حضرت ابودُجَانہؓ

خطبہ جمعہ 13؍ نومبر 2020ء

ابو دُجَانہ حضرت سِمَاک بن خَرَشہؓ۔ حضرت ابودُجَانہؓ کا تعلق انصار کے قبیلہ خزرج کی شاخ بنو ساعدہ سے ہے۔ حضرت ابودُجَانہ کے والد کا نام خَرَشَہ تھا۔ بعض کہتے ہیں کہ اوس تھا اور ان کے دادا کا نام خرشہ تھا۔ حضرت ابودُجَانہ کی والدہ کا نام حَزْمَہ بنت حَرْمَلہ تھا۔ آپؓ اپنے نام کی نسبت اپنی کنیت ابودُجَانہ سے زیادہ مشہور تھے۔ حضرت ابودُجَانہ کا ایک بیٹا تھا جس کا نام خالد تھا اور اس کی والدہ کا نام آمنہ بنت عمرو تھا۔ (اسد الغابہ جلد 2 صفحہ 317 سِمَاکْ بِنْ خَرَشَہ مطبوعہ دارالفکر بیروت لبنان 2003ء) (الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 419 اَبُوْ دُجَانَہ مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان 1990ء)

حضرت عتبہ بن غزوانؓ مکے سے ہجرت کر کے جب مدینہ پہنچے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اور حضرت ابودُجَانہ کے درمیان مؤاخات قائم فرمائی۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 420 اَبُوْ دُجَانَہ مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان 1990ء)

حضرت ابودُجَانہ غزوۂ بدر، احد اور دیگر تمام غزوات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ رہے۔ (اسد الغابہ جلد 2 صفحہ 317 سِمَاکْ بِنْ خَرَشَہ مطبوعہ دارالفکر بیروت لبنان 2003ء)

حضرت ابودُجَانہؓ کا شمار انصار کے کبار صحابہ میں ہوتا تھا اور انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات میں نمایاں حیثیت حاصل تھی۔ (الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب جلد 2 صفحہ 212 سِمَاکْ بِنْ خَرَشَہ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان 2010ء)

جب جنگ ہوتی تو حضرت ابودُجَانہ بہت شجاعت کا اظہار کرتے اور وہ کمال کے گھوڑ سوار تھے۔ ان کے پاس سرخ رنگ کا ایک رومال تھا جسے وہ صرف جنگ کے وقت سر پر باندھتے تھے۔ جب وہ سرخ رومال سر پر باندھتے تو لوگوں کو علم ہو جاتا کہ اب وہ لڑائی کے لیے تیار ہیں۔ حضرت ابودُجَانہ کا شمار دلیر اور بہادر لوگوں میں ہوتا تھا۔ (اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ جلد 5 صفحہ 96 اَبُوْ دُجَانَہ سِمَاکْ بِنْ خَرَشَہ مطبوعہ دارالفکر بیروت لبنان 2003ء)

محمد بن ابراہیم اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابودُجَانہ جنگوں میں اپنے سرخ عمامے کی وجہ سے پہچانے جاتے تھے اور غزوۂ بدر میں بھی یہ ان کے سر پر تھا اور محمد بن عمر کہتے ہیں کہ حضرت ابودُجَانہ غزوۂ احد میں بھی اسی طرح شامل ہوئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ثابت قدم رہے اور موت پر آپؐ سے بیعت کی۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 420 اَبُوْ دُجَانَہ دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان 1990ء)

غزوۂ احد کے دن حضرت ابودُجَانہؓ اور حضرت مصعب بن عُمَیرؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بھرپور دفاع کیا۔ حضرت ابودُجَانہ شدید زخمی ہو گئے تھے اور حضرت مصعب بن عمیرؓ اس دن شہید ہوئے۔ (الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب جلد 4 صفحہ 209 اَبُوْ دُجَانَہ انصاری مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان 2010ء)

حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے احد کے دن ایک تلوار پکڑی اور فرمایا۔ مَنْ یَاْخُذُ مِنِّیْ ھٰذَا؟ اسے مجھ سے کون لے گا؟ سب نے اپنے ہاتھ بڑھائے اور ان میں سے ہر ایک نے کہا۔ مَیں۔ مَیں۔ آپؐ نے پھر فرمایا: فَمَنْ یَاْخُذُہٗ بِحَقِّہٖ۔ کون اس کو اس کے حق کے ساتھ لے گا؟ حضرت انسؓ کہتے ہیں اس پر لوگ رک گئے تو حضرت سِمَاک بن خَرَشہ ابودُجَانہؓ نے کہا کہ مَیں اس کو اس کے حق کے ساتھ لیتا ہوں۔ حضرت انسؓ کہتے ہیں کہ انہوں نے تلوار لی اور مشرکوں کے سر پھاڑ دیے۔ یہ مسلم کی حدیث ہے۔ (صحیح مسلم کتاب فضائل الصحابہ باب من فضائل ابی دُجَانہ سِمَاکْ بِنْ خَرَشَہ حدیث: 6353)

ایک دوسری روایت میں آتا ہے کہ حضرت ابودُجَانہؓ نے پوچھا اس کا حق کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس سے کسی مسلمان کو قتل نہ کرنا اور اس کے ہوتے ہوئے کسی کافر کے مقابل پر نہ بھاگنا یعنی ڈٹ کر مقابلہ کرنا۔ اس پر حضرت ابودُجَانہؓ نے عرض کیا میں اس تلوار کو اس کے حق کے ساتھ لیتا ہوں۔ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابودُجَانہؓ کو تلوار دی تو انہوں نے اس سے مشرکین کے سر پھاڑ دیے۔ انہوں نے اس موقعے پر یہ اشعار پڑھے

أَنَا الَّذِیْ عَاھَدَنِیْ خَلِیْلِیْ         

وَنَحْنُ بِالسَّفْحِ لَدَی النَّخِیْلِ

اَنْ لَّا أَقُوْمَ الدَّھْرَ فِی الْکَیُوْلِ                          

             أَضْرِبْ بِسَیْفِ اللّٰہِ وَالرَّسُوْل

مَیں وہ ہوں جس سے میرے دوست نے وعدہ لیا ہے جبکہ ہم سَفح مقام پر کھجور کے درختوں کے پاس تھے اور وہ وعدہ یہ ہے کہ میں لشکر کی پچھلی صفوں میں نہ کھڑا ہوں اور اللہ اور رسولؐ کی تلوار سے دشمنوں سے لڑائی کروں۔ حضرت ابودُجَانہؓ تفاخرانہ چال چلتے ہوئے لشکر کی صفوں کے درمیان چلنے لگے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ اِنَّ ھٰذِہٖ مِشْیَۃٌ یُبْغِضُھَا اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ اِلَّا فِیْ ھٰذَا الْمُقَامِ۔ کہ یہ ایسی چال ہے جو اللہ عز وجل کو ناپسند ہے سوائے اس مقام کے یعنی جنگ کے موقعے پر۔ (الاصابۃ فی تمییز الصحابہ جلد 7 صفحہ 100 اَبُوْ دُجَانَہ الانصاری دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان 2005ء) (اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ جلد 2 صفحہ 317 سِمَاکْ بِنْ خَرَشَہ مطبوعہ دارالفکر بیروت لبنان 2003ء)

حضرت زبیر بن عوامؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے احد کے دن ایک تلوار پیش کی اور فرمایا: مَنْ یَاْخُذُ ھٰذَا السَّیْفَ بِحَقِّہٖ کہ کون ہے جو اس تلوار کو اس کے حق کے ساتھ لے گا؟ حضرت زبیرؓ کہتے ہیں میں کھڑا ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مَیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے اعراض فرمایا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا کون ہے جو اس تلوار کو اس کے حق کے ساتھ لے گا؟ میں نے پھر عرض کیا یارسول اللہ مَیں۔ آپؐ نے پھر مجھ سے اعراض فرمایا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا کون ہے جو اس تلوار کو اس کے حق کے ساتھ لے گا؟ حضرت ابودُجانہ سِمَاک بن خَرَشہؓ کھڑے ہوئے اور عرض کیا یار سول اللہؐ ! مَیں اس تلوار کو اس کے حق کے ساتھ لیتا ہوں اور اس کا حق کیا ہے؟ آپؓ نے فرمایا اس سے کسی مسلمان کو قتل نہ کرنا اور اس کے ہوتے ہوئے کسی کافر سے نہ بھاگنا، ڈٹ کر مقابلہ کرنا۔ حضرت زبیرؓ کہتے ہیں کہ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تلوار ابودُجَانہ کو عطا فرمائی اور ابودُجَانہ کی یہ عادت تھی کہ جب جنگ کا ارادہ کرتے تو سرخ رومال سر پر باندھ لیتے تھے۔ حضرت زبیرؓ کہتے ہیں کہ مَیں نے کہا آج میں دیکھوں گا کہ یہ کس طرح اس تلوار کا حق ادا کرتا ہے۔ حضرت زبیرؓ کہتے ہیں کہ ابودُجَانہ کے سامنے جو بھی آیا وہ اس کو ہلاک کرتے اور کاٹتے ہوئے آگے بڑھنے لگے یہاں تک کہ وہ لشکر سے گزر کر ان کی عورتوں کے سروں پر جا پہنچے جو پہاڑ کے دامن میں دَف بجا رہی تھیں اور ان میں سے ایک عورت یہ کہہ رہی تھی۔ یہ شعر پڑھ رہی تھی۔ اس کا ترجمہ یہ ہےکہ ہم طارق صبح کے ستارے کی بیٹیاں ہیں جو بادلوں پر چلتی ہیں۔ اگر تم آگے بڑھو گے تو ہم معانقہ کریں گی اور بیٹھنے کے لیے تکیے لگائیں گی اور اگر تم پیٹھ پھیر گئے تو ہم تم سے جدا ہو جائیں گی۔ یہ ایسی جدائی ہو گی کہ پھر تم میں اور ہم میں محبت کا کوئی تعلق باقی نہ رہے گا۔

حضرت زبیرؓ کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ ابودُجَانہ نے ایک عورت پر تلوار چلانے کے لیے اپنا ہاتھ اٹھایا اور پھر روک لیا۔ جب جنگ ختم ہوئی تو مَیں نے ان سے کہا مَیں نے تمہاری ساری لڑائی دیکھی ہے۔ تم نے ایک عورت پر ہاتھ اٹھایا اور پھر نیچے کر لیا۔ اس کی کیا وجہ تھی؟ انہوں نے کہا اللہ کی قسم! مَیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوار کی تکریم کی کہ اس کے ذریعے کسی عورت کو قتل کروں۔ یہ نہیں ہو سکتا تھا کہ مَیں کسی عورت کے قتل کے لیے رسول کریمﷺ کی تلوار استعمال کروں اس لیے مَیں رک گیا۔ ایک اَور روایت میں ہے کہ یہ عورت ہند زوجہ ابوسفیان تھی جو دیگر عورتوں کے ساتھ مل کر گانے گا رہی تھی۔ جب اس پر حضرت ابودُجَانہ نے اپنی تلوار بلند کی تو اس نے مدد کے لیے بلند آواز سے کہا اے صخر! لیکن کوئی مدد کو نہ آیا۔ حضرت ابودُجَانہؓ نے اپنی تلوار نیچے کر لی اور واپس چلے گئے۔ حضرت زبیرؓ کے دریافت کرنے پر انہوں نے کہا کہ میں نے ناپسند کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوار سے کسی عورت کو ماروں جس کا کوئی مددگار نہیں تھا۔ (المستدرک علی الصحیحین جلد 3 صفحہ 440، 441 کتاب معرفۃ الصحابہ ذکر مناقب ابی دُجَانہ روایت نمبر 5088 مطبوعہ دارالفکر بیروت 2002ء) (شرح علامہ زرقانی علی المواہب اللدنیہ جلد 2 صفحہ 406، 407کتاب المغازی باب غزوۃ احددارالکتب العلمیۃ بیروت 1996ء)

حضرت ابودُجَانہؓ کے اس واقعے کا ذکر کرتے ہوئے سیرت خاتم النبیینؐ میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے اسے اس طرح بیان فرمایا ہے کہ مبارزت میں جب کفار قریش کو ہزیمت اٹھانی پڑی تو کفار نے یہ نظارہ دیکھا تو غضب میں آ کر عام دھاوا بول دیا۔ مسلمان بھی تکبیر کے نعرے لگاتے ہوئے آگے بڑھے اور دونوں فوجیں آپس میں گتھم گتھا ہوگئیں۔ غالباً اسی موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تلوار ہاتھ میں لے کر فرمایا۔ کون ہے جو اسے لے کر اس کا حق ادا کرے؟بہت سے صحابہ نے اس فخر کی خواہش میں اپنے ہاتھ پھیلائے۔ جن میں حضرت عمرؓ اور زبیر بلکہ بعض روایات کی رو سے حضرت ابوبکرؓ اور حضرت علیؓ بھی شامل تھے۔ مگرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ روکے رکھا اور یہی فرماتے رہے کہ کوئی ہے جو اس کا حق ادا کرے؟ آخر ابودُجَانہ انصاری نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا اور عرض کیا۔ یارسول اللہ مجھے عنایت فرمایئے۔ آپؐ نے یہ تلوار انہیں دے دی اور ابو دُجَانہ اسے ہاتھ میں لے کر تبخترکی چال سے یعنی بڑے فخر سے اور اکڑتے ہوئے کفار کی طرف آگے بڑھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہؓ سے فرمایا خدا کو یہ چال ناپسند ہے مگر ایسے موقع پر ناپسندنہیں۔ زبیر جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوار لینے کے سب سے زیادہ خواہش مند تھے اور قرب رشتہ کی وجہ سے اپنا حق بھی زیادہ سمجھتے تھے، دل ہی دل میں پیچ وتاب کھانے لگے کہ کیا وجہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے یہ تلوار نہیں دی اور ابودُجَانہ کو دے دی اور اپنی اس پریشانی کو دور کرنے کے لیے انہوں نے دل میں عہد کیا کہ میں اس میدان میں ابودُجَانہ کے ساتھ ساتھ رہوں گا اور دیکھوں گا کہ وہ اس تلوار کے ساتھ کیا کرتا ہے۔ چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ ابودُجَانہ نے اپنے سر پر ایک سرخ کپڑا باندھا اور اس تلوار کو لے کر حمد کے گیت گنگناتا ہوا مشرکین کی صفوں میں گھس گیا اور میں نے دیکھا کہ جدھر جاتا تھا گویا موت بکھیرتا جاتا تھا اور میں نے کسی آدمی کو نہیں دیکھا جو اس کے سامنے آیا ہو اور پھر وہ بچا ہو۔ حتی کہ وہ لشکر ِقریش میں سے اپنا راستہ کاٹتا ہوالشکر کے دوسرے کنارے نکل گیا جہاں قریش کی عورتیں کھڑی تھیں۔ ہند زوجہ ابوسفیان جوبڑے زورشور سے اپنے مردوں کو جوش دلارہی تھی اس کے سامنے آئی اور ابو دُجَانہ نے اپنی تلوار اس کے اوپر اٹھائی جس پر ہندنے بڑے زور سے چیخ ماری اور اپنے مردوں کوامداد کے لیے بلایا مگر کوئی شخص اس کی مدد کو نہ آیا۔ زبیر کہتے ہیں کہ لیکن مَیں نے دیکھا کہ ابودُجَانہ نے خود بخود ہی اپنی تلوار نیچی کرلی اور وہاں سے ہٹ آیا۔ زبیر روایت کرتے ہیں کہ اس موقع پر میں نے ابودُجَانہ سے پوچھا کہ یہ کیا ماجرا ہے کہ پہلے تم نے تلوار اٹھائی پھر نیچے کر لی۔ اس نے کہا کہ میرا دل اس بات پر تیار نہیں ہواکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوار ایک عورت پر چلاؤں اور عورت بھی وہ جس کے ساتھ اس وقت کوئی مرد محافظ نہیں۔ زبیر کہتے ہیں میں نے اس وقت سمجھا کہ واقعی جو حق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوار کاابودُجانہ نے اداکیا ہے وہ شاید مَیں نہ کرسکتا اور میرے دل کی خلش دورہوگئی۔ (ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ صفحہ 489، 490)

حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے اس واقعہ کو یوں بیان فرمایا ہے۔ فرماتے ہیں کہ احد کی جنگ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک تلوار پیش کی اور فرمایا یہ تلوار مَیں اس شخص کو دوں گا جو اس کا حق ادا کرنے کا وعدہ کرے۔ بہت سے لوگ اس تلوار کو لینے کے لیے کھڑے ہوئے۔ آپؐ نے ابودُجَانہ انصاری کو وہ تلوار دی۔ لڑائی میں ایک جگہ مکہ والوں کے کچھ سپاہی ابودُجَانہ پر حملہ آور ہوئے۔ جب آپ ان سے لڑ رہے تھے تب آپ نے دیکھا کہ ایک سپاہی سب سے زیادہ جوش کے ساتھ لڑائی میں حصہ لے رہا ہے۔ آپؓ نے تلوار اٹھائی اور اس کی طرف لپکے لیکن پھر اس کو چھوڑ کر واپس آ گئے یعنی حضرت دُجَانہ نے تلوار اٹھائی، اس کی طرف لپکے لیکن پھر چھوڑ کے واپس آ گئے۔ آپ کے کسی دوست نے پوچھا کہ آپ نے اسے کیوں چھوڑ دیا تو انہوں نے جواب دیا کہ جب اس کے پاس گیا تو اس کے منہ سے ایک ایسا فقرہ نکلا جس سے مجھے معلوم ہو گیا کہ وہ مردنہیں عورت ہے۔ ان کے ساتھی نے کہا۔ بہرحال وہ سپاہیوں کی طرح فوج میں لڑ رہی تھی پھر آپ نے اسے چھوڑا کیوں؟ ابودُجَانہ نے کہا میرے دل نے برداشت نہ کیا کہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دی ہوئی تلوار کو ایک کمزور عورت پر چلاؤں۔ حضرت مصلح موعودؓ پھر فرماتے ہیں کہ غرض آپ صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں کے ادب اور احترام کی ہمیشہ تعلیم دیتے تھے جس کی وجہ سے کفار کی عورتیں زیادہ دلیری سے مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتی تھیں مگر پھر بھی مسلمان ان باتوں کو برداشت کرتے چلے جاتے تھے۔ (ماخوذ از تفسیر کبیر جلد 2صفحہ 421، 422)

ابودُجَانہ کے متعلق مشہور مستشرق سرولیم میور لکھتے ہیں کہ جنگ کی ابتدا میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تلوار لی اور فرمایا کون یہ تلوار اس کے حق کے ساتھ لے گا؟ عمر، زبیر اور بہت سے صحابہ نے لینے کی خواہش کی لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع کر دیا۔ آخر میں ابودُجَانہ نے عرض کیا تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو دے دی اور انہوں نے اس کے ساتھ کافروں کے سر تن سے جدا کرنے شروع کر دیے۔ (LIFE OF MAHOMET by Sir William Muir, pg: 269 Smith Elder& co, Waterloo place London 1878)

پھر وہ لکھتے ہیں کہ ’’مسلمانوں کے خطرناک حملوں کے سامنے مکی لشکر کے پاؤں اکھڑنے لگ گئے۔ قریش کے رسالے نے کئی دفعہ یہ کوشش کی کہ اسلامی فوج کے بائیں طرف عقب سے ہو کر حملہ کریں مگر ہر دفعہ ان کو ان پچاس تیر اندازوں کے تیر کھا کر پیچھے ہٹنا پڑا جو محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے وہاں خاص طور پر متعین کیے ہوئے تھے۔ مسلمانوں کی طرف سے احد کے میدان میں بھی وہی شجاعت و مردانگی اور موت و خطر سے وہی بےپروائی دکھائی گئی جو بدر کے موقعہ پر انہوں نے دکھائی تھی۔ مکہ کے لشکر کی صفیں پھٹ پھٹ جاتی تھیں جب اپنی خَود کے ساتھ سرخ رومال باندھے ابودُجَانہ ان پر حملہ کرتا تھا اور اس تلوار کے ساتھ جو اسے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے دی تھی چاروں طرف گویا موت بکھیرتا جاتا تھا۔ حمزہؓ اپنے سر پر شتر مرغ کے پروں کی کلغی لہراتا ہوا ہر جگہ نمایاں نظر آتا تھا۔ علیؓ اپنے لمبے اور سفید پھریرے کے ساتھ اور زبیرؓ اپنی شوخ رنگ کی چمکتی ہوئی زرد پگڑی کے ساتھ بہادرانِ اِلْیَڈ کی طرح جہاں بھی جاتے تھے دشمن کے واسطے موت و پریشانی کا پیغام اپنے ساتھ لے جاتے تھے۔ یہ وہ نظارے ہیں جہاں بعد کی اسلامی فتوحات کے ہیرو تربیت پذیرہوئے۔‘‘ (سیرت خاتم النبیینؐ صفحہ 490)

یہ سارا بیان جو پہلے میں نے پڑھا ہے یہ سیرت خاتم النبیینؐ میں ہے۔

حضرت ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم احد سے لوٹے تو اپنی بیٹی فاطمہ کو اپنی تلوار دی اور فرمایا اے بیٹی! اس سے خون کو دھو دو۔ حضرت علیؓ نے بھی اپنی تلوار ان کو دی اور کہا اس سے بھی خون دھو دو۔ اللہ کی قسم ! آج اس نے میرا خوب ساتھ دیا ہے۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر تم نے لڑنے کا حق ادا کر دیا ہے تو یقیناً سَہْل بن حُنَیف اور ابودُجَانہ نے بھی لڑنے کا حق ادا کیا ہے۔ ایک روایت میں سَہْل بن حُنیف کی بجائے حارث بن صِمَّہ کا نام بھی آتا ہے۔ (اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ جلد 2 صفحہ 317 سِمَاکْ بِنْ خَرَشَہ مطبوعہ دارالفکر بیروت لبنان 2003ء) (الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 420 اَبُوْ دُجَانَہ دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان 1990ء)

زید بن اسلم بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابودُجَانہؓ کے پاس لوگ آئے جبکہ آپؓ بیمار تھے لیکن آپؓ کا چہرہ بہت چمک رہا تھا۔ کسی نے پوچھا کہ آپؓ کا چہرہ کیوں چمک رہا ہے؟ تو حضرت ابودُجَانہؓ نے کہا میرے اعمال میں سے میرے دو کام ایسے ہیں جو میرے نزدیک بہت زیادہ وزنی اور پختہ ہیں۔ پہلا یہ کہ میں کبھی ایسی بات نہیں کرتا جس کا مجھ سے تعلق نہ ہو۔ دوسرا یہ کہ میرا دل مسلمانوں کے لیے ہمیشہ صاف رہتا ہے۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 420 اَبُوْ دُجَانَہ مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان 1990ء)

حضرت ابودُجَانہؓ جنگِ یمامہ میں شہید ہوئے۔ مسیلمہ کذاب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جھوٹی نبوت کا دعویٰ کر کے مدینہ پر لشکر کشی کا ارادہ کیا تو حضرت ابوبکرؓ نے اس کی سرکوبی کے لیے 12؍ہجری میں لشکر روانہ کیا۔ حضرت ابودُجَانہؓ بھی اس لشکر کا حصہ تھے۔ حضرت ابودُجَانہؓ نے جنگ یمامہ میں سخت لڑائی کی اور شہادت کا رتبہ حاصل کیا۔ بنو حَنِیْفَہ (قدیم عرب قبیلہ جس کے ایک بڑے حصے نے مسیلمہ کذاب کے زیر قیادت مدینہ کے خلاف بغاوت کی تھی) کا یمامہ میں باغ تھا جس میں محصور ہو کر وہ لڑ رہے تھے اور مسلمانوں کو اندر جانے کا موقع نہیں مل رہا تھا۔ حضرت ابودُجَانہ نے مسلمانوں سے کہا کہ مجھے باغ کے اندر پھینک دو۔ مسلمانوں نے ایسا ہی کیا لیکن ان کے دوسری طرف گرنے سے ان کی ٹانگ ٹوٹ گئی لیکن پھر بھی وہ باغ کے دروازے پر لڑتے رہے اور مشرکین کو وہاں سے ہٹا دیا اور مسلمان اندر داخل ہو گئے۔ حضرت ابودُجَانہ، مسیلمہ کذاب کے قتل میں عبداللہ بن زید اور وحشی بن حرب کے ساتھ شامل تھے اور یمامہ کے دن آپ نے شہادت پائی۔ (اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ جلد 2 صفحہ 318 سِمَاکْ بِنْ خَرَشَہ مطبوعہ دارالفکر بیروت لبنان 2003ء) (الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب جلد 4 صفحہ 209 أَبُوْ دُجَانَہ الانصاری مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان 2010ء) (الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 420 اَبُوْ دُجَانَہ مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان 1990ء) (اردو دائرہ معارف اسلامیہ جلد 8 صفحہ 695 شعبہ اردو لاہور)

ایک روایت میں آتا ہے کہ حضرت ابودُجَانہؓ نے جنگ ِصفین میں حضرت علیؓ کی طرف سے لڑتے ہوئے وفات پائی تھی لیکن یہ روایت کمزور ہے۔ پہلی روایت زیادہ صحیح اور بکثرت مذکور ہے۔ (اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ جلد 2 صفحہ 318 سِمَاکْ بِنْ خَرَشَہ مطبوعہ دارالفکر بیروت لبنان 2003ء)

مَیں پہلے بھی یہ بیان کر چکا ہوں۔ یہاں پہ کچھ حصہ بیان کر دیتا ہوں جس کا حضرت ابودُجَانہؓ سے تعلق ہے۔ ابودُجَانہ انصاری تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ ہجرت سے پہلے اسلام قبول کیا تھا۔ مدینہ کے رہنے والے تھے۔ ان کو بھی یہ اعزاز حاصل تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جنگ بدر میں شامل ہوئے اور انتہائی بہادری کے جوہر دکھائے۔ اسی طرح احد کی جنگ میں بھی انہیں شمولیت کی توفیق ملی اور جنگ کا رخ پلٹنے کے بعد یعنی جب مسلمان پہلے جیت رہے تھے پھر رخ پلٹا اور ایک جگہ چھوڑنے کی وجہ سے کافروں نے دوبارہ حملہ کیا اور جنگ کا پانسہ مسلمانوں کے خلاف ہو گیا تو جو صحابہ اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب رہ گئے تھے ان میں حضرت ابودُجَانہ بھی شامل تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دفاع میں یہ انتہائی زخمی بھی ہوئے لیکن ان زخموں کے باوجود یہ پیچھے نہیں ہٹے۔ ایک دفعہ بیماری میں اپنے ساتھی کو کہنے لگے کہ شاید میرے دو عمل اللہ تعالیٰ قبول کر لے ایک یہ کہ میں کوئی لغو بات نہیں کرتا۔ غیبت نہیں کرتا۔ لوگوں کے پیچھے ان کی باتیں نہیں کرتا۔ دوسرے یہ کہ کسی مسلمان کے لیے میرے دل میں کینہ اور بغض نہیں ہے۔ (ماخوذ از خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 16 مارچ 2018ء بحوالہ الفضل انٹرنیشنل مورخہ06تا 12اپریل 2018ء جلد25شمارہ14صفحہ 5)

خطبہ جمعہ 16؍ مارچ 2018ء

ایک صحابی ابودجانہ انصاریؓ تھے انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ ہجرت سے پہلے اسلام قبول کیا تھا۔ مدینہ کے رہنے والے تھے۔ ان کو بھی یہ اعزاز حاصل تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جنگ بدر میں شامل ہوئے اور انتہائی بہادری کے جوہر دکھائے۔ اسی طرح اُحد کی جنگ میں بھی شمولیت کی انہیں توفیق ملی اور جنگ کا رخ پلٹنے کے بعد، یعنی جب مسلمان پہلے جیت رہے تھے تو پھر رخ پلٹا اور ایک جگہ چھوڑنے کی وجہ سے کافروں نے دوبارہ حملہ کیا اور جنگ کا پانسہ مسلمانوں کے خلاف ہو گیا تو جو صحابہ اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب رہ گئے تھے ان میں حضرت ابودجانہ بھی شامل تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دفاع میں یہ انتہائی زخمی بھی ہو گئے تھے لیکن ان زخموں کے باوجود یہ پیچھے نہیں ہٹے۔ (سیر الصحابہ جلد 3 صفحہ 207 حضرت ابو دجانہ انصاریؓ مطبوعہ دار الاشاعت کراچی 2004ء) (الاستیعاب جلد 4 صفحہ 1644 ابو دجانہ ؓ مطبوعہ دار الجیل بیروت 1992ء)

یہ واقعہ بھی آپ کے متعلق روایت میں آتا ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تلوار بلند کر کے ایک موقع پر فرمایا کہ کون ہے جو آج اس تلوار کا حق ادا کرے گا تو حضرت ابودجانہ انصاری ہی آگے بڑھے تھے اور کہا تھا کہ مَیں اس بات کا عہد کرتا ہوں کہ اس تلوار کا حق ادا کروں گا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا یہ جذبہ دیکھ کر ان کو تلوار دے دی۔ پھر انہوں نے دوبارہ جرأت کر کے پوچھا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! اس تلوار کا حق ادا کس طرح ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ تلوار کسی مسلمان کا خون نہیں بہائے گی۔ دوسرے اس سے کوئی دشمن کافر بچ کر نہیں جائے گا۔ (صحیح مسلم کتاب فضائل الصحابہ باب من فضل ابودجانہؓ … الخ حدیث 6353) (کنز العمال جلد 4 صفحہ 339 حدیث 10792 مطبوعہ موسسۃ الرسالۃ بیروت 1985ء)

دشمن کافر، وہ کافر جو دشمنی کرنے والے ہیں، جو اسلام کے خلاف جنگ کرنے والے ہیں یہ ان کے خلاف استعمال کرنی ہے۔ آپ یہ تلوار لے کر بڑے فخر سے اور اکڑ کر میدان جہاد میں آئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عام حالات میں تو اللہ تعالیٰ کو بڑائی کا اس قسم کا اظہار جو ہے پسندنہیں ہے۔ لیکن آج میدان جنگ میں ابودجانہ کی اکڑ کر چلنے کی جو ادا ہے یہ اللہ تعالیٰ کو بہت پسند آئی ہے۔ (اسد الغابہ جلد 6 صفحہ 93 ابو دجانہؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1996ء)

جنگ یمامہ میں مسیلمہ کذّاب کے خلاف جنگ کرتے ہوئے آپ نے شہادت پائی۔ انہوں نے بڑی بہادری سے قلعہ کا دروازہ کھولنے کے لئے (وہ قلعہ کے اندر بند ہو گیا تھا اور دروازہ بند کرلیا تھا) ایک تدبیر کی اور اپنے ساتھیوں کو کہا کہ مجھے دیوار سے اندر پھینک دو۔ بڑی اونچی فصیل تھی۔ اس طرح جب ان کو پھینکا گیا تو گرنے سے ان کی ٹانگ بھی ٹوٹ گئی لیکن اس کے باوجود بڑی بہادری سے لڑتے ہوئے قلعہ کا دروازہ کھول دیا اور مسلمان اندر داخل ہو گئے۔ حیرت انگیز جرأت اور مردانگی کا اظہار تھا جو انہوں نے کیا۔ لیکن بہرحال اس حالت میں لڑتے ہوئے وہ شہید ہوئے۔ (اسد الغابہ جلد 2 صفحہ 551 سماک بن خرشہؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1996ء)

ایک دفعہ بیماری میں اپنے ساتھی کو کہنے لگے کہ شاید میرے دو عمل اللہ تعالیٰ قبول کر لے۔ ایک یہ کہ میں کوئی لغو بات نہیں کرتا۔ غیبت نہیں کرتا۔ لوگوں کے پیچھے ان کی باتیں نہیں کرتا۔ دوسرے یہ کہ کسی مسلمان کے لئے میرے دل میں کینہ اور بغض نہیں ہے۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد 3صفحہ 420باب ابو دجانہؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)