حضرت ابوایوب انصاریؓ

خطبہ جمعہ 20؍ نومبر 2020ء

 حضرت ابوایوب انصاریؓ کا نام حضرت خالدؓ اور ان کے والد کا نام زید بن کُلَیب تھا۔ (اسد الغابہ جلد 6 صفحہ 22 حضرت اَبُوْ اَیُّوْب الاَنْصَارِی دارالکتب العلمیۃ بیروت 2003ء)

آپؓ اپنے نام اور کنیت دونوں سے مشہور ہیں۔ حضرت ابوایوب انصاریؓ کا تعلق انصار کے قبیلہ خزرج کی شاخ بنو نجار سے تھا۔ حضرت ابو ایوب انصاری کو عقبہ ثانیہ کے موقعے پر ستّر انصار کے ہمراہ بیعت کرنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ حضرت ابو ایوب انصاریؓ کی والدہ کا نام ہِند بنت سعید تھا جبکہ ایک قول کے مطابق ان کا نام زَہْرا ء بنت سَعد تھا۔ حضرت ابوایوب انصاری کی بیوی کا نام حضرت ام حسن بنت زید تھا۔ ان کے بطن سے ایک لڑکا عبدالرحمٰن پیدا ہوا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوایوب انصاریؓ اور حضرت مُصْعَب بن عمیرؓ کے درمیان مؤاخات قائم فرمائی۔ (الاصابہ جلد 2 صفحہ 200 حضرت خَالِد بِنْ زَیْد دار الکتب العلمیۃ بیروت 1995ء) (الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 368-369 حضرت اَ بُوْ اَیُّوْب، دار الکتب العلمیۃ بیروت لبنان 1990ء)

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کر کے مدینہ تشریف لائے تو آپؐ مسجدنبوی اور اپنے گھروں کی تعمیر تک حضرت ابو ایوب انصاریؓ کے گھر میں قیام فرما رہے۔ (اسد الغابہ جلد 6 صفحہ 23 حضرت ابو ایوب دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان 2003ء)

سیرت خاتم النبیینؐ میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قیام کے واقعے کو یوں بیان کیا ہے کہ ’’بنونجار میں پہنچ کرپھر یہ سوال درپیش تھا کہ آپؐ کس شخص کے ہاں مہمان ٹھہریں۔ قبیلہ کا ہر شخص خواہشمند تھا کہ اسی کو یہ فخر حاصل ہو، بلکہ بعض لوگ تو جوش محبت میں آپؐ کی اونٹنی کی باگوں پرہاتھ ڈال دیتے تھے۔ اس حالت کو دیکھ کر آپؐ نے فرمایا۔ ’’میری اونٹنی کوچھوڑ دو کہ یہ اس وقت مامور ہے۔‘‘ یعنی جہاں خدا کا منشا ہو گا وہاں یہ خود بیٹھ جائے گی اور یہ کہتے ہوئے آپؐ نے بھی اس کی باگیں ڈھیلی چھوڑ دیں۔ اونٹنی آگے بڑھی اور تھوڑی دور خراماں خراماں چلتی ہوئی جب اس جگہ میں پہنچی جہاں بعد میں مسجدنبویؐ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حجرات تعمیرہوئے اور جو اس وقت مدینہ کے دو بچوں کی افتادہ زمین تھی تو بیٹھ گئی، لیکن فوراً ہی پھر اٹھی اور آگے کی طرف چلنے لگی۔ مگر چند قدم چل کر پھر لوٹ آئی اور اسی جگہ جہاں پہلے بیٹھی تھی دوبارہ بیٹھ گئی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ھٰذَا اِنْ شَاءَ اللّٰہُ الْمَنْزِلُ یعنی معلوم ہوتا ہے کہ خدا کی منشا میں یہی ہماری مقام گاہ ہے اور پھر خدا سے دعا مانگتے ہوئے اونٹنی سے نیچے اتر آئے اور دریافت فرمایا کہ اپنے آدمیوں میں سے یہاں سے قریب ترین گھر کس کا ہے۔‘‘ یعنی مسلمانوں میں سے۔ ’’ابوایوب انصاری فوراً لپک کر آگے ہو گئے اور عرض کیا۔ یارسول اللہؐ ! میرا گھر ہے اور یہ میرا دروازہ ہے۔ تشریف لے چلیے۔ آپؐ نے فرمایا: اچھا جاؤ اور ہمارے لیے کوئی ٹھہرنے کی جگہ تیار کرو۔

ابوایوب انصاریؓ فوراً اپنے مکان کو ٹھیک ٹھاک کر کے آ گئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ساتھ اندر تشریف لے گئے۔ یہ مکان دومنزلہ تھا۔ ابوایوبؓ چاہتے تھے کہ آپؐ اوپر کی منزل میں قیام فرمائیں لیکن آپؐ نے اس خیال سے کہ ملاقات کے لیے آنے جانے والے لوگوں کو آسانی رہے نچلی منزل کو پسند فرمایا اور وہاں فروکش ہو گئے۔ رات ہوئی تو ابوایوب اور ان کی بیوی کوساری رات اس خیال سے نیندنہیں آئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نیچے ہیں اور ہم آپؐ کے اوپر ہیں اور مزید اتفاق یہ ہو گیا کہ رات کو چھت پر ایک پانی کا برتن ٹوٹ گیا اور ابوایوب نے اس ڈر سے کہ پانی کاکوئی قطرہ نیچے نہ ٹپک جاوے جلدی سے اپنا لحاف پانی پر گرا کر اسے خشک کر دیا۔ صبح ہوئی تو وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور بکمال اصرار آپؐ کی خدمت میں اوپر کی منزل میں تشریف لے چلنے کی درخواست کی۔ آپؐ نے پہلے توتامل کیا، لیکن بالآخر ابوایوب کے اصرار کودیکھ کررضامند ہو گئے۔ اس مکان میں آپؐ نے سات ماہ تک یاابن اسحاق کی روایت کی رو سے ماہ صفر سن 2ہجری تک قیام فرمایا۔ گویا جب تک مسجدنبوی اور اس کے ساتھ والے حجرے تیار نہیں ہو گئے آپؐ اسی جگہ‘‘ یعنی حضرت ابو ایوب انصاری کے مقام میں مکان میں ہی ’’مقیم رہے۔ ابوایوب آپؐ کی خدمت میں کھانابھجواتے تھے اور پھر جو کھانا بچ کر آتا تھا وہ خود کھاتے تھے اور محبت واخلاص کی وجہ سے اسی جگہ انگلیاں ڈالتے تھے جہاں سے آپؐ نے کھایا ہوتا تھا۔ دوسرے اصحاب بھی عموماً آپؐ کی خدمت میں کھانا بھیجا کرتے تھے۔‘‘ (سیرت خاتم النبیینؓ صفحہ 267، 268)

اس واقعےکو حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی بیان فرمایا ہے۔ بعض فقرے، بعض باتیں نئی ہوتی ہیں اس لیے میں یہ بھی سارا پڑھ دیتا ہوں۔ عموماً تو وہی واقعہ بیان ہواہے لیکن حضرت مصلح موعودؓ کا اپنا ایک انداز ہے۔ آپ لکھتے ہیں کہ

’’جب آپؐ مدینہ میں داخل ہوئے ہر شخص کی یہ خواہش تھی کہ آپؐ اس کے گھر میں ٹھہریں۔ جس جس گلی میں سے آپؐ کی اونٹنی گزری تھی اس گلی کے مختلف خاندان اپنے گھروں کے آگے کھڑے ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا استقبال کرتے تھے اور کہتے تھے یا رسول اللہؐ ! یہ ہمارا گھر ہے اور یہ ہمارا مال ہے اور یہ ہماری جانیں ہیں جو آپ کی خدمت کے لیے حاضر ہیں۔ یا رسول اللہؐ ! اور ہم آپ کی حفاظت کرنے کے قابل ہیں۔ آپ ہمارے ہی پاس ٹھہریں۔ بعض لوگ جوش میں آگے بڑھتے اور آپ کی اونٹنی کی باگ پکڑ لیتے تا کہ آپ کو اپنے گھر میں اتروا لیں مگر آپؐ ہر ایک شخص کو یہی جواب دیتے تھے کہ میری اونٹنی کو چھوڑ دو یہ آج خدا تعالیٰ کی طرف سے مامور ہے۔ یہ وہیں کھڑی ہو گی جہاں خداتعالیٰ کا منشا ہو گا۔ آخر مدینہ کے ایک سرے پر بنو نجار کے یتیموں کی ایک زمین کے پاس جا کر اونٹنی ٹھہر گئی۔ آپؐ نے فرمایا خدا تعالیٰ کا یہی منشا معلوم ہوتا ہے کہ ہم یہاں ٹھہریں۔ پھر فرمایا یہ زمین کس کی ہے؟ زمین کچھ یتیموں کی تھی۔ ان کا ولی آگے بڑھا اور اس نے کہا یا رسول اللہ! یہ فلاں فلاں یتیم کی زمین ہے اور آپ کی خدمت کے لیے حاضر ہے۔ آپؐ نے فرمایا: ہم کسی کا مال مفت نہیں لے سکتے۔ آخر اس کی قیمت مقرر کی گئی اور آپؐ نے اس جگہ پر مسجد اور اپنے مکانات بنانے کا فیصلہ کیا۔ اس کے بعد آپؐ نے فرمایا: سب سے قریب گھر کس کا ہے؟ ابوایوب انصاری آگے بڑھے اور کہا یا رسول اللہ! میرا گھر سب سے قریب ہے اور آپ کی خدمت کے لیے حاضر ہے۔ آپؐ نے فرمایا: گھر جاؤ اور ہمارے لیے کوئی کمرہ تیار کرو۔ ابوایوبؓ کا مکان دو منزلہ تھا۔ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اوپر کی منزل تجویز کی مگر آپؐ نے اس خیال سے کہ ملنے والوں کو تکلیف ہو گی نچلی منزل پسند فرمائی۔‘‘ حضرت مصلح موعودؓ لکھتے ہیں کہ انصار کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے جو شدید محبت پیدا ہو گئی تھی اس کا مظاہرہ اس موقع پر بھی ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصرار پر حضرت ابوایوبؓ مان تو گئے کہ آپؐ نچلی منزل میں ٹھہریں لیکن ساری رات میاں بیوی اس خیال سے جاگتے رہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے نیچے سو رہے ہیں پھر وہ کس طرح اس بے ادبی کے مرتکب ہو سکتے ہیں کہ وہ چھت کے اوپر سوئیں۔‘‘ یہ محبت کا ایک اظہار تھا۔ ’’رات کو ایک برتن پانی کا گر گیا تو اس خیال سے کہ چھت کے نیچے پانی نہ ٹپک پڑے حضرت ابوایوبؓ نے دوڑ کر اپنا لحاف اس پانی پر ڈال کر پانی کی رطوبت کو خشک کیا۔ صبح کے وقت پھر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سارے حالات عرض کیے۔ جس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اوپر جانا منظور فرما لیا۔ حضرت ابوایوبؓ روزانہ کھانا تیار کرتے اور آپ کے پاس بھجواتے۔ پھر جو آپؐ کا بچا ہوا کھانا آتا وہ سارا گھر کھاتا۔ کچھ دنوں کے بعد اصرار کے ساتھ باقی انصار نے بھی مہمان نوازی میں اپنا حصہ طلب کیا اور جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے گھر کا انتظام نہ ہو گیا باری باری مدینہ کے مسلمان آپ کے گھر میں کھانا پہنچاتے رہے۔‘‘ (دیباچہ تفسیر القرآن انوار العلوم جلد 20 صفحہ 228، 229)

یہ حضرت مصلح موعودؓ کا دیباچے سے جو بیان تھا وہ ختم ہوا۔ آگے یہ حدیث کی روایت ہے۔

حضرت ابوایوبؓ روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ہاں اترے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نچلی منزل میں اور حضرت ابوایوب اوپر والی منزل میں تھے۔ راوی کہتے ہیں کہ ایک رات حضرت ابوایوب بیدار ہوئے اور کہا ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر کے اوپر چلتے ہیں پس وہ ایک طرف ہٹ گئے اور ایک کونے میں رات گزاری۔ پھر انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نچلے حصہ میں زیادہ سہولت ہے۔ انہوں نے کہا مَیں اس چھت پر نہیں رہ سکتا جس کے نیچے آپ ہوں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اوپر منتقل ہو گئے اور حضرت ابوایوب نیچے۔ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کھانا بناتے تھے اور جب وہ کھانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ان کے پاس واپس لایا جاتا تو وہ لانے والے سے پوچھتے کہ کس جگہ آپ کی انگلیاں لگی تھیں۔ پھر وہ آپ کی انگلیوں کی جگہ کا تتبع کرتے یعنی وہیں سے کھاتے جہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کھایا تھا۔ انہوں نے ایک دفعہ آپ کے لیے کھانا تیار کیا جس میں لہسن تھا۔ جب وہ ان کی طرف واپس لایا گیا تو انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی انگلیوں کی جگہ کے متعلق پوچھا اور ان سے کہا کہ کیا آپ نے نہیں کھایا؟ جب ان کو بتایا گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آج کھانا نہیں کھایا تو گھبرا گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اوپر گئے اور پوچھا کہ کیا یہ لہسن حرام ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں لیکن مَیں اسے ناپسند کرتا ہوں۔ اس پر ابوایوب انصاری نے کہا جس کو آپ ناپسند کرتے ہیں مَیں اس کو ناپسند کرتا ہوں یا انہوں نے کہا کہ جس کو آپ نے ناپسند کیا مَیں نے بھی ناپسند کیا۔ راوی کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس فرشتے آتے تھے۔ یہ روایت مسلم کی ہے۔ اسی طرح لکھی ہے یعنی وحی ہوتی تھی اور فرشتے آتے تھے اور اس وجہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بو والی چیز پسندنہیں کرتے تھے لیکن یہ حرام نہیں ہے۔

مسلم میں یہ روایت یوں بھی درج ہے۔ حضرت ابوایوب انصاریؓ سے روایت ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھانا پیش کیا جاتا آپ اس میں سے تناول فرماتے اور اپنا بچا ہوا کھانا میری طرف بھیج دیتے۔ ایک دن آپ نے بچاہوا کھانا بھیجا جس میں سے آپ نے نہیں کھایا تھا کیونکہ اس میں لہسن تھا مَیں نے آپ کی خدمت میں عرض کیا کہ کیا یہ حرام ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں لیکن مَیں اس کی بُو کی وجہ سے اسے ناپسند کرتا ہوں تو ابوایوب نے عرض کیا کہ مَیں بھی ناپسند کرتا ہوں جو آپ ناپسند فرماتے ہیں۔ (صحیح مسلم کتاب الأشربۃ بَابُ اباحۃ اکل الثوم … حدیث 5356 تا 5358)

ایک دوسری روایت میں جو مسند احمد بن حنبل کی ہے، یہ واقعہ یوں بیان ہوا ہے۔ ابوایوب انصاری سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے گھر کی نچلی منزل میں فروکش ہوئے اور مَیں بالا خانے میں تھا۔ ایک مرتبہ بالا خانے میں پانی گر گیا تو مَیں اور اُمّ ایوب ایک چادر لے کر پانی خشک کرنے لگے اس ڈر سے کہ وہ پانی ٹپک کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پرنہ گرنے لگے۔ پھر مَیں ڈرتا ڈرتا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ یار سول اللہؐ ! ہمارے لیے مناسب نہیں کہ ہم آپ کے اوپر رہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بالا خانے میں منتقل ہو جائیں۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد پر آپ کا سامان بالا خانے میں منتقل کر دیا گیا اور آپ کا سامان بہت ہی مختصر تھا۔ پھر مَیں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! جب آپؐ مجھے کھانا بھیجتے تو مَیں جائزہ لیتا اور جہاں آپ کی انگلیوں کے نشان دیکھتا مَیں اپنا ہاتھ وہیں رکھتا لیکن آج جو کھانا آپ نے مجھے بھیجا ہے اسے جب مَیں نے دیکھا تو مجھے آپ کی انگلیوں کے نشان اس میں نظر نہیں آئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ بات صحیح ہے۔ دراصل اس میں پیاز تھا۔ یہاں لہسن کی بجائے پیاز کا بیان ہوا ہے۔ مَیں نے ناپسند کیا کہ اسے کھاؤں اس فرشتےکی وجہ سے جو میرے پاس آتا ہے۔ البتہ تم لوگ اسے کھاؤ۔ (مسند احمد بن حنبل جلد 7 صفحہ 781 حدیث 23966 مسند ابو ایوب انصاری مطبوعہ عالم الکتب بیروت لبنان1998ء)

حضرت ابوایوب انصاریؓ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوۂ بدر، غزوۂ احد اور غزوۂ خندق سمیت تمام غزوات میں شامل ہونے کی سعادت نصیب ہوئی۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد الجزء الثالث صفحہ 369دارالکتب العلمیۃ بیروت 1990ء)

حضرت ابوایوب انصاریؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے بدر کے روز صفیں بنائیں تو ہم میں سے بعض لوگ صف سے آگے نکل گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کی طرف دیکھ کر فرمایا ’میرے ساتھ، میرے ساتھ۔‘ (مسند احمد بن حنبل جلد 7صفحہ780مسند ابو ایوب الانصاری، حدیث نمبر 23963عالم الکتب بیروت 1998ء) یعنی میرے پیچھے رہو۔ میرے سے آگے نہ نکلو۔

حضرت صفیہؓ کے رخصتانےکی رات کا ذکر ہے۔ گو یہ پہلے ایک ذکر میں مختصر بیان کر چکا ہوں لیکن دوبارہ بیان کر دیتا ہوں۔ جب حضرت صفیہؓ کا رخصتانہ ہوا تو اس رات حضرت ابوایوب انصاریؓ آنحضرتؐ کے خیمے کے باہر ننگی تلوار لیے تمام رات پہرہ دیتے رہے اور خیمے کے چاروں طرف گھومتے رہے۔ جب صبح ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوایوب کو خیمہ کے باہر دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: اے ابوایوب کیا بات ہے؟ انہوں نے عرض کی یا رسول اللہؐ ! مَیں اس عورت سے آپ کے متعلق خوفزدہ ہوا کیونکہ اس کا باپ اور اس کا شوہر اور اس کی قوم کے لوگ قتل ہوئے ہیں اور یہ کفر سے نئی نئی نکلی ہے۔ اس لیے مَیں رات بھر آپؐ کی حفاظت کے خیال سے پہرہ دیتا رہا۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوایوب انصاری کے حق میں دعا فرمائی کہ اَللّٰہُمَّ احْفَظْ اَبَا اَیُّوْبَ کَمَا بَاتَ یَحْفَظُنِیْ کہ اے اللہ! ابوایوب کی حفاظت فرما جس طرح اس نے پوری رات میری حفاظت کرتے ہوئے گزاری۔ امام سُہَیلی کہتے ہیں چنانچہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس دعا کے مطابق حضرت ابوایوبؓ کی حفاظت فرمائی یہاں تک کہ رومی آپ کی قبر کی حفاظت کرتے اور وہ آپ کے وسیلے سے پانی مانگتے تو بارش ہوتی۔ (السیرۃ الحلبیۃ جلد 3صفحہ 65 غزوہ خیبر، دار الکتب العلمیۃ بیروت لبنان)

حضرت محمود کہتے ہیں کہ انہوں نے حضرت عِتْبَان بن مالِک انصاری رضی اللہ عنہ سے سنا اور وہ ان لوگوں میں سے تھے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جنگ بدر میں موجود تھے۔ کہتے تھے کہ مَیں اپنی قوم بنوسالم کو نماز پڑھایا کرتا تھا اور میرے اور ان کے درمیان نالہ تھا۔ جب بارشیں ہوتیں تو ان کی مسجد کی طرف عبور کر کے جانا میرے لیے مشکل ہوتا۔ اس لیے مَیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور مَیں نے آپؐ سے عرض کیا کہ مَیں اپنی بینائی کمزور پاتا ہوں اور وہ نالہ جو میرے اور میری قوم کے درمیان ہے جب بارشیں آتی ہیں بہنے لگتا ہے اور وہ میرے لیے عبور کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ اس لیے میری خواہش ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم آئیں اور میرے گھر میں ایسی جگہ نماز پڑھیں جسے مَیں نماز کی جگہ بنا لوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مَیں آؤں گا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ دن چڑھے میرے پاس آئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اندر آنے کی اجازت چاہی۔ مَیں نے اجازت دی۔ آپؐ بیٹھے نہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنے گھر میں سے آپ کون سی جگہ پسند کرتے ہیں کہ مَیں وہاں نماز پڑھوں؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا کہ تم نے نماز پڑھنے کے لیے بلایا تھا تو کونسی جگہ ہے جہاں تم چاہتے ہو کہ مَیں نماز پڑھوں؟ مَیں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس جگہ کی طرف اشارہ کیا جہاں مَیں چاہتا تھا کہ آپ نماز پڑھیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو گئے اور اللہ اکبر کہا اور ہم نے آپؐ کے پیچھے صف باندھی۔ آپؐ نے دو رکعتیں پڑھائیں۔ پھر سلام پھیرا اور جس وقت آپؐ نے سلام پھیرا ہم نے بھی سلام پھیرا اور مَیں نے آپؐ کو خَزِیْرَہ یعنی گوشت اور آٹے کا ایک کھانا ہے وہ کھانے کے لیے روک لیا جو آپؐ کے لیے تیار ہو رہا تھا۔ محلے والوں نے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر میں ہیں تو ان میں سے کچھ لوگ بھاگے آئے یہاں تک کہ گھر میں بہت سے آدمی ہو گئے۔ ان میں سے ایک آدمی نے کہا مالک کہاں ہے مَیں اسے نہیں دیکھتا۔ تو کسی نے کہا وہ منافق ہے۔ ایک اَور صحابی کے بارے میں پوچھا کہ وہ کہاں ہے؟ انہوں نے کہا کہ وہ تو منافق ہے۔ اللہ اور اس کے رسولؐ سے اس کو محبت نہیں ہے اس لیے وہ نہیں آیا۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایسا مت کہو۔ کیا تمہیں علم نہیں کہ اس نے لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کا اقرار کیا ہے۔ وہ اس اقرار سے اللہ تعالیٰ کی رضا مندی چاہتا ہے۔ اس نے کہا اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں۔ ہم تو بخدا اس کی دوستی اور اس کی باتیں منافقوں ہی کے ساتھ دیکھتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے آگ اس شخص پر حرام کر دی ہے جس نے لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کا اقرار کیا جس سے وہ اللہ تعالیٰ کی رضا مندی چاہتا ہو۔ حضرت محمود بن ربیع کہتے تھے کہ مَیں نے یہ بات کچھ اَور لوگوں سے بیان کی جن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی حضرت ابوایوب انصاریؓ بھی تھے۔ وہ اس جنگ میں تھے جس میں وہ ملکِ روم میں فوت ہوئے اور یزید بن معاویہ ان کے سردار تھے۔ توحضرت ابوایوب نے میری بات کا انکار کیا اور کہا کہ بخدا مَیں نہیں سمجھتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی ایسا کہا ہو جو تم نے بیان کیا ہے۔ یعنی کہ آگ اس پہ حرام ہوئی جو صرف لَا اِلٰہَ اِلَّااللّٰہ کہے۔ بہرحال کہتے ہیں کہ یہ بات مجھ پر بہت گراں گزری۔ مَیں اس بات سے بڑا پریشان تھا۔ مَیں نے اللہ تعالیٰ کے لیے اپنے اوپر ایک منت مانی کہ اگر اللہ تعالیٰ نے مجھے سلامت رکھا اور اس جنگ سے واپس لوٹا تو یہ بات مَیں حضرت عِتبان بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھوں گا بشرطیکہ مَیں نے ان کی قوم کی مسجد میں ان کو زندہ پایا۔ چنانچہ مَیں لوٹا اور حج یا عمرہ کا احرام باندھا۔ پھر مَیں چل پڑا یہاں تک کہ مدینہ آیا اور بنو سالم کے محلے میں گیا تو مَیں کیا دیکھتا ہوں کہ حضرت عتبانؓ بوڑھے ہو گئے ہیں اور آپ کی بینائی جاتی رہی ہے۔ آپ اپنی قوم کو نماز پڑھا رہے تھے۔ جب نماز سے فارغ ہو کر انہوں نے سلام پھیرا تومَیں نے انہیں سلام کیا اور انہیں بتایا کہ مَیں کون ہوں۔ پھر مَیں نے ان سے وہ بات پوچھی تو انہوں نے اس کو اسی طرح بیان کیا جس طرح کہ پہلی دفعہ مجھ سے بیان کیا تھا۔ (صحیح بخاری کتاب التہجد بَابُ صَلاَۃِ النَّوَافِلِ جَمَاعَۃً روایت نمبر 1186) (لغات الحدیث جلد اول صفحہ 580)

کہ ہاں یہ ٹھیک ہے۔ مَیں نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ جس نے لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ پڑھا اس پہ آگ حرام ہو گئی لیکن حضرت ابوایوب اس کو نہیں مانتے تھے۔ اس پر حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے بھی اپنی رائے لکھی ہے کہ حدیث میں یہی آتا ہے کہ مَنْ قَالَ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ یَبْتَغِیْ بِذٰلِکَ وَجْہَ اللّٰہِ۔ اس پوری حدیث کا ترجمہ پڑھ دیتا ہوں۔ اس میں یہ بھی وضاحت آ جائے گی۔ یعنی محمود بن ربیع روایت کرتے ہیں کہ مَیں نے عتبان بن مالک سے یہ سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر اس شخص پر دوزخ کی آگ حرام کر دی ہوئی ہے جو سچی نیت سے خدا کی رضا کی خاطرلَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کااقرار کرتا ہے لیکن جب میں نے یہ روایت ایک ایسی مجلس میں بیان کی جس میں ابو ایوب انصاریؓ صحابی بھی موجود تھے تو ابوایوبؓ نے اس روایت سے انکار کیا اور کہا خدا کی قسم! مَیں ہر گز نہیں خیال کر سکتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات فرمائی ہو۔ پھر آگے مرزا بشیر احمد صاحب یہ لکھتے ہیں کہ اس حدیث میں حضرت ابو ایوب انصاریؓ نے ایک ایسی حدیث کو جو اصولِ روایت کے لحاظ سے صحیح تھی۔ جو حدیث بیان کرنے کے روایت کے اصول ہیں اس لحاظ سے صحیح تھی۔ لیکن حضرت ابوایوب انصاریؓ نے اپنی درایت کی بنیاد پر یعنی اپنی سمجھ اور اپنے لحاظ سے جس کو وہ صحیح سمجھتے تھے اس کو بنیاد رکھ کر قبول کرنے سے انکار کر دیا اور پھر میاں بشیر احمد صاحب یہ فرماتے ہیں کہ گویہ ممکن ہے کہ حضرت ابو ایوب انصاریؓ کا استدلال درست نہ ہو مگر بہرحال یہ حدیث اس بات کو ثابت کرتی ہے۔ اب یہ بات حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ صحابہ یونہی ہر حدیث کو، بات کو نہیں مان لیا کرتے تھے بلکہ وہ بھی غور کرتے تھے، تحقیق کرتے تھے۔ تو وہ لکھتے ہیں کہ ’’بہرحال یہ حدیث اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ صحابہ یونہی کو رانہ طور پر ہر روایت کو قبول نہیں کر لیتے تھے‘‘ بلکہ درایت و روایت ہر دو کے اصول کے ماتحت پوری تحقیق کر لینے کے بعد قبول کرتے تھے۔ (ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ صفحہ 16)

بخاری کی اس حدیث کی شرح میں حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحبؓ نے لکھا ہے کہ حضرت محمود بن ربیعؓ سے جب انہوں نے یعنی ابوایوب انصاری نے یہ روایت سنی تو انہوں نے انکار کیا۔ بعض کا خیال ہے کہ ان کے انکار کی وجہ یہ تھی کہ خالی لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کا اقرار آگ سے محفوظ نہیں رکھ سکتا جب تک اعمال صالحہ اس کے ساتھ نہ ہوں۔ یہ ثابت شدہ اسلامی مسئلہ ہے۔ ٹھیک ہے۔ بالکل اسی طرح ہوتا ہے پھر آگے شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ مگر یَبْتَغِیْ بِذٰلِکَ وَجْہَ اللّٰہِ کا جملہ بتا رہا ہے کہ یہ اقرار توحید کس قسم کا ہے۔ یعنی جو دل سے چاہتے ہوئے خدا کی رضا کی خاطر کلمہ پڑھتا ہے لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کہتا ہے اس کے لیے آگ حرام ہے۔ تو پھر شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ حضرت محمودنے دوبارہ تحقیق اس خیال سے کی کہ شاید وہ بعض الفاظ ضبط نہ کر سکے ہوں اور پھر جو دوبارہ تحقیق کی تو دوبارہ یہی ثابت ہوا کہ وہ الفاظ درست تھے جو روایت تھی۔ پھر آگے لکھتے ہیں کہ کسی کے ایمان یا نفاق سے متعلق لوگوں کے سامنے اظہارِ رائے نامناسب ہے۔ کسی کو یہ کہہ دینا کہ منافق ہے یا اس کا ایمان کمزور ہے یہ غلط چیز ہے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقعے پر ابن دُخْشُنْ کی نسبت نکتہ چینی ناپسند فرمائی تھی۔ آپ نے ناپسند فرمایا کہ اس طرح پبلک میں کہا جائے۔ اس قسم کی نکتہ چینی بجائے اصلاح کے فتنہ وفساد کا موجب ہو جاتی ہے۔ (ماخوذ از صحیح البخاری کتاب التھجد باب الصلاۃ النوافل جماعۃ حدیث 1186 جلد 2 صفحہ 565 از نظارت اشاعت ربوہ)

ایک روایت میں بیان ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباسؓ اور حضرت مِسْوَر بن مَخْرَمَہؓ نےاَبْوَاءْمقام پر مسئلہ غسل میں اختلاف کیا۔ حضرت عبداللہ بن عباس نے کہا مُحرَم اپنا سر دھو سکتا ہے اور حضرت مسور نے کہا کہ مُحرَم اپنا سر نہیں دھو سکتا۔ راوی کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عباس نے مجھے حضرت ابوایوب انصاری کے پاس بھیجا۔ مَیں نے انہیں دو لکڑیوں کے درمیان نہاتے ہوئے پایا۔ ان پر کپڑے سے پردہ کیا گیا تھا۔ مَیں نے ان کو السلام علیکم کہا تو انہوں نے فرمایا کون ہے؟ مَیں نے کہا عبداللہ بن حُنَیْن۔ حضرت عبداللہ بن عباس نے مجھے آپ کے پاس بھیجا ہے کہ مَیں آپ سے پوچھوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا سر کس طرح دھوتے تھے جبکہ آپ احرام کی حالت میں ہوتے تھے کیونکہ کہتے ہیں کہ احرام باندھا ہو تو سر نہیں دھونا چاہیے۔ تو حضرت ابوایوب نے اپنا ہاتھ کپڑے پر رکھا، اسے نیچے جھکایا یہاں تک کہ ان کا سر مجھے نظر آیایعنی وہ سکرین جو بنائی ہوئی تھی جس کے آپ پیچھے تھے اس کو نیچے کر کے آپ نے مجھے اپنا سر دکھایا۔ پھر انہوں نے ایک آدمی سے کہا جو اُن پر پانی ڈال رہا تھا کہ پانی ڈالو تو اس نے ان کے سر پر پانی ڈالا۔ پھر انہوں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنے سرکو مَلا، ہاتھوں کو آگے لائے اور پیچھے لے گئے اور کہا کہ اس طرح مَیں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کرتے دیکھا ہے۔ (صحیح بخاری کتاب جزاء الصید بَابُ الِاغْتِسَالِ لِلْمُحْرِمِ حدیث نمبر 1840)

ایک دفعہ آگے پھر پیچھے لے گئے سر دھوتے ہوئے۔

حضرت سعید بن مُسَیِّبؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت ابوایوب نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ریش مبارک میں کوئی چیز تنکا وغیرہ دیکھا تو انہوں نے اسے الگ کر دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دکھایا۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابوایوب سے اللہ وہ چیز دور کرے جسے وہ ناپسند کرتا ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ آپؐ نے فرمایا اے ابوایوب تمہیں تکلیف نہ پہنچے۔ (کنزالعمال جلد 13 صفحہ 614 حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللّٰہ عنہ حدیث نمبر37568، 37569 مکتبہ مؤسسۃ الرسالہ 1985ء)

حضرت ابوایوب انصاریؓ جنگِ جمل اور جنگِ صفین اور جنگِ نہروان میں حضرت علیؓ کے لشکر کے آگے والے حصہ میں شامل تھے۔ (اسد الغابہ جلد 6 صفحہ 22 ’’حضرت اَبُوْ اَیُّوْب الاَنْصَارِی‘‘ دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان 2003ء)

حضرت علیؓ کو حضرت ابو ایوب انصاریؓ کی ذات پر جو اعتماد تھا وہ اس بات سے ظاہر ہوتا ہے کہ جب حضرت علیؓ نے کوفہ کو اپنا دارالخلافہ قرار دیا اور وہاں منتقل ہو گئے تو حضرت ابوایوب انصاری کو مدینہ کا گورنر بنا دیا اور وہ چالیس ہجری تک مدینہ کے گورنر رہے یہاں تک کہ بُسْر بن اَبُوْاَرْطَاۃ کی قیادت میں امیر معاویہ کی شامی فوج نے مدینہ پر حملہ کیا تو اس وقت حضرت ابوایوب انصاریؓ مدینہ چھوڑکر حضرت علیؓ کے پاس کوفہ چلے گئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد صحابہ کرامؓ کو دربارِ خلافت سے ماہانہ وظائف ملتے تھے۔ حضرت ابوایوبؓ کا وظیفہ پہلے چار ہزار تھا۔ حضرت علیؓ نے اپنے زمانہ خلافت میں بیس ہزار کر دیا۔ پہلے آٹھ غلام ان کی زمین کی کاشت کے لیے مقرر تھے حضرت علیؓ نے چالیس غلام کر دیے۔ (تاریخ الطبری جلد 3صفحہ153 ثم دخلت سنۃ اربعین… دار الکتب العلمیۃ بیروت 1987ء) (ماخوذ از سیر الصحابہ جلد 3صفحہ 112دارالاشاعت کراچی 2004ء)

حضرت حَبِیب بن ابو ثَابِتؓ سے روایت ہے کہ حضرت ابوایوبؓ امیر معاویہؓ کے پاس آئے اور ان سے اپنے اوپر قرض کی شکایت کی تو انہوں نے وہ نہ دیکھا جو وہ پسند کرتے تھے اور انہوں نے وہ دیکھا جسے وہ ناپسند کرتے تھے۔ یعنی حضرت ابوایوب کی بات کو نہیں دیکھا بلکہ ان کی ناپسندیدگی والی بات کو دیکھا۔ پسند والی بات کو نہیں دیکھا۔ اس پر حضرت ابوایوب انصاریؓ نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ تم بعد میں ضرور ترجیح دیکھو گے یعنی تمہاری ترجیحات بدل جائیں گی۔ امیر معاویہ نے کہا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تم لوگوں کو کس چیز کا ارشاد فرمایا تھا۔ جب رسول پاک نے یہ کہا تو پھر آپؐ نے کیا فرمایا تھا؟ حضرت ابوایوبؓ نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ تم لوگ صبر کرنا جب ایسی ترجیحات بدل جائیں جہاں تم لوگوں کی بات نہ مانی جائے۔ جو پسندیدہ بات نہ سنی جائے تو پھر صبر کرنا۔ اس پر امیر معاویہ نے کہا پھر تم لوگ صبر کرو۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ صبر کرنا تو پھر صبر کرو۔ حضرت ابوایوبؓ نے کہا اللہ کی قسم ! مَیں تم سے کبھی کسی چیز کا سوال نہیں کروں گا۔ پھر حضرت ابو ایوب بصرہ چلے گئے اور حضرت ابن عباسؓ کے ہاں قیام کیا۔ حضرت ابن عباس نے ان کے لیے اپنا گھر خالی کیا اور کہا میں آپ کے ساتھ ضرور ویسا ہی سلوک کروں گا جیسا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کیا تھا۔ جب آپ نے رسول اللہ کی مہمان نوازی کی تھی ویسی مہمان نوازی میں آپ کی کروں گا۔ حضرت ابن عباسؓ نے اپنے اہل خانہ کو حکم دیا تو وہ باہر چلے گئے اور حضرت ابن عباسؓ نے کہا گھر میں جو کچھ ہے وہ سب آپ کا ہے اور انہوں نے حضرت ابوایوب کو چالیس ہزار درہم اور بیس غلام دیے۔ انہوں نے اپنا اَور انتظام کر لیا اور ان کو نہ صرف گھر دیا بلکہ چالیس ہزار درہم بھی دیے اور بیس غلام بھی دیے۔ (کنزالعمال جلد 13 صفحہ 614-615 حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللّٰہ عنہ حدیث نمبر 37570 مکتبۃ مؤسسۃ الرسالۃ 1985ء)

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ وَاَنْفِقُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَلَا تُلْقُوْا بِاَیْدِیْکُمْ اِلَى التَّہْلُکَۃِ وَاَحْسِنُوْا اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ (البقرۃ: 196) کی تفسیر میں بیان کرتے ہیں کہ ’’اس آیت کا مفہوم سمجھنے میں لوگوں کو بڑی غلط فہمی ہوئی ہے۔‘‘ وَاَنْفِقُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَلَا تُلْقُوْا بِاَیْدِیْکُمْ اِلَى التَّہْلُکَۃِ وَاَحْسِنُوْا اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ۔ ’’انہیں خدا تعالیٰ کی راہ میں جہاں کوئی تکلیف پیش آتی ہے وہ فوراً کہہ دیتے ہیں کہ یہ تو اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنے والی بات ہے۔‘‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے کہا ہے وَلَا تُلْقُوْا بِاَیْدِیْکُمْ اِلَى التَّہْلُکَۃِ کہ اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔ ’’ہم اس میں کس طرح حصہ لے سکتے ہیں حالانکہ اس کے ہرگز یہ معنی نہیں کہ جہاں موت کا ڈر ہو وہاں سے مسلمان کو بھاگ جانا چاہیے اور اسے بزدلی کا مظاہرہ کرنا چاہیے بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ جب دشمن سے لڑائیاں ہو رہی ہوں تو اس وقت اپنے مالوں کو خوب خرچ کرو۔ اگر تم اپنے اموال کو روک لو گے تو اپنے ہاتھوں اپنی موت کا سامان پیدا کرو گے۔ چنانچہ احادیث میں حضرت ابوایوب انصاریؓ سے مروی ہے کہ انہوں نے اس وقت جبکہ وہ قسطنطنیہ فتح کرنے کے لیے گئے ہوئے تھے کہا کہ یہ آیت ہم انصار کے بارے میں نازل ہوئی تھی اور پھر انہوں نے بتایا کہ پہلے تو ہم خدا تعالیٰ کے رستہ میں اپنے اموال خرچ کیا کرتے تھے لیکن جب خدا تعالیٰ نے اپنے دین کو تقویت اور عزت دی اور مسلمانوں کو غلبہ حاصل ہوا تو قُلْنَا ہَلْ نُقِیْمُ فِیْ اَمْوَالِنَا وَ نُصْلِحُہَا…… ہم نے کہا کہ اگر اب ہم اپنے مالوں کی حفاظت کریں اور اسے جمع کریں تو یہ اچھا ہو گا۔ اس وقت یہ آیت اتری کہ اللہ تعالیٰ کے رستہ میں اپنے اموال خرچ کرنے سے دریغ نہ کرو کیونکہ اگر تم ایسا کرو گے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ تم اپنی جانوں کو ہلاکت میں ڈالنا چاہتے ہو۔ پس اپنے مالوں کو جمع نہ کرو بلکہ انہیں اللہ تعالیٰ کے رستہ میں خوب خرچ کرو ورنہ تمہاری جانیں ضائع چلی جائیں گی۔ دشمن تم پر چڑھ آئیں گے اور اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ تم ہلاک ہو جاؤ گے۔‘‘ (تفسیر کبیر جلد 2 صفحہ 429)

حضرت علیؓ کے بعد امیر معاویہ کی حکومت کا زمانہ آیا۔ عُقْبَہ بن عَامِر جُہَنِیان کی طرف سے مصر کے گورنر تھے۔ حضرت عقبہؓ کے عہد امارت میں حضرت ابوایوب کو دو مرتبہ سفرِ مصر کا اتفاق ہوا۔ پہلا سفر طلبِ حدیث کے لیے تھا، انہیں معلوم ہوا تھا کہ حضرت عقبہ کسی خاص حدیث کی روایت کرتے ہیں۔ صرف ایک حدیث کے لیے حضرت ابوایوب نے بڑھاپے میں سفر کی زحمت گوارا کی۔ دوسری مرتبہ غزوۂ روم میں شرکت کے ارادے سے مصر تشریف لے گئے۔ (ماخوذ ازسیرالصحابہ جلد 3 حصہ اول صفحہ 113 دار الاشاعت کراچی 2004ء)

مروان جب مدینہ کا گورنر تھا۔ وہ ایک روز آیا تو اس نے ایک شخص کو دیکھا جس نے اپنا چہرہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر پر لگایا ہوا تھا۔ مروان نے کہا کیا تم جانتے ہو کہ تم کیا کر رہے ہو؟ یہ شرک ہے۔ جھکے ہوئے سجدہ کر رہے ہو۔ پھر مروان اس شخص کے پاس آیا تو کیا دیکھا کہ وہ حضرت ابوایوب انصاریؓ ہیں۔ انہوں نے جواب دیا کہ ہاں ! میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا ہوں۔ ان پتھروں کے پاس نہیں آیا۔ (مسند احمد بن حنبل جلد 7صفحہ 785 مسند ابو ایوب الانصاری، حدیث نمبر 23983 عالم الکتب بیروت 1998ء) (ماخوذ از سیرالصحابہ جلد 3 حصہ اول صفحہ116 دار الاشاعت کراچی 2004ء)

یہاں مطلب یہ تھا کہ میں اس محبت و عشق کی وجہ سے جھکا ہوا ہوں۔ پتھروں کو سجدہ نہیں کر رہا۔ نہ مَیں کوئی شرک کر رہا ہوں بلکہ یہ محبت کا اظہار ہے اور اس میں بھی اللہ تعالیٰ کی وحدانیت میرے دل میں ہے۔ شرک نہیں ہے۔

ابوعبدالرحمٰن حُبُلِی سے مروی ہے کہ ہم سمندر میں تھے اور ہم پر عبداللہ بن قیس فزاری امیر تھا اور ہمارے ساتھ حضرت ابو ایوب انصاریؓ بھی تھے۔ وہ اموالِ غنیمت تقسیم کرنے والے کے پاس سے گزرے جو قیدیوں کی نگرانی کر رہا تھا۔ حضرت ابوایوب انصاریؓ کیا دیکھتے ہیں کہ ایک عورت رو رہی ہے۔ انہوں نے پوچھا اس عورت کو کیا ہوا؟ لوگوں نے بتایا کہ اس عورت کو اور اس کے بیٹے کو الگ کر دیا گیا ہے۔ راوی کہتے ہیں اس پر انہوں نے بچے کا ہاتھ پکڑا اور اسے اس کی ماں کے ہاتھ میں دے دیا۔ اس کے بعد اموال غنیمت تقسیم کرنے والا عبداللہ بن قیس کے پاس گیا اور انہیں یہ سب بتایا تو انہوں نے حضرت ابوایوب کو بلا بھیجا اور پوچھا آپ نے ایسا کیوں کیا؟ تو انہوں نے کہا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ جس نے ماں اور اس کے بیٹے کے درمیان جدائی ڈالی تو اللہ تعالیٰ اس کے اور اس کے پیاروں کے درمیان قیامت کے دن جدائی ڈال دے گا۔ (مسند احمد بن حنبل جلد 7صفحہ 764مسند ابو ایوب الانصاری، حدیث نمبر 23895 عالم الکتب بیروت 1998ء)

پس یہ جو بعض لوگ ماؤں سے بچے چھین لیتے ہیں ان کے لیے بھی اس میں سبق ہے۔ پھر یہ اسلام پر اعتراض کرنے والے دیکھیں کہ وہ خود کیا کرتے ہیں۔ اسلام تو اس حد تک خیال رکھتا ہے۔ اب گذشتہ دنوں امریکہ کی ہی خبریں تھیں کہ وہاں بھی جو امیگرینٹس (immigrants) آئے ہوئے تھے ان مہاجرین کو علیحدہ علیحدہ انہوں نے رکھ دیا۔ ماؤں کو علیحدہ، بچوں کو علیحدہ کیا اور بعض بچے کچھ عرصے کے بعد ماؤں کو پہچان بھی نہیں سکے۔ بہرحال اسلام اس حد تک تلقین کرتا ہے کہ ماؤں کو بچوں سے جدا نہ کرو۔ ایک دوسرے کو اس وجہ سے تکلیف نہ دو۔

حضرت مَرْثَدْبن عبداللّٰہؓ بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت ابوایوب انصاریؓ ہمارے پاس جہاد کی غرض سے آئے تو ان دنوں حضرت عقبہ بن عامرؓ مصر کے والی تھے۔ انہوں نے مغرب کی نماز میں تاخیر کی۔ حضرت ابوایوب ان کے پاس گئے اور کہا اے عقبہ یہ کیسی نماز ہے؟ حضرت عقبہ نے جواب دیا ہم مصروف تھے۔ حضرت ابوایوب نے کہا اللہ کی قسم ! میری صرف یہ غرض ہے کہ لوگ یہ نہ گمان کریں کہ تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسے کرتے ہوئے دیکھا تھا۔ کیا تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے نہیں سنا کہ میری امّت اس وقت تک خیر پر باقی رہے گی یا یہ فرمایا کہ فطرت پر قائم رہے گی جب تک وہ مغرب میں تاخیر نہ کریں یہاں تک کہ ستارے چمکنے لگیں۔ (مسند احمد بن حنبل جلد 7صفحہ 773مسند ابو ایوب الانصاری، حدیث نمبر 23931 عالم الکتب بیروت 1998ء)

یعنی پہلے وقت میں مغرب کی نماز پڑھنی چاہیے۔

ابو واصل سے مروی ہے کہ میں حضرت ابو ایوب انصاریؓ سے ملا۔ انہوں نے مجھ سے مصافحہ کیا اور دیکھا کہ میرے ناخن بہت لمبے ہیں تو انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں سے کوئی آسمان کی خبروں کے متعلق سوال کرتا ہے اور وہ اپنے ناخن اس طرح لمبے رکھتا ہے جیسے پرندوں کے ناخن ہوتے ہیں۔ ان میں جنابت اور گندگی اور میل کچیل اکٹھی ہو جاتی ہے۔ (مسند احمد بن حنبل جلد 7صفحہ 775مسند ابو ایوب الانصاری، حدیث نمبر 23938 عالم الکتب بیروت 1998ء)

یعنی باتیں توتم لوگ بڑی اونچی اونچی پوچھتے ہو، معرفت کی کرتے ہو لیکن تمہاری اپنی حالت یہ ہے کہ ناخن تمہارے لمبے ہیں اور ان میں گند اکٹھا ہو جاتا ہے اس لیے ناخن کاٹ کے رکھا کرو۔ مسند احمد بن حنبل کی یہ حدیث ہے۔

حضرت ابوایوب کا فضل و کمال اس قدر مسلّم تھا کہ خود صحابہ ان سے مسائل دریافت کرتے تھے۔ حضرت ابن عباس، ابن عمر، بَرَاء بن عَازِب، انس بن مالک، ابو اُمَامَہ، زید بن خالد جُہَنی، مِقْدَامْ بن مَعْدِیْ کَرِبْ، جابر بن سَمُرَہ، عبداللہ بن یزید خَطْمِیوغیرہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تربیت یافتہ تھے۔ حضرت ابوایوب کے فیض سے بے نیاز نہیں تھے۔ تابعین میں سعید بن مُسَیِّب، عُرْوَہ بن زُبیر، سالم بن عبداللہ، عَطَاء بن یَسَار، عطاء بن یزید لَیْثِی، اَبُوْسَلَمَہ، عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ بڑے پائے کے لوگ ہیں تاہم وہ حضرت ابوایوب کے ارادت مندوں میں داخل تھے۔ (ماخوذ از سیرالصحابہ جلد 3حصہ اول صفحہ 115 دار الاشاعت کراچی 2004ء)

حضرت ابوایوب انصاریؓ سے مروی ہے کہ وہ معاویہ کے زمانے میں جہاد کے لیے نکلے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں بیمار ہو گیا۔ مرض میں شدت ہو گئی تو اپنے ساتھیوں سے کہا کہ اگر میں مر جاؤں تو مجھے اٹھا لینا اور جب تم لوگ دشمن کے مقابلے میں صف بستہ ہو جاؤ تو مجھے اپنے قدموں کے پاس دفن کر دینا۔ میں تم سے ایک حدیث بیان کروں گا جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے۔ اگر میری وفات قریب نہ ہوتی تو میں اسے بیان نہ کرتا۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا کہ جو اس حالت میں مرا کہ اس نے اللہ کے ساتھ کسی کو بھی شریک نہ ٹھہرایا ہو تو وہ جنت میں داخل ہو گیا۔

ایک روایت میں مذکور ہے کہ جب حضرت ابوایوب انصاریؓ کی وفات کا وقت قریب آیا تو انہوں نے کہا میں نے تم لوگوں سے ایک ایسی چیز چھپائی ہوئی تھی جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی تھی۔ آپؐ نے فرمایا اگر تم لوگ گناہ نہ کرتے تو اللہ تبارک و تعالیٰ ایسی قوم کو پیدا کرتا جو گناہ کرتی اور پھر اللہ اسے بخش دیتا۔ یعنی اللہ تعالیٰ اپنی رحمانیت اور بخشش کی صفت کا اس حد تک پاس کرتا ہے۔

راوی محمد بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابوایوب انصاریؓ غزوۂ بدر میں شریک ہوئے۔ آپ مسلمانوں کی کسی لڑائی میں پیچھے نہیں رہے سوائے اس کے کہ آپ کسی دوسری لڑائی میں شامل ہوتے۔ یعنی اگر ایک وقت میں دو مختلف جنگ ہو رہی ہوتیں تو کسی نہ کسی جنگ میں لازمی شامل ہوتے تھے۔ صرف ایک سال وہ لڑائی میں شامل نہیں ہوئے کیونکہ لشکر پر ایک نوجوان سپہ سالار بنا دیا گیا تھا وہ اس سال بیٹھے رہے۔ اس سال کے بعد وہ افسوس کرتے اور کہتے کہ مجھے اس بات سے کیا غرض کہ مجھ پر کون عامل مقرر کیا گیا۔ مجھے اس بات سے کیا غرض کہ مجھ پر کون عامل مقرر کیا گیا۔ مجھے اس بات سے کیا غرض کہ مجھ پر کون عامل مقرر کیا گیا۔ تین دفعہ انہوں نے یہ بات کہی۔ بیان کیا جاتا ہے کہ جس جَوَان کی امارت کا اس روایت میں ذکر کیا گیا ہے وہ عبدالملک بن مروان تھا۔ راوی کہتے ہیں کہ پھر حضرت ابوایوب بیمار ہو گئے۔ لشکر پر یزید بن معاویہ امیر تھا۔ وہ ان کے پاس ان کی عیادت کو آیا اور پوچھا کہ آپ کی کوئی ضرورت ہو تو بیان کریں۔ انہوں نے کہا کہ میری ضرورت یہ ہے کہ جب میں مر جاؤں تو مجھے سوار کرنا۔ پھر جہاں تک گنجائش ملے دشمن کے ملک میں لے جانا۔ پھر جب گنجائش نہ پاؤ تو وہیں دفن کر دینا اور واپس آ جانا۔ جب حضرت ابوایوب کی وفات ہو گئی تو اس نے انہیں سوار کیا اور جہاں تک گنجائش ملی وہ دشمن کے ملک میں لے گیا اور انہیں دفن کیا۔ پھر واپس آ گیا۔

راوی کہتے ہیں کہ حضرت ابوایوب انصاریؓ کہا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اِنْفِرُوْا خِفَافًا وَّ ثِقَالًا (التوبۃ: 41)یعنی نکل کھڑے ہو ہلکے بھی اور بھاری بھی۔ اِنْفِرُوْا خِفَافًا وَّ ثِقَالًا اور میں اپنے آپ کو ہلکا بھی پاتا ہوں اور بھاری بھی۔ ایک روایت میں مذکور ہے کہ اہل ِمکہ میں سے کسی شخص سے مروی ہے کہ یزید بن معاویہ جس وقت حضرت ابوایوب انصاریؓ کے پاس آیا تو انہوں نے اس سے کہا کہ لوگوں سے میرا سلام کہنا۔ وہ مجھے لے کر چلیں اور جتنا دور وہ مجھے لے جا سکتے ہیں لے جائیں تو یزیدنے لوگوں کو وہ سب بتایا جو حضرت ابوایوب نے ان سے کہا تھا۔ لوگوں نے مانا اور ان کے جنازے کو جس حد تک وہ لے جا سکتے تھے لے گئے۔

حضرت ابوایوب انصاریؓ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اپنی وفات تک جہاد سے چمٹے رہے یہاں تک کہ ان کی وفات قسطنطنیہ میں ہوئی۔ ایک روایت میں مذکور ہے کہ باون ہجری میں یزید بن معاویہ نے اپنے والد امیر معاویہ کی خلافت میں قسطنطنیہ کی جنگ لڑی۔ اسی سال حضرت ابوایوب انصاریؓ کی وفات ہوئی۔ یزید بن معاویہ نے ان کا نماز جنازہ پڑھایا۔ ان کی قبر روم میں قلعہ قسطنطنیہ کے پاس ہے۔ راوی کہتے ہیں کہ مجھے معلوم ہوا کہ اہل روم ان کی قبر کی حفاظت اور مرمت کرتے ہیں اور قحط کے ایام میں وہ آپؓ کے ذریعے پانی طلب کرتے ہیں۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 369۔ 370 مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت 1990ء) (الاصابہ جلد 2 صفحہ 201 حضرت خَالِد بِنْ زَیْد دار الکتب العلمیۃ بیروت 1995ء) (مسند احمد بن حنبل جلد 7صفحہ 768مسند ابو ایوب الانصاری، حدیث نمبر 23912 عالم الکتب بیروت 1998ء)

ایک روایت کے مطابق حضرت ابوایوب انصاریؓ نے امیر معاویہ کے عہد میں یزید کی کمان میں رومی حکومت کے خلاف جنگ میں حصہ لیااور قسطنطنیہ کے شہر کے پاس پچاس یا اکاون ہجری میں وفات پائی اور وہیں دفن ہوئے۔ ایک روایت کے مطابق یزیدنے گھڑسواروں کو حکم دیا جو حضرت ابوایوب انصاریؓ کی قبر پر آگے پیچھے دوڑتے رہے یہاں تک کہ ان کی قبر کا نشان مٹ گیا۔ ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ جس رات حضرت ابوایوبؓ کو دفن کیا گیا اس کی صبح رومیوں نے مسلمانوں سے پوچھا تم لوگ رات کو کیا کرتے رہے۔ مسلمانوں نے بتایا کہ یہ حضرت ابوایوب انصاریؓ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کبار صحابہ میں سے تھے اور اسلام قبول کرنے کے لحاظ سے ان سب سے قدیم تھے۔ ہم نے انہیں دفن کیا جیسا کہ تم دیکھ چکے ہو اور اللہ کی قسم! اگر قبر کھودی گئی تو جب تک ہمارے پاس حکومت ہے، عرب کی سرزمین میں تمہارا یہ ناقوس نہیں بجے گا۔ مجاہد کہتے ہیں کہ جب ان کے ہاں قحط پڑتا تو ان کی قبر سے تھوڑی سی مٹی ہٹاتے تو بارش ہو جاتی۔ (اسد الغابہ جلد 6 صفحہ 23 ’’حضرت اَبُوْ اَیُّوْب الاَنْصَارِی‘‘ دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان 2003ء)

یہ وہاں اب بھی ایک روایت قائم ہے۔ کہاں تک صحیح ہے اللہ بہتر جانتا ہے۔ حضرت ابوایوب انصاریؓ پچاس یا اکاون ہجری یا باون ہجری میں غزوۂ قسطنطنیہ میں فوت ہوئے۔ آخری قول اکثر لوگوں کا ہے یعنی باون ہجری کا۔ (الاصابہ جلد 2 صفحہ 201 ’’حضرت خَالِد بِنْ زَیْد‘‘ دار الکتب العلمیۃ بیروت 1995ء)

حضرت ابوایوب انصاریؓ کا مزار ترکی کے شہر استنبول میں ہے۔ مزار ایک چبوترے میں ہے جسے پیتل کے جالی دار دروازے سے بند کیا ہوا ہے۔ ترکی کے اکثر لوگ سکون قلب کے لیے یہاں حاضر ہوتے ہیں۔ (تبرکات صحابہ کا تصویری البم از ارسلان بن اختر 35و 50مکتبہ ارسلان کراچی 2011ء)

خطبہ جمعہ 16؍ مارچ 2018ء

ایک ابتدائی صحابی حضرت ابو ایوب انصاریؓ تھے۔ یہ وہ خوش قسمت تھے جن کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرتِ مدینہ کے وقت ابتدائی زمانے میں مدینہ میں میزبانی کا شرف حاصل ہوا۔ ہر شخص کی خواہش تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس کے گھر قیام فرمائیں اور اُس وقت ہر ایک اس بات کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اظہار کر رہا تھا۔ آپ کی خدمت میں درخواست دے رہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری اونٹنی کو کھلا چھوڑ دو جہاں اللہ تعالیٰ کی مرضی ہو گی یہ ٹھہر جائے گی۔ ابو ایوب انصاری کی یہ خوش قسمتی ہے کہ اونٹنی ان کے گھر کے سامنے رکی۔ لیکن لوگوں کی تسلی پھر بھی نہیں ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے گھر بھی قریب ہیں۔ ہمارے ہاں ٹھہریں۔ اس پر آپ نے قرعہ اندازی کی اور پھر قرعہ اندازی میں بھی حضرت ابوایوب انصاری کا نام ہی نکلا۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد 1 صفحہ 183 ذکر خروج رسول اللہﷺ … الخ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء) (سیر الصحابہ جلد 3 صفحہ 110 ابو ایوب انصاریؓ مطبوعہ دار الاشاعت کراچی 2004ء)

حضرت ابوایوب انصاری تمام غزوات میں شامل ہوئے۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد 3صفحہ 369باب ابو ایوب انصاریؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)

ان کے گھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قیام فرمایا۔ ان کا جو گھر تھا دو منزلہ تھا۔ اوپر کی منزل میں ابوایوب انصاری رہتے تھے۔ نچلا حصہ سارا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کر دیا۔ وہاں قیام کا واقعہ ہے کہ ایک رات اوپر کی منزل میں یہ تھے تو پانی کا ایک بڑا گھڑا یا جو برتن تھا وہ ٹوٹ گیا۔ مٹی کے برتن ہوتے تھے، پکی مٹی کے اس میں پانی رکھا جاتا تھا۔ اب بھی تیسری دنیا میں ہمارے غریب ملکوں میں پاکستان میں افریقہ میں ایسے برتنوں میں پانی رکھا جاتا ہے۔ بہرحال وہ ٹوٹ گیا۔ ابوایوب انصاری اور ان کی بیوی ساری رات اپنے لحاف سے اس کو خشک کرتے رہے۔ اگلے دن انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں رات کا واقعہ سنایا اور عرض کی کہ حضور آپ اوپر کی منزل میں رہائش رکھیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی درخواست قبول کر لی اور تقریباً چھ سات مہینے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ہاں مقیم رہے۔ مہمان نوازی کا بھی انہوں نے خوب حق ادا کرنے کی کوشش کی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بچے ہوئے کھانے سے یہ کھانا کھاتے تھے۔ روایت میں لکھا ہے کہ جو کھانا بچ کے آتا تھا تو جہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی انگلیوں کے نشان ہوتے تھے وہاں سے یہ کھانا کھایا کرتے تھے۔ ایک روز دیکھا کہ کھانے پر آپ کے نشان نہیں ہیں اور کھانا کھایا ہوا نہیں لگ رہا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ حضور آپ نے آج کھانا نہیں کھایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مَیں کھانا کھانے لگا تو میں نے دیکھا کہ اس میں پیاز اور لہسن ڈالا ہوا ہے اور مجھے یہ پسندنہیں اس لئے نہیں کھایا۔ حضرت ابوایوب انصاری نے عرض کی کہ جسے حضور پسندنہیں کرتے اسے مَیں بھی ناپسند کرتا ہوں اور آئندہ یہ دونوں چیزیں نہیں کھاؤں گا۔ عجیب عشق و محبت کے قصے ہیں یہ۔ (مسند احمد بن حنبل جلد 7 صفحہ 781 حدیث 23966 مسند ابو ایوب انصاریؓ مطبوعہ عالم الکتب بیروت) (صحیح مسلم الاشربہ باب اباحۃ اکل الثوم … الخ حدیث 5356) (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد 1 صفحہ 183 ذکر خروج رسول اللہﷺ … الخ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)

خیبر کی جنگ میں یہودی سردار جو جنگ میں مارا گیا تھا اس کی بیٹی صفیہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عقد میں آئیں تو رخصتانے کے اگلے دن جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم صبح نماز پڑھانے کے لئے باہر آئے تو دیکھا کہ ابو ایوب انصاری باہر پہرہ پر کھڑے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا کیا وجہ ہے کہ تم پہرے پر کھڑے ہو۔ انہوں نے عرض کی کہ حضرت صفیہ کے عزیز رشتہ داروں کو ہمارے ہاتھوں نقصان پہنچا ہے۔ کچھ مارے بھی گئے ہیں۔ اس لئے مجھے خیال پیدا ہوا کہ کوئی شرارت نہ کرے۔ کوئی آ کے اپنا بدلہ لینے کی کوشش نہ کرے۔ اس لئے مَیں پہرے کے لئے آ گیا تھا۔ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے حق میں یوں دعا کی کہ اے اللہ! ابوایوب کو ہمیشہ اپنی حفاظت اور امان میں رکھنا جس طرح رات بھر یہ میری حفاظت کے لئے مستعد رہا ہے۔

حضرت ابوایوب جنگ روم میں بھی شامل ہوئے۔ باوجود اس کے کہ آپ بوڑھے ہو چکے تھے لیکن صرف اس لئے شامل ہوئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قسطنطنیہ کے بارے میں جو پیش خبری تھی اس کو آپ دیکھ سکیں۔ بہرحال اس دوران میں آپ بیمار بھی ہو گئے۔ جب آپ سے آپ کی آخری خواہش کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے کہا کہ تمام مسلمانوں کو میرا سلام کہنا اور میری قبر دشمن کے علاقے میں جہاں تک جا سکتے ہو وہاں جا کر بنانا۔ چنانچہ آپ کی وفات کے بعد رات کے وقت آپ کا جنازہ دشمن کی سرزمین میں جہاں تک لے جایا جا سکتا تھا لے جایا گیا اور وہاں آپ کی تدفین ہوئی۔ ان کی قبر آج بھی ترکی میں ہے اور دیکھنے والے بتاتے ہیں، بعض روایتیں ایسی بھی ہیں کہ لوگوں نے بعض بدعات والی روایتیں بھی بنا لی ہیں کہ ان سے مانگتے ہیں۔ ان سے تو بہرحال نہیں مانگتے لیکن دعا جو اُن کی قبر پہ کی جائے وہ قبول بھی ہوتی ہے۔ (السیرۃ الحلبیۃ جلد 3 صفحہ 65 غزوہ خیبر مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2002ء) (اسد الغابہ جلد 2صفحہ 123 خالد بن زید بن کلیبؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1996ء)

تو بہرحال بعد میں یہ بعض کہانیاں بھی بن جاتی ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کی حفاظت اور امان کی جو دعا کی تھی اس کا نتیجہ یہ ہے کہ آپ نے بہت سی جنگوں میں شمولیت کی اور ہر جگہ غازی بن کر آئے اور بڑی لمبی عمر پائی۔