اہم امور میں مشاورت سے متعلق اُسوہء رسول صلی اللہ علیہ وسلم

محمد طاہر ندیم

قرآن کریم میں خدا تعالیٰ آنحضرت ﷺ کو مخاطب کر کے فرماتاہے :

(فَبِمَا رَحْمَۃٍ مّنَ اللّٰہ لِنْتَ لَہُم وَلَو کُنْتَ فَظّا غَلِیْظَ القَلْبِ لاَ نْفَظّوا مِنْ حَولک فَاعفُ عَنْہُم وَاسْتَغْفِر لَہُم وَشَاوِرْھُمْ فِی الأمْرِ ۔ فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَکٖلْ عَلَی اللّٰہ۔ اِنٖ اللّٰہَ یُحِبّ الْمُتَوَکّلِیْنَ) (آل عمران:۱۶۰)

اور تو اس عظیم الشان رحمت کی وجہ سے (ہی) جو اللہ کی طرف سے (تجھے دی گئی) ہے۔ ان کے لئے نرم واقع ہواہے اوراگرتو بداخلاق ہوتا اور سخت دل ہوتا تو یہ لوگ تیرے گرد سے تتّر بتّر ہوجاتے ۔ پس تو انہیں معاف کردے اوران کے لئے (خدا سے) بخشش مانگ اور (ہر) اہم معاملہ میں ان سے مشور ہ (لیا ) کر ۔ پھر جب تو (کسی بات کا) پختہ ارادہ کر لے تو اللہ پر توکل کر ۔ اللہ توکل کرنے والوں سے یقیناًمحبت کرتاہے۔

سیرت نبوی ؐ کے مطالعہ سے پتہ چلتاہے کہ آنحضرت ﷺ حکم الٰہی ’’وَشَاوِرْھُمْ فِی الأمْر‘‘ کی تعمیل میں ہمیشہ صحابہ کرام سے اہم امور میں مشورہ طلب فرمایا کرتے تھے۔ کئی دفعہ ایسابھی ہوا کہ بعض صحابہ نے بعض امور میں اجتماعی فائدہ کے پیش نظر از خود بھی آنحضرت ﷺ کی خدمت میں اپنی رائے کو پیش کیا اور اس کے درست ہونے کی بنا

پر آنحضرتﷺنے اس کوقبول فرمایا یہ بھی ’’وَشَاوِرْھُمْ‘‘ ہی کی ایک صورت ہے ۔آئیے اب سیرت نبوی سے اس خلق عظیم کے چند نمونے ملاحظہ کرتے ہیں۔

جنگ بدر کے موقعہ پر جب آنحضرت ﷺ کو قریش مکہ کے مسلمانوں کی طرف جنگ کی نیت سے نکلنے کی خبر ملی تو آپ ؐ نے صحابہ سے اس سلسلہ میں مشورہ طلب فرمایا ۔ مہاجرین نے اس موقعہ پر بہت اچھی بات کی اور ان میں سے حضرت مقداد بن عمرو ؓ نے کہا : اے رسول خدا، آپ وہی کریں جس کا خدا نے آ پ کو حکم دیاہے ، ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ خدا کی قسم ہم آ پ سے ویسا سلوک ہرگز نہیں کریں گے جیسابنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کیا تھا ۔ جب انہوں نے کہا کہ جا تو اورتیرارب جاکر لڑتے پھرو ہم تو یہاں سے نہیں ہلنے والے۔ ہم آپ کے دائیں بھی لڑیں گے اور آپ کے بائیں بھی لڑیں گے اور آپ کے پیچھے بھی لڑیں گے اور آپ کے آگے بھی لڑیں گے اور دشمن آپ تک نہیں پہنچ سکتا جب تک کہ وہ ہماری لاشوں کو نہ روند لے‘‘۔ اس پرجوش تقریر پر آپ ؐ بہت خوش ہوئے اور حضرت مقداد کو دعا دی ۔

اس کے بعد آ پؐ نے دوبارہ اپنا وہی جملہ دہرایا کہ اے لوگو! مجھے مشورہ دو۔ درحقیقت آپؐ انصار کی رائے لینا چاہتے تھے۔ چنانچہ حضرت سعد بن معاذؓ بولے : ’’یا رسول اللہ ہم آپ پر ایمان لائے ہیں اور آپ کے برحق ہونے کی تصدیق کی ہے ۔ ہم اس بات کے گواہ ہیں کہ جو تعلیم آپ لے کر آئے ہیں وہ سچی تعلیم ہے اور اس پر کاربند رہنے اور آ پؐ کی اطاعت کرنے پر ہم نے آپؐ سے عہدوپیمان کئے ہوئے ہیں۔ اس لئے آپ ؐ جو کرنا چاہتے ہیں کریں ہمیشہ آ پؐ ہمیں اپنے ساتھ پائیں گے۔مجھے اس ذات کی قسم ہے جس نے آپ ؐ کو حق کے ساتھ بھیجاہے کہ اگر آپ ہمیں اپنے ساتھ اس سمندر میں بھی کودنے کوکہیں گے تو ہم میں سے ایک بھی ایسا نہیں ہوگا جو سمند ر کی لہروں کا سینہ چیر کر آپؐ کے ساتھ نہ ہولے۔ اے رسول خدا! آپ کا ہمیں دشمن کے سامنے لاکھڑا کرنا ہمیں ہرگز ناگوار نہیں گزرا۔ ہم توجنگوں میں ڈٹ کر مقابلہ کرنے والی قوم ہیں۔ اور شاید اب وہ وقت بہت قریب ہے جبکہ خدا تعالیٰ آپؐ کو ہماری طرف سے فدائیت کے وہ نظارے دکھلا دے گا جس سے آپ ؐکی آنکھیں ٹھنڈی ہو جائیں گی‘‘۔ حضرت سعدؓ کی اس پرایمان اور پرجوش تقریر کو سن کر حضورؐ بہت خوش ہوئے۔

(السیرۃ النبویۃ لابن ہشام۔ الجزء الثانی صفحہ ۲۶۶،۲۶۷۔ دارالقلم بیروت ۔ الطبعہ الاولیٰ ۱۹۸۰ء اور تاریخ الطبری لابی جعفر الطبری الجزء الثانی صفحہ ۴۳۴ دارسویدان بیروت طبعہ ۱۹۷۰؁ء)

*۔۔۔*۔۔۔*

جنگ بدر میں ہی جب کفار مکہ نے بدر کی وادی کے عدوۂ قصوی پر ڈیرہ ڈالا تو آنحضرتﷺ نے صحابہ کے ساتھ ماءِ بدرکے قریب پڑاؤفرمایا۔ اس موقعہ پر حضرت حباب بن المنذرؓ آنحضرت ﷺ کے پاس آئے اور پوچھا ، یا رسول اللہ کیااس مقام پر قیام کرنے کاحکم خدا نے آ پ کو دیاہے کیونکہ اگر ایساہے تو پھر اس جگہ سے ادھر ادھر نہیں ہو سکتے یا کہ پھر یہ آپ کی رائے ہے اور جنگی حربہ ہے۔ آپؐ نے فرمایا بلکہ یہ رائے ہے اور جنگی حربہ ہے۔ اس پر حبابؐ نے کہا کہ اگر ایسی بات ہے تو پھر یہ جگہ ہمارے ٹھہرنے کی نہیں ہے بلکہ میرا مشورہ یہ ہے کہ ہمیں پانی کے اس کنارے پر پڑاؤ کرنا چاہئے جو کفار کے نزدیک ہے۔ اس طرح ہم پیچھے کی جانب زمین کھود کر حوض بنالیں گے اور پانی اس میں سٹور کر لیں گے ۔ یوں جنگ کے دوران ہم تو پانی پی سکیں گے جبکہ وہ اس سے محروم رہیں گے ۔ آنحضرت ﷺکو یہ مشورہ بہت پسند آیا چنانچہ آپ اٹھے اور وہی جگہ قیام کے لئے اختیار فرمائی جس کی طرف حبابؓ نے اشارہ کیا تھا۔ اور فرمایا اے حبا بؓ تمہاری رائے واقعی بہت اچھی ہے ۔

(السیرۃ النبویۃ لابن ہشام۔ الجزء الثانی صفحہ ۲۷۲۔ دارالقلم بیروت ۔ الطبعۃ الاولیٰ ۱۹۸۰ء۔ ۔ الطبقات الکبریٰ لابن سعد الجزء الثانی صفحہ ۱۱ دارالکتب العلمیہ الطبعۃ الاولیٰ ۱۹۹۰؁ء)

*۔۔۔*۔۔۔*

جنگ بدر میں اسلحہ سے لیس کفار کے حشد کبیر کے مقابلہ میں مٹھی بھر مسلمانوں اور قلت سامان حرب کے باوجود اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کی دعاؤں کوقبول فرماتے ہوئے مسلمانوں کو فتح و نصرت سے ہمکنار فرمایا۔ اس غزوہ میں جہاں مشرکین کے بڑے بڑے سردار مارے گئے وہاں ان کی ایک بڑی تعداد قیدیوں کی صورت میں مسلمانوں کے قبضہ میں آ گئی۔ اب ان قیدیوں کے ساتھ کیاسلوک کیا جائے ؟ اس معاملہ میں حضور ﷺ نے ایک دفعہ پھر صحابہ سے مشورہ طلب فرمایا ۔ اس کے جواب میں حضرت ابوبکر صدیقؓ کا مشورہ تھا کہ ان قیدیوں کے ورثاء سے فدیہ لے کر ان کی جان بخشی کر دی جائے۔ یوں جہاں فدیہ کے مال سے دشمن کے مقابلہ میں مسلمانوں کی قوت میں مزید اضافہ ہوگاوہاں یہ بھی امید ہوگی کہ ان رہا شدہ قیدیوں کو شاید اللہ تعالیٰ ہدایت دے دے اور یہ اسلام قبول کرلیں۔ جبکہ حضرت عمرؓ نے کہا کہ ان لوگوں نے خدا کے رسول کو تکلیف پہنچائی ہے اور یہ سب آئمۃالکفر ہیں لہذا ان کا قتل کرنا ہی بہترہے۔

آنحضرت ﷺ نے دونوں مشورے سنے اور رحمت کا پہلو اختیار کرتے ہوئے حضرت ابوبکرؓ کی رائے کے مطابق فیصلہ صادر فرمایا۔

(صحیح مسلم کتاب الجہاد والسیر باب امداد الملائکۃ فی غزوۃ بدر و اباحۃ الغنائم حدیث نمبر ۱۷۶۳ ۔ اور تاریخ طبری الجزء الثانی صفحہ ۴۷۴،۴۷۵ دارسویدان بیروت طبعۃ ۱۹۷۰)

*۔۔۔*۔۔۔*

جنگ احد کا وقت آیا تو آنحضرت ﷺ نے ایک مرتبہ پھر صحابہ سے فرمایا کہ مجھے مشورہ دیں کہ کیاکریں؟ آیا ہم مدینہ سے باہر نکل کر دشمن کا سامناکریں یا پھرمدینہ میں ہی رہیں اور اگر دشمن اس میں داخل ہو نے کی کوشش کرے تو اس کا مقابلہ کریں۔ اس سلسلہ میں اکثر بزرگ صحابہ نے یہی مشورہ دیا کہ مدینہ سے باہر نہ نکلاجائے ۔ جبکہ صحابہ کی ایک بڑی تعداد نے جو کہ جنگ بدر میں شمولیت کی سعادت سے محروم رہ گئے تھے ، مدینہ چھوڑنے اور باہر نکل کر دشمن سے لڑنے کا مشورہ دیا۔ اور کہاکہ یا رسول اللہ آپ ہمیں لے کر دشمن کی طرف نکلیں تاکہ وہ یہ نہ سمجھے کہ ہم بزدل اورکمزور ہیں۔ آنحضرت ﷺ بذات خود مدینہ میں رہ کر دفاع کرنے والی رائے کے حق میں تھے ۔ لیکن مدینہ سے نکلنے والی رائے کے حامی صحابہ کے مسلسل اصرار کرنے پر آپؐ نے اسے قبول فرمالیا۔ چنانچہ اپنے گھر تشریف لے گئے ،ذرع پہنی ، اپنا اسلحہ اٹھایا اور نکلنے کے لئے تیار ہو گئے۔ دوسری طرف مدینہ سے نکلنے پراصرار کرنے والے صحابہ کو شاید اپنی غلطی کا احساس ہوا لہذا جب آپ ؐ باہر تشریف لائے تو انہوں نے عرض کیا یار سول اللہ شاید ہم نے بے جا اپنی رائے کا اظہار کیا ہے۔ اس لئے اب اگر آپ پسند فرمائیں تو بے شک مدینہ میں ہی رہیں اور ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ یہاں پر ’’فاذَا عَزَمْتَ فَتَوَکٖلْ عَلَی اللّٰہ‘‘ کاعظیم الشان نظارہ دیکھنے میں آیا ۔ جبکہ آپ ؐ نے فرمایا :’’کسی نبی کے لئے جائز نہیں کہ اگر اس نے جنگ کی غرض سے اپنی ذرع پہن لی ہو تو پھر جنگ کئے بغیر اس کو اتار دے‘‘۔

(السیرۃ النبویۃ لابن ہشام۔ الجزء الثالث صفحہ ۶۷،۶۸ ۔ اور مسند احمد بن حنبل الجزء الثالث صفحہ ۳۵۱ المکتب الاسلامی ۔ الطبعہ الخامسہ ۱۹۸۵ء)

*۔۔۔*۔۔۔*

جنگ خندق کے موقع پر جب آنحضرت ﷺ کوقریش مکہ اور دیگر احزا ب و قبائل مشرکین کے مسلمانوں کی طرف خروج کی خبرملی تو آپ ؐ نے صحابہ کو جمع کیا اور انہیں دشمن کے عزائم کے بارہ میں آگاہ کر کے مشورہ طلب فرمایا تاکہ ان کے سدباب کے لئے کوئی حکمت عملی اختیار کی جا سکے۔ اس کے جواب میں صحابہ کرا م کی طرف سے کئی آراء پیش کی گئیں جن میں سے ایک رائے حضرت سلمان فارسیؓ کی تھی۔ آپ ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ اگرہمارے ملک میں ایسی صورت حال پیدا ہو جاتی تو ہم دشمن سے بچاؤ کی خاطر شہر کے گرد خندق کھود دیتے اور خود اندر رہ کر اپنادفاع کرتے ۔ یہ بات آنحضرت ﷺ کو بہت پسند آئی اورا س پرہی عمل کرکے خندق کھودی گئی۔ واضح رہے کہ عربوں میں جنگ کے دوران اپنی حفاظت کے لئے خندق کھودنے کا رواج نہیں تھا اس لئے جب مشرکین کا دس ہزاری لشکر مدینہ پہنچا تو وہ خندق دیکھ کر ششدر رہ گئے ۔ اور انہوں نے کہا کہ یہ حربہ عربوں نے تو کبھی استعمال نہیں کیا تھا۔

(الطبقات الکبریٰ لابن سعد الجزء الثانی صفحہ ۵۱ دارالکتب العلمیہ بیروت الطبعۃ الاولیٰ ۱۹۹۰ء اور کتاب المغازی للواقدی الجزء الثانی صفحہ ۴۴۵ عالم الکتب بیروت الطبعہ۱۹۶۶ء)

*۔۔۔*۔۔۔*

جنگ خندق میں ہی جب بنوقریظہ نے عہد شکنی کرتے ہوئے مشرکین کے ساتھ مل کر مسلمانوں کے خلاف جنگ کی ٹھان لی اور دیگر بڑے قبائل میں سے بنی فزارہ، بنی مُرّہ اور بنی غطفان بھی ان کے ساتھ شامل ہوگئے۔ ایسے میں منافقوں نے طرح طرح کی حوصلہ پست کرنے والی باتیں پھیلانی شروع کر دیں مثلاً یہ کہ محمد تو ہم سے قیصر و کسریٰ کے خزانوں کے وعدے کیا کرتا تھا اور آج ہماری یہ حالت ہو گئی ہے کہ ہم قضائے حاجت کے لئے بھی باہر نہیں نکل سکتے ۔ ایسی باتیں یقیناًجنگ کے دوران خطرناک ثابت ہو سکتی ہیں لہذا شاید آنحضور ﷺ نے صحابہ کی قوت ِایمانی ، ان کے الٰہی نصرت وتائید پر اعتماد اور اعلائے کلمۂ حق کی خاطر ان کے جوش وجذبہ کوپرکھنا چاہا ۔ چنانچہ آپ ؐنے صحابہ سے فرمایا کہ کیوں نہ ہم ’’غطفان‘‘ سے مدینہ کی ایک تہائی پھلوں کی پیشکش کے عوض صلح کاہاتھ بڑھائیں۔ اس سلسلہ میں آپ ؐنے حضرت سعد بن معاذؓ اور حضرت سعد بن عبادہ ؓ سے مشورہ طلب فرمایا تو انہوں نے عرض کیا یار سول اللہ ! کیا ایساکرنا آپ کی ذاتی خواہش ہے یا اس کے کرنے کا خدا تعالیٰ نے آپ ؐکو حکم دیاہے یاپھر آپ ایسا صرف ہماری خاطر کرنا چاہتے ہیں؟ ۔ آپ ؐ نے فرمایا بلکہ یہ میں تمہاری ہی خاطر کرنا چاہتاہوں تاکہ کفار کی قوت کو کسی قدر کم کیاجا سکے۔ اس پر حضرت سعد بن معاذؓنے کہا ’’اگر ایساہے تو خدا کی قسم پھرہم ان کو سوائے تلوار کی دھار کے اور کچھ نہیں دیں گے‘‘۔

(السیرۃ النبویہ لابن ہشام الجزء الثالث صفحہ ۲۲۶،۲۳۴۔دارالقلم بیروت الطبعہ الاولیٰ ۱۹۸۰ء)

*۔۔۔*۔۔۔*

صلح حدیبیہ کے موقعہ پر آنحضرت ﷺ اور صحابہ کرام کی ایک بڑی تعداد بیت اللہ کا قصدکرتے ہوئے نکلے تو راستے میں آپ کو اطلاع ملی کہ قریش آپ کو اس ارادہ سے روکنے کے لئے جمع ہو چکے ہیں اور اگر آپؐ نہ رکے تو وہ آپؐ کے ساتھ جنگ کرنے سے بھی دریغ نہیں کریں گے ۔ ایسے موقع پر آپؐ نے ایک دفعہ پھر ’’اشیروا علیّ ایھا النٖاس‘‘ کی آواز بلند فرمائی ۔ یعنی اے لوگومجھے اپنے مشورہ سے آگاہ کرو۔ چنانچہ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ آپ کسی کو قتل کرنے یا کسی کے ساتھ جنگ کرنے کا ارادہ لے کر نہیں بلکہ بیت الحرام کی زیارت کی خاطر نکلے ہیں لہذا آ پؐ چلتے چلیں اور اگر کسی نے ہمیں اس نیک ارادہ سے روکا تو ہم اس کا مقابلہ کریں گے ۔ اس پر آپؐ نے فرمایا تو پھر اللہ کانام لے کر چلو۔

(صحیح بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ الحدیبیہ)

*۔۔۔*۔۔۔*

صلح حدیبیہ ہی کے موقعہ پر جب بظاہر آنحضرتﷺ نے قریش مکہ کے تمام مطالبات کوقبول فرما لیا جن میں اس دفعہ حج کئے بغیرواپس جانے کا مطالبہ بھی تھا۔ صحابہ کرامؓ پر یہ بات بہت شاق گزری خصوصاً اس لئے بھی کہ وہ زیارت کعبۃ اللہ کی نیت سے میل ہا میل کے مسافت طے کر کے آئے تھے اور اپنی قربانیاں بھی ساتھ لائے تھے ایسی صورت میں ایک حج نہ کرنے کا صدمہ اور دوسرا رسول کریم ؐ نے حکم دیا کہ اپنی قربانیاں یہیں پر ذبح کر دو اور اپنے سر منڈواؤ۔ اس پر صحابہ کرام جو پہلے ہی غم و حزن کی کیفیت سے گزر رہے تھے گویاکہ اپنی جگہ پر جامد سے ہو گئے اور کوئی بھی قربانیوں کی طرف نہ بڑھا۔ صحابہ کی یہ حالت دیکھ کر آنحضرت ﷺ حضرت ام سلمہ ؓ کے پاس آئے اور ان کے سامنے سارا ماجرا بیان فرمایا۔ اس پر حضرت ام سلمہؓ نے آپ کو مشورہ دیتے ہوئے کہا ’’یا رسول اللہ! لو گ غم کی کیفیت میں ہیں اور ان کا یہ حال نعوذباللہ نافرمانی کی نیت سے نہیں ہے اور اس کی دلیل یہ ہوگی کہ آ پ باہر تشریف لے جائیں اور کسی سے بات کئے بغیر جا کر اپنی قربانی ذبح کر دیں اور سر منڈوا دیں پھر دیکھیں کیا ہوتاہے ۔ آپ ؐ کو یہ مشورہ بہت بھلا معلوم ہوا چنانچہ آ پ نے ایسا ہی کیا۔ جب صحابہؓ نے یہ منظر دیکھا تو وہ اپنی قربانیوں کی طرف لپکے اور آن کی آن میں ان کو ذبح کر دیا اور اتنی تیزی سے ایک دوسرے کے سر مونڈنے لگے کہ جلدی کی وجہ سے بعض صحابہ اپنے ساتھیوں کو زخمی کر نے لگے ۔

(کتاب المغازی للواقدی الجزء الثانی صفحہ ۶۱۳،۶۱۶ ۔ عالم الکتب بیروت ۔ طبعہ ۱۹۷۶ء)

(مطبوعہ : الفضل انٹرنیشنل ۲ ؍؍ اپریل ۱۹۹۹ء تا۸؍ اپریل ۱۹۹۹ء)