اسلام میں روحانیت

چوہدری محمد ظفراللہ خانؓ

بہت سے اسلام کے دشمنوں اور غیر مذاہب کے محققین کا یہ خیال ہے کہ اسلام روحانی امور کی طرف بہت کم توجہ کرتاہے اور زیادہ تر زور ظاہری شکل پر دیا گیاہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ طریق ابتدائی مذاہب کا تھا ۔ چونکہ اس وقت انسانی عقل زیادہ روشن نہیں ہوئی تھی اور باریک فلسفیانہ مسائل ابھی حل نہیں ہوئے تھے اس لئے انسان کی توجہ زیادہ تر ظاہری امور کی طرف جاتی تھی اور وہ صرف نمائش اورشکل سے خدا کو خوش کرنا چاہتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ پرانے مذاہب میں رسومات زیادہ پائی جاتی ہیں ۔ اسلام میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ اس ظاہری شکل پر بہت زور دیا گیا ہے ۔

اسلام کے چار ارکان ہیں ۔ نماز، روزہ ، حج ، زکوٰۃ اور یہ چاروں ظاہری امور ہیں اور ان پر اس قدر زور دیا جاتاہے کہ ان میں سے کسی ایک کے ترک سے اسلام ناقص ہو جاتاہے۔ حالانکہ مخصوص حرکات یا خاص دنوں میں بھوکا رہنے یا کسی خاص علاقہ کی طرف سفر کرنے یا کسی خاص عرصہ کے اندر کسی معین رقم کے ادا کر دینے کے ساتھ روحانیت کا کوئی بڑا تعلق نہیں ہے۔ مختلف انسان مختلف موقعوں اور حالات کے ماتحت (اگر ضرورت ہو تو) خود ایسے قواعد تجویز کر سکتے ہیں جن سے وہ اپنی توجہ کو روحانی امور کی طرف لگا سکیں ۔ اس امر کی کوئی ضرورت نہیں کہ ایک ہی قانون کے ماتحت تمام ملکوں اور زمانوں کے لوگوں کو لایاجاوے۔ یہ امور محض ایک شکل ہیں جس کا روحانیت کے ساتھ چنداں تعلق نہیں۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ مختلف مذاہب نے مسئلہ ارتقا کے ماتحت ترقی کر تے کرتے ایسی صورتیں اختیار کر لی ہیں کہ ظاہری شکل بالکل مفقود ہو گئی ہے اور محض روحانیت باقی رہ گئی ہے ۔ مثلاً یہودیت اپنی ابتدائی حالت میں بہت سی رسومات اور عادات میں جکڑی ہوئی تھی ۔ جوں جوں وہ ترقی کرتی گئی اس کی ظاہری پابندیاں اور رسوم کم ہوتی چلی گئیں چنانچہ بائبل کے پڑھنے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ کس طرح حضرت موسیٰؑ کے بعد ہر نبی کے زمانے میں ظاہری شکل میں کمی ہوتی چلی گئی اور روحانی امور اور روحانی اصلاح کی طرف زیادہ توجہ کی گئی حتی کہ حضرت مسیحؑ کے زمانہ میں اس مسئلہ کو پورے طور پر دنیا کے ذہن نشین کر دیا گیا کہ ظاہری شکل کوئی چیز نہیں ۔ روزہ بھی دل کاہے اور عبادت بھی دل کی اوراصل کامیابی اسی میں ہے کہ اخلاق کی درستی کی جائے اور خدا اور بنی نوع انسان کے ساتھ درست تعلقات رکھے جائیں ۔

دوسرا بڑا مذہب ہندومت ہے ۔ اس مذہب کوہم دیکھتے ہیں کہ یہ بھی مسئلہ ارتقا کے ماتحت اسی طرح ترقی کرتا چلا گیا ہے ۔ ابتدائی حالت اس مذہب کی رسومات اور پابندیوں کے نیچے بہت دبی ہوئی تھی۔ ترقی کرتے کرتے بدھ کے زمانے میں اس امر کا اعلان کیاگیاکہ ظاہری رسومات کوئی چیز نہیں باطنی پاکیزگی اصل ہے اوراسی کی درستی قدرت کا مقصدہے۔

تیسرا عظیم الشان مذہب پارسی مذہب ہے جس کے آثار گو اس وقت مٹے ہوئے ہیں مگرکسی زمانہ میں اس کو ایسی ہی عزت اور رتبہ حاصل تھا جتنا کہ کسی اور بڑے سے بڑے مذہب کو حاصل ہوا۔ نصف دنیا میں اس مذہب کا زور تھا اور اس کے ماننے والے ان علاقوں میں حکمران تھے۔ اس مذہب کی حالت بھی بعینہ اسی طرح ہے ۔ ابتدائی ایام میں اس میں ظاہری حرکا ت پر بہت زور دیا جاتاتھامگر بعد میں آہستہ آہستہ ترقی کرتے کرتے خالص روحانیت پر زور دیا جانے لگا۔

یہ نتیجہ تو ہمیں مسئلہ ارتقا کو دیکھ کر حاصل ہوتاہے۔ اس کے مقابل پرہم اگر قوموں کے تنزل کو دیکھیں تو اس سے بھی ہم اسی نتیجہ پر پہنچتے ہیں کیونکہ جوں جوں کوئی قوم تنزل کی طرف گئی ہے اسی قدر اس میں پھرظاہری شکل کی طرف زیادہ توجہ ہوتی گئی ہے حتی کہ صرف شکل ہی شکل رہ گئی۔ یہودی مذہب کا تنزل ہندو مذہب کا تنزل پارسی مذہب بلکہ عیسائی مذہب کا مذہبی طور پر تنزل اس بات کا شاہد ہے۔

ہندو مت۔ابتدا پر رسومات میں زور ، ترقی میں کم، تنزل میں پھروہی باتیں رونما، ان دونوں حالتوں پر غورکرنے سے یہ نتیجہ یقینی ہے کہ شکل کی پابند ی ہمیشہ تہذیب کے ابتدائی درجہ میں ہوئی ہے اور ترقی و تہذیب کے ساتھ ظاہر ی پابندی خود بخود کم ہوتی چلی جاتی ہے کیونکہ ظاہر ی پابندیاں اصل میں ایسے ہی لوگوں کے لئے ضروری ہوتی ہیں جن کی عقل ابھی ابتدائی درجہ میں ہو۔ پس اسلام میں ظاہری شکل پر جو زور دیا جاتاہے اس سے معلوم ہوتاہے کہ اسلام عربوں کی اس وقت کی حالت کے مناسب حال تھا مگر اب تہذیب اور ترقی کے زمانے میں یہ دنیاکے کارآمد اورمفید نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ اس کا اثر ہم دیکھتے ہیں کہ اس وقت خود مسلمانوں میں بعض لوگ اس قسم کے ہیں جو ان ظاہری امور کو چنداں وقعت نہیں دیتے ۔ چنانچہ چند سال ہوئے کہ علی گڑھ کالج کے ایک گریجوایٹ نے بعض اخبارات میں یہ مضمون شائع کیا تھا کہ وضو، نماز ، روزہ اور حج عربوں کے مناسب حال تھے اور ان کو محض نمونہ سمجھنا چاہئے نہ کہ حقیقت۔ یہ رسول اللہ ﷺ نے نمونے فرمائے ہیں کہ اس رنگ میں عمل کرو۔ وہی شکل ضروری نہیں ہے ۔ پھر اس وقت کے لوگوں میں چونکہ انتظام اور پابندی نہیں تھی ، اوقات ضائع کرتے تھے اس لئے ان کے لئے ایسی ہی عبادات کی ضرورت تھی ۔ صفائی ان میں کم تھی اس لئے وضو کے مقرر کرنے کی ضرورت تھی ۔ غسل جنابت بھی اسی لئے ضروری تھا۔ مگر آج کل زمانہ بدل گیاہے ، تعلیم یافتہ لوگ صفائی رکھتے ہیں ، غسل کرتے ہیں ان کے لئے نہ اس عمل کی ضرورت ، نہ وضو کی حاجت، نہ ان کے اوقات ضائع ہوتے ہیں کہ ان کے لئے کوئی شغل پیداکیاجاوے۔ جو کچھ وہ اپنی صفائی کے لئے کرتے ہیں وہ کافی غسل اور وضو ہے اور نماز پانچ وقت کی ضروری نہیں ۔ اگر دووقت کھانے پر دعا کر لی جاوے تو کافی ہے ۔ اُس وقت لوگ ننگے تھے،سجدہ کی تکلیف نہیں تھی ، بادشاہ جابر تھے، اسی رنگ میں عبادا ت کراتے تھے ۔ پس خدا کے لئے بھی ایسی ہی عبادت مقررہوئی ۔ اب بادشاہ کے سامنے بھی سر جھکا یاجاتاہے ، دعا کے لئے بھی کرسی پر بیٹھے ہوئے سر جھکا لینا کافی ہے ۔ روز ہ کی اول تو ضرور ت نہیں ۔ اگر بہت ضروری ہو تو ایک وقت کھانا چھوڑ دیویں ، چائے اور بسکٹ میں کوئی حرج نہیں۔ اسی طرح بجائے حج کے ایجوکیشنل کانفرنس میں شامل ہونا کافی ہے ۔ اس زمانہ میں غرباء تھے اس لئے چندہ مقرر کیا گیا تھا ۔ آج کل زمانہ امیر ہے ، کام چل سکتاہے۔ اسی لئے علی گڑھ کالج کو چندہ دینا کافی ہے وغیرہ وغیرہ ‘‘۔

گو ایک شخص نے بدقسمتی سے اس قسم کے خیالات ظاہر کئے لیکن درحقیقت بہت لوگ ہیں جو گو، ڈر کے مارے زبان سے ظاہر نہ کرتے ہوں لیکن ان کے دماغ انہی خیالات سے پُر ہیں۔ پس یہ ایک ایسا سوال ہے جو نہ صرف اسلام کے دشمنوں یا اسلام پر دورسے نظر ڈالنے والوں کے دلوں میں پیداہوتاہے بلکہ اس زمانہ میں خود مسلمانوں کے دلوں میں بھی یہی شبہات پیدا ہو رہے ہیں اور بعض لوگ اس کی وجہ سے اندر ہی اندر بدظن ہو رہے ہیں اور بعض جوقومیت کی طرف زیادہ نظر رکھتے ہیں یا ان کے دلوں میں رسماً عادتاً یا قدرتاً اسلام کی کچھ محبت ہے وہ ایسی توجیہات سوچتے ہیں کہ جن سے اسلام پر سے اعتراض مٹ جاوے۔ چنانچہ جس شخص کے خیالات کاذکر کیا گیاہے اس نے بھی اس اعتراض کو مٹانے کے لئے یہ توجیہہ سوچی کہ درحقیقت یہ باتیں نمونے ہیں ان کو مدنظر رکھ کر حالت کے ماتحت خود قواعد تجویز کر لینے چاہئیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ نہ تو اسلام کو اس کے دشمنوں نے سمجھا ہے ، نہ اس کے ان دوستوں نے یا یوں کہنا چاہئے کہ دوست نما دشمن نے۔ جس ارتقا اور تنزل سے انہوں نے یہ نتیجہ نکالاہے وہی درحقیقت ان کے خیالات کی غلطی ثابت کر رہا ہے۔

اصل بات یہ ہے کہ کبھی بھی کوئی مذہب جس نے دنیا کے اخلاق میں کوئی تغیر پیدا کیاہو یا اس کی روحانی طاقتوں کی اصلاح کرنے میں کامیاب ہواہو عباد ت کی ظاہری شکلوں سے خالی نہ ہوگا۔ درحقیقت ان زمانوں میں کہ جن کو مثال کے طور پر پیش کیا جاتاہے افراط اور تفریط اور اعتدال کا سوال رہا ہے۔ جس وقت کہ شکل کے اوپر زیادہ زور دیا گیا اورا س کا نتیجہ قوم میں تنزل پیدا ہوا،اس کا باعث یہ نہیں ہوا کہ ظاہری شکل کیوں قائم رکھی گئی بلکہ اس کاباعث یہ تھا کہ اس کے اوپر ضرورت سے زیادہ زور دیا گیا اور روحانیت کو نظر انداز کردیا گیا ۔اسی طرح اگر تہذیب کے ابتدائی زمانوں میں جس میںیہ بات نظر آتی ہے کہ ان میں شکل پر خاص زور دیا گیا ہے اس کے مقابلے میں یہ بھی نظر آتاہے کہ ابتدائی ترقی کے وقت بھی ظاہری شکل کو بالکل نظر اندازنہیں کر دیا گیا ۔اگران ابتدائی تعلیمات کا مقابلہ اسلام کی تعلیم سے کیا جاوے تو دونوں میں ایک بین فرق نظر آئے گا ۔ بائبل ، ویدوں یا زند آوست کو پڑھو۔ ان میں چھوٹے چھوٹے امور کے متعلق ایسے قواعد اور پابندیاں نظرآئیں گی کہ ایک مسلمان جو ان امور کا عادی نہیں گھبرا جائے گا کہ ان پابندیوں کے ساتھ ان کی زندگی کیونکر گزرتی ہوگی۔بائبل کے عبادت خانوں اور قربانیوں کے قواعد پڑھ کر انسان حیران ہو جاتا ہے کہ کس طرح چھوٹی سے چھوٹی تفصیل کو بھی نظر انداز نہیں کیا گیا ۔ اسی طرح ہندو مذہب کی قومیت کے سوالوں اور عبادات کے طریقوں میں جن پابندیوں اور رسومات کو لازم کیا گیاہے انسان کی عقل کو چکرا دیتی ہیں۔ زنداوست میں آگ جلانے اور پانی کے رکھنے تک کے قواعد بیان کئے گئے ہیں اور ایک شخص جو ان پابندیوں کاعادی نہیں ایسے مذہب پر چل کر ایک ماہ میں گھبرا جائے گا۔ پس یہ بات بالکل غلط ہے کہ اسلام ظاہری شکل پرخاص زور دیتاہے ۔ ہاں اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلام میں ظاہری شکل کو بھی ایک حد تک قائم رکھا گیاہے مگر اسی جگہ جہاں اس کے قائم رکھنے سے کوئی دینی یا دنیاوی نفع ہو ۔

مثلاً یہی چار رکن نماز ، روزہ ، حج اورزکوٰۃ ہم دیکھتے ہیں کہ ان میں ظاہری شکل کو اسی حد تک قائم رکھا گیاہے جہاں تک وہ روحانیت کی ترقی یابنی نوع انسان کے فوائد میں ممد ہے ۔

نماز، اس کو ادا کرنے سے پہلے چند ایک معین افعال و حرکات بتلائی گئی ہیں کہ جن کے بغیر عبادت کامل نہیں ہوتی ۔اول وضو۔ یہ ایک ظاہری طہارت ہے، بے شک ہو سکتاہے کہ کوئی شخص بہت صاف ستھرا رہنے والا ہو مگرجہاں وضو میں ان لوگوں کے لئے فائدہ مخفی رکھا گیا ہے جو ظاہری طہارت کے ایسے پابند نہیں کیونکہ اسلام دنیاکے ہر طبقہ کے لئے ہے ۔ وہاں ا س میں اور بہت سے فوائد ہیں جو ہر طبقہ کے لوگوں کے لئے ہیں مثلاً پہلے تو تصویری زبان میں ان تمام اعضاء کو جو مبادی گناہوں کے ہیں دھو کر اس بات کی طرف اشارہ کیا جاتاہے کہ اسی طرز پرانسان کو خدا کی طرف جانے سے پہلے اپنی اخلاقی پاکیزگی کرنی چاہئے۔ گناہوں کی ابتدا ہاتھوں ، پاؤں ، آنکھ ، کان اورمنہ سے ہوتی ہے۔ ان کی ظاہری صفائی سے ان کی باطنی صفائی کی طرف اشارہ کیا گیاہے اور یہی عضو ہیں کہ جن کے ساتھ انسان گناہ کرتاہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ بعض دفعہ تصویری زبان لفظی زبان سے زیادہ مؤثر ہوتی ہے ۔ اسی طرح یہ ایک ثابت شدہ مسئلہ ہے کہ انسان کے خیالات کی رو ہاتھ ، پاؤں، کان ،ناک اور منہ کے ذریعہ سے باہر کی طرف جاتی ہے اور ان کو پراگندگی سے بچانے کا بہترین طریق یہ ہے کہ ان کو پانی کے ساتھ تر کر دیا جاوے۔جن کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ خیالات سے پراگندگی دور ہو جائے گی۔ اور ان پر پانی ڈالنے کے معنے یہی ہیں جیسے کسی زیادہ تیز ہوجانے والے پرزوں کو ٹھنڈا کر دیا جاوے تا کہ سٹیم ضائع نہ ہو جاوے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول کریم ؐ نے پسند فرمایاہے کہ وضو جہاں تک ہو سکے ٹھنڈے پانی سے کیا جاوے کیونکہ ٹھنڈا پانی زیادہ مفید ہے ۔ غرض یہ موٹے موٹے فوائد ہیں جو وضو میں حاصل ہیں۔ اسی طرح نماز میں جس شکل کو اختیار کیا گیا ہے وہ بظاہر گو ایک شکل ہی معلوم دیتی ہے اوراس کا تعلق روحانیت سے کچھ نہیں معلوم ہوتا لیکن حقیقتاً اس کے اندر بہت سے روحانی فوائد ہیں۔

اصل بات یہ ہے کہ جسم ایک برتن ہے اور روح ایک چیز ہے جو اس کے اندر ڈال دی گئی ہے ۔ یاجسم ایک چھلکاہے روح ایک مغز ہے۔ اور برتن کااثر ضرور اندر کی چیز پر پڑتاہے۔ جیسے چھلکے کا اثر مغز پر پڑتاہے ۔ کیاہم نہیں دیکھتے کہ مختلف دماغوں کی بناوٹ کے ماتحت انسان کی عقل میں ترقی اور تنزل واقع ہوتاہے ۔ ایک جگہ سے دماغ بھچ جائے تو یہ نہیں کہ چونکہ جگہ تو اتنی باقی رہی ہے عقل کی قوتوں پراثر نہ پڑے بلکہ عقل پر ضرور اثرپڑتاہے بلکہ بعض خاص شکلیں بنانے کا نتیجہ یہ ہوتاہے کہ ویسی طاقتیں پیدا ہو جاتی ہیں ۔ علم بشرہ اور علم اشکال کے ماہرین نے ایسے اصول مقرر کئے ہیں کہ جن کے ذریعہ سے بہت حد تک انسان کے خیالات اور اخلاق کا پتہ چل سکتا ہے۔

پس اس ثابت شدہ حقیقت کے ہوتے ہوئے اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ظاہری شکل کا قلب پراثر ضرور پڑتاہے۔ چنانچہ ان قواعد کے ماتحت تجربہ کیا گیا ہے کہ ظاہری صورت کے تغیر کے ساتھ اخلاق میں تغیر اور اخلاق کے تغیر کے ساتھ ظاہر شکل میں تغیر پیدا ہو جاتا ہے ۔ پس نماز میں اسی قاعدہ کے ماتحت وہ تمام طریقے جن میں فطرتاً تذلل اور انکسار پیداہو مدنظر رکھے گئے ہیں۔ نماز کے کسی حصہ میں بناوٹ نہیں بلکہ وہ تمام کے تمام فطرتی اصول ہیں جن کے ذریعہ سے لازماً روحانیت،عجزاورانکسار پیدا ہوتے ہیں۔ مثلاً ہاتھ اٹھا کر چھوڑ دینا اس کی تصویری زبان میں جو اکثر ممالک میں اس وقت تک قائم ہے ، یہ معنی ہیں کہ ہر طرف سے توجہ ہٹا لی جاوے ،بے تعلقی ہو ۔ اسی طرح ہاتھ باندھ کر کھڑا ہونا، نگاہیں نیچی رکھنا، رکوع، سجدہ ، دوزانو بیٹھنا یہ سب تذلل اور انکسار کے فطرتی طریق ہیں۔ اسی طرح مثلاً جماعت اتحاد کے قائم کرنے کی علامت ہے۔ جب انسان ظاہری شکل میں ایک صف میں کھڑے ہوتے ہیں تو وہ اس حالت سے اقرار کرتے ہیں کہ وہ روحانی عقائد میں بھی اس رنگ میں اتفاق اور اتحاد کے ساتھ خدا تعالیٰ کے احکام کی پیروی کریں گے ۔

علاوہ ازیں یہ بھی یاد رہے کہ کوئی مغز بغیر پوست کے نہیں ہوتا اور کوئی پوست مطلوب اور مقصود نہیں جب تک اس کے اندر مغز نہ ہو۔ ہم دیکھتے ہیں کہ جن لوگوں میں پوست یعنی ظاہری شکل کے چھوڑنے کا خیال آیا ان سے حقیقت بھی بالکل غائب ہو گئی۔ بہرحال اگر فرض کر بھی لیں کہ بعض لوگ بغیر پوست مغز کو قائم رکھ سکتے ہیں لیکن اگر کسی قاعدے کے ماتحت ان لوگوں کو نہ لایا جاوے تو لازمی نتیجہ یہ نکلے گا کہ ہر ایک شخص جو عبادت سے جی چرائے گا وہ کہہ دے گا کہ میں بغیر پوست کے مغز حاصل کر سکتاہوں۔ پس یہ آزادی روحانیت کی ہلاکت کا باعث ہوگی نہ کہ ترقی کا ۔ جیسا کہ صرف وہ لوگ جو ان اعتراضوں سے ڈر کر اس بات پر زور دیتے ہیں کہ اصل مقصود ظاہری شکل نہیں بلکہ دل کی طہارت اور پاکیزگی ہے ۔ ان میں نہ دل کی طہارت ہے نہ ظاہری شکل۔ ایسے لوگوں کو دن رات میں ایک دفعہ بھی خدا کا خیال پیدانہیں ہوتا ۔ اگر بغیر اس پوست کے مغز حاصل ہو سکتا تو ضرور تھا کہ وہ خدا کے ذکر سے غافل نہ ہوتے مگراس ظاہری عادت کے چھوڑنے سے دلو ں کی عادت بھی چھٹ گئی۔ اس قانون کے ماتحت کم از کم پانچ وقت تو ضرور خدا کی طرف توجہ پھر جاتی تھی ۔ پس اس میں کوئی شک نہیں کہ مقصود بالذات مغزہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا مغز بغیر پوست کے رہ بھی سکتاہے۔ خدا کے ظاہری قانون سے اس کے باطنی قانون کا اندازہ لگایا جاسکتاہے۔اس کا ظاہری قانون بتاتاہے کہ تمام مغز پوستوں کے اندر نشوونما پاتے ہیں گو ہمارے مقصود بالذات پوست نہیں ہوتے ۔کیااگربادام کسی کے باغ میں لگیں اور وہ فوراً چھلکا اتار کر پھینک دے توکیا اس باغ میں بادام نشوونما پا سکتاہے ؟یا آم پر سے آم کا چھلکا اتاردیں تو وہ پک جائے گا؟ شیرینی تو پوست کے اندر پیداہوگی مگر پوست مقصود نہیں ہوگا۔ لطیف اشیاء ہمیشہ حفاظت کی محتاج ہوتی ہیں۔ جس طرح روح جسم کی محتاج ہے اسی طرح روحانی عبادتیں بھی ایک حد تک جسمانی شکلوں کی محتاج ہیں۔ ہاں اس شکل کو اصلی سمجھ لینا غلطی ہے اوراسلام ہرگز اس بات کوجائز نہیں سمجھتا۔ رسو ل اللہ ﷺ نے ایسی عبادت کو ہرگز پسند نہیں فرمایا بلکہ آپ فرماتے ہیں کہ اسی نما ز کا فائدہ ہوتاہے جس میں دل خداکی طرف متوجہ ہو۔ اگر دل متوجہ نہیں تو ظاہری حرکات سے کوئی فائدہ نہیں ۔ جس طرح بے مغز بادام کچھ چیز نہیں۔

دوسری عبادت روزہ ہے ۔اس میں بھی گو بظاہر کھانے پینے سے ایک خاص وقت تک روکاگیا ہے اور بظاہر یہی سمجھا جاتاہے کہ یہ روکنا محض عبادت کے طور پر ہے۔ مگر درحقیقت یہ بہت سے روحانی فوائد اپنے اندررکھتاہے ۔ یہ بات ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ انسانی روح کی توجہ کو مادیات کی طرف جھکانے والا اس کا مادیات سے تعلق ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جو لوگ حد سے زیادہ اپنے جسم کی پرورش کرتے ہیں ان کی روحانیت کثیف ہوتی جاتی ہے حتی کہ ہم دیکھتے ہیں کہ دماغی کام کرنے والے لوگ جو کہ خاص قابلیت رکھتے ہوں اور خاص طورپر دنیا کے لئے مفید ہوں وہ خوراک وغیرہ کے لحاظ سے کبھی غالی نہیں ہوتے۔ اس وقت بھی جبکہ ظاہری آرام و آسائش کی طرف دنیا کو بہت توجہ ہے ہم دیکھتے ہیں کہ دماغی کام کرنے والے لوگ کھانے پینے کی طرف اپنے حالات کے باعث دوسرے لوگوں کی نسبت ضرور کم توجہ کرتے ہیں جس سے معلوم ہوتاہے کہ جب تک روح کو جسم کی قید سے ایک حد تک آزاد نہ کیاجاوے وہ کامل طورپر بلند پرواز ی نہیں دکھا سکتی۔ تمام مذاہب اور تمام بڑے بڑے انسان جوکبھی دنیا میں گزرے ہیں اور جنہوں نے روحانی طورپر کوئی کمال حاصل کیاہے ان کی زندگیوں کے حالات پڑھنے سے اور ان مذاہب کی کتب کے مطالعہ سے یہ بات یقینی طورپر ثابت ہوتی ہے کہ ان سب نے اپنی زندگیوں میں ایک حد تک روزے رکھے۔ اور سب مذاہب کے پیروؤں کو روزے رکھنے کی تاکید کی ۔ دنیا کے ہزاروں مذاہب میں سے جو خواہ تہذیب کے ابتدائی حصہ میں ہوں یاانتہائی میں صرف دو مذہب ایسے ہیں کہ جن کی نسبت اس وقت کی تحقیقات سے ثابت ہوتاہے کہ روزوں کی تعلیم نہیں ۔ ایک پارسی مذہب اور دوسرا کنفیوشین مذہب۔ مگرتحقیقات جدید نے یہ بات ثابت کرد ی ہے کہ پارسی مذہب میں بھی روزوں کا حکم تھا۔ چنانچہ ان کی ایک دعا میں روزوں کاذکر ہے۔

اب صرف ایک مذہب رہتاہے جس میں روزہ کی تعلیم معلوم نہیں ہو سکی۔ ہم دوسرے مذاہب کی وسیع شہادت کے مقابلے میں نہیں کہہ سکتے کہ واقعہ میں اس مذہب میں روزے نہ تھے۔ اور یہ ایک مثال ہمارے مدعا کے ثبوت میں روک نہیں ہو سکتی ۔ عبادات کی ظاہر ی شکل سے انکار کرنے والا سب سے بڑا مذہب عیسائیت ہے مگر حضرت مسیحؑ خود اور ان کے حواری روزہ رکھتے تھے۔ یہ عظیم الشان اتفاق جو اس بات کو ثابت کرتاہے کہ ہر ملک اور ہر قوم کی روحانی ترقی کے لئے روزے ضروری سمجھے گئے ہیں ہمیں اس نتیجہ تک پہنچا تا ہے کہ روزے صرف ایک رسم اور قانون کے طور پر نہیں رکھے گئے بلکہ ان کا روحانیت کے ساتھ گہرا تعلق ہے ۔ چنانچہ قرآ ن کریم میں اس بات کو پیش کیا گیاہے (کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ) اس میں دونوں باتیں قرآن کریم نے پیش کی ہیں۔ اے لوگو تم پر روزے فرض کئے گئے ہیں یعنی اس میں صرف حکم دیا ہے تاکہ جو لوگ رضا کے لئے حکم ماننے کے عادی ہیں وہ اس حکم پر عمل کریں۔ ان کے لئے یہ بھی ضروری نہیں کہ اس سے بظاہر کوئی فائدہ بھی ہو تب ہی وہ اتباع کر لیں گے ۔ دوسریکَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُم یعنی جیسے پہلے لوگوں کی ترقی کے لئے ضروری سمجھا گیا تھا اور ان پر روزے فرض کئے گئے تھے اسی طرح اور اسی غرض سے تمہارے لئے بھی روزے فرض کئے گئے ہیں اور وہ غرض کیاہے لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْن تاکہ تم تقویٰ حاصل کرو۔ پھر فرمایا لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْن محض تحکم یا عبودیت کے اظہار کے لئے نہیں بلکہ ان کا نتیجہ تقویٰ ہے ۔ پس قرآن کریم خود دعویٰ کرتاہے کہ یہ عبادت بھی محض شکل نہیں بلکہ اس کے اندر روحانیت ہے اوروہ یہ ہے کہ انسان کے اندرتقویٰ پیدا ہوتاہے،بدیوں سے بچنے کی طاقت ملتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا تعلق دل میں قائم ہوتاہے ۔ اس کی ظاہری وجہ یہ ہے کہ روح کو ایک حد تک جسم سے جدا کرنے کا ذریعہ روزہ ہے جس کے نتیجہ میں روح میں بلند پروازگی پیدا ہوتی ہے۔ گواس میں بھی کوئی شک نہیں کہ روح جیسے علمی ترقی کے لئے جدائی چاہتی ہے عملی ترقی کے لئے اتحاد چاہتی ہے ۔ پس جہاں جہاں علمی ترقی کا دَر روزوں کے ذریعے سے کھولا گیا ہے وہاں عملی ترقی کو جسم کی حفاظت اور اس کی قوت کو قائم رکھنے کے لئے مستحکم کیا گیا ہے ۔ چنانچہ فرض کے طورپر سال بھر میں صرف ایک ماہ کے روزے رکھے گئے ہیں اور روزانہ روزہ رکھنے سے قطعی طورپر روکا گیا ہے ۔ گویا سا ل میں سے ایک حصہ روزے لازمی و فرض ہیں اورایک حصہ میں کھانا پینا لازمی و فرض ہے اور اس طرح روح کی علمی اور عملی ترقیات کے لئے سامان بہم پہنچا دیا گیا ہے ۔

علاوہ ازیں روزوں میں اخلاقی اور سیاسی فوائد بھی بہت سے ہیں ۔ جب تک انسان محنت کش نہ ہو کسی کام کے قابل نہیں ہو سکتا ۔ دنیاوی محنتیں اورکوششیں توصرف غرباء کے لئے ہوتی ہیں کیونکہ وہ ان کے اٹھانے کے لئے مجبور ہوتے ہیں مگرامراء عام طورپر آسائش پسند ہوتے ہیں ۔پس اس شرعی حکم کے ماتحت ان میں بھی ضرورت کے موقعہ پر کام کی قابلیت پیدا ہوتی رہتی ہے ۔ اسی طرح روزے انسان کو اس ضروری فرض کی طرف بھی متوجہ کرتے ہیں جو ایک انسان پراس کے دوسرے بھائی کی فاقہ کشی اورغربت کے وقت عائد ہوتاہے۔ درحقیقت کوئی تکلیف اچھی طرح سمجھ میں آ نہیں سکتی جب تک انسان خود اس میں سے نہ گزرے جن لوگوں کو ایک ناشتہ کا بھی فاقہ نہ ہوا ہو وہ اپنے بھوکے بھائی کی تکلیف کا اندازہ نہیں کرسکتے۔ روزے کے ذریعے سے ہر ایک مسلمان اچھی طرح سمجھتاہے کہ مجھ پر میرے غریب بھائیوں کی خدمت اورخبر گیری فرض ہے اور یہ تکلیف معمولی تکلیف نہیں۔ اسی طرح اوربھی بہت سے اخلاقی فوائد اس سے حاصل ہوتے ہیں۔ مگریہ دوسرے درجہ میں ہیں۔ اصل فائدہ وہی روحانی فائدہ ہے جو لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْن میں بیان کیا گیاہے یعنی روح کی اعلیٰ تربیت ۔ رسول کریم ﷺ نے بھی فرمایا ہے کہ خدا صرف اس بات سے خوش نہیں ہوتا کہ انسان بھوکا اور پیاسا رہے اگر روزہ کے نتیجہ میں بدیوں سے نہ بچے۔ جس سے معلوم ہوتاہے کہ روزہ کی علت غائی روح کو قوی کرنا ہے اوربدیوں سے بچنے کی قوت پیدا کرنا۔ اور اگر کوئی شخص شکل کی حفاظت کرتاہے مگر مغز کی طرف توجہ نہیں کرتا تو رسول کریم ؐ فرماتے ہیں کہ اس کاروزہ کوئی روزہ نہیں۔

تیسرا حکم حج ہے۔ بظاہر یہ حکم بھی صرف ایک رسم و عاد ت معلوم ہوتاہے اور اس میں بھی بہت سی باتیں صرف ظاہری شکل تک ہی محدود معلوم ہوتی ہیں۔ حقیقت کوئی نظر نہیں آتی مگرحقیقتاً یہ بھی اپنے اندر بہت سی حقیقتیں اور طبعی فوائد رکھتاہے۔ پہلے ہم حج کے مقام کولیتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ حج کے لئے کوئی اور مقام بھی مقرر ہو سکتا تھا۔ اور اگر اس بات کی اجازت دے دی جاتی کہ ہر ملک والے اپنے لئے کوئی مقام مقرر کر لیں تو بظاہر یہ اعتراض مٹ جاتا کہ اسلام نے ظاہری شکل پر بہت زور دیاہے مگرایسا کرنا درحقیقت ان فوائد کوملیامیٹ کرناہے جو ایک معین مقام اور بالخصوص مکہ کے مقرر کرنے سے حاصل ہوتے ہیں۔آج کے زمانے سے پہلے لوگ اس حقیقت کو اس عمدگی سے نہیں سمجھ سکتے تھے۔ آپ لوگو ں سے پہلی کوئی قوم نہیں گزری جو اس حکم کی اہمیت کو آپ سے زیادہ عمدگی سے سمجھ سکے ۔ بے شک مقامات کئی مقرر ہو سکتے ہیں۔ ہندوستانی ہندوستان میں، جاپانی جاپان میں،عرب عرب میں، ایرانی ایران میں ایک ایک مقام مقرر کرلیں مگر یہ بتاؤ وہ کونسی طاقت ہوتی جو ان مقامات کو دنیا سے مقدس منوا لیتی۔ کیا اس قدر مقامات کی حرمت اور ان کی حفاظت غیر قوموں سے کروائی جا سکتی تھی۔ ایک مرکز ہے جس کے ساتھ تمام مسلمانوں کے خواہ و ہ کسی ملک یا فرقہ میں ہوں قلوب وابستہ ہیں۔ اور یہی مرکز دنیا کی نظروں کو دوسری طرف پھیر دیتاہے۔ اگر یہ مرکزیت کسی مکان کو حاصل نہ ہوتی تو ایک مکان بھی محفوظ رکھا نہ جا سکتا۔ پس ایک خاص مقام کامقرر کرنا اسلام کی وحدت کے لئے ضروری تھا۔ علاوہ ازیں اس کے دشمنوں سے ایسی صورت میں اپنے اپنے مقرر کردہ مقامات کا احترام نہیں کرایا جا سکتا تھا۔ ایسے مقام پر تمام فرق کے لوگ نہیں جمع ہو سکتے تھے ۔ کیا کو ئی انسانی مقررکردہ مقام بھی ایسا ہے جس کے ساتھ سب فرقوں کا تعلق ہو۔ اگر علیگڑھ جانا نیچری ثواب سمجھتاہے تو ایک مولویوں کا دلدادہ اسے کفر اور موجب عذاب یقین کرتاہے۔ اجمیر کو اگرایک پیر پرست جنت کا دروازہ یقین کرتاہے تو ایک اہل حدیث دوزخ کا رستہ ۔ غرض ہر ایک مقام جس کو کوئی شخص چن سکتاہے وہ اپنے اندر ایسے خطرے رکھتاہے کہ بعض دوسری قومیں اسے نہایت نفرت کی نگاہ سے دیکھتی ہیں ۔ خدا اوراس کے رسول ؐ نے چونکہ ایک مقام تجویز کر دیا ہے اس لئے کسی قوم یا فرقہ کو بھی اس کے قبول سے انکار نہیں خواہ شیعہ، خواہ خوارج، خواہ سنی وہ فرقے جو نماز جیسی عبادت پر بھی اکٹھے نہیں ہوتے وہ جماعتیں جو کسی مجلس میں اکٹھی شامل نہیں ہوسکتیں و ہ بغیر کسی امتیاز اور فرق کے اس نکتہ ٔ اتحاد کی طرف لبیک اللھم لبیک کہتی ہوئی مل جاتی ہیں ۔تو اس وقت اس اتحاد کا اندازہ ہوتا ہے جوکہ تعظیم کعبہ قائم کرنے سے اسلام کے اندر پیدا کر دیا گیا ہے۔

آ ج مسلمانوں میں اتحاد پیداکرنے والی کونسی چیز رہ گئی ہے ۔ نماز میں متحد نہیں اور روزے اورزکوٰۃ بھی علیحدہ ہیں۔ سیاست ، تعلیم ، عقائد، خیالات متفرق ہیں۔ اگر کوئی چیز ایک ہے اور جس پر سب مسلمان اپنے ظاہر ی عمل میں متحد ہو جاتے ہیں تو وہ مکہ ہے ۔ لاالہ الا اللہ محمَّدٌرَّسول اللہ بے شک ایک وہ چیزہے جس پر سب مسلمانی کے دعویدار متفق ہیں مگر اس کا ظاہر میں وجود نہیں۔ اس لئے اس پراتفاق کے اظہار کاکوئی ذریعہ نہیں ۔ مگر بیت اللہ ایک پتھروں کابنا ہوا مکان ہے جو سامنے نظر آتاہے اور اس کے اردگرد تمام فرقہائے اسلام کا اجتماع جبکہ کل بغض اور کینہ کو اپنے دل سے نکال دیاجاتاہے ایک ایسا یقینی ذریعۂ اتحاد ہے کہ اس کے ذریعہ سے ہزاروں پوشیدہ مصائب مسلمانوں کے سروں پر سے ٹل گئے ہیں۔ جو کہ ابھی سیاسی ابتری مسلمانوں کے لشکر میں پڑی ہے اس کے نتائج اس سے زیادہ خطرناک ہو تے جو آجکل ہوتے ہیں اگر یہ اتحادی نکتہ اسلام میں قائم نہ ہوتا۔ اسی طرح اگرمتفرق مقامات ہوتے بھی اور ان پر اپنے اپنے علاقہ کے گروہ متفق بھی ہوجاتے اوردوست اور دشمن ان کا احترام بھی کر لیتے تب بھی وہ وحد ت جو ایک مقام پر سب دنیا کے مسلمانوں کے جمع ہونے سے پیدا ہو سکتی ہے کب پیدا ہو سکتی۔ اور وہ رشتۂ اتحاد جو مکہ سے چل کر سب مسلمان کہلانے والے لوگوں کوایک سلک میں منسلک کر تے ہوئے بلا استثنائے احد پھرمکہ میں آ داخل ہوتاہے ۔ وہ اپنا ظہور کس طرح کر سکتا تھا۔ پس ایک مقام کاہونا نہایت لازمی اور ضروری تھا اوروہ مقام مکہ کے سوا ئے اورکون ہو سکتاتھا جو ابتدائے زمانہ سے مہبط انوار و برکات چلا آیاہے ۔ خاص مقامات میں خاص خاص برکات ہوتی ہیں ۔ اس سے کوئی شخص انکار نہیں کرسکتا اور یہ ایسی بات ہے کہ اس کی تائید میں لاکھوں راستبازوں اور صادقوں کی شہادتیں پیش کی جا سکتی ہیں اوراس قدر شہادتوں کی موجودگی میں کسی بات کا انکار کر دینا انسان کو سوفسطہ کے نقطہ سے نیچے کسی مقام پر ٹھہرنے نہیں دیتا ۔ یقیناًنتیجہ یا سوفسطہ پیدا ہوگایااس انکار کو ضدپر محمول کریں گے ۔

پس مکہ جو کہ دنیامیں سب سے پہلامقام ہے جس کو خدائے تعالیٰ نے سب سے پہلے عبادت کے لئے مقرر کیا (اِنَّ اَوَّلَ بَیْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِیْ بِبَکَّۃَمُبَارَکاً وَّ ھُدًی۔۔۔الخ)اس میں خداتعالیٰ نے پیش کیاہے کہ سب سے پہلا مقام یہی مقرر کیا گیااوربعد میں بھی بڑے بڑے انبیاء اور صلحاء کا اس کے ساتھ تعلق ہمیشہ رہاہے حتی کہ آنحضرت ﷺ کی بعثت بھی اس کے قریب ہوئی ۔ پس یہ مقام اپنے اندر خصوصیات رکھتاہے اور خاص برکات وہاں نازل ہوتی ہیں (حضرت ابراہیمؑ کی دعا) پس جب ایک مقام مقرر کرنا تھاتو ضرور تھا کہ وہی مقام مقرر کیاجاتا جو سب سے بہترہوتا ۔تاکہ روحانی ، سیاسی ، تمدنی تمام قسم کے فوائد اس ایک جگہ پر کے اجتماع سے حاصل ہوجاتے ۔ پس مکّہ کو اسلام کا مرکز مقرر کرنا اور اس میں صاحب مقدرت لوگوں پر، کم سے کم، عمر میں ایک دفعہ جانا فرض کر دینا ایک رسم نہیں بلکہ اپنے اندر روحانی، سیاسی ، تمدنی تمام قسم کے فوائد رکھتاہے بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ اسلام کی حیات کا بہت بڑا ذریعہ ہے ۔

اب رہا کہ اس میں خاص خاص معین اعمال کیوں مقرر کئے گئے ہیں ۔ کیوں صرف اجتماع پر بس نہیں کیا گیا اس کی خاص وجہ یہ ہے کہ خاص خاص مقامات برکات رکھتے ہیں۔ پس حج میں جو خاص مقامات قدیم ایام سے مبارک چلے آئے ہیں جہاں اللہ تعالیٰ کی برکات نازل ہوئی ہیں ان پر عبادت کرنے کا مسلمانوں کو حکم دیا جاتاہے کیونکہ اسلام اس بات کو جائز نہیں رکھتا کہ لوگ کسی جگہ جمع ہوں اور وہاں خدا کا ذکر نہ کیاجاوے۔ عرفات، مشعر الحرام ، منیٰ ، بیت اللہ ، صفا مرویٰ یہ سب وہ مقامات ہیں جہاں خدا تعالیٰ کی معرفت اور اس کی رحمت کے دروازے اس کے بندوں پر کھولے جاتے ہیں۔ پس ان مقامات کی برکات کے حصول کے لئے وہاں انسان جاتے ہیں اوروہاں خدا تعالیٰ کا ذکر کر کے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کوجذب کرتے ہیں۔ قربانی ، بال منڈانا یا خاص قسم کے لباس پہننا یہ بھی خاص علامات کے طورپر ہیں۔ حج کا لباس بالکل اسی لباس سے مشابہ ہوتاہے جو مرنے کے بعد انسان کو پہنایاجاتاہے۔دو چادروں میں انسان لپٹا ہوا اس مقام پر اللہ تعالیٰ کے حضور چلتاہے اور چونکہ تمام دنیا سے مخلوق جمع ہوتی ہے اس لئے ہم اس مقام کو ایک چھوٹا محشرکا مقام کہہ سکتے ہیں۔ مختلف مقاموں کے لوگ مختلف زبانوں والے وہا ں جمع ہوتے ہیں ۔پس وہاں وہی لباس جو کفن کا لباس ہوتا ہے مقرر کر کے انسان کی توجہ کو اس طرف پھیرا گیا ہے کہ وہ حشرکے حالات کو مدنظر رکھ کر اپنی اصلاح کی طرف توجہ کرے ۔ اگر حشر کا نقشہ آنکھوں کے سامنے آ سکتاہے تو وہ حج کے دنوں میں جب لاکھوں آدمی کفن کا لباس پہنے ہوئے لبیک کہتے ہوئے خدا کی طرف دوڑے آتے ہیں اور غریب اور امیر سب یکساں لباس میں ہوتے ہیں اور غریب اور امیر کی کوئی پہچان نہیں ہوتی۔

قربانی اور سر کا منڈانا درحقیقت انسان کو اس بچپن کی طرف متوجہ کرتاہے جو اس کی رسم عقیقہ کے ساتھ متعلق ہے ۔ یہاں بھی گویاوہ ایک نئے سرے سے پیدائش حاصل کرتاہے اور اس مقام پر جہاں بہت سے نبیوں نے اپنی اطاعت کا اقرار کیا تھا اس بات کا عہد کرتاہے کہ جس طرح بچہ ایک نئی زندگی شروع کرتاہے میں بھی آج سے ہی خدا کی اطاعت میں ایک نئی زندگی شروع کروں گا۔

قربانی اس قربانی کو یاد دلاتی ہے جو ابراہیمؑ نے خدا کے حضور پیش کی اور جس کو خدا نے قبول کرتے ہوئے بکری کی قربانی کو اس کاقائم مقام قرار دیا۔ پس حج کی قربانی ابراہیم ؑ کی قربانی اور اس کے بدلہ میں خدا کی طرف سے جو برکات اس پر ناز ل ہوئیں اس کا اظہار اورنشان ہے اوراس کے ساتھ ہی انسان کا یہ اقرار بھی ہے کہ میں اللہ کے لئے اپنی جان قربان کرنے کے لئے تیار ہوں اور اس کا ثبوت وہ اپنے مال کی قربانی کے ساتھ دیتاہے ۔ غرض حج کے قواعد میں سے تمام ہی اپنے اندرکچھ علامات اورمعانی رکھتے ہیں۔ اور علاوہ معانی کے خاص برکات اور روحانیت کی ترقی کا باعث بھی ہیں کیونکہ مشابہت سے بھی انسان بہت سے فوائد حاصل کرتا ہے۔ جب ایک مسلمان ان مقاما ت پر جاتاہے جہاں پہلے نبیوں کو فیوض حاصل ہوئے اوراسی حالت میں جاتاہے تو ان کے ساتھ مشابہت پیدا کرتاہے۔ اور یہ ظاہری مشابہت قلبی مشابہت کی ممد ہوتی ہے بشرطیکہ رسم کے ماتحت نہ ہو بلکہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت ہو ۔ اس امر کے ثبوت کے لئے کہ یہ امور خدا کی معرفت کے لئے مقرر کئے گئے ہیں (اِنَّ الصَّفَاوَالْمَرْوَۃَ مِنْ شَعَائِرِاللّٰہِ وَمَنْ یعظم شَعَائِراللّٰہ ۔۔۔الخ)۔شعائر شعرہ کی جمع ہے جس کے معنی علامت ہیں جس سے دوسری چیزکی شناخت ہوسکتی ہے۔پس یہ جس قدر اصطلاحیں ہیں وہ سب کی سب انسان کو ایک اندرونی حقیقت کی طرف لے جانے کاذریعہ ہیں۔

اب چوتھارکن زکوٰۃ ہے۔ خود مسئلۂ زکوٰۃ پرتوکوئی اعتراض پڑ ہی نہیں سکتا کیونکہ اپنے مال کاایک حصہ کسی مفید کام کے لئے نکال دینا ایک ایسی حقیقت ہے جس کا آج تک کسی عقل مند نے انکار نہیں کیا۔ ہاں صرف یہ سوال ہو سکتاہے کہ ایک خاص معین رقم کیوں مقرر کر دی گئی اور کیوں تمام مال نہیں چھوڑ دیا گیا۔ اور کیوں معین اشخاص مقرر کئے گئے ہیں اس کی تقسیم کوعام نہیں کیا گیا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ معین رقم کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ جب رقم معین ہو تو اگرچہ بعض لوگ زیادہ دینے کے لئے تیار ہوں تو اس کے مقابلہ میں اکثر لوگ کم دیتے ہیں۔ پس ضرور تھا کہ ایک خاص حصہ مقرر کیا جاتا تا کہ عام طورپر لو گ اپنے فرض کے ادا کرنے میں سستی نہ کرتے۔ باقی رہے زیادہ دینے والے لوگ سو ان کے لئے اللہ تعالیٰ نے صدقات کارستہ کھلا رکھاہے۔ ا س حصہ کا نام زکوٰۃ ہے باقی کا نام صدقہ جس میں کوئی روک نہیں ہے ۔

خا ص معین اشخاص دینے کے لئے کیوں مقرر کئے گئے اس کی وجہ یہ ہے کہ اگرمستحقین کی کوئی تعیین نہ کی جاتی تو بہت سے ایسے امور داخل کر لئے جاتے جن پرمسلمانوں میں اختلاف پیدا ہو جاتا کیونکہ باقی اخراجات کسی عقیدہ یا کسی خاص طریق کے ساتھ خصوصیت رکھتے ہیں۔ ان کے متعلق مختلف العقائد لوگوں میں اختلاف ہوتا۔ پس اسلام نے بیت المال کے نگرانوں کے اختیارات کو محدود کر کے ایسے امور کے متعلق اس خرچ کو مقرر کر دیا کہ جن سے آپس میں اختلاف کی کوئی صورت پیدا نہ ہو ۔ دوسرے اس حصہ ٔ ما ل میں صرف ان لوگوں کا حق رکھا گیا جو حاجت مند ہیں ۔ اگر اس کی اجازت سیاسی اور علمی ترقیات کے متعلق بھی رکھ دی جاتی تو نتیجہ یہ ہوتا کہ روپے کا اکثر حصہ مالداروں پر ہی صرف ہو جاتا ۔ باقی رہا یہ سوال کہ کسی وقت یہ مستحقین نہیں رہتے باطل بات ہے ۔ اسلام سستی اور غفلت کو ناجائز سمجھتاہے ۔ ہر زمانہ میں اپاہج ، لولے ، لنگڑے آسمانی بلاؤں کے باعث مقروض لوگوں کاوجود پایا جاتا ہے اور بڑی سے بڑی ترقی یافتہ قوم بھی اپنے آزاد لوگوں کو مصائب سے محفوظ رکھنے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔انگلستان بھی ایسے لوگوں سے بھرا پڑاہے ۔ شریر لوگ غفلت اور سستی کی وجہ سے نکمے رہ کر ان اموا ل سے اگر فائدہ اٹھا نا چاہتے ہیں اور ان کو یہ اموا ل دے دئے جاتے ہیں تو یہ دینے والوں کا قصور ہے اس سے مسئلہ پراعتراض نہیں ہو سکتا اور یہ یقیناًکہا جا سکتاہے کہ وہ قسمیں جو مستحقین کی ہیں وہ مفقود نہیں ہو گئی ہیں ۔ زکوٰۃ سے اسلام نے ایک عظیم الشان بنا رکھی تھی مسلمانوں کی ترقی کی۔ ہر ایک جماعت افراد سے بنتی ہے ۔افراد کی ترقی سے جماعت کی ترقی ہوتی ہے۔ جس طرح کوئی جماعت کامیاب نہیں ہو سکتی جب تک وہ اپنے تمام افراد کو حتی الوسع ترقی کے زینے پر چڑھانے کی کوشش نہ کرے ۔ پس قربانی باہمی ہونی چاہئے۔ جس قوم کا کافی حصہ معطل ہوگاوہ ضرور دوسروں کی نسبت گری رہے گی ۔ پس جماعت کی ترقی کے لئے ضروری ہے کہ یتامیٰ مساکین مسافروں کی خبرگیری کی جاوے۔ جس قدر مصائب میں لوگ گریں ان کو سہارا دے کر اٹھایا جائے تاکہ ان کے ملنے سے جماعت کی طاقت بڑھے ۔

اگر زکوٰۃ کے مسئلہ پر مسلمان قائم رہتے تو آج اس ذلت کا منہ بھی نہ دیکھتے ۔ غرض یہ چاروں عبادات جو رکن ہیں بقیہ احکام کے ان میں جس قدر کہ ظاہری شکل کا لحاظ رکھا گیا ہے اس قدر لحاظ ضروری تھا ۔ اس قدر لحاظ رکھنے کے بغیر مغز قائم نہیں رہ سکتا تھا۔ پس یہ غلط ہے کہ اسلام ظاہری شکل پر بہت زور دیتاہے ۔ اسلام ظاہری شکل پر صرف اسی قدر زوردیتا ہے جس قدر روحانیت کے قائم رکھنے کے لئے ضروری ہے اور ہزاروں رسومات ہیں جو یاتو اپنے اندرکوئی حقیقت نہیں رکھتی تھیں یا ان کی حقیقت کا حصہ ایساکم تھا کہ ان کے قیام سے کوئی فائدہ نہ تھا ان کو اسلام نے بالکل مٹا دیا ہے اور اسلام نے جس قدر روحانیت کے اوپر زور دیا ہے اس قدرزورکسی کتاب یا مذہب نے نہیں دیا۔ ہاں اسلام چونکہ عالم الغیب خدا کی طرف سے آیاہے وہ اندھا دھند احکام نہیں دیتا نہ وہ کسی چیز کو بالکل بیہودہ اور لغو قرار دیتاہے۔ نہ وہ کسی چیز کے نقائص کو نظر انداز کرکے اس کو یقینی طور پر بابرکت قرار دیتاہے ۔ اسی حد تک وہ ایک چیز کو قائم کرتاہے جس حد تک وہ مفید ہو اور ہر چیز کو وہ اس کی حد پر رکھتاہے نہ وہ اس کی مضرتوں کو نظر انداز کرتاہے نہ و ہ اس کے فوائد کو بھولتاہے ۔ پس اعتراض اسلام پرنہیں پڑتا ۔ اعتراض ان مذاہب پر پڑتاہے جنہوں نے مشاہدات قدرت کو نظر انداز کرتے ہوئے یہ خیال کر لیاہے کہ روحانیت کی ترقی اور قیام کے لئے جسمانی عبادات اور خاص احکام کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ انہوں نے مغز کو بغیر پوست کے تربیت دینا چاہا جو ناممکن ہے ۔ اسی وجہ سے جب کسی قوم نے یہ کوشش کی ہے وہ اپنے اخلاق میں گر گئی ہے اور یورپ مثال کے طور پر موجود ہے۔ کسی چیز میں کسی قدر برائی کا ہونا اس کو بالکل برا یا کسی چیز میں کسی قدر خوبی کا ہونا اس کو بالکل اچھا قرار نہیں دیتا۔ اسی طرح کسی چیز کا سب سے اعلیٰ قرار پانے کے یہ معنی نہیں کہ اس سے ادنیٰ کی ضرورت نہیں۔ آلات ہمیشہ مدعا سے ادنیٰ ہوتے ہیں مگر باوجود اس کے علم آلات کو ہر گز ترک نہیں کر سکتے۔مثلاً کھانا ہمارا مقصد ہے پیالہ یا چمچہ یہ آلہ ہے جو اس کھانے کے لئے دیا گیاہے مگر ہم اس کو ترک نہیں کرسکتے کیونکہ اس کے بغیر مقصود حاصل نہیں ہو سکتا۔ ہمیشہ ادنیٰ اور اعلیٰ کامقابلہ جب ہوگا ، جب مقابلہ پرآئیں یعنی یہ ممکن یا ضروری ہو کہ ہم اس کو لیں اور اس کو نہ لیں اگردونوں مقابل پر نہ ہوں تو بعض دفعہ ضروری ہوتاہے کہ ہم ادنیٰ اور اعلیٰ دونوں کو لیں کیونکہ بسا اوقات ادنیٰ کے بغیر اعلیٰ بھی ہمارے کام کی چیز نہیں ہوتی۔ پس چونکہ ظاہر ی شکل کا بیان روحانیت کے لئے ضروری ہے اسی حد تک اسلام نے اس کو ضروری رکھا ہے اور اس سے زیادہ اس کو نہیں لیا۔

پس عبادات کی ان ظاہری صورتوں سے یہ نتیجہ نہیں نکالا جاسکتا کہ اسلام نے روحانیت پرزور نہیں دیا ہاں یہ اعتراض کیاجا سکتاہے کہ اسلام نے ظاہری صورتوں کو کیوں قائم رکھا ہے اوراس کا جواب ہم دے چکے ہیں کہ ان ظاہری صورتوں کے اندر ہی روحانی فوائد مدّنظر ہیں اور یہ روحانیت کے قیام کے لئے بطور برتن کے ہیں اور کون نادان ہے جو برتنوں کو توڑ ڈالے اس خیال سے کہ ہمیں برتنوں کی ضرورت نہیں بلکہ صرف اس کی ضرورت ہے جو ان کے اندرہے ؟ ہاں خالی برتن رکھنے بھی نادانی ہے اوراسلام اس کو جائز نہیں رکھتا۔

(بشکریہ: ریویو آف ریلجنز اردو ۱۹۱۹ء۔ جلد ۱۸ نمبر ۶ صفحہ ۱۹۸تا ۲۱۶)

(مطبوعہ :الفضل انٹرنیشنل ۱۴؍مئی۱۹۹۹ء تا۲۰؍مئی ۱۹۹۹ء)