دورۂ جاپان

خطبہ جمعہ 27؍ نومبر 2015ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔

اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

جیسا کہ احباب جانتے ہیں گزشتہ دنوں مَیں جاپان کی پہلی مسجد کے افتتاح کے لئے وہاں گیا تھا۔ اگر ظاہری حالات کو دیکھا جائے تو یہ بہت مشکل امر تھا کہ وہاں مسجد بن سکے۔ ہمارے وکیل جو جاپانی ہیں مجھے ملے اور کہنے لگے کہ مسجد کی تکمیل آپ کو مبارک ہو لیکن میں اب بھی سوچتا ہوں اور حیران ہوتا ہوں اور یقین نہیں آتا کہ اس علاقے میں آپ کو مسجد بنانے کی اجازت مل گئی۔ کہنے لگے کہ میں آپ کے لئے کیس تو لڑ رہا تھا لیکن مجھے توقع نہیں تھی کہ کوئی کامیابی ہو اس لئے ایک موقع پر میں نے جماعت کی انتظامیہ کو کہہ دیا کہ اس معاملے کو چھوڑدیں تو زیادہ بہتر ہے۔ لیکن جماعت کے افراد کا توکّل بھی عجیب ہے۔ انہوں نے کہا کہ تم کوشش کرتے رہو۔ یہ جگہ ہمیں انشاء اللہ تعالیٰ ملے گی اور مسجد بھی بنے گی۔ کہنے لگے آج یہ مسجد جو ہے یہ میرے لئے تو یقینا ایک حیران کن بات ہے اور نشان ہے۔ بہرحال یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے جو وہ ہر موقع پر جماعت پر فرماتا رہتا ہے اور ہمارے ایمانوں کو بڑھاتا ہے۔ ہر کام کے لئے اللہ تعالیٰ نے وقت رکھا ہوا ہے اور جب وہ وقت آتا ہے تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہ کام ہو جاتے ہیں۔ جب اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ یہ مسجد بنے تو تمام روکوں کے باوجود مسجد بنانے کی اللہ تعالیٰ نے ہمیں توفیق دی اور اسلام کا پیغام اس ملک میں پہنچانے کا پہلا مرکز قائم ہو گیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ صرف ایک مرکز یا مسجد تمام ملک میں اسلام کی تعلیم پھیلانے کے مقصد کو پورا نہیں کر سکتی لیکن یہ بات یقینی ہے کہ اس کے ساتھ جاپان میں اسلام کا حقیقی پیغام پہنچانے کی بنیاد رکھ دی گئی ہے۔

مَیں چند لوگوں کے تأثرات بھی بیان کروں گا جس سے پتا چلتا ہے کہ جاپانیوں نے جماعت احمدیہ کے ذریعہ سے بتائی گئی صحیح اسلامی تعلیم کو کس طرح دیکھا۔ اور یہ ہونا تھا کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام صادق کے ذریعہ سے ہی یہ مقدر تھا۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جس طرح باقی دنیا کے ممالک میں اسلام کا حقیقی پیغام پہنچانے کی تڑپ کا اظہار فرمایا ہے اور اس کے لئے کوشش بھی فرمائی اسی طرح جاپان کے متعلق بھی فرمایا کہ جاپانیوں کے واسطے ایک کتاب لکھی جائے اور کسی فصیح و بلیغ جاپانی کو ایک ہزار روپیہ دے کر ترجمہ کروایا جائے اور پھر اس کا دس ہزار نسخہ چھاپ کر جاپان میں شائع کر دیا جائے۔ (ماخوذ از ملفوظات جلد ہشتم صفحہ 22۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

آپ نے یہ بھی فرمایا کہ جاپان میں نیک فطرت لوگ احمدیت قبول کریں گے۔ (ماخوذ از ملفوظات جلد ہفتم صفحہ 385۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

الحمد للہ کہ آج قرآن کریم کے ترجمہ سمیت ہزاروں کی تعداد میں جماعت کی طرف سے جاپانیوں کے لئے ان کی زبان میں لٹریچر تیار ہو رہا ہے اور اب تو اس مسجد کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خواہش پورا کرنے کے لئے ایسے دروازے کھولے ہیں کہ کروڑوں تک اسلام کا پیغام پہنچ رہا ہے۔

جیسا کہ مَیں نے بتایا کہ لوگوں کے تأثرات پیش کروں گا جس سے پتہ چلتا ہے لوگوں کی اسلام کے بارے میں رائے بدل گئی ہے۔ پہلے کچھ اور رائے تھی اب بالکل مختلف ہو گئی ہے۔ اور انہوں نے کہا ہے، یہ برملا اظہار کیا کہ مسجد کے افتتاح اور فنکشن میں شامل ہو کر ہمیں اسلام کی تعلیم کا پتا چلا ہے اور اسلام کے بارے میں ہماری غلط فہمیاں دور ہوئی ہیں۔ پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا تھا کہ اسلام کا تعارف کروانا ہو تو مسجد بنا دو، لوگوں کی توجہ پیدا ہو گی۔ (ماخوذ از ملفوظات جلد ہفتم صفحہ 119۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

یہ بات بڑی شان کے ساتھ پوری ہوتی ہمیں ہر جگہ اور جاپان میں بھی نظر آتی ہے۔ جب انسان دیکھتا ہے کہ مسجد کے فنکشن میں شامل ہو کے کس طرح لوگوں کی کایا پلٹی توحیرت ہوتی ہے۔ جس دن جمعہ تھا اس دن جمعہ کے وقت بھی جاپانی مہمان مسجد میں آئے ہوئے تھے۔ مَیں جب گیا ہوں تو پہلے نقاب کشائی تھی۔ کچھ باہر کھڑے تھے اور پھر وہ اندر آ کے مسجد میں بھی بیٹھ گئے اور خطبہ بھی سنا اور ہمیں نماز پڑھتے ہوئے بھی دیکھا۔ تقریباً انچاس، پچاس کے قریب جاپانی مہمان تھے جن میں شنٹو ازم کے ماننے والے بدھسٹ اور عیسائی رہنماؤں کے علاوہ علاقے کے ممبران پارلیمنٹ، پروفیسر اور دوسرے شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل تھے۔ ان شامل ہونے والوں کے جو تأثرات ہیں وہ بتاتا ہوں۔ ایک صاحب ہیں اوسامو (Osamu) صاحب جو Church of Jesus Christ کے ڈائریکٹر آف پبلک افیئرز ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہمیں امید ہے کہ یہ مسجد جاپانیوں اور اسلام کے درمیان ایک پُل کا کردار ادا کرے گی۔

پھر ایک اور پریسٹ جن کا نام تائی جون ساتو(Taijun Sato) ہے وہ کہتے ہیں کہ ایک بدھسٹ کے طور پر مسجد میں داخل ہو کر بہت اچھا لگا۔ ہمارا تو خیال تھا کہ غیر مسلم اور بدھسٹ کے طور پر مسجد میں داخلہ منع ہے۔ لیکن نہ صرف یہ کہ گرمجوشی سے ہمارا استقبال کیا گیا بلکہ نماز اور خطبہ میں شامل ہو کر ہمیں دلی خوشی ہوئی۔ اسلام کے بارے میں ہمارا تأثر تبدیل ہو گیا۔

پھر سٹی پارلیمنٹ کے ممبر ہیں وہ کہتے ہیں کہ ہم اپنے علاقے میں مسجد کی تعمیر کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ جماعت احمدیہ کے موقف کے مطابق یہ مسجد انسانیت سے محبت کرنے والوں اور خدمت خلق پر یقین رکھنے والے لوگوں کا مرکز بنے گی۔

پھر اشینوماکی (Ishinomaki) سٹی کے ممبر پارلیمنٹ ہیں۔ ایک ہزار کلو میٹر کا سفر طے کر کے مسجد کی تقریب میں شامل ہونے کے لئے آئے تھے۔ کہتے ہیں یہ خوبصورت مسجد دیکھتے ہی میری سفر کی ساری تھکان دُور ہو گئی۔ پھر انہوں نے کہا کہ جماعت احمدیہ جاپان نے زلزلوں میں خدمت کے ذریعہ جو نیک نامی کمائی ہے امید ہے کہ یہ مسجد اس نیک نامی کو بڑھانے کا باعث بنے گی۔

پھر Aichi ایجوکیشنل یونیورسٹی کے ایک پروفیسر مینیساکی ہیروکو (Minesaki Hiroko) صاحب ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ جاپان میں جماعت احمدیہ کی مسجد کی تعمیر کی بہت ضرورت تھی۔ دنیا میں اسلام کا خوبصورت چہرہ دکھانے کے لئے جماعت احمدیہ کا کردار بہت نمایاں ہے۔ ہم امید رکھتے ہیں کہ اس مسجد سے جماعت کا تعارف مزید بڑھے گا اور دنیا میں حقیقی امن و سکون پھیلے گا۔

وہاں جاپان کی جماعت چھوٹی سی جماعت ہے۔ تقریباً بارہ ممالک کے اتنے ہی احمدی لوگ فنکشن میں باہر سے بھی آئے ہوئے تھے۔ اس لئے جمعہ کے دن اچھی رونق ہو گئی تھی۔ انڈونیشیا سے، ملائیشیا سے، آسٹریلیا سے، کوریا سے، امریکہ، کینیڈا، جرمنی، برطانیہ، سوئٹزرلینڈ، بھارت، یو اے ای اور کانگو کنشاسا سے بھی کچھ گئے ہوئے تھے۔ اور اللہ کے فضل سے جماعت نے ان سب کی مہمان نوازی کا بھی حق ادا کیا۔

ہفتہ کی شام کو وہاں مسجد کے حوالے سے مسجد کے صحن میں ہی ایک reception بھی تھی۔ اس تقریب میں بھی تقریباً 109جاپانی مہمان اور آٹھ دیگر غیر ملکی غیر از جماعت مہمان شامل ہوئے۔ ان مہمانوں میں پریذیڈنٹ اے ایم اے سٹی انٹرنیشنل ایسوسی ایشن۔ دو صوبائی ممبران پارلیمنٹ، تین سٹی ممبران پارلیمنٹ، ڈائریکٹر آف انٹرنیشنل ٹوورازم، پریذیڈنٹ پریسٹ آف سوٹو ٹمپل، یونیورسٹی کے پروفیسر، پریذیڈنٹ آئی چی ایجوکیشنل یونیورسٹی، ڈاکٹرز، ٹیچرز، وکلاء اور دیگر مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل تھے۔

ایک بدھ پریسٹ جو اس میں شامل ہوئے کہتے ہیں کہ امام جماعت احمدیہ کی آمد بہت ہی اچھے وقت پر ہوئی جبکہ ہم پیرس میں دہشت گردی کے بعد ایک ہیجانی کیفیت میں مبتلا تھے۔ کہتے ہیں کہ جس خوبصورتی اور آسان فہم انداز میں انہوں نے بات کی ہے اور اسلام کی تعریف کی اس سے یہ ہیجانی کیفیت جو ہمارے دلوں میں اسلام کے بارے میں گھر کئے ہوئے تھی ختم ہو گئی۔ امام جماعت احمدیہ کی آمد اور اس مسجد کی تعمیر نے ہماری گھبراہٹ اور پریشانی کو یکسر ختم کر دیا۔

پھر ایک وکیل ایتو ہیروشی (Ito Hiroshi) صاحب ہیں۔ انہوں نے مختلف موقعوں پر قانونی معاونت بھی فراہم کی تھی۔ یہ کہتے ہیں یہ میری زندگی کا سب سے بہترین دن ہے۔ یہ وہی ہیں جن کا میں نے ذکر کیا۔ کہتے ہیں کہ امام جماعت احمدیہ کی تمام باتیں حق پر مبنی تھیں۔ جہاں انہوں نے امن اور نرمی کی تلقین کی ہے وہیں انہوں نے عدل اور انصاف کے فروغ کی بھی بات کی ہے جو بہت ہی اچھی بات ہے اور اس کی ضرورت ہے۔

ایک یونیورسٹی کے طالبعلم تھے وہ کہتے ہیں کہ میرا گھرانہ بدھسٹ پریسٹ کا گھرانہ ہے اور میرا گھر ٹمپل ہے۔ مجھے اسلام میں کافی دلچسپی تھی تاہم کبھی موقع نہیں ملا کہ کسی مسلمان سے بات کر سکوں۔ کتابوں سے جو مل سکا وہ پڑھا تاہم آج اس افتتاحی تقریب میں شرکت کر کے اور امام جماعت احمدیہ کی باتیں سن کر مجھے اسلام کی اصل تصویر نظر آئی اور ایک نیا باب مجھ پر کھلا ہے۔

ایک خاتون یوکی سانگی ساکی (Yuki Sngisaki) صاحبہ کہتی ہیں کہ اس پروقار تقریب پر دعوت کے لئے تہہ دل سے شکریہ ادا کرتی ہوں۔ اس شہر میں اتنی شاندار مسجد کا بننا ہمارے لئے بھی بہت خوشی کی بات ہے۔ میں ایک یونیورسٹی کی طالبعلم ہوں اور مختلف مذاہب پر تحقیق کر رہی ہوں۔ اس تقریب میں شامل ہونے کے بعد مجھے احساس ہوا ہے کہ ہمارا اسلام کے بارے میں علم بہت تھوڑا ہے جس کی وجہ سے ہم غلط فہمی کا شکار ہیں۔ امام جماعت احمدیہ کا خطاب اس زمانے کی ضرورت ہے۔ میں نے اس خطاب سے اسلام کے بارے میں بہت کچھ سیکھا ہے۔ ہم جاپانی لوگ اسلام کے متعلق زیادہ نہیں جانتے بلکہ اسلام سے خوفزدہ ہیں مگر آج کے خطاب سے ہمیں پتا چلا کہ اسلام اصل میں کیا چیز ہے۔ کہتی ہیں کہ اس تقریب میں شامل ہونے سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اسلام کے بارے میں کتابیں پڑھنے سے اور اس کی تاریخ پڑھنے سے ہم اس کا اصل چہرہ نہیں دیکھ سکیں گے۔ کیونکہ بہت ساری کتابیں تو یہ لوگ جو پڑھتے ہیں وہ انہی کی پڑھتے ہیں جو ویسٹرن اور یئنٹلسٹس (Western Orientalists) نے لکھی ہیں۔ اس کے لئے اس طرح کی اور تقاریب منعقد کرنے کی ضرورت ہے۔ مسجد کے بننے کے بعد میں سمجھتی ہوں کہ اس طرح کے مواقع مزید آئیں گے۔ امام جماعت احمدیہ اور ان کی جماعت سے ملنے کا موقع ملا۔ باہمی محبت اور امن اور آشتی مجھے ان کے چہروں پر نظر آئی اور ان سے ملاقات کرنے کے بعد مجھے ان میں بہت پیار اور محبت نظر آئی۔

ایک اور جاپانی دوست تھویاساکُورائی (Toya Sakurai) صاحب کہتے ہیں کہ آج اس تقریب میں شامل ہونے اور امام جماعت احمدیہ کی باتیں سننے سے اس دنیا کے امن کے بارے میں سوچنے کا موقع ملا۔ اس موقع کے فراہم کرنے کے لئے میں تہہ دل سے شکرگزار ہوں۔ امام جماعت احمدیہ نے صرف امن کے متعلق ہی بات کی اور دنیا کومخفی خطرات سے بھی آگاہ کیا۔ جماعت احمدیہ کے خلیفہ نے ہمارے ان خدشات کو بھی دور کیا کہ مسلمان دنیا پر قابض ہونا چاہتے ہیں۔ میں بار بار یہی کہوں گا کہ ہمیں ان کے ساتھ مل کر امن کے لئے کام کرنا چاہئے۔ اب ہمارا فرض ہے کہ ہم اسلام کے بارے میں پڑھیں اور اس کو سمجھیں۔ اسی طرح ایک جاپانی دوست جو سکول ٹیچر ہیں کہتے ہیں کہ احمدی احباب نے مشکل اوقات میں ہمیشہ ہماری مدد کی۔ یہ بات میں پہلے نہیں جانتا تھا۔ (وہاں کیونکہ بہت سارے مقررین نے بتایا کہ مختلف زلزلوں میں سونامی کے دنوں میں جماعت احمدیہ نے مدد کی ہے۔) تو کہتے ہیں اس بات کا مجھے پہلے نہیں پتا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ یہاں قریب کے سکول میں ٹیچر ہوں۔ کہتے ہیں اب میں آج کے بعد اپنے سکول کے بچوں کو کہہ سکتا ہوں کہ یہ لوگ خطرناک نہیں کیونکہ امام جماعت احمدیہ اور مختلف ممالک سے آئے ہوئے لوگوں سے ملاقات کا بہت حسین موقع مجھے ملا۔ کہتے ہیں کہ جماعت احمدیہ کے خلیفہ نے بہت آسان طریق سے اسلام کے بارے میں بیان کیا۔ ان کی باتیں بہت جلد سمجھ آنے والی تھیں۔ پھر ایک دوست جو اس تقریب میں شامل ہوئے کہتے ہیں کہ اس تقریب میں شامل ہو کر اور امام جماعت احمدیہ کا خطاب سننے کے بعد مجھے معلوم ہوا ہے کہ ہمیں اسلام کی بنیادوں سے واقفیت حاصل کرنے کی بہت ضرورت ہے۔ جاپان ایک جزیرہ ہیں اور یہاں کے لوگ بھی اسی طرح باہر کی دنیا سے بند اور ناواقف ہیں۔ اسی لئے وہ اسلام کے متعلق دہشت گردی کے تصور سے آگے بڑھنے کی کوشش نہیں کرتے۔ مجھے امید ہے کہ امام جماعت احمدیہ کی آمد اور اس مسجد کی تعمیر اس تصور کو بدلنے میں ایک مثبت ذریعہ بنے گی۔

پھر ایک اور جاپانی دوست ہیں انوکین (Oono Ken) صاحب کہتے ہیں کہ میں مسجد کے پاس ہی رہتا ہوں۔ مسجد کی افتتاحی تقریب میں شامل ہو کر اور اسلام کے بارے میں جان کر بہت خوش ہوا ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ اب اسلام کے بارے میں مزید معلومات کے لئے آئندہ بھی اس مسجد میں آتا رہوں۔ پھر ایک اور جاپانی دوست کہتے ہیں میں نے اس طرح کی تقریب میں پہلے کبھی شرکت نہیں کی۔ آج اس تقریب میں شامل ہو کر اور جماعت احمدیہ کے خلیفہ کا خطاب سن کر مجھے پہلی بار علم ہوا ہے کہ مسجد کے مقاصد کیا ہیں۔ ایک جاپانی ڈاکٹر جو آرتھوپیڈک سرجن ہیں وہ مجھے بھی ملے تھے۔ یہ گزشتہ تین سال سے خدمت خلق کے لئے ہمارے ساتھ ہیومینٹی فرسٹ کے ذریعہ کام کر رہے ہیں اور رضاکارانہ طور پر باوجود اس کے کہ احمدی نہیں ہیں اپنے آپ کو پیش کرتے ہیں۔ یہ کہتے ہیں جو اسلام امام جماعت احمدیہ نے پیش کیا ہے اس کے ماننے میں کسی شنٹوکے پیروکار، عیسائی، بدھسٹ یا کسی اور مذہب کے پیروکار کو کوئی عار نہیں ہونا چاہئے۔

پھر ایک اور جاپانی دوست متسُو اِیشی کاوا (Mitsuo Ishikawa) صاحب ہیں۔ کہتے ہیں ’’اسلام کا مطلب امن اور باہمی سلامتی ہے‘‘۔ امام جماعت احمدیہ کے یہ الفاظ میرے دل میں اتر گئے۔

ایک طالبعلم جو برازیل سے ایکسچینج پروگرام کے تعلق میں وہاں جاپان آئے ہوئے تھے کہتے ہیں کہ بہت ہی دلچسپ تقریب تھی۔ میں نے برازیل میں کبھی مسلمانوں کی اس طرح کی تقریب نہیں دیکھی۔ آج خلیفۃ المسیح کی باتیں سن کر میں نے اسلام کے بارے میں بہت کچھ سیکھا ہے۔ امام جماعت احمدیہ کا خطاب سن کر میں بہت جذباتی ہو گیا تھا۔ کوئی شک نہیں کہ ان کے الفاظ دلوں کو بدلنے والے ہیں۔ پھر کہتے ہیں کہ امام جماعت نے بتایا کہ دہشت گرد گھناؤنے کام کرتے ہیں لیکن اسلام کی اصل تعلیمات تو بہت اچھی ہیں۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ میڈیا جو اسلام کے بارے میں بتاتا ہے وہ حقیقت سے بالکل مختلف ہے۔

ایک جاپانی خاتون مسز اوزوکی (Mrs Uzuki) صاحبہ کہتی ہیں کہ میرا خیال ہے کہ آج کا یہ دن میری زندگی کی کایا پلٹ دینے والا دن تھا۔ امام جماعت احمدیہ نے میرا اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں نظریہ کلیۃً تبدیل کر دیا ہے۔ پھر میرے خطاب کے بارے میں کہتی ہیں کہ انہوں نے کہا کہ یہ تلوار سے جہاد کرنے کا زمانہ نہیں بلکہ پیار سے جہاد کرنے کا زمانہ ہے۔ کہتی ہیں جماعت احمدیہ کے خلیفہ کی باتوں کا مجھ پر بہت گہرا اثر ہوا ہے۔ میں تو کہوں گی کہ سب لوگوں کو یہاں آ کر یہ مسجد دیکھنی چاہئے اور احمدیوں سے اسلام کے بارے میں سیکھنا چاہئے۔

ایک جاپانی خاتون Mrs Haiashi صاحبہ کہنے لگیں کہ پہلے بھی جماعت احمدیہ کی طرف سے جاپان میں ایک تقریب کا انعقاد ہوا تھا۔ مَیں اس تقریب میں بھی شامل تھی لیکن اس تقریب میں شامل ہونے کے بعد بھی اس وقت کچھ سوال میرے ذہن میں باقی رہ گئے تھے لیکن آج جماعت کے خلیفہ نے اپنے خطاب میں میرے ان تمام سوالوں کے جواب دے دئیے۔ اب میرے دل میں اسلام کے بارے میں کسی قسم کا کوئی خدشہ یا خوف باقی نہیں رہا۔ آج میں نے یہ بھی سیکھا ہے کہ اسلام دنیا کے لئے خطرہ نہیں ہے بلکہ ہم سب کو یکجا کر سکتا ہے۔

پھر ایک جاپانی خاتون جو سکول کی ٹیچر تھیں۔ کہتی ہیں کہ جماعت احمدیہ کے خلیفہ کا خطاب سننے سے پہلے دفتر میں ان سے ملاقات کا بھی موقع ملا۔ یہ اپنے بہت سارے سٹوڈنٹ لے کر آئی ہوئی تھیں پندرہ سولہ سٹوڈنٹ تھے اور چار پانچ ٹیچر تھے۔ کہتی ہیں کہ خلیفۃ المسیح نے ملاقات کے دوران اور پھر بعد میں اپنے خطاب کے ذریعہ میرے تمام سوالات کے جوابات دے دئیے۔ اب میرا پختہ یقین ہے کہ اسلام ایک امن کا مذہب ہے۔ میں یہاں اپنے بعض طالبعلموں کو ساتھ لے کر آئی تھی۔ یہ طالبعلم پہلے اسلام سے خوفزدہ تھے لیکن امام جماعت احمدیہ کا خطاب سن کر اور باتیں کر کے ان کا نظریہ تبدیل ہو گیا ہے بلکہ یہ خطاب سن کر وہ سخت حیران ہوئے اور مسجد میں اپنے آپ کو بہت محفوظ سمجھنے لگے۔ (جیسے پہلے خطرہ تھا۔) کہتی ہیں کہ میں چاہتی ہوں کہ جاپانیوں اور احمدیوں کے بیچ اس تعلق میں اضافہ ہوتا چلا جائے۔

ان کے ساتھ ایک جاپانی طالبعلم آئے ہوئے تھے وہ کہتے ہیں کہ یہ جو خطاب تھا ایک امن کا پیغام تھا۔ میرا خیال ہے کہ اب اس مسجد کے ذریعہ مسلمانوں اور دیگر لوگوں کے بیچ جو خلیج ہے وہ دور ہو جائے گی اور جاپان میں اسلام پھیلنے لگ جائے گا۔

پھر اللہ تعالیٰ کے فضل سے میڈیا کے ذریعہ بھی مسجد کے افتتاح کا کافی چرچا ہوا اور وسیع پیمانے پر جاپانیوں تک اسلام کا پیغام پہنچا۔ میڈیا کے میرے چار مختلف انٹرویو ہوئے۔ تین تو یہیں مسجد کے لئے اور ایک وہاں ٹوکیو میں۔ Chukyo TV (چُو کِیَو ٹی وی) یہ وسطی جاپان کا مشہور ٹی وی چینل ہے۔ اس کے ناظرین کی تعداد ایک کروڑ سے زائد ہے۔ یہ انٹرویو بھی اور مسجد کے افتتاح اور نماز جمعہ کے مناظر کے ساتھ بروز جمعہ 20؍نومبر کو انہوں نے خبر بھی نشر کی۔

پھرثناء نیوز ایجنسی (Sana News Agency) کے صحافی نے انٹرویو لیا اور وہ غیر ملکی میڈیا کو دیتے ہیں انہوں نے بھی کہا کہ بعد میں بھی اس کی کافی کوریج ہو گی۔

اسی طرح Chugai Nippoh (چُوگائی نِپّو) اخبار ہے۔ اس کے نمائندے نے عیسائی پریسٹ کے ساتھ مل کے انٹرویو لیا۔ یہ جاپان کا واحد مذہبی اخبار ہے۔ یہ ہفت روزہ اخبار ہے اور انٹرنیٹ ایڈیشن سمیت اس اخبار کے پڑھنے والوں کی تعداد تین لاکھ سے زائد ہے۔ یہ انٹرویو بھی اس ہفتے شائع ہونا تھا۔ ہو گیا ہو گا۔

اسی طرح ٹوکیو میں جرنلسٹ نے ایک انٹرویو لیا اور یہ بھی کہتے تھے میں اس ہفتے شائع کروں گا۔ اس اخبار کی تعداد بھی اسّی لاکھ سے زائد ہے۔

اس مسجد کے افتتاح کے موقع پر پانچ ٹی وی چینلز اور مختلف اخبارات کے نمائندے اور جرنلسٹ آئے تھے۔ Chukyo TV (چُو کِیَو ٹی وی) جس کا میں نے ابھی ذکر کیا ہے اس نے جو خبر نشر کی وہ یہ تھی کہ جاپان کی سب سے بڑی مسجد کا افتتاح آج ہوا۔ اور یہ خبر انہوں نے جمعہ والے دن قریباً چھ ساتھ منٹ کی دی۔ ان کے ناظرین کی تعداد بھی ایک کروڑ بیس لاکھ سے زائد ہے۔ پھر خبر میں اس نے بیان کیا کہ لندن سے آئے ہوئے جماعت احمدیہ کے امام نے دہشت گرد تنظیموں کے اسلام سے بے تعلق ہونے اور ان کے عمل کو غیر اسلامی قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ مسجد جہاں مسلمانوں کی عبادت کی جگہ ہے وہاں ہر ایک کے لئے امن کا گہوارہ ہے۔ امام جماعت احمدیہ نے پیرس کے حملوں کی بھرپور مذمّت کی۔ اس چینل نے انٹرویو بھی لیا تھا اور پھر میرے انٹرویو کے بعض چنیدہ حصے بھی دکھائے۔

اسی طرح Tokai ٹی وی اس کے ناظرین کی تعداد بھی ایک کروڑ سے زیادہ بلکہ سوا کروڑ سے زیادہ ہے۔ اس چینل نے دن میں پانچ مرتبہ یہ خبر نشر کی کہ جاپان کی سب سے بڑی مسجد کا آج سوشیما شہر میں افتتاح ہوا۔ افتتاح پیرس میں حملوں کے بعد ہوا ہے۔ جماعت احمدیہ کے امام اس وقت مرکز انگلینڈ سے یہاں اس کی تقریب کے لئے آئے۔ افتتاح کی خبر کے دوران پھر انہوں نے وہاں جو میں خطبہ دے رہا تھا وہ بھی دکھایا اور افتتاح کے مناظر بھی دکھائے۔

اسی طرح TBS TV چینل ہے یہ بھی وہاں کافی مشہور ہے اور یہ کہتے ہیں کہ کروڑ سے زیادہ اس کو سننے والے، دیکھنے والے ہیں۔ اس نے خبر نشر کی کہ پیرس حملوں کو ابھی ایک ہفتہ ہوا ہے اور جاپان میں سب سے بڑی مسجد کا افتتاح آج عمل میں آیا ہے۔ یہ مسجد ایک جماعت نے بنائی ہے اور ان کے خلیفہ نے پیرس میں ہونے والے حملوں کو غیر اسلامی اور غیر انسانی قرار دیا ہے۔ خبر کے دوران مسجد کے مناظر دکھائے گئے اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تصویر بھی دکھائی گئی۔ یہ خبر بھی دن میں تین مرتبہ نشر ہوئی۔

TV Aichi۔ اس کے ناظرین کی تعداد بھی ایک کروڑ سے اوپر ہے اور اس نے بھی یہ خبر دی کہ پیرس حملوں کے بعد جبکہ اسلام کے بارے میں منفی تاثر دوبارہ پختہ ہو گیا ہے سوشیما میں ایک مسجد کا افتتاح کیا گیا ہے۔ یہ مسجد جماعت احمدیہ نے بنائی ہے اور یہ جاپان کی سب سے بڑی مسجد ہے اور امام جماعت احمدیہ نے پیرس حملوں کو غیر اسلامی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ مسجد ایسے تمام عناصر کی مذمت کرتی ہے۔ یہ مسجد امن و امان کا ذریعہ ہو گی۔ جو چاہے اس مسجد میں آ سکتا ہے۔ اور خبر کے دوران پھر مسجد کے مناظر اور دیگر احباب کے تاثرات دکھائے گئے۔ خطبہ جمعہ کے بھی بعض مناظر دکھائے گئے۔ یہ خبر بھی دوپہر اور شام کی خبروں میں نشر کی گئی۔

پھر ناگویا ٹی وی (Nagoya TV) ہے اس کے دیکھنے والوں کی تعداد بھی کافی ہے۔ کروڑ سے اوپر ہے بلکہ سوا کروڑ سے اوپر ہے۔ یہ کہتے ہیں سوشیما میں جاپان کی سب سے بڑی مسجد کا افتتاح عمل میں آیا۔ حاضرین کا کہنا تھا کہ جہاں ان کے دل اس بات پر خوش ہیں کہ یہ مسجد بنی ہے وہیں وہ اس بات پر رنجیدہ بھی ہیں کہ پیرس میں ناحق خون بہایا گیا۔ اس تقریب میں دنیا کے امن و امان کے لئے دعا بھی کی گئی۔ خبر کے دوران پھر مسجد کے مناظر دکھائے جاتے رہے۔ یہ خبر بھی اس ٹی وی چینل پر دو دفعہ دکھائی گئی۔

اخبارات کے ذریعہ بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑی اشاعت ہوئی۔ ایک اخبار The Daily Yomiuri (یَومِی اُوْرِی) اس کی اشاعت ایک کروڑ بارہ لاکھ ہے۔ یہ دنیا کی سب سے زیادہ فروخت ہونے والی اخبار شمار ہوتی ہے۔ اس اخبار نے اس طرح سرخی لگائی کہ ’’اسلام کا اصل چہرہ‘‘۔ نئی تعمیر شدہ مسجد میں سانحہ پیرس کے ہلاک شدگان کے لئے دعا کی گئی۔ پھر اس نے آگے لکھا ہے جاپان میں 200 سے زائد افراد پر مشتمل احمدیہ مسلم جماعت جاپان نے جمعہ 20؍نومبر کو سوشیما شہر میں اپنی نوتعمیر شدہ مسجد کے افتتاح کے موقع پر نماز جمعہ میں سانحہ پیرس میں ہلاک شدگان کے لئے بھی دعا کی۔ اس موقع پر دنیا بھر سے آئے افراد جن کی تعداد 500کے لگ بھگ تھی موجود تھے۔ خطبہ جمعہ میں امام جماعت احمدیہ عالمگیر نے اپنے خطاب میں سانحہ پیرس کو انسانیت کے خلاف ایک گھناؤنا جرم قرار دیتے ہوئے شدت پسند تنظیم کی بھرپور مذمت کی اور اپنی جماعت کے افراد کو تلقین کرتے ہوئے اس امر کی طرف توجہ دلائی کہ وہ جاپانی قوم تک اسلام کی اصل تعلیم پہنچانے کی ذمہ داری اٹھائیں۔ اس خبر کو انٹرنیٹ پر بھی پانچ دیگر ویب سائٹس نے ڈالا جن میں yahoo japan اور biglobe japan، msn japan اور goo news شامل ہیں۔ ان سب ویب سائٹس کے ناظرین کی کل تعداد بھی ڈیڑھ کروڑ سے زیادہ ہے۔

ایک اخبار ڈیلی اساہی (Daily Asahi)جس کی اشاعت اسّی لاکھ سے زائد ہے۔ اس نے یہ خبر شائع کی کہ ’’ہمارا عقیدہ ہم آہنگی ہے‘‘۔ اور پھریہ لکھتا ہے کہ جماعت احمدیہ جاپان کی مسجد تعلیم و تربیت کے مرکز کی تعمیر سوشیما شہر میں مکمل ہوئی ہے۔ یہ مسجد چار میناروں اور ایک گنبد سے آراستہ ہے اور یہ جاپان کی سب سے بڑی مسجد ہے۔ اس میں پانچ سو نمازی بیک وقت نماز ادا کر سکتے ہیں۔ دوسری منزل پر دفاتر اور گیسٹ ہاؤسز وغیرہ ہیں۔ یہ مسجد بلا تفریق قومیت و مذہب ہر کسی کے لئے اپنے دروازے کھلے رکھے گی۔ پھر یہ کہتا ہے کہ یہ وہ مذہبی جماعت ہے جس کی بنیادی تعلیمات کامل امن و آشتی پر مبنی ہیں۔ پھر کہتا ہے یہ جماعت رضاکارانہ خدمات میں بھی پیش پیش ہے۔ کُوبے، نیگاتا اور شمال مشرقی جاپان کے زلزلے کے وقت نیز امسال آنے والے سیلاب کے موقع پر اس جماعت نے سب سے پہلے اپنی عملی خدمات پیش کی ہیں۔ اس خبر کو بھی مختلف ویب سائٹس نے لیا اور جس کو دیکھنے والے پچہتر لاکھ سے زائد افراد تھے۔

اسی طرح جی جی پریس نیوز ایجنسی (JiJi Press News Agency) ہے۔ یہ ایجنسی جاپان میں مختلف اخباروں اور ٹیلی ویژن چینلز کو اور رسالوں کو خبریں مہیا کرتی ہے جن کی مجموعی تعداد 75ہے۔ اس طرح ان کی یہ خبر تقریباً پینسٹھ لاکھ لوگوں تک پہنچتی ہے۔ اس ایجنسی نے جو سرخی دی وہ یہ تھی کہ جاپان کی سب سے بڑی مسجد کی تعمیر مکمل۔ امن چاہتے ہیں۔ مقامی احمدیوں کی دعا‘‘۔ پھر کہتا ہے کہ بڑھتی ہوئی اسلامی تنظیم احمدیہ مسلم جماعت کے مرکز سوشیما شہر میں مسجد کا افتتاح عمل میں آیا۔ جماعت کے مطابق اس مسجد میں 500افرادنماز ادا کر سکتے ہیں۔ اس لحاظ سے یہ جاپان کی سب سے بڑی مسجد ہے۔ برطانیہ سے آئے ہوئے جماعت احمدیہ عالمگیر کے امام نے سانحہ پیرس کے متعلق کہا کہ یہ بہت ظالمانہ اور غیر انسانی فعل ہے جو اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا موجب ہے۔ نیز یہ بھی کہا کہ اسلام کی ترقی کے لئے ہمیں تلوار کی نہیں بلکہ اپنے اندر کی برائی کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ امام جماعت احمدیہ نے بھرپور انداز میں شدت پسندی کی مذمّت کی۔ اور اس کے visitors کی تعداد بھی جب یہ مختلف ویب سائٹس پر ڈالا گیا اسی طرح لاکھوں میں ہے۔

اسی طرح جاپان کا ایک اخبار Mainichi Shinbun (مَائی نِیچِی شِمْ بُنْ) لکھتا ہے کہ جاپان کی سب سے بڑی مسجد کا افتتاح ہوا۔ مسلمانوں کی ایک تنظیم جماعت احمدیہ عالمگیر کے سربراہ مرزا مسرور احمدنے یہاں 20؍نومبر کو آئی چی کے صوبہ کے سوشیما شہر میں جاپان کی سب سے بڑی مسجد کا افتتاح کیا۔ پھر کہتا ہے کہ انہوں نے دہشت گردی اور شدت پسندی کی مذمت کی ہے۔ پھر کہتا ہے کہ انہوں نے کہا کہ طاقت کے زور پر اسلام پھیلانے کا نظریہ غلطی خوردہ ہے۔ انسانی جانوں کا ضیاع اور انہیں پہنچنے والی تکالیف خدا تعالیٰ کی ناراضگی کا سبب بن رہی ہیں۔ بہرحال ان ٹی وی چینلز کے ذریعہ سے اور اخبارات کے ذریعہ سے اور انٹرنیٹ اور ویب سائٹس میں اس مسجد کے افتتاح کے موقع پر جو خبریں شائع ہوئی ہیں ان کے ذریعہ سے مجموعی طور پر تقریباً پانچ کروڑ بیس لاکھ افراد تک اسلام کا یہ پیغام پہنچا ہے۔ تو یہ اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کے نظارے ہیں جو مسجد کے ذریعہ اسلام کا حقیقی پیغام پہنچانے کی وجہ سے ہمیں نظر آئے۔ دوسری طرف مُلّاں بھی اپنے غیظ و غضب کا اظہار کر رہے ہیں اور اس بارے میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرما چکے ہیں کہ انہوں نے غیظ و غضب کا اظہار کرنا تھا بلکہ خاص جاپان کے حوالے سے بھی آپ نے فرمایا۔ اس لئے مُلّاں کا یہ غیظ و غضب تو ہونا تھا۔ چنانچہ ایک موقع پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ مَیں تو یہاں تک یقین رکھتا ہوں کہ اگر میری طرف سے کوئی کتاب اسلام پر جاپان میں شائع ہو تو یہ لوگ (یعنی مُلّاں ) میری مخالفت کے لئے جاپان بھی جا پہنچیں گے۔ لیکن ہوتا وہی ہے جو خدا تعالیٰ چاہتا ہے۔ (ماخوذ از ملفوظات جلد ہشتم صفحہ 25۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

2013ء میں جب مَیں نے جاپان کا دورہ کیا ہے تو اس وقت بھی پاکستان کا ایک مولوی جاپان میں گیا اور اس نے کہا کہ میرے باپ کا یہ مشن تھا کہ چاہے جہاں بھی جائیں۔ سمندر پار احمدی قادیانی جائیں تبلیغ کریں تو ہم (وہاں ) جا کر ان کی تبلیغ کو روکیں گے۔ اور 2013ء میں جب یہ مولوی جاپان گیا تھا تو وہاں جاکے اس نے جو تقریر کی اس نے یہ کہا تھا کہ یہ لوگ یعنی احمدی اپنے عقیدے اور مشن کے ساتھ اس قدر مخلص ہیں کہ وہ اپنی جان مال اور وقت قربان کرتے ہیں۔ اور پھر میرے بارے میں کہا کہ اس کے دورے اور جماعت کی سرگرمیوں کی وجہ سے اب میں ہر سال جاپان آیا کروں گا اور اپنے والد کا ختم نبوت کا مشن مکمل کرنے کے لئے ہر ممکن کوشش کروں گا۔ تو یہ ان کی کوششیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے شر اُن پر الٹائے۔

آجکل ویب سائٹ پر جو خبر چل رہی ہے وہ اس دفعہ کے ’’جنگ‘‘ (اخبار) کی نہیں ہے بلکہ گزشتہ 2013ء کے بعد کی ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ہم جاپانی حکومت سے مطالبہ کریں گے کہ جماعت احمدیہ کیونکہ غیر مسلم تنظیم ہے اس لئے اسے جاپان میں بَین (ban) کیا جائے۔ یہ تو ان کی عقل ہے۔

یہ تو ناگویا میں مسجد کے افتتاح کا قصہ تھا۔ پھر اسی طرح ٹوکیو میں بھی ایک فنکشن تھا۔ ریسپشن تھی جس میں 63جاپانی مہمان شامل ہوئے جس میں ایک بدھسٹ فرقہ کے چیف پریسٹ تھے۔ نی ہون یونیورسٹی کے چانسلر تھے۔ معروف شاعر، بزنس ایڈوائزر مسٹر مارٹن تھے۔ جاپان کے دوسرے بڑے اخبار اَساہی کے چیف رپورٹر تھے۔ مشہور سیاستدان کی ایک بیٹی جو خود بھی سیاستدان ہے، گاڑیاں بنانے والی ایک بڑی کمپنی کے صدر اور زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل ہوئے۔

نی ہون یونیورسٹی کے چانسلر مسٹر اُورَانَو ٹاٹ سُونو (Mr Urano Tatsunoo) صاحب کہتے ہیں کہ میں سوچتا رہا کہ آپ ہمیں کیا بتائیں گے۔ لیکن بیس منٹ کے اندر آپ نے گزشتہ تاریخ اور آئندہ آنے والے حالات کوجامع رنگ میں سمو دیا ہے۔ آپ نے حقائق اور حوالوں سے بات کی۔ جنگ کے نقصانات سے آگاہ کیا اور آئندہ جنگوں سے بچنے سے متنبہ کیا۔ انتہائی مختصر وقت میں اسلام کی تعلیم بھی بتا دی۔ میرے خطاب کے بارے میں یہ کہتے ہیں کہ یہ خطاب جس میں یہ سارا کچھ بیان ہوا انگریزی اور جاپانی زبان میں پورے جاپان میں پھیلانا چاہئے۔

پھر آساہی اخبار کے چیف رپورٹر نے کہا کہ اگر جماعت احمدیہ جاپان اپنی رضاکارانہ خدمات کے ذریعہ ہمارے سامنے نہ آتی تو ہم اسلام کا یہ خوبصورت چہرہ دیکھنے سے محروم رہ جاتے۔

پھر ایک دوست یوکو صاحب نے کہا کہ جماعت احمدیہ کے خلیفہ کے خطاب نے ہماری آنکھیں کھول دی ہیں۔ ہمیں وہ باتیں بتائیں جن کے متعلق ہم نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔ ہم تو امن اور سکون کے اس ماحول میں ان خطرات کا تصور بھی نہیں کر سکتے جن کا آپ نے ذکر کیا۔ جنگ کتنی تباہ کن ہوتی ہے اور ایٹمی حملے کتنے ہولناک ہیں ہمیں یہ آج پتا چلا ہے۔

پھر ایک صاحب نے کہا کہ دوسری جنگ عظیم میں ہیروشیماپر ایٹمی حملے کے بعد جماعت کے امام کی طرف سے مذمّتی خطاب ایک غیر معمولی بات ہے۔ اس سے جماعت احمدیہ کا امن کے قیام کے لئے کردار واضح ہوتا ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے یہ خطاب فرمایا تھا جس کو میں نے وہاں quote کر کے ان کو بتایا تھا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے جو فرمایا تھا اس کا ایک حصہ میں نے وہاں بیان کیاتھا جو یہ تھا کہ ’’یہ ہمارا مذہبی اور اخلاقی فرض ہے کہ ہم دنیا کے سامنے اعلان کر دیں کہ ہم اس قسم کی خونریزی کو جائز نہیں سمجھتے (جیسی کہ جاپان میں ایٹم مار کے کی گئی تھی) خواہ حکومتوں کو ہماراا علان برا لگے یا اچھا‘‘۔ (خطبات محمودجلد 26 صفحہ 315) یہ اس وقت حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے اعلان فرمایا تھا۔

پھر ایک بدھسٹ فرقہ کے چیف پریسٹ کہتے ہیں کہ میں بدھسٹ ہوں لیکن امام جماعت کی باتیں سن کر ہماری آنکھوں میں آنسو آ گئے ہیں۔ پھر انہوں نے ملاقات کے بعدنماز بھی پڑھی اور وہاں ہال میں بیٹھے رہے اور آبدیدہ رہے۔ 2013ء میں بھی یہ مجھے ملے تھے۔ اس وقت ایک دوست نے ان کو کہا تھا کہ آپ دعا کریں کہ خدا تعالیٰ آپ کو اپنا وجود دکھائے۔ کہنے لگے کہ میں تو خدا کا قائل ہی نہیں۔ میں دعا کیا کروں؟ لیکن آج یہی بدھسٹ پریسٹ جب دوبارہ مجھے ملے ہیں تو وہاں باقاعدہ نماز بھی پڑھی ہے اور آنکھوں میں آنسو بھی لئے بیٹھے رہے۔

ایک جاپانی دوست کہتے ہیں کہ میں نے آج یہ سیکھا ہے کہ جو لوگ اسلام کو داعش کے ساتھ جوڑتے ہیں وہ بالکل غلط ہے۔ آج جماعت کے خلیفہ نے ہمیں امن کا پیغام دیا ہے۔ آج کے دور میں دنیا امن کے خلاف چل رہی ہے اور میں امام جماعت احمدیہ کی باتوں سے اتفاق کرتا ہوں کہ ہمیں تبدیلی پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ آجکل جو ہم بم پھینکنے اور فضائی حملے کرنے کے لئے تحریکیں چلا رہے ہیں وہ سب بے بنیاد ہیں اور معصوموں کی جان لینے کا باعث بن رہے ہیں۔ پھر ایک جاپانی خاتون ہارا (Hara) صاحبہ نے کہا کہ میرا اسلام کے بارے میں تاثر تھا کہ اسلام نہایت خطرناک مذہب ہے۔ لیکن آج امام جماعت احمدیہ کا خطاب سن کر مجھے احساس ہوا ہے کہ اسلام تو دراصل سب سے زیادہ امن پسند مذہب ہے اور یہ بات میرے لئے بہت حیران کن ہے۔ جب جماعت کے خلیفہ نے جاپان پر ہونے والی ایٹمی حملے کی سترہویں anniversary کا ذکر کیا تو اس سے پتا چل رہا تھا کہ ان کو دنیا کے حالات سے بخوبی آگاہی ہے اور خلیفہ کی لوگوں کے لئے ہمدردی اور پیار قابل ستائش ہے۔

پھر ایک جاپانی دوست کہتے ہیں کہ آج کی تقریر سے یہ بات ثابت ہو گئی کہ اسلام احمدیت نہایت زبردست اور امن پسند مذہب ہے۔ اکثر جاپانی لوگ خیال کرتے ہیں کہ اسلام برا مذہب ہے لیکن میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ کے خلیفہ صرف امن ہیں۔ خلیفہ کا کہنا کہ آج سے ستّر برس پہلے جو غلطیاں ہوئی تھیں انہیں دہرانا نہیں چاہئے۔ جو بھی انہوں نے کہا بڑا سچ کہا اور حقیقت پر مبنی تھا۔

پھر ایک جاپانی دوست نے اپنے جذبات کا اظہار اس طرح کیا۔ کہتے ہیں کہ آج جماعت کے خلیفہ کا خطاب سن کر مجھے پتا لگا کہ ISIS اور اصل مسلمانوں میں کس قدر فرق ہے۔ میرے دل میں جو بھی خدشات یا پریشانیاں تھیں وہ سب دُور ہو گئیں اور جو انہوں نے کہا بالکل حق کہا کہ ہم تیسری عالمی جنگ کی طرف جا رہے ہیں اور خلیفہ نے ہمیں ہماری ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی کہ ہمیں اس جنگ کو روکنے کے لئے ہر ممکن کوشش کرنی چاہئے۔

پھر ایک خاتون کہتی ہیں کہ بہت سے لوگ اسلام کو برائی کے ساتھ جوڑتے ہیں لیکن آج مجھے پتا چلا کہ اسلام تو بالکل اس کے برعکس ہے۔ اسلام تو ایک ایسا مذہب ہے جو امن کو فروغ دیتا ہے۔ کہتی ہیں کہ میری عمر اتنی زیادہ نہیں اس لئے میں دوسری جنگ عظیم کے بارے میں تو زیادہ نہیں جانتی لیکن امام جماعت احمدیہ نے ہماری قوم کے ساتھ جس ہمدردی اور پیار کا اظہار کیا ہے اس کو سراہتی ہوں۔ پھر ایک جاپانی دوست کہتے ہیں کہ آج جماعت کے خلیفہ کے خطاب میں ہم سب کے لئے ایک نہایت اہم پیغام تھا اور پیغام یہ تھا کہ اس دَور میں جو اسلحہ اور بم ہیں وہ گزشتہ دَور کی نسبت کہیں زیادہ خطرناک اور مہلک ہیں۔ خلیفہ کا کہنا تھا کہ یہ وقت ایک دوسرے کو انگیخت کرنے کا نہیں بلکہ ایک دوسرے کے لئے محبت کے اظہار کا ہے اور یہ وقت یکجہتی پیدا کرنے کا ہے۔ خلیفہ نے بالخصوص ہم جاپانیوں کو ہماری ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی ہے کیونکہ ہمیں علم ہے کہ جنگ کی تباہ کاریاں کیا ہوتی ہیں۔ خلیفہ نے کہا کہ جاپان کو چاہئے کہ وہ اپنی تاریخ سامنے رکھتے ہوئے ہر قسم کے فساد کی روک تھام کے لئے سب سے آگے کھڑا ہو۔

پھر اسی طرح ایک دوست نے اپنے جذبات کا، تاثرات کا اظہار (اس طرح) کیا کہ آپ جاپانیوں کو امن کی تعلیم اور اسلام کی سچائی کی طرف بلانے کے لئے آئے ہیں۔ عام طور پر ہمیں مسلمانوں سے ملنے کا اتنا اتفاق نہیں ہوتا لیکن مَیں اس بات پر فخر محسوس کر رہا ہوں کہ آج میں مسلمانوں کے ایک لیڈر سے ملا ہوں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم نہیں جانتے کہ جنگ کب ہو گی۔ میں سمجھتا تھاکہ جنگ ہو کر رہے گی۔ لیکن اب میرا خیال ہے کہ ہم اس جنگ کو روک سکتے ہیں لیکن اس کے لئے ہمیں خلیفہ کی باتوں پر عمل کرنا پڑے گا۔ پھر یہ کہتے ہیں کہ یہ کہنے میں ذرا بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں ہو رہی کہ اسلام کی سچی تعلیم جیسے خلیفہ پیش کر رہے ہیں یہ ہمارے ملک کے لئے بہتر ہے۔

ایک جرنلسٹ نے کہا کہ یہ پیغام دراصل امن کا پیغام ہے۔ آپ نے امن قائم کرنے اور جنگ روکنے کے لئے جاپان کو اپنا کردار ادا کرنے کی طرف توجہ دلائی ہے۔ آپ بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ یہی وقت کی ضرورت ہے۔ میں اس بات کی بہت قدر کرتا ہوں کہ آپ ہمارا درد محسوس کرتے ہیں جو ایٹمی حملوں سے ہم نے سہا۔

ایک جاپانی مسلمان دوست اسماعیل ہیرانو (Hirano) صاحب ہیں۔ کہتے ہیں کہ میں مسلمان ہوں لیکن کسی مسلمان عالم کے منہ سے ایسی بات نہیں سنی۔ تاریخ ہو یا جنگ کی تباہ کاریاں آپ نے سب کچھ بیان کر دیا۔ میں قرآن پڑھتا ہوں لیکن اس کے باوجود میں وہ ساری باتیں نہیں جانتا جو آپ نے بیان کیں۔ پھر کہتا ہے کہ مجھے بہت خوشی ہوئی کہ خلیفہ نے قرآن کریم کے حوالہ جات سے اسلامی تعلیم بیان کی اور یہ حوالہ جات ایسے ہی نہیں بلکہ حقائق پر مبنی تھے۔ کوئی یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ خلیفہ اسلام کی نمائندگی نہیں کر رہے بلکہ خلیفہ جماعت احمدیہ نے جو بھی بیان کیا وہ قرآن کریم کے حوالہ جات کے مطابق بیان کیا اور بتایا کہ اصل اسلام یہ ہے۔ کہتے ہیں کہ میں نے پہلے کبھی اپنی زندگی میں اسلام کی اس قدر خوبصورت تفصیل نہیں جانی تھی۔ کہتے ہیں کہ پہلے کبھی تیسری عالمی جنگ کے بارے میں نہیں سوچا تھا لیکن اب مجھے احساس ہوا ہے کہ تیسری عالمی جنگ دنیا کے لئے واقعی ایک خطرہ ہے اور ایک مسلمان ہونے کے ناطے میں خلیفۃ المسیح کا شکرگزار ہوں۔ گاڑیاں بنانے والی ایک بڑی کمپنی کے صدر تھے۔ کہتے ہیں کہ آپ کی ساری باتیں ساری دنیا کے لئے راہ عمل ہیں۔ پھر ایک دوست جو بزنس ایڈوائزر ہیں اور شاعر بھی ہیں۔ انہوں نے امن اور محبت کے بارے میں ایک کتاب لکھی تھی۔ تو مجھے بھی وہ ملے تھے۔ یہ کہنے لگے کہ جو کچھ میں نے کتاب میں لکھا تھا آپ نے آج اس پر مہر لگا دی ہے۔

اسی طرح بہت سارے لوگ ہیں جنہوں نے اپنے تأثرات کا اظہار کیا۔ تو ایک طرف تو ہمارا پیغام سننے والے یہ اظہار کرتے ہیں کہ اسلام حقیقت میں امن کا مذہب ہے اور دوسری طرف ہمارے یہاں کے بعض مغربی سیاستدان ہیں جو اس بات کا اظہار کر رہے ہیں کہ اسلام کی تعلیم میں کوئی نہ کوئی شدت پسندی کی بات ہے جو مسلمان اسی وجہ سے شدت پسند ہیں۔ یہ نہیں سوچتے کہ کتنے فیصد مسلمان ہیں جو ان شدت پسندوں کا ساتھ دے رہے ہیں۔ اس قسم کی باتیں کر کے کہ اسلام کی تعلیم میں شدت پسندی ہے۔ یہ سیاستدان چاہے یہاں یوکے کے ہوں یا کہیں اور کے یہ لوگ امن پسند مسلمانوں کو بھی اپنے خلاف کر لیں گے اور پھر فساد پیدا ہو گا۔ اس لئے مغربی سیاستدانوں کو جن کے نظریات اسلام کے متعلق یہ ہیں کہ اس میں سختی ہے اور شدت پسندی ہے ان کو غور کرنا چاہئے اور بلا سوچے سمجھے بیانات جاری نہیں کرنے چاہئیں۔ اور وہ احمدی جن کے ان لوگوں سے تعلقات ہیں انہیں ان کو سمجھانا چاہئے کہ اس وقت دنیا کے لئے اور دنیا کے امن کے لئے حکمت اور دانائی سے بات کرنا ضروری ہے۔ اس لئے ایسے بیانات نہ دیں جس سے دنیا میں فساد پھیلے۔ اللہ کرے کہ ان لوگوں کو عقل بھی آ جائے۔

اللہ تعالیٰ کے فضل سے مسجد کے افتتاح اور دورے کے، جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے، بڑے مثبت نتائج ظاہر ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ جاپان کی جماعت کو بھی توفیق دے کہ وہ اس مسجد کی وجہ سے جو وسیع تعارف ہوا ہے اس کو مزید پھیلاتے چلے جائیں اور جاپانیوں کو جماعت احمدیہ سے جو توقعات ہیں وہ ان پر پورا اترنے کی کوشش بھی کریں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خواہش کے مطابق وہاں احمدیت کا پیغام بھی جلد سے جلد پھیلانے کی کوشش کریں۔ مولویوں کے جو کینے اور بغض ہیں جیسا کہ میں نے بیان بھی کیا ان کے اظہار پاکستان میں تو وقتاً فوقتاً ہوتے رہتے ہیں۔ جماعت کی ترقی دیکھ کر ان کی حسد کی آگ بھڑکتی رہتی ہے۔

یہاں یہ بھی بیان کرنا چاہتا ہوں کہ گزشتہ دنوں پاکستان میں ایک ظالمانہ اور بڑا بہیمانہ اظہار ان مولویوں کی طرف سے اور شدت پسندوں کی طرف سے جہلم میں بھی ہوا جہاں احمدی مالکان جو چِپ بورڈ فیکٹری کے تھے ان کی فیکٹری کو آگ لگا دی گئی اور کوشش ان کی یہ تھی کہ جو احمدی ورکر ہیں اور مالکان ہیں ان کو بھی اندر زندہ جلایا جائے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس میں یہ کامیاب نہیں ہو سکے لیکن بہرحال مالی نقصان تو ہوا۔ ان لوگوں کا خیال ہے کہ اس طرح یہ احمدیت کو ختم کر سکتے ہیں۔ احمدیوں کے جذبہ ایمانی کو چھین سکتے ہیں۔ ان کو احمدیت سے دور کر سکتے ہیں۔ ان آگیں لگانے والوں کے بارے میں تو اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں بتا دیا ہے کہ اگر یہ لوگ توبہ نہیں کریں گے تو ان کے لئے جہنم کی آگ اور آگ کا عذاب مقدر ہے۔

جہاں تک احمدیوں کا سوال ہے تو ان کڑے حالات میں جب ایسے سخت حالات ہوں ان کا ایمان کم ہونے یا ختم ہونے کی بجائے بڑھتا ہے۔ 74ء میں بھی ان لوگوں نے آگیں لگائیں اور احمدیوں کو ابتلاء میں ڈالنے کی کوشش کی لیکن آگیں لگانے والوں اور احمدیوں کو ابتلاء میں ڈالنے والوں کی کوئی بھی خواہشات پوری نہیں ہو سکیں۔ ہم نے دیکھا کہ جو ان کے دلوں میں تھا وہ ان کے دلوں کی حسرتیں رہ گئیں۔ احمدیوں کو کشکول پکڑوانے والوں کو ہم نے بھیک مانگتے دیکھا۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کا سلوک جماعت سے ہوتا ہے۔ پس یہ ابتلا ہمارے ایمانوں کو ہلانے والے نہیں بلکہ مضبوط کرنے والے ہیں۔ مالی نقصان اگر ہوا تو خدا تعالیٰ پورا کر دیتا ہے۔ یہ تو کوئی ایسی چیز نہیں۔ بیشمار احمدی ہیں جو ان ابتلاؤں میں گزرے اور پہلے سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ نے ان کو نوازا۔ اگر ان مالکان کا نقصان ہوا تو یہ بھی انشاء اللہ تعالیٰ پورا ہو جائے گا۔ یہ فیکٹری جو چِپ بورڈ فیکٹری تھی یہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ کے بیٹے صاحبزادہ مرزا منیر احمد صاحب کی تھی اور ان کی وفات کے بعد ان کی اولاد اس کی مالک تھی۔ مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ جس طرح ایسے نقصانات پر ایک مومن کا اظہار ہونا چاہئے وہ اظہار ان لوگوں نے کیا اور شکر کے کلمات ہی ان کے منہ سے نکلتے رہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے احمدی کارکنان کی جان مال کو بھی محفوظ رکھا اور انہیں بھی بچایا اور عورتوں اور بچوں کو بھی بچایا۔ ان کی عزتیں بھی محفوظ رکھیں۔ مرزا نصیر احمد طارق جو مرزا منیر احمد صاحب کے بڑے بیٹے ہیں اس فیکٹری کے سربراہ تھے۔ وہیں اس کے اندر ہی رہتے تھے۔ اسی طرح ان کا بیٹا بھی جو فیکٹری میں کام کرتا ہے اس کا گھر بھی فیکٹری کے اندر تھا۔ بیٹا تو حملہ آوروں کے آنے سے ایک گھنٹہ پہلے اپنی بیوی کے علاج کے سلسلے میں لاہور کے لئے نکل گیا تھا اس لئے وہ وہاں موجودنہیں تھا لیکن مرزا نصیر احمد صاحب اور ان کی بیوی گھر پر تھے۔ جب بلوائیوں نے گھیراؤ اور جلاؤ کا سلسلہ شروع کیا تو ان کے گھر پر بھی حملہ کر دیا اور گھروں کے دروازے کھڑکیاں توڑ کر اندر آ گئے۔ ارد گرد آگ لگا دی لیکن بہرحال اللہ تعالیٰ نے بچانا تھا۔ اس موقع پر اس وقت پولیس پہنچ گئی جس نے ان حملہ آوروں کو تو نہیں روکا لیکن بہرحال ان کو کسی طریقے سے پچھلے دروازوں سے گھر سے نکال دیا اور پھر فیکٹری کی چاردیواری سے باہر نکال کر جنگل میں کافی دیر یہ لوگ چلتے رہے اور ایک جگہ پہنچ کر پھر سواری ملی جہاں سے یہ محفوظ جگہ پہنچے۔ اسی طرح بہت سارے احمدی ورکر بھی جو تھے وہ بھی ادھر ادھر جنگل میں چھپتے رہے۔ ان کو بھی کسی طرح ڈھونڈ کر بعد میں خدام نے محفوظ مقامات پر پہنچایا۔ ان کے گیٹ کے ایک سیکیورٹی انچارج تھے۔ قمر احمد ان کا نام ہے۔ ان کو پولیس نے گرفتار بھی کر لیا۔ وہ جیل میں ہیں۔ ان پر دفعہ بھی بڑی سخت لگائی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کی رہائی کا بھی سامان فرمائے اور منصفوں کو بھی توفیق دے کہ وہ انصاف کرنے والے ہوں۔ اسی طرح مرزا نصیر احمد کو بھی پولیس نے ایک طرح سے house arrest کیا ہوا تھا اور بعد میں مچلکہ بھروا کر کہ کہیں نہیں جاؤں گا اور جب پولیس آئے گی تو میں آجاؤں گا۔ پھر پولیس کا پہرہ ان سے ہٹایا گیا۔ گویا کہ حملہ آوروں کو تو کھلی چھٹی دی گئی اور جن پر حملہ ہوا وہ سارے مجرم بن گئے۔ مرزا نصیر احمد صاحب امیر ضلع جہلم بھی ہیں۔ جس طرح حملہ ہوا اس سے لگتا ہے کہ یہ پہلے پلان تھا کیونکہ امیر ہونے کی حیثیت سے بعض ایسے exposure بھی ہوتے ہیں، کام کروانے ہوتے ہیں جو انہوں نے کروائے اور یہ سمجھتے تھے کہ ہم امیر کو پکڑ لیں تو باقی سب احمدی خود بخود شاید دوڑ جائیں۔ بہرحال یہ ان کا پلان پہلے سے تھا۔ فیکٹری کے اندر تو کسی کو پتا نہیں چلا کہ کیا ہو رہا ہے اور ان کو تو وہاں سے جان بچا کر بھاگنا اور نکلنا بھی مشکل ہو گیا لیکن حملہ آوروں نے بلڈوزروں کا انتظام بھی کر لیا۔ سینکڑوں بلکہ ہزاروں آدمی اکٹھے کر لئے۔ آگ لگانے کا سامان بھی لے آئے اور کافی دیر تک وہاں جمع ہوتے رہے۔ لیکن پولیس نہیں آئی اور پولیس آئی بھی یا قانون نافذ کرنے والے دوسرے ادارے بھی آئے تو بہت دیر سے جب آگ لگ چکی تھی۔ بہرحال یہ بھی ان کی مہربانی ہے کہ انہوں نے ایک دو لوگوں کو بشمول مالک کے پولیس نے نکلوایا اور بلوائیوں سے بچا کر لے گئے۔

مرزا نصیر احمد صاحب کی بہو نے مجھے لکھا ہے اور ان کی یہ بہوبھی وہیں فیکٹری میں رہتی تھیں۔ کہتی ہیں کہ قمر صاحب جن پر یہ مقدمہ چلایا گیا ہے اور توہین قرآن کی دفعہ لگائی گئی ہے مَیں ان کی اہلیہ کو ملنے گئی تو حیران رہ گئی کہ قمر صاحب کی اہلیہ اس طرح مسکرا کر مل رہی تھیں جیسے کچھ ہوا ہی نہیں حالانکہ ان کے خاوند پر جیسا کہ میں نے کہا بڑی سخت دفعہ لگی ہوئی ہے۔ بہرحال اللہ تعالیٰ ان کے حوصلہ اور صبر کو بڑھائے اور دشمنوں کو بھی کیفر کردار تک پہنچائے۔

مرزا نصیر احمد صاحب کی اہلیہ اور بہو اور ان کے بچوں نے بھی جو صبر اور شکر کا اظہار کیا ہے وہ بھی قابل قدر ہے۔ مجھے فکر تھی کہ ایسے حالات میں ان میں سے کسی کے منہ سے کوئی ناشکری کا کلمہ نہ نکل جائے لیکن ان کی بہو کے خط سے، بیٹے کے خط سے اور مرزا نصیر احمد صاحب سے میں نے خود بھی بات کی اور اسی طرح ان کے مختلف قریبیوں اور عزیزوں کے خطوط جو مجھے ملے ہیں ان سے اس بات کا اظہار ہوتا ہے کہ ان لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے حضور کامل رضا کا اظہار کیا ہے۔ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے خونی رشتہ ہونے کا بھی اس صبر اور شکر کے ادا کرنے سے نمونہ دکھایا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کو جزا دے۔ مال تو آنی جانی چیز ہے جیسا کہ مَیں نے کہا جس خدا نے پہلے دیا تھا وہ اب بھی دے گا اور انشاء اللہ بڑھ کے دے سکتا ہے اور بڑھ کے دے گا۔

اللہ تعالیٰ جھوٹے مقدمات سے بھی ان سب کو بری کرے اور خاص طور پر قمر صاحب کو جو سیکیورٹی گیٹ کے انچارج تھے جن پر توہین قرآن کی جیسا کہ میں نے کہا بڑی سخت دفعہ لگائی گئی ہے۔ حالانکہ سب سے زیادہ قرآن کریم کی عزت و تکریم کا اگر کسی کو احساس ہے تو وہ احمدی کو ہے۔

بہرحال ایک لحاظ سے خوش آئند بات بھی ہے کہ اس دفعہ پاکستان میں یہ تبدیلی دیکھنے میں آئی ہے کہ بعض غیر از جماعت نے بھی اس ظلم کے خلاف آواز اٹھائی ہے اور ایک ٹی وی پروگرام ہوا جس میں وہاں کے ڈی پی او اور سیاستدانوں نے اس بات کا اظہار کیا ہے کہ وہ انصاف کریں گے اور مجرموں کو پکڑیں گے۔ پروگرام کرنے والوں نے بھی جو کمپیئر تھا یا جو پروگرام کنڈکٹ (conduct) کر رہا تھا اس نے بھی اس ظلم کے خلاف کھل کر بات کی ہے۔

اسی طرح اس فیکٹری کو آگ لگانے کے بعد انہوں نے ہماری دو چھوٹی جماعتیں کالا گوجراں اور محمودآباد ہیں وہاں بھی مسجدوں پر حملہ کیا۔ ایک مسجد تو سِیل کر دی گئی ہے۔ پہلے مولویوں نے مسجد پہ حملہ کیا پھر مسجد کی صفیں اور سامان باہر نکال کے اس کو آگ لگائی اور پھر اس کے بعد دھویا اور جا کر وہاں نماز پڑھی۔ لیکن بہرحال بعد میں پولیس نے یا ایلیٹ فورس نے ان کو باہر نکال دیا اور وہاں تالا لگا دیا۔ فی الحال ان کے قبضہ میں نہیں ہے۔ لیکن بہرحال یہ دو جماعتیں جو ہیں یہ بھی کافی خطرے میں ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس علاقے کے سب احمدیوں کو وہاں محفوظ رکھے۔ اللہ کرے کہ پاکستان میں بھی انصاف قائم ہو اور ان مزدوروں کو بھی جو وہاں فیکٹری میں کام کرتے تھے جن کا روزگار اب ختم ہو گیا ہے اللہ تعالیٰ بہتر روزگار کے سامان مہیا فرمائے۔


  • خطبہ کا مکمل متن
  • پاؤر پوائنٹ PowerPoint
  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 27؍ نومبر 2015ء شہ سرخیاں

    گزشتہ دنوں مَیں جاپان کی پہلی مسجد کے افتتاح کے لئے وہاں گیا تھا۔ اگر ظاہری حالات کو دیکھا جائے تو یہ بہت مشکل امر تھا کہ وہاں مسجد بن سکے۔ ہر کام کے لئے اللہ تعالیٰ نے وقت رکھا ہوا ہے اور جب وہ وقت آتا ہے تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہ کام ہو جاتے ہیں۔ جب اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ یہ مسجد بنے تو تمام روکوں کے باوجود مسجد بنانے کی اللہ تعالیٰ نے ہمیں توفیق دی اور اسلام کا پیغام اس ملک میں پہنچانے کا پہلا مرکز قائم ہو گیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ صرف ایک مرکز یا مسجد تمام ملک میں اسلام کی تعلیم پھیلانے کے مقصد کو پورا نہیں کر سکتے لیکن یہ بات یقینی ہے کہ اس کے ساتھ جاپان میں اسلام کا حقیقی پیغام پہنچانے کی بنیاد رکھ دی گئی ہے۔

    حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جس طرح باقی دنیا کے ممالک میں اسلام کا حقیقی پیغام پہنچانے کی تڑپ کا اظہار فرمایا۔ الحمد للہ کہ آج قرآن کریم کے ترجمہ سمیت ہزاروں کی تعداد میں جماعت کی طرف سے جاپانیوں کے لئے ان کی زبان میں لٹریچر تیار ہو رہا ہے اور اب تو اس مسجد کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خواہش پورا کرنے کے لئے ایسے دروازے کھولے ہیں کہ کروڑوں تک اسلام کا پیغام پہنچ رہا ہے۔

    اللہ تعالیٰ کے فضل سے میڈیا کے ذریعہ بھی مسجد کے افتتاح کا کافی چرچا ہوا اور وسیع پیمانے پر جاپانیوں تک اسلام کا پیغام پہنچا۔ اس مسجد کے افتتاح کے موقع پر پانچ ٹی وی چینلز اور مختلف اخبارات کے نمائندے اور جرنلسٹ آئے تھے۔

    اخبارات کے ذریعہ بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑی اشاعت ہوئی۔

    ٹی وی چینلز کے ذریعہ سے اور اخبارات کے ذریعہ سے اور انٹرنیٹ اور ویب سائٹس کے ذریعہ سے اس مسجد کے افتتاح کے موقع پر جو خبریں شائع ہوئی ہیں (ان سے) مجموعی طور پر تقریباً پانچ کروڑ بیس لاکھ افراد تک اسلام کا پیغام پہنچا ہے۔ تو یہ اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کے نظارے ہیں جو مسجد کے ذریعہ اسلام کا حقیقی پیغام پہنچانے کی وجہ سے ہمیں نظر آئے۔

    مسجد کے افتتاح اور استقبالیہ تقریبات میں شامل ہونے والے غیر مسلم جاپانی معزز مہمانوں کے اسلام احمدیت کے متعلق مثبت تأثرات اور ان کے خیالات میں نمایاں تبدیلی کے اظہار کا ایمان افروز بیان۔

    ایک طرف تو ہمارا پیغام سننے والے یہ اظہار کرتے ہیں کہ اسلام حقیقت میں امن کا مذہب ہے اور دوسری طرف ہمارے یہاں کے بعض مغربی سیاستدان جو ہیں اس بات کا اظہار کر رہے ہیں کہ اسلام کی تعلیم میں کوئی نہ کوئی شدت پسندی کی بات ہے جو مسلمان اسی وجہ سے شدت پسند ہیں۔ یہ نہیں سوچتے کہ کتنے فیصد مسلمان ہیں جو ان شدت پسندوں کا ساتھ دے رہے ہیں۔ اس قسم کی باتیں کر کے کہ اسلام کی تعلیم میں شدت پسندی ہے۔ یہ سیاستدان چاہے یہاں یوکے کے ہوں یا کہیں اور کے یہ لوگ امن پسند مسلمانوں کو بھی اپنے خلاف کر لیں گے اور پھر فساد پیدا ہو گا۔ اس لئے مغربی سیاستدانوں کو جن کے نظریات اسلام کے متعلق یہ ہیں کہ اس میں سختی ہے اور شدت پسندی ہے ان کو غور کرنا چاہئے اور بلا سوچے سمجھے بیانات جاری نہیں کرنے چاہئیں۔ اور وہ احمدی جن کے ان لوگوں سے تعلقات ہیں انہیں ان کو سمجھانا چاہئے کہ اس وقت دنیا کے لئے اور دنیا کے امن کے لئے حکمت اور دانائی سے بات کرنا ضروری ہے اس لئے ایسے بیانات نہ دیں جس سے دنیا میں فساد پھیلے۔

    اللہ تعالیٰ کے فضل سے مسجد کے افتتاح اور دورے کے بڑے مثبت نتائج ظاہر ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ جاپان کی جماعت کو بھی توفیق دے کہ اس مسجد کی وجہ سے جو وسیع تعارف ہوا ہے وہ اس کو مزید پھیلاتے چلے جائیں اور جاپانیوں کو جماعت احمدیہ سے جو توقعات ہیں وہ ان پر پورا اترنے کی کوشش بھی کریں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خواہش کے مطابق وہاں احمدیت کا پیغام بھی جلد سے جلد پھیلانے کی کوشش کریں۔ مولویوں کے جو کینے اور بغض ہیں ان کے اظہار تو پاکستان میں وقتاً فوقتاً ہوتے رہتے ہیں۔ جماعت کی ترقی دیکھ کر ان کی حسد کی آگ بھڑکتی رہتی ہے۔ گزشتہ دنوں پاکستان میں ایک ظالمانہ اور بڑا بہیمانہ اظہار ان مولویوں کی طرف سے اور شدت پسندوں کی طرف سے جہلم میں بھی ہوا جہاں احمدی مالکان جو چِپ بورڈ فیکٹری کے تھے ان کی فیکٹری کو آگ لگا دی گئی اور کوشش ان کی یہ تھی کہ جو احمدی ورکر ہیں اور مالکان ہیں ان کو بھی اندر زندہ جلایا جائے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس میں یہ کامیاب نہیں ہو سکے لیکن بہرحال مالی نقصان تو ہوا۔

    یہ ابتلا ہمارے ایمانوں کو ہلانے والے نہیں بلکہ مضبوط کرنے والے ہیں۔ مالی نقصان اگر ہوا تو خدا تعالیٰ پورا کر دیتا ہے یہ تو ایسی چیز کوئی نہیں۔ بیشمار احمدی ہیں جو ان ابتلاؤں میں گزرے اور پہلے سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ نے ان کو نوازا۔ اگر ان مالکان کا نقصان ہوا تو یہ بھی انشاء اللہ تعالیٰ پورا ہو جائے گا۔

    چِپ بورڈ فیکٹری جہلم کو آگ لگانے کے واقعہ اور دو مساجد پر حملے کی تفصیلات کا ذکر۔ احمدیوں کے ثبات قدم کا تذکرہ۔ اللہ تعالیٰ ان کے حوصلہ اور صبر کو بڑھائے اور دشمنوں کو بھی کیفر کردار تک پہنچائے۔ اللہ تعالیٰ جھوٹے مقدمات سے بھی ان سب کو بری کرے۔

    فرمودہ مورخہ 27؍نومبر 2015ء بمطابق 27؍نبوت 1394 ہجری شمسی،  بمقام مسجد بیت الفتوح، مورڈن

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور