ہزار کلو میٹر کا فاصلہ طے کر کے آیا تھا اور سواری بھی ان کی ایسی تھی کہ ان کو پینتیس گھنٹے لگے۔ اس وفد میں اٹھائیس عیسائی دوست تھے۔ دس غیر احمدی مسلمان اور سترہ احمدی۔ اس دفعہ اس میں دو صحافی اور کیمرہ مین بھی شامل ہوئے جو پروگراموں کی ریکارڈنگ کرتے رہے اور انہوں نے کہا کہ ہم واپس جا کر اپنے ٹی وی پروگرام میں دکھائیں گے۔ اس وفد میں سے جلسہ کے آخری دن نو(9) افرادنے بیعت بھی کی۔

ایک مہمان Nikolcho Goshevski (نیکلچوگوشیوسکی) جو ایک سرکاری دفتر میں کام کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ میرا یہ وِزٹ مذہب کو جاننے اور مذہب کے بارے میں غور و فکر کے اعتبار سے بہت اچھا ہے۔ جلسے کی تقاریب نے مجھ پر بہت اچھا اثر چھوڑا۔ پھر میرا کہا کہ ان کے خطابات نے میرے اسلام کے بارے میں خیالات کو تبدیل کر دیا۔ قبل ازیں مَیں اسلام کو ایک radical اور تشدد پسند مذہب کے طور پر دیکھتا تھا۔ اب میں نے اپنے پرانے خیالات کو تبدیل کر دیا ہے۔ اسلام تو امن کا مذہب ہے۔

اسی طرح ایک اور مہمان تھے۔ Dusko Vuksanov (دوشکو ووکسانوو) کہتے ہیں کہ میل ملاقات اور اجتماعی عبادات کے اثر مجھے اس طرف لے جاتے ہیں کہ مَیں اسلامی تقاریب، روایات نیز اس مذہب کے بارے میں علم حاصل کروں۔ مجھ پر سب سے زیادہ امام جماعت کی تقریر کا اثر ہوا اور اگلے سال بھی اس جلسہ میں شامل ہونا چاہوں گا۔ ان کی ملاقات کا مجھ سے ذکر کرتے ہیں کہ ملاقات ہوئی انہوں نے ہمارے سوالوں کی اور ہر بات کی وضاحت کی جو ہم نے پوچھی اور اسلام کے بارے میں ہماری سوچ تبدیل ہوئی۔ اور یہ جوابات نہایت تفصیل سے تھے۔ سچائی تھی۔ ہمیں معلوم ہوا کہ مذہب اسلام کی تعلیم کتنی اچھی ہے جو سب قوموں سے محبت کی تعلیم دیتی ہے۔

پھر میسیڈونیا سے آنے والی ایک خاتون کہتی ہیں۔ میرا اسلام کے بارے میں اور اسلام کی تعلیمات کے بارے میں خیال تبدیل ہو گیا ہے اور امام جماعت احمدیہ کے خطابات نے اسلام کے بارے میں ہماری سوچوں کو تبدیل کر دیا ہے۔

پھر میسیڈونیا سے ہی ایک مہمان Marincho (مارنچو) صاحب کہتے ہیں کہ مَیں روح کی گہرائی تک خوش اور مطمئن ہوں اور خاص طور پر خلیفہ کی تقاریر کے بارے میں کہنا چاہتا ہوں کہ انہوں نے ہمیں امن کی طرف بلایا، برداشت کی طرف بلایا، محبت کی طرف بلایا۔ ہم سب جانتے ہیں کہ ہم ایک ایسے وقت میں زندگی گزار رہے ہیں جبکہ برداشت کا لیول اس وقت صفر ہے اور یہ وہ وقت ہے جب جنگیں ہو رہی ہیں اور ہلاکتیں ہو رہی ہیں۔ پھر ایک پروفیسر صاحب تھے Sashko (ساشکو) صاحب وہ کہتے ہیں کہ اس جلسے پر مَیں نے امام جماعت احمدیہ کے خطابات سے اسلام کے بارے میں اپنے علم میں مزید اضافہ کیا ہے۔ مَیں ان کا بہت شکر گزار ہوں۔ اور پھر ملاقات کا ذکر کیا کہ ملاقات میری کل ہوئی اور یہ بہت انوکھی ملاقات تھی۔ بہت دلچسپ تجربہ حاصل ہوا۔ انہوں نے ہمیں بہت وقت دیا۔ تفصیل سے ہمارے سوالات کے جواب دئیے اور احمدیت اور اسلام کے بارے میں ہمیں نئی چیزیں سننے کو ملیں اور ہمیں علم ہوا کہ احمدی جو کہتے ہیں وہی کرتے ہیں۔ میسیڈونیا سے انفارمیشن ٹیکنالوجی کی فائنل ایئر کی ایک طالبہ کہتی ہیں۔ میرے لئے بہت متاثر کن تھا اور میں بہت حیران تھی۔ پھر جو امام جماعت احمدیہ سے میری ملاقات ہوئی میرے لئے ایک نئی قسم کا تجربہ تھا۔ اس ملاقات نے میری مدد کی کہ مَیں جماعت احمدیہ کو بہتر انداز میں سمجھ سکوں۔ پھر میسیڈونیا سے ہی ایک مہمان نے اسی ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ مجھے انہوں نے تجویز دی کہ تمام مذاہب کو محبت پر اکٹھا کیا جائے۔ اپنی تجویز کا ذکر کر رہے ہیں کہ ایسا پروگرام ہو تو پھر میرا جواب انہوں نے بتایا کہ ہم تو پہلے سے اس بارے میں کوشش کرتے ہیں اور پھر ان کو تفصیل سے جو گلڈ ہال میں پروگرام ہوا تھا اس کے بارے میں بتایا گیا۔ اس کا بڑا اچھا اثر ہوا۔

البانیا سے اکیس افراد پر مشتمل وفد آیا تھا جس میں دس غیر احمدی اور گیارہ احمدی تھے۔ اور ایک سابق فوجی جو فوج کے عہدے پر بڑا لمبا عرصہ رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ایسا ڈسپلن مَیں نے دنیا میں کہیں نہیں دیکھا اور افراد جماعت میں رضا کارانہ خدمات کے جذبہ کا یوں پایا جانا بھی ایک خوش کن تجربہ تھا کہ چھوٹے چھوٹے بچے بھی مہمانوں کو پانی پلا کر نہایت مسرت محسوس کر رہے تھے۔

پھر ایک البانین مہمان تھے جو بلدیہ کے نائب صدر بھی ہیں وہ کہتے ہیں کہ میں گزشتہ سال بھی آیا تھا۔ اس سال جو نمایاں طور پر ایک چیز نظر آئی وہ یہ تھی کہ جرمن نژاد احمدیوں کی غیر معمولی حاضری تھی۔ انہوں نے کہا اس جلسہ میں ہمیں نظر بھی آیا کہ جماعت احمدیہ کے علاوہ دیگر مسلمان فرقوں میں صرف دعاوی اور لفّاظی ہی نظر آتی ہے جبکہ اسلام کا حقیقی عملی نمونہ صرف جماعت احمدیہ کا ہی طُرّہ امتیاز ہے۔

ہنگری سے آنے والے وفد کے تاثرات یہ تھے۔ ایک مہمان ٹیچر جو تاریخ کے ٹیچر تھے۔ یہودیت میں ماسٹر کیا ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جماعت محبت اور پیار اور رضاکارانہ خدمت کرنے میں بہت آگے ہے۔ اتفاق و اتحاد بہت واضح نظر آتا ہے۔ بیعت کی تقریب میں کہا کہ یہ نظارہ دل کو کھینچنے والا اور موہ لینے والا تھا۔ ایک ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر اتحاد کا ایک دلفریب نقشہ ابھرتا ہے۔ نماز باجماعت پڑھتے دیکھ کر بہت متاثر ہوا اور ان کے لئے یہ ایک منفرد اور انوکھی بات تھی۔ بہت ہی پر اثر نظارہ تھا۔ موصوف نے کہا کہ جماعت کے افراد اپنے خلیفہ سے بے حد محبت کرتے ہیں۔ یہ محبت بے لوث اور خالص محسوس ہوتی ہے کیونکہ اس میں کچھ بناوٹ تصنع یا تکلف نہیں لگا۔ بلکہ لگتا ہے جماعت کی اپنے خلیفہ سے محبت کسی فطری اور طبعی جذبہ سے ہے۔ اور یقینا یہ صحیح بات ہے۔

پھر ہنگری کے وفد کے ایک مسٹر رابرٹ (Mr Robert) ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ جلسے کے انتظامات سے بہت متاثر ہوا۔ اس سے بڑا مسلمانوں کا اجتماع پہلے مَیں نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔

رومانیہ سے جو وفد آیا تھا اس میں ایک سیرین دوست تھے حسین الحافظ صاحب جو بڑے لمبے عرصے سے رومانیہ میں رہتے ہیں۔ وہاں بزنس کرتے ہیں۔ کہتے ہیں جب جلسہ میں شامل ہوئے تو وہاں ہمارے جوایک مبلغ ہیں ان سے کہنے لگے کہ خلیفۃ المسیح کو ہم دُور سے دیکھیں گے یا قریب سے بھی دیکھنے کا موقع ملے گا۔ جب انہوں نے بتایا کہ ملاقات بھی ہو گی تو اس پر ان کو یقین نہیں آیا۔ لیکن بہر حال ملاقات ہوئی اور اس بات پر بڑے خوش تھے۔ بڑی مسرت کا اظہار کیا۔ مبلغ صاحب کہتے ہیں کہ جلسے کے پہلے دن سے انہوں نے کہنا شروع کر دیا کہ وہ خلیفہ سے محبت کرتے ہیں اور بار بار کہتے کہ سارے عالَم اسلام کا ایک خلیفۃ المسلمین ہو تو مسلمانوں کے مسائل حل ہو جائیں کیونکہ خلیفہ ہی ہے جو ہمیں سیدھا اور صحیح راستہ دکھا سکتا ہے۔ ملاقات کے دوران بھی انہوں نے اس بات کا اظہار کیا۔ پھر ہمارے مبلغ سے انہوں نے پوچھا کہ خلیفہ کا انتخاب کیسے ہوتا ہے؟ اس پر انہوں نے خلافت کے بارے میں بتایا کہ کس طرح خلافت راشدہ کا بھی انتخاب ہوا اور اب بھی ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ انتخاب کرنے والوں کواپنے تصرف میں لے لیتا ہے اور وحی خفی کے ذریعہ سے اکٹھا کر دیتا ہے۔ وحی خفی اور تصرف الٰہی کا پہلو ان کی سمجھ میں نہیں آیا لیکن شام ہوئی تو کہتے ہیں میرایہ مسئلہ حل ہو گیا۔ جب میں لجنہ سے خطاب کر کے نماز ظہر کے لئے واپس آیا ہوں تو اس وقت لوگ لائنوں میں کھڑے تھے تو یہ کہتے ہیں مَیں بھی وہاں کھڑا ہو گیا۔ جب میں ان کے پاس سے گزرا ہوں تو کہتے ہیں کہ خلیفۂ وقت پر میری نظر پڑی تو بے اختیار اور بلا ارادہ میرا ہاتھ سلام کے لئے فضا میں بلند ہو گیا۔ کہتے ہیں یہ بے اختیار فعل تھا۔ اس پر تصرف الٰہی اور وحی خفی کا عقدہ حل ہو گیا۔ یہ بھی کہا کہ عادتاً وہ عام طور پر ہاتھ بلند کر کے اور لہرا کر کسی کو سلام نہیں کرتے خواہ کوئی بڑا شخص ہی ہو۔ لیکن اب جو مجھ سے ہوا ہے یہ یقینا تصرف الٰہی ہے اور ایسا کرنا میرے اختیار میں نہیں تھا۔ بہت حد تک قائل ہو چکے ہیں۔ مجھے بھی انہوں نے بتایا کہ مزید تھوڑا سا سوچ کر وہ جماعت میں انشاء اللہ شامل ہو جائیں گے۔

پھر یونیورسٹیوں سے آئے ہوئے لتھوینیا کے تین مہمان تھے۔ ایک طالبعلم نے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ جلسہ ان مغربی مفکرین کے لئے بہت مفید ہے جو اسلام کے بارے میں کم معلومات یا منفی خیالات رکھتے ہیں کیونکہ یہ جلسہ ان کی محدود سوچ کو وسیع کر سکتا ہے۔ آپ لوگ بہت مثبت خیالات کے مالک ہیں۔ اور ہر وقت چہرے پر بشاشت اور مسکراہٹ رہتی ہے۔ اور جب مجھ سے ملے ہیں پھر بھی ان پر بڑا اچھا اثر تھا۔

پھر ایک طالبہ نے اس بات کا اظہار کیا کہ ہمیں اس چیز نے بہت متاثر کیا ہے کہ بہت پر سکون تحمل اور برداشت والا ماحول ہے۔ آپ لوگوں کے اندر رہ کر اسلام کا حقیقی چہرہ دیکھنے کا موقع ملا۔ اور انہوں نے کہا کہ نمازوں کے دوران بھی ایک عجیب نظارہ تھا۔ پھر اس بات پر وہ متاثر ہوئیں کہ ایک موقع پر جب میں نے مجمع کو کہا تھا کہ خاموش ہو جاؤ تو فوراً خاموش ہو گئے۔ یہ کیسی اطاعت ہے۔

پھر ایک طالبہ نے بیان کیا کہ مجھے مذاہب میں کافی دلچسپی ہے۔ میرے لئے یہ بات اہم ہے کہ آج کے دَور میں لوگ ایک دوسرے کے بارے میں کیسی رائے رکھتے ہیں۔ جلسہ میں شریک ہو کر اسلام کے بارے میں اور اسی طرح دوسرے لوگوں اور خاص طور پر اپنے آپ کو جاننے اور سمجھنے کا بھی موقع ملا۔

کروشیا سے جو وفد آیا تھا ان کے ایک صاحب اپنے علاقے میں شعبہ زراعت سے منسلک ہیں۔ سوشل ویلفیئر کے کمیونٹی لیڈر بھی ہیں اور باقی خواتین تھیں جو یونیورسٹی میں قانون اور پبلک ریلیشنز میں ماسٹرز کی ڈگری لے رہی ہیں۔ تو کہتے ہیں کہ ملاقات کے دوران جو اُن سٹوڈنٹس نے مجھ سے سوالات کئے تھے۔ تقریباً آدھ گھنٹے سے زیادہ یہ سوال جواب ہوتے رہے۔ اسلام کے بارے میں تعصب سوشل میڈیا کا رویہ، مذہب سے دُوری کا سبب، اسلام میں عورت کا مقام اور حقوق پر مبنی بہت سے سوالات ہوئے۔ طالبات نے اس بات کا برملا اظہار کیا کہ ان کی طرف سے اٹھائے گئے سوالات کا امام جماعت احمدیہ نے بہت اچھے انداز میں اور بڑی تفصیل سے جواب دیا اور ان کی پوری تسلی ہو گئی۔ بلکہ مجھے یاد ہے کہ مَیں نے ان سے پوچھا بھی تھا کہ اگر مزید تسلی کروانی ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ نہیں۔ کوئی ایسی بات اب نہیں رہی جس کی ہمیں تسلی نہیں ہے۔

یہ شعبہ زراعت سے جو دوست تعلق رکھتے ہیں انہوں نے کہا۔ امام جماعت احمدیہ سے ملنا میرے لئے بڑا اعزاز ہے۔ اس بات کا ہمیں ملاقات کے دوران اندازہ ہوا کہ جماعت میں خلیفہ کا مقام کیا ہے اور احمدیوں سے مل کر اور خلیفہ کی تقاریر سن کر اندازہ ہوا۔ جب شروع میں آئے تو بڑا ڈر تھا لیکن وہ ڈر جلد ہی محبت اور عزت میں تبدیل ہو گیا اور ہمیں محسوس ہوا کہ ہم اسلام کو ایک اور طرح دیکھ رہے ہیں۔ ہمارا نظریہ بالکل بدل گیا۔ اور اسی طرح بہت سارے لوگوں کے تاثرات ہیں۔ ایک بلغاریہ سے آئے ہوئے مہمان نے کہا کہ پہلی دفعہ یہاں آیا ہوں۔ جب تک میں یہاں نہیں آیا تھا تو اَور کیفیت تھی اور جماعت کا مخالف تھا۔ جب سے میں یہاں آیا ہوں جلسے کا ماحول دیکھا ہے اور امام جماعت کے خطابات سنے ہیں تو میری کایا پلٹ گئی ہے۔

پھر بلغاریہ سے ایک دوست کہتے ہیں مَیں عیسائی ہوں اور پہلی دفعہ آیا ہوں، بہت متاثر ہوا ہوں۔ اسلام کا حقیقی اور حسین چہرہ یہاں دیکھا ہے۔ اب دل چاہتا ہے کہ بلغاریہ میں اعلان کر دیا جائے کہ کثرت سے لوگ یہاں جلسے پر آئیں تا کہ انہیں معلوم ہو کہ اسلام کتنا پیارا مذہب ہے اور ہم کس طرح باہمی پیار و محبت اور رواداری کے ساتھ رہ سکتے ہیں۔ بلکہ وہ مجھے زور دے رہے تھے کہ اعلان کرو۔ اس کو مَیں نے بتایا کہ آپ کے مفتی صاحبان جو ہیں وہ آپ کو وہاں پھرجینے نہیں دیں گے۔ بہر حال پھر انہوں نے کہا کہ جلسے پر ہمیں روحانی کھانا ملا ہے۔ ہمیں بلغاریہ میں اس کھانے کی ضرورت ہے۔ وہاں ہمیں یہ کھانا کب ملے گا؟انہوں نے یہ مجھ سے سوال کیا تھا۔ ان کو میں نے یہی کہا کہ اپنی حکومت کو کہیں جب حکومت ہمیں مشن کھولنے کی اجازت دے گی، تبلیغ کی اجازت دے گی تو انشاء اللہ تعالیٰ یہ سب کچھ ہو گا۔ تو دنیا بے چین ہے حق کو دیکھنے اور سننے اور پانے کے لئے لیکن شیطان بھی اپنا کام کر رہا ہے۔ دعاؤں کی بہت زیادہ ضرورت ہے کہ جلد ہی جہاں جہاں روکیں ہیں اللہ تعالیٰ ان کو دور فرمائے اور ان لوگوں کی پیاس بھی بجھ سکے جو اسلام کا حقیقی پیغام سننا چاہتے ہیں۔ کوسووو سے آنے والے ایک دوست نے بتایا کہ مَیں پہلی دفعہ آیا ہوں اور حکومتی محکمے میں کام کرتا ہوں۔ مَیں نے کل بیعت کی ہے۔ مَیں کبھی سوچ نہیں سکتا تھا کہ ایسا عظیم الشان جلسہ ہو سکتا ہے۔ اگر جرمنی کا ملک بھی یہ کرنا چاہے تو نہیں کر سکتا۔ صرف جماعت احمدیہ کی ہی یہ خوبی ہے کہ وہ ایسا عظیم الشان جلسہ کر سکتی ہے جس میں صرف امن، محبت، پیار اور رواداری ہو۔

بوسنیا کے وفد کی ایک ممبر خاتون نے مجھ سے ملاقات میں مجھے بتایا کہ میں نے بہت سے سوالات آپ سے پوچھنے تھے۔ لیکن آپ کا جو جلسے والاخطبہ جمعہ سنا تو اس میں سارے سوالات کے جواب دے دئیے گئے ہیں اور میرے تمام سوالوں کا جواب مل گیا ہے۔ اب میرا کوئی سوال نہیں رہا۔ میں اپنے آپ کو خوش قسمت تصور کرتی ہوں کہ خلافت کے تابع ہوں۔ انہوں نے بیعت بھی کی تھی۔ ان کو میں نے بتایا بھی کہ یہ خطبہ تو پرانے احمدیوں کے لئے تربیت کے لئے تھا، تمہارے سوال کیا ملے۔ لیکن انہوں نے کافی نکات اس میں سے نکالے کہ جن کا صحیح فہم و ادراک حاصل ہوا۔ تو اللہ تعالیٰ اس طرح بھی لوگوں کے دلوں کو کھولتا ہے کہ کوئی بات کسی کے دل پر اثر کر جاتی ہے اور وہی اس کی اصلاح کا ذریعہ بن جاتی ہے، ہدایت کا ذریعہ بن جاتی ہے۔

جرمنی میں جرمنوں سے ایک علیحدہ خطاب بھی ہوتا ہے۔ اس میں تقریباً دو سو جرمن اور دوسری قوموں کے لوگ تھے۔ تقریباً کُل چارسو سے اوپر یا ساڑھے چار سو کے قریب تھے۔ اور ایک سیاستدان واگنر صاحب ہیں۔ میرا کہتے ہیں کہ مَیں تین سالوں سے جلسے کے موقع پر ان کے خطابات سن رہا ہوں لیکن آج کے خطاب نے مجھے بہت متاثر کیا ہے کیونکہ بہت واضح خطاب تھا۔ ٹُو دی پوائنٹ (to the point) تھا اور امن کے لئے بہت اچھی کوشش ہے اور مجھے سارے سوالوں کے جواب مل گئے۔ تو غیروں کو بھی اس طرح اللہ تعالیٰ اطمینان کرواتا ہے۔ یہ کہتے ہیں کہ یہ ایک بڑی حیران کر دینے والی بات ہے کہ اتنا بڑا مجمع کتنے امن و سکون کے ساتھ رہ رہا ہے۔ کوئی بھی کسی قسم کا مسئلہ کھڑا نہیں کر رہا۔ اگر اتنا بڑا مجمع جرمن لوگوں کا ہوتا تو کچھ لوگ ان میں ضرور ہوتے جو ماحول کو خراب کرتے۔

ایک مہمان کارل ہینز (Karl Heinz) صاحب نے میرا خطاب سننے کے بعد کہا کہ وہ باتیں کہی ہیں جو پوپ نے بھی کبھی نہیں کہہ سکنی تھی۔ میڈیا میں مسلمانوں کو اس طرح پیش کیا جاتا ہے جیسا کہ وہ سارے تشدد پسند ہوں اور ان کے خلاف اکسایا جاتا ہے اور عیسائیوں کو بطور معصوم پیش کیا جاتا ہے۔ آج مجھے اسلام کی حقیقی اور سچی تعلیم کا علم ہوا ہے۔ پھر کہتے ہیں ایک پُر امن ماحول ہے۔ بڑی تعجب کی بات ہے کہ اتنے زیادہ لوگ اتنے پیار سے اور مہذبانہ طریقے پر اکٹھے رہ رہے ہیں۔ ایک مہمان حسین صاحب تھے۔ وہ میری تقریر سننے کے بعد کہتے ہیں خطاب تو بڑا اچھا لگا۔ بہت سی باتوں پر یقین نہیں ہے لیکن پھر بھی مجھے خطاب اچھا لگا۔ جلسے کا ماحول حیرت انگیز تھا اور یہ کیونکہ مسلمان ہیں اس لئے انہیں خطاب بھی بہر حال اچھا لگا، باتیں بھی اچھی لگیں، جماعت کا اطاعت کا جذبہ بھی اچھا لگا لیکن کہتے ہیں مجھے پھر بھی اختلاف ہے۔ ایک مہمان ڈومینک (Dominik) صاحب کہتے ہیں کہ خلیفۂ وقت کے خطاب سے ہماری معلومات میں اضافہ ہوا۔ جماعت کا پہلے سے کچھ تعارف تو تھا لیکن خلیفہ کی تقریر سننے کے بعد بہت سی نئی باتوں کا علم ہوا۔

پھر ایک مہمان کہتے ہیں آپ نے آج رواداری اور مساوات کی جو تعلیم پیش کی ہے یہ بہت ہی اعلیٰ تعلیم ہے۔ یہ جرمن قانون کے عین مطابق ہے۔ میرے ساتھ یونیورسٹی میں ایک احمدی پڑھتا ہے اور اس کے عمل سے نظر آتا ہے کہ احمدی مسلمانوں اور دوسرے مسلمانوں میں فرق ہے۔

پس یہ عملی فرق ہے جو ہم نے ہر سطح پر ہر طبقے میں دکھانا ہے اور دکھانا چاہئے اور یہ بہت بڑا ذریعہ ہے تبلیغ کا۔ اس لئے ہر احمدی کو یاد رکھناچاہئے کہ اس کے عملی نمونوں کی طرف لوگوں کی نظر ہے۔

ایک جرمن کہتے ہیں کہ یوں لگتا تھا کہ یہ خلیفہ کا خطاب میں نے لکھا ہے کیونکہ اس کا ہر لفظ میرے دل کی آواز تھی۔

مسجد کے سنگ بنیاد کے دوران ویز بادن شہر کی پارلیمنٹ کے ڈپٹی سپیکر نے لارڈ میئر کی نمائندگی میں اپنا ایڈریس پیش کرتے ہوئے بہت ساری باتوں کے علاوہ یہ کہا کہ آپ کی جماعت شہر میں مختلف موقعوں پر اور پروگراموں میں بڑا فعال اور مثبت کردار ادا کر رہی ہے۔ آپ یہاں غیر قوموں کے لوگوں سے تعلق قائم کرنے میں سب سے آگے ہیں۔ آپ غیر مسلموں میں وہ خوف دور کرتے ہیں جو بعض دوسرے شدت پسند مسلمانوں کے رویہ کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔ آپ ہمیشہ امن کے قیام کی کوشش کرتے ہیں۔ صوبہ ہیسنؔ (Hessen) کی صوبائی حکومت کی نمائندگی میں وزارت انٹیگریشن کے سیکرٹری آف سٹیٹ نے اپنا ایڈریس پیش کرتے ہوئے کہا کہ میرے لئے ایک اعزاز کی بات ہے کہ اس طرح آج میں ایک تقریب میں شامل ہو رہا ہوں اور مسجد کی مبارکباد پیش کی۔

پھر بعض مہمان جو مسجدوں میں آئے ان کے تاثرات یہ ہیں۔ ایک قطعۂ زمین جو ہم نے مسجد کے لئے لیاوہ ایک بیوہ کی ملکیت تھی جس نے چالیس سال تک یہ پلاٹ اپنے پاس رکھا۔ بعد میں بڑھاپے کی وجہ سے شہر کی انتظامیہ کو فروخت کر دیا۔ یہ خاتون تقریب میں موجود تھی اور جب انہوں نے میرا خطاب سنا تو کہنے لگی کہ مجھے خوشی ہے کہ جس جگہ کی مَیں مالک تھی میرے بعد وہاں خدا کی عبادت کی جائے گی اور اس زمین پر اللہ تعالیٰ کا گھر آباد ہو گا اور ہمیشہ قائم رہے گا اور خلیفۃ المسیح نے جو کچھ کہا ہے اس سے مجھے بہت اطمینان ہوا کہ واقعی جیسا کہا گیا ہے ویسا ہی ہے۔ بلکہ ایک بہت پرانے بوڑھے جرمن کا ایک تبصرہ مجھے یہ بھی ملا کہ مَیں نے تو مر جانا ہے اور مجھے فکر تھی کہ قوموں میں اتار چڑھاؤ آتے رہتے ہیں۔ اگر جرمنی میں جرمنوں پر ایسی حالت ہوتی ہے تو کیا بنے گا، اس پر کون لوگ قابض ہو جائیں گے۔ لیکن آج جماعت احمدیہ کے خلیفہ کی باتیں سن کے مجھے یہ یقین ہو گیا ہے کہ جرمنی پر اگر کوئی ایسی صورتحال ہوئی تو یقینا جماعت احمدیہ کے ہاتھوں ہی جرمنی آئے گا اور بڑے محفوظ ہاتھوں میں ہو گا۔

ایک مہمان نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ خلیفہ کی بات بہت دوستانہ، ذاتی اور براہ راست تھی۔ خلیفہ کا پیغام ہمیں پہنچ گیا ہے۔ ہمیں ایک دوسرے سے محبت کرنی چاہئے، نفرت نہیں۔ اسلام کو کچھ لوگوں کے اعمال کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے جو بالکل غلط ہے۔

لجنہ کی طرف مسجد کا جو پروگرام تھا وہاں ایک خاتون ٹیچر گئیں تو جب بچیاں میرے سے چاکلیٹ لے رہی تھیں تو بعض بچیاں رو کے اپنے لئے دعا کے لئے بھی کہتی تھیں تو کہتی ہیں کہ اتنی چھوٹی عمر سے کسی سے ایسی محبت مَیں نے کبھی نہیں دیکھی۔ میں آج بہت متاثر ہوئی ہوں۔ پھر مسٹر جوکم آرنلڈ (Mr Joachim Arnold) ڈسٹرکٹ ایڈمنسٹریٹر کمشنر آف کاؤنٹی نے اپنے ایڈریس میں بہت ساری باتوں میں سے یہ بھی کہا کہ پچیس سال سے اس بات پر گواہ ہوں کہ احمدیہ مسلم جماعت ہمیشہ رواداری کا پاس رکھتی ہے اور معاشرے میں اپنا کردار ادا کرتی ہے۔ آپ کی مسجد اس بات کی نشانی ہے کہ یہاں مذہبی رواداری ہے اور ایک دوسرے سے رواداری کے ساتھ رہ سکتے ہیں۔ ایک مہمان نے کہا کہ مَیں نے خلیفۃ المسیح کی تقریر آدھی اردو میں اور آدھی جرمن میں سنی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ براہ راست خلیفۃ المسیح کی آواز سننا چاہتا تھا اور اردو زبان بھی سننا چاہتا تھا۔ اور پھر انہوں نے کہا کہ بڑی اچھی تقریر تھی اور مجھے بہت اچھا لگا۔ آپ نے اپنی جماعت کو حکم دیا کہ وہ ملک کی ترقی کے لئے کام کریں۔ تو لوگوں کے جماعت کو پرکھنے کے، سننے کے اپنے عجیب عجیب انداز ہیں۔ یہ سب اللہ تعالیٰ کی چلائی ہوئی ہوا ہے۔ کسی شخص یا عہدیدار کو یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ اس کی محنت کی وجہ سے یہ سب کچھ ہوا ہے۔ محنت تو پہلے بھی ہوتی تھی لیکن نتائج نہیں نکلتے تھے۔ اب اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ یہ نتائج نکلیں تو اللہ تعالیٰ نے یہ ہوا بھی چلائی اور ان کے رویّے بالکل بدلتے چلے جا رہے ہیں۔ جرمنی کی ایک پارٹی کے ممبر ہیں مہمت ترن (Mehmet Turan) صاحب کہتے ہیں کہ آپ کے خطاب سے تمام سیاستدان بیحد متاثر ہوئے اور اس کا اظہار ان کے چہروں سے بھی عیاں تھا۔ خلیفۃ المسیح کی یہ بات بڑی مؤثر اور پرحکمت ہے کہ آپ نے اپنی جماعت کے تمام ممبران کو ملک جرمنی کی ترقی میں حصہ لینے کی طرف توجہ دلائی ہے۔

پھر ایک مہمان نے کہا کہ مجھے آج کی تقریب نے حیران کر دیا ہے۔ جرمن لوگوں کو چاہئے کہ آپ احمدی لوگوں سے کچھ سیکھیں۔ پس ہمیں، یورپ میں رہنے والوں کو بھی کسی کمپلیکس میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ آج دنیا کی رہنمائی کی باگ ڈور اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت کو دی ہے۔ پس اس کو سمجھیں اور اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کی کوشش کریں۔ اپنے تعلق کو اللہ تعالیٰ سے مضبوط کریں پھر انشاء اللہ تعالیٰ یہ انعامات بھی ضرور ملنے والے ہیں۔ مسجد مہدی میونخ کے افتتاح کے موقع پر مہمانوں کے تاثرات یہ ہیں۔ ایک جرنلسٹ نے میرے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہاکہ جو امن کا پیغام دیا ہے اس کا اظہار بھی ہو رہا تھا اور سارے ہال پر اس کا گہرا اثر تھا۔

ایک خاتون کہتی ہیں کہ خلیفۃ المسیح نے جب اپنے ایڈریس میں ڈاکٹر مہدی علی صاحب کی شہادت کا ذکر کیا تو میں برداشت نہ کر سکی اور رونے لگی۔ پھر خلیفۃ المسیح نے جب یہ کہا کہ اس شہادت کے باوجود ہماری خدمت کے جذبے میں کوئی کمی نہیں آئی اور ہم یہ خدمت جاری رکھیں گے تو اپنے جذبات پر قابو رکھنا میرے لئے بہت مشکل ہو گیا۔

ایک خاتون کہتی ہیں۔ مَیں بہت متاثر ہوئی خاص طور پر جو امن کے لئے حل پیش کیا گیا ہے، یعنی دنیا کے سب انسانوں کو چاہئے کہ مذہب و ملّت سے بالا تر ہو کر ایک دوسرے سے محبت کریں۔ نہ یہ کہ ایک دوسرے کے ساتھ دشمنی بڑھتی جائے۔ یہ تقریب بڑی کامیاب رہی۔ پروگرام کے لئے صرف اپنی جماعت کے لوگوں کو نہیں بلایا۔ یا سیاستدان ہی نہیں بلائے بلکہ ہمسایوں کو بھی دعوت دی۔ یہ بھی بڑی اچھی بات تھی اور اس نے مجھے بڑا متاثر کیا۔

پس مسجدوں کے افتتاح کے موقع پر یہ پیغام جو احمدیوں کو دیا جاتا ہے کہ نئے رستے کھلیں گے۔ اس طرف بہت توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ہر احمدی کی ذمہ داریاں بڑھ جاتی ہیں جب اس کے علاقے میں کسی مسجد کا افتتاح ہوتا ہے یا مسجد بنتی ہے۔

جرمنی میں جلسے کے تیسرے دن اللہ تعالیٰ کے فضل سے بیعت بھی ہوئی تھی جس میں انیس (19) قوموں کے تراسی (83) لوگوں نے بیعت کی توفیق پائی جو وہاں موجود تھے۔ بعض بیعت کرنے والوں کے واقعات بیان کرتا ہوں۔ ایک البانین مہمان ایڑوین صاحب پہلے مسلمان تھے۔ انہوں نے بتایا کہ مَیں نے حدیثوں کی کتاب میں پڑھا تھا۔ جب امام مہدی علیہ السلام نازل ہوں گے تو ہر مسلمان کا فرض ہے کہ وہ ان کی بیعت میں شامل ہو۔ چنانچہ بیعت میں شامل ہو کر ان کی عجیب قلبی کیفیت تھی۔ کہتے ہیں دوسری بات جس نے مجھے متاثر کیا وہ ایک کثیر تعداد میں سعید الفطرت روحوں کا خوابوں کے ذریعہ سے خبر پا کر جماعت میں شامل ہونا ہے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ یہ واقعی الٰہی جماعت ہے اور اللہ تعالیٰ خود دلوں کو اس جماعت کی طرف کھینچ رہا ہے۔

پھر ایک مہمان حیدر صاحب بیان کرتے ہیں کہ ایک خواب کے ذریعہ احمدیت قبول کی۔ انہوں نے بیان کیا کہ چند سال قبل جبکہ انہیں جماعت کے بارے میں کوئی معلومات نہیں تھیں ایک رات انہوں نے خواب دیکھا کہ وہ دوست کے ہمراہ ہیں اور اس وقت انہیں اذان کی آواز سنائی دیتی ہے چنانچہ وہ اور ان کے ایک دوست نماز پڑھنے کے لئے ایک پہاڑ پر چڑھنے لگتے ہیں۔ غالباً پہاڑ کی چوٹی پر نماز پڑھائی جانی ہے۔ جب وہ بلندی پر پہنچتے ہیں تو وہاں انہیں مختلف داڑھیوں والے افرادنظر آتے ہیں جو ایک دوسرے کو دھکا دے رہے ہیں اور مار پیٹ کر رہے ہیں۔ کہیں آگ لگی ہوئی ہے اور ایک عجیب خوفناک صورتحال ہے۔ اس پر حیدر صاحب اپنے دوست سے کہتے ہیں کہ یہاں سے نکلو ورنہ یہ لوگ ہمیں بھی مار دیں گے۔ چنانچہ وہ وہاں سے روانہ ہوتے ہیں اور تھوڑی ہی دور پر انہیں ایک سرسبز و شاداب وادی نظر آتی ہے جو چاروں طرف سے خوبصورت تناور درختوں سے گھری ہوئی ہے۔ اس وادی میں سفید لباس میں ملبوس نمازیوں کی ایک کثیر تعداد انتہائی نظم و ضبط کے ساتھ نماز کے لئے صف آراء ہے اور ان کے سامنے ایک شخص کھڑا ہے جو ان کی امامت کرا رہا ہے۔ میں اپنے دوست سے پوچھتا ہوں کہ یہ کون لوگ ہیں؟ وہ بتاتا ہے کہ یہ احمدی لوگ ہیں اور اتنے میں میری آنکھ کھل گئی۔ اس وقت میں جماعت کے نام سے بھی واقف نہ تھا، نہ میرا کسی احمدی سے رابطہ تھا۔ یہی خواب میرے لئے قبول احمدیت کا موجب بنی۔

پھر مراکش کے ایک دوست عبدالقادر صاحب کہتے ہیں کہ چھ سال قبل احمدیت سے متعارف ہوا تھا لیکن چند ہفتے قبل احمدیت کی تلاش میں جماعت کے ایک نماز سینٹر پہنچا اور جماعت کا مزید تعارف حاصل کیا اور نمازوں اور جمعوں پر آنا شروع کیا۔ مجھے جلسہ سالانہ جرمنی کے لئے دعوت دی گئی۔ مَیں اس میں شامل ہوا جلسہ کا روحانی ماحول دیکھ کر اور خلیفہ وقت سے احباب جماعت کی محبت اور اطاعت دیکھ کر میرے دل میں ایک غیر معمولی تبدیلی آئی کہ یہ یقینا سچوں کی جماعت ہے۔ اس پر مَیں نے جماعت میں داخل ہونے کا فیصلہ کر لیا اور بیعت کر لی۔

پھر سویڈن سے عراق کے ایک دوست ہیں۔ کہتے ہیں جلسے کا روحانی ماحول دیکھ کر بہت متاثر ہوا۔ وہ کہتے ہیں یہی وہ حقیقی اور سچی جماعت ہے جس کی مجھے تلاش تھی اور یہی جماعت احمدیہ میرے سب سوالوں کا جواب ہے اور پھر جلسے پر انہوں نے بیعت کر لی۔

بیلجیم سے ایک غانین دوست عباس صاحب جلسے پر آئے تھے۔ کہتے ہیں کہ مَیں نے خواب میں دیکھا کہ مَیں خدا کو دیکھ رہا ہوں اور خدا تعالیٰ بھی رحمت کی نظر سے مجھے دیکھ رہا ہے۔ میں ایک تبلیغی میٹنگ میں گیا اور وہاں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی تصویر کو دیکھ کر مجھے یاد آیا کہ یہ تو وہی شخص ہیں جنہیں مَیں نے خواب میں دیکھا تھا۔ مَیں پوری میٹنگ میں تصویر دیکھ کر روتا رہا اور اب جلسہ سالانہ جرمنی میں شامل ہونے کے لئے آیا ہوں اور میں نے بیعت کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ مَیں احمدیت کے ہر مخالف کو کہتا ہوں کہ اگر وہ جلسے کا ماحول دیکھ لیں اور ایک بار آ کر جلسے میں شرکت کر لیں تو مَیں یقین سے کہتا ہوں کہ وہ مخالفت چھوڑ دیں گے۔

پھر ایک مراکشی خاتون بیلجیم سے آئی ہیں۔ کہتی ہیں خواب دیکھا کہ امام مہدی آئے ہیں اور ایک چاند کی روشنی کی طرح انہوں نے کہا بشارت ہو، بشارت ہو۔ پھر بعد میں خلیفۃ المسیح الخامس کو دیکھا جنہوں نے انگریزی میں فرمایا Don’t worry۔ مجھے کوئی علم نہ تھا کہ یہ بزرگ کون ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تصویر دیکھی تو آپ علیہ السلام ہی تھے جو مجھے خواب میں امام مہدی کے طور پر نظر آئے تھے۔ پھر میں جلسہ سالانہ یوکے میں شامل ہوئی تو خلیفۃ المسیح کو دیکھ کر یقین نہیں آیا اور آنکھوں سے آنسو رواں تھے کہ یہ وہی شخص تھا جس کو خواب میں مَیں نے دیکھا تھا اور مجھے یقین ہو گیا کہ یہ سچی اور حقیقی جماعت ہے۔ چنانچہ بیعت کر کے جماعت میں شامل ہو گئی۔

پھر فرانس سے ایک دوست آئے ہوئے تھے۔ کہتے ہیں میں عیسائی فیملی میں پیدا ہوا ہوں۔ میں کوئی مذہبی پریکٹس نہیں کرتا۔ جب اپنے ماں باپ کے کہنے پرچرچ میں گیا تو سامنے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا بت رکھا تھا۔ مجھے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ خدا کی عبادت کروں یا اس بت کی عبادت کروں۔ چنانچہ جس احمدی دوست سے رابطہ ہوا، انہوں نے مجھے جماعت کا تعارف کروایا اور معلومات مہیا کیں۔ اسلامی اصول کی فلاسفی پڑھنے کیلئے دی۔ جلسہ میں شامل ہوا۔ امام جماعت کا خطاب سنا اور میر ے دل کی حالت بدل گئی اور مَیں جلسہ کے تیسرے دن بیعت کرکے احمدیت میں داخل ہو گیا ہوں۔ یہ مقامی فرانسیسی ہیں۔ ہنگری سے آنے والے وفد کے انچارج صداقت صاحب کہتے ہیں کہ جرمنی میں ایک فیملی تھی۔ ان سے انٹرنیٹ پررابطہ تھا۔ انہیں جلسے پر آنے کی دعوت دی تو اسلام کے بارے میں کیونکہ اچھا تاثر نہیں رکھتے تھے اس لئے انہوں نے پہلے تو انکار کیا۔ لیکن بہر حال پھر تسلی دلائی تو اس پر وہ آ گئے اور تینوں دن جلسے میں شامل ہوئے اور میرا خطبہ جمعہ بھی انہوں نے سنا اور بہت غور سے سنا اور بڑے متاثر ہوئے۔ پھر نماز کے ماحول کو دیکھا۔ اس نے بھی انہیں بہت متاثر کیا کہ اس طرح کا ماحول انہوـں نے زندگی میں پہلی مرتبہ دیکھا ہے۔ اس کے بعد شام کو ان کی مجھ سے ملاقات تھی جس میں یہ بہت متاثر ہوئے۔ انہوں نے بتایا کہ میں عیسائی پادریوں سے بھی ملتا رہتا ہوں لیکن ان کی باتوں کا کچھ بھی اثر نہیں کیونکہ میں ان کی باتیں ایک کان سے سنتا ہوں دوسرے سے نکال دیتا ہوں لیکن خلیفہ وقت کے الفاظ میرے دل میں اتر رہے تھے۔ پھر کہتے ہیں کہ اسی روز رات انہوں نے اپنے بیٹے کو فون کر کے ساری تفصیل بتائی کہ جماعت احمدیہ کے سربراہ نے انہیں وقت دیا اور بڑی شفقت اور پیار سے ہم سے باتیں کیں اور ہمیں پین وغیرہ دیا اور آخر میں ہاتھ پکڑ کر تصویر کھنچوائی۔

ہفتہ کے دن ان کی اہلیہ عورتوں کی جلسہ گاہ میں چلی گئیں۔ عورتوں کی جلسہ گاہ کے انتظامات دیکھ کر بہت متاثر ہوئیں۔ ظہر اور عصر کی نمازیں بھی احمدی خواتین کو دیکھ کر ان کی طرح ادا کرتی رہیں۔ پھر یہ کہتے ہیں ان کا مبلغین سے بھی رابطہ رہا۔ مختلف مبلغین کے ساتھ ان کی سٹنگز (sittings) بھی ہوئیں جس میں انہیں اسلام اور احمدیت کے بارے میں تفصیل سے بتایا گیا۔ موصوف نے بتایا کہ ہفتے اور اتوار کی درمیانی رات تقریباً دو بجے اپنے ہوٹل میں جہاں یہ رہائش پذیر تھے انہیں کمرے میں میری آواز آئی کہ جس طرح مَیں نماز پڑھا رہا ہوں۔ تو کہتے ہیں مَیں نے آواز سنی اور اٹھ کر بیٹھ گیا اور اٹھنے پر انہیں آواز سنائی دیتی رہی۔ کہتے ہیں مَیں نے اپنی بیوی کو اٹھایا اور اسے خواب کے بارے میں بتایا۔ اور کہاں تو یہ اسلام کے مخالف تھے لیکن پھر اس وجہ سے انہوں نے اتوار کی دوپہر کو جب بیعت ہوئی تو جلسے پر آ کر انہوں نے بیعت کرنے کا اظہار کیا اور بیعت کر کے احمدیت میں شامل ہو گئے۔

فرانس سے آئے ہوئے ایک عرب احمدی نے بتایا۔ یہ اپنا ایک پرانا خواب بتا رہے ہیں۔ کہتے ہیں خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کی وفات سے کچھ عرصہ پہلے مَیں نے رؤیا میں سنا کہ کوئی کہہ رہا ہے۔ یٰٓاَیَّتُھَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّۃُ۔ ارْجِعِیٓ اِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرْضِیَّۃً۔ فَادْخُلِیْ فِیْ عِبٰدِیْ۔ وَادْخُلِیْ جَنَّتِیْ (الفجر: 31-28) پھر ایک نوجوان کو دیکھا جس کے بارے میں مجھے خواب میں کہا گیا کہ یہ تمہارا نیا خلیفہ ہے۔ تو کہتے ہیں اس رؤیا کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الرابع کی وفات ہو گئی اور جب انتخاب خلافت ہوا تو مجھے یہ رؤیا یاد آ گیا اور جب میں نے تصویر دیکھی تو آپ ہی تھے۔

پھر سپین کے علاقہ مرسیا سے آئے ہوئے ایک مراکشی نو احمدی نے بتایا کہ ایک مراکشی احمدی الطیب الفرح کے ساتھ کام کیا کرتے تھے۔ ان کی اخلاقی اور دینی حالت سے بہت متاثر تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ میں نے دیکھا کہ کئی مراکشی لوگ ان سے استہزاء کا سلوک کرتے ہیں۔ ایک روز کسی نے مجھے کہا کہ کیا تم بھی قادیانی ہو؟ مَیں نے کہا وہ کیا ہوتا ہے؟ انہوں نے کہا کہ یہ الطیب الفرح قادیانی ہے۔ میں نے جب طیب صاحب سے پوچھا کہ قادیانیت کیا چیز ہے۔ تو جماعتی عقائد کے بارے میں مجھے تفصیل سے انہوں نے بتایا اور پھر جب میں نے ایم ٹی اے دیکھا تو وہاں بھی بیٹھے ہوئے لوگوں کے چہروں سے نظر آ گیا کہ یہ جھوٹوں کے چہرے نہیں ہیں۔ کہتے ہیں کہ اس بات پر مَیں نے تحقیق کی اور پھر بیعت کر لی۔

کہتے ہیں بیعت کے بعد مَیں نے خواب میں دیکھا کہ مَیں اور میری اہلیہ آپ کے گھر آئے ہیں۔ مجھے کہہ رہے ہیں کہ دروازہ کھٹکھٹانے پر آپ نے دروازہ کھولا اور اندر بٹھایا، ضیافت فرمائی۔ پھر ہم نے نمازیں ادا کیں۔ جب انہوں نے بیعت کی ہے تو اکیلے تھے۔ چار سال تک اکیلے تھے اور لوگ ان کو تمسخر کا نشانہ بنایا کرتے تھے لیکن جماعت نہیں تھی۔ پھر انہوں نے مجھے خط بھی لکھا اور جواب میں جب مَیں نے انہیں یہ لکھا کہ آپ دعا بھی کیا کریں کہ رَبِّ لَا تَذَرْنِیْ فَرْدًا وَّاَنْتَ خَیْرُ الْوٰرِثِیْنَ (الانبیاء: 90) تو کہتے ہیں کہ یہ دعا کا معجزہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پھر ایک سے دو، دو سے چارکر دئیے اور مزید احمدی بیعت میں شامل ہوئے۔ اب وہاں ایک فیملی شامل ہوئی ہے، گیارہ احمدیوں کی جماعت بن گئی ہے۔

پھر ایک اور دوست ہیں جو اٹلی میں ہیں، وہاں نمازیں پڑھایا کرتے تھے۔ بیعت کر لی تو لوگ ان کا مذاق اڑاتے تھے۔ اس بات پر پریشان تھے۔ مَیں نے انہیں کہا کہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے، انشاء اللہ تعالیٰ آپ کو اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو نماز پڑھانے کے لئے چنا ہے۔ پہلے تو آپ ایسے لوگوں کو نماز پڑھاتے تھے جو مومن نہیں تھے۔ بہر حال ایک خوبصورت ماحول میں اچھی باتیں وہاں ہوتی رہیں۔ ہر ایک اچھا اثر لے کے گیا۔

پریس اور میڈیا نے بھی مساجد کے افتتاح کی، جلسہ سالانہ کی کافی کوریج دی ہے۔ اس کے مطابق ساٹھ سے زائد رپورٹس اور خبریں مختلف چینلوں میں آئی ہیں۔ اخبارات کے علاوہ چار ٹی وی چینلز، چار ریڈیو سٹیشن بھی اس میں شامل ہیں۔ اور جماعت کا ایک اندازہ ہے کہ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے ذریعہ مجموعی طور پر سینتیس ملین (37 million) افراد تک پیغام پہنچا ہے۔ پس یہ باتیں اللہ تعالیٰ کی خاص تائید کا اظہار کرتی ہیں۔ یہ باتیں تو ہو گئیں جو جلسہ اور مساجد کے افتتاح یا سنگ بنیاد کی تقریبات کے موقع پر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو ہمیں دکھاتی ہیں۔ اب مَیں بعض باتیں وہ بھی کرنا چاہتا ہوں جو ہمیں اپنے جائزوں کی طرف توجہ دلانے کے لئے ہیں۔ جہاں ہمیں اس بات پر اللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہونا چاہئے اور ہوتے ہیں کہ وہ کس کس طرح اپنی تائیدات اور نصرت کے نظارے دکھاتا ہے وہاں ہمیں اس بات کی بھی فکر ہونی چاہئے کہ کہیں ہم میں سے کسی ایک کی بھی کوئی ایسی حرکت یا ہماری شامت اعمال اسے ان فضلوں کا حصہ بننے سے محروم نہ کر دے۔ دوسروں کو تو عموماً خوبیاں نظر آتی ہیں لیکن ہمیں اپنی کمی اور خامیوں کی طرف بھی نظر رکھنی چاہئے اور کوشش کرنی چاہئے کہ کس طرح ہم اپنی حالتوں اور اپنے کاموں کو بہتر کر سکتے ہیں۔ خاص طور پر عہدیداران اور ان میں سے بھی خاص طور پر نیشنل عاملہ کے عہدیداران اور مرکزی کارکنان کو اس جائزے کی ضرورت ہے۔

وہاں بعض باتیں ایسی توجہ طلب تھیں یا خامیاں اور کمزوریاں تھیں (کہ جن کی طرف مَیں نے جب توجہ دلائی) تو اس کے بعد جرمنی کے امیر صاحب نے مجھے یہ لکھ دیا کہ ہم میں جو کمزوریاں رہ گئی ہیں اس کے لئے معذرت اور معافی۔ لیکن یہ لکھ دینا کافی نہیں جب تک سارا سال ان باتوں کے جائزے نہ لیں اور عملی طور پر اس کی درستی کے سامان نہیں کرتے، اس معذرت کا کوئی فائدہ نہیں۔ معذرتیں اور معافیاں تو کوئی فائدہ نہیں دے سکتیں۔ اصل چیز اصلاح ہے اور عملی کوشش ہے۔

ایک جرنلسٹ خاتون جو وہاں غالباً میسیڈونیا سے آئی ہوئی تھیں۔ انہوں نے مجھ سے سوال کیا کہ آپ جلسے کے تمام انتظامات سے مطمئن ہیں؟ اس کی کیا نیت تھی، اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے۔ ہو سکتا ہے یہ بھی ہو کہ بعض کمیوں کی طرف نشاندہی کرنا چاہتی ہو۔ اگر مَیں کہوں کہ سو فیصد مطمئن ہوں تو اگلا سوال پوچھ سکتی تھی۔ مَیں نے ان کو یہی جواب دیا کہ ترقی کرنے والی قومیں خوب سے خوب تر کی تلاش میں ہوتی ہیں۔ چند لوگوں کی تعریفیں سن کر ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ جو کچھ ہم نے کرنا تھا کر لیا اور بہت اعلیٰ کام ہو گیا اور ظاہری کمیاں جو ہیں ان کو ہم بھول جائیں۔ یہ تو کبھی نظر انداز نہ ہو سکتی ہیں، نہ ہونی چاہئیں۔ تو بہر حال اس پر وہ خاموش ہو گئی۔ اب ساؤنڈ سسٹم کا ہی مسئلہ ہے۔ دو تین دفعہ ایسے وقت میں خرابی ہوئی جب میرے پروگرام تھے۔ بہر حال اس پر جب میں نے بتایا کہ تم نے بھی ساؤنڈ سسٹم کا پروگرام دیکھا، اس میں خرابی ہوئی۔ تو اس نے سوال تو آگے نہیں کیا۔ وہ چپ ہو گئی۔ شاید اس لئے بھی چپ ہو گئی کہ خود ہی اپنی غلطیوں کی نشاندہی کر رہے ہیں۔ بیشک یہ ٹھیک ہے کہ کسی کام میں سو فیصد perfection نہیں آ سکتی لیکن بہتر سے بہتر کرنے کی کوشش ضرور ہونی چاہئے اور ساؤنڈ سسٹم میں جو گڑ بڑ ہوئی ہے وہ تو خالصتاً لاپرواہی کی وجہ سے ہوئی ہے۔ جبکہ مَیں ایک دن پہلے کارکنوں کو مخاطب کر کے یہ کہہ چکا تھا کہ اگر آپ کے کام میں کوئی خرابی پیدا ہو گی تو لاپرواہی سے پیدا ہو گی ویسے تو ماشاء اللہ سب trained ہیں۔ اس لئے چھوٹے سے چھوٹے کام کو بھی معمولی نہ سمجھیں۔ لیکن شاید افسروں نے یہ سمجھ لیا کہ یہ ہدایت کارکنوں کے لئے ہے ہمارے لئے نہیں اور اسی وجہ سے یہ سب خرابیاں پیدا ہوئی ہیں۔ اور اب تحقیق کے بعد جو باتیں سامنے آ رہی ہیں اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جو بے احتیاطیاں کی گئیں وہ لاپرواہی کی وجہ سے تھیں اور کسی بڑے حادثے کی وجہ بھی بن سکتی تھیں۔ بجلی کے پوائنٹس کو بغیر کسی نگرانی کے چھوڑا ہوا تھا جس کی وجہ سے کسی نے آ کر لاؤڈ سپیکر کا پلگ نکال دیا جس کی وجہ سے آواز بند ہو گئی۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ پھر جلسہ کی انتظامیہ کو اپنے لوڈ (load)کا بھی پتا ہونا چاہئے کہ بجلی کا کتنا لوڈ ہمارے پاس ہے اور کوئی زائد چیز ہم لگا بھی سکتے ہیں کہ نہیں۔ اب وہاں چائے بنانے کا انتظام کیا ہوا تھا۔ اسی پلگ (Plug) میں ساؤنڈ سسٹم ہے، اسی پلگ میں چائے کا نظام رکھا ہوا ہے جس کی وجہ سے ایک فیوز (fuse) اڑ گیا۔ ایک وقت میں اس لئے آواز بند ہو گئی۔ تو مَیں بار بار احتیاط کے لئے کہتا ہوں اور سکیورٹی کی طرف توجہ دلاتا ہوں اور سب سے بڑا سکیورٹی پوائنٹ یہ فیوز باکس اور پلگ کنکشن (plug connection) وغیرہ ہوتے ہیں۔ یوکے کا بھی جلسہ ہو رہا ہے۔ ان کو بھی یاد رکھنا چاہئے کہ ایک تو مکمل سکیورٹی چوبیس گھنٹے ایسی جگہوں پر ہونی چاہئے جہاں کہیں بھی مین مارکی کے اندر بجلی کے پوائنٹس ہوں۔ اور چائے وائے بنانی ہے تو دوسری جگہوں پر بنا کر کارکنوں کے لئے لایا کریں۔ امیر صاحب جرمنی ایک یہ جواب دیتے ہیں کہ اگلے سال ہم اس کمپنی کو بدل دیں گے جن سے یہ ساؤنڈ سسٹم لیا تھا، ان کی negligenceہے۔ یہ تو بالکل بچگانہ باتیں ہیں۔ اگر بدل کر پھر بے احتیاطی کرنی ہے، تو پھر یہی نتیجے نکلیں گے۔ جب تک ہر معاملے میں مکمل اطاعت کی عادت نہیں ڈالتے، بات سن کر اس پر عمل کرنے کی کوشش نہیں کرتے اس وقت تک یہی کچھ ہوتا رہے گا۔ یہ غلطیاں اور چھوٹی چھوٹی خامیاں سامنے آتی رہیں گی۔

اب بیعت کے وقت میں بھی آواز بندہو گئی۔ اس کے بھی کئی بہانے ہیں۔ یہ تو اچھا ہوا کہ میں نے بیعت کے الفاظ دوبارہ دہرا دئیے۔ دنیا سے فوراً شکریہ کی فیکسیں آنی شروع ہو گئی تھیں کہ آپ نے الفاظ دہرا دئیے، بڑا اچھا کیا۔ ورنہ ہمیں تو آواز نہیں پہنچی تھی اور ہم بیعت کے الفاظ سے محروم رہ گئے تھے اور خاص طور پر پاکستان والے کہتے ہیں کہ جب بیعتیں ہوتی ہیں تو عموماً انگریزی میں الفاظ دہرائے جاتے ہیں۔ اردو کی بیعت بہت کم ہوتی ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ اردو میں بیعت ہو تو ان کی طرف سے بہت زیادہ اس بات کا اظہار ہوا۔ تو اس طرف توجہ دینے کی بہت ضرورت ہے۔

اسی طرح انتظامیہ جرمنی جو ہے ان کو کھانے کے معاملے میں پچھلی دفعہ بھی مَیں نے توجہ دلائی تھی۔ اب مجھے پتا چلا ہے کہ وہاں روٹی جو استعمال کی گئی ہے اس میں بعض دفعہ بعض ایسے پیکٹ تھے جن کی تاریخ ایکسپائر (expire) ہوئی ہوئی تھی۔ اس بارے میں بھی ان کو تحقیق کر کے رپورٹ دینی چاہئے۔ اور ان تمام کمیوں اور خامیوں کو یہ جو سامنے آ گئیں یا مزید کارکنوں سے پوچھ کے جو بھی ہیں، جیسا کہ میں نے کہا ہوا ہے ایک لال کتاب بنانی چاہئے۔ اس ریڈ بُک (Red Book) میں سب خامیاں اور کمیاں سارا کچھ لکھا جانا چاہئے اور پھر ان کو دیکھ کر آئندہ سال کے لئے بہتری کے سامان بھی کرنے چاہئیں، پڑھنا بھی چاہئے، صرف یہ نہیں کہ لکھ لیا۔ اس پر غور سارا سال ہونا چاہئے کہ کس طرح ہم اس کو بہتر سے بہتر کر سکتے ہیں۔ بہر حال عملی طور پر بہتری کریں تبھی اس کا مداوا ہو سکتا ہے، صرف باتوں میں نہیں۔ اور اگر توجہ ہو تو سب کچھ ہو سکتا ہے۔ کینیڈا کی جماعت میں بھی ایک سال اسی طرح ہوا تھا۔ اُن کو میں نے توجہ دلائی اور انہوں نے توجہ کی۔ عملی اقدام اٹھائے۔ اب وہاں کے لوگ لکھتے ہیں کہ بہت بہتر انتظام ہے۔ اس لئے کہ انہوں نے بات کو سنا اور اس پر عمل کیا یا عمل کرنے کی پوری کوشش کی۔

جرمنی والے بھی اس اصول پر چلیں گے تو انشاء اللہ تعالیٰ بہتری ہو گی۔ عام کارکن اور افراد جماعت تو بے چین ہو ہوکر لکھتے ہیں اور اب بھی شاید لکھیں گے لیکن نیشنل عہدیداروں کو اپنے خولوں سے باہر آنے کی ضرورت ہے۔ وہ باہر نکلیں اور اپنے آپ کو افسر نہ سمجھیں بلکہ خادم سمجھ کر جماعت کی خدمت کریں۔ اپنے اندر یہ سوچ پیدا کریں۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو توفیق دے اور جو بھی کامیابیاں جماعت کو مل رہی ہیں انہیں اللہ تعالیٰ کے فضلوں سے موصوف و منسوب کریں۔ عاجزی اور انکساری اور اللہ تعالیٰ کی شکرگزاری میں بڑھنے کی کوشش کریں۔ اللہ کرے کہ سب عہدیداروں میں یہ روح پیدا ہو جائے اور ہم اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو پہلے سے بڑھ کر جذب کرنے والے ہوں۔


  • خطبہ کا مکمل متن
  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 20؍ جون 2014ء شہ سرخیاں

    6؍جون کے خطبہ میں مَیں نے خلافت کی اطاعت اور خلافت سے وفا کے موضوع پر صرف جرمنی کے لئے ہی نہیں بلکہ تمام دنیا کے لئے خطبہ دیا تھا۔ مجھے خوشی ہے کہ دنیا بھر کے احمدیوں نے ردّ عمل دکھایا اور فوری طور پر خلافت کی کامل اطاعت اور مکمل وفا کا اظہار کیا۔ یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی قائم کردہ جماعت کی خوبصورتی ہے کہ جب توجہ دلاؤ تو فوری توجہ ہوتی ہے۔

    اللہ تعالیٰ سب احمدیوں کو اس اطاعت و وفا میں بڑھاتا رہے۔

    جلسہ سالانہ جرمنی اور جرمنی میں مختلف مساجد کے سنگ بنیاد اور افتتاح کے مواقع پر غیر مسلموں اور دیگر مہمانوں کے تأثرات کا روح پرور تذکرہ۔

    مختلف ممالک سے آنے والے افراد سے ملاقاتوں کے دوران مہمانوں کی طرف سے جماعت احمدیہ کے بارہ میں نیک تأثرات کا اظہار۔

    جرمنی جلسہ کے تیسرے روز بیعت کی تقریب میں 19 قوموں کے 83افراد بیعت کر کے جماعت احمدیہ میں شامل ہوئے۔ نومبائعین کے ایمان افروز واقعات کا بیان۔

    پریس اور میڈیا میں مساجد کے افتتاح کی اور جلسہ سالانہ کی وسیع پیمانے پر کوریج۔ اخبارات کے علاوہ ٹی وی اور ریڈیو سٹیشنزپر جماعتی خبروں کی تشہیر۔ ایک اندازے کے مطابق الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے ذریعہ 37 ملین افراد تک پیغام پہنچا۔ یہ باتیں اللہ تعالیٰ کی خاص تائید کا اظہار کرتی ہیں۔ ہمیں اپنی کمی اور خامیوں کی طرف بھی نظر رکھنی چاہئے اور کوشش کرنی چاہئے کہ کس طرح ہم اپنی حالتوں اور اپنے کاموں کو بہتر کر سکتے ہیں۔ خاص طور پر عہدیداران اور ان میں سے بھی نیشنل عاملہ کے عہدیداران اور مرکزی کارکنان کو خاص طور پر اس جائزے کی ضرورت ہے۔

    آج دنیا کی رہنمائی کی باگ ڈور اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت کو دی ہے۔ پس اس کو سمجھیں اور اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کی کوشش کریں۔ اپنے تعلق کو اللہ تعالیٰ سے مضبوط کریں۔

    نیشنل عہدیداروں کو اپنے خولوں سے باہر آنے کی ضرورت ہے۔ وہ باہر نکلیں اور اپنے آپ کو افسر نہ سمجھیں بلکہ خادم سمجھ کر جماعت کی خدمت کریں۔ جو بھی کامیابیاں جماعت کو مل رہی ہیں انہیں اللہ تعالیٰ کے فضلوں سے موصوف و منسوب کریں۔ عاجزی اور انکساری اور اللہ تعالیٰ کی شکرگزاری میں بڑھنے کی کوشش کریں۔ اللہ کرے کہ سب عہدیداروں میں یہ روح پیدا ہو جائے اور ہم اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو پہلے سے بڑھ کر جذب کرنے والے ہوں۔

    فرمودہ مورخہ 20؍جون 2014ء بمطابق 20 احسان 1393 ہجری شمسی،  بمقام مسجد بیت الفتوح مورڈن

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور