بس یہی میری دنیا !!

ڈاکٹر میاں محمد طاہر، پورٹ لینڈ، امریکہ

مشرقی معاشرے میں توجہ کا مرکز ماں باپ کے لئے ان کی اولاد رہی ہے۔ وہ ہر طرح کی تکلیف و مصائب برداشت کرتے اور کوشش کرتے ہیں کہ ان کی اولاد نہ صرف اعلٰی تعلیم حاصل کرے بلکہ وہ ان کے لئے ہر قسم کا آرام و آسائش مہیا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ماں شدید بھوک کے باوجود اپنے منہ کی بجائے اپنے بچوں کے منہ میں لقمہ ڈالنے کی کوشش کرتی ہے ۔ اپنے تن کی بجائے بچوں کے تن کو ڈھانپنے کی کوشش کرتی ہے۔ اسی طرح باپ کولہو کے بیل کی طرح کمائی میں جتا رہتا او ر کوشش کرتاہے کہ اس کا پیسہ اس کی اولاد کی بہتری و بہبودی میں خرچ ہو۔ وہ لوگ جن کے ہاں پیسے اور مال کی بہتات تھی ان کی توجہ کا مرکزبھی اولاد تھی ۔ عموماً ان لوگوں کی اولاد اپنے ماں باپ کی قربانیوں سے خوب آگاہ ہوتی بعد میں جب والدین بڑھاپے کو پہنچتے توان کی اولاد عموماً ان کی خدمت میں پیش پیش رہتی۔

یہ تو معاشرے کا بہترین منظر تھا لیکن اس کے گھناؤنے رخ بھی تھے۔ جس میں ماں باپ کی تمام قربانیوں کے باوجود اولاد نے ان کو ہر قسم کے آرام سے محروم رکھا ۔ کبھی تو اولاد نے اپنی خودغرضی، بدتمیزی اور بدتہذیبی سے ایسا کیا اور کبھی اپنی بیوی کی وجہ سے جس کی اپنی ساس سسر سے نہ بن سکی اور نہایت خود غرضی کی وجہ سے خاوند سے لے کر جذبات اور مال کو اپنے لئے وقف کر لیا اور بوڑھے والدین کو محبت کے الفاظ سے لے کر دنیاوی آسائش و آرام تک سے محروم کر دیا۔

مشرقی معاشرہ میں جب خاندان اکٹھا رہتاتھا تو افراد کی ایک ہی گھر میں سکونت کی وجہ سے بوڑھے ہونے والوں کی دیکھ بھال میں کوئی مشکل نہ پیش آتی بلکہ وہ اپنی بزرگی کی وجہ سے مرجع خلائق رہتے۔ ہر فرد ، ہر نیا دولہا، دلہن ان سے دعائیں لینے کے لئے حاضری دیتے۔ بڑے فیصلے ان کی مرضی اور منظوری کے بغیر نہ کئے جاتے۔ لیکن آہستہ آہستہ تقریباً پچھلے سو برس میں بہت سی نیک روایات بدلنے لگیں ۔ مغربی تہذیب کی اندھی تقلید ، خود غرضی، مطلب پرستی اور قرآن مجید کے احکامات سے بے پرواہی بڑھتی گئی۔ اور اس طرح مغرب کی بُری باتیں کچھ اس بھونڈے طریقے سے مشرق میں بھی داخل ہو گئیں کہ نہ تو و ہ مشرقی تہذیب رہی اور نہ ہی مغرب کی بن سکی۔

مغربی معاشرہ میں بوڑھے، ضعیف ، بیمار والدین کو نرسنگ ہومز میں بھیج دیا جاتا ہے ۔ وہاں پر ان پر کیا گزرتی ہے اور ان کے جذبات کیا ہوتے ہیں !؟

کچھ عرصہ ہوا نیوزویک (Newsweek)رسالہ میں ایک تحریر شائع ہوئی جس کا عنوان ’’ اب میری دنیا‘‘ تھا۔ یہ بہت ہی دردانگیز ، قابل فکر تحریر ہے اور اس میں نصیحت حاصل کرنے والوں کے لئے بہت سے سبق پنہاں ہیں۔ اس تحریر کا ترجمہ قارئین کی دلچسپی کے لئے پیش کر رہا ہوں۔ اس کو لکھنے والی ایک خاتون ہیں جن کا نام Ana Mae Halgrim Seaver ہے ۔ اس تحریر کا دوسرا عنوان ’’نرسنگ ہوم کی اندرونی دنیا‘‘ تھا۔ مضمو ن نگار لکھتی ہیں:

’’ یہی بس اب میری دنیا ہے۔ اور سب یہی ہے جو کچھ کہ بچا ہے۔ میں بوڑھی ہو چکی ہوں اور میری صحت اب ویسی نہیں جیسی کہ کبھی ہوا کرتی تھی۔ میں کوئی شکایت نہیں کرتی لیکن میں اس سے خوش بھی نہیں ہوں۔ جو کچھ بھی ہے میں نے اس پر صبرو شکر کر لیا ہے۔ کبھی کبھار میرے گھرانے کا کوئی فرد مجھے ملنے کے لئے آ جاتا ہے۔ کبھی کبھی ان میں سے کوئی ایک چند پھول اور کبھی کبھار کوئی تحفہ بھی لے آتا ہے۔ وہ تھوڑی دیر میرے پاس بیٹھتے ہیں اور اس کے بعد نرسنگ ہوم کی باہر کی دنیا کی گہما گہمی میں شامل ہو جاتے ہیں اور یہاں میں پھر تنہا رہ جاتی ہوں۔

میرے علاو ہ اس بلڈنگ میں اور بھی لوگ رہتے ہیں ۔ کچھ کا قیام لمبا ہے اور انہیں موت ہی یہاں سے نکالتی ہے ۔ اور دوسرے وہ لوگ ہیں جو بیماری سے صحت یاب ہونے کے لئے آتے ہیں۔ کسی کی ٹانگ ٹوٹ گئی تھی اس پر آپریشن کیا گیا اور اس کے بعد پہیوں والی کرسی میں بٹھا کر اسے یہاں بھیج دیا گیا۔ بعض پر دل کا حملہ ہوا تھا اور وہ مکمل صحت یابی کے لئے یہاں بھیج دئے گئے۔ جب یہ لوگ ٹھیک اور صحت یاب ہوجاتے ہیں تو پھر اپنے اپنے گھروں کو واپس چلے جاتے ہیں۔ کچھ لوگوں کو اپنے سفر کا خوب علم ہے اور کچھ ایسے ہیں کہ وہ آگاہ ہی نہیں ہیں۔ کچھ لوگوں کی یادداشت اور حافظہ ایلزہائمر بیماری(Alzheimer Disease) کی وجہ سے باقی نہیں رہا اور مکمل طور پر ختم ہو چکا ہے۔ ہم ہر روز ان کی نہ ختم ہونے والی بے معنی باتیں سنتے ہیں جنہیں وہ ہر روز دہراتے ہیں۔ وہی سوال بار بار پوچھتے ہیں کہ جن کا جواب ہم دے چکے ہوتے ہیں۔ ہر روزجب ان سے ملتے ہیں تو ہماری ملاقات ہر بار نئے سرے سے ہوتی ہے۔ جب یہ لوگ اپنی کہانی دہرانا شروع کرتے ہیں تو ہم ادب اور مسکراہٹ کے ساتھ سر کوہلا تے ہوئے خاموش رہتے ہیں۔ میری کہانی کبھی بھی سننے کے لئے تیار نہیں ہوتے اس لئے میں نے بھی کبھی کوشش نہیں کی۔ یہاں ملازمین اگرچہ بہت محنت سے کام کرتے ہیں اور بنیادی طور پر اچھے لوگ ہیں لیکن یہ لوگ آتے جاتے رہتے ہیں،کوئی بھی جم کر کام نہیں کرتا۔

بچپن سے ہی مجھے اپنے کپڑوں کی صفائی کا بہت خیال تھا اور مجھے پیشاب پر مکمل کنٹرول تھا لیکن اب نہیں رہا۔ اس لئے مجھے Diaper (یعنی تولیہ لنگوٹ) کی طرح باندھ دیا گیا ہے۔ لیکن بچپن میں اور اب میں فرق ہے کہ اب مجھے احساس ہے اور کپڑوں کے گندے ہو جانے پر شرمندگی محسوس کرتی ہوں۔ بچپن میں تو اس کا کوئی احساس نہ تھا۔ میرے تین بچے تھے اس لئے مجھے احساس ہے کہ پوتڑوں کو صاف کرنا کوئی خوشگوار کام نہیں ہے۔ مجھے یاد ہے کہ میرے شوہر کبھی کبھی بچوں کے پوتڑوں کو صاف کرنے سے پہلے ناک پر کپڑا باندھ لیا کرتے تھے۔ کاش آج میرے پاس بھی ناک پر باندھنے والا کپڑا موجود ہوتا۔

مجھے کچھ سمجھ نہیں آتی کہ یہ ہماری نگہداشت کرنے والے لوگ مجھ سے بچوں کے لہجے میں کیوں بات چیت کرتے ہیں ۔ میں انگریزی زبان اچھی طرح سے سمجھتی ہوں۔ میں نے پڑھانے میں ڈگری لی تھی۔ اور پھر میوزک میں بھی ڈگری حاصل کی تھی۔ میں سند یافتہ استانی ہوں۔ اس کے باوجود ایسے الفاظ میں مجھ سے بات چیت کی جاتی ہے کہ جیسے ’’ر‘‘کو ’’ ل‘‘ بولا جاتا ہے اور ’’ل‘‘ کو ’’ر‘‘ ۔ اور بعض اوقات سوچتی ہوں کیا میرے بچوں کو بھی یہی احساس ہوتا تھا جو مجھے آج ہو رہا ہے ۔

اگرچہ میرے کانوں کی شنوائی کم ہو گئی ہے لیکن کانوں پر سننے کا آلہ لگانے کے بعد میری شنوائی سو فیصدی ٹھیک ہو گئی ہے۔ اس کے باوجود لوگ اپنا چہرہ میرے چہرے کے سامنے لے آتے ہیں اور پھر آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر زور سے بولنے کی کوشش کرتے ہیں جیسے کہ میں بہری ہوں۔ اگرچہ بعض اوقات میری توجہ کہیں ماضی میں کھو جاتی ہے لیکن پھر بھی اونچی آواز میں بولنے کی تو کوئی ضرورت نہیں ہے۔کئی مرتبہ میں نے سوچا کہ میں اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے ان کو اس طرح چیخنے چنگھاڑنے سے روکوں ۔ چنانچہ میں نے بھی ایک مرتبہ اونچی آواز میں بات کی لیکن اس کے بعد ان لوگوں نے میرا نام سَڑیَل رکھ دیا۔میرے بچوں نے مجھے کبھی بھی آواز کواونچا کرتے نہیں سنا تھا۔ میں ہمیشہ اس سے ان کو منع کرتی تھی۔ میں نے کئی مرتبہ نرسنگ ہوم کے سرکردگان سے شکایت بھی کی کہ ملازمین کو اونچی آواز سے بات چیت نہیں کرنا چاہئے۔ لیکن ان کے ہاں سے ہمیشہ صرف ایک جواب ملا کہ ہم کوشش کر رہے ہیں کہ آپ کی شکایت رفع ہو جائے۔

میری بڑی خواہش ہے کہ میں پھر کبھی کسی اچھے ریستوران میں کھانا کھانے کے لئے جاؤں۔ تفریح کی خاطر دوسرے شہروں کا سفر اختیار کروں۔ اتوار کی صبح کو تیار ہو کر اپنے چرچ میں جاؤں اور باقی لوگوں کے ساتھ مل کر حمد کے گیت گاؤں ۔ اور پھر کبھی کبھی اپنے پرانے ملنے والوں کے گھر جاؤں۔ بہت سے ملنے والے تو اب مرچکے ہیں اور کچھ میری طرح ہیں جنہیں ان کے بچوں نے نرسنگ ہوم میں داخل کروا دیا ہے۔ کبھی کبھی یہ بھی خواہش ہوتی ہے کہ میں کسی کے ساتھ برج کی گیم کھیلوں لیکن یہاں تو کوئی بھی ایسا نہیں ہے جو پوری توجہ سے کھیل سکے۔

میرے بچوں نے یہاں مجھے میری بہتری کے لئے ہی داخل کروایا ہوگا۔ انہوں نے مجھے کہا تھا کہ وہ بڑی باقاعدگی سے مجھے باربار ملنے کے لئے آیا کریں گے۔ لیکن ان کی اپنی مصروفیا ت ہیں اور پھر یہ بات بھی تو ٹھیک ہی ہے کہ میں ان پر بوجھ بننا نہیں چاہتی۔ لیکن میری خواہش ہے کہ وہ میرے پاس زیادہ آئیں۔ میں بہت تنہا ہوں۔ ایک بیٹا تو اسی شہر میں رہتاہے وہ شاید جتنی مرتبہ آ سکتا ہے آتا ہے۔

یہاں میری ذاتی زندگی کوئی نہیں ہے۔ جس کمرے میں اب رہ رہی ہوں اس کا دروازہ جب بھی کوئی چاہتاہے کھول کر آ جاتا ہے اور دروازہ کھٹکھٹانے یا اجازت لینے کی تکلیف گوارا نہیں کرتا اوراگر میں کچھ لکھنے بیٹھتی ہوں تو پروا ہ کئے بغیر ادھر اُدھر کام کرنا شروع کر دیتے ہیں جیسے میری کوئی ہستی ہی نہیں ہے۔ میں کیا انہیں دکھائی نہیں دیتی۔ کیا میں اپنی خودداری اور عزّتِ نفس مکمل طور پر کھو چکی ہوں۔ اگر یہ سلو ک ان لوگوں کے ساتھ کیا جائے تو کیا ہوگا۔ میں بھی ایک ا نسان ہوں ۔ کاش مجھ سے سب لوگ ایک انسان کی طرح سلوک کریں۔ جیسے میں بھی ان میں سے ایک ہوں۔کھانا تو ملتا ہے لیکن ایسا نہیں کہ میں اسے اپنے لئے چُنوں ۔ کھانا بدل بدل کر تو دیا جاتا ہے لیکن چننے کا حق نہیں دیا جاتا۔ میں بھی ان خوش قسمتوں میں سے ہوں جو ابھی اپنے ہاتھوں سے چمچہ ، چھری اور کانٹا سے کھانا کھا سکتی ہوں۔ مجھے یاد ہے کہ جب میں چھوٹی تھی اورملک کی مالی حالت خراب تھی توتب میں نے اس قسم کے ادنیٰ چھری کانٹے استعمال کئے تھے۔ تب ہی میں نے اپنے دل میں تہیہ کر لیا تھاکہ میں بہت محنت کروں گی اور کبھی بھی ادنیٰ قسم کی چیزیں استعمال نہیں کروں گی۔

آج کل میں پہیوں والی کرسی میں بیٹھی ہوں ۔ جو بھی اس قسم کی کرسی میں کبھی بیٹھا ہے اسے معلوم ہوگا کہ یہ کوئی آرام دہ کرسی نہیں ہے۔ یہ کرسی مضبوطی سے جسم کے نچلے حصے کو جکڑ لیتی ہے اور بازوؤں کو رکھنے والے حصے بھی بہت چھوٹے اور تنگ ہوتے ہیں ۔ ایسی کرسیوں میں دیر تک بیٹھنا نہایت تکلیف دہ ہوتا ہے اور بازو باربار نیچے گر جاتے ہیں۔ میں تو خوش قسمت ہوں لیکن بعض کو تو یہ لوگ کرسی سے باندھ دیتے ہیں تا کہ وہ گر نے نہ پائیں۔ اورپھر وہ انہیں ٹی وی کے سامنے تنہا چھوڑ دیتے ہیں ۔ وہ اس طرح کرسی کی قید میں بندھے ہوئے ہر قسم کے شو دیکھنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔

یہا ں کا ایک مکین آج چل بسا۔ وہ بالکل تنہا تھا ۔ اسے کوئی بھی ملنے کے لئے نہیں آتا تھا۔ کچھ عرصہ کی بات ہے اس نے اپنا کاروبار شروع کیا تھا ۔ آہستہ آہستہ کمپنی کا کاروبار خوب پھیل گیا اور وہ کروڑوں کا مالک ہو گیا۔ اس کے بچوں نے اسے بھی اسی نرسنگ ہوم میں داخل کروا دیا تھا۔ اسے اپنے پیشاب پاخانے پر کنٹرول نہیں تھا۔ وہ ہم لوگوں سے بات چیت نہیں کرتا تھا ۔ عموماً وہ یہاں کام کرنے والوں سے بڑی سختی سے پیش آتا تھا جیسے یہ سب اس کے ذاتی ملازم ہوں ۔ ایک دن اس پر مایوسی مکمل طورپر حاوی ہو گئی اور پھر وہ یونہی مر گیا۔ سٹاف نے اس کا کمرہ صاف کر دیا ہے ۔ دھلی ہوئی چادر یں بچھ گئی ہیں اوراب اُس میں ایک اور آدمی آ بسا ہے۔ یہاں کاروزانہ کا معمول کچھ ایسا ہی ہے۔

میرے کمرے میں دو بستر ہیں ۔دوسرے بستر پر ایک عورت ہے جو سانس کی تکلیف کی مریضہ ہے۔ اسے یہ تکلیف برسوں کی مسلسل سگریٹ نوشی کی وجہ سے ہوئی ہے ۔صبح سویرے اس کے کھانسنے کی وجہ سے آنکھ کھل جاتی ہے۔ پھر تھوڑی دیر بعد نہلانے اور صفائی کرنے والی عورت آ تی ہے۔ پھر مجھے پہیوں والی کرسی پر بٹھا دیا جاتاہے۔ کرسی میں بیٹھنے کے چھ یا سات منٹ بعد ناشتہ ملتاہے۔ ناشتہ کھانے کے کمرے میں دیا جاتا ہے ۔ اس نرسنگ ہوم کے زیادہ ترمکین انہیں کرسیوں میں ہی زندگی گذارتے ہیں۔ کچھ چھڑی کے سہارے بھی چلتے ہیں۔ بعض تمام دن اسی سوچ میں گزار دیتے ہیں کہ وہ کسی کے منتظر ہیں۔ اب کو ئی نہیں آئے گا۔ ناشتہ کے بعد صرف تین گھنٹے اور ۲۶ منٹ بعد پہلاکھانا ملے گا۔ بعض یہی سوچ کر کھانے کے کمرے کے گرد ہی بیٹھے رہتے ہیں کہ وہ اپنے کمرے میں جا کر کیا کریں گے۔ آج کیا دن ہے۔ آج کا دن کل کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ ایک تسبیح کے دانوں کی طرح ۔ پھر تاریخ اورمہینہ کے بھی تو کوئی معنی نہیں ہیں۔ آج ٹی وی ہی دیکھوں گی۔ ایک شو اور دوسرے شو میں کیا فرق ہے۔ کسی کے خاوند کی پریشانی کسی کو بچوں کی مشکلات، کوئی ہے تو گرل فرینڈ کو رو رہا ہے ۔ کسی کو کپڑوں کے رنگ میچ کرنے میں مشکل پیش آ رہی ہے۔ مجھے ان سب کی کیا پروا ہے ۔ کوئی اپنی ساس سے اور کوئی بیوی سے اپنی جمع شدہ قیمتی چیزوں پر تبصرہ کر رہا ہے مگر مجھے ان سے کیا غرض۔

تھوڑی دیر میں دوپہر کے کھانے کا وقت ہو جائے گا۔ کچھ ابلے ہوئے مٹر ۔ تھوڑی سی پڈنگ اور تھوڑی سی کوئی اور چیز ہوگی۔ اسی وجہ سے تو میرا وزن گر رہا ہے۔ اب میں اپنے کمرے میں جا رہی ہوں ۔شاید تھوڑی سی نیند آ جائے۔ مجھے اب تھوڑی دیر کے لئے سو جاناچاہئے۔ آج شاید کوئی ملنے کے لئے آئے۔ آج کیا دن ہے۔۔ دوپہر کے بعد کا وقت آہستہ آہستہ رینگتا ہوا شام ہو جاتا ہے۔ یہ وقت میرا بہت پسندیدہ وقت ہوا کرتا تھا۔ دن بھر کا کام ختم ہو جاتا تھا ۔ میں اپنے جوتے اتار کر کافی کا کپ لے کر میز پر پاؤں رکھ کر صوفے پر بیٹھ جاتی تھی ۔ میرا شوہر کوک کی بوتل کھول کر میرے پاس بیٹھ جاتا تھا۔ وہ بھی جا چکا اور میری صحت !! اب بس کل کی بات ہے ۔یہ میری دنیا ہے۔

مسز Anna Mae Halgrim Seaver جو Visconsim میں Wauwatosaمیں رہا کرتی تھی ۔ مارچ کے مہینے میں فوت ہو گئیں۔ ان کے لڑکے کو یہ کاغذان کے کمرے سے ملا تھا ۔

(مطبوعہ:الفضل انٹرنیشنل (۱۱) ۲۷؍فروری ۱۹۹۸ء تا ۵؍مارچ ۱۹۹۸ء)