امریکہ میں لنگر مسیحِ موعود علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا جاری و ساری سفر

امتیاز احمد راجیکی

جون جولائی 2016 کے احمدیہ گزٹ کے شمارے میں امریکہ میں لنگر مسیحِ موعود علیہ السلام کے پچیس سال مکمل ہونے پر خدا تعالیٰ کے فضلوں اور تحدیثِ نعمت کے طور پر چند سطریں لکھنے کا موقع ملا۔ مختلف طبقاتِ فکر کے افرادِ جماعت کی طرف سے اظہارِ خوشنودی نے حوصلہ افزائی فرمائی۔ میرے بزرگ اور مہربان دوست مکرم و محترم مولانا چودھری مبشر احمد صاحب مشنری جو جماعت احمدیہ امریکہ کی تاریخ کے مرتبین میں شامل ہیں، نے خاص طور پر ہدایت فرمائی کہ وقتاً فوقتاً تاریخ کے ان ابواب اور اللہ تعالیٰ کے احسانوں اور انعاموں کو محفوظ کرنے کے اس سلسلے کو جاری رکھا جائے۔

جلسہ سے پہلے میری اس طرف توجہ نہیں تھی اور کوئی خاص مضمون بھی ذہن میں مستحضر نہیں تھا۔ مگر دورانِ جلسہ میں اللہ تعالیٰ کے پے در پے فضلوں اور قبولیتِ دعا کے محیر العقول نظاروں نے مجبور کر دیا کہ تحدیثِ نعمت کی برکات سے حصہ پاؤں۔

حادثہ باعثِ رحمت

جلسہ سے تین ہفتہ قبل عید الفطر سے دو روز پہلے ایک ناگہانی حادثے میں میری دو لاکھ پچاسی ہزار میل کی مسافت کا بوجھ اٹھائے ہوئے بارہ سالہ پرانی ٹویوٹا پریئس (Toyota Prius) زخموں کی تاب نہ لا کر دم توڑ گئی اور دو بار مجھے بھی ہسپتال کے ایمرجنسی روم کی زیارت کرنی پڑی۔ حادثے کا سبب دوسرے ڈرائیور کے سٹاپ سائن پر نہ رکنے کے نتیجے کے طور پر ہوا۔ قدرتی طور پر یہ ایک تکلیف دہ امر تھا۔ سیٹ بیلٹ کے کھچاؤ اور ایئر بیگ پھٹنے سے سینے پر کافی سخت دباؤ تھا۔ مگر اللہ تعالیٰ نے معجزانہ طور پر حفاظت فرمائی اور نہ صرف نمازِ عید کی ادائیگی کی توفیق عطا فرمائی بلکہ جلسہ میں شمولیت کا خواب بھی بہتر رنگ میں شرمندۂ تعبیر ہوا۔

تین سال قبل فلوریڈا نقل مکانی کے باعث جلسہ گاہ کا سفر ڈیڑھ گھنٹہ سے بڑھ کر ساڑھے بارہ گھنٹے کا ہو گیا تھا۔ اور اہلیہ کے تبدل زانو جراحی (knee replacement surgery) کے باعث ایک چھوٹی سی کار میں چار افراد کا سفر خاصا دشوار گزار تھا۔ اللہ تعالیٰ کی نظرِ کرم ان تمام دشواریوں پر پہلے سی تھی؛ چنانچہ اس نے فوری طور پر ایک اچھی حالت کی استعمال شدہ وین کا بندوبست فرما دیا جس میں اٹھتے، بیٹھتے، لیٹتے یہ سفر سہولت سے گزر گیا۔ اور جمعرات کے روز بعد دوپہر ہم دونوں باپ بیٹا لنگر کی ڈیوٹی پر حاضر تھے۔

Are you coming to Jalsa?

جمعرات کی شام کو مکرم و محترم امیر صاحب کے معائنہ جلسہ کے بعد رضاکاروں کے عشائیہ (dinner) کی تیاریوں میں مصروف تھا کہ غیر متوقع طور پر انصاراللہ کے وٹس ایپ (WhatsApp) گروپ کی بجائے میرے ریگولر فون پر صدر انصاراللہ امریکہ مکرم و محترم ڈاکٹر فہیم یونس قریشی صاحب کا پیغام آیا:

”کیا آپ جلسہ پر آ رہے ہیں؟“ (Are you coming to Jalsa?) مَیں نے جواباً عرض کیا: ”مَیں اِس وقت جلسہ گاہ کے ڈائیننگ ہال میں موجود ہوں۔“

مَیں یہی سمجھا کہ شاید صدر صاحب کو فوری طور پر کسی شے کی ضرورت ہے، مگر جب دو روز تک مزید کوئی استفسار نہ ہوا تو خیال گزرا کہ اغلباً مجلسِ عاملہ کے تمام اراکین اور ناظمین کو جلسہ میں شمولیت کی یاد دہانی کے لیے صدر صاحب نے پیغام بھیجا ہو گا۔

ہفتہ کے روز کھانے کی میز پر محترم صدر صاحب سے ملاقات ہوئی تو آپ نے فرمایا: ”راجیکی صاحب، میری سمجھ میں نہیں آیا، مَیں نے آپ سے یہ سوال کیوں کیا تھا کہ آپ جلسہ پر آ رہے ہیں یا نہیں؟“

مَیں نے عرض کیا: ” شاید آپ نے سب کو یاد دہانی کرائی ہو گی۔“

”نہیں، یہی تو حیرت ہے کہ مَیں نے یہ صرف آپ سے ہی پوچھا تھا۔“ صدر صاحب نے جواب دیا۔

”سبحان اللہ، یہ تو میرے لیے بہت بڑا اعزاز ہے۔“ مَیں نے جواباً عرض کیا۔ اور سمجھ گیا کہ یہ ایک الٰہی تصرف اور خصوصیت سے اس جلسے میں دعاؤں اور محبتوں کے تعلقات بڑھانے کا عندیہ ہے۔

امیر صاحب محترم کا معائنہ اور رقت آمیز خطاب

جلسہ سے ایک روز قبل، امیر صاحب محترم امریکہ کا تمام شعبوں کا معائنہ، مختصر نصائح پر مبنی خطاب، دعا اور سب خدمتگاروں کے ساتھ مل کر عشائیہ ایک جماعتی روایت ہے جس پر تمام امرا ــــــــ اور اگر سیّدنا حضرت اقدس خلیفۃ المسیح موجود ہوں ــــــــ کی شمولیت ایک معمول کا امر ہے۔ لیکن اس بار مکرم و محترم امیر صاحب صاحبزادہ مرزا مغفور احمد صاحب سلمہٗ اللہ تعالیٰ کا خطاب ایک غیر معمولی اور منفرد اہمیت کا حامل تھا۔ آپ نے جلسہ کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے موجود خدمتگاروں کو خصوصیت سے سیّدنا حضرت اقدس مسیحِ موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے پاک ارشادات کی روشنی میں اس طرف توجہ دلائی کہ اس جلسے میں شرکت کرنے والے ہر مہمان کے لیے اس کی سہولت اور ضرورت کے مطابق انتظام کیا جائے اور جس طرح آقا علیہ السلام خود تکلیف اٹھا کر مہمانوں کے آرام کا بندوبست فرماتے تھے ہمیں بھی اسی روح کے ساتھ خدمت بجا لانی چاہیے۔ آپ نے حضرت مسیحِ موعودؑ کی سیرتِ طیبہ سے حوالے دیتے ہوئے حاضرین کو یاد دہانی کرائی کہ کس طرح آپ بھوکے پیاسے رہ کر اپنے حصے کا کھانا مہمانوں کی خدمت میں پیش فرما دیتے اور اپنا ذاتی بستر بھی انہیں عطا کر کے خود سردی میں ٹھٹھرتے ٹھٹھرتے ساری رات گزار دیتے۔

محترم امیر صاحب کے خطاب کا معتدبہ حصہ خصوصیت سے شعبۂ ضیافت سے متعلق تھا۔ اس کی اصلاح اور بہتری کے لیے آپ نے ہدایات جاری کیں اور کھانے کی کمیت و خاصیت اور مقدار و معیار پر سیر حاصل بحث فرمائی۔ آپ نے بڑے رقت بھرے لہجے میں کہا:

”اگر مسیحِ موعود علیہ السلام کے مہمانوں میں سے ایک بھی فرد کو اس کی ضرورت کے مطابق خوراک میسر نہیں آتی اور کھانا ختم ہو جاتا ہے تو یہ کسی حالت میں بھی قابلِ قبول نہیں ہو گا۔ مَیں اس وقت تک کھانا نہیں کھاؤں گا جب تک مجھے یہ اطلاع نہ مل جائے کہ ایک ایک مہمان سیر ہو گیا ہے۔“

امیر صاحب کے اس خطاب نے مجھے بھی آبدیدہ کر دیا کہ آپ نے کس درد سے اپنے اضطراب کا اظہار کیا ہے۔ اور آقا علیہ السلام کی سنت و روایت کے پیشِ نظر اپنے آرام و سہولت کی قربانی کے لیے تیار ہو گئے ہیں۔ میرے دل پر اس بات کا بڑا گہرا اثر تھا۔ مَیں نے بڑی التجا سے اللہ تبارک و تعالیٰ سے دعا کی:

”اے قادر و توانا ربّ العزت، تو جانتا ہے کہ جلسہ کے مہمانوں کی خدمت کے لیے ہم لوگ جو تھوڑی بہت ٹوٹی پھوٹی عاجزانہ کوششیں کرتے ہیں، بشری تقاضوں کے تحت ان میں ہمیشہ کمی بیشی رہ جاتی ہے اور کسی نہ کسی وقتی ناگوار صورتِ حال کا سامنا بھی کرنا پڑ جاتا ہے۔ مگر اب کی بار آقا علیہ السلام کے اس عاجز غلام نے جس کی رگوں میں آپؑ کا خون دوڑ رہا ہے، جس رقت اور عاجزی سے اپنا سکون و آرام تج دینے کا عہد کیا ہے، اس کے اس عزم کی لاج رکھنا اور ہماری کوتاہیوں اور غلطیوں پر صرفِ نظر کرتے ہوئے اس امتحان میں سرخرو کرنا۔“

اس کے بعد کے واقعات نے ثابت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے کس طرح امیر صاحب اور حاضرین کی عاجزانہ دعاؤں کو قبول فرمایا اور غیر معمولی تائید و نصرت سے اعانت کے سامان پیدا فرمائے۔

اکرامِ ضیف اور ہماری ذمہ داریاں

مہمان نوازی اور اکرامِ ضیف ایسے اوصاف ہیں جو انبیاء کی پہچان ہوتے ہیں۔ وہ ابراہیمؑ و نوحؑ سے منسلک ہوں، آقائے دو جہاں حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی صداقت کے مصداق ہوں یا اِس دور میں آپؐ کے غلامِ صادق سیّدنا حضرت اقدس مسیحِ موعود علیہ السلام کے انگ انگ سے پھوٹنے والے کرشمہ ہائے صدق و وفا کے مظاہر ہوں، ہمیشہ کے لیے معاشرتی زندگی کی اہم بنیادی ضرورت کا احاطہ کیے ہوتے ہیں۔ ہادیِ دو جہاں ﷺ نے ایک مختصر پیرائے میں کس خوبصورت انداز سے انسانی معاشرت کے زریں اصول بیان فرما دئیے اور انہیں اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان کے ساتھ مشروط کر دیا:

”اچھی بات کہو یا خاموش رہو۔ ہمسائیہ کی عزت کرو اور اکرامِ ضیف یعنی مہمان کا احترام کرو۔“

سیّدنا حضرت اقدس مسیحِ پاک علیہ السلام کی مطہر زندگی بھی انہیں اوصاف سے مزین تھی۔ ایک وقت تھا جب آپؑ تنہائی و گمنامی کی زندگی بسر کرتے تھے۔ اپنی ذات میں مگن، اپنے ربّ کی یاد میں غرقاں اور دستر خواں کے بچے کھچے ٹکڑوں پر گزارہ کرتے تھے۔ اس حالت کو آپؑ نے یوں بیان فرمایا: ؎

 ”مَیں تھا غریب و بے کس و گمنام و بے ہنر                           کوئی نہ جانتا تھا کہ ہے قادیاں کدھر“

 مگر جب اذنِ الٰہی سے آپؑ کو تاجِ مرسلین پہنایا گیا اور خدا تعالیٰ نے بڑے زور آور حملوں سے آپؑ کی منادی کی اور سچائی کو ظاہر فرمایا تو اک کایا ہی پلٹ گئی۔ اور اس کا اظہار یوں ہوا: ؎

”اب دیکھتے ہو کیسا رجوعِ جہاں ہوا                   اک مرجعِ خواص یہی قادیاں ہوا“

اور ظاہر ہے اس مرجعِ خواص و عام کی تکریم اور مہمان داری کوئی معمولی امر نہیں تھا۔ اس کے لیے جگرِ حاتم اور کنزِ خسروی درکار تھا۔ اور یہ سب پیدا کس تذلل اور عاجزی کی کوکھ سے ہوا، اس کا اظہار آپؑ اس طرح فرماتے ہیں:

”لُفَاظَاتُ الْمَوَائِدِ کَانَ اُکُلِیْ            وَ صِرْتُ الْیَوْمَ مِطْعَامَ الْاَھَالِیْ“

(دستر خوانوں کا پس خوردہ میری خوراک تھا اور آج مَیں کئی گھرانوں کو کھلانے والا بن گیا ہوں)

سیّدنا حضرت اقدس مسیحِ موعود علیہ السلام کی زیارت اور آپؑ کا پیغام سننے کے لیے جب خلائقِ بے تاباں جوک در جوک قادیان کا رخ کرنے لگے تو پہلے عارضی اور پھر مستقلاً دارالضیافت اور لنگر خانے کے انتظامات کی طرف توجہ ہوئی۔ اور ان عشاق کی روحانی تشنگی کی سیرابی کے لیے جلسہ سالانہ جیسے عظیم ادارے اور نظام کا قیام بھی آقا علیہ السلام کی خصوصی نظرِ کرم کا مرہونِ منت بنا۔ اب سو سال سے زائد عرصہ سے ان دلنشیں روایات کی باگ ڈور امامِ وقت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہٖ العزیز نے تھامی ہوئی ہے۔ اور انہیں ذمہ داریوں کی نشان دہی کے لیے آپ گاہے بگاہے اپنے زریں ارشادات کے ذریعے خدمتگاروں کو یاد دہانی کراتے رہتے ہیں؛ چنانچہ حال ہی میں حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہٖ العزیز نے فرمایا:

خدمتگارانِ جلسہ سے حضور کا خطاب مؤرخہ 21 جولائی 2017

”ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ مہمان نوازی ایک بہت اہم شعبہ ہے۔ مہمان نوازی صرف کھانا کھلانا، پانی پلا دینا یا زیادہ سے زیادہ رہائش کا انتظام کر دینا نہیں بلکہ جلسہ سالانہ کا ہر شعبہ مہمان نوازی ہے، چاہے اسے کوئی بھی نام دیا گیا ہو۔

جلسہ پر جو بھی آتا ہے وہ مہمان ہے اور اس کی ضروریات کا خیال اپنے میسر وسائل کے ساتھ رکھنا ہر اس شخص کے لیے جو جلسہ سالانہ کی کسی بھی ڈیوٹی پر متعین ہے ضروری ہے۔ اس کے لیے حضرت مسیحِ موعودؑ نے اپنے جذبات کا ایک جگہ اظہار فرمایا جو ہمارے لیے اصولی لائحہ عمل ہے۔ آپؑ نے ایک موقع پر فرمایا کہ:

’میرا ہمیشہ یہ خیال رہتا ہے کہ کسی مہمان کو تکلیف نہ ہو، بلکہ اس کے لیے ہمیشہ تاکید کرتا رہتا ہوں کہ جہاں تک ہو سکے مہمانوں کو آرام دیا جاوے۔‘ فرمایا: ’مہمان کا دل مثلِ آئینہ کے نازک ہوتا ہے اور ذرا سی ٹھیس لگنے سے ٹوٹ جاتا ہے۔ پس اس بات کو بھی یاد رکھنا چاہیے اور اپنی طبیعتوں پر جبر کر کے بھی اگر کوئی بعض دفعہ ایسے حالات پیدا ہوں ہمیں مہمان کو آرام اور سہولت پہنچانے کی کوشش کرنی چاہیے۔‘

اس طرح کھانا کھلانے والے ہیں جن کا براہِ راست مہمانوں سے واسطہ ہے۔ انہیں مَیں ہمیشہ یاد دہانی کرواتا ہوں کہ کھانا دیتے ہوئے، پلیٹ میں ڈالتے ہوئے مہمان کی پسند بھی دیکھ لیا کریں؛ گو اس میں کافی دقت اور مشکل پیش آتی ہے لیکن بہر حال کوشش کریں جس حد تک دیکھ سکتے ہیں دیکھیں۔ اور اگر کوئی مجبوری ہو تو پھر احسن رنگ میں جواب دیں اس کو، بجائے سختی سے جواب دینے کے جس سے دوسرے کے جذبات کو تکلیف نہ ہو۔“

حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہٖ العزیز نے مزید فرمایا:

”جلسہ سالانہ میں شامل ہونے والا ہر شخص حضرت مسیحِ موعودؑ کا مہمان ہے اور حضرت مسیحِ موعودؑ کے مہمان ہونے کی وجہ سے ہم نے ہر مہمان کو خاص مہمان سمجھنا ہے اور اس کی مہمان نوازی میں بھرپور کوشش کرنی ہے۔ حضرت مسیحِ موعودؑ نے اس امر کا اظہار اور جائزے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے ایک موقع پر فرمایا کہ لنگر کے مہتمم کو مہمانوں کی ضروریات کا جائزہ لیتے رہنا چاہیے۔ لیکن چونکہ وہ اکیلا آدمی ہے اس لیے بعض اوقات خیال نہیں رہتا۔ بعض باتیں نظر سے اوجھل ہو جاتی ہیں۔ اس لیے کوئی دوسرا شخص یاد دلا دے اور یاد دہانی کے لیے بہترین طریق یہی ہے کہ افسر خود کسی کو اس یاد دہانی کے لیے مقرر کرے جو جائزہ لیتا رہے کہ کہاں کہاں کمی ہے۔

امیر غریب کی یکساں مہمان نوازی ہونی چاہیے۔ حضرت مسیحِ موعودؑ نے ہماری رہنمائی کے لیے بعض چھوٹی چھوٹی باتوں کی طرف بھی رہنمائی فرمائی ہے اور بڑی باریکی سے مہمان نوازی کے طریق سمجھائے ہیں۔“

روایتوں کا سفر ــــــــــ عنایتوں کے ساتھ

آقا علیہ السلام کی مقدس روایات و عنایات کی برکتوں کو سمیٹتے ہوئے اور آپؑ کے ارشادات و ہدایات کی گود میں پروان چڑھتے ہوئے، امریکہ میں بھی اِمسال جلسہ سالانہ کے انہتر سال مکمل ہو گئے۔ لنگر مسیحِ موعودؑ کے اجرا کے ذریعے براہِ راست ضیافت و مہمان نوازی کی ربع صدی سے زائد کی تاریخ کا لمحہ لمحہ خدا تعالیٰ کے فضلوں، انعاموں اور احسانوں کی ایک لازوال داستان ہے۔ ہم نے ان برکات سے جس طرح فیض پایا اس کے لیے مَیں پھر اپنا پرانا احساس دھرانے پر مجبور ہوں:

”حقیقت یہ ہے کہ جلسہ کی ڈیوٹیوں اور خاص طور پر لنگر کی آگ میں جھلسنے کا مزہ ہی ایسا ہے جو ایک بار اسے چکھ لیتا ہے وہ کہیں اور جانے کا نام نہیں لیتا۔ اس سفر میں ہمارا ساتھ دینے والے بچے جوان ہو گئے، جوان بوڑھے ہو گئے۔ مگر ایک بار جو ساتھ ہو لیا اس نے کبھی ساتھ نہ چھوڑا۔ وہ جلسہ کی ڈیوٹیوں کے لیے بلائے جائیں یا نہ، مسیحؑ کے یہ دیوانے پروانوں کی طرح لنگر میں اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ چاہے آگ برساتی دھوپ ہو یا تپتی دیگوں کی جھلس، کسی لب نے شکوہ کشائی کی نہ کسی خدمتگار نے میدان سے پیٹھ دکھائی۔“

مگر اس کٹھن سفر میں ہمارا ساتھ دینے والے نئے نئے جواں عزم ہمسفر بھی شامل ہوتے گئے۔ وہ انفرادی طور پر اکا دکا تعداد میں بھی آتے رہے اور اجتماعی ٹیموں کی حیثیت سے بھی ساتھ دیتے رہے۔ تاہم ایک بہت ہی نمایاں اور قابلِ قدر اضافہ جو خدا تعالیٰ نے حقیقی سلاطینِ نصیر کے طور پر عطا فرمایا وہ ساؤتھ ورجینیا کی ضیافت ٹیم کی شمولیت تھی۔ تین سال قبل وہاں کے ضیافت انچارج برادرم عزیزم نعیم احمد کی سرکردگی میں ایک دو سینئر اور باقی نصف درجن کے قریب بالکل نو آموز نوجوان خاموش خاموش، سہمے سہمے لنگر جلسہ کی ڈیوٹیوں پر حاضر ہو گئے۔ شروع شروع میں انہیں بہت ڈرایا گیا تھا کہ لنگر کا گرما گرم ماحول اور حدت و تمازت والی فضا ہر کسی کی برداشت کا روگ نہیں۔ لیکن پہلے ہی سال وہ اپنے نظم و ضبط اور وقف کی سچی روح کی بنا پر چھا گئے۔ اگلے سال اس سے بڑھ کر نئے عزم اور لگن کے ساتھ میدان میں اتر آئے۔ ہمیں یوں محسوس ہونے لگا جیسے وہ پہلے دن سے ہمارے ساتھ ہیں۔ وہی بے تکلفی، محبت، وفا اور ایثار جو چھبیس سال سے اس لنگر کا طرۂ امتیاز تھا ان میں پہلے سے موجود تھا۔ مَیں ازراہِ محبت ان کے سب سے زیادہ مضبوط نوجوان کو چیلنج کرتا رہتا۔ حتیٰ کہ اس سے ”بینی“ پکڑنے (arm-wrestling) کا مقابلہ بھی کیا۔ اب خدا جانے اس نے میرا لحاظ کیا یا مَیں نے اس کا۔ بہر حال مقابلہ برابر برابر چھوٹ گیا۔ لیکن مَیں نے اسے مذاقاً چیلنج کیا کہ بیس سال بعد جب وہ انصاراللہ کا ذرا سینئر ممبر ہو جائے گا تو کراٹے اور ریسلنگ کا مقابلہ ہو گا۔

ان کی ٹیم اور خاندان کا دس بارہ سالہ معصوم بچہ بھی اس جوش اور عزم سے دیگوں اور چولہوں میں خود کو جھونک دینے کے لیے تیار بیٹھا تھا۔ قوانینِ مشقت (labor laws) کی وجہ سے مجبوراً ہم اس سے کام نہیں لے سکتے تھے مگر اس کے نام کے نعرے ضرور لگوا دئیے:

”مستقبل کے ناظم لنگر رحمان صاحب زندہ باد“

اِس سال اس کی آٹھ سالہ چھوٹی بہن بھی وہاں آ گئی اور سارا جلسہ اس نے وہیں لنگر میں گزار دیا۔ ساؤتھ ورجینیا کی اس ٹیم کے کوچ، میرے بہت ہی عزیز بزرگ اور بے تکلف دوست سیّد عبدالماجد صاحب 14 جولائی جمعہ کو صبح صبح لنگر میں چلے آئے۔ مَیں نے بے تکلفی سے کہا: ”ماجد بھائی، تم نے یہ ہیرے کہاں چھپا رکھے تھے؟“ کہنے لگے:

”مَیں جوہر شناس ہوں۔ بیس سال تک ایک جوہری کی طرح انہیں تراشتا رہا ہوں۔ اب جب تم اس قابل ہو گئے ہو کہ ان کی قدر کر سکو تو تمہیں پیش کر دئیے ہیں۔“

ایں سعادت بزور بازو نیست

یہ قدرت کی عجیب کرشمہ سازی ہے اور ”کُل یومٍ ھو فی شاْن“ کا ظہور خدا تعالیٰ کے مظاہر سے ہر لمحے ہوتا رہتا ہے۔ یہی کرشمہ گری مالکِ کائنات نے اپنی مخلوقات میں بھی رکھ دی ہے۔ ایک ہی جنس کی مخلوق کو مختلف صلاحیتوں اور قوا سے نواز کر نظامِ حیات چلانے کا کاروبار جاری کر رکھا ہے۔ بسا اوقات ایک کام کسی شخص کی ذہنی و جسمانی صلاحیتوں سے مطابقت نہ رکھنے کے باعث اس کے لیے وبالِ جان بن جاتا ہے۔ اور دوسرا اسی کو ایک آسان، خوشگوار اور قابلِ لطف و لذت ڈیوٹی و مشغلہ کے طور پر اپنا لیتا ہے۔

جلسہ کے کاموں میں لنگر کی ڈیوٹی کو کافی سخت اور مشقت آمیز سمجھا جاتا ہے کہ آگ سے کھیلتے ہوئے اس تپتے ہوئے گرما گرم ماحول اور گرم مزاج میں کام بہت مشکل امر گردانا جاتا ہے۔ مگر مَیں کہتا ہوں کہ باہر تپتی دھوپ میں جھلستے ہوئے اور بارش، آندھی، طوفان کی پروا نہ کرتے ہوئے وہ نوجوان جو ٹریفک کنٹرول کر رہے ہوتے ہیں کیا وہ ہم سے آسان کام ہے؟ یا MTA کی لائیو نشریات کی ذمہ داریاں آسان ہو سکتی ہیں کہ ایک ذرا سی لغزش کیا سے کیا نتائج نکال سکتی ہے؟ ایک مقرر جو جلسہ کی تقریر کے لیے مہینوں تیاری کرتا ہے۔ اس کا ایک ایک لفظ گویا اسے پرکھ رہا ہے، اس کا حساب لے رہا ہے ــــــــــ کیا وہ ہم سے مشکل کام نہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ ہر کام ہی اپنی جگہ پر سب سے اہم اور مشکل ہے۔ اس کے اپنے محل و موقع پر وقوع پذیر نہ ہونے کی صورت میں خدا جانے کیا بھیانک نتائج مرتب ہوں؟ ایک بڑی پیچیدہ مشینری میں معمولی سے نٹ بولٹ کے نقص یا ضیاع سے اس کا سارا نظام اور فنکشن رک جاتا ہے، ساری کارکردگی متاثر و معطل ہو جاتی ہے۔ اس لیے کوئی بھی کام حقیر ہے نہ لائقِ تکبر۔ یہ سب باری تعالیٰ کی کرم فرمائی ہے کہ اس نے ہمیں اپنے مقاصد کے لیے کل پرزوں کے طور پر قبول فرما لیا ــــــــ ایں سعادت بزور بازو نیست۔

اس کا ایک دلچسپ مشاہدہ اس بار جلسہ سالانہ پر ہوا۔ میرا بیٹا، منور جو اب زیادہ تر دیگوں پر کام کرنے کے بجائے مجموعی نگرانی اور رابطہ افسر (liaison officer) کے طور پر کام کرتا ہے، اس سال اپنی جماعت کے دو خوبصورت صحتمند، طاقتور اور لحیم شحیم نوجوانوں کو لنگر کی ڈیوٹی پر لایا۔ انہوں نے دیگوں پر کام نہیں کیا مگر ایک ہی دن میں توبہ توبہ کر اٹھے کہ ہم تو اب کبھی یہاں نہیں آئیں گے۔ اس کے برعکس اس کے میری لینڈ کے دو دوست جو بظاہر کمزور اور منحنی سے نوجوان تھے، انتھک محنت اور لگن سے سارا وقت لنگر میں کام کرتے رہے اور گلہ کرتے رہے: ”منور بھائی، آپ نے ہمیں پہلے کیوں یہاں کام پر نہیں لگایا۔ آئندہ ہم ہمیشہ یہیں کام کریں گے۔“

آزمودہ کاری و نو آموزی کا حسین امتزاج

اللہ تعالیٰ کی بعض حکمتوں کے تحت اِس سال عزیزم ڈاکٹر صلاح الدین اور مَیں دونوں ہی لنگر میں پکوائی سے ذرا دور رہے۔ صلاح الدین کو جب میرے ایکسیڈنٹ اور سینے پر اندرونی زخموں اور چوٹوں کا علم ہوا تو اس نے سختی سے منع کر دیا کہ دیگوں کے نزدیک بھی نہ جاؤں۔ وہ خود بھی یہی چاہتا تھا کہ ساؤتھ ورجینیا کی نئی ٹیم کو پوری ذمہ داری سے کام کرنے دیا جائے۔ چند ایک بار ہم نے ان کی غلطی کا نوٹس بھی لیا لیکن نظر انداز کر گئے کہ خود ہی انہیں درست کرنے دیا جائے۔ دوسری طرف ہمارے نیو یارک کے راشد، اعجاز، امین برادران (خالد، طاہر،شاہد) جیسے کہنہ مشق اور آزمودہ کار رضاکاروں کا جتھہ جو امریکہ میں لنگر مسیحِ موعودؑ کی ابتدا سے لے کر اب تک ہمارے ساتھ ہے، منصور اور ناصر کی قیادت میں سارا کام سنبھال رہے تھے۔ اس پر مستزاد یہ کہ چالیس چالیس پاؤنڈ چاولوں کی پندرہ دیگیں روزانہ ہر ڈنر کے لیے تیار کرنا ایک کٹھن نئی ذمہ داری تھی۔ اللہ تعالیٰ نے غیب سے صبور کے ساتھ ساتھ مبشر اور حنان جیسے چاول پکوائی کے ماہرین اس میدان میں اتار دئیے۔ مزید برآں (ماموں) طاہر اور مدثر کی مجموعی نگرانی اور کریم داد کی پرہیزی کھانوں کی مہارت نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان عاجزانہ کوششوں کو چار چاند لگا دئیے۔

اویس نے تین سال پہلے ناظم محنت کے طور پر جلسہ لنگر کی ذمہ داری سنبھالی تھی اور انتہائی لگن اور محنت سے لنگر میں اندرونی اور بیرونی محنت (labor hiring) کو سنبھالا۔ اس سے پہلے سالہا سال تک یہ کام ہمارا پہلے دن سے ساتھ دینے والا انتہائی جفاکش، جاں نثار اور مخلص ساتھی اقبال اکیلے کیا کرتا تھا۔ قبل از جلسہ خریداری میں مکرم پروفیسر چودھری سلطان احمد صاحب کے ہیرسبرگ میں بزنس کرنے والے دو بیٹے عمار اور عمر ایک قابلِ قدر اضافہ ہیں۔ صلاح الدین نے مجھے بتایا کہ اس دفعہ ان دونوں بھائیوں نے ماشاءاللہ بڑی خوش اسلوبی سے خریداری کا سارا کام سنبھالے رکھا۔

چائے کی تیاری میں بڑے لمبے عرصے سے عمر نامی نوجوان خدمت کے لیے موجود رہتا تھا۔ مگر اس دفعہ جلسہ کے دنوں میں اسے پاکستان جانا پڑا۔ اس کی جگہ پر کام کرنے والے خدمت گزاروں نے بھی اسی جانفشانی اور احساس ذمہ داری کے ساتھ کام کیا اور اس کی کمی محسوس نہ ہونے دی۔

کام اچھا ہے وہ جس کا کہ مآل اچھا ہے

شہد کے چند قطرے ہم تک جن مراحل سے گزر کر پہنچتے ہیں کبھی انسان انہیں پر غور کرے کہ اس کے لیے سینکڑوں مکھیوں کی دن رات کی محنت اور ملکہ مکھی کی قربانی کس طرح رنگ لاتی ہے ـــــــــــ ایک عجیب حیرت انگیز نظام ہے ـــــــــــ اور یہی نظام ہر صنعت کے لیے جاری ہے۔

جلسہ سالانہ کے موقع پر کھانے کی میز پر پہنچنے والے چند نوالوں کے پیچھے محبت و لگن کے ساتھ محنت و مشقت کے جو بیسیوں مرحلے اور ہزاروں لمحے گزرتے ہیں ان میں سے ہر ایک اپنی اپنی وفا اور جفاکشی کی داستان لیے ہوئے ہے۔ ان کٹھن مراحل سے گزرنے کے بعد اگر بد قسمتی سے آخری وقت پر وہ چند نوالے خلوص و عزت کے ساتھ کسی مہمان کی شکم پری نہ کر پائیں تو گویا ساری عمارت بھسم ہو گئی۔ ساری محنت غارت گئی۔ یہی وجہ ہے کہ کبھی کبھار ضیافت کی سروس میں بعض کمزوریاں یا دشواریاں بد مزگی کا باعث بن جاتی ہیں۔ بحمد للہ اس سال بعض اختلاف رائے کے باوجود سروس کا انتظام بہت اعلیٰ تھا۔ مَیں خود جا کر دیکھتا رہا؛ کھانے میں کمی کی شکایت ہوئی نہ لائنوں میں انتظار کی زحمت۔ سروس کے ناظمین عثمان کی ٹھنڈی میٹھی پر سکون طبیعت اور عبدالحی کے مزاج کے کڑے ڈسپلن، کنٹرول اور محنت کا اس میں بہت بڑا ہاتھ ہے۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو اجر عظیم عطا فرمائے۔ آمین

ذرائع نقل و حمل

لنگر کے ساتھ وابستہ نقل و حمل (transport) کا شعبہ اتنا اہم اور ناگزیر ہے کہ اس کے بغیر ہماری بقا اور گاڑی چلنے کا تصور نہیں ہو سکتا۔ چار پہیوں کو مسلسل استعمال میں رکھنے اور بڑے بڑے ٹرکوں میں انتہائی وزنی دیگوں کو لاد کر بر وقت منزلِ مقصود پر پہنچانا فی الحقیقت جوئے شیر لانا ہوتا ہے۔ فخر، عمر اور علی نصف درجن سے زائد جوانوں کی اس ٹیم کے سرخیل ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ مضبوط وتوانا اورجفاکش نوجوان فخرِ احمدیت ہیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے انہیں جنات السماء قرار دیا تھا۔ وہ ابلتی ہوئی دیگوں کو جس طرح ہینڈل کرتے ہیں، انہیں ٹرک میں رکھنے اور اتارنے کا فریضہ انجام دیتے ہیں وہ کوئی آسان کام نہیں۔ کئی بار مَیں نے ان مضبوط ہاتھوں میں چھالے پڑے دیکھے مگر ایک بار بھی حرفِ شکایت ان کے لبوں پر نہیں آیا۔ وہ جب بھی چار من سے زائد وزنی ابلتی ہوئی دیگیں اٹھاتے ہیں میرا وجود ان کے لیے مجسم دعا بن جاتا ہے کہ خدایا، ان کی حفاظت کرنا۔ یہ اپنی جان ہتھیلی پر لیے کام کر رہے ہیں۔

اس ٹیم کے ساتھ مسلسل رابطے کا ہمیں اس لحاظ سے بھی بہت فائدہ ہے کہ سرونگ ایریا میں کھانے کی مقدار اور اتار چڑھاؤ کا اندازہ ہو جاتا ہے۔ صلاح الدین اور مَیں ہم دونوں حاضرین کی تعداد اور کھانے کی کمی بیشی کے معاملے میں فخر کی رائے کو سب سے زیادہ وقعت دیتے ہیں۔ اپنے تجربے کی بنا پر وہ بہترین رپورٹ دیتا ہے۔

ان امور کے علاوہ لنگر شروع ہونے سے پہلے تمام ساز و سامان ــــــــــ بڑی بڑی دیگوں، چولہوں، ڈونگوں،کڑچھوں، ٹبّوں، جگوں اور بے شمار چھوٹے بڑے اوزاروں کو سینکڑوں میل دور سے لا کر ایک بالکل مختلف جگہ اور اجنبی فیسِلٹی میں صرف دو دن میں ڈھنگ سے ٹھکانے لگانا اور تمام چولہوں کو گیس سلنڈروں کے ساتھ جوڑ کر انفرادی طور پر ہر ایک کو باری باری ٹیسٹ کرنا اور جلسہ ختم ہوتے ہی اسی دن ان کی واپسی کا بندوبست کرنا ایک جان جوکھوں کا کام ہے۔ (ماموں) طاہر کی نگرانی میں منور، مزمل، گوندل اور ان کے ساتھی مدتوں سے خاموشی کے ساتھ یہ کام کیے چلے جا رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سب عاجزانہ کوششوں کو قبول فرمائے اور اجرِ عظیم سے نوازے۔ آمین۔

لجنہ کی بے مثل خدمات

جلسہ کی ڈیوٹیوں میں لجنہ اماءاللہ کے تحت ہماری بہنوں بیٹیوں کی خدمات ایک ایسی بے نظیر داستان ہے جس کا تصور روئے زمین پر جماعت احمدیہ کے علاوہ کہیں نہیں پایا جاتا۔ مردوں عورتوں کے علیٰحدہ علیٰحدہ انتظامات اور پردے کے تمام اسالیب کو ملحوظ رکھنے کے باوجود جتنے تعاون اور ہم آہنگی کی فضا یہاں پائی جاتی ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ اور ایک لحاظ سے یہ ان معترضین کو مسکت جواب ہے جو اسلام میں عورت کے مقام کو کمتر اور ناکارہ دکھانے کی ناواجب اور ناروا کوششیں کرتے رہتے ہیں۔ اگر صرف جلسہ کی ڈیوٹیوں اور فرائض کی ادائیگی ہی کو دیکھ لیا جائے تو یہ حقیقت اظہر من الشمس ہو جائے گی کہ احمدیت یعنی حقیقی اسلام میں عورت کتنا اہم، فعّال اور باوقار کردار ادا کرتی ہے۔

یہاں چونکہ صرف لنگر سے متعلقہ امور کا ذکر ہے اس لیے باقی بےشمار انتھک اور بے لوث خدمات کا تذکرہ ممکن نہیں۔ تاہم لجنہ ضیافت کی سروس کے لیے مدتوں سے ہماری قابلِ احترام بہن محترمہ آپا جان مبارکہ شاہ صاحبہ اور ان کی ٹیم جس اعتماد، حوصلے، اور صبر و استقامت کے ساتھ یہ فرائض ادا کرتی چلی آ رہی ہیں اس کی سپاس گزاری کے لیے ہمارے پاس کوئی اظہار اور الفاظ نہیں۔ صلاح الدین ہمیشہ کہا کرتا ہے کہ اگر ہمیں ان کے قیمتی مشورے، تعاون اور رہنمائی حاصل نہ ہوتی تو ہمارا کام اتنا آسان نہ ہو سکتا۔

امریکہ میں لنگر کا تاریخی پس منظر اور MTA کی لائیو نشریات

اِمسال جلسہ سالانہ میں ایک غیر متوقع واقعہ MTA امریکہ کی لائیو نشریات میں لنگر مسیحِ موعود کے بارے میں ایک انٹرویو بھی تھا۔ ہفتہ کے روز بعد دوپہر عزیزی عطاء العلیم بڑی بے تابی سے مجھے تلاش کر رہا تھا۔ بالآخر اس نے مجھے جا لیا: ”انکل، ہم کب سے آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔ آپ کا MTA کے لیے انٹرویو ہے۔“

”مَیں کسی انٹرویو کے لیے نہیں آ رہا۔ مجھے معافی دے دو۔“ میرا جواب تھا۔ ”آپ نہیں آئیں گے تو ڈاکٹر صلاح الدین صاحب بھی تیار نہیں ہوں گے۔“ اس نے بے بسی سے التجا کی۔ اتنے میں صلاح الدین بھی آ گیا اور کہنے لگا:

”امتیاز، تم مجھ سے بڑے ہو، مَیں تمہیں حکم نہیں دے سکتا۔ لیکن ایک بات سن لو، اگر تم نہیں آؤ گے تو مَیں انٹرویو نہیں دوں گا۔ جس شخص نے پہلے دن سے میرا ساتھ دیا ہے، ٹی وی پر آؤں گا تو اس کے ساتھ ہی آؤں گا۔“

مجبوراً مجھے اس کا ساتھ دینا پڑا کہ کہیں ہم دونوں ہی حکم عدولی کے مرتکب نہ ہو جائیں۔ انٹرویو لینے والے نوجوان کو مَیں کئی سال پہلے ایک بار نیو جرسی میں خدام الاحمدیہ کے اجتماع پر ملا تھا۔ اس وقت وہ نیا نیا اس فیلڈ میں آیا تھا اور ESPN کے لیے کام کر رہا ہے۔ جب اس نے اپنا نام عدنان وِرک بتایا تو مَیں نے پوچھا کہ جماعت کے مایہ ناز صحافی، ادیب، مدیر اور مترجم برادرم محترم زکریا وِرک صاحب سے بھی کوئی تعلق ہے؟ عزیز موصوف کہنے لگا: ”وہ میرے والد صاحب ہیں۔“

”اسی لیے موروثی استعدادیں پائی جاتی ہیں۔“ مَیں نے تبصرہ کیا۔ یہ گفتگو تو شاید عدنان کو یاد نہ ہو، لیکن جو انٹرویوز وہ مختلف احباب سے اس وقت لے رہا تھا وہ فی الحقیقت اس کی صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت تھے کہ کس طرح تھوڑے سے وقفے میں مختلف النوع موضوعات کو سمیٹ کر اور انٹرویو دینے والے کے پس منظر کو ملحوظ رکھ کر ایک سیر حاصل بحث کر سکتا ہے۔ اللّٰھم زد فزد۔

لنگر کے بارے ہمارے انٹرویو کو بھی اس نے بڑی مہارت سے پیش کیا جس میں ابتداً مَیں نے امریکہ میں لنگر کے قیام کے تاریخی پس منظر پر مختصر روشنی ڈالی۔ بعد ازاں اس کے ٹیکنیکل پہلوؤں اور نتائج و اثرات پر صلاح الدین کو تفصیلی گفتگو کا موقع ملا۔

نامعلوم سپاہی ــــــــــ خاموش مجاہد

میری کوشش یہی ہوتی ہے کہ اپنے مضمون میں کسی کا بھی ذاتی نام نہ لوں، مگر بسا اوقات بعض حصوں کی وضاحت کے لیے مجبوراً کچھ ناموں کا ذکر ہو جاتا ہے۔ لیکن ان سے بھی زیادہ اہم کام کرنے والے خاموش مجاہدوں کا تذکرہ رہ جاتا ہے ــــــــــ دراصل یہی فلسفۂ اجر و جزا ہے۔ وہ نام جو کبھی نہ لیے گئے ہوں ان کے کام ہمیشہ عظمتوں کے مناروں پر لکھے جاتے ہیں۔ آج بھی دنیا کے ہر مہذب ملک میں نامعلوم سپاہی (unknown soldier) کی یادگار پر پھول چڑھائے جاتے ہیں۔ اعلیٰ مراتب والے معزز حکومتی اہل کار اور بیرونی ممالک سے آنے والے وفود وہاں سلامی دیتے ہیں۔ یہ خاموش مجاہد یا نامعلوم سپاہی ہی اس قوم کی عظمت کی میراث سمجھے جاتے ہیں۔ یہی وہ افتخار اور اعزاز کی علامتیں ہیں جن پر قومیں فخر کرتی ہیں۔

کھانا پکانے کی ڈیوٹی ختم کر کے ایک شام چند نوجوان میرے پاس بیٹھے ہوئے تھے تو مَیں نے یہی بات انہیں سمجھائی کہ ہمارا مقصدِ حیات صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول ہے۔ کسی اجر، معاوضہ یا اعترافِ خدمت نہیں۔ مَیں نے انہیں کہا:

”تم جانتے ہو، امریکہ میں ضیافت اور لنگر کے ساتھ عزیزم ڈاکٹر صلاح الدین کا نام لازم و ملزوم ہے۔ وہ مجھے بے انتہا عزیز ہے۔ اس کی خدمات بے بدل اور بے نظیر ہیں۔ لیکن اگر اس سارے مجمعے میں مجھے ایک شخص کو چننا ہو جو خاموشی، استقامت اور وفا کے ساتھ بے لوث خدمات بجائے چلا جاتا ہے تو وہ کریم داد کے پہلو میں سفید ٹوپی پہنے سائیں سا بندہ ہے، جس کے نام تک سے لوگ واقف نہیں۔ جس نے کبھی کوئی تعریفی کلمہ یا شکریہ کے الفاظ اپنے حق میں نہ سنے ہوں گے۔ جسے کبھی کسی تمغے یا اعزاز کے لیے نہیں چنا گیا۔ کسی تقریر کسی تحریر میں اس کا ذکر نہیں ہوا؛ مگر مَیں بیس سال سے دیکھ رہا ہوں کہ وہ اور اس جیسے کتنے لوگ ہر جلسے پر ہی نہیں، مسجد ”بیت الرحمٰن“ میں بھی ہر روز خاموشی سے مسیحِ موعود علیہ السلام کے مہمانوں کی خدمت کے لیے کمربستہ رہتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے نام اور کام عرش پر لکھے جاتے ہیں۔ یہ دنیاوی انعاموں اعزازوں سے بے نیاز اپنے کام میں مگن رہتے ہیں۔ انعام و اکرام سے ماورا اپنی ہی دھن میں مست خدمت کیے چلے جاتے ہیں، کسی لالچ، طمع اور اجر کے بغیر ـــــــــ یہی وہ بے نام روشن کردار ہیں جو ہمارے لیے مشعلِ راہ ہیں، ہمارا سرمایۂ افتخار ہیں ـــــــــ میرے خلوص کی انتہائیں بھی ان کی عظمتوں کے ادراک اور ان کو سلام پہنچانے کی تاب نہیں رکھتیں۔

یہ وہ وجود ہیں جو گھسٹتے گھسٹتے دوسرے معززین کو جگہ دیتے دیتے جوتیوں میں پہنچ جاتے ہیں اور پھر خدا کے حضور اس مقام کو پا جاتے ہیں جو امامِ آخرالزمان علیہ السلام کے اس عاجز غلام کو حاصل ہوا:

”آؤ میاں، ہم تم ادھر اکٹھے کھانا کھاتے ہیں۔“

اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور عاجزانہ دعاؤں کی قبولیت کے نشان

ہمیشہ کی طرح اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس بار بھی ہماری کمزوریوں اور غلطیوں کی پردہ پوشی فرمائی اور ہماری حقیر کوششوں اور عاجزانہ دعاؤں کو قبول فرما کر اپنے انعاموں اور احسانوں سے نوازا اور امریکہ کا انہترواں جلسہ سالانہ بخیر و خوبی انجام پذیر ہوا۔ تاہم بعض امور پر غور کرتے ہوئے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ اس دفعہ خدا تعالیٰ کی غیر معمولی تائید و نصرت اور رحم کا سلوک ہوا ہے۔ ضیافت کے نظام میں کوئی بڑی تبدیلی تو نہیں تھی مگر ایک بار بھی کھانے میں کمی یا تاخیر کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ ہر جگہ سے یہی سننے میں آیا کہ کھانے کا معیار اور ذائقہ پہلے سے بہتر تھا۔ میرے خیال میں تو کوئی خاص فرق نہیں تھا؛ مگر جب میرے ایک بہت ہی عزیز دوست اور معزز ناقد، سعادت عبداللہ نے جو عرصہ پینتیس سال سے خود بھی اس رضاکارانہ خدمت پر مامور ہے اور جس کی مثبت تنقید کے نشتر سے شاید ہی کوئی محفوظ رہا ہو، خاص طور پر لنگر آ کر مجھے اور بعد میں صلاح الدین سے بھی کہا کہ اس دفعہ کھانے کا معیار پہلے سے بہت بہتر تھا تو مَیں سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ کیا ہمارے میٹیریل اور نسخہ جات (recipe) میں کوئی فرق تھا یا پکانے کا طریق مختلف تھا۔ مَیں نے دوسرے دن کے اختتام پر خصوصیت سے اپنے سینیئر ممبر، منصور سے جو اس دفعہ تمام کھانوں کے مصالحے تیار کرتا رہا تھا، پوچھا کہ کیا تم نے کوئی تبدیلی کی ہے۔ اس کا جواب تھا:

”ہرگز نہیں۔“ مَیں نے کھانے کی تمام تراکیب اور نسخہ جات اس سے لکھوائے اور بعد ازاں صلاح الدین سے بھی تصدیق کی۔ یہ نسخہ جات اس مضمون کے آخر میں درج بھی ہیں۔

لطف کی بات ہے کہ اس بار میری اور صلاح الدین ہم دونوں کی دیگوں پر نگرانی بھی زیادہ نہیں تھی۔ ایک لحاظ سے سب ورکرز کو آزاد چھوڑ دیا گیا تھا۔ اس کے باوجود معیار بہتر ہونے سے شاید قدرت یہی عندیہ دے رہی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے ہماری عاجزانہ کاوشوں کو قبول فرماتے ہوئے ہمیں ایسے جانشین عطا فرما دئیے ہیں جو ہم سے بہتر طور پر اس ذمہ داری کو سنبھالنے کے اہل ہیں۔ اور فی الواقعی اس سے بڑھ کر شکر و امتنان کا باعث اور کیا ہو سکتا ہے کہ جس سفر کو انتہائی نامساعد حالات میں ہم نے ربع صدی قبل شروع کیا تھا اسے احسن رنگ میں جاری رکھنے والے مدد گار اللہ تعالیٰ نے عطا فرما دئیے ہیں۔ اور یہ تو ایک مسلمہ حقیقت ہے: ؎

”اس سے بڑھ کر کیا خوشی ہو باپ کو استاد کو     بڑھتا خود سے دیکھ کر شاگرد کو اولاد کو“

انسانی تدابیر کی انتہا دعا

مَیں نے ساری زندگی میں جو کچھ سیکھا یا پایا ہے اس کا نچوڑ اس کے سوا کچھ نہیں کہ اول اور آخر دعا ہی سب کچھ ہے۔ عملی طور پر انسان اللہ تعالیٰ کے مہیا کردہ وسائل کو حتی المقدور کام میں لا کر کوشش کرتا ہے؛ کیونکہ اس مالک کی منشا اور رضا یہی ہے۔ مگر جتنی چاہے کوششیں کر لی جائیں نتائج صرف اس کے حکم اور مرضی کے ماتحت ہی ہوتے ہیں۔ ایک ذرہ بھر ان وسائل اور کاوشوں پر بھروسا نہیں کیا جا سکتا۔ اور ہماری کاوشیں ہیں بھی کیا؟ کیا دعا سے بڑھ کر کوئی وسیلہ اور تدبیر ہو سکتے ہیں؟ مَیں تو یہی کہتا ہوں کہ انسانی تدابیر میں سب سے بڑی تدبیر بھی دعا ہے اور رب العزت کے عطا کردہ وسائل میں سب سے بڑا وسیلہ بھی دعا ہے۔ اول بھی دعا، آخر بھی دعا۔ درمیان میں جس کوشش اور تدبیر کی توفیق مل جائے وہ بھی اللہ تعالیٰ کا فضل اور احسان ہے۔ ان پر بھروسا یا انحصار ہرگز نہیں۔ توکّل صرف مالکِ کون و مکان کے فضل و کرم پر ہونا چاہیے۔

اس سال جلسہ سالانہ پر لنگر کے جو بہتر نتائج نکلے، مجھے تو کچھ دکھائی نہیں دیتا کہ کوئی غیر معمولی اقدامات کیے گئے ہوں ـــــــــ ہاں انسانی تدبیر میں اگر کوئی اضافہ دکھائی دیتا ہے تو شاید وہ عاجزانہ دعائیں ہی تھیں جو امیر صاحب محترم صاحبزادہ مرزا مغفور احمد صاحب نے ڈیوٹیوں کے آغاز میں بڑی عاجزی و انکساری اور تضرع سے کروائیں اور جلسہ کے اختتام پر بھی ایک بہت ہی جذباتی اور رقت آمیز دعائیہ منظر دیکھنے میں آیا۔

تمام کھانا سرونگ ایریا میں بجھوانے کے بعد ہمارے رضاکار چولہے اکھاڑنے اور چیزیں سمیٹنے میں مصروف تھے کہ جماعت کا آفیشل فوٹوگرافر عزیزم کلیم بھٹی وہاں آگیا کہ تمام ورکرز کی گروپ فوٹو ہو جائے۔ عام طور پر ایسا موقع میسر نہیں آتا تھا لیکن اس دفعہ پچیس تیس کے قریب مختلف ڈیوٹیوں پر متعین رضاکار اکٹھے ہو گئے۔ گروپ فوٹو کے بعد اچانک صلاح الدین نے کہا کہ چند منٹ ٹھہریں وہ کچھ کہنا چاہتا ہے۔ یہ پہلی دفعہ ایک غیر متوقع واقعہ تھا۔ اس نے بڑے جذباتی رنگ میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کے بعد تمام خدمتگاروں کا تہہ دل سے شکریہ ادا کیا۔ اپنے گناہوں اور خطاؤں کی معافی مانگی اور حاضرین سے بھی التجا کی کہ اس کے رویے سے اگر کسی کو تکلیف پہنچی ہو تو اسے اور اس کے ساتھیوں کو معاف کیا جائے؛ کیونکہ ہمارا مقصد صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام کے اس مقدس مشن لنگر خانہ کو لے کر آگے بڑھنا تھا۔ اس کے لیے ہم نے اپنی کمزوریوں کے باوجود جو کچھ ہم سے بن پڑا کیا۔ صلاح الدین نے یہ بھی عہد کیا کہ اس کی زندگی آخری سانس تک اس مشن کی کامیاب تکمیل کے لیے حاضر رہے اور جب اس کی موت واقع ہو تو خدمت کرتے ہوئے وہ اس کی زندگی کا آخری جلسہ ہو۔

صلاح الدین کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے اور سب حاضرین بھی آبدیدہ تھے۔ اسی رقت آمیز منظر میں دعا کے ساتھ جلسہ سالانہ 2017 کے لنگر کا سفر اختتام پذیر ہوا ــــــــــ اور شاید یہی عاجزانہ دعائیں اور التجائیں تھیں جنہیں ربِّ کریم نے قبول فرما کر ہم سب کو سرخرو فرمایا۔ فالحمد للہ علیٰ ذالک۔

_______________________

لنگر کھانوں کی تراکیب و نسخہ جات

آلو گوشت:

(1) پیاز: 25 پاؤنڈ (2) ٹماٹر: 20 پاؤنڈ (3) آلو: 40 پاؤنڈ (4) گوشت: 85 پاؤنڈ

(ا): نمک 400 گرام پہلی دفعہ (آخر میں چیک کر کے اضافہ کیا جا سکتا ہے) سرخ مرچ: 20 آؤنس (Swad Hot Regular) ۔ گارلک پاؤڈر: 20 آؤنس۔ ہلدی: 5 آؤنس۔

(ب): گرم مصالحہ: کالی مرچ: 10 آؤنس۔ سفید زیرہ: 16 آؤنس۔ بڑی الائچی: 10 آؤنس۔ سفید الائچی: 5 آؤنس۔ دارچینی ثابت: 5 آؤنس۔ (گرم مصالحہ کے تازہ اجزا لے کر اسی وقت گرائنڈ کیا جائے اور کھانا تیار ہونے پر آخر میں ڈالا جائے)۔

ادرک تازہ: 4 پاؤنڈ (پیسٹ بنا لیا جائے)

ترکیب: ککنگ آئل (Preferably Canola Oil) کے بڑے کنستر کے 3/1 حصہ میں تازہ کٹے ہوئے پیاز ڈال کر اچھی طرح بھونا جائے۔ جب وہ تقریباً ڈارک براؤن ہو جائیں (پلاؤ کے پیازوں کی طرح بالکل کالے ہونے کے قریب نہ ہوں ـــــــــــ اس سے تھوڑا پہلے) ٹماٹر پیسٹ اور (ا) والے پاؤڈر کے ڈبہ کو پیازوں کے ساتھ ملا کر بھوننا شروع کر دیا جائے یہاں تک کہ وہ نہایت گہرے رنگ کے مصالحہ کا پیسٹ بن جائے جس میں پیاز اور ٹماٹر مکمل طور پر مِکس ہو کر اپنی علیٰحدہ علیٰحدہ شناخت کھو دیں۔ (اگر مصالحہ کچا رہ گیا تو وہ کھانے میں نظر آتا رہے گا اور ذائقہ بھی اعلیٰ نہیں ہو گا)۔ اب دیگ میں گوشت ڈال کر اسے بھوننا شروع کیا جائے۔ گوشت اپنا پانی خود چھوڑے گا۔ کوشش یہی کرنی چاہیے کہ اس میں زیادہ اضافی پانی نہ ڈالا جائے۔ گوشت کے آدھا تیار ہو جانے پر 4 پاؤنڈ تازہ پسا ہوا ادرک ڈال دیا جائے۔ جب گوشت 75 تا 85 فی صد (گوشت کے نرم یا سخت ہونے پر منحصر ہے) گل جائے تو اس میں آلو اور پانی ڈال کر پکنے دیا جائے۔ آلو کے 70 فی صد تیار ہونے پر چولہا بند کر دینا چاہیے، وگرنہ دیگ کی گرمی میں وہ بالکل ملیدہ ہو جائیں گے۔ یہ دیگ اندازاً 500 افراد کے لیے کافی ہو گی۔

چکن: 75 پاؤنڈ چکن کو اتنے ہی تیار شدہ مصالحے میں پکایا جا سکتا ہے۔ یہ احتیاط ضروری ہے کہ جب تک وہ پوری طرح بھن نہ جائے اس میں پانی ہرگز نہ ڈالا جائے۔ یہ دیگ 400 افراد کے لیے کافی ہو سکتی ہے۔

لنگر دال: چنا دال: 21 پاؤنڈ۔ دال ماش (ثابت چھلکے والی): 35 پاؤنڈ۔ دال مسور: 14 پاؤنڈ (یہ مقدار سات سات پاؤنڈ کے پیکٹ کے لحاظ سے بنائی گئی ہے)۔ شروع میں تھوڑا آئل اور نمک ڈال لیا جائے۔ مصالحوں میں صرف مرچ، ہلدی اور گارلک پاؤڈر کافی ہیں۔ آخر میں 2 لیٹر آئل میں 8 پاؤنڈ پیاز اور 8 آؤنس زیرہ کا تڑکہ اور گرم مصالحے کا اضافہ اسے مزیدار بنا دیتا ہے۔ اگر چنے کی دال رات بھر بھیگی ہو تو تمام دالیں اکٹھی ڈالی جا سکتی ہیں وگرنہ بہتر صورت یہی ہے کہ چنے کی دال کو پہلے ادھ پکا کر لیا جائے، پھر دوسری دالیں ملائی جائیں۔

سادہ مسور (پیلی) دال: 80 پاؤنڈ کے لیے تقریباً تین گنا پانی کی ضرورت ہو گی۔ مصالحہ، تڑکا اور گرم مصالحہ لنگر دال والا چلایا جا سکتا ہے۔