انگریز کا شیطانی نظام، تبلیغی ادارہ کے اجزاء کی تحلیل: مولانا ظفر علی خان کے حقّہ کے دھوئیں میں!

مولانا دوست محمد شاہد، مؤرخ احمدیت

انگریز کا شیطانی نظام

تحریک منہاج القرآن کے بانی و سرپرست اعلیٰ پروفیسر ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کا تازہ بیان:

’’ ہم اس وقت تاریخ کے نازک ترین موڑ سے گزر رہے ہیں ۔ اسلام کے نام پر حاصل کئے گئے ملک پر ۵۰ سال سے غیر فطری ، غیرانسانی اور انگریز کا شیطانی نظام مسلط ہے۔ یہ نظام سراسر اسلام اور قرآنی تعلیمات سے متصادم اور لادینیت پر استوار ہے جس کے باعث میں فحاشی و عریانی لاقانونیت اور بے راہروی کو فروغ مل رہاہے۔ یہودی فکر پروان چڑھ رہی ہے اور الیکٹرانک میڈیا ثقافت کی معیشت کو تحفظ دے کر مسلمانوں کو اقتصادی اور سیاسی غلامی سے دوچار کردینے کے عالمی یہودی منصوبے نیوورلڈ آرڈر کی تکمیل میں مددگار ثابت ہو رہے ہیں‘‘۔(روزنامہ صداقت ۱۲؍ ستمبر ۱۹۹۷ء صفحہ ۷)

جناب طاہر القادری صاحب میں اگر ایمانی جرأت ہوتی تو وہ اپنے بیان میں یہ وضاحت بھی ضرور فرما دیتے کہ ملک کے اقطاب ، غوث اور ابدال نے نہیں بلکہ اسی رسوائے عالم شیطانی نظام نے جماعت احمدیہ کو غیرمسلم قرار دیا ہے ۔؂

دنیا میں آج حامل قرآن کون ہے

گرہم نہیں تو اور مسلمان کون ہے


تبلیغی ادارہ کے اجزاء کی تحلیل ۔ مولانا ظفر علی خان کے حقّہ کے دھوئیں میں!

’’ظفرالملک والدین‘‘ مدیر زمیندار مولانا ظفر علی خان کی ہنگامہ پرور زندگی کا ایک دلچسپ واقعہ برصغیرپاک و ہند کے نامورادیب و صحافی جناب چراغ حسن حسرت کے قلم سے:

’’ایک دن زمیندار کے دفتر میں کسی نے کہا کہ چین، جاپان ، جرمنی اور فرانس کے لوگ مسلمان ہونے پر آمادہ ہیں لیکن انہیں تبلیغ کون کرے؟ اس پر مولوی ظفر علی خان صاحب نے فرمایا ’’ بات تو آپ نے ٹھیک کہی۔ اچھا سالک صاحب اس مسئلہ پر سنجیدگی سے غور کیجئے۔ کہ اگر ہم ایک تبلیغی ادارہ کھول لیں تو کیسا ہے ۔ ذرامہر صاحب کو بھی بلوائیے۔ آ گئے مہر صاحب! ہاں تو میں کہہ رہاتھا کہ اگر یہاں لاہور میں ایک مرکزی تبلیغی ادارہ کھول لیا جائے اوراس کی شاخیں ساری دنیا میں پھیلا دی جائیں توکیا حرج ہے؟ کوئی دس لاکھ روپیہ خرچ ہوگا۔ ہندوستان میں مسلمانوں کی آبادی کتنی ہے۔ سات کروڑ نہیں آٹھ کروڑ کے لگ بھگ ہوگی اگر ہر مسلمان سے ایک ایک پیسہ وصول کیاجائے تو کتنے روپے ہوئے؟ ریاضی کا سوال تھا کسی سے حل نہ ہوا۔ سب ایک دوسرے کامنہ دیکھنے لگے۔ اتنے میں مولانا نے کہا، آٹھ کروڑ پیسے ہوتے ہیں نا۔ آٹھ کروڑ کو ۶۴ پر تقسیم کیجئے ساڑھے بارہ لاکھ روپے ہوئے ۔ چلئے دس لاکھ ہی سہی۔ دس لاکھ بہت ہے یہ مرحلہ تو طے ہو گیا۔ اب سوال یہ ہے کہ تبلیغ کا کام کن لوگوں کے سپرد کیا جائے لیکن مبلغ بھی چوٹی کے آدمی ہوں۔ مثلاً مولانا ابوالکلام آزاد فرانس جرمنی وغیرہ میں تبلیغ کریں او رڈاکٹر اقبال کو چین بھیج دیا جائے۔ سالک صاحب اورمہر صاحب مل کے اخبار سنبھالئیے میں تو اب تبلیغ اسلام کا کام کروں گا۔ کچھ دیر تو دفتر بھر میں سناٹا رہا۔ آخر ایک صاحب نے جی کڑاکر کے کہا کہ مولانا اس میں کوئی شک نہیں کہ تجویز بہت خوب ہے لیکن روپیہ جمع کیسے ہوگا؟ آخر مسلمانو ں سے دس لاکھ روپیہ جمع کرنے کے لئے ایک لاکھ روپیہ چاہئے۔ آپ کہیں سے ایک لاکھ روپے کا انتظام کر دیجئے۔ باقی کام ہم سنبھال لیں گے۔ مولانا نے فرمایا ہاں بھئی یہی تو مشکل ہے ۔ یہ کہہ کر منہ پھیر کر حُقّہ کی نَے سنبھالی ۔ انگوٹھا انگشت شہادت پر نیم دائرہ بناتا ہوا گھومنے لگا۔ اوراس تبلیغی ادارہ کے اجزاء حقہ کے دھوئیں کے ساتھ فضا میں تحلیل ہو کے رہ گئے‘‘(مردم دیدہ صفحہ ۱۵۴ تا ۱۵۶ از چراغ حسن حسرت کاشمیری، دارالاشاعت پنجاب لاہور۔ ۱۹۳۹ء) ۔ ؂

ہے اکیلا کفر سے زور آزما

احمدی کی روح ایمانی تو دیکھ

(مطبوعہ :الفضل انٹرنیشنل۱۶؍جنوری ۱۹۹۸ء تا۲۲؍جنوری۱۹۹۸ء)