اتحاد و یک جہتی کی ضامن صرف خلافت حقہ ہے

محمد صدیق گورداسپوری، نائب وکیل التبشیر

آج ساری امت مسلمہ غیرمعمولی افتراق ، انتشار اور غربت و افلاس اور ذہنی و فکری پسماندگی کا شکار ہے۔ اس افتراق اور زبوں حالی کو دو ر کرنے کے لئے اور اتحاد و اتفاق اور اجتماعیت کی فضا پیدا کرنے کے لئے مختلف اوقات میں مختلف تحریکیں جنم لیتی رہی ہیں لیکن آخر وہی ہوتا رہا جس کی نشان دہی قرآ ن کریم میں آئی ہے کہ ’’ تحسبھم جمیعاً و قلوبھم شتی‘‘ کہ بظاہر یہ ایک ہیں مگر ان کے دل انتشار کا شکار ہیں ۔ بہرحال یہ بات واضح ہے کہ مسلمانوں کو متحد کرنے اور ان کے اختلافات کو دور کرنے کے لئے جو بھی تحریک اٹھی اس کو ناکامی کامنہ دیکھنا پڑا۔

سوچنے کی بات ہے کہ آخر ایسا کیوں ہے اور مسلمانوں کو متحد کرنے کی تمام تر کوششیں ناکام کیوں ہو رہی ہیں۔ اور اسلام کے نام پر اٹھنے والی تحریکیں بجائے خدا تعالیٰ کی محبت اور تائید کو جذب کرنے کے اس کے قہر کا مورد بن رہی ہیں۔ کیوں مسلمانوں کی ایسی کسمپرسی کی حالت میں قرون اولیٰ میں تو خدا کی رحمت جوش میں آ جاتی تھی اور اب نہیں آ رہی؟ اس امر پر غور کرنے اور سوچنے کے بعد اور قرآن کریم اور احادیث کے مضمون کے مطالعہ کے بعد نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ اس کی اصل بنیادی وجہ یہی ہے کہ مسلمان اپنے قول وفعل میں تضاد کی وجہ سے اس نعمت خداوند ی سے محروم ہو چکے ہیں جو ان کو متحد کرنے کی ضامن تھی جس کا وعدہ ان سے خدا تعالیٰ نے سور ہ النور کی آیت استخلاف میں ان الفاظ میں دیا تھا:

(وعداللہ الذین آمنوا منکم و عملوا الصٰلحٰت یستخلفنھم فی الارض کما استخلف الذین من قبلھم ۔۔۔۔۔۔ الخ) ( آیت ۵۶)۔

کہ اللہ تعالیٰ نے تم میں سے ایسے لوگوں سے جو ایمان لائے اور اعمال صالحہ بجا لائے ہیں ا ن سے وعدہ کیا ہے کہ ان میں ایسے ہی خلفاء بنائے گا جیسے کہ ان سے پہلے لوگوں میں بنائے تھے۔

ظاہر ہے کہ یہ وعدہ خلافت علی منہاج النبوۃ کا تھا یعنی آنحضرت ﷺ نے واضح پیش گوئی فرمائی تھی کہ آخری زمانے میں میرے ہی روپ میں میرا ہی ایک روحانی فرزند مبعوث ہوگا یعنی مسیح موعود ؑ و مہدی معہود جس کے ذریعہ سے دین حق کی نشأۃ ثانیہ مقدر تھی پھر اس کی وفات کے بعد خلافت علی منھاج النبوۃ قائم ہوگی جو قیامت تک جاری رہے گی اور مومنین کو متحد رکھنے اور ان کے اندر اجتماعیت کی روح قائم رکھنے کی ضامن ہوگی۔ پس مسلمانوں کی زبوں حالی کی وجہ یہ ہے کہ وہ ایک واجب الاطاعت امام اور خلافت جیسی نعمت سے محروم ہیں۔ اور مسیح موعود ومہدی معہود جن کو خدا تعالیٰ نے عین وقت مقررہ پر مبعوث فرمایا اور آ پ کی وفات کے بعد سلسلہ خلافت کو جاری فرمایا اس کے انکار کی وجہ سے مورد عذاب الٰہی بن چکے ہیں۔

مسلمانوں کے سرکردہ لیڈر اور مذہبی رہنما اس بات کا خود اظہار کر رہے ہیں کہ ہماری ذلت اور رسوائی کا سب سے بڑا سبب یہی ہے کہ ہمارا کوئی امام نہیں ، ہمارا کوئی روحانی رہنما نہیں ، ہمار ا کوئی پرسان حال نہیں ۔چنانچہ ابویاسر فاروقی صاحب لکھتے ہیں :

’’ قیام پاکستان سے لے کر آج تک اسلامی اصولوں کے مطابق وطن عزیز میں خلیفہ کا انتخاب نہیں ہو سکا ۔ انہوں نے کہا کہ خلیفہ اللہ کی زمین پر اللہ تعالیٰ کا نائب ہوتا ہے جو احکام خداوندی کا خود بھی پابند ہوتا ہے اور عامۃ الناس پہ احکام نافذ کر کے عمل کرانے کا پابند ہوتا ہے‘‘۔(نوائے وقت لاہور، ۲۵؍ جولائی ۱۹۹۰ء)

پھر پروفیسر خالد محمود ترمذی بھی خلافت کی ضرورت اور موجود ہ حالات کا علاج بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’ آخر میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ انسانی عقل جو مخلوق ہے بغیر اپنے خالق کی رہنمائی اور ہدایت کے اپنے جیسے انسانوں کی رہنمائی نہیں کر سکتی ۔ خالق حقیقی نے اپنے بندوں کی ہدایت اور رہنمائی کے لئے انبیاء بھیجے ۔ انہوں نے ہمیں صحیح راستہ دکھایا۔

تا خلافت کی بنا ہو پھر جہاں میں استوار

لا کہیں سے ڈھونڈ کر اسلاف کا قلب و جگر

قرآن نے خود ہی اصول وضع کیا کہ بارہا ہم نے اقلیت کو اکثریت پر فتح عطا کی ہے یعنی اکثریت اور اقلیت اللہ کی نظر میں کوئی وقعت نہیں رکھتی، اہمیت ہے تو حق کی۔ حق کی طرف ہے، کس کے ساتھ ہے۔ اقلیت کے ساتھ ہے تو وہی حق ہے خواہ باطل کے ساتھ کتنی بڑی اکثریت کیوں نہ ہو وہ بہرحال باطل ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ کسی نبی کے ساتھ کبھی کوئی قابل ذکر اکثریت نہیں رہی سوائے حضرت نبی اکرم ﷺ کے تو کیا وہ انبیاء حق پر نہیں تھے نعوذباللہ۔ میرا ایمان ہے کہ اس طرح ایک وقت آئے گا کہ جمہوریت کا بھوت لوگوں کے سر سے اتر جائے گا اور لوگ اسلام اسلام پکاریں گے خلافت دوبارہ جمہوریت کی جگہ لے لے گی ،انشاء اللہ۔‘‘( روزنامہ جنگ ۳۱ ؍ جولائی ۱۹۹۰ء)۔

جناب واصف علی واصف یا الٰہی ، یا الٰہی کے زیر عنوان بڑی پرسوز دعا کرتے ہیں جس میں التجا کرتے ہیں:

’’ یا الٰہی ہمیں لیڈروں کی یلغار سے بچا ۔۔۔ ہمیں ایک قائد عطا فرما، ایسا قائد جو تیرے حبیب کے تابع فرمان ہو ۔۔۔۔۔۔ اس کی اطاعت کریں تو تیری ہی اطاعت کے حقوق ادا ہوتے رہیں‘‘۔ؔ (نوائے وقت لاہور ۲۶؍ ستمبر ۱۹۹۱ء)

یہی نہیں بلکہ وہ ایک نبی کی آمد کے بھی طلب گار ہیں ۔ مرزا اسلم بیگ صاحب کالم ’’ خیریت مطلوب ہے‘‘ کے تحت ’جان ناتواں اور منہ زور سیاست کا کارواں ‘ کے عنوان سے لکھتے ہیں:

’’ پاکستان کی قوم ماشاء اللہ یہ بہت بگڑی ہوئی قوم ہے۔ ہر ناجائز کام کو نہایت جائز سمجھتی ہے۔ فرقوں، برادریوں اور علاقوں میں تقسیم ہو چکی ہے۔ قوم کے افراد ایک دوسرے کا گلا کاٹنے اور جیب کاٹنے میں مصروف ہیں۔ ہنگامے ، بلوے ان کی عادت بن چکی ہے ۔ظاہرہے کہ ایسی قوم کی نگرانی کوئی معمولی کام ہرگز نہیں ۔ ہم نے قرآن حکیم میں بھی پڑھا ہے اور تاریخ بھی بتاتی ہے کہ آخری نبی آنے سے پہلے جب بھی قوموں میں نبی بھیجے گئے تو پھر ایسی ہی حالت ہوتی تھی اور قوموں کی یہی نشانیاں ہوتی تھیں جن کا میں اوپر ذکر کر چکا ہوں۔ اب نبی پیغمبر تو آ نہیں سکتے البتہ نگران آتے جاتے رہیں گے‘‘۔(روزنامہ جنگ ۲۹ ؍ جولائی ۱۹۹۳ء)

پھر بعض نگران وزراء اعظم کا ذکر کرتے ہیں کہ اب پاکستان کے مسلمانوں کی اصلاح ان کی نگرانی ہوگی۔ یہ عجیب و غریب منطق ہے کہ پہلے خود ہی ایک مفروضہ بنا لیا کہ آنحضرت ﷺ کی بعثت کے بعد چونکہ نبوت کا دروازہ بند ہو چکا ہے اور خدا تعالیٰ کے قائم کردہ نظام ہدایت پر قدغن لگ چکی ہے لہذا اب اصلاح احوال کاکام جو پہلے خدا تعالیٰ کے انبیاء کرتے تھے اب محض دنیاوی لیڈروں اور سیاسی نگرانوں کے ذریعہ سرانجام پائے گا۔ جب کسی قوم کی بدقسمتی کے دن آتے ہیں تو ان پر ایسے ہی لیڈر مسلط کر دئے جاتے ہیں ۔ کیا ایسے لوگ جن کی اپنی زندگی مشکوک ہو، جن پر رشوت ستانی، اقرباء پروری، شراب نوشی، غبن ، خیانت اور قومی دولت کو لوٹنے کے الزامات ہوں وہ کیا خاک دوسروں کی اصلاح کریں گے ایسے لوگوں کو چاہئے کہ عقل کے ناخن لیں اور تعصب اور جہالت کی پٹی اپنی آنکھوں سے اتار کر حقائق کی دنیا میں آئیں اور قرآ ن کریم نے جو علاج ایسی برائیوں کا تجویز کیا ہے اس کو اپناتے ہوئے راہ نجات تلاش کریں۔

پھر مولانا مودودی صاحب بھی انہی خیالات کا اظہار کرتے ہیں کہ اب قوم کو کسی نبی کی تلاش ہے جو ان کی رہنمائی کر سکے۔ چنانچہ آپ لکھتے ہیں:

’’اکثر لوگ اقامت دین کی تحریک کرنے کے لئے کسی ایسے مرد کامل کو ڈھونڈتے ہیں جو ان میں سے ایک ایک شخص کے تصور کمال کا مجسمہ ہو اور جس کے سارے پہلو قوی ہی قوی ہوں اور کوئی پہلو کمزور نہ ہو ۔ دوسرے الفاظ میں یہ لوگ دراصل نبی کے طالب ہیں۔ اگرچہ زبان سے ختم نبوت کا اقرار کرتے ہیں اور کوئی اجرائے نبوت کا نام بھی لے تواس کی زبان گدی سے کھینچنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں مگر اندر سے ان کے دل ایک نبی مانگتے ہیں نبی سے کم کسی پر راضی نہیں‘‘۔(ترجمان القرآن دسمبر وجنوری ۴۳۔۱۹۴۲ء صفحہ ۴۰۱)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کیا خوب فرمایا ؂

آسماں سے ہے چلی توحید خالق کی ہوا

دل ہمارے ساتھ ہیں گو منہ کریں بک بک ہزار

پس اس حقیقت کو ہر مسلمان محسوس کر رہا ہے کہ مسلمانوں کی یک جہتی اور ان کے اندر اتحاد و اتفاق کا سامان صرف اور صرف نظام خلافت سے ہی ہو سکتا ہے۔ اس وجہ سے اس نظام کے احیاء کے لئے مختلف اوقات میں مختلف تحریکیں جنم لیتی رہیں اور اس وقت بھی موجود ہیں۔ مگر وہ اس حقیقت کو بھول جاتے ہیں کہ خلافت حقہ تو کسی نبی کی بعثت کے بعد ہی قائم ہوا کرتی ہے۔ خلافت کا نظام جاری کرنا کسی فرد یا ملت کا کام نہیں۔ یہ نظام خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں رکھا ہے اور اتحاد و اتفاق کی ناقابل تسخیر کیفیت اور تعلق باللہ میں ترقی کے ذریعہ نصرت الٰہی کا حصول خلافت کے آسمانی نظام کے ذریعہ ہی حاصل ہوتا ہے۔ خلافت ایک حبل اللہ المتین ہے جو قومی وحدت اور ملی شیرازہ بند ی کا واحد ذریعہ ہے۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ’’ الامام جنۃ یقاتل من وراۂ‘‘ کہ امام تو ایک ڈھال ہوتا ہے جس کے پیچھے کھڑے ہو کر دشمن سے لڑائی کی جاتی ہے اورجب کوئی امام نہ ہو تو قومیں پراگندہ ہو جاتی ہیں، ان کے اندر انتشار اور افتراق کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے جیسا کہ اب ہم مسلمانوں میں دیکھ رہے ہیں۔

مسلمانوں کی یہی کیفیت دیکھ کر اللہ تعالیٰ نے امت مرحومہ پر رحم فرمایا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اپنے مکالمہ و مخاطبہ سے مشرف فرمایا تا آپ دلوں میں پھر سے حقیقی ایمان کو زند ہ کریں اورحقیقی معرفت جو دنیا سے گم ہو چکی تھی اور حقیقی تقویٰ و طہارت جو مفقود ہو چکا تھا وہ دوبارہ قائم کریں ۔ آپ فرماتے ہیں ؂

مسیح وقت اب دنیا میں آیا

خدا نے عہد کا دن ہے دکھایا

مبارک وہ جو اب ایمان لایا

صحابہ سے ملا جومجھ کو پایا

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد خدا تعالیٰ نے خلافت کے نظام کو جاری فرمایا۔ پس آج روئے زمین پر صرف اور صرف جماعت احمدیہ ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے خلافت کے آسمانی نظام کی نعمت سے سرفراز فرمایا ہے اور انہیں ایک واجب الاطاعت امام کے ہاتھ پر اکٹھا کر کے انکے اندر اتحاد و اتفاق ، یکجہتی اور یگانگت قائم فرما دی ہے اور وہ اس حبل اللہ کو مضبوطی سے پکڑے ہوئے ہیں۔ باوجود وسائل کی کمی اور قلت تعداد کے اور مخالفتوں کے طوفانوں اور مصائب کی آندھیوں کے اسلام کو دنیا میں سربلند اور غالب کرنے میں وہ کارہائے نمایاں سرانجام دینے کی توفیق پا رہی ہے کہ ایک دنیا اس پہ حیران و ششدر ہے کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ ایک مٹھی بھر اور کمزور جماعت اتنا عظیم الشان کام کس طرح سرانجام دے رہی ہے ۔یہ سب کچھ خلافت کی برکت ہے۔

خلفائے جماعت احمدیہ نے جماعت کو متحد کرنے اور آپس میں الفت و محبت پیدا کرنے کے لئے جو مختلف اوقات میں درس دئے ، اس بنا پر ہر احمدی دوسرے احمدی کے لئے دل میں بے پایاں محبت رکھتا ہے ۔ آپ کسی ملک میں چلے جائیں ، کسی احمدی کا دروازہ کھٹکھٹائیں وہ آپ کو دل کی گہرائیوں سے محبت اور پیار کے جذبات سے ملے گا ، کھلے ہاتھوں سے آپ کا استقبال کرے گا ، آپ کے لئے کسی غیر ملک میں کوئی غیر یت نہیں رہے گی۔

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ ا س حقیقت کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’ جماعت احمدیہ ایک ہی جماعت ہے جو ۱۴۰ ممالک میں ( اب تو ۱۹۰ ممالک سے بھی زائد ہیں ۔ ناقل) منتشر پھیلی ہوئی ہونے کے باوجود پھر بھی ایک جمعیت رکھتی ہے ، ایک مرکز رکھتی ہے اور دور دور پھیلے ہوئے احمدیوں کے دل بھی آ پس میں جڑے ہوئے ہیں ۔ ایک تکلیف کسی احمدی کو خواہ پاکستان میں پہنچے خواہ بنگلہ دیش میں ہندوستان میں یا کسی اور ملک میں اس تکلیف کی خبر جب دنیا میں پھیلتی ہے جماعت احمدیہ خواہ دنیا کے کسی ملک سے تعلق رکھتی ہو، یوں محسوس کرتی ہے کہ یہ ہماری تکلیف ہے اور عجیب خدا کی تقدیر کا حصہ ہے کہ جیسے میں آپ کے لئے غمگین ہوتا ہوں ، جماعت میرے لئے غمگین ہوتی ہے کہ اس غم سے مجھے زیادہ تکلیف نہ پہنچے او ر ایسے موقع پر مجھ سے تعزیت کا اظہار کیا جاتا ہے۔ اورایسی سادگی اور بھولے پن سے جیسے وہ اس بات پر مقرر کئے گئے ہیں کہ میری دلداری کریں۔‘‘ (الفضل ۲۵؍ جولائی ۱۹۹۴ء) ( خطبہ فرمودہ ۲۴؍ جون ۱۹۹۴ء ٹورنٹو کینیڈا)

پس جماعت احمدیہ میں خلافت کی برکات سے ایک مضبوط اخوت و محبت کا رشتہ قائم ہو چکا ہے اور خلفائے احمدیت نے اس روحانی رشتے کو مضبوط سے مضبوط تر کرنے میں جو کاوشیں کی ہیں اس کی ایک جھلک ذیل میں پیش کی جاتی ہے:

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد پہلے جانشین حضرت الحاج مولانا نورالدین ؓ تھے ۔ آپ نے ایک موقع پر فرمایا:

’’ یہی تمہارے لئے بابرکت راہ ہے تم اس حبل اللہ کو اب مضبوط پکڑ لو ۔ یہ محض خدا ہی کی رسی ہے جس نے تمہارے متفرق افراد کو اکٹھا کر دیا ہے۔ پس اسے مضبوط پکڑے رکھو‘‘۔ (بدر یکم فروری ۱۹۱۲ء)

پھر آپ فرماتے ہیں:

’’تم شکر کروکہ ایک شخص کے ذریعہ تمہاری جماعت کا شیرازہ قائم ہے ، اتفاق بڑی نعمت ہے اور یہ مشکل سے حاصل ہوتا ہے ، یہ خدا کا فضل ہے کہ تم کو ایسا شخص دے دیاجو شیرازہ وحدت قائم رکھے جاتا ہے‘‘۔( بدر ۲۴؍ اگست ۱۹۱۱ء)

پھر آپ نے جماعت کو آپس میں محبت و الفت بڑھانے کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا:

’’یہاں آنے والوں کے واسطے ضروری ہے کہ ایک دوسرے سے میل ملاپ کریں ، پتہ مقام دریافت کریں، نام نشان پوچھیں اور آپس میں تعارف حاصل کریں۔ یہ بھی راہ ہے وحدت کے پیدا ہونے کی اور اگر کوئی کہے چلو جی ہمیں کیا ہم تو پنجاب کے اور یہ ہندوستان کے اس سرے کے ہم تو آپس میں ملیں بیٹھیں اوروں سے کیا غرض و غایت تو وہ نادان نہیں سمجھتا یہ امر وحدت کے متضاد ہے۔ چاہئے کہ ہر ایک یہاں کے آنے والے کے نام و نشان سے بخوبی واقف ہو اور آگاہی ہو اور ایک دوسرے کے حالات پوچھتے جاویں اس طرح سے تعلق ہو جاتے ہیں ۔ خدا کی طرف سے آنے والے وحدت چاہتے ہیں۔ اخوان کے معنے اور مفہوم بھی یہی ہیں کہ وہ آپس میں ایک دوسرے کو جاننے پہچاننے والے ہوں۔ خدا تعالیٰ تمہاری محبتوں ، بختوں، جانفشانیوں کو رحم سے دیکھے اور قبول کرے اور آخر تک استحکام اور ا ستقلال بخشے۔ یہاں تک کہ کوچ کا وقت آ جائے اور تم اپنے اقرار کے پورے پکے رہنے والے ہو اور اللہ کی رضا کے حاصل کرنے والے اور مقدم کرنے والے ہو‘‘(خطبہ ۳۰؍ مارچ ۱۹۰۳ء، الفضل ۱۹؍ مئی ۱۹۹۴ء)

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی المصلح الموعودؓ کاجب دور آیا تو جماعت میں ایک گروہ جو اپنے آپ کو بزعم خویش جماعت کی تمام تر ترقیات نظام اور اس کے اتحاد و اتفاق کا ذمہ دار سمجھتا تھا اس نے جماعتی شیرازہ بند ی کو بکھیرنے کی کوشش کی اور اپنے آپ کو خلافت کے بابرکت نظام سے الگ ہو کر لاہورمیں جا قیام کیا اور یہ سمجھ لیا کہ ان کے جانے سے یہ جماعت نعوذباللہ ختم ہو جائے گی اور قادیان کا کوئی رخ نہیں کرے گا۔ ایسے حالات میں حضرت خلیفۃالمسیح الثانی ؓ نے جس حکمت و دانش ، جوانمردی اور الٰہی بصیرت سے جماعت کو متحد رہنے اور آپس میں اخوت و محبت کے قائم رکھنے کے لئے دن رات درس و تدریس اور وعظ و نصیحت سے کام لیا اور خلافت کی برکات پہ جو ارشاد ات فرمائے وہ تاریخ احمدیت کا ایک روشن باب ہیں جن کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ کے فضل سے جماعت کا وہ حصہ تو دن دگنی رات چوگنی ترقی کرتا چلا گیا جو خلافت کے دامن سے وابستہ تھا لیکن جو حصہ خلافت سے الگ ہو گیا تھا دن بدن افتراق و انتشار کا شکار ہوتا چلا گیا ، ان کی اولادیں احمدیت سے الگ ہو گئیں اور اب وہ اپنی ناکامی اور نامراد ی کا خود منہ دیکھ رہے ہیں۔

حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے خلافت سے وابستگی اور اس کی برکات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا تھا:

’’ خدا چاہتا ہے کہ جماعت کا اتحاد میرے ہی ہاتھ پہ ہو اور خدا کے اس ارداہ کو اب کوئی نہیں روک سکتا ۔ کیا وہ دیکھتے نہیں کہ ان کے لئے ( یعنی غیر مبایعین کے لئے) صرف دو ہی راہ کھلے ہیں یا تو وہ میری بیعت کر کے جماعت میں تفرقہ کرنے سے باز رہیں یا اپنی نفسانی خواہشات کے پیچھے پڑ کر اس پاک باغ کو جسے پاک لوگوں نے اپنے خون کے آنسوؤں سے سینچا ہے اکھاڑ کر پھینک دیں ۔ جو کچھ ہو چکا ، ہوچکا۔ مگر اب اس میں کوئی شک نہیں کہ جماعت کا اتحاد ایک ہی طریق سے ہو سکتا ہے کہ جسے خدا نے خلیفہ بنایا ہے اس کے ہاتھ پر بیعت کی جائے ورنہ ہر ایک شخص جو اس کے خلاف چلے گا تفرقہ کا باعث ہوگا‘‘۔(الفضل ۱۸؍ فروری ۱۹۵۸ء، تقریر لاہور)

پھر آپؓ نے قوموں کی ترقی کا راز بیان کرتے ہوئے فرمایا:

’’دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ قوموں نے اتفاق کے ذریعہ ہی ترقی حاصل کی ہے ۔ وہ جماعتیں جو مالدار ہوں اور کثرت افراد کے لحاظ سے بھی بہت زیادہ ہوں۔ وہ تفرقہ اور نفاق کیوجہ سے ان چھوٹی چھوٹی جماعتوں کا مقابلہ نہیں کر سکتیں جن میں جتھا اور اجتماع اوراتفاق اور اتحاد پایا جاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ جن جماعتوں نے ایک جان ہو کر پورے اتفاق و اتحاد سے رہنے سے بڑی بڑی طاقتوں اور جماعتوں کا مقابلہ کیا ہے وہ ضرور کامیاب ہوئی ہیں اور کوئی ان کا مقابلہ نہیں کر سکا‘‘۔(خطبہ جمعہ ۲۲ ؍ مارچ ۱۹۱۸ء، الفضل ۱۸؍ مئی ۱۹۹۵ء)

پھر جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:

’’ کسی جماعت کی ترقی کے لئے اس بات کی ضرورت ہوتی ہے کہ اس کے سب افراد آپس میں ایک ہو جائیں ۔ جب تک کوئی جماعت فرد واحد کی طرح نہیں ہوجاتی ترقی نہیں کر سکتی۔ خواہ وہ جماعت دینی ہو یا دنیوی کیونکہ تمام کامیابیوں اور ترقیوں کے لئے خدا تعالیٰ نے یہ قاعدہ جاری کیا ہوا ہے کہ جب تک سا ری جماعت ایک نہ ہو جائے ، لڑنا جھگڑنا ، دشمنی، نفاق و حسد و کینہ ، بغض و عداوت کو چھوڑ نہ دے اس وقت تک ترقی نہیں کر ے گی‘‘۔(الفضل ۱۰؍ مئی ۱۹۹۲ء)

خلافت سے وابستگی کی برکت کے بارہ میں فرمایا:

’’ جب تک تم اس کو پکڑے رکھو گے تو کبھی دنیا کی مخالفت تم پر اثر نہ کر سکے گی۔ بیشک افراد مریں گے ، مشکلات آئیں گی ، تکالیف پہنچیں گی مگر جماعت کبھی تباہ نہیں ہوگی بلکہ وہ دن بدن بڑھے گی‘‘۔(درس القرآن ۱۹۲۱ء ، صفحہ ۷۳، بحوالہ خالد مئی ۱۹۹۱ء)

حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے خلافت کی برکات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:

’’حضرت مسیح موعود ؑ کے وصال سے اس روشنی نے جو اللہ تعالیٰ نے نازل کی تھی چمکنا بند نہیں کر دیا ۔ حضور کا وصال ہو گیا لیکن وہ روشنی اپنی جگہ قائم ہے اور ماحول کو باقاعدہ اور مسلسل منور کر رہی ہے۔ اور مردوں اورعورتوں کو ان کی حقیقی منزل کی طرف رہنمائی کر رہی ہے ۔۔۔۔۔۔ روشنی چمک رہی ہے اور اس کی شعاعیں حضور کے خلفاء کے ذریعہ اکناف عالم میں پہنچ رہی ہیں۔ ان خلفاء کو چھو ڑ کر نہ کہیں روشنی ہے نہ حقیقی رہنمائی‘‘۔( خطبہ جمعہ ۱۴؍ مئی ۱۹۲۰ء، خالد مئی ۱۹۷۸ء)

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ نے تو اس موضوع پر سیرحاصل بحث کی ہے اور اپنے متعدد خطبات، تقاریر اور خطابات میں اس پر روشنی ڈالی ہے اور جماعت کو خدا تعالیٰ کی اس نعمت کی قدردانی اور شکرگزاری کی طرف توجہ دلائی ہے۔ چنانچہ آپ فرماتے ہیں:

’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وساطت سے اس زمانے میں ہم نے ایک زندگی پائی ۔ وہ زندگی جو ہمیشہ سے تھی مگر وہ مردہ تھے جن پر وہ اثر نہیں کر رہی تھی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آمد سے ہم نے اسے زندہ محسوس کیا اور اس زندگی سے ہمارے محبت کے رشتے زندہ ہو گئے ۔ ہمار ے دل دوبارہ دھڑکنے لگے ۔ ہم میں اجتماعیت کا احساس پیدا ہوا۔ یہ جب تک زندہ رہے گا ہم دنیا کو امت واحدہ بناتے رہیں گے۔ یہ طاقت ہمیں خدا سے نصیب ہوئی ہے کوئی دنیا کی طاقت یہ طاقت ہم سے چھین نہیں سکتی اور اس کی وجہ وہی ہے جو میں بیان کر چکا ہوں۔ اس کو سمجھیں ، اس پر قائم ہو جائیں تو آپ بڑی قوت کے ساتھ نئے آنے والوں کو اپنے ساتھ کھینچیں گے اور یہ اجتماعیت کادائرہ بڑھتا چلا جائے گا۔ اللہ کرے کہ ہمیں آنحضرت ﷺ کی ان نصیحتوں کو سمجھنے اور حرز جان بنانے کی ، یعنی جان میں سب سے پیارا وجود سمجھنے کی طاقت عطا فرمائے۔‘‘( خطبہ جمعہ ۱۰؍ جون ۱۹۹۲ء ، الفضل ۱۲؍ اگست ۱۹۹۲ء)

پھر فرمایا:

’’ جماعت احمدیہ کے تعلقات کا دائرہ اتنا وسیع ہے کہ دنیا میں کوئی اور جماعت اور کوئی قوم یہ دعویٰ نہیں کر سکتی کیونکہ کثرت کے ساتھ اللہ کے نام پر ایک جگہ اکٹھے ہونے والے جو مختلف ملکوں قوموں اور مختلف تہذیبوں سے تعلق رکھتے ہیں کہیں اور اکٹھے نہیں ہوتے اور آپس میں پھر ایک دوسرے سے ان کی محبتیں نہیں بڑھتیں۔ انگلستان کی جماعت میں جب تک یہ انٹرنیشنل جلسہ شروع نہیں ہوا تھا ان کو اس بات کا ذائقہ ہی نہیں تھا کہ یہ کیا چیز ہوتا ہے۔ اتفاقاً کوئی باہر سے آ گیا اور شامل ہو گیا ۔ اب یہ دیکھتے ہیں کہ کس طرح پر جلسے پر دنیا بھر سے لوگ کھنچے چلےآتے ہیں اور مختلف رنگوں اور مختلف نسلوں کے اورجب ایک مقامی آدمی کی نظر پڑتی ہے تو بلا شبہ محبت کی نظر پڑتی ہے ۔ کئی دفعہ گزرتے ہوئے میں نے دیکھا ہے کہ کوئی غیرملکی کھڑے ہیں اور ساتھ ارد گرد مقامی لوگ جھمگھٹا کر کے کھڑے ہیں اور بڑے غور سے اور پیار سے ان کو دیکھ رہے ہیں اور ہر ایک کی خواہش یہ ہوتی ہے کہ مصافحے کرے اور ان سے تعلقات بڑھائے ۔ یہی حال آنے والوں کو ہوتا ہے ۔ جاتے ہیں تو بھیگی آنکھوں کے ساتھ واپس جاتے ہیں اور واپس جا کر جو خطوط لکھتے ہیں ان سے پتہ لگتا ہے کہ مقامی لوگوں سے ہی نہیں جو دوسرے ملکوں سے وہاں آئے تھے ان سے بھی ان کے تعلقات بڑے گہرے ہو گئے ہیں پھر آپس میں خط و کتابت چل پڑتی ہے ۔۔۔۔۔۔ اس مضمون کو نئے آنے والوں کے تعلق میں بیان کر چکا ہوں۔ آج پھر آپ کو نصیحت کرتا ہوں کہ یہ جو خدا نے آپ کو نعمت عطا فرمائی ہے اور آپ کو معلوم بھی نہیں تھا کہ کیسے عطا ہوئی ہے ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے واسطے سے دوبارہ عطا ہوئی ہے۔ پس اس نعمت کو یاد رکھیں ۔ اللہ نے دوبارہ یہ نعمت اپنے فضل سے عطا کی ہے اور نعمت کے سوا دل نہیں باندھے جا سکتے۔ اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا تصور اپنے میں سے نکا ل دیں تو آپ میں سے کسی کو دوسرے کی پرواہ نہیں رہے گی اور اس تعلق کو خلافت آگے بڑھا رہی ہے اور وہ تعلق پھر خلافت کی ذات میں مرکوز ہوتا ہے اور پھر آگے چلتا ہے‘‘۔(خطبہ جمعہ ۱۰؍ جون ۱۹۹۰ء، الفضل ۷؍ اگست ۱۹۹۱ء)

جلسہ سالانہ ۱۹۹۴ء پر عالمی بیعت کا ذکر کرتے ہوئے حضور نے فرمایا:

’’یہ خدا تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کے عالمی اجتماع کا ایک نظارہ دکھانا تھا ۔۔۔ جماعت احمدیہ ہے جو خلافت کے ذریعہ ایک ہاتھ پر اس طرح اکٹھی ہو گئی ہے کہ ایک جسم کے ٹکڑوں کی طرح ساری دنیا کی جماعت بن چکی ہے اور کس طرح بے ساختگی کے ساتھ جگہ جگہ سے بے قرار فون آنے لگے ۔ ہمارا بھی ذکر کرو، ہمارا بھی ذکر کرو، ہمارا بھی ذکر کرو۔ مشرق سے مغرب سے شمال سے جنوب سے ہر طرف دنیا کے تمام باشندے مختلف ملکوں سے تعلق رکھنے والے اس ایک عالمی جسم کے وجودکا ایک حصہ بن چکے تھے ۔حصہ تو تھے لیکن جس شان سے خدا نے ایک وجود کے حصے کے طور پر ان کو دکھایا۔ ایک ایسی کیفیت تھی جس کے لئے نشے کے سوا کوئی لفظ مجھے ملتا نہیں اور دیر تک نشے کی کیفیت رہی‘‘۔

پھر جماعت کواجتماعیت کی اہمیت کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا:

’’ اس ضمن میں خصوصیت سے آپ کو یہ توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ اکٹھے رہیں ۔ آپ نے ایک اجتماع کا مرکز دیکھا تھا اور اجتماعیت کا جو نظارہ آپ کے علم میں تھا مگر اس طرح آنکھوں کے سامنے نہیں ابھرا تھا۔ وہ آنکھوں کے سامنے ابھرا ہے ۔تب آپ کو معلوم ہوا ہے کہ ایک ہاتھ پہ ، ایک مرکز پہ اکٹھا ہونا کس کو کہتے ہیں۔ اس لئے آج جو میں نے آپ کے سامنے آیت تلاوت کی ہے اس کا اس مضمون سے تعلق ہے کہ آپ اپنی اجتماعیت کی حفاظت کریں۔ ایک دوسرے کے ساتھ وابستہ رہیں، چمٹے رہیں۔ کوئی ایسی بات نہ کریں جو کسی جگہ بھی جماعت کے ایک وجود میں کسی طرح رخنہ پیدا کرے سکے‘‘۔

خدا تعالیٰ کے اس احسان پر کہ اس نے محض اپنے فضل سے جماعت کو خلافت کے ذریعہ ایک اجتماعیت کی نعمت سے نوازا ہے ۔ شکرگزاری کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’ پس وہ خدا کااحسان کہ آپ کواکٹھے کر دیا آج یہ دوسری صورت میں ظاہر ہوا ہے ۔ آج پھر بھائی بنائے گئے ہو لیکن خدا کی قسم اب جو بنائے گئے ہو انشاء اللہ تعالیٰ قیامت تک بنائے رکھے گا تمہیں، اگر تم انکساری کے ساتھ خدا تعالیٰ کی نعمت کا شکر ادا کرتے ہوئے زندگیاں بسر کرو گے تو اس نعمت کو کوئی تم سے چھین نہیں سکے گا‘‘۔(خطبہ جمعہ ۵؍ اگست ؁۱۹۹۴ء، الفضل ۲۳؍ اگست ؁۱۹۹۴ء)

اللہ تعالیٰ ہمیں اس عظیم نعمت کی قدر کرنے کی توفیق بخشے اور اپنے شکر گزار بندوں میں شامل فرمائے۔

(الفضل انٹرنیشنل ۲۳؍مئی ؁۱۹۹۷ء تا ۲۹؍مئی ؁۱۹۹۷ء)