امریکہ میں لنگر مسیحِ موعود ؑ کے پچیس سال

امتیاز احمد راجیکی

لُفَاظَاتُ الْمَوَائِدِ کَانَ اُکُلِیْ  –    وَ صِرْتُ الْیَوْمَ مِطْعَامَ الْاَھَالِیْ

کون جانتا تھا کہ دستر خوان کے پس خوردہ ٹکڑے کیا رنگ لائیں گے۔ کیسے کیسے خوانوں، کیسے کیسے ایوانوں، کیسے کیسے لنگروں کو جنم دیں گے۔ کسے علم تھا کہ ایک بے کس شکمِ آدم کی آگ بجھانے والے یہ چند لقمے جہانوں کی بھوک مٹانے کا باعث بنیں گے۔ کس کا فہم و ادراک اس حقیقت کو پا سکتا تھا کہ یہ چند نوالے انسانوں کی جسمانی بھوک ہی نہیں روحانی تشنگی کی سیرابی کا باعث بھی بنیں گے ــــــــــ مگر جب ان ٹکڑوں کو ان مقدس ہاتھوں نے تھاما ہو، ان پاک لبوں نے چھوا ہو، ان دلربا ہونٹوں نے چبایا ہو جنہیں مالکِ کون و مکاں نے اپنی تقدیرِ خاص سے رہتی دنیا کے لیے اپنی جود و سخا، اپنی عطا و رضا کا بحرِ بے کراں بنانا ہو۔ رشد و ہدایت اور رہنمائی و کرم فرمائی کا سیلِ رواں بنانا ہو تو پھر ان ٹکڑوں کی کرشمہ گری، تشنہ سیرابی کو کون روک سکتا تھا۔ یہ تو اس وجودِ پاک سے منسلک ٹکڑے تھے جسے خدا تعالیٰ نے اپنے حبیبِ پاک ﷺ کے غلامِ صادق، مسیحِ دوراں اور امام الزماں کے طور پر چننا تھا، جسے نورِ ہدایت اور رہنمائی و رہبری کا محور و منبع بنا کر تمام عالم کے لیے کشش و جاذبیت اور توجہ کا مرکز بنانا تھا۔

وہ وجود کیا تھا۔ بظاہر ایک عاجز اور دنیا کی نظروں میں راندۂ‏ درگاہ انسان جو خود کو ”کِرمِ خاکی، بشر کی جائے نفرت اور انسانوں کی عار“ سمجھتا تھا۔ اپنوں بیگانوں میں اس کی قدر و منزلت کیا تھی؟ ذرا اسی سلوک سے اندازہ کر لیجیئے کہ اپنے گھر والوں نے بھی کبھی اسے دعوتِ طعام کے قابل نہ سمجھا۔ کبھی اس کے ساتھ مل بیٹھ کر محبت کے دو بولوں سمیت چند لقمے کھانا گوارا نہ کیے۔ بھوک سے نڈھال نحیف و نزار بھائی کو اپنے دستر خوان کی زینت بنانا پسند نہ کیا۔ اپنے اس عزیز بھائی کا جو سب کچھ ان پر نثار کرنے کو تیار تھا کبھی کھانے کی میز پر انتظار نہ کیا۔ وہ فاقے سے مضمحل گھر پہنچتا کہ نارِ شکم کو بجھا پائے تو دستر خوان اٹھ چکا ہوتا۔ کوئی انتظار میں ہوتا نہ کہیں سے بلاوا آتا۔ وہ بے کس انسان خاموشی سے دستر خوان پر گرے پڑے، بچے کھچے چند ٹکڑے ڈھونڈتا اور اپنے ربّ کا شکر ادا کرتے ہوئے کسی سوال، کسی تمنا، کسی التجا کے بغیر نوشِ جاں کر لیتا۔ اور پھر سے اپنے خدا کی عبادت اور دین کی سر بلندی کی جد و جہد میں مگن ہو جاتا ــــــــــ اس احساس و خیال سے بے نیاز ہو کر کہ وہ کس سلوک کا روادار سمجھا گیا ــــــــــ مگر اسے کیا خبر تھی کہ عرش پر اس کی کسمپرسی اور نیاز مندی کی ناز برداری اور مہمان نوازی کا کس طرح بندوبست ہو رہا ہے۔ جہانوں کا مالک ربِّ کریم اس ”غریب و بے کس و گمنام و بے ہنر“ کی کس طرح پذیرائی کرنے والا ہے۔ کیسی کیسی امارتیں، کارکردگیاں، نیک نامیاں اور ہنر مندیاں اس کے قدموں میں نچھاور کرنے والا ہے ــــــــــ اس حد تک کہ وہ خود ہی پکار اٹھنے پر مجبور ہو جائے:

”لُفَاظَاتُ الْمَوَائِدِ کَانَ اُکُلِیْ     ـ      وَ صِرْتُ الْیَوْمَ مِطْعَامَ الْاَھَالِیْ“

(دستر خوانوں کا پس خوردہ میری خوراک تھا اور آج مَیں کئی گھرانوں کو کھلانے والا بن گیا ہوں)

سیّدنا حضرت اقدس مسیحِ موعود و مہدیِ معہود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے وجودِ با جود پر خدائے قدوس و قدیر کے یہ انعامات کوئی ڈھکی چھپی داستان نہیں۔ سوا سو سال سے زائد عرصہ کی تاریخ کا ایک ایک لمحہ اور دنیائے عالم کا کونہ کونہ اس بات کا گواہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے کس طرح آپؑ کے قدموں کی برکت سے دستر خوان کے ان بچے کھچے ٹکڑوں کی سپاس گزاری کی اور انہیں زمانے کی بھوک و افلاس اور گمراہی و جہالت کے مداوے کا باعث بنا دیا۔ اور دنیا کے سینکڑوں ملکوں اور شہروں میں آپ کے نام کے لنگر جاری کر دئیے۔

مجھے یاد ہے، بہت بچپن میں ہمیں لنگر مسیحِ موعودؑ کے کھانے کا کس قدر شوق تھا اور خصوصاً جلسہ کے ایام میں تو یہ بچوں اور بڑوں سب کے لیے ایک نعمتِ غیر مترقّبہ ہوتی۔ اور اس بزرگ کا قصہ تو زبان زدِ عام تھا کہ وہ جب بھی ربوہ تشریف لاتے، لنگر خانہ جا کر دستر خوان سے روٹی کے تمام بچے کھچے ٹکڑے اٹھا لیتے اور اپنے ساتھ گاؤں واپس لے جاتے۔ لوگ یہی سمجھتے کہ یہ ٹکڑے جانوروں کے چارہ کے لیے بھوسے کا کام دیتے ہوں گے۔ بالآخر کسی نے اصرار کر کے کرید ہی لیا کہ اس سعیِ مکرر کا مقصد کیا ہے۔ معلوم ہوا وہ بزرگ گاؤں میں ایک مجرب طبیب کے طور پر جانے جاتے تھے۔ وہ ان خشک ٹکڑوں کو سکھا کر پیس لیتے اور سفوف بنا کر پڑیاں تیار کر لیتے۔ گاؤں کے دیہاتی ان کے پاس اپنے اور اپنے جانوروں کے علاج کے لیے آتے اور بزرگ موصوف وہی سفوف کی پڑیاں انہیں دوا کے طور پر تھما دیتے۔ ربِّ شافی و قیوم انہی میں معجزانہ شفا و بقا کے سامان پیدا فرما دیتا۔

جماعت ہائے احمدیہ امریکہ اور جلسہ سالانہ پر نظامِ ضیافت

1988 میں مجھے امامِ جماعت احمدیہ سیّدنا حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی اجازت سے پاکستان کے تکلیف دہ حالات سے مجبور ہو کر امریکہ ہجرت کر کے آنا پڑا۔ پہلی بار 1989 میں چھ سال کی محرومی کے بعد میری لینڈ (Maryland) میں امریکہ کے جلسہ سالانہ میں شرکت کا موقع ملا۔ اور کچھ مایوسانہ تجربے سے دو چار ہونا پڑا کہ جلسہ پر ضیافت کا انتظام ہمارے اپنے ہاتھوں میں نہیں اور لنگر مسیحِ موعودؑ کا کوئی وجود نہیں۔ طبیعت کچھ بوجھل سی ہو گئی۔ مگر مَیں حالات سے واقف نہیں تھا۔ معلوم ہوا امریکہ میں ہم جس جگہ جلسے منعقد کرتے ہیں، ضیافت کی ذمہ داری بھی اسی ادارے کی ہوتی ہے جو تقریباً سات ڈالر فی کس پر منتج ہوتی ہے۔

اگلے دو سال 1990 اور 1991 ڈیٹرائٹ (Detroit) کے ایریا میں ہونے والے جلسے بھی اسی تشنگی کا شکار ہو گئے۔ وہاں جس یونیورسٹی میں جلسہ اور اس سے متعلقہ ضیافت کا بندوبست تھا، مَیں نے دیکھا کہ کھانے کے کمرہ کے باہر یونیورسٹی کا ایک ملازم گنتی کی ایک گھنٹی نما مشین لیے بیٹھا ہے۔ ہم میں سے جو بھی اس کمرے کا رخ کرتا وہ گھنٹی دبا دیتا، چاہے ایک ہی شخص دوبارہ صرف پانی پینے کی نیت سے اندر گیا ہو۔ خدا جانے اس کی مشین نے کتنی گنتی کی۔ غالباً ہماری تعداد سے بہت زیادہ۔ یہ صورت حال کافی الجھی ہوئی تھی۔ اور کھانے کا معیار بھی اتنا گرا ہوا تھا کہ اکثر احباب کو تکلیف پہنچی اور انہوں نے واضح طور پر اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔ میرے دل میں بار بار خیال آتا جس کا ذکر مَیں نے بعض منتظمین سے بھی کیا کہ ہم اپنا لنگر کیوں نہیں شروع کرتے۔ مگر اس کے مقابل پر متعدد دلائل اور جواز پیش کیے جاتے۔ انتظامی معاملات میں میری کوئی حیثیت یا رائے نہیں تھی اس لیے خاموشی سے صبر اور دعا کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔

اختتامِ جلسہ پر خلیفۂ وقت کا ارشاد

1991کے جلسہ کے اختتام پر ایک عجیب واقعہ رونما ہوا۔ ہم لوگ حضورِ انور سیّدنا خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کو الوداع کرنے کے لیے اکٹھے تھے۔ مَیں بھی حضورؒ کے بالکل پاس کھڑا تھا۔ جاتے جاتے آپؒ نے اچانک فرمایا:

”آئندہ امریکہ میں لنگر چلنے چاہییں۔“

کچھ احباب اس کا جواب دینے لگے کہ حضورؒ یہاں اجازت نہیں ملتی۔ آپؒ نے فرمایا:

”اگر تنبو، قنات میں جلسہ کی اجازت مل سکتی ہے تو لنگر بھی چل سکتا ہے۔“

میرے دل میں بڑی شدت سے خیال آیا کہ جب امامِ وقت نے ایک حکم دے دیا ہے پھر کوئی دوسرا جواز کیوں؟ بغیر کسی توقف کے میرا ہاتھ کھڑا ہو گیا اور بول اٹھا:

”جی حضورؒ، انشاءاللہ ضرور شروع کریں گے۔“

دوسری طرف میرا عزیز دوست برادرم عزیزم ڈاکٹر صلاح الدین کھڑا تھا۔ اس نے بھی ہاتھ کھڑا کر دیا اور عہد کیا کہ انشاءاللہ لنگر کا قیام ہو گا۔ اس وقت جلسے کے اختتام، حضورؒ کے الوداع اور دوست احباب کی رخصت کے باعث ایسی جذباتی کیفیت تھی کہ مجھے کچھ یاد نہیں کیا بیت رہی تھی۔ بس اتنا یاد ہے کہ حضورؒ کے رخصت ہوتے ہی صلاح الدین نے مجھے گلے لگا لیا اور کہنے لگا:

”اللہ تعالیٰ کے فضل سے آئندہ یہ کام ہو کر رہے گا۔ امریکہ میں اب کوئی بھی لنگر مسیحِ موعودؑ کے قیام کو روک نہیں سکتا۔“

صلاح الدین نے بعد میں بتایا کہ جب اس نے دیکھا کہ حضورؒ کے ارشاد پر صرف ایک ہاتھ لبیک کے لیے اٹھا ہے تو بغیر کسی توقف اور حیل و حجت کے اس نے بھی ہاتھ کھڑا کر دیا کہ یہی قبولیت کا لمحہ ہے۔

قبولیت کا لمحہ

اللہ تعالیٰ کی جناب سے یہی وہ قبولیت کا لمحہ اور معجزانہ تصرف تھا جس نے پچیس سال قبل ایک انہونے امر کو ہونا اور ناممکن کو ممکن بنا دیا۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ جس لمحے آقاؒ کے منہ سے نکلا اسی لمحے لنگر خانے کا قیام ہو گیا۔ اس بات کو اب پورے پچیس سال ہو چکے ہیں۔ دراصل حضورؒ کے ارشاد کے ساتھ ہی لنگر کے لیے دعاؤں اور تدبیروں کا سلسلہ جاری ہو گیا اور اس کا پہلا پھل 1992 کے جلسہ سالانہ بر مقام نیویارک حاصل ہوا۔

ان دیکھی رکاوٹیں اور غیر معمولی اعجازی نصرت و امداد

اُس زمانے میں جماعت احمدیہ امریکہ کے ہیڈ کوارٹرز مسجد ”فضل“ واشنگٹن ڈی سی میں ہوا کرتے تھے۔ ابھی ”بیت الرحمان“ مسجد کی خریداری و تعمیر کے مراحل مکمل نہیں ہوئے تھے۔ ڈیٹرائٹ میں دو سال جلسوں کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنے معجزانہ تصرف سے ہمیں اس خوش قسمتی سے نوازا کہ اگلے دو سالوں کے لیے قرعۂ انتخاب نیویارک کے نام پڑا۔ ڈاکٹر صلاح الدین نیویارک کا رہنے والا تھا اور میں بھی قریبی شہر فلاڈلفیا میں رہائش پذیر ہو چکا تھا۔

گزشتہ تجربات کی روشنی میں جلسہ کے قیام کے لیے جگہ کا انتخاب کرتے وقت مختلف امور کو مدِّ نظر رکھنا پڑتا تھا۔ اوّل یہ کہ وہاں لوکل جماعت بڑی مضبوط اور فعال ہو، ایرپورٹ اور ٹرانسپورٹ کے لیے آسانیاں ہوں۔ رہائش کے لیے احبابِ جماعت کے گھروں کے علاوہ قرب و جوار میں ہوٹل، موٹل کی سہولتیں میسر ہوں۔ جلسہ کے لیے عام طور پر گرمیوں کی چھٹیوں کے دوران میں دستیاب خالی یونیورسٹیوں کے ہالوں اور اقامت گاہوں کو ترجیح دی جاتی جو معقول کرایہ پر مہیا ہو جاتے۔ مگر اب کی دفعہ سب سے اہم معیار کسی ایسے ادارے کی دستیابی تھی جس میں خوراک رسانی (catering) ان کی ذمہ داری نہ ہو بلکہ ہمیں اپنا کھانا پکانے کی اجازت اور سہولت ہو۔ ان تمام امور پر نگاہ ڈالتے ہوئے محترم امیر صاحب جماعت ہائے احمدیہ امریکہ حضرت صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب مرحوم نے فوری طور پر ایک کمیٹی تشکیل دی جو اس بات کا جائزہ لے کہ آئندہ جماعتی کنٹرول میں نظامِ ضیافت چلانے کے پیشِ نظر جلسہ کے لیے کون سی جگہ موزوں رہے گی۔ چار بڑی جماعتوں، شکاگو، نیویارک، فلاڈلفیا اور میری لینڈ-ورجینیا سے رابطے قائم کیے گئے۔ اس وقت عمومی تاثر یہی تھا کہ فی الحال اس سکیم کو چند سال کے لیے معرضِ التوا میں ڈال دیا جائے اور اس پر عمل درآمد طویل المیعاد منصوبہ بندی (long-term planning) کے تحت کیا جائے۔ اس پس منظر کا ایک دلچسپ واقعہ برادرم عزیزم صاحبزادہ میاں ظاہر مصطفیٰ احمد نے بعد ازاں کچھ یوں بتایا:

” 1992 کے اوائل میں جلسہ کے موقع پر اپنا لنگر چلانے کے لیے ایک میٹنگ حضرت صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب امیر جماعت ہائے احمدیہ امریکہ کے گھر پر منعقد ہوئی جس میں اکابر منتظمین کی اکثریتی رائے یہی تھی کہ اپنا لنگر چلانا ہمارے بس کا روگ نہیں۔ جب سب اپنے اپنے خیالات کا اظہار کر چکے تو صلاح الدین نے، جو اس وقت نیو یارک جماعت کا ضیافت سیکریٹری تھا اور ہزار بارہ سو مہمانوں کا کھانا بنانے کا تجربہ رکھتا تھا، کچھ عرض کرنے کی اجازت طلب کی۔ اجازت ملنے پر اس نے اپنا تعارف کرایا اور لنگر کی ڈیوٹیوں کا حوالہ دے کر کہنے لگا:

”میاں صاحب، یہ جو سب مخالفت کر رہے ہیں، انہوں نے کبھی انڈہ بھی نہیں تلا۔ انہیں کیا علم، لنگر چلانا کیا ہوتا ہے۔ آپ مجھے موقع دیں، انشاءاللہ یہ کام کر کے دکھاؤں گا۔“

حضرت میاں صاحب کی طبیعت پر بہت بوجھ تھا کہ ایک طرف خلیفۂ وقت کا ارشاد ہو اور دوسری طرف مجبوری و معذوری کی آوازیں بلند ہو رہی ہوں۔ میٹنگ کچھ مایوسی کے رنگ میں ختم ہو گئی۔ سب لوگ باہر نکل آئے تو آپ نے اپنے خادم صدیق کو بھیجا کہ وہ جو سب سے لمبا نوجوان ہے اسے بلا کر لاؤ۔ اس وقت میاں صاحب مرحوم صلاح الدین کے نام سے بھی واقف نہیں تھے۔ فرمانے لگے: ”تم یہ کام کر لو گے؟“ ”خدا تعالیٰ کے فضل اور مدد کے ساتھ، انشاءاللہ ضرور۔“ صلاح الدین کا جواب تھا۔

”تو پھر وعدہ کرو کہ دنیا میں جہاں بھی ہو، امریکہ کے جلسہ پر ضرور پہنچو گے۔“ صلاح الدین نے وعدہ کیا اور پھر آخر تک اسے نبھایا۔ وہ جاپان میں ہو، جزائر غرب الہند (Caribbean Islands) میں ہو، انگلینڈ میں ہو یا پاکستان، ہر جلسہ پر امریکہ پہنچا۔

حضرت میاں صاحب مرحوم نے بھی اس کی قدر کی۔ اور اپنی زندگی میں ہمیشہ جلسہ پر پہنچنے کے بعد لنگر تشریف لاتے اور صلاح الدین کا شکریہ ادا کرتے۔ آپ کی وفات کے بعد آپ کے منہ بولے بیٹے، میاں ظاہر احمد نے بھی اس روایت کو جاری رکھا اور ہمیشہ لنگر آ کر صلاح الدین کا شکریہ ادا کیا اور اسے یاد دلایا کہ ”تمہیں ابا جان مرحوم کا سلام پہنچانے اور شکریہ ادا کرنے آیا ہوں۔“

یوں محترم امیر صاحب کی بالغ نظر نے نیویارک جماعت کا انتخاب کر کے اسے قلیل المیعاد منصوبے میں تبدیل کر دیا؛ کیونکہ آپ کے نزدیک بھی اطاعتِ امام کی تقاضا یہی تھا کہ اب کسی اور سمت دیکھنا گوارا نہیں کیا جا سکتا۔ ہمیں فوری طور پر لنگر خانہ کے قیام کے لیے دستیاب سہولتوں کے پیش نظر جگہ کا انتخاب کرنا چاہیے۔

نیویارک جماعت اس کے لیے بہت موزوں تھی؛ کیونکہ وہاں معقول افرادی قوت (manpower) میسر تھی اور وہاں کی ضیافت ٹیم بڑی فعال اور اکثر ہزار بارہ سو افراد کے کھانے کا بندوبست کرنے کا تجربہ رکھتی تھی۔

نیویارک کی بے لوث انتظامیہ

اللہ تعالیٰ کے فضل سے نیویارک جماعت وہاں کے صدر مکرم و محترم نذیر احمد ایاز صاحب کی قیادت میں ایک بڑی مستحکم، سرگرم اور بے لوث جماعت تھی۔ یہاں ہر قسم کی صلاحیتوں (talents) کے حامل محنتی، جفاکش اور وفا شعار اراکین ہر طرح کی قربانی اور خدمت کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے۔ میری نظروں کے سامنے بے شمار چہرے گھوم جاتے ہیں جنہیں مَیں نے انتہائی نامساعد حالات میں انتھک محنت کرتے دیکھا۔ لیکن اگر مَیں ایک ایک کر کے ان کے نام اور خدمات کا ذکر کرنا شروع کروں تو یہ ایک ضخیم کتاب بن جائے گی اور پھر بھی یقیناً مجھ سے بہت سے نام اور کام حذف ہو جائیں گے۔

اس سلسلے میں مجھے ایک تلخ مشاہدہ بھی ہو چکا تھا۔

جوبلی سال 1989 میں مَیں ڈیٹرائٹ جماعت میں تھا۔ وہاں چند سال پہلے 1983 میں ڈاکٹر مظفر احمد صاحب کو شہید کر دیا گیا اور مسجد احمدیہ جلا دی گئی تھی۔ اس مسجد کی دوبارہ تعمیر جماعت نے وقارِ عمل کے ذریعے کی۔ اور بچے بڑے، عورتیں مرد سبھی نے اپنی اپنی بساط کے مطابق اس میں حصہ لیا۔ 23 مارچ 1989 کے خوبصورت دن اس کی مرمت و تعمیرِ نو مکمل ہو چکی تھی۔ چراغاں کرتے ہوئے ہم سب بڑے خوش اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کر رہے تھے۔ جماعت کے صدرِ محترم برادرم مکرم ناصر محمود ملک صاحب کو بفضلہٖ تعالیٰ انتظامی صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ فصاحت و بلاغت کا بھی عجیب ملکہ حاصل ہے۔ آپ نے بہت مؤثر رنگ میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کے ساتھ ”من لا یشکر الناس لا یشکر اللہ“ کے تحت ہر ہر فرد کی خدمات کا ذکر کیا اور شکریہ ادا کیا؛ جن میں سے ایک دوست کا نام ذکر سے رہ گیا جنہیں مَیں نے بھی اپنے قیام کے دوران میں تعمیرِ مسجد کے کاموں میں غالباً کبھی نہیں دیکھا تھا۔ بعد میں وہ دوست صدر صاحب سے کہنے لگے:

”ملک صاحب، میرے سوا آپ نے سب کے نام گنوا دئیے۔ مگر اس تعمیر میں کبھی مَیں بھی شامل رہا ہوں۔ فلاں تصویر دیکھ لیں، اس میں مَیں بھی موجود ہوں۔“

اس احساس کے پیش نظر صرف جماعت کے انتہائی فہیم، بردبار اور صاحبِ رسوخ صدر محترم نذیر احمد ایاز صاحب اور لنگر خانہ امریکہ کے بانی رکن اور نیویارک جماعت کے سیکرٹیری ضیافت ڈاکٹر صلاح الدین کے علاوہ دو ناموں کا ذکر کروں گا جن میں ایک اس کا نائب، نعیم احمد ہے جس نے انتہائی خاموشی سے اطاعت و فرمانبرداری کی مثال قائم کرتے ہوئے لبیک کہی اور اپنی پوری ٹیم کے ساتھ اس جاں گسل مرحلے کے لیے تن من دھن ایک کر دیا۔ دوسرا اس کا بڑا بھائی لطیف احمد طاہر (حال سیکرٹیری ضیافت آسٹن جماعت) جس نے سٹیٹ آف نیویارک کا امتحان پاس کر کے فوڈ لائیسنس حاصل کیا تا کہ کوئی رکاوٹ پیش نہ آئے۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے خاص فضل اور اس کی دی ہوئی توفیق سے ان تمام جاں نثاروں نے (جن میں ایک بڑی تعداد ربوہ میں جلسہ کی ڈیوٹیاں دینے کا تجربہ رکھتی تھی) جن نامساعد حالات میں مشکلات و مصائب کے پہاڑوں پر تیشہ زنی کی اور بالآخر مسیحِ پاکؑ کے ابرِ رحمت کے چشمہ کو جاری کر کے چھوڑا، ان کی قربانیوں اور وفاؤں کا لمحہ لمحہ زریں حروف سے رقم کرنے کے قابل ہے۔ لیکن اگر ان کے خاموش انفرادی کارنامے لوح و قلم کی زینت نہ بھی بن پائیں تب بھی ربِّ کریم کے فضل سے امید ہے کہ وہ عرش پر قبولیت کی معراج پا چکے ہوں گے۔

نیویارک جماعت نے جب جلسہ کے لیے مختلف یونیورسٹیوں سے رابطہ قائم کیا تو یہ امر سامنے آیا کہ ان اداروں نے مختلف فوڈ سروس کمپنیوں کو خوراک رسانی (catering) کا ٹھیکہ دے رکھا ہوتا ہے۔ اور وہ کسی اور کو فوڈ سپلائی کی اجازت نہیں دیتے۔ ایک یونیورسٹی ”لانگ آئی لینڈ انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی“ کو جب یہ بتایا گیا کہ ہم ایک غیر منافع بخش مذہبی خیراتی ادارہ ہیں  (Non-Profitable Religious Charity)    اور کھانا بیچ نہیں رہے بلکہ مفت کھلا رہے ہیں۔ مزید برآں ہم آپ کے کچن کی سہولت بھی استعمال نہیں کریں گے بلکہ باہر ٹینٹ لگا کر کھانا پکائیں گے تو وہ راضی ہو گئے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ کے فضل سے آقاؒ کے ارشاد کی تعمیل کی راہ میں پہلی رکاوٹ دور ہو گئی۔ امیر صاحب محترم نے ان کارروائیوں کی اطلاع حضورؒ کو دی تو آپ نے فرمایا:

”اس کام کو بہترین رنگ میں سر انجام دیں اور کھانا پکانے کو پروفیشنل طریق پر سیکھیں۔“

چنانچہ عزیزم ڈاکٹر صلاح الدین، جو Nutrition and Bio-Chemistry میں PhD اور میڈیکل یونیورسٹی میں پڑھاتا تھا اور بچپن سے لنگر کی ڈیوٹیوں اور کھانا پکانے کے ماہر استادوں کے ساتھ کام کا تجربہ رکھتا تھا، خصوصیت سے پاکستان گیا۔ اور ربوہ میں لنگر خانے سے کھانا پکانے کے نسخہ جات اور تراکیب کے حصول کے ساتھ ساتھ اس فن کے ماہر اساتذہ محترم محمد رفیع صاحب مرحوم، محترم رانا محمد دین صاحب مرحوم اور لاہور کے بعض ریستورانوں کے پیشہ ور ماہرین سے مشورے کیے اور کئی گُر کی باتیں سیکھیں۔ علاوہ ازیں لنگر امریکہ کو افرادی عددی قوت کی کمی کے باعث جس سا‏ئز کی دیگوں اور چولہوں کی ضرورت تھی وہ امریکہ میں دستیاب نہیں تھے۔ چنانچہ سارے اندازے کرنے کے بعد گوجرانوالہ سے خصوصی سا‏ئز کی دیگوں کا آرڈر دیا گیا جو پاکستان میں نائیوں کی بیضوی دیگ سے تین گنا سے زیادہ کھانا پکانے کی گنجائش رکھتی تھیں۔ پاکستان میں عام طور پر نائی حضرات ایک دیگ میں 25 پاؤنڈ گوشت پکاتے ہیں۔ جلسہ ربوہ میں ہمارے ہاں 35 پاؤنڈ تک گوشت پکایا جاتا رہا ہے۔ لیکن جو دیگ ہم نے بنوائی وہ 20 انچ گہرائی اور 34 انچ قُطر (Diameter) کی تھی۔ ابتداً آٹھ دیگیں اور بعد ازاں مختلف اوقات میں مزید بیس دیگوں کا آرڈر دیا گیا۔ اس سا‏ئز کی دیگ میں بآسانی 100 پاؤنڈ گوشت، 40 پاؤنڈ آلو اور 40 پاؤنڈ پیاز، ٹماٹر اور دیگر مصالحہ جات کا سالن تیار کیا جا سکتا ہے۔ اب ہمارے تربیت یافتہ رضا کار 150 پاؤنڈ گوشت کو بھی ہینڈل کر لیتے ہیں۔ ایک دیگ عموماً پانچ سو افراد کے لیے کافی ہوتی ہے۔ دال کی دیگ جو لبالب بھری ہو 800 افراد کی ضرورت پوری کر سکتی ہے۔ ان دیگوں کو سہارنے کے لیے غیر معمولی طاقت اور بڑے سائز کے گیس کے چولہوں کی بھی ضرورت تھی۔ یہ چولہے تو امریکہ میں مل گئے مگر ان کے 24 انچ قُطر کے برنر (burner) پاکستان سے سپیشل آرڈر پر بنوانے پڑے۔ علاوہ ازیں پیاز کاٹنے، ٹماٹر پیسٹ بنانے، مصالحہ گرائنڈ کرنے اور آلو چھیلنے کی الیکٹرک مشینیں بھی منگوائی گئیں جن سے افرادی قوت کی کمی کے باوجود سہولت کے سامان پیدا ہو گئے۔ فالحمد للہ۔

اللہ تعالیٰ نے ڈاکٹر صلاح الدین کو اور خوبیوں کے ساتھ ساتھ غیر معمولی قوتِ خرید کی صلاحیت بھی عطا فرمائی ہے؛ چنانچہ یہ ساری اشیا نہ صرف معقول قیمت پر مہیا ہو گئیں بلکہ اس کے ایک غیر احمدی صاحبِ اثر و رسوخ دوست نے سعودی ایرلائنز سے بحری جہاز کے کرایے کے برابر خرچ پر امریکہ آنے کا بندوبست کر دیا۔ اور یہاں بھی کسٹم والوں کو جب بتایا گیا کہ یہ ایک غیر منافع بخش مذہبی خیراتی ادارے کا سامان ہے اور ہم انہیں کسی حالت میں کاروباری مقاصد یا بیچنے کی غرض سے استعمال نہیں کرتے تو انہوں نے حیرت کا اظہار کیا اور بغیر کسی روک ٹوک کے سامان کلیئر کر دیا۔ اللہ تعالیٰ قدم قدم پر لنگر کے لیے سامان اور آسانیاں پیدا فرما رہا تھا۔

لنگر ڈیوٹی کے لیے حاضری

جب یہ ساری تیاریاں مکمل ہو گئیں تو ایک دن صلاح الدین کا فون آیا:

”امتیاز، تم نے سب سے پہلے ہاتھ کھڑا کیا تھا۔ اب اپنی ٹیم سمیت لنگر ڈیوٹی کے لیے آ جاؤ۔“

مَیں نے جواب دیا: ”دیکھو میرے بھائی، مَیں نے تو اطاعت کے جذبے کے تحت لبیک کہی تھی۔ میرا اس فیلڈ میں ذرہ بھر بھی تجربہ نہیں۔ مَیں نے شاید ہی زندگی میں کبھی انڈہ بھی فرائی کیا ہو۔ زیادہ سے زیادہ اپنے لیے چائے کا ایک کپ بنا لیتا ہوں ــــــــــ لیکن مَیں حاضر ہوں۔ جو کہو گے کرنے کو تیار ہوں۔“

چنانچہ مَیں فلاڈلفیا سے اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ نیویارک جلسے پر پہنچ گیا۔ اور اس کے بعد سالہا سال تک صرف دیگیں مانجھنے اور صفائی کا کام سنبھالے رکھا۔ امریکہ جماعت کا پروفیشنل فوٹوگرافر ہیرسبرگ کا عزیزم کلیم بھٹی تانک تانک کر میری برتن دھونے کی تصویریں بناتا رہا۔ سالوں بعد میں نے اسے مذاقاً کہا:

”اب تو بس کرو۔ میری پروموشن دیگیں دھونے سے دیگیں پکانے پر ہو گئی ہے۔ تم اب بھی وہی تصویریں بناتے اور دکھاتے ہو۔“

جلسہ سالانہ 1992 شروع ہونے سے ایک رات پہلے جمعرات کو امیر صاحب محترم حضرت صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب مرحوم بھی نیویارک تشریف لے آئے۔ آپ کافی متفکّر تھے؛ کیونکہ لنگر کے غیر مؤیّد عناصر نے بڑے خلوص اور سچائی سے جو اندازے پیش کیے تھے اور بعض پاکستانی ریستورانوں کے مالک حضرات نے بھی جو نقشہ کھینچا تھا وہ زیادہ حوصلہ افزا نہیں تھا۔ حضرت امیر صاحب مرحوم فرمانے لگے:

”کیوں نہ روزانہ ایک وقت کا کھانا ہوٹل والوں سے خرید لیا جائے اور رات کا کھانا لنگر میں تیار ہو جائے۔“ اس پر صلاح الدین کہنے لگا:

”تو میاں صاحب، پھر ہوٹل کے بجائے ہم سے ہی خرید لیں۔“

حضرت میاں صاحب مسکرا پڑے۔ فرمایا:

”اچھا اللہ تعالیٰ تمہارے کام میں برکت ڈالے۔ تم لوگوں کے لیے خصوصی دعا کرتے ہیں۔“

ہمارا ابتدا ہی سے یہ دستور بن گیا تھا کہ جب ہم مکمل تیاری کے بعد پہلی بار چولہے میں آگ لگاتے تو پہلے سب حاضرین ہاتھ اٹھا کر دعا کرتے۔ اس وقت اگر کوئی بزرگ، بڑے عہدیدار یا مربی صاحب موجود ہوتے تو قیادت کرتے وگرنہ اکثر یہ سعادت اسی عاجز و احقر کو نصیب ہوتی۔

لنگر کا پہلا دن

جمعۃ المبارک 26 جون 1992 کی صبح دس گیارہ بجے کے درمیان امیر جماعت ہائے امریکہ حضرت صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب مرحوم لنگر کا معائنہ کرنے کے لیے تشریف لائے تو ہماری چھ کی چھ دیگیں تیار تھیں۔ آپ کی آمد کے ساتھ ہی فضا نعرۂ تکبیر اور لنگر مسیحِ موعودؑ زندہ باد کے نعروں سے گونج اٹھی۔ ہماری آنکھوں سے آنسو رواں تھے اور دل خدا تعالیٰ کی حمد سے لبریز کہ آج ہمیں آقاؒ کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے حضرت مسیحِ پاکؑ کے قائم فرمودہ اس عظیم ادارے کے قیام کی سعادت نصیب ہوئی ہے۔

اُس روز لنگر مسیحِ موعودؑ میں جو آگ روشن ہوئی وہ ربع صدی بعد چراغ سے چراغ جلاتی ہوئی آگے سے آگے بڑھتی جا رہی ہے۔ آج شمالاً جنوباً، شرقاً غرباً امریکہ کے ہر مشن ہاؤس میں اللہ تعالیٰ کے انعاموں کی یہ آگ روشن ہے۔ اس کے فضلوں کے ایک ایک قطرے نے ہر سمت دریا بہا دئیے۔ بہت ساری جگہوں پر ڈاکٹر صلاح الدین نے خود جا کر یا ہدایت دے کر وہاں کی ضیافت ٹیموں کی رہنمائی کی۔ اللہ تعالیٰ اس کی اور اس کے تمام ساتھیوں کی عاجزانہ اور مخلصانہ کوششوں کو قبول فرمائے، کوتاہیوں اور غفلتوں کو معاف فرمائے اور احسان اور اجرِ عظیم سے نوازے۔ آمین۔

جلسہ کے اختتام پر جماعت کی طرف سے کھانوں کے نمونے اور نان حضورِ انورؒ کی خدمتِ اقدس میں بھجوائے گئے۔ یہ نان خصوصی ترکیب (recipe) کے تحت، جس میں دودھ اور گھی کی مخصوص مقدار بھی شامل تھی، آرڈر پر تیار کرائے گئے تھے جو پرانے ہو کر بھی سوکھتے یا بُھربُھرے نہیں ہوتے تھے۔ آپؒ نے ڈاکٹر ولی شاہ صاحب کی معرفت اظہارِ خوشنودی فرمایا اور حوصلہ افزائی کرتے ہوئے کہا:

“It excels all the food I ever tasted.”

”آج تک مَیں نے جتنے کھانے چکھے ہیں یہ ان میں سب سے بہترین ہے۔“

یہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل و احسان اور حضورؒ کی شفقتیں اور محبتیں تھیں وگرنہ ہماری عاجزانہ کاوشوں کی کیا وقعت؟ بفضلِ ایزدی پہلے جلسہ پر ہی کھانے کا معیار اور انتظام اتنا اعلیٰ تھا کہ وہ امریکی پیداوار بچے جنہوں نے تہیّہ کر رکھا تھا کہ پاکستانی کھانے کو ہاتھ نہیں لگائیں گے، چٹخارے لے لے کر کھاتے رہے۔ حقیقتاً یہ صحیح معنوں میں ”کم خرچ بالا نشیں“ ضیافت تھی۔ کھانے کے فی کس اخراجات بشمول ٹرانسپورٹ اور دیگر بالائی مصارف 69 سینٹ تھے جو کیٹرنگ کی لاگت سے دس گنا کم تھے۔ اور فی الحقیقت ان مصارف کو کم سے کم سطح پر لانے میں ڈاکٹر صلاح الدین اور اس کے ساتھیوں نے انتھک جد و جہد کی اور ہر وہ طریق اختیار کیا جس سے پائی پائی کی بچت ہو سکتی ہو۔ وہ علیٰ الصبح تین بجے سے پہلے سبزی منڈی پہنچ جاتے اور مول تول کر کے مارکیٹ ریٹ سے بہت کم، اچھا اور سستا مال خرید لیتے۔ گوشت کی خریداری میں بھی بڑی تگ و دو کرنا پڑتی۔ آج سے پچیس سال پہلے حلال گوشت کا عام مارکیٹ میں دستیاب ہونا امرِ محال تھا۔ صلاح الدین اور اس کے ٹیم ممبرز نے نیویارک، پینسلوینیا اور میری لینڈ کے بڑے بڑے مذبح خانوں (slaughter houses) کے خود چکر لگائے۔ اور بہترین اور سستے جانور چن کر لنگر کے لیے ذبح کرائے۔ اس طریق پر حضرت مسیحِ موعودؑ کے مہمانوں کے لیے بہترین حلال اور طیّب اشیا پیش کی گئیں۔

اللہ تعالیٰ نے امامِ وقت کی آواز پر لبیک کہنے کو قبول فرمایا اور ریستوران کاروبار کے ماہرین اور گھاگ مالکان کے اندازوں کو کہ اول تو لنگر چل ہی نہیں سکتا، اور اگر چلا تو پانچ سال میں بند ہو جائے گا، غلط ثابت فرمایا۔ ان احباب نے بعد میں خود اعتراف کیا کہ ان کی رائے درست نہیں تھی اور لنگر چلانا پیشہ ور کاروباری حضرات کے بس کا روگ نہیں۔ یہ کام صرف بے لوث رضا کار کارکنان (volunteer workers) ہی کر سکتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے حضورؒ کے منہ سے نکلا ہوا ایک ایک لفظ اس رنگ میں بھی پورا فر ما دیا کہ نیویارک کا پہلا جلسہ اور لنگر فی الواقعی تنبو اور قناتوں میں منعقد ہوا۔ اس دوران میں بارانِ رحمت بھی ہوئی اور تیز ہوا کی وجہ سے قناتیں اُڑنے لگیں تو خدام بارش میں بھیگتے ہوئے ان کے کونوں پر کھڑے ہو گئے تاکہ خواتین کے جلسہ گاہ کا پردہ قائم رہے۔

لنگر مسیحِ موعودؑ کا دھیرے دھیرے سفر

سیّدنا حضرت اقدس مسیحِ پاک علیہ الصلوٰۃ و السلام کے اس مقدس مشن کا یہ قافلہ دھیرے دھیرے آگے بڑھتا گیا۔ دو سال نیویارک کی سر زمین کو برکت بخشنے کے بعد واشنگٹن کے نواح میں اپنے نئے ہیڈ کوارٹرز کا رخ کیا۔ میری لینڈ (Maryland) کے شہر سلور سپرنگ (Silver Spring) میں مسجد ”بیت الرحمٰن“ کی تعمیر مکمل ہو چکی تھی۔ 1994 کا جلسہ وہیں پر اکتوبر کے مہینے میں منعقد کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ مسجد کے افتتاح کے لیے حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ بنفسِ نفیس تشریف لا رہے تھے۔

مَیں فروری 1994 میں کیلیفورنیا نقل مکانی کر گیا تھا۔ میری والدہ جو صلابتِ جگر (liver cirrhosis) کے باعث علیل تھیں، اُن دنوں میرے ساتھ رہ رہی تھیں۔ انہیں شدید تمنا تھی کہ 14 اکتوبر کو مسجد ”بیت الرحمٰن“ کے افتتاح کے موقع پر پہنچ سکیں۔ میں بھی تڑپ رہا تھا کہ جلسہ اور اس کی ڈیوٹیاں  میرا انتظار کر رہے ہیں، مگر کوئی صورت دکھائی نہیں دے رہی تھی۔ اچانک میری چھوٹی ہمشیرہ اپنے خاوند اور بچوں سمیت کچھ دن کی چھٹی لے کر ہمیں ملنے کے لیے آئی۔ اس کا بیٹا اس وقت صرف اڑھائی ماہ کا تھا۔ ان کی آمد پر ہم نے وین کرائے پر لی اور سان فرانسسکو سے تین ہزار میل کا سفر مسلسل اڑتالیس گھنٹے ڈرائیو کرتے ہوئے نمازِ جمعہ سے کچھ دیر پہلے ”بیت الرحمٰن“ پہنچ گئے۔ مَیں نے یہی سوچا تھا کہ اس دفعہ ”مہمان“ بن کر صرف جلسہ ”دیکھوں“ گا۔ چنانچہ اپنا بہترین سوٹ زیب تن کیے، نئے جوتے پہنے اور کیمرہ کندھے سے لٹکائے جلسہ گاہ پہنچ گیا۔ خیال تھا کہ جلسہ کی کارروائی اور مسجد کے افتتاح کی رپورٹنگ کروں گا اور بعد ازاں اگر توفیق ملی تو انشاءاللہ کسی مضمون کی شکل میں آنکھوں دیکھا حال قلمبند کرنے کی کوشش کروں گا۔

ــــــــــ مگر میرے قدم کشاں کشاں لنگر خانہ کی طرف بڑھ گئے کہ چلو پہلے اپنے پیاروں کا حال تو پوچھوں۔ لنگر کا بندوبست بھی مسجد کے احاطے میں کھلی جگہ پر ٹینٹوں تلے کیا گیا تھا۔ میرے ساتھیوں نے اپنی محبت کے اظہار کے طور پر اللہ اکبر اور لنگر مسیحِ موعودؑ زندہ باد کے نعرے بلند کر کے میرا استقبال کیا۔ مَیں نے دیکھا کہ میرا جگری دوست صلاح الدین کچھ پریشان اور تھکا تھکا سا دکھائی دے رہا تھا، مجھے دیکھتے ہی پیار سے برس پڑا:

’’کہاں ہو تم، کب سے تمہیں ڈھونڈ رہے ہیں۔ پتا چلا ہے تم کیلیفورنیا چلے گئے ہو۔‘‘

’’ہاں بھائی، اور اس دفعہ صرف جلسہ سننے آیا ہوں، مہمان بن کر۔‘‘ مَیں نے جوب دیا۔

’’مہمانی گئی تمہاری بھاڑ میں۔ وہ لگا ہے دیگوں اور گندے برتنوں کا ڈھیر؛ شروع ہو جاؤ صفائی کرنے۔“ صلاح الدین کا انداز اتنا پیارا تھا۔ اس میں افسرانہ تحکم بھی تھا، دوستی کا اعتماد بھی اور محبت بھری التجا بھی۔

میرے پاس اب کوئی چارہ نہیں تھا کہ جلسہ سننے، دیکھنے کی تمنا تج دیتا، رپورٹنگ کا خیال ترک کر دیتا اور کیمرہ پرے پھینک کر مسیحِ موعودؑ کے لنگر کی برکتوں میں خود کو ضم کر دیتاــــــــــ الحمدللہ، خود کو اتنا نصیبوں والا سمجھتا تو نہیں تھاــــــــــ

مَیں سوٹ ٹائی پہنے جمعہ کی تیاری کر کے آیا تھا۔ اب اتنا وقت نہیں تھا کہ لباس تبدیل کر پاتا؛ چنانچہ پلاسٹک کے گاربیج بیگ میں سر اور بازوؤں کی جگہ بنائی اور اسی طرح کپڑوں کے اوپر چڑھا کر دیگیں مانجھنے اور صفائی کی ڈیوٹی پر حاضر ہو گیا۔ بعد ازاں یہ پلاسٹک بیگ ایپرن میرا ٹریڈ مارک بن گیا۔ مگر اس دوران میں ایک ایسا واقعہ ہوا جس نے میری اس لذت کا لطف دو بالا کر دیا۔ ہوا یہ کہ یہ ساری کارروائی میرا ایک بہت معزز دوست اور بڑا بھائی (برادرم مکرم سیّد عبدالماجد شاہ صاحب) بڑی خاموشی سے دیکھے اور مسکرائے چلا جا رہا تھا۔ جب مَیں تیل، پانی اور مٹی میں بری طرح لتھڑ گیا بلکہ پنجابی زبان میں ’’لِبّڑ‘‘ گیا تو وہ میری طرف بڑھا اور کہنے لگا:

’’مَیں اِس وقت کا انتظار کر رہا تھا جب تم اِس حالت کو پہنچ جاؤ گے تب تمہیں گلے لگاؤں گا۔‘‘ اور باوجود میرے روکنے کے اس نے اپنے بہترین خوبصورت سوٹ کو میرے ’’گاربیج بیگ ایپرن‘‘ میں ملبوس کیچڑ آلود لباس سے مَس کر کے ’’لبیڑ‘‘ دیا۔ یہ اس عزیز کی محبت کی انتہا تھی۔ اور میری زندگی کا گویا ’’حاصل کلام‘‘ یا اس مختصر کتابِ حیات میں ایک خوبصورت باب کا اضافہــــــــــ

اگلے چند سال جلسہ سالانہ مسجد ”بیت الرحمٰن“ کے احاطے میں ٹینٹوں میں ہوتا رہا۔ مگر بعد ازاں جگہ کی قلت اور دوسری دشواریوں کے پیش نظر اسے مسجد سے 41 میل جنوب مغرب میں ورجینیا سٹیٹ کے شہر شنٹلی (Chantilly) کےDulles Expo Center  میں منتقل کر نے کا فیصلہ کیا گیا۔ چنانچہ 1999 اور 2000 کے جلسے وہیں پر منعقد ہوئے۔ اس جگہ پروگراموں کے بڑے ہالوں کے علاوہ لنگر کے لیے بھی مسقف جگہ دستیاب تھی؛ چنانچہ پہلی بار ہمیں ایک سیمنٹڈ فرش پر چولہے سیٹ کرنے کا موقع ملا۔ یہاں بھی ورجینیا سٹیٹ کے قوانین کے مطابق سٹیٹ کے فوڈ لائیسنس ہولڈر احمدی ورکرز کی خدمات حاصل کرنا پڑیں اور بعض مشکل مراحل کے باوجود اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ساری دشواریاں دور فرما دیں۔

آئندہ کچھ سالوں کے جلسے مسجد ”بیت الرحمٰن“ (2001 سے 2004 تک) اور Dulles Expo Center (2005 تا 2009) میں ادلتے بدلتے رہے۔ اس دوران میں یہ احساس بڑھتا جا رہا تھا کہ واشنگٹن کے نواح کی وجہ سے ورجینیا سنٹر چھوٹا ہونے کے باوجود بہت مہنگا پڑ رہا ہے۔ چنانچہ کچھ عرصہ تگ و دو کے بعد ایک ایسی جگہ دکھائی دی جو بہت زیادہ دور نہ ہونے کے باوجود نسبتاً کم قیمت اور بہتر فیسلیٹی تھی۔ یہ جگہ مسجد ”بیت الرحمٰن“ سے 105 میل شمال میں ہمسایہ سٹیٹ پنسلوینیا کے دارالحکومت ہیرسبرگ کا(Expo Center) Farm Show Complex  تھا۔ 2010 سے امریکہ کا جلسہ سالانہ یہیں منعقد ہو رہا ہے۔ یہاں پر ہمیں لنگر کے لیے وسیع جگہ اور بہتر سہولتیں میسر آ گئیں۔ یہاں کی انتظامیہ اور ریاستی قوانین بھی زیادہ دوستانہ تھے۔

پہلی بار جب فوڈ انسپکٹر معائنہ و تفتیش (inspection) کی غرض سے آیا تو ڈاکٹر صلاح الدین سے کہنے لگا:

”میں تو صرف Bsc ہوں اور تم اسی فیلڈ میں PhD ہو۔ میں تم سے کیا سوال کروں؟“ اور جب اسے علم ہوا کہ ہم بیس سال سے رضا کارانہ (volunteer) کام کر رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے کبھی تسمّمِ غذا (food poisoning) کا کوئی کیس نہیں ہوا، نہ ہی تعفن زدگی کے باعث کوئی کھانا قابلِ اِتلاف سمجھا گیا ہے تو وہ بہت متاثر ہوا اور ہمارے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھا کر چلا گیا۔

اللہ تعالیٰ کے فضل سے جلسہ کی حاضری بھی تین ساڑھے تین ہزار سے بڑھ کی حضور ایّدہ اللہ بنصرہٖ العزیز کی آمد پر گیارہ بارہ ہزار تک پہنچ جاتی ہے۔ چنانچہ اس فیسلیٹی میں ہمیں جلسہ کی دیگر سرگرمیوں کے علاوہ لنگر کے واسطے مختص ہال میں بڑے بڑے نکاس پنکھے (exhaust fans) اور ٹرانسپورٹ کے ٹرکوں اور ویگنوں کے لیے اونچے گیٹ لگے ہوئے ہیں۔ اس میں اتنی وافر جگہ موجود ہے کہ پچھلے سال ہم نے تجربہ کے طور پر مختلف ٹیموں کے دو علیٰحدہ لنگر سیٹ کیے۔ چائے اور پرہیزی کھانے (non-spice food) کے لیے ہمیشہ سے الگ چولہے مخصوص کر دئیے جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا بڑا احسان ہے کہ لنگر کے ابتدائی سالوں ہی سے ہمیں پرہیزی کھانے (non-spice food) پکانے کے لیے برادرم کریم داد کی صورت میں ایک نہایت تجربہ کار، محنتی اور سرگرم رکن مل گیا۔ دھیمے اور ٹھنڈے مزاج کا یہ شخص انتہائی خاموشی اور لگن سے اپنا کام کیے جاتا ہے۔ بسا اوقات اکیلے ہی سینکڑوں افراد کا کھانا تیار کر دیتا ہے۔ اس کے کام کا پتا ہی نہیں چلتا کہ یہاں کچھ ہو بھی رہا ہے یا نہیں۔ یہی ایک اعلیٰ کارکردگی کی علامت ہے۔ اللہ تعالیٰ اسے اور باقی تمام کارکنوں کو اجرِ عظیم اور جزائے خیر دے۔ آمین۔

اصولِ طباخی میں احتیاطی تدابیریں

کھانے کو غذائی زہریت (food poisoning) اور معدہ کی جلن (heart burning) سے بچانے کے لیے ڈاکٹر صلاح الدین نے بڑی ٹیکنیکل ریسرچ کی کہ ہم کھانوں میں جو مصالحہ جات ڈالتے ہیں ان کی وجہ سے یہ تکالیف شروع ہوتی ہیں۔ مصالحے اگر پرانے ہو جائیں تو یہ مسائل پیدا ہوتے ہیں؛ چنانچہ ہم نے شروع ہی سے تازہ ثابت مصالحے استعمال کرنا شروع کر دئیے۔ یعنی جب انہیں استعمال کرنا ہوتا اسی وقت گرائنڈر میں پیسا جاتا۔ اس سے وہ قدرتی تیل اور خوشبو محفوظ رہتی ہے جس کے خشک ہونے کی وجہ سے یہ بد نتائج پیدا ہوتے ہیں۔ علاوہ ازیں اس طریق پر کھانے میں پرانے مصالحوں کی نسبت چار گنا کم مقدار کی ضرورت پیش آتی ہے۔ کُکنگ آئل کے طور پر canola (جو سرسوں کی اعلیٰ قسم ہے) استعمال کیا جاتا ہے جس میں جمنے کی کم خاصیت ہے اور کولسٹرول بھی نہیں ہے۔ کئی لحاظ سے یہ زیتون (olive oil) سے بھی اچھا اور کم قیمت ہے۔ اللہ تعالیٰ کی کسی خاص حکمت نے شاید اسی لیے ڈاکٹر صلاح الدین کو اس فیلڈ میں پی-ایچ-ڈی کرنے کی توفیق دی کہ وہ لنگر کی ذمہ داریوں کے دوران میں ان سائنسی علوم و فنون سے بہتر رنگ میں استفادہ کر سکے۔ اور بحمد للہ یہ ہو بھی رہا ہے۔ سیّدنا حضرت اقدس خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ بنصرہٖ العزیز نے 2012 میں امریکہ کے لنگر کا معائنہ کرتے ہوئے ازارہِ مزاح و خوشنودی فرمایا:

”یہاں سائنس زیادہ چلتی ہے۔“

غیر معمولی تائیدی اور سبق آموز واقعات

لنگر مسیحِ موعودؑ کی یہ داستان بڑی حسین اور طویل ہے۔ اس کی تمام جزئیات بیان کرنا بہت زیادہ طوالت کا باعث بن جائے گا۔ یہاں صرف بعض ایسے واقعات اور امور پیش کیے جا رہے ہیں جن سے کسی نہ کسی رنگ میں سبق سیکھا اور فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔

دنیا میں ادارے قائم ہوتے رہتے ہیں اور ان کی تاریخ بھی مرتب ہوتی رہتی ہے۔ مگر الٰہی ادارے جس غیبی نصرت و حمایت کے حامل ہوتے ہیں اور ان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے جو سامان پیدا ہوتے چلے جاتے ہیں وہ بذاتِ خود ایک سبق آموز تاریخ اور سبیلِ سفر بن جاتے ہیں۔ اس ضمن میں چند ایک واقعات ازدیادِ ایمان کی خاطر پیشِ خدمت ہیں۔ یہ واقعات حتیٰ الوسع حقائق پر مبنی ہیں مگر اس احتیاط کے باعث کہ کہیں تصنع، لفاظی یا کسی کی دلآزاری نہ ہو، انفرادی ناموں سے عمومی طور پر گریز کیا گیا ہے۔

”یہ نان تیرے لیے اور تیرے ساتھ کے درویشوں کے لیے ہے“

لنگر مسیحِ موعودؑ سے وابستہ اللہ تعالیٰ نے معجزانہ فضلوں اور برکتوں کے عجیب نشان رکھ چھوڑے ہیں۔ اور اس سلسلے میں بعض سبق آموز واقعات میں تربیت و اصلاح کے رموز بھی دکھائی دیتے ہیں۔

1993 کے جلسہ سالانہ نیویارک میں ہمارا لنگر کا دوسرا سال تھا۔ پہلے سال کی غیر معمولی کامیابی سے ہمارے حوصلے بلند تھے۔ خدا جانے اس کی کس حکمت کے تحت انتظامیہ نے کھانے کا جو طعام نامہ (menu) بنایا اس میں ہفتہ کی شام صرف چاول اور سالن تھا۔ چاول کی چھ دیگوں کی تیاری میں بڑی محنت اور وقت صرف ہوا۔ انہیں بڑے شوق اور فخر سے تیار کیا جا رہا تھا۔ مگر ہمارے کارکنوں کو ان غیر معمولی ضخامت والی دیگوں اور تیز برنر والے چولہوں کی آگ کا زیادہ تجربہ اور اندازہ نہیں تھا۔ اس پر مستزاد یہ کہ بارش کے باعث چولہے بجھ گئے اور کنٹرول نہ رہا۔ نتیجۃً ساری کی ساری دیگیں جل گئیں (جنہیں ہم پنجابی میں کہتے ہیں ”َلگ“ گئیں)۔ ان میں جلنے کی بُو اور سڑاند پھیل گئی اور وہ استعمال کے قابل نہ رہیں۔ فوری طور پر روٹی اور سالن کھانے کے لیے پیش کر دئیے گئے اور جلسے کے عام حاضرین کو اس بات کا علم بھی نہ ہو پایا۔

اس افراتفری کے بعد جب ذرا سکون ہوا تو میرے بہت پیارے زیرک و فہیم دوست مولانا انعام الحق کوثر صاحب (حال امیر و مبلغ انچارج آسٹریلیا)، جنہوں نے سب سے پہلے امریکہ میں میرا خیر مقدم کیا اور پھر ہمیشہ کے لیے محبت کے رشتوں میں جکڑ لیا، کہنے لگے:

”حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام کو الہاماً بشارت دی گئی تھی ’یہ نان تیرے لیے اور تیرے ساتھ کے درویشوں کے لیے ہے۔ ‘چاولوں کا اس میں کوئی ذکر نہیں ہے۔ جس دعوت میں تم نے نان (روٹی) ہی نہیں رکھے، اس میں برکت کیسی؟“

”اوہ میرے خداــــــــــ!“ مَیں دونوں ہاتھوں سے اپنا سر پکڑ کر زمین پر بیٹھ گیا۔ یہ ہم سے کیا حماقت ہوئی۔ اس کے بعد ہم نے کبھی کسی ضیافت کو نان (روٹی) سے کلیۃً محروم نہیں رکھا۔

چائے پلانے کے لیے پانچ سال انتظار

لنگر کے ابتدائی سالوں میں ”بیت الرحمان“ کے احاطے میں جلسوں کے دوران میں ہمیں ایک مستقلاً شیڈ بنا دیا گیا جس میں فریزر، برتن اور ضرورت کی دوسری چیزیں رکھ لی جاتیں۔ کھانا پکائی اور صفائی دھلائی کا کام بھی اس سے ملحقہ حصہ میں کیا جاتا۔ جون جولائی کی شدید گرمیوں میں بسا اوقات بغیر سایہ کے تپتی دیگوں کو ہینڈل کرنا جان جوکھوں کا کام دکھائی دیتا تھا۔ یہ محض خدا تعالیٰ کا کرم ہے کہ تمام مراحل بخیر و خوبی انجام پذیر ہوتے چلے گئے۔ اس دوران میں جلسہ پر آئے ہوئے دوست احباب بھی ملنے کے لیے چلے آتے۔ اکثر یہ بھی ہوتا کہ اگر کھانے کے خیمہ (marquee) میں کوئی شے میسر نہ ہوتی یا پسند نہ آتی تو وہ لنگر کا رخ کرتے۔ اور بعض ذاتی تعلقات کی بنا پر ”تکلیف ما لا یطاق“ بن جاتے۔ اگرچہ اس جگہ ان کی خدمت ہماری ذمہ داری نہ تھی، پھر بھی چونکہ وہ حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام کے مہمان تھے اس لیے ان کی دلداری کی خاطر اکثر غیر ضروری بوجھ بھی اٹھانا پڑتا۔

ایک بار یہ ہوا کہ مہمانوں کو کھانا کھلانے سے پہلے بغیر اجازت کھانا ڈال کر دینے پر ڈاکٹر صلاح الدین اپنے رضا کاروں پر ناراض ہو رہا تھا اور بڑی گرما گرمی کا عالم تھا۔ فضا کافی بوجھل اور مکدّر ہو چکی تھی۔ اتنے میں میرا ایک بے تکلف دوست جس کے شہر میں مَیں نے امریکہ قیام کے ابتدائی سال گزارے تھے وہاں چلا آیا اور کہنے لگا:

”چائے پلاؤ۔“ مَیں بھی بری طرح جھلایا ہوا تھا۔ وہاں چائے تھی بھی نہیں اور ہم اس وقت بنا بھی نہیں سکتے تھے۔ چنانچہ مَیں نے روکھے انداز میں کہہ دیا:

”یہاں چائے نہیں ہے۔“

وہ چلا گیا ــــــــــ مگر مَیں اپنا دل پکڑ کر رہ گیا کہ مَیں نے اس کے ساتھ یہ سلوک کیوں کیا۔ مَیں مدتوں اس قلق اور خلش کو دل میں لیے رہا۔ کوئی پانچ سال بعد ڈیٹرائٹ میں ایک شادی کی تقریب میں اسے دیکھا۔ مَیں نے اپنے ہاتھ سے چائے کا ایک کپ بنا کر اسے پیش کیا اور کہا:

”یہ لو، یہ تمہاری جلسہ سالانہ پر لنگر خانے والی چائے ہے۔“

اس نے مجھے گلے لگایا اور کہنے لگا: ”مجھے یاد ہے۔“

میرے دل کا بوجھ ہلکا ہو گیا۔

یہ مسیحِ موعودؑ کا کام ہے کسی کے باپ کا نہیں

لنگر خانے کا ایک بہت پرانا اور منجھا ہوا ورکر ”بیت الرحمٰن“ میں ہونے والے ایک ابتدائی جلسہ میں جمعرات کی شام کافی الجھا ہوا چولہے فٹ کر رہا تھا۔ کسی چولہے میں ایک پرزہ غائب ہے تو کسی میں دوسرا۔ سارے چولہوں کو ٹیسٹ بھی کرتا جا رہا تھا۔ یہ نوجوان (جو اب ادھیڑ عمر ہو چکا ہے اور اس کے بچے بھی بیاہے جا رہے ہیں) بہت سخت محنت اور اطاعت کرنے والا مگر طبیعت کا بھی ذرا تیز تھا۔ اس کی کسی بات پر ناراض ہو کر افسر صاحب جلسہ سالانہ نے حکم دیا کہ اس کے کام کی ضرورت نہیں، وہ وہاں سے جا سکتا ہے۔ وہ خاموشی سے اٹھ کر چلا گیا۔ رات گئے جب سب لوگ چلے گئے تو سیکورٹی والوں نے دیکھا کہ لنگر ایریا میں کچھ ہلچل ہو رہی ہے۔ قریب پہنچنے پر پتا چلا کہ وہی ورکر خاموشی سے چولہے سیٹ کر رہا ہے۔ سیکورٹی والے نے کہا: ”تمہیں تو یہاں سے نکال دیا گیا تھا۔ تم پھر آ گئے ہو؟“ اس نے بھی تڑک کر جواب دیا:

”یہ مسیح موعودؑ کا کام ہے، کسی کے باپ کا نہیں۔ مَیں اس وقت نہیں کروں گا تو کون کرے گا۔ صبح چولہے کیسے جلیں گے۔“

افسر صاحب جلسہ سالانہ بھی یہ سب کچھ چھپ کر خاموشی سے دیکھ رہے تھے۔ وہ آگے بڑھے، اسے پیار کیا اور گلے لگا لیا۔

ایک پلیٹ بارہ مہمان

آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ و سلم کو اللہ تعالیٰ نے جو قوتِ قدسیہ اور معجزات عطا فرمائے کہ تھوڑا سا کھانا بے شمار لوگوں کی خوراک بن گیا اور دودھ کا ایک پیالہ بیسیوں افراد کو نسوں تک سیراب کر گیا، وہ در اصل اپنے ربّ پر توکل، یقین اور محبت کا سبق دینے کے لیے ہیں کہ آپﷺ کے غلام بھی ان مقدس قدموں کی پیروی کر کے ان فیوض سے بہرہ ور ہوں۔ اگر نورِ بصیرت ہو تو ہر کوئی اپنی زندگی میں ایسے مشاہدات کرتا رہتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے معجزانہ تصرف، غیر معمولی فضلوں اور انعاموں کا باعث بنتے رہتے ہیں۔

ایک دفعہ مسجد فلاڈلفیا میں جماعت کی ذیلی تنظیموں کا اجلاس ہو رہا تھا۔ اطفال، خدام اور انصار سب کے لیے مشترکہ ضیافت کا بندوبست تھا۔ میرے بیٹے کی ڈیوٹی کھانے کی تیاری اور سروس پر لگی ہوئی تھی۔ مجلس انصاراللہ کی میٹنگ سے فارغ ہو کر جب مَیں نچلی منزل میں کھانے کی میز پر پہنچا تو دیکھا کہ میرا بیٹا سب کو کھلا کر چاول اور سالن کی ایک پلیٹ ہاتھ میں لیے کھڑا ہے۔ مجھے پوچھنے لگا:

”آپ نے ابھی تک کھانا نہیں کھایا ہے؟“ ”نہیں، ابھی ابھی میٹنگ سے فارغ ہو کر آ رہا ہوں۔“ مَیں نے جواب دیا۔

”تو پھر یہ پلیٹ آپ لے لیں۔ مَیں نے سب کو کھلانے کے بعد اپنے لیے نکالی تھی۔ اب اور کھانا نہیں ہے۔“

مَیں نے وہ پلیٹ اس کے ہاتھ سے لے تو لی مگر میرا دل بھر آیا کہ یہ بچہ صبح سے کھانے کی تیاری اور سروس میں لگا ہوا ہے اور اب یہ قربانی دے رہا ہے کہ اپنے حصے کا کھانا بھی مجھے دے رہا ہے۔ اس کے اپنے کھانے کو کچھ بھی نہیں بچا۔ ابھی مَیں کچھ سوچ ہی رہا تھا کہ دوسری منزل سے دس بارہ انصار، مجلس عاملہ کی میٹنگ سے فارغ ہو کر نیچے آ گئے۔ اب کسی کے لیے بظاہر کوئی کھانا نہیں تھا، سوائے تھال میں پڑے ہوئے کچھ چاول، ڈونگے میں سالن کی تلچھٹ اور ایک بھری پلیٹ جو میرے ہاتھ میں تھی۔ مَیں نے اپنے بیٹے کو وہ پلیٹ تھماتے ہوئے ہدایت کی کہ اسے بھی واپس تھال میں ڈال دو اور سالن کی پلیٹ ڈونگے میں۔ اور اوپر سے ایک طرف سے ڈھکنے سے ڈھانک دو۔ یہ کہہ کر مَیں اِدھر اُدھر ٹہلتا رہا اور دعا کرتا رہا کہ خدایا، میرے بچے نے اپنے حصے کا کھانا بھی دوسروں کو دے دیا ہے۔ اس کی قربانی کو قبول فرما اور ان مہمانوں کی حاجت روائی فرما۔ پندرہ بیس منٹ بعد مَیں نے دیکھا کہ اللہ تعالیٰ کی معجز نمائی سے وہ سب مہمان پیٹ بھر کر کھانا کھا چکے ہیں اور ابھی بھی کچھ چاول اور سالن کی تلچھٹ ڈونگے میں موجود ہے، جسے مَیں نے بھی سب سے آخر میں برکت کے طور پر کھا لیا۔

لجنہ اور لنگر ڈیوٹیاں

لنگر مسیحِ موعودؑ کے قیام و استحکام میں جماعت احمدیہ کی خواتین نے بھی ہمیشہ اہم کردار ادا کیا ہے۔ لجنہ ضیافت کی ڈیوٹیوں پر متعین انتظامیہ اور خاص طور پر منتظمۂ اعلیٰ نے ہمیشہ غیر معمولی تعاون اور اعانت کا مظاہرہ کیا ہے۔ اور بسا اوقات بہت قیمتی مشوروں سے ہماری مدد بھی کی۔ بچوں، بوڑھوں اور مختلف النوع مزاج کی حامل خواتین کی ضروریات کا خیال رکھنا اور حتی المقدور کسی بھی قسم کی شکایت کا موقع نہ دینا آسان کام نہیں۔ لیکن جس صبر، حوصلے اور تحمل سے وہ یہ کام سر انجام دیتی ہیں اس کا تصور جماعت احمدیہ سے باہر روئے زمین پر کہیں ممکن نہیں۔ لنگر خانہ میں لجنہ کا بالواسطہ اور بلا واسطہ تعاون ہمیں ہمیشہ حاصل رہا ہے۔ لیکن ایک موقع پر لجنہ سے براہِ راست کھانا پکوانے کی خدمات بھی حاصل کرنا پڑیں۔

1994سے 1996 تک میرا قیام کیلیفورنیا میں تھا۔ وہاں پر ہر سال دسمبر کے آخری ہفتہ میں ویسٹ کوسٹ کا جلسہ سالانہ منعقد ہوتا ہے جس میں کم و بیش آٹھ سو، ہزار کی حاضری اُس وقت ہو جایا کرتی تھی۔ اکتوبر 1994 میں مسجد ”بیت الرحمٰن“ کے افتتاح اور لنگر ڈیوٹیوں سے فارغ ہو کر واپس پہنچا تو میرے عزیز دوست مولانا انعام الحق کوثر صاحب نے، جو اُن دنوں لاس اینجلز جماعت میں مربّی سلسلہ کے فرائض انجام دے رہے تھے، مجھے پکڑ لیا اور فرمانے لگے:

”اِس دفعہ ویسٹ کوسٹ جلسہ میں ضیافت کی ذمہ داری بے ایریا (Bay Area) کی جماعتوں (سان فرانسسکو، سان ہوزے) کی ہے اور تم اس کے انچارج ہو گے۔“

مَیں نے بہت منت سماجت کی کہ مَیں تو صرف برتن دھونے اور صفائی کا کام جانتا ہوں۔ کھانا پکانے کا مجھے کوئی تجربہ نہیں۔ اور اتنی بڑی ذمہ داری ہماری چھوٹی سی جماعتوں کے بس کا روگ نہیں۔ یہ لاس اینجلز کے تجربہ کار احباب کے سپرد ہی رہنے دیں۔ مگر مولانا بضد رہے اور ایک مشکل سا مینئو بھی تھما دیا کہ اس کے مطابق کھانا تیار ہونا چاہیے۔

”حکمِ حاکم مرگِ مفاجات!“ جماعت کے دوست احباب کو اکٹھا کیا۔ وہ تیار تو ہو گئے مگر کوئی بھی فی ذاتہٖ کھانا پکانے کی مہارت نہ رکھتا تھا۔ چنانچہ مَیں نے اپنی بیوی سے کہا: ”بھاگ بھری، اب تمہاری مدد کی ضرورت ہے۔“ وہ بخوشی راضی ہو گئی۔ اللہ تعالیٰ نے اسے کھانا پکانے میں یوپی اور پنجاب کے امتزاج کا اچھا ذوق عطا کیا ہے۔ وہ سارا وقت کُکنگ ایریا میں ہماری مدد کرتی رہتی۔

وہاں چولہے بہت اونچے تھے۔ اس پر مستزاد یہ کہ جس دیگچے میں کھانا پکایا جا رہا تھا، اس کا قُطر بہت چھوٹا اور اونچائی بہت زیادہ تھی۔ سان ہوزے (San Jose) والے اب تک ہنستے رہتے ہیں کہ بشریٰ باجی کرسی پر چڑھ کر دیگچے میں چمچے ہلاتی تھیں۔ مگر اُن کھانوں کی لذت اب بھی یاد کرتے ہیں۔

احساسِ ضیاع کا تازیانہ

دیگوں پر کام اللہ تعالیٰ کے خاص فضل اور رحم کے بغیر ممکن نہیں۔ بعض احباب بڑے شوق سے آتے ہیں مگر اپنے اناڑی پن کی وجہ سے نقصان کا باعث بن جاتے ہیں۔ ایسے دوستوں کے کام کی مسلسل نگرانی کرنا پڑتی ہے۔ اب میری ڈیوٹی زیادہ تر دیگوں کی نگرانی پر ہوتی ہے۔ مصالحہ جات کی تیاری صلاح الدین خود کرتا ہے اور کبھی کبھار اگر مدد کی ضرورت ہو تو نیویارک کا پرانا ناظم ضیافت نعیم، ہیرسبرگ کا توفیق، نیویارک کا منصور اور ورجینیا کا مدثر اس کے معاون ہوتے ہیں۔ اٹھارہ بیس سال دیگوں پر مسلسل کام کرنے سے مجھے تھوڑا بہت اندازہ ہو گیا ہے کہ کس وقت دیگ کا مصالحہ اس کی تہہ میں جمنا شروع ہو گا اور کس وقت وہ ”لگ“ جائے گا۔ یعنی جلنے کی بُو دے جائے گا۔ ہر ایک دیگ کو اس کے میٹیریل، پیندے کی ساخت اور اس کی مسخ شدہ سطح اور خمیدگی (curved or crooked surface) کے ساتھ جانچنا پڑتا ہے۔ ایک جیسی آگ اور ایک ہی وقت پر شروع کرنے کے باوجود ہر دیگ اپنے ڈھنگ اور مزاج کے مطابق نتائج نکالے گی۔ اگر دیگ تھوڑی بہت ”لگ“ جائے اور جلنے کی بُو ابھی شروع ہوئی ہو تو اسے قابو کیا جا سکتا ہے۔ مگر چند لمحوں بعد اس کے سوا کوئی چارہ نہیں رہ جاتا کہ اس کے کھانے کے میٹیریل کو کسی دوسری خالی دیگ میں پلٹ کر پکایا جائے۔ اور اس کی ”اضافی خوشبو“ کا ”علاج“ کیا جائے۔ لیکن اگر بات اس سے بھی آگے بڑھ جائے تو ضائع کیے بغیر چارہ نہیں رہتا۔

ہمارے دیسی لوگ اس ”بُو“ کو بہت اچھی طرح پہچانتے ہیں۔ ان کے ساتھ ایسا تو نہیں کیا جا سکتا جیسے نیو جرسی کے خداموں نے کیا، جنہوں نے ایک بار پرانی اشیائے فروخت کے بازار (flea market) میں تبلیغی سٹال لگایا ہوا تھا۔ وہاں جو چاول پکائے گئے وہ ”لگ“ گئے۔ یعنی ان میں جلنے کی بُو پھیل گئی۔ حفظانِ صحت کے اصولوں کے مطابق ان میں کوئی مضرِ صحت عنصر نہیں تھا، تاہم انہیں کھانے کے لیے کوئی راضی نہیں ہو پا رہا تھا۔ ایک صاحب کو یہ ترکیب سوجھی کہ اسے ضائع کرنے کے بجائے “Smoked Rice” کا بورڈ لگا کر ڈالر ڈالر کی پلیٹ بیچنا شروع کر دی۔ تھوڑی دیر میں وہ سارا سامان بک گیا۔

ہمارے لنگر کا ایک سینئر رکن جو بہت مخلص اور وفا شعار ہے، مگر اپنی تلوّن مزاجی کی وجہ سے کوئی کام زیادہ ٹِک کر نہیں کر سکتا۔ ایک دفعہ وہ ایک دیگ پر کام کر رہا تھا۔ مَیں نے اسے بار بار تنبیہ کی کہ جس طرح وہ اس کو ہینڈل کر رہا ہے، وہ جل جائے گی۔ مگر ساتھ ساتھ اسے دیکھتا بھی جا رہا تھا۔ مجھے کسی مجبوری کے تحت دوسری طرف جانا پڑا۔ واپس آیا تو وہی ہوا جس کا خدشہ تھا۔ وہ دیگ جل کر مکمل طور پر ضائع ہو چکی تھی۔ مَیں آپے سے باہر ہو گیا اور اس کی ایسی خبر لی کہ غریب کو اس وقت وہاں سے ہٹ جانے میں ہی عافیت محسوس ہوئی۔

بعد میں میری غیر موجودگی میں جب سب ورکرز بیٹھے ہوئے تھے تو کسی نوجوان نے صلاح الدین سے پوچھا:

”ڈاکٹر صاحب، آپ کی طبیعت کی گرمی تو ہمیں سمجھ میں آتی ہے۔ مگر یہ انکل راجیکی کو آج کیا ہوا۔ وہ تو عام طور پر خاموش طبع، ہنس مکھ اور ٹھنڈے مزاج کے مالک ہیں۔ ان کا پارہ کیوں اتنا گرم ہو گیا؟“

صلاح الدین نے جواب دیا: ”تمہیں علم ہے اس دیگ پر سولہ سو ڈالر کی لاگت آتی ہے۔ ذرا سی غفلت سے جماعت کی اتنی قیمتی رقم ضائع ہو گئی۔ یہ تو براہِ راست اس چندے کا ضیاع ہے جو حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام نے جلسہ سالانہ کے لیے خود قائم فرمایا۔ اگر ہمیں یہ درد نہ ہو اور اس امانت کی قدر کرنے والے نہ ہوں تو خدا جانے کیا حساب ہو؟ امتیاز تو وہ شخص ہے جو سولہ سینٹ کی روٹی کا ضیاع بھی برداشت نہیں کرتا۔ وہ زمین سے ٹکڑے اٹھا اٹھا کر کھاتا ہے۔“

اور حقیقت بھی یہی ہے۔ مَیں خوف سے کانپ جاتا ہوں کہ نعوذ باللہ کہیں ہم مسیحِ پاکؑ کو عطا کیے ہوئے مائدے کی بے قدری اور ضیاع کرنے والے نہ بن جائیں۔ یہ ایک مقدس امانت ہے، جس کی حقِ ادائیگی کا تو کوئی دعویٰ نہیں کر سکتا۔ مگر مَیں اس خوف سے لرزتا رہتا ہوں کہ کہیں اس ذمہ داری کے کسی لمحے کا حساب نہ ہو جائے۔ اور شاید صلاح الدین اور مجھ میں یہی ایک قدر مشترک ہے جس نے ہماری بُعد المشرقین طبائع کے باوجود ہمیں ایک دوسرے کے اتنا قریب کر دیا۔ ہم میں اتنی مفاہمت، یگانگت اور محبت پیدا کر دی۔

پہلی حکم عدولی

ایک جلسہ کے موقع پر نئے افسرانِ بالا نے بہت اچھی اچھی تبدیلیاں کیں اور کارکنان کی سہولت اور دلجوئی کے سامان بھی کیے۔ مَیں سمجھتا ہوں انہوں نے یہ سب کچھ بڑے اخلاص سے دیانت داری پر مبنی حکمتِ عملی سے کیا۔ مگر بعض امور کی بے جا تکرار میری اپنی ”کم نظری“ یا ”شامتِ اعمال“ کے باعث مجھے کچھ بوجھل بوجھل سی دکھائی دینے لگی۔

ہم لنگر کے کارکنوں کے لیے دورانِ ڈیوٹی ناشتہ میکڈانلڈز (McDonalds) اور ڈنکن ڈونٹ (Dunkin Donuts) سے آنے لگا۔ ایک آدھ چرغہ نما لنچ بھی کسی ریستوران سے آیا۔ اور جب عین کام کے ازدحام (rush-peak time) میں ایک بڑے سے آراستہ (decorated) کیک کے گرد سب کو اکٹھا کر کے میری سینیارٹی کے پیش نظر کہا گیا کہ راجیکی صاحب کیک کاٹنے کا افتتاح کریں تو مَیں عاجزی اور احترام کے ساتھ فی الواقعی دونوں ہاتھ جوڑ کر معذرت کر کے ایک طرف ہٹ گیا۔ بعد میں مَیں نے ان سے پرائیویٹ ملاقات کا وقت لیا اور دوبارہ معافی مانگتے ہوئے عرض کیا:

”آپ نے مجھے کیک کاٹنے کا حکم دیا تھا اور مَیں نے شاید پہلی بار کسی افسر کی حکم عدولی کی ہے۔ مگر جس قسم کی صورت حال پیدا ہو گئی تھی وہ میرے جیسے کم فہم کے ادراک سے بالا تر تھی۔ دیکھیں، ہم لنگر مسیحِ موعودؑ کے کارکنان ہیں۔ ہماری ڈیوٹی آپؑ کے مہمانوں کے لیے کھانا تیار کرنا اور ان کی خدمت کرنا ہے۔ ہم کوئی اور کام نہیں کر رہے بلکہ انہی کی ضیافت کا اہتمام کر رہے ہیں۔ کم از کم مجھے تو یہ گوارا نہیں کہ وہ تو ناشتہ کیک رس، سادہ بیگل اور چائے کا کریں اور ہمارے لیے ہوٹلوں سے سینڈوچ اور کافی آئے۔ مسیحِ موعودؑ کے مہمان تو لنچ میں دال روٹی کھائیں اور ہم ان کے خادم ریستورانوں کے چرغے اور کیک اڑائیں۔“

مَیں نے مزید عرض کیا: ” مَیں بڑے شوق اور شکر گزاری سے آپ کی اس دعوت میں شامل ہوتا اگر یہ ہماری ڈیوٹی شروع ہونے سے پہلے یا ختم ہونے کے بعد ہوتی۔ اس قسم کا امتیازی سلوک ان ورکرز کے لیے بجا ہے جو باہر دھوپ میں سیکورٹی کی ڈیوٹی دے رہے ہوں یا MTA میں کام کر رہے ہوں جہاں سے وہ ایک منٹ کے لیے ہل نہیں سکتے۔ ان کے لیے اگر پیزا (pizza) وغیرہ منگوایا جاتا ہے تو جائز ہے۔ مگر ہم لوگ جن کا کام ہی کھانا پکانا ہے، ان کے لیے تو وہی ہونا چاہیے جو حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام کے دوسرے مہمانوں کے لیے ہے۔“

انتظامی تبدیلیاں-جانشینوں کی تلاش

دنیا میں لوگ اپنی روایت و میراث (legacy) قائم کرنے کے لیے اس تگ و دو میں لگے رہتے ہیں کہ کاش وہ کوئی ایسا کام کر جائیں جو کسی کے بس کا روگ نہ ہو اور کوئی ان سے آگے نہ بڑھ پائے۔ مگر الٰہی جماعتوں اور خدا تعالیٰ کے خالص بندوں کا یہی وتیرہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے مقلدین کو اس طرح تیار کریں کہ جس مقام اور رفتار پر انہوں نے کارواں چھوڑا ہے ان کے پیروکار اس سے زیادہ سرعت اور مستعدی سے اگلی منزلیں طے کرتے چلے جائیں۔ اسی سوچ کے پیش نظر جلسہ 2001 کے اختتام پر مَیں نے ڈاکٹر صلاح الدین سے کہا:

”اللہ تعالیٰ کے فضل سے لنگر کے کامیاب و کامران قیام کو آج دس سال گزر چکے ہیں۔ اب یہ ادارہ مضبوط بنیادوں پر استوار ہو چکا ہے۔ اب ہمیں اس بات پر توجہ دینی چاہیے کہ ہم ایسے نوجوانوں کو تیار کریں جو جانشینی کا حق ادا کریں اور امام الزمانؑ کے اس قافلے کو فتح و ظفر سے ہمکنار کر کے اگلی منزلوں کی طرف رواں دواں کرنے والے ثابت ہوں۔“

چنانچہ مَیں نے کچھ ناموں کی سفارش بھی کی۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اگلے چند سالوں میں ان میں سے کئی ایک نکھر کر سامنے آ گئے اور بڑی بڑی ذمہ داریاں سنبھالنے کے لیے تیار ہو گئے۔

حقیقت یہ ہے کہ جلسہ کی ڈیوٹیوں اور خاص طور پر لنگر کی آگ میں جھلسنے کا مزہ ہی ایسا ہے جو ایک بار اسے چکھ لیتا ہے وہ کہیں اور جانے کا نام نہیں لیتا۔ اس سفر میں ہمارا ساتھ دینے والے بچے جوان ہو گئے، جوان بوڑھے ہو گئے۔ مگر ایک بار جو ساتھ ہو لیا اس نے کبھی ساتھ نہ چھوڑا۔ وہ جلسہ کی ڈیوٹیوں کے لیے بلائے جائیں یا نہ، مسیحؑ کے یہ دیوانے پروانوں کی طرح لنگر میں اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ چاہے آگ برساتی دھوپ ہو یا تپتی دیگوں کی جھلس، کسی لب نے شکوہ کشائی کی نہ کسی خدمتگار نے میدان سے پیٹھ دکھائی۔

ایک اور سبق  

کچھ اسی پہلو کو پیش نظر رکھتے ہوئے بعض انتظامی مصلحتوں اور تجربوں کے تحت جلسہ کی اعلیٰ انتظامیہ نے تین سال قبل یہ فیصلہ کیا کہ لنگر کے نظم و نسق میں تبدیلی کی جائے اور کھانا پکانے کی ذمہ داری ایک دوسری نظامت اور ٹیم کے سپرد کی جائے۔ مجھے اور میرے بیٹے کو اس نو آموز ٹیم کے ساتھ حسبِ سابق ادنیٰ کارکنوں کی حیثیت سے کام کرنے کا موقع ملا۔ اس یکلخت تبدیلی سے کئی نئی دشواریوں اور دقتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ چنانچہ دو سال بعد پرانی انتظامیہ اور آزمودہ کار رضاکاروں کو دوبارہ خدمت کا موقع دیا گیا کہ شاید یہی ان کا بہترین حل ہے۔ نتیجۃً کچھ مسائل حل ہو گئے اور کچھ اور الجھ گئے۔

اس سے مَیں نے یہی سبق سیکھا کہ کسی بھی نظام یا کاروبار کی کامیابی کا سارے کا سارا دارومدار محض اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحم پر ہے۔ کسی بھی فرد یا ادارے کے آنے یا جانے سے خدا تعالیٰ کے کام رکتے ہیں نہ آگے بڑھتے ہیں۔ ہمیں افراد یا وسائل کے بت نہیں بنا لینے چاہییں۔

”البرکت للہ- العزت للہ- الرزق للہ- الحمد للہ“

جلسہ کے ایام میں لنگر کے کھانوں کے لیے بڑے اندازوں اور حسابوں کے ساتھ کھانا تیار کیا جاتا ہے اور حتی المقدور یہی کوشش ہوتی ہے کہ کھانا ضائع نہ ہو اور کم بھی نہ پڑے۔ مگر ہزاروں افراد کے لیے بنائے گئے کھانے میں بعض اوقات ان دیکھی ناگہانی صورت حال کا سامنا بھی کرنا پڑ جاتا ہے۔ اور کسی موقع پر کھانا کم پڑ جانے کی بھی شکایت ہو جاتی ہے۔ ہم نے حفظِ ما تقدم کے طور پر تیاری کر چھوڑی ہوتی ہے۔ عموماً دیگ میں پانی ابل رہا ہوتا ہے اور مسور کی دال بیس منٹ میں تیار ہو سکتی ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ یہ بتانا چاہتا ہے کہ صرف اس کی ذات ہی ہر عیب اور نقص سے پاک ہے۔ اس کے علاوہ ہر شے مجموعۂ اضداد اور خوبیوں خامیوں کا مرکب ہے۔ چاہے کتنی احتیاط اور تجربوں پر مبنی اندازے کر لیے جائیں کہیں نہ کہیں کمی بیشی رہ جاتی ہے۔

مَیں ہمیشہ کھانا تقسیم کرنے کی ڈیوٹی دینے والوں کو یہی نصیحت کرتا ہوں کہ اگر کہیں اس قسم کی صورت حال کا سامنا ہو تو کبھی یہ نہ کہو، ”کھانا ختم ہو گیا ہے۔“ اس سے بڑی بے برکتی ہوتی ہے۔ مسیحِ موعودؑ کے لنگر میں کھانا ختم ہو جائے، اس سے زیادہ دکھ اور شرم کی بات اور کوئی نہیں ہو سکتی۔ ایسی صورت حال کی پیش بینی اور اندازہ کر کے فوراً اطلاع دے دی جائے۔ پکانے والی ٹیم لازمی طور پر کچھ نہ کچھ بندوبست کر لے گی۔ اس نیت سے انسان عاجزی اور توکل کے ساتھ خدمت کرتا چلا جائے تو اللہ تعالیٰ غیر معمولی تائید و نصرت کے سامان پیدا فر ما دیتا ہے۔ لنگر جلسہ کی ڈیوٹی کے دوران میں مجھے بار ہا ایسے تجربات اور مشاہدات میں سے گزرنا پڑا۔

یہاں پر اللہ تعالیٰ کی غیر معمولی نصرت کا ایک واقعہ تحدیثِ نعمت کے طور پر بیان کرتا ہوں۔

جلسہ کے ایام میں اللہ تعالیٰ کا بے پناہ احسان ہے کہ دورانِ ڈیوٹی میں ہمارے افسر لنگر ڈاکٹر صلاح الدین سمیت چند مرکزی خدمت گزاروں کو تقریباً صبح چھ بجے سے رات گیارہ بجے تک فرصت نہیں ملتی اور کبھی بھی جلسہ گاہ جا کر پروگرام سننے کا موقع نہیں ملتا۔ مَیں ازراہِ تفنّن کہا کرتا ہوں، جلسہ سننے کے لیے ہمیں کینیڈا جانا پڑتا ہے۔ مگر میری ہمیشہ سے کامیاب کوشش رہی ہے (سوائے ایک جلسہ کے جب انتظامیہ کی تبدیلی کی وجہ سے مجھ پر اتنا زیادہ دباؤ پڑ گیا کہ مَیں اس معمول کو برقرار نہ رکھ سکا) کہ جلسہ کے آخری حصہ میں امیر صاحب کا اختتامی خطاب جلسہ گاہ جا کر سنوں اور اجتماعی دعا میں شامل ہوں۔ اس اہتمام کے لیے دس گیارہ بجے تک تمام دیگیں تیار کرا کے ٹرانسپورٹ ٹیم کے سپرد کر کے، صفائی اور چولہوں کو اکھیڑنے کا کام متعلقہ ٹیموں کو دے کر، موٹل میں نہا دھو کر سوٹ ٹائی پہن کر جلسہ گاہ پہنچ جاتا ہوں۔

ہیرسبرگ ایکسپو سنٹر میں 2012 کے جلسہ میں بھی اسی معمول کے مطابق آخری دعا اور ظہر عصر کی نمازوں کے بعد دوست احباب سے ملتا رہا؛ کیونکہ جلسہ کے تمام ایّام میں صرف یہی موقع ہوتا ہے جب اعزہ و احباء سے سلام دعا ہو سکے۔ اس دوران میں کھانا کھلانے کی سروس بھی جاری تھی۔ کچھ دیر کے بعد مَیں نے دیکھا کہ لائن کافی لمبی لگی ہوئی ہے۔ کوئی تین چار سو افراد ابھی تک مسجد کے اندر ضیافت ہال کے دروازوں تک انتظار کر رہے ہیں۔ مَیں نے کھانا کھلانے والی انتظامیہ سے پوچھا:

”کیا وجہ ہے، دیر کیوں ہو رہی ہے؟“

مجھے بتایا گیا کہ کھانا ختم ہو گیا ہے۔ جو تھوڑا بہت رہ گیا ہے اسے آہستہ آہستہ تقسیم کر رہے ہیں۔ مَیں نے انہیں تسلی دی کہ فکر نہیں کریں۔ ابھی کھانا آ جاتا ہے۔ کٹوریوں میں سالن کی مقدار ذرا کم کر دیں اور انہیں اگلی میزوں پر رکھتے جائیں۔ اور تھوڑی تھوڑی مدت کے بعد لائن کو روک کر وقفہ دیں۔

اب میرے پاس کوئی ذریعہ نہیں تھا کہ معلوم کروں کہ کُکنگ ایریا میں کیا صورت حال ہے؛ کیونکہ میرے خیال میں ہم نے سب کھانا سرونگ ایریا میں بھجوا دیا تھا، پیچھے کچھ نہیں بچا تھا۔ اور چولہے بھی سمیٹ دئیے گئے تھے۔ اب کیا اتنی مختصر مدت میں دال یا کوئی اور چیز تیار کی جا سکتی یا نہیں، کچھ نہیں کہا جا سکتا تھا۔ صلاح الدین وغیرہ اور دوسرے کُکنگ ایریا کے رضاکاروں کو لازماً اس کی اطلاع ہو گی اور وہ حتیٰ المقدور کوشش کر رہے ہوں گے۔

مدتوں پہلے اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں ایک دعا یا وِرد ڈال دیا تھا اور دعوتوں کی سروس کے وقت مَیں تسبیح و تحمید، استغفار، لاحول اور درود شریف کے ساتھ ساتھ یہ الفاظ دھراتا رہتا:

”البرکت للہ- العزت للہ- الرزق للہ- الحمد للہ“

اس وقت بھی مَیں تقسیمِ ضیافت کے مقام پر جہاں ورکرز کٹوریوں میں سالن ڈال رہے تھے، مسلسل ٹہل رہا تھا اور انہی دعاؤں کا ورد کرتا جاتا اور خاموشی سے دم کر کے ان بچی کھچی کٹوریوں کی طرف پھونکتا اور اپنے ربّ سے التجا کرتا جاتا کہ ”میرے خدا، یہ تو تیرے بندے اور مسیحِ موعودؑ کے مہمان ہیں۔ یہ تو نہیں جانتے کہ کھانا پکانے، کھلانے اور کھانے میں کیا کیا غفلتیں ہوئی ہیں۔ مگر اس وقت کھانا ان کی ضرورت ہے۔ ان کی حاجت پوری کرنے والا تیرے سوا کوئی نہیں۔“

مَیں جب بھی خیال کرتا کہ پیچھے جا کر پتا کروں، کیا صورتِ حال ہے؛ جیسے کوئی میرا دل پکڑ کر کہہ رہا ہو:

”تم نے یہاں سے ہلنا نہیں۔ یہاں سے ہٹے تو کھانا ختم ہو جائے گا۔“

مَیں اسی طرح مسلسل ٹہلتا رہا اور بغیر کسی پر ظاہر کیے دعا کرتا اور دم کر کے پھونکتا رہا۔ ابھی چند آخری کٹوریاں رہ گئیں تھیں جن کی طرف مہمان بڑھ رہے تھے کہ اچانک شور ہوا اور ٹرانسپورٹ کی وین آدھی دیگ سالن کی لے کر پہنچ گئی۔ یہ وہ دیگ تھی جو رات بچ جانے کی وجہ سے فریزر میں رکھوا دی گئی تھی کہ جلسہ کے بعد مسجد ”بیت الرحمٰن“ بھجوا دی جائے گی۔ سرونگ ٹیم کے کارکنوں نے چند منٹوں میں کٹوریوں کی لائن میزوں پر سجا دی۔ جب مجھے اطمینان ہو گیا کہ یہ کھانا خاصی بڑی تعداد کے لیے بغیر کسی دشواری کے کافی ہو جائے گا تو مَیں بھاگم بھاگ کُکنگ ایریا پہنچا۔ اتنے میں اطلاع ملی کہ لجنہ کی طرف سے ایک چوتھائی دیگ جو وہاں کی ضرورت سے زائد تھی آ رہی ہے۔ اُس وقت ہر طرف رخصت ہونے والے احباب کی ریل پیل تھی اور وین کے راستے مسدود ہو چکے تھے۔ صلاح الدین نے مجھے کہا: ”تم خود لے کر جاؤ۔“ چنانچہ مَیں نے ایک خادم ڈرائیور کے ساتھ اسے ”گو کارٹ“ میں رکھا اور منہ سے ہارن بجاتے اور شور مچاتے، راستہ بناتے تقسیمِ ضیافت ہال میں پہنچ گیا۔ اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا کہ اس نے ہماری غفلتوں اور خطاؤں پر پردہ ڈالتے ہوئے اپنے فضل اور احسان سے تمام مہمانوں کو سیر کر دیا۔

زندگی کی سب سے لذیذ اور عزیز ضیافت

کبھی کبھی مَیں سوچتا ہوں کہ انسانی زندگی میں بہت سے معاملات اس طرح رونما ہوتے چلے جاتے ہیں جو انسان کی اپنی طلب، کاوش یا منصوبہ بندی کے مطابق نہیں ہوتے۔ اس کی کسی اکتسابی جدوجہد کا نتیجہ نہیں ہوتے۔ ایک طرح سے حادثاتی اور وارداتی عمل دکھائی دیتے ہیں بلکہ اس سے بھی بڑھ کر کسی ماورائی تصرف کے آئینہ دار ہوتے ہیں۔ ایسے معاملات میں وہ انجانے میں ملوث ہوئے چلا جاتا ہے، کسی ان دیکھے بہاؤ میں بہے چلا جاتا ہے ــــــــــ کسی منزل، کسی مقصد، کسی ہدف کے بغیر ہی ــــــــــ اس کائنات کے لیے شاید یہی اس مالکِ کون و مکاں کا ارادہ و خاکہ ہے۔ شاید وہ اسی ادراک بالصراحت کا قیام چاہتا ہے کہ ہر شے کلیۃً اسی کے قبضۂ قدرت اور اختیار میں ہے۔ وہ جب چاہے، جدھر چاہے رخ موڑ دے۔ اس قادر کی حکمتیں اور مصالح ٹوٹے کام بنا دیں یا بنے بنائے توڑ دیں کوئی اس کے بھیدوں کو سمجھ نہیں سکتا۔

امریکہ کے نظامِ ضیافت میں شامل ہونا اور لنگر مسیحِ موعودؑ کی برکات و فیوض سے حصہ پانا میری کسی طلب، تمنا یا کوشش کا ثمر نہیں۔ میرے تو وہم و گمان کے کسی گوشے میں بھی نہیں تھا کہ مَیں کبھی اس سعادت سے بہرہ مند ہو سکوں گا۔ اور ان نعماء و انوار کا وارث بنوں گا جن کی بشارتیں حضرت اقدس علیہ السلام نے اپنے اس مقدس ادارے سے وابستہ خداموں کو دی ہیں۔ مگر اب مَیں سوچتا ہوں کہ خدا تعالیٰ مجھے کھینچ کر اس میدان میں لے آیا جس میں عاجزی و انکساری اور تواضع و بردباری کے کیسے کیسے گوہر پنہاں تھے۔ اور اس میں خود میری اپنی تربیت اور اصلاح کے کیسے کیسے راز مضمر تھے۔ اور آج جو مجھے اس کے فضلوں اور انعاموں کی سپاس گزاری اور تحدیثِ نعمت کے طور پر چند سطریں لکھنے کا موقع مل رہا ہے تو یہ بھی اس کے احسانوں سے مرصع تقدیر کا ہی حصہ ہے۔ اس سلسلے میں ایک آخری واقعہ پیشِ خدمت ہے۔

2014 کے جلسہ کے اختتام پر شام کے وقت ہمیں مسجد ”بیت الرحمٰن“ میں ایک شادی میں شرکت کرنے کے لیے جانا پڑا۔ وہاں پر جماعت کے ایک بڑے عہدیدار نے جلسہ کے کھانے کے معیار اور مقدار (quality & quantity) پر ازراہِ خفگی تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ کھانا کم بھی پڑ گیا اور معیار سے گرا ہوا بھی تھا۔ مَیں پانچ دن کی تھکن اور جلسہ کی ڈیوٹیوں کی ذمہ داری سے فارغ ہو کر بڑا تروتازہ اور اچھے موڈ میں تھا۔ مَیں نے عرض کیا:

”آپ کہتے ہیں، کھانا کم پڑ گیا تھا۔ مَیں کہتا ہوں پورا ہو گیا تھا۔ کیونکہ مَیں سب سے آخری فرد کھانے کی میز سے اٹھا تھا، اور مَیں نے زندگی میں اس سے زیادہ لطف اندوز ہو کر اور سیر ہو کر کبھی نہیں کھایا۔“

ہوا یہ کہ میرا بچپن کا نہایت عزیز بے تکلف دوست، ہم جماعت اور زندگی کے ہر دکھ سکھ میں شریک محسن ساتھی کینیڈا سے اپنے بیٹے سمیت جلسہ پر آیا ہوا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اسے دینی و دنیاوی وجاہت و مرتبت کے ساتھ ساتھ بے پناہ عاجزی و انکساری سے نوازا ہے۔ اور خدمتِ دین کے بے شمار مواقع بھی عطا فرمائے ہیں۔ جلسہ کے اختتام پر ہی مجھے موقع مل پاتا تھا کہ دوست احباب سے ملاقات ہو سکے۔ چنانچہ آج بھی جلسہ کی اختتامی دعا سے فارغ ہو کر ہم دوسرے دوستوں کے ساتھ کھانے کے ہال کی طرف بڑھے، مگر جس طرف سے گزرتے کوئی عزیز، کوئی دوست، کوئی محبت کرنے والا مل جاتا ــــــــــ ان محبت کے رشتوں کے لیے ہی تو حضرت اقدس مسیحِ موعود علیہ السلام نے جلسہ کو قائم فرمایا تھا۔ جب سب احباب سے مل چکے تو مَیں نے اپنے عزیز دوست سے کہا: ”چلو آؤ، اب کچھ کھا بھی لیں۔“

کھانے کی میزیں اُس وقت تک صاف ہو چکی تھیں۔ تقسیمِ ضیافت کے کارکنان چیزیں سمیٹ رہے تھے اور چند ایک حاضرین مقدس لنگر کے آخری نوالوں سے برکت حاصل کر رہے تھے۔ تھوڑی سی لائن چائے کے سٹال پر لگی ہوئی تھی۔ ہم تینوں نے چائے کا ایک ایک کپ لیا اور ایک میز پر بیٹھ گئے۔ ایک جگہ ایک پوری روٹی اور چند ایک آدھے آدھے ٹکڑے ملے۔ انہیں چائے میں ڈبو کر کھانا شروع کیا تو ایک کٹوری میں اچار کی چند ڈلیاں دکھائی دیں۔ اس سے زیادہ کس شے کی طلب اور تمنا ہو سکتی تھی کہ میز کے دوسرے کونے پر نظر پڑی تو ایک پلیٹ میں تھوڑے سے سالن کی مقدار تھی جو کسی نے آدھی کھا کر چھوڑ دی تھی اور ابھی صفائی کرنے والوں کی نذر نہیں ہوئی تھی۔ اس سے زیادہ نعمتِ غیر مترقّبہ اور کیا ہو سکتی تھی۔ ہم تینوں دیر تک بیٹھے باتیں کرتے اور زمین پر گرے اور میزوں کے کونوں کھدروں پر پڑے روٹی کے ٹکڑے اکٹھا کرتے اور چائے میں ڈبو ڈبو کر کھاتے رہے۔ اُس وقت میرا دل اللہ تعالیٰ کی حمد سے جس طرح لبریز تھا اسے بیان کرنے کی تاب نہیں۔ بار بار آقائے دو جہاں ﷺ کے طعامِ فتح (victory feast) کی یاد آ رہی تھی جب شہنشاہِ دو عالم تاریخِ انسانیت کی سب سے بڑی فتح کے بعد، جس نے عرب سے شرک جیسے گناہِ عظیم کا قلع قمع کر دیا اور توحید کے قیام کے لیے انسانوں کی کایا پلٹ دی، حضرت اُمّ ہانی رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ہاں سوکھی روٹی سرکے میں بھگو بھگو کر کھا رہے تھے اور حمد سے آپ کا رواں رواں سجدہ ریز تھا۔ آج میرا انگ انگ بھی خدا تعالیٰ کے حضور شکر سے لبریز تھا کہ مَیں نے اپنے سب سے زیادہ عزیز اور معزز دوست کی ضیافت مسیحِ موعودؑ کے مہمانوں کے چھوڑے ہوئے بچے کھچے ٹکڑوں اور جوٹھے کٹوروں میں موجود سالن سے کی۔

میرے دوست کا ناز و نعم میں پلا بڑھا میڈیکل کالج کا طالبعلم بیٹا بھی اسی ذوق شوق سے ہماری اس دعوت میں شامل تھا۔ ایک بار بھی اس نے شکایت کی نہ خواہش کی کہ یہاں کھانا نہیں ہے، کہیں باہر چل کر کھا لیتے ہیں۔ بلکہ بعد میں جب ہم ”بیت الرحمٰن“ میں ملے تو کہنے لگا:

”کھانے کا جو لطف آج آیا ہے وہ کبھی نہ بھولے گا۔“

اب دنیا کے کون سے پیمانے ان لذتوں اور برکتوں کا احاطہ کر سکتے ہیں جو مسیحِ پاکؑ کے دستر خوان کے پس خوردہ ٹکڑوں میں ہیں۔

یہ کوئی قصے کہانیوں کی باتیں نہیں۔ قیاسی افسانے یا خیال آرائیاں نہیں۔ پچھلے پچیس سال سے ہم لنگر میں کام کرنے والے تمام خدمت گزار اکثر ایک ہی پلیٹ میں کھا لیتے ہیں۔ ایک ہی گلاس میں پانی پی لیتے ہیں۔ سوائے کھانا پکاتے ہوئے چکھنے کی نیت سے مَیں نے شاید ہی کبھی تازہ سالن لیا ہو یا پوری نئی روٹی توڑ کر کھائی ہو۔ مَیں اس خوف سے کہ حضرت مسیحِ موعودؑ کو عطا کیے ہوئے اللہ تعالیٰ کے اس متبرک مائدے کی بے قدری نہ ہو، زمین پر گرے پڑے ”ادھ پچدھ“ روٹی کے ٹکڑے اور کسی کی چھوڑی ہوئی جوٹھی کٹوری سے پیٹ بھرنے میں ہی اپنا سب سے بڑا فخر اور اعزاز سمجھتا ہوں۔

خدا تعالیٰ کی شان ہے، آج تک ہم میں سے ایک بھی اس بنا پر بیمار نہیں ہوا، کوئی انفیکشن نہیں ہوئی، کوئی وائرس نہیں پھیلا ــــــــــ سبحان اللہ، یہ حضرت اقدسؑ کو عطا کی ہوئی قوتِ قدسیہ اور شانِ مسیحائی کا کرشمہ نہیں تو اور کیا ہے؟

کارواں کامران است

آج سے ربع صدی قبل خدا تعالیٰ نے اپنے عاجز بندوں کی بے مایہ کاوشوں کو قبولیت عطا فر ما کر امریکہ کے گلستانِ احمدیت میں آقائے پاک سیّدنا حضرت اقدس مسیحِ موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے قائم فرمودہ درخشاں ادارے ”لنگر مسیحِ موعودؑ“ کا بیج بویا اور اپنے کمزور و ناتواں بندوں کو توفیق دی کہ وہ اپنا تن من دھن نچھاور کر کے اور خون پسینہ ایک کر کے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرتے ہوئے اسے ایک مضبوط درخت میں ڈھلتے ہوئے دیکھیں۔ آج جب اس نے ان کی عاجزانہ محنتوں کا پھل ایک مضبوط و توانا سدا بہار شجرِ تناور کی صورت میں عطا کیا تو وہ سب بھول گئے کہ اس کٹھن سفر میں انہیں کتنی مہیب گھاٹیوں کی دشت سیاحی کرنی پڑی، کیسی کیسی چلچلاتی دھوپوں کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ کن کن آگوں میں جل کر کندن ہوئے۔ اس رستے میں انہیں کتنے کانٹے چبھے، کیسے کیسے گھاؤ لگے اور کن کن زخموں پر نمک پاشی ہوئی۔

اللہ تعالیٰ نے مسیحِ پاکؑ کے ذریعے جس پودے کی آبیاری کی اسے تو پھولنا پھلنا ہی ہے۔ عشق و وفا کے جن کھیتوں کو خون سے سینچا گیا انہیں تو پنپنا ہی پنپنا ہے۔ آپؑ نے جس کارواں کی باگ ڈور سنبھالی اسے تو آگے بڑھنا ہی بڑھنا ہے۔ یہ ہمارا سرمایۂ شکر و افتخار ہے اگر وہ اس وجودِ پاک علیہ السلام کے ساتھ ہماری عاجزانہ راہیں اور کاوشیں بھی قبول فر ما لے۔ اور اطاعت و فرماں برداری کی وہ دیوانگی عطا فرمائے جس پر فرزانے بھی رشک کر اٹھیں۔

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کیا خوب فرمایا ہے۔ ؎

”عاقل کا یہاں پر کام نہیں وہ لاکھوں بھی بے فائدہ ہیں       مقصود مرا پورا ہو اگر مل جائیں مجھے دیوانے دو“

ــــــــــ یہ سوچ کر شکر اور حمد سے لبریز دل اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ ریز ہو جاتا ہے کہ اس کا فضل و کرم ہو تو دو دیوانوں کے خواب بھی شرمندۂ تعبیر ہو سکتے ہیں۔ فالحمد للہ علیٰ ذالک۔