حضرت ابو عبس بن جبر ؓ

خطبہ جمعہ 31؍ اگست 2018ء

ان کے والد کا نام جبر بن عمرو تھا۔ ان کی وفات 34 ہجری میں ستر سال کی عمر میں ہوئی۔ ان کا اصل نام عبدالرحمٰن تھا اور کنیت ابوعبس تھی۔ آپ کا تعلق انصار کے قبیلہ بنوحارثہ سے تھا۔ زمانہ جاہلیت میں ان کا نام عبدالعزیٰ تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو بدل کر عبدالرحمٰن کر دیا تھا۔ عُزّیٰ ان کے بُت کا نام تھا اس لئے بدلا اور عبدالرحمٰن کر دیا۔ آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوہ بدر سمیت تمام غزوات میں شریک رہے۔ کعب بن اشرف یہودی کو جن اصحاب نے قتل کیا یہ بھی ان میں شامل تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوعبس اور حضرت خُنَیس کے درمیان مؤاخات قائم فرمائی۔ چونتیس ہجری میں ستر برس کی عمر میں آپ کی وفات ہوئی۔ مکہ میں آپ کی کثیر اولاد موجود تھی۔ حضرت عثمان نے جنازہ پڑھایا اور جنت البقیع میں ان کی تدفین ہوئی۔ (اسد الغابہ جلد 5صفحہ 204-205مطبوعہ دار الفکر بیروت 2003ء) (الاصابہ فی تمییز الصحابہ جلد 7صفحہ 222مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2005ء) (الطبقات الکبریٰ جلد 3صفحہ 238مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت 1996ء) حضرت ابو عبس بن جبر کے بارے میں مروی ہے کہ اسلام کی بعثت سے پہلے بھی آپ عربی لکھنا جانتے تھے حالانکہ اس وقت عرب میں لکھنے کا رواج بہت کم تھا۔ حضرت ابو عبس اور حضرت ابوبُردہ بن نَیار نے جب اسلام قبول کیا اس وقت دونوں نے بنوحارثہ کے بتوں کو توڑ دیا تھا۔ حضرت عمر اور حضرت عثمان اُنہیں لوگوں سے صدقہ وصول کرنے کے لئے بھیجا کرتے تھے یعنی کہ مال کا شعبہ بھی ان کے پاس تھا۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 3صفحہ 238مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت 1996ء) زمانہ نبوی میں حضرت ابو عبس کی آنکھ کی بینائی چلی گئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو ایک عصا دیتے ہوئے فرمایا کہ اس سے روشنی حاصل کرو۔ چنانچہ وہ عصاآپ کے آگے روشنی کیا کرتا تھا۔ (الاصابہ فی تمییز الصحابہ جلد 7صفحہ 222مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2005ء) ایک تو یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ یہ سوٹی تمہارے ہاتھ میں ہو گی اور جس طرح نابینا اپنی سوٹی استعمال کرتے ہیں، چلتے ہوئے مدد دے گی۔ لیکن یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس سے روشنی بھی نکلتی ہو اور بعض دفعہ رات کے وقت میں کم نظر آتا ہو تو اس سے روشنی نکلتی ہو کیونکہ بعض اور صحابہ کے بارے میں بھی یہ روایت ملتی ہے کہ بعض دفعہ اندھیرے میں وہ سفر کر رہے ہوتے تھے تو ان کے عصا سے روشنی نکلتی تھی۔ (مسند احمد بن حنبل جلد 4صفحہ 693 حدیث 13906 مسند انس بن مالکؓ مطبوعہ عالم الکتب بیروت 1998ء) بلکہ ایک روایت یہ بھی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے تین صحابہ سفر کر رہے تھے اور رات اندھیری تھی تو ان کو بھی اسی طرح اللہ تعالیٰ نے یہ نظارہ دکھایا کہ روشنی ان کے آگے آگے چلتی رہی۔ (ماخوذ)

حضرت ابوعبس کے ایک بیٹے روایت بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابوعبس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز ادا کیا کرتے تھے اور پھر اپنے قبیلہ بنو حارثہ کی طرف چلے جایا کرتے تھے۔ ایک دفعہ ایک اندھیری رات میں جب بارش بھی ہو رہی تھی آپ اپنے گھر کی طرف جا رہے تھے تو آپ کے عصا سے روشنی نکلنا شروع ہو گئی جس نے آپ کے لئے راستے میں روشنی کر دی۔ (المستدرک علی الصحیحین جلد 6 صفحہ 2028 حدیث 5495 مطبوعہ مکتبہ نزار المصطفیٰ الباز)

حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ کی بیماری کے دوران ان کی عیادت کے لئے تشریف لائے تو یہ بیہوشی کی حالت میں تھے۔ جب افاقہ ہوا تو حضرت عثمان نے کہا کہ آپ اپنے آپ کو کس حالت میں پاتے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ ہم اپنی حالت اچھی دیکھتے ہیں سوائے ایک اونٹ کا گھٹنا باندھنے والی رسّی کے جو ہم سے اور عُمّال سے غلطی سے کھو گئی تھی۔ ابھی تک ہم اس سے خلاصی نہیں پا سکے۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 3صفحہ 238مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت 1996ء) یہ عُمّال میں سے تھے جیسا کہ میں نے بتایا کہ مال صدقہ وغیرہ چندہ وغیرہ جمع کرنے کے لئے ان کو بھیجا جاتا تھا۔ ذمہ داری اور ایمانداری کا یہ معیار تھا کہ اونٹ باندھنے والی ایک رسّی غلطی سے گم گئی اور اسی وجہ سے زندگی کے آخر تک بے چین رہے۔ مرض الموت میں بھی خیال آیا تو یہی کہ یہ رسّی جو ہے اگلے جہان میں کہیں ہمارے لئے ابتلا نہ بن جائے۔ تو یہ وہ لوگ تھے جو اللہ تعالیٰ کے خوف اور ایمانداری کے ایسے معیار رکھتے تھے۔

حضرت انس سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ جلدی نماز عصر پڑھنے والا کوئی نہ تھا یعنی وقت کے لحاظ سے پہلے وقت میں نماز عصر پڑھ لیا کرتے تھے۔ انصار میں سے دو آدمی ایسے تھے جن کا گھر مسجدنبوی سے سب سے زیادہ دور تھا۔ ایک حضرت ابولبابہ بن عبدالمنذر تھے جن کا تعلق بنی عمرو بن عوف سے تھا اور دوسرے حضرت ابو عبس بن جبر تھے جن کا تعلق بنوحارثہ سے تھا۔ ابولبابہ کا گھر قبا میں تھا اور حضرت ابوعبس کا گھر بنو حارثہ میں تھا۔ اور کافی فاصلے پر دو اڑھائی میل دور تھا۔ یہ دونوں اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھتے اور جب اپنی قوم میں واپس پہنچتے تو انہوں نے تب تک وہاں نماز عصر نہ پڑھی ہوتی تھی۔ (مسند احمد بن حنبل جلد 4صفحہ 607حدیث 12516مطبوعہ عالم الکتب بیروت 1998ء)تو یہ ان لوگوں کا تیز چلنے کا معیار بھی ہے اور یہ بھی کہ فاصلہ طے کر کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھنے آیا کرتے تھے۔

حضرت عبداللہ بن عبس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس شخص نے اپنے قدم اللہ تعالیٰ کی راہ میں گرد آلود کئے اللہ تعالیٰ نے اس پر آگ حرام کر دی۔ (مسند احمد بن حنبل جلد 5صفحہ 469حدیث 16031مطبوعہ عالم الکتب بیروت 1998ء) یعنی اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنے والے، اللہ تعالیٰ کی رضا پر چلنے والے، اپنے آپ کو مشقت میں ڈالنے والے لوگ اس میں شامل ہیں۔ اور اسی طرح دعوت الی اللہ کے لئے سفر کرنے والے بھی اور وہ لوگ بھی جو ایک لمبے فاصلے سے مسجد میں نماز باجماعت کے لئے آتے ہیں یہ سب لوگ ان لوگوں میں شامل ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان لوگوں پر آگ حرام کی گئی ہے۔