اسلام اور احترامِ میت

حضرت ملک سیف الرحمن

(نوٹ :۔ ذیل کا مضمون محترم ملک سیف الرحمان صاحب (مرحوم) مفتی سلسلہ نے مکرم عبدالماجد صاحب طاہر اور مکرم عبدالسمیع خانصاحب کے تعاون اور مشورہ سے مرتب کیا تھا اور روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ ۳۔ اگست ؁۱۹۸۳ء میں شائع ہوا تھا۔ قارئین الفضل انٹرنیشنل کے افادہ کے لئے یہ مضمون الفضل ربوہ کے شکریہ کے ساتھ پیش ہے۔ )

مذہب کا مقصد تہذیب اور شائستگی، حوصلہ مندی اور بردباری، ہمدردی اور رواداری کے اخلاق پیدا کرنا ہے۔ انسان میں بوجہ حیوان ہونے کے ایک طبعی وحشت کا عنصر ہے۔ مذہب آ کر اس کی تہذیب کرتا ہے اور اسے ایک اعلیٰ خلق یعنی شجاعت میں بدل دیتا ہے

پر بنانا آدمی وحشی کو ہے ایک معجزہ

معنی رازِ نبوت ہے اسی سے آشکار

اسلام نے اپنے اولین مخاطبین میں اس تہذیب اور خلق کے وصف کو اتنے اعلیٰ معیارپر پہنچایا کہ وہ کائنات میں نمونے کے انسان قرار پائے اور اس آیت کریمہ کے مصداق بنے:

’’و کذٰلک جعلنٰکم امۃً وسطاً لتکونوا شھدآء علی الناس و یکون الرسول علیکم شھیداً‘‘ (البقرۃ:۱۴۴)

یعنی ہم نے تم کو ایک اعلیٰ معاشرہ پیش کرنے والی قوم بنایا جو دنیا کے لئے نمونہ اور بطور گواہ کے ہوں اور تمہارے رسول کو جو خلق عظیم پر قائم ہیں تمہارے لئے نمونہ اور اسوہ حسنہ بنایا ہے۔

فوت ہو جانے والے انسان کے جسد کا کیا کیا جائے؟

اس کے لئے مختلف مذاہب نے مختلف طریقہ ہائے احترام کی ہدایات دی ہیں لیکن احترام کا سب سے بہتر طبعی اور الہامی طریق وہ ہے جسے اسلام نے اپنایا اور فوت شدہ انسانوں کے جسد کو زمین میں دفنانے کی ہدایت دی۔ مردہ کو دفنانے کی یہ قدیم رسم اور وہ پہلی انسانی سوچ ہے جو تمثیلی زبان میں آدم کے دو بیٹوں کے واقعہ کی صورت میں انسانی علم کا حصہ بنی۔ آدم کے دو بیٹوں کا واقعہ یہ ہے کہ جب ایک بھائی نے دوسرے بھائی کو جس کی قربانی مقبول ہوئی تھی اور اس کی محنت عمدہ پھل لائی تھی محض حسد کے ہاتھوں مغلوب ہوکر قتل کردیا تو جلد بعد وہ نادم ہوا اور اسے فکر دامنگیر ہوئی کہ وہ اپنے مقتول بھائی کی نعش کا کیا کرے اس پر اسے ایک نظارہ دکھایا گیا کہ ایک کوّے نے دوسرے کوّے کی نعش کو زمین میں گڑھا کھود کر دفن کیا ہے۔ اس پر اسے بھی یہ ترکیب سوجھی اور اس نے اپنے بھائی کی نعش کو زمین میں دفن کیا۔

احترام میت کے بارے میں جو اسلامی تعلیم ہے اس کا خلاصہ یہ ہے۔ آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں:

’’لا تسبوا لأموات فانّھم قد افضوا الی ما قدموا‘‘ (المسقدرک۔ کتاب الجنائز باب النہی عن سب المیت)

’’تم وفات یافتہ لوگوں کو برا بھلا نہ کہو۔ ان سے برا سلوک نہ کرو کیونکہ وہ اپنے خدا کے حضورپہنچ چکے ہیں۔‘‘

خدا تعالیٰ جیسا چاہے گا ان سے سلوک کرے گا، تمہارے برا بھلا کہنے سے ان کا کچھ نہ بگڑے گا، تم صرف اپنی زبان ہی گندی کروگے۔

* اسی طرح حضرت عمرہ بنت عبدالرحمن بیان کرتی ہیں کہ:

’’لعن رسول اللہ ﷺ المختفی والمختفیۃ یعنی نباش القبور‘‘ (موطا امام مالک ، جنائز،باب ما جاء فی الاختفاء وھوالنبش)

حضورﷺ نے قبروں کو بد نیتی اور بے حرمتی کے طور پر اکھیڑنے والوں پر لعنت بھیجی ہے۔

* اسی طرح ابو داؤد کی روایت میں ہے کہ جو شخص کسی مردے کی قبر بد نیتی سے اکھیڑتا ہے تو اسے قطع ید کی سزا دی جائے کیونکہ وہ ایک میت کے گھر میں داخل ہوا ہے۔(ابوداؤد کتاب الحدود باب فی قطع النباش)

*فقہاء نے بھی وضاحت کی ہے کہ مردوں کی بے حرمتی نہ کی جائے خواہ وہ غیر مسلم ہی کیوں نہ ہوں چنانچہ فقہ کی مشہور کتاب بحرالرائق میں لکھا ہے کہ:

’’اگر قبر ننگی ہو جائے اور اس میں یہودی کی ہڈیاں نظر آ جائیں تو ان کی بے حرمتی نہ کی جائے کیونکہ ان ہڈیوں کی حرمت بھی وہی ہے جو مسلمانوں کی ہڈیوں کی ہے۔ نیز جب زندگی میں ان سے ظالمانہ سلوک کرنا اور ان کی بے حرمتی کرنا منع ہے تو ان کی وفات کے بعد بطریق اولی یہ ممانعت قائم ہے۔‘‘ (البحرالرائق شرح کنزالدقائق۔ الشیخ زین الدین الشھیر بابن نجیم الجزء الثانی صفحہ ۱۹۵۔ طبع فی المطبعۃ العربیۃ۔ لاہور)

*اسی طرح بدائع الصنائع میں لکھا ہے کہ:

’’توہین کی غرض سے قبر اکھیڑنا حرام ہے۔‘‘ (البحرالرائق شرح کنزالدقائق۔ الشیخ زین الدین الشھیر بابن نجیم الجزء الثانی صفحہ ۱۹۵۔ طبع فی المطبعۃ العربیۃ۔ لاہور)

علاوہ ازیں مندرجہ ذیل واقعات احترام میت کی ضرورت پر کھلی روشنی ڈالتے ہیں:

’’مر علی رسول اللہ ﷺ بجنازۃٍ فقام فقیل لہ انہ یھودی فقال ألیست نفساً‘‘ (سنن نسائی۔ کتاب الجنائز باب القیام الجنازۃ اھل الشرک)

کہ ایک دفعہ حضور ﷺ تشریف فرما تھے کہ ایک جنازہ گزرا۔ آپؐ اس کے احترام میں کھڑے ہوگئے۔ کسی نے کہا یہ تو ایک یہودی کا جنازہ ہے ۔ آپ ؐ نے فرمایا کیا ہوا، انسان تو ہے۔

گویا انسانیت کا احترام آپؐ کو اس حد تک تھا کہ آپؐ کسی جنازے کے احترام کے لئے بھی کھڑے ہو جاتے تھے۔

* جنگ احزاب میں ایک کافر سردار خندق میں گر کر ہلاک ہوگیا اور نعش پر مسلمانوں نے قبضہ کرلیا۔ کفار نے پیشکش کی کہ دس ہزار درھم لے لیں اور یہ نعش ان کے حوالے کردی جائے۔ آپؐ نے فرمایا ہم مردہ فروش نہیں ، ہم اس کی دیت نہیں لیں گے اور پھر بلامعاوضہ اس نعش کو واپس کردیا۔ (شرح الامام العلامہ محمد بن عبدالباقی الزرقانی المالکی علی المواھب اللدنیۃ للعلامۃ القسطلانی۔ الجزء الثانی صفحہ ۱۱۴، الطبعۃ الاولیٰ بالمطبعۃ الازھریۃ المصریۃ) (السیرۃ النبویۃ لابن ھشام، الجزء الثالث صفحہ ۱۵۵، دارالجیل بیروت لبنان)

* اسی طرح حضور ﷺ کا یہ طرز عمل تھا کہ اگر میدانِ جنگ میں یا اس قسم کے حالات میں آپؐ کو کوئی نعش پڑی ملتی تو آپؐ اس کی تدفین کا حکم دیتے اور اسے اپنی نگرانی میں دفن کراتے اور یہ نہ پوچھتے کہ یہ مومن کی نعش ہے یا کافر کی۔ (السیرۃ الحلبیۃ۔ تالیف علی ابن برھان الدین الحلبی الشافعی۔ الجزء الثانی صفحہ ۱۹۰، مطبعۃ محمد علی صبیح و اولادہ بمیدان الازھر بمصر ۱۹۳۵ء)

* جنگ بدر میں اور جنگ احد میں آپؐ نے کفار کی نعشوں کی تدفین کروائی اور ایک ہی میدان میں مسلمانوں اور کافروں کی تدفین ہوئی، وقت کی تنگی کی وجہ سے جس طرح کئی مسلمان شہداء کو ایک ہی قبر میں دفن کروایا گیا اسی طرح کفار کی نعشوں کو بھی ایک ہی جگہ دفن کروایا۔(السیرۃ الحلبیۃ۔ تالیف علی ابن برھان الدین الحلبی الشافعی۔ الجزء الثانی صفحہ ۱۹۰، مطبعۃ محمد علی صبیح و اولادہ بمیدان الازھر بمصر ۱۹۳۵ء)

* حضورﷺ کا حکم تھا کہ کسی مخالف کی نعش کا مثلہ نہ کیا جائے۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ جو وحشت مذہب سے دور لوگوں میں پائی جاتی ہے آنحضورﷺ مسلمانوں میں اس کو مٹانا چاہتے تھے۔ اور سب کو تہذیب کے دائرہ میں رکھنا آپؐ کا منصب خاص تھا۔

اسی طرح بنو قریظہ کو جب ان کی سرکشی کی سزا دی گئی تو ان کی نعشوں کو خندقیں کھدوا کر دفن کیا گیا۔(السیرۃ النبویۃ لابن ھشام، الجزء الثالث صفحہ ۱۵۶، دارالجیل بیروت لبنان)

* آنحضرت ﷺ نے اپنے چچا اور حضرت علیؓ کے والد ابو طالب کی وفات پر حضرت علیؓ کو ارشاد فرمایا کہ ’’آپ اپنے والد کی تجہیز و تکفین کریں اور غسل دیں پھر ان کو دفنائیں‘‘ (السیرۃ الحلبیۃ۔ تالیف علی ابن برھان الدین الحلبی الشافعی۔ الجزء الثانی صفحہ ۱۹۰، مطبعۃ محمد علی صبیح و اولادہ بمیدان الازھر بمصر ۱۹۳۵ء)

ایک قبرستان میں مسلموں اور غیرمسلموں کی تدفین

جہاں تک ایک قبرستان میں مسلمانوں اور غیرمسلموں کی تدفین کا تعلق ہے کئی واقعات ملتے ہیں کہ مسلمانوں اور غیرمسلموں کے قبرستان بعض اوقات اکٹھے ہوتے تھے۔

حضرت خدیجہؓ اور دوسرے صحابہؓ کی تدفین اس قبرستان میں ہوئی جو مکہ کا پرانا حضورﷺ کا خاندانی قبرستان تھا اور اس میں مکہ کے وہ لوگ بھی دفن ہوا کرتے تھے جنہوں نے اسلام قبول نہیں کیا تھا۔ یہی جگہ بعد میں جنت المعلی کہلائی۔

الرحلۃ الحجازیۃ کے مصنف محمد اللبیب ، مکہ کی تاریخ لکھتے ہوئے رقمطراز ہیں:

’’جنت المعلی مکی قبرستان ہے۔ اس میں حضرت خدیجہؓ کا مزار مبارک ہے۔ حضرت خدیجہؓ کی قبر کے پاس ہی مکہ کے سولہ سرداروں کی قبریں ہیں۔ ایک روایت کے مطابق حضرت خدیجہؓ کی قبر کے پاس حضورﷺ کی والدہ ماجدہ سیدہ آمنہ کا مزار بھی ہے۔ قریب ہی ابوطالب کا مزار ہے۔‘‘(الرحلۃ الحجازیہ صفحہ ۵۵۔۵۶)

اسی طرح ایک روایت میں آتا ہے کہ حضرت عمرؓ کے زمانے میں ایک یہودیہ فوت ہوئی تو حضرت عمرؓ کی اجازت سے اس کی تدفین مسلمانوں کے قبرستان میں ہوئی۔ (السنن الکبریٰ، کتاب الجنائز باب النصرانیۃ تموت وفی بطہنا و نومسلم)

خلافت عباسیہ کے دور میں جب بغداد کی بنیاد رکھی گئی تو وہاں ایک پرانا مجوسیوں کا قبرستان تھا۔ اسی قبرستان میں مسلمانوں کی تدفین بھی ہوا کرتی تھی اور پہلی مسلمان خاتون جس کی اس قبرستان میں تدفین ہوئی وہ بانوقۃ تھی۔ نیز اس قبرستان میں بعد میں بڑے بڑے بزرگ مثلاً حضرت امام ابو حنیفہؒ ، حضرت امام محمد بن اسحاقؒ ، حسن بن زید، ہشام بن عروہ اور خیزدان دفن ہوئے۔ اس طرح بعد میں یہ مسلمانوں کا قبرستان بن گیا۔(تاریخ بغداد اَو مدینۃ السلام۔ حافظ ابوبکر احمد بن علی الخطیب البغدادی۔ الجزء الاول۔ صفحہ ۱۲۵۔ دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان)

انگلستان اور یورپ میں جو مسلمان فوت ہوتے ہیں بالعموم ان کی تدفین ایسے ہی قبرستان میں ہوتی ہے جن میں عیسائی بھی دفن ہوتے ہیں۔ اس پر نہ کبھی عیسائیوں نے اعتراض کیا اور نہ مسلمانوں نے۔ لاہور کے مشہور میانی قبرستان کے بارے میں یہی روایت آتی ہے کہ اس کے دو حصے ہیں ایک میں عیسائی دفن ہوتے ہیں اور ایک میں مسلمان اور کوئی حد فاصل نہیں ہے۔

اسی طرح لاہور کا قبرستان جس کا نام ’’بدھو دا آوا‘‘ ہے اس میں بھی مسلمان عیسائی اور چوہڑے ایک ساتھ دفن ہوا کرتے تھے۔ پہلے عیسائیوں اور مسلمانوں کی قبروں کے درمیان ایک دیوار حد بندی کرتی تھی۔ لیکن پارٹیشن کے بعد وہ حد بندی بھی ختم ہوگئی۔ اب ان کی قبروں میں کوئی امتیاز نہیں اب بھی مسلمان اس میں دفن ہوتے ہیں۔

مُردوں کی بے حرمتی کی تاریخ

یہ عجیب بات ہے اور شروع سے ہی ایسی صورت حال چلی آ رہی ہے کہ ابتدائی تربیت اور انوار نبوت سے فیض یافتہ بندگان خدا کے گزر جانے کے کچھ عرصے بعد لوگ اصلی تعلیم کو بھول جاتے ہیں اور بعض انسانوں کی طبعی وحشت اور بربریت دوبارہ واپس لوٹ آتی ہے اور انسان بے حوصلہ ہو کر آپے سے باہر ہو جاتا ہے اور زندہ تو کیا وہ مردہ تک کی توہین میں کوئی شرم محسوس نہیں کرتا۔ یہی کیفیت بعض اوقات مذہبی اختلاف کی بناء پر پیدا ہو جاتی ہے اور مردہ انسانوں کی حرمت تک کا خیال نہیں کیا جاتا اور اس کے احترام کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ حالانکہ اسلام کا حکم یہ ہے کہ تم مرنے والوں کو برا بھلا تک نہ کہو وہ اپنے اعمال کے ساتھ اللہ کے حضور پیش ہوچکے ہیں۔ خداوند تعالیٰ جیسا چاہے گا ان سے سلوک فرمائے گا۔ خلافت راشدہ کے بعد یہ بھیانک سلسلہ شروع ہوا اور اب بھی بعض ایسے طبقات دنیا میں موجود ہیں جنہوں نے مذہبی اختلاف کی بناء پر مردوں کی بے حرمتی کی ، ان کی قبروں کو اکھیڑا اور ان کی نعشوں کو گلیوں میں گھسیٹا۔ وہ سب کچھ کیا جو کفار مکہ نے بعض صحابہؓ کی شہادت کے بعد ان سے روا رکھا تھا۔

حضرت خبیبؓ بن عدی کے تاریخی اشعار

جہاں تک انسانی میت کی توہین و تذلیل کا تعلق ہے تو اس سے فوت ہو جانے والے کا کچھ نہیں بگڑتا۔ صرف ظالمانہ حرکت کرنے والے ایسے انسان اپنی عاقبت خراب کرتے ہیں اور اپنے مغلوب الغضب اور وحشی ہونے کا ثبوت مہیا کرتے ہیں۔ اگر فوت ہو جانے والا انسان اپنے مولا کے ہاں مقبول ہے اور اس کا آسمانی آقا اس سے راضی ہے تو پھر دنیا والوں کی طرف سے کوئی توہین آمیز سلوک اس کے درجات کے اور بلند ہونے کا باعث بن جاتا ہے وہ جنت النعیم کا مکین ہے، خوش و خرم اور مطمئن کہ اس کی روح کو کسی پریشانی سے دوچار نہیں ہونا پڑا بلکہ اس کے ذریعہ

’’و ما نقموا منھم الآ ان یؤمنوا باللہ العزیز الحمید‘‘(بروج:۹) سے متعلق سنت ابرار میں ایک اور مثال کا اضافہ ہوا ہے بالکل اسی طرح جس طرح حضرت خبیبؓ بن عدی کی قربانیوں کی مثال تاریخ مظلومیت کا ایک سنہری باب بن گئی۔ انہوں نے یہ قربانی دیتے ہوئے جو اشعار اس موقع کی مناسبت سے پڑھے وہ بقائے دوام حاصل کرکے دوسرے مظلوموں کے لئے اسوہ بن گئے۔ جب ظالم دشمن ان کی شہادت کے درپے تھا تو انہوں نے کہا

و لست ابالی حین اقتل مسلماً

علی ای شق کان للہ مصرعی

و ذالک فی ذات الالہ وان یشا

یبارک علی اوصال شلو ممزّع

(بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ الرجیع)

اگر میں مسلمان ہونے کے جرم میں قتل کیا جا رہا ہوں تو زھے قسمت مجھے اس کی کیا پرواہ کہ دشمن کے وار سے کس پہلو گرتا ہوں۔ اگر یہ ساری مصیبتیں اور یہ ساری قربانیاں اللہ تعالیٰ کی خاطر ہیں تو پھر میرے جسم کے کچلے ہوئے ٹکڑوں پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہزاروں برکات نازل ہو رہی ہوں گی کیونکہ یہ کچلے ہوئے ٹکڑے لاکھوں کروڑوں مظلوموں کی زندگی اور ان کی کامیابی اور سلامتی کا پیش خیمہ بن جائیں گے۔

حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نعش مبارک کی بے حرمتی

نعشوں اور قبور کی بے حرمتی کا سلسلہ قدیم سے جاری ہے۔ لیکن اس قسم کی وحشت اور بربریت کا پہلا واقعہ جو تاریخ نے محفوظ کیا ہے وہ شہید مظلوم حضرت عثمانؓ کی نعش کی بے حرمتی کا ہے جو جاہل اور غصے سے بے قابو ہونے والے مصر اور دوسرے علاقوں کے جتھوں میں شامل نو مسلموں کی طرف سے وقوع پذیر ہوئی۔ روایات میں آتا ہے

’’نبذ عثمان رضی اللہ عنہ ثلاثۃ أیام لا یدفن؛ ثم ان حکم بن حزام القرشی ثم أحد بنی أسد بن عبدالعزی، و جبیر بن مطعم بن عدی بن نوفل بن عبد مناف، کلما علیاً فی دفنہ، وطلبا الیہ أن یأذن لأھلہ فی ذالک، ففعل، و أذن لھم علی، فلما سمع بذلک قعدوا لہ فی الطریق بالحجارۃ، و خرج بہ ناس یسیر من أھلہ؛ و ھم یریدون بہ حائطاً بالمدینۃ، یقال لہ: حش کوکب، کانت الیھود تدفن فیہ موتاھم؛ فلما خرج بہ علی الناس رجموا سریرہ، و ھموا بطرحہ، فبلغ ذالک علیا، فأرسل الیھم یعزم علیھم لیکفن عنہ، ففعلوا، فانطلق حتی دفن رضی اللہ عنہ فی حش کوکب؛ فلما ظھر معاویۃ بن أبی سفیان علی الناس أمر بہدم ذالک الحائط حتی أفضی بہ الی البقیع؛ فأمر الناس أن یدفنوا موتاھم حول قبرہ حتی اتصل ذالک بمقابر المسلمین‘‘۔(تاریخ الامم والملوک للطبری، الجزء الثانی صفحہ ۶۸۷، دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان)

جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت ہوئی تو تین دن تک شرپسندوں نے دفن کرنے میں رکاوٹ ڈالی۔ آخر تین دن کے بعد مدینہ کے کچھ با اثر لوگوں نے جن میں حضرت حکیم بن حزامؓ اور حضرت جبیر بن مطعمؓ بھی تھے، حضرت علیؓ سے حضرت عثمانؓ کے دفنانے کے بارے میں بات چیت کی اور یہ بھی درخواست کی کہ آپ اپنے خاندان کے لوگوں کو بھی اس میں مدد کے لئے کہیں۔ جب شرپسندوں کو اس بات کا علم ہوا تو وہ راستہ میں پتھر لے کر بیٹھ گئے اور جنازہ گزرنے پر اس پر پتھراؤ کیا۔ مدینہ میں ایک احاطہ تھا جس کا نام حش کوکب تھا اور یہودی اس میں دفن ہوتے تھے۔ چونکہ جنت البقیع میں شرپسند حضرت عثمانؓ کے جسد مبارک کو دفن نہیں ہونے دیتے تھے اس لئے آپ کی نعش کو حش کوکب میں دفنانے کا پروگرام بنایا گیا۔ اور رات کے وقت آپ کی تدفین کی گئی۔ یہ احاطہ جنت البقیع سے کچھ فاصلے پر تھا۔ جب امیر معاویہ خلیفہ بنے تو انہوں نے احاطہ کی دیوار گرانے کا حکم دیا اور لوگوں کو تلقین کی کہ وہ اپنے مردوں کو اس خالی جگہ میں دفن کریں تاکہ یہ جگہ مسلمانوں کے قبرستان یعنی جنت البقیع میں شامل ہو جائے۔

نعشوں کی بے حرمتی کے دیگر واقعات

اس کے بعد شہید مظلوم حضرت امام حسینؓ کی نعش مبارک کی بے حرمتی کا واقعہ آتا ہے۔ ان کا سرِ مبارک کاٹ کر یزید کے دربار میں پیش کیا گیا اور باقی جسم مبارک کربلا میں ہی رہا۔

حضرت ابو ایوب انصاریؓ کی تدفین قسطنطنیہ کی فصیل کے قریب ہوئی۔ عیسائیوں نے آپؓ کے مزار کی بے حرمتی کا ارادہ کیا تو بنو امیہ کے خلیفہ نے ان کو دھمکی دی کہ اگر تم نے ہمارے صحابیؓ کی قبر کی بے حرمتی کی تو ہم اس کا سختی سے انتقام لیں گے۔ اس ڈر سے وہ اس کام سے رک گئے۔(أسدالغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ۔ ابن الأثیر۔ المجلد الخامس صفحہ۱۴۳۔ دار احیاء التراث العربی بیروت لبنان)

پھر جب عباسی دور آیا تو عباسیوں کے پہلے خلیفہ ابوالعباس سفاح نے اموی خلفاء کی قبروں کو اکھیڑا اور ان کی نعشوں کی بے حرمتی کی۔ ہشام بن عبدالملک جس کی نعش صحیح و سالم تھی اس کو نکلوایا۔ پہلے اس کو کوڑے لگوائے پھر سولی پر لٹکایا پھر اس کو جلادیا۔(الکامل فی التاریخ، ابن اثیر، المجلد الخامس۔ دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان)

اقتدار کے نشے میں یہ سب کچھ کیا گیا مگر علمائے اسلام نے کبھی بھی ایسی حرکات کو پسند نہیں کیا اور واشگاف الفاظ میں ان کی مذمت کی۔ قبروں اور مردوں کی بے حرمتی میں اخلاقی گراوٹ دراصل غیر اسلامی روایات ہیں جو بدقسمتی سے انحطاط کے دور کے بعض بگڑے ہوئے مسلمانوں میں بھی راہ پا گئیں ورنہ درحقیقت اس بربریت کا اسلام سے دور کا بھی تعلق نہیں۔

سپین میں عیسائیوں نے غلبہ پانے کے بعد مسلمانوں کے قبرستانوں کی سخت بے حرمتی کی۔ اسی طرح یہودیوں کے قبرستانوں کو بھی نہ بخشا گیا۔

تاریخی واقعہ ہے کہ بعض عناصر نے سازش کرتے ہوئے یہ کوشش کی کہ حضور ﷺ کے مزار مبارک کی بے حرمتی کی جائے لیکن اس زمانہ کے مشہور مسلمان بادشاہ نورالدین زنگی کو خواب میں بتایا گیا کہ کچھ بدبخت حضورﷺ کے مزار مبارک کی بے حرمتی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تو اس عادل بادشاہ نے مدینہ میں آکر خواب کی تعبیر کی حقیقت معلوم کرنے کی کوشش کی تو معلوم ہوا کہ دو عیسائی روضۂ مبارک سے کچھ فاصلے پر رہائش پذیر ہیں اور وہ سرنگ لگاکر حضورﷺ کے جسد مبارک کی بے حرمتی کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ان عیسائیوں کو حسب جرم سزا دی گئی اور پھر حضورﷺ کے مزار مبارک کے اردگرد تانبا اور سیسہ پگھلا کر ایسا پختہ انتظام کر دیا گیا کہ آئندہ کوئی بدبخت آپؐ کے مزار مبارک تک نہ پہنچ سکے۔ (وفاء الوفا بأخبار دارالمصطفیؐ۔ تالیف نورالدین علی الشافعی السمہودی۔ الجزء الاول صفحہ۴۶۶۔ بمطبعۃ الآداب والمؤید بمصر سنۃ ۱۳۲۶ ھجریۃ)

مشہور سکھ لیڈر بندہ بیراگی نے سرہند شریف کے قبرستانوں کی بے حرمتی کی ، قبریں کھول کر نعشیں نکالیں ان سے وحشیانہ سلوک کیا اور ہڈیوں کو نذر آتش کردیا۔ (سکھ مسلم تاریخ حقیقت کے آئینے میں صفحہ۱۵۷۔ از ابوالامان امرتسری)

انگریزوں کا جب سوڈان پر تسلط ہوا تو انہوں نے مہدی سوڈانی کی نعش کو قبر سے نکالا، اس کے ٹکڑے ٹکڑے کئے اور دریا میں بہا دیا اس طرح دوسرے مسلمانوں کی نعشوں کی بھی بے حرمتی کی۔(آئمہ تلبیس یا غارتگرانِ ایمان مؤلفہ ابوالقاسم رفیق ذلاوری صفحہ۴۵۳۔ مطبعہ گیلانی الیکٹرک پریس لاہور۔ جنوری ۱۹۳۷ء)

انگریزوں نے جب ہندوستان پر قبضہ کیا تو لاہور میں مسلمانوں کے کئی مقبروں کو نیلام کرادیا جنہیں گرا کر لوگوں نے مکانوں اور کوٹھیوں میں تبدیل کردیا۔ کہا جاتا ہے کہ جو علاقے آج کل گوالمنڈی ، ہال روڈ اور انارکلی کہلاتے ہیں یہ کسی زمانہ میں قبرستان تھے اور پھر ان کو ہموار کرکے یہاں آبادی بسائی گئی۔

غرضیکہ ایک طرف وہ اخلاق ہیں جو اسلام سکھاتا ہے۔ حضورؐ کے ارشادات ہیں جن میں نرمی، رواداری، ہمدردی، احترام انسانیت اور احترام میت کے سبق دیئے گئے ہیں۔ دوسری طرف غضب سے مغلوب جاہلیت کے پرستار اور مذہب و اخلاق سے نابلد بے حوصلہ افراد اور گروہ ہیں جن کی وحشت اور بربریت سے انسان کا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔

آنحضورﷺ کی تعلیم تو سراسر رفق اور نرمی و تلطف پر مبنی تھی۔ آپؐ نے فرمایا

’’ان اللہ رفیق یحب الرفق و یعطی علی الرفق ما لا یعطی علی العنف و ما لا یعطی علی ما سواہ‘‘(مسلم کتاب البر و الصلہ باب نہی من ضرب الوجہ)

اللہ تعالیٰ نرمی کرنے والا ہے۔ نرمی کو پسند کرتا ہے۔ نرمی کا جتنا اجر دیتا ہے اتنا سخت گیری کا نہیں دیتا۔ بلکہ کسی اور نیکی کا بھی اتنا اجر نہیں دیتا۔

غرض اسلام کی ایسی حسین تعلیم کو بھلا کر جو لوگ خود اپنے لئے ذلت و خواری کا طریق اختیار کرتے ہیں کاش وہ سمجھیں کہ ہمارے پاک و مطہر رسول حضرت محمد مصطفی ﷺ نے ان کو کیا تعلیم دی تھی اور آپؐ کا اسوہ حسنہ کیا تھا۔

واللہ یھدی من یشآء الیٰ صراطٍ مستقیمٍ

(الفضل انٹرنیشنل ۱۸۔ اپریل ۱۹۹۷ء تا ۲۴۔ اپریل ۱۹۹۷ء)