کیا احمدیت لوگوں کے روحانی افلاس کے نتیجہ میں پیدا ہوئی؟

سر محمد اقبال کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات پر تبصرہ

شیخ عبدالماجد، لاہور

وحی و الہام کا معیار اور اس کے اثرات

سر اقبال لکھتے ہیں :’’میں یہ نہیں کہتا کہ بانی احمدیت اوراس کے رفقاء نے سو چ سمجھ کر اپنا پروگرام تیارکیا ہے میںیہ ضرور کہوں گا کہ با نی تحریک نے ایک آواز سنی لیکن اس امر کاتصفیہ کہ یہ آواز اس خدا کی طرف سے تھی جس کے ہا تھ میں زندگی کی طاقت ہے یا لو گوں کے روحا نی افلاس سے پیدا ہوئی ، اس تحریک کی نو عیت پرمنحصرہے جو اس کی آوا زکی آفریدہ ہے اوران افکار و جذبات پر بھی جو اس آواز نے اپنے سننے والو ں میں پیدا کئے‘‘۔ (پنڈت نہرو کے مضمو ن کے جواب میں ۲۲۔جنوری ۱۹۳۶ء)

Statement of Sir Iqbal reply to Pandit NehruNor do I mean to insinuate that the founder of Ahmadism and his companions deliberately planned their programme. I dare say the founder of the Ahmadiyya Movement did hear a voice; but whether this voice came from the God of Life and Power or arose out of the spiritual impoverishment of the people must depend upon the nature of the movement which it has created and the kind of thought and emotion which it has given to those who have listened to it.

(22-01-1936)

سراقبا ل کا وہمی نظریہ

سراقبا ل کا یہ خیال کہ کسی الہام کے دعویدار کے زما نے میں رو حانیت کاافلاس اورزوال نظر آ ئے تو سمجھ لینا چاہئے کہ اس کے الہا مات کا سرچشمہ اس خدا کی ذ ات نہیں جس کے ہاتھ میں زندگی کی طاقت ہے بلکہ اس کے الہامات کامأخذ قومی زندگی کاافلاس یا کسی دوسری قوم کا اقتدار اعلیٰ ہے، کسی صحیح فلسفہ پرمبنی نہیں بلکہ ان کے وہم کی پیداوارہے ۔

اگر اس وہم کو درست مان لیا جائے تواس سے ان تمام انبیاء کرام کے مکا لمات و الہامات مشکوک ہو جاتے ہیں جو کسی قوم کی رو حانی پستی و زوال کے زمانہ میں مبعوث ہو ئے اوروہ نبی دو سری قوم کے اقتدار اعلیٰ کے تحت زندگی بسر کررہے تھے۔

حضرت زکریا ، حضرت یحییٰ اور حضرت عیسیٰ علیہم السلام اور ان کی قومیں یہود و رومن حکو مت کے اقتدا ر اعلیٰ کے تحت زندگی بسر کرتی تھیں اور روحا نی لحاظ سے بھی افلاس میں مبتلا تھیں ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تو اپنے آپ کو حضرت عیسیٰؑ کا مثیل ہی قرار دیا ہے ، اگر مثیل کی قوم کے روحانی افلاس اورانگریز حکو مت کے اقتدار اعلیٰ کو ان کے الہامات کا سرچشمہ قرار دیا جائے تو پھر حضرت عیسیٰ اوران تمام انبیاء کی نبوت مشکوک ہو کررہ جائے گی جوقوم کے رو حانی افلاس کے وقت مبعوث ہوئے اوران کی قوم اس وقت اقتدار اعلیٰ سے محروم تھی ۔ پھر جب ہما رے پیارے نبی

سردا ر انبیا ء

محمد مصطفیﷺمبعو ث ہو ئے تو اس وقت ساری دنیا روحا نی افلاس میں مبتلا تھی ۔عیسا ئی ، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو معبود ما ن رہے تھے اوریہو دی حضرت عیسیٰ علیہ السلا م کے انکا ر کی لعنت کے نیچے رو حا نی افلاس کا شکا ر تھے ۔ ہندو ستا ن کے ہنود تینتیس کروڑ دیو تاؤں کی پوجا کررہے تھے ۔ ایرانی آتش پرست تھے غرض آ نحضرت ﷺ ایسے زمانے میں پیدا ہوئے جو خدا کے قول کے مطابق ظھر الفسا د فی البرو البحر کا مصداق تھا اس زمانے کا یہ رو حانی افلاس اللہ تعا لیٰ کے نزدیک تو ایک عظیم الشان نبی کی بعثت کا تقاضا کررہا تھا ۔چنا نچہ اس نے اس انتہا ئی گمرا ہی اورروحانی افلاس کے زما نہ میں جو پوری دنیا میں پایا جا تاتھا آنحضرت ﷺ کو مبعو ث فرما یا۔ اس وقت مکہ کا اقتدار اعلیٰ مشرکین کے ہا تھ میں تھا ۔ اپنے زما نہ کے اقتدار اعلیٰ کے خلاف نہ آنحضرت ﷺ نے عَلَم بغاوت بلند کیا نہ عیسیٰ علیہ السلام نے ۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا قول انجیل میں درج ہے کہ’’ جو قیصر کا ہے وہ قیصر کو دو اورجوخدا کا ہے وہ خدا کو دو ‘‘اس میں اشارہ تھا کہ میں قیصر کا با غی نہیں ہو ں ۔ آنحضرت ﷺ مکہ والوں کے نا مناسب رویہ کے بعد جب طائف میں تبلیغ کے لئے تشریف لے گئے تو وہا ں کے لوگو ں نے بھی آپ سے انتہا ئی برا سلوک کیا آ پ کی پنڈلیا ں لہو لہا ن کردیں اورآپ کے پیچھے بچے لگا دئیے جو آوازے کستے تھے جب آ پ مکہ مکرمہ میں دا خل ہونے کے لئے تشریف لائے تو مکہ وا لوں نے آپ کا حقِ شہریت چھین لیا لیکن آ پ نے قانو ن کو نہیں توڑا ۔ بلکہ ایک مشرک کی حمایت سے مکہ میں داخل ہوئے اور اس طرح دوبارہ شہریت کے حقوق حاصل کئے ۔ پھر آ نحضرت ﷺ نے مکہ والوں کے ظلم سے تنگ آ کرجب وہ آپؐ کی جان لینے کے درپے ہو گئے تھے خدا کے حکم کے تحت مدینہ منورہ کی طرف ہجرت فرمائی اور وہا ں جاکر آ پﷺکو خدا کے فضل سے ’’اقتداراعلیٰ ‘‘ حاصل ہوگیا کیونکہ آپ تشریعی نبی تھے ۔ لیکن حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنی ساری عمراقتدا ر اعلیٰ سے محروم رہے ۔کیا سر اقبال یہ تسلیم کرنے کے لئے تیار ہیں کہ ان کے الہا ما ت کے کچھ حصہ کا سرچشمہ خدا کی قوت نہ تھی بلکہ ان کے زمانہ کارو حا نی افلاس اوراقتدار اعلیٰ کا نہ رکھنا تھا ۔ اس طرح ہزا روں انبیاء اقتداراعلیٰ کے بغیر مبعوث ہوئے ۔

غا رت گرِ اقوام ۔ الہام

سر اقبال نے اپنے ایک شعر میں اس وہم کو پیش کرتے ہو ئے کہا تھا :

محکوم کے الہام سے اللہ بچائے

غارت گرِ اقوام ہے وہ صورت چنگیز

اس پرمولوی اسلم صاحب جیرا جپوری نے تبصر ہ کرتے ہوئے لکھا تھا :

’’یہ خالص شاعر انہ استدلال ہے غا لب کی طرح جس نے کہا تھا ۔ ؂

کیوں ردّ و قدح کرے ہے زاہد

مے ہے مگس کی قے نہیں ہے

جس طرح مگس کی قے کہہ دینے سے شہد کی لطافت اورشیرینی میں فرق نہیں آ سکتا اسی طرح محکوم کی نسبت سے الہا م میں اگر حق ہو ، غارت گراقوا م نہیں ہو سکتا ۔ خود حضرت عیسیٰ علیہ السلام رو می سلطنت کے محکوم تھے جن کی نسبت ڈاکڑ اقبال نے فرما یا ہے ؂

فرنگیوں کو عطا خاک سوریا نے کیا

نبی عفت و غم خواری و کم آزاری

جب کہ اکثر انبیاء علیہم السلام ، محکوم اقوام میں مبعو ث کئے گئے جن کے خاص اسباب و علل تھے جن کے بیان کرنے کی یہاں گنجائش نہیں ہے دراصل نبوت کی صداقت کا معیار حا کمیت یا محکو میت نہیں بلکہ خود الہام کی نو عیت ہے‘‘۔ (’نو ادرات‘ صفحہ۱۲۳۔مجموعہ مضامین علامہ جیرا جپوری)

الہا مات کو پرکھنے کاقرآنی معیار

آنحضرت ﷺ کے زمانہ کے لوگ بھی آپ کے الہامی دعووں کو شک و شبہ کی نگاہ سے دیکھتے تھے ان میں سے بعض قرآ ن مجید کے کلام الٰہی کو شاعرا نہ کلام قراردیتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الحاقہ میں ان ہر دو خیالات کو رد کرتے ہو ئے قرآن مجید کو کلام الٰہی قرار دیا چنانچہ فرمایا :

ترجمہ ۔ یہ قرآ ن کسی شاعر کاکلام نہیں مگر تم کم ہی ایمان لاتے ہو ۔ نہ یہ کسی کاہن کاکلام ہے تم کم ہی نصیحت حا صل کرتے ہو ۔یہ رب العا لمین کی طرف سے اتارا گیا ہے۔ اوراگر یہ شخص (محمد رسو ل اللہ ﷺ) ہم پر کو ئی جھو ٹا قول باندھ لیتا تو ہم اسے یقیناًدائیں ہا تھ سے پکڑ لیتے پھر ہم اس کی رگِ جان کاٹ دیتے سو تم میں سے کوئی بھی خدا کو اس سے روکنے والا نہ ہو تا۔ یہ تو یقیناً پرہیزگارو ں کے لئے نصیحت ہے ‘‘۔

ان آیات سے ظاہر ہے کہ جب قرآ ن مجید کو دنیا کے رو حا نی افلاس کو دو ر کرنے کے لئے نازل کیا گیا تو اس کے متعلق بعض لوگ سخت بد ظنی میں مبتلا تھے اس پرخداتعا لیٰ نے اس کے اپنی طرف سے نازل شدہ وحی ہو نے کی دلیل یہ دی کہ اگر مدعی وحی، کو ئی قول اپنی طرف سے گھڑکرخدا کی طرف منسوب کرتا تو ہم اپنی قدرت سے اس مدعی کونا کام بنادیتے اور پھر اس کی رگ گردن کاٹ دیتے اور تم میں سے کوئی شخص اسے میرے ہا تھ سے نہ بچا سکتا لہٰذا چونکہ اس مدعی وحی الٰہی نے اپنے دعوی ٰ کے بعد تئیس سا ل کی لمبی عمر پائی ہے ۔ اورایک کامیاب زندگی گزا ری ہے ۔یہ قتل کئے جانے سے بچایا گیا ہے لہٰذا اس کی وحی کاسرچشمہ یقیناً خدا تعا لیٰ کی قوت تکلم ہے ۔ اب اس معیار پرجب ہم حضرت بانی سلسلہ احمدیہ علیہ السلام کے الہا مات کو پرکھتے ہیں تو صاف ظاہر ہے کہ اپنے الہامی دعویٰ کے بعد انہوں نے بھی تئیس سال سے زائد عرصہ مہلت پائی ہے اور وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو ئے اورقتل کئے جانے سے بچائے گئے لہٰذا ان کے الہا مات کاسرچشمہ بھی اللہ تعالیٰ کی صفت تکلم کو قرار دینا پڑے گا ۔ اگرمرزا صاحب کے الہا مات کا سرچشمہ خداتعا لیٰ کے سوا کسی اورشے کو قرار دیاجائے تویہ آیت معاذاللہ دشمنان اسلام کے لئے آ نحضرت ﷺکی صداقت پر دلیل نہیں رہے گی۔ ایک مخالف اسلام کہہ سکے گا کہ جب اس معیار صداقت کی مو جو دگی میں تم لو گ بانی سلسلہ احمدیہ کے الہا مات کا سرچشمہ خدا تعا لیٰ کی قوت تکلم کو قرار نہیں دیتے اوران کی تکذیب کرتے ہو پھرکس منہ سے اس دلیل کو آ نحضرت ﷺکے اس دعویٰ کے ثبوت میں پیش کرسکتے ہو کہ آپ پرقرآن مجید اس خدا کی طرف سے نا زل ہوا ہے جس کے ہاتھ میں زندگی کی قوت ہے ۔

پس بانی سلسلہ احمدیہ کا انکا ر کو ئی معمو لی بات نہیں ۔کیونکہ انکار کی صورت میں قرآ ن مجید کے منجانب اللہ ہو نے کے حق میں یہ دلیل بھی منکرین اسلام کے نزدیک حجت نہیں رہے گی ۔ زما نہ کا روحانی افلاس تو مامورین کے مبعوث ہونے اور ان کی ضرورت کو ثابت کرتاہے ۔ (افاضا ت حضرت قاضی محمد نذیر صاحب )

پھر الہام کے شیطانی یا رو حانی ہو نے کی پرکھ کے لئے درج ذیل معیار مد نظر رکھنا چاہیے ۔

شیطانی اور رحمانی الہام میں فرق

جس الہام کے ساتھ نہ تو کو ئی خدائی نشان اورنہ آ سمانی متواتر تائیدیں ہو ں تا قول کو فعل کی شہادت کے ساتھ قوت دیں اورخود ملہم پربھی اس کی صداقت مشتبہ ہو ،وہ الہام شیطانی ہے رحمانی نہیں ۔ اس کے مقابل رحمانی الہا م ہے ۔ اس کی کئی نشانیاں ہیں جو ثابت کرتی ہیں کہ یہ الہام اس خدا کی طرف سے ہے جس کے ہاتھ میں زندگی کی طاقت ہے اوریہ لوگوں کے روحا نی افلاس یاانحطاط کانتیجہ نہیں مثلاً:

۱۔۔۔۔دلائل ابھی ظاہر نہ ہوں تب بھی رحمانی الہام میں ایسی الٰہی طاقت اوربرکت ہو تی ہے کہ وہ بڑے جوش سے بتاتی ہے کہ میں خدا کی طرف سے ہوں اورملہم کے دل کو مسخر بنالیتی ہے ۔

۲۔۔۔۔خدا کے الہام میں ایک خار ق عا دت شوکت ہو تی ہے ۔

۳۔۔۔۔ رحمانی الہام ، پر زورآوا ز اورقوت سے نازل ہو تاہے۔

۴۔۔۔۔ اس میں ایک لذ ت ہو تی ہے ۔

۵۔۔۔۔ بندہ سوال کرتاہے خدا جو اب دیتاہے اس طرح سوال وجواب کا سلسلہ شروع ہو جاتاہے ۔ خدا کا جو اب پانے کے وقت بندہ پر ایک غنو دگی طاری ہوتی ہے ۔

۶۔۔۔۔ رحمانی الہام کبھی ایسی زبانو ں میں بھی ہو جاتاہے جن کا ملہم کو علم نہیں ہو تا۔

۷۔۔۔۔ خدا ئی الہام میں ایک خدا ئی کشش ہو تی ہے اس کا اثر بڑھتا بڑھتا سلیم الطبع مبا یعین پر جاپڑتا ہے۔ تب ایک دنیا اس کی طرف کھنچی جا تی ہے۔

۸۔۔۔۔ سچا الہام قرآن شریف کے کسی بیا ن کا مخالف نہیں ہو تا۔

۹۔۔۔۔ سچا الہام تقویٰ بڑھا تا اوراخلاقی قوتو ں کو زیادہ کرتاہے ۔

۱۰۔۔۔۔ سچاالہام خداکاقول ہے اس لئے وہ اپنی تائید کے لئے خداکے فعل کو ساتھ لا تاہے۔

( خلاصہ تحریرحضرت بانی سلسلہ احمدیہ علیہ السلام )

سچے خدا ئی او ر یقینی الہا م میں سے جوحضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ کو عطاہوئے وہ حصہ جوخوا رق او ر پیشگو ئیو ں پر مشتمل ہے ، جو اپنی تائید کے لئے خداکے فضل کو ساتھ لایا ۔ کسی قدر اس میں بطو ر نمونہ (۳۱۳پیشگو ئیاں ) آپ نے اپنی کتاب’’نزول المسیح ‘‘ کے صفحہ ۴۹۴تا ۶۱۸ میں مع تاریخ بیان پیشگوئی اور مع زندہ گواہا ن رؤیت درج کئے ہیں ۔ ہم حلقہ اقبال کو ان نشا نو ں کے جو وحی کے ساتھ وقتاً فوقتاً ظاہر ہو ئے مطالعہ کی دعوت دیتے ہیں ۔

سر اقبال کااپنا بیا ن کردہ معیا ر وحی نبوت

وحی محمدی ؐ کے متعلق سر اقبال کا کہنا ہے کہ ہم اس کی قدر و قیمت کافیصلہ یہ دیکھ کر ہی کر سکتے ہیں کہ اس کے زیر اثر کس قسم کے انسان پیدا ہوئے۔ (خطبات بیاد اقبال۔ صفحہ۱۲۷ مطبوعہ جو ن ۱۹۹۴ء جا معہ پنجا ب شعبہ فلسفہ لاہو ر )

تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ کے پانچویں مقالہ ’’ اسلامی ثقافت کی روح ‘‘ میں ’’شعو ر نبو ت‘‘ کے تحت سراقبال لکھتے ہیں کہ :’’ نبی کے مذہبی مشاہدا ت و وا ر دات کی قدر و قیمت کا فیصلہ یہ دیکھ کر بھی کیا جا سکتاہے کہ نبی کی تعلیما ت کے زیر اثر انسانوں میں کس قسم کاتغیر رونما ہوا ‘‘۔(زندہ رو د صفحہ ۳۷۸ )

حضرت با نی سلسلہ احمدیہ علیہ السلام کے الہامات کے متعلق بھی آپ کا یہی ارشاد ہے کہ ان کی صداقت اور معرفت کا اندا زہ اس امر سے لگا یا جا نا چاہئے کہ اس آواز نے اپنے سننے والو ں میں کیا افکار و جذبات پیدا کئے۔ بانی سلسلہ احمدیہ کے الہا مات پر ایمان لانے والوں میں کس قسم کا تغیر برپاہوا ؟ ان کے افکار و جذبات میں کیا پاک تبدیلی رو نما ہوئی؟ان میں وہ کیا علامتیں پیدا ہوئیں جو انہیں دوسرے مسلمانو ں سے امتیا ز بخشتی ہیں ؟ اس کے متعلق ہم ایک بیان سلسلہ احمدیہ کے با نی کا اور اس کی تائید میں ایک بیان خود سراقبال کا درج کرتے ہیں ۔

حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کے الہامات اورآ پ کی تعلیمات کے زیراثر افراد جماعت احمدیہ میں جو عظیم روحانی تغیرپیدا ہوا اس کاذکرکرتے ہوئے فر ما تے ہیں :۔

’’کئی وجوہ سے اس جماعت کو صحا بہ رضی اللہ عنہم سے مشابہت ہے ۔ وہ معجزا ت اورنشانو ں کو دیکھتے ہیں جیساکہ صحابہؓ نے دیکھا۔ وہ خدا تعا لیٰ کے نشانو ں او ر تازہ بتازہ تا ئیدا ت سے نو ر اور یقین پاتے ہیں جیساکہ صحا بہؓ نے پایا ۔وہ خدا کی راہ میں لوگوں کے ٹھٹھے اور ہنسی اور لعن طعن اور طرح طرح کی دلآزاری اوربد زبانی اورقطع رحم وغیرہ کا صدمہ اٹھارہے ہیں جیسا کہ صحابہؓ نے اٹھا یا۔ وہ خدا کے کھلے کھلے نشا نوں اور آ سمانی مددوں اور حکمت کی تعلیم سے پاک زندگی حاصل کرتے جا تے ہیں جیسا کہ صحا بہؓ نے حا صل کی ۔بہتیرے ان میں سے ہیں کہ نما ز میں روتے اور سجدہ گا ہو ں کو آ نسو ؤں سے تر کرتے ہیں جیساکہ صحابہ رضی اللہ عنہم روتے تھے ۔بہتیرے ان میں ایسے ہیں کہ جن کو سچی خوابیں آتی ہیں اور الہام الٰہی سے مشرف ہو تے ہیں جیسا کہ صحا بہ رضی اللہ عنہم ہو تے تھے۔ بہتیرے ان میں ایسے ہیں کہ اپنے محنت سے کمائے ہو ئے مالو ں کو محض خدا تعا لیٰ کی مرضات کے لئے ہمارے سلسلے میں خرچ کرتے ہیں جیساکہ صحابہ رضی اللہ عنہم خرچ کرتے تھے ۔ ان میں ایسے لوگ کئی پاؤ گے کہ جو موت کو یاد رکھتے اوردلوں کے نرم اور سچی تقویٰ پرقدم ما ر رہے ہیں جیساکہ صحابہ رضی اللہ عنہم کی سیرت تھی ۔ وہ خدا کا گروہ ہے جن کو خدا آپ سنبھا ل رہا ہے اور دن بدن ان کے دلوں کو پاک کررہا ہے اوران کے سینو ں کو ایمانی حکمتو ں سے بھر رہا ہے اور آسمانی نشانوں سے ان کو اپنی طرف کھینچ رہا ہے جیساکہ صحابہؓ کو کھینچتا تھا ‘‘۔(ایام ا لصلح، رو حانی خزائن جلد نمبر ۱۴ مطبو عہ لندن ص ۳۰۶۔ ۳۰۷ )

گو یا وہ افراد جوحضرت مر زا صاحب کے الہامات یا آپ کی آ واز کے شنوا ہوئے ، ’’ سیرت اسلامی کا ٹھیٹھ نمو نہ ‘‘ بن گئے۔ آپ کے ساتھ وابستہ ہو نے کے نتیجہ میں ان کا ’’ رو حا نی افلاس ‘‘ جا تارہا ۔ سر اقبال جب دیکھتے کہ درو غ گو ئی اور بے ایمانی کی آ فات نے ما حول کو چارو ں طرف سے گھیر رکھا ہے تو پکار اٹھتے کہ اس دور میں شیطانی رو ح کی تاثیر ہر رنگ میں غالب ہے سراقبال کے نزدیک ان حالات میں مجد د الف ثانی وغیرہ اصلاح ملت اور اسلامی سیرت کے احیاء میں کامیاب نہ ہو سکے سر اقبال اپنے تا ثرات یو ں بیان کرتے ہیں ۔

’’ مجدد الف ثانی ، عالمگیر اورمولانا اسماعیل شہید نے اسلامی سیرت کے احیاء کی بہت کوشش کی مگر صوفیاکی کثرت اورصدیوں کی جمع شدہ قوت نے اس گروہ احرار کو کامیاب نہ ہونے دیا‘‘۔

(مکتوب بنام اکبر الہ آ بادی ۲۵ اکتو بر ۱۹۱۵ ء)

سراقبال کے نزدیک ماحول اس درجہ گنا ہ آلودہ ہے کہ اگر آنحضرت ﷺبھی تشریف لے آئیں تو عوام ان سے بھی حقائق سمجھنے سے قاصررہیں گے چنانچہ لکھتے ہیں کہ:

’’مجھے یقین ہے کہ اگر نبی اکرم ﷺ بھی دوبارہ پیدا ہو کراس ملک میں اسلام کی تعلیم دیں تو غالباً اس ملک کے لوگ اپنی مو جودہ کیفیات اوراثرات کے ہوتے ہوئے حقائق اسلامیہ کو نہ سمجھ سکیں‘‘۔(مکتو ب اقبال بنام خان نیاز الدین خان صفحہ ۷۲ مطبوعہ اقبال اکادمی پاکستا ن )

ہم سر اقبال کی رائے سے متفق نہیں

دوسری طرف ۱۹۱۰ء میں حضرت با نی سلسلہ احمدیہ کی قوت قدسیہ کے متعلق سراقبال کو اعتراف ہے کہ مرزا صاحب نے جو جماعت پیداکردی ہے اس میں اتنارو حانی تغیرپیدا ہو گیا ہے کہ وہ خالصتاً اسلامی سیرت کا ٹھیٹھ نمونہ ہے ۔ (ملت بیضا پرعمرانی نظر) یعنی حضرت مرزا صاحب کی جماعت نہ صرف حقائق اسلامیہ کو سمجھتی ہے بلکہ اس پرعمل پیرا بھی ہے ۔ظاہر ہے اس پاکیزہ تغیر سے جومرزا صاحب نے اپنے ما ننے وا لوں کے دلوں میں پیداکیا ، سر اقبال کے بیان کر دہ اصول کی روشنی میں مرزا صاحب کی نبوت اوروحی کی قدرو قیمت کااندازہ لگانا مشکل نہیں ۔قا رئین بخو بی اندا زہ لگا سکتے ہیں کہ سراقبا ل کے بیا ن کردہ معیا ر کی رو شنی میں حضرت مر زا صاحب علیہ السلام کے الہام کو انحطاط کے ہا تھوں سادہ کٹھ پتلی قرار نہیں دیا جاسکتا بلکہ یہ حقا ئق اس امر کا قطعی تصفیہ کردیتے ہیں کہ حضرت مرزا صاحب نے جو آ واز سنی وہ اس خدائے قادر کی طرف سے تھی جس کے ہاتھ میں زندگی کی طاقت ہے۔ اسے ’’روحانی افلاس ‘‘ کانتیجہ قرار دینا سر اقبال کے وہم سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا ۔ کیا برطانوی حکو مت کی طرف سے کھڑا کیا گیا نمائندہ ’’ اسلامی سیرت کے ٹھیٹھ نمونہ ‘‘ کی حامل جماعت تشکیل دے سکتا ہے ؟ کیا من گھڑت الہامات کسی جماعت میں رو حانی تغیرپیدا کرنے کا موجب بن سکتے ہیں ؟

مذہبی تحریکات میں یہ امر واقعی نہا یت درجہ اہم ہے کہ کسی تحریک کے سربراہ کی صحبت اس کے لٹریچر نے جس میں اس کے الہا مات درج ہیں اپنے پڑھنے اورسننے وا لو ں پرکیا اثر مر تب کیا ۔ اس پہلو سے تحریک احمدیہ پر جس رنگ میں بھی نظر دوڑائیں ہمیں اقرار کرنا پڑتاہے کہ بانی تحریک کے لٹریچر نے تزکیہ نفس اور خدمت اسلام کے لئے قربانی کی روح پیدا کرنے میں قلوب میں وہ اثر پیدا کیا ہے کہ مقابل کی ساری تحریکو ں کے سارے علماء کا لٹریچر ایسی رو ح پیدا کرنے سے قاصررہا جس کے نتیجہ میں لو گ اپنی زندگیو ں کو خدمت اسلام کے لئے وقف کرکے اکناف عا لم میں اسلام کی اشاعت میں کمر بستہ ہوں ۔ وہ بزرگ جنہیں سراقبال نے دینی مصلحین کے طور پر پنڈت نہرو کو رو شناس کرانے کی کو شش کی ہے (مثلاً سرسید احمد خان ، جمال الدین افغانی یا مفتی جان عا لم وغیرہ )ان کے لٹریچرکی تو قدر کی جاسکتی ہے مگرہم یہ پو چھنے کا حق رکھتے ہیں کہ ان متکلمین کے لٹریچر نے اپنے اثر سے کو ن سی ایسی جما عت پیداکی ہے جو ’’سیرت اسلامی کا ٹھیٹھ نمونہ‘‘ ہو ، جو خدمت اسلام کے جذبہ سے سرشار ہو کر اکنا ف عا لم میں اسلام کاپرچم بلند کر رہی ہو ۔اقبال سمیت ان اسلامی رہنماؤں کے درجن بھر کارکن بھی اپنے تئیں خدمت اسلام کے لئے وقف کرنے وا لے مو جو د نہیں ۔ پھر کس برتے پر ان راہنما ؤ ں کو اسلام کی اندرونی طاقت (Inner Vitality Of Islam )کے مظہر قرار دے کر احمدیوں کے مقابل پیش کیا جا سکتاہے ۔

جہاں تک سیاسی آزادی کی جدوجہد اور مسلم حقوق کے لئے کام کرنے وا لوں کاسوا ل ہے ہم نے اس ضمن میں اپنی کتاب ’’ اقبال اوراحمدیت ‘‘ میں تفصیل سے جماعت احمدیہ کا عظیم الشان کردار وا ضح کرنے کی کوشش کی ہے تاہم اس امر کا ذکر کر نا مناسب ہو گا کہ سلیم الفطرت مسلمانو ں کے نزدیک اسلام کی تبلیغ کے مقابلہ میں ملکی آ زادی ، گو یہ کتنا ہی مقدس کام ہو ، ترجیح نہیں رکھتا کیونکہ تبلیغ اسلام خود اتنا بلند مقصد ہے کہ اس میں کامیابی سے ہی دنیا کو آغوش اسلام میں لاکر آسمانی حکو مت قائم ہو سکتی ہے اورنہ صرف ایک قوم کو بلکہ تمام بنی نو ع انسان کو اس سے حقیقی امن ، سلامت روی اور آزادی حاصل ہو سکتی ہے ۔ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ اورجماعت احمدیہ کے سامنے یہی عظیم مقصد درپیش ہے ۔

تقابلی جائزہ

(مامور من اللہ کا کسی عام دانشور یا لیڈر سے موازنہ غیر مناسب ہے لیکن بعض جگہ با ت کو واضح کرنے کے لئے بامر مجبوری ایسا کرنا پڑا ہے )
اب ہمارے سامنے ایک طرف وہ الٰہی وجود ہے جس نے پستی اور پژمردگی کے دور میں زوا ل و انحطاط کو ختم کرنے اورساری دنیاکودائرہ اسلام میں داخل کرنے کی مہم کاآغاز کیا ۔جس نے بقول بی۔ اے۔ ڈار سابق ڈائر یکٹر اقبال اکیڈمی تبلیغ اسلام کے ذریعے مسلمانو ں کا سر فخر سے بلند کردیا ۔ جس نے بقول شیخ محمد اکرم (ادارہ ثقافت اسلامیہ )اسلام پرحملہ آ ور ہو نے وا لے مغربی علماء کے اعترا ضوں کی تلواریں کند کردیں ۔ جس نے بقول سراقبال وہ جماعت پیدا کردی جو ’’ اسلامی سیرت کاٹھیٹھ نمو نہ ہے ‘‘ اور دوسری طرف سراقبال ہیں جو چالیس سال تک جماعت احمدیہ سے بھا ئی چارہ کے بعد عمر کے آخری تین سالوں میں بعض سیاسی و ذاتی وجوہ سے مرزا صاحب پر نکتہ چینیوں اوراعتراضات کے پلندے لئے مخالفین احمدیت کی ہاں میں ہا ں ملانے لگے۔

علامہ اقبال کے کلام میں کئی جگہ اچھی اچھی حکمت کی باتیں ملتی ہیں جو قابل تعریف ہیں مگر آئیے !اس امر کاجا ئزہ لیں کہ خود اقبال نے اپنی روحانی قوت کے ذریعہ کیا انقلاب برپا کیا؟اپنے حلقہ میں اسلامی سیرت کی حامل کون سی جماعت پیدا کی؟پنڈت نہرو کے سامنے اسلام کی جس اندرونی طاقت Inner Vitality Of Islam کاذکر کرتے ہیں خود ان میں وہ طاقت و صلاحیت کس قدر جلوہ فرماہے ؟ان سوالات کے جواب کے لئے اقبال کی درج ذیل تحریر ملا حظہ ہو۔ فرماتے ہیں:

قوت عمل مفقو د ہے

’’ میں بھلا کیا کرسکتاہوں ۔ قوت عمل مفقو د ہے ۔ ہاں یہ آ رزو رہتی ہے کہ کو ئی قابل نوجوان ہو جو ذوق خداداد کے ساتھ قوت عمل بھی رکھتا ہو تو اس کے دل میں اپنا اضطراب منتقل کردوں‘‘ ۔(خط بنام اکبرالہ آ بادی ۔ کلیات مکاتیب اقبال ص۔۴۲۱)

(مطبوعہ :الفضل انٹرنیشنل ۳۰؍جولائی ۱۹۹۹ء تا۱۲؍اگست ۱۹۹۹ء)