تقریر حضرت مسیح موعُود علیہ الصلوٰۃ والسلام

جو کہ آپ نے ۲۹؍ دسمبر ۱۹۰۴ء کو سالانہ جلسہ کی تقریب پر بعد نماز ظہر مسجد اقصیٰ میں فرمائی

حضرت مرزا غلام احمد قادیانی، مسیح موعود و مہدی معہودؑ

خاتمہ بالخیر ہو

میری طرف سے اپنی جماعت کو بار بار وہی نصیحت ہے جو میں پہلے بھی کئی دفعہ کر چکا ہوں کہ عمر چونکہ تھوڑی  اور عظیم الشّان کام درپیش ہے اس لئے کوشِش کرنی چاہیئے کہ خاتمہ بالخیر ہو جاوے۔

تقسیم عُمر  

خاتمہ بالخیر ایسا امر ہے کہ اس کی راہ میں بہت سے کانٹے ہیں۔ جب انسان دنیا میں آتا ہے تو کچھ زمانہ اس کا بے ہوشی میں گذر جاتا ہے۔ یہ بے ہوشی کا زمانہ وہ ہے جبکہ وہ بچّہ ہوتا ہے اور اس کو دنیا اور اس کے حالات سے کوئی خبر نہیں ہوتی۔ اس کے بعد جب ہوش سنبھالتا ہے تو ایک ایسا زمانہ آتا ہے کہ وہ بے ہوشی تو نہیں ہوتی۔ جو بچپن میں تھی لیکن جوانی کی ایک مستی ہوتی ہے جو اس ہوش کے دنوں میں بھی بے ہوشی پیدا کر دیتی ہے اور کچھ ایسا از خود رفتہ ہوجاتا ہے کہ نفس امّارہ غالب آجاتا ہے۔ اس کے بعد پھر تیسرا زمانہ آتا ہےکہ علم کے بعد پھر لا علمی آجاتی ہے اور حواس میں اور دوسرے قویٰ میں فتور آنے لگتا ہے۔ یہ پیرانہ سالی کا زمانہ ہے۔ بہت سے لوگ اس زمانہ میں بالکل حواس باختہ ہو جاتے ہیں اور قویٰ بیکار ہو جاتے ہیں۔ اکثر لوگوں میں جنوں کا مادہ پیدا ہو جاتا ہے۔ ایسے بہت سے خاندان ہیں کہ ان میں ۶۰ یا ۷۰ سال کے بعد انسان کے حواس میں فتور آجاتا ہے۔ غرض اگر ایسا نہ بھی ہو تو بھی قویٰ کی کمزوری اور طاقتوں کے ضائع ہو جانے سے انسان ہوش میں بے ہوش ہوتا ہے  اور ضعف وتکاہل اپنا اثر کرنے لگتا ہے۔ انسان کی عمر کی تقسیم انہیں تین زمانوں پر ہے اور یہ تینوں ہی خطرات اور مشکلات میں ہیں۔ پس اندازہ کرو کہ خاتمہ بالخیر کے لئے کس قدر مشکل مرحلہ ہے۔

بچپن کا زمانہ توایک مجبوری کا زمانہ ہے۔ اس میں سوائے لہو، لعب اور کھیل کود اور چھوٹی چھوٹی خواہشوں کے اَور کوئی خواہش ہی نہیں ہوتی۔ ساری خواہشوں کا منتہا کھانا پینا ہی ہوتا ہے۔ دنیا اور اس کے حالات سے محض نا واقف ہوتا ہے۔ امور آخرت سے بکلی نا آشنا اور لاپروا ہوتا ہے۔ عظیم الشان امور کی اسے کوئی خبر ہی نہیں ہوتی۔ وہ نہیں جانتا کہ دنیا میں اس کے آنے کی کیا غرض اور مقصد ہے۔ یہ زمانہ تو یوں گذر گیا۔ اس کے بعد جوانی کا زمانہ آتا ہے۔ کچھ شک نہیں کہ اس زمانہ میں اس کے معلومات بڑھتے ہیں اور اس کی خواہشوں کا حلقہ وسیع ہوتا ہے مگر جوانی کی مستی اور نفس امّارہ کے جذبات عقل مار دیتے ہیں اور ایسی مشکلات میں پھنس جاتا ہے اور ایسے ایسے حالات پیش آتے ہیں کہ اگر ایمان بھی لاتا ہے تب بھی نفس امّارہ اور اس کے جذبات اپنی طرف کھینچتے ہیں اور اُسے ایمان اور اس کے ثمرات سے دُور پھینک دینے کے لئے حملے کرتے ہیں۔ اس کے بعد جو پیرانہ سالی کا زمانہ ہے وہ تو بجائے خود ایسا نکمّا اور ردّی ہوتا ہے۔ جیسے کسی چیز سے عرق نکال لیا جاوے اور اس کا پھوگ باقی رہ جاوے۔ اسی طرح پر انسانی عمر کا پھوگ بڑھاپا ہے۔ انسان اس وقت نہ دنیا کے لائق رہتا ہے اور نہ دین کے مخبوط الحواس اور مضمحل سا ہو کر اوقات بسر کرتا ہے۔ قویٰ میں وہ تیزی اور حرکت نہیں ہوتی جو جوانی میں ہوتی ہے اور بچپن کے زمانہ سے بھی گیا گذرا ہو جاتا ہے۔ بچپن میں اگرچہ شوخی حرکت اور نشوونما ہوتا ہے لیکن بڑھاپے میں یہ باتیں نہیں۔ نشوونما کی بجائے اب قویٰ میں تحلیل ہوتی ہے اور کمزوری کی وجہ سے سُستی اور کاہلی پیدا ہونے لگتی ہے۔

بچّہ اگرچہ نماز اور اس کے مراتب اور ثمرات اور فوائد سے ناواقف ہو گا یا ہوتا ہے۔ لیکن اپنے کسی عزیز کو دیکھ کر ریس اور امنگ ہی پیدا ہو جاتی ہے مگر اس پیرانہ سالی کے زمانہ میں تو اس کے بھی قابل نہیں رہتا۔

حواس باطنی میں جس طرح اس وقت فرق آجاتا ہے حواس ظاہری میں بھی معمر ہو کر بہت کچھ فتور پیدا ہوجاتا ہے۔ بعض اندھے ہو جاتے ہیں۔ بہرہ ہو جاتے ہیں۔ چلنے پھرنے سے عاری ہو جاتے ہیں۔ اور قسم قسم کی مصیبتوں اور دُکھوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ غرض یہ زمانہ بھی بڑا ہی ردّی زمانہ ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک ہی زمانہ ہے جو ان دونوں کے بیچ کا زمانہ ہے یعنی شباب کا جب انسان کوئی کام کر سکتا ہے کیونکہ اس وقت قویٰ میں نشوونما ہوتا ہے اور طاقتیں آتی ہیں لیکن یہی زمانہ ہے جبکہ نفس امّارہ ساتھ ہوتا ہے اور وہ اس پر مختلف رنگوں میں حملے کرتا ہے اور اپنے زیر اثر رکھنا چاہتا ہے۔ یہی زمانہ ہے جو مؤاخذہ کا زمانہ ہے اور خاتمہ بالخیر کے لئے کچھ کرنے کے دن بھی یہی ہیں۔ لیکن ایسی آفتوں میں گھرا ہوا ہے کہ اگر بڑی سعی نہ کی جاوے تو یہی زمانہ ہے جو جہنّم میں لے جائے گا اور شقی بنادے گا۔ ہاں اگر عمدگی اور ہوشیاری اور پوری احتیاط کے ساتھ اس زمانہ کو بسر کیا جاوے تو اﷲ تعالیٰ کے فضل و کرم سے امید ہے کہ خاتمہ بالخیر ہو جاوے کیونکہ ابتدائی زمانہ تو بے خبری اور غفلت کا زمانہ ہے۔ اﷲ تعالٰے اس کا مؤاخذہ نہ کرے گا جیسا کہ اس نے خود فرمایا لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفۡسًا اِلَّا وُسۡعَہَا۔ (البقرۃ:۲۸۷) اور آخری زمانہ میں گو بڑھاپے کی وجہ سے سُستی اور کاہلی ہوگی لیکن فرشتے اس وقت اس کے اعمال میں وہی لکھیں گے جو جوانی کے جذبات اور خیالات ہیں۔ جوانی میں اگر نیکیوں کی طرف مستعد اور خدا تعالٰے کا خوف رکھنے والا، اس کے احکام کی تعمیل کرنے والا اور نواہی سے بچنے والا ہے تو بڑھاپے میں گو ان اعمال کی بجا آوری میں کسی قدر سُستی بھی ہو جاوے لیکن اﷲ تعالٰے اسے معذور سمجھ کر ویسا ہی اجر دیتا ہے۔

ہر شخص بڈھے انسان کو دیکھتا ہے کہ وہ کیسا از خود ر فتگی کا زمانہ ہے۔ کوئی بات چشمدید کی طرح سمجھ میں نہیں آتی ہے۔ اِس لئے ان لوگوں پر خدا تعالٰے کا بڑا ہی فضل ہوتا ہے جو ابتدائی زمانہ میں اس زمانہ کے لئے سعی کرتے ہیں۔ اور اس زمانہ میں ان کے لئے وہی تقوےٰ اور خدا تعالٰے کی بندگی لکھی جاتی ہے۔ غرض آخر وہی ایک زمانہ جو جوانی کے جذبات اور نفس امارہ کی شوخیوں کا زمانہ ہے کچھ کام کرنے کا زمانہ رہ جاتا ہے۔ اس لئے اب سوچنا چاہیئے کہ وہ کیا طریق ہے جس کو اختیار کرکے انسان کچھ آخرت کے لئے کما سکے۔

جوانی کا زمانہ کیسے مفید ہو  

اس میں کچھ شک نہیں کہ یہ زمانہ جو شباب اور جوانی کا زمانہ ہے ایک ایسا زمانہ ہے کہ نفس امّارہ نے اس کو ردّی کیا ہوا ہے لیکن اگر کوئی کار آمد ایام ہیں تو یہی ہیں۔ حضرت یوسف علیہ السلام کی زبانی قرآن شریف میں درج ہے وَ مَاۤ اُبَرِّیٴُ نَفۡسِیۡ ۚ اِنَّ النَّفۡسَ لَاَمَّارَۃٌۢ بِالسُّوۡٓءِ اِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّیۡی  (یوسف:۵۴) یعنی میں اپنے نفس کو بَری نہیں ٹھہرا سکتا کیونکہ نفسِ امارہ بدی کی طرف تحریک کرتا ہے۔ اس کی اس قسم کی تحریکوں سے وہی پاک ہو سکتا ہے جس پر میرا ربّ رحم کرے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانہ کی بدیوں اور جذبات سے بچنے کے واسطے نِری کوشِش ہی شرط نہیں بلکہ دعاؤں کی بہت بڑی ضرورت ہے نِرا زہد ظاہری ہی (جو انسان اپنی سعی اور کوشش سے کرتا ہے) کار آمد نہیں ہوتا۔ جب تک خدا تعالٰے کا فضل اور رحم ساتھ نہ ہو اور اصل تو یہ ہے کہ اصل زہد اور تقویٰ تو ہے ہی وہی جو خدا تعالٰے کی طرف سے آتا ہے۔ حقیقی پاکیزگی اور حقیقی تقویٰ اسی طرح ملتا ہے ورنہ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ بہت سے جامے بالکل سفید ہوتے ہیں اور باوجود سفید ہونے کے بھی وہ پلید ہو سکتے ہیں تو اس ظاہری تقویٰ اور طہارت کی ایسی ہی مثال ہے۔ تاہم اس حقیقی پاکیزگی اور حقیقی تقویٰ اور طہارت کے حصول کے لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ اسی زمانہ شباب و جوانی میں انسان کوشِش کرے جبکہ قویٰ میں قوت اور طاقت اور دل میں ایک امنگ اور جوش ہوتا ہے۔ اس زمانہ میں کوشِش کرنا عقلمند کا کام ہے اور عقل اسی لئے اﷲ تعالیٰ نے دی ہے۔

اوّل تدبیر کرو

اس مقصد کے حاصل کرنے کے واسطے (جیسا کہ میں پہلے کئی مرتبہ بیان کر چکا ہوں) اول ضروری ہے کہ انسان دیدہ دانستہ اپنے آپ کو گناہ کے گڑھے میں نہ ڈالے ورنہ وہ ضرور ہلاک ہو گا۔ جوشخص دیدہ دانستہ بد راہ اختیار کرتا ہے یا کنوئیں میں گرتا ہے اور زہر کھاتا ہے وہ یقینا ہلاک ہو گا۔ ایسا شخص نہ دنیا کے نزدیک اور نہ اﷲ تعالیٰ کے نزدیک قابلِ رحم ٹھہرسکتا ہے اس لئے یہ ضروری اور بہت ضروری ہے خصوصاً ہماری جماعت کے لئے (جس کو اﷲ تعالٰے نمونہ کے طور پر انتخاب کرتا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ آنے والی نسلوں کے لئے ایک نمونہ ٹھہرے) کہ جہانتک ممکن ہے بد صحبتوں اور بد عادتوں سے پرہیز کریں۔ اور اپنے آپ کو نیکی کی طرف لگائیں۔ اس مقصد کے حاصل کرنے کے واسطے جہانتک تدبیر کا حق ہے تدبیر کرنی چاہیئے اور کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کرنا چاہیئے۔

یاد رکھو تدبیر بھی ایک مخفی عبادت ہے اس کو حقیر مت سمجھو۔ اسی سے وہ راہ کھُل جاتی ہے جو بدیوں سے نجات پانے کی راہ ہے۔ جو لوگ بدیوں سے بچنے کی تجویز اور تدبیر نہیں کرتے ہیں وہ گویا بدیوں پر راضی ہو جاتے ہیں اور اس طرح پر خدا تعالٰے اُن سے الگ ہو جاتا ہے۔

میں سچ کہتا ہوں کہ جب انسان نفس امارہ کے پنجہ میں گرفتار ہونے کے باوجود بھی تدبیروں میں لگا ہوا ہوتا ہے تو اس کا نفس امّارہ خد اتعالیٰ کے نزدیک لوّامہ ہو جاتا ہے اور ایسی قابلِ قدر تبدیلی پا لیتا ہے کہ یا تو وہ امّارہ تھا جو لعنت کے قابل تھا اور یا تدبیر اور تجویز کرنے سے وہی قابلِ لعنت نفس امّارہ نفس لوّامہ ہو جاتا ہے جس کو یہ شرف حاصل ہے کہ خدا تعالٰے بھی اس کی قسم کھاتا ہے۔ یہ کوئی چھوٹا شرف نہیں ہے۔ پس حقیقی تقویٰ اور طہارت کے حاصل کرنے کے واسطے اوّل یہ ضروری شرط ہے کہ جہاں تک بس چلے اور ممکن ہو تدبیر کرو اور بدی سے بچنے کی کوشِش کرو۔ بد عادتوں اور بد صحبتوں کو ترک کر دو۔ ان مقامات کو چھوڑ دو جو اس قسم کی تحریکوں کا موجب ہو سکیں جس قدر دنیا میں تدبیر کی راہ کھُلی ہے اس قدر کوشِش کرو اور اس سے نہ تھکو نہ ہٹو۔

دُوسرا طریق دُعا ہے

دوسرا طریق حقیقی پاکیزگی کے حاصل کرنے اور خاتمہ بالخیر کے لئے جو خدا تعالیٰ نے سکھایا ہے  وہ دعا ہے اس لئے جس قدر ہو سکے دُعا کرو۔ یہ طریق بھی اعلیٰ درجہ کا مجرّب اور مفید ہے کیونکہ خدا تعالیٰ نے خود وعدہ فرمایا ہے  ادۡعُوۡنِیۡۤ اَسۡتَجِبۡ لَکُمۡ (المومن:۶۱) تم مجھ سے دعا کرو میں تمہارے لئے قبول کروں گا۔ دعا ہی ایک ایسی چیز ہے جس کے ساتھ مسلمانوں کو فخر کرنا چاہیئے۔ دوسری قوموں کو دعا کی کوئی قدر نہیں اور نہ انہیں اس پاک طریق پر کوئی فخر اور ناز ہو سکتاہے۔

اسلام کا خاص فخر

بلکہ یہ فخر اور ناز صرف صرف اسلام ہی کو ہے دوسرے مذاہب اس سے بکلّی بے بہرہ ہیں۔ مثلاً عیسائیوں نے جب یہ سمجھ لیا ہے کہ ایک انسان (جس کو انہوں نے خدا مان لیا) نے ہمارے لئے قربانی دے دی ہے۔ انہوں نے اس پر بھروسہ کر لیا اور سمجھ لیا کہ ہمارے سارے گناہ اس نے اُٹھا لئے ہیں۔ پھر وہ کونسا امر ہے جو اس کو دعا کے لئے تحریک کرے گا۔ نا ممکن ہے کہ وہ گدازشِ دل کے ساتھ دعا کرے۔ دعا تو وہ کرتا ہے جو اپنی ذمہ داری اور جواب دہی کو سمجھتا ہے لیکن جو شخص اپنے آپ کو بری الذمہ تصور کرتا ہے وہ دعا کیوں کرے گا۔ اس نے تو پہلے ہی سمجھ لیا ہے کہ گناہ دوسرے شخص نے اُٹھا لئے ہیں اور اس طرح پر اس کے ذمہ کوئی جوابدہی نہیں تو اس کے دل میں تحریک کس طرح ہو گی۔ اس نے اور شئے پر بھروسہ کر لیا ہے اور اس طرح پر اس طریق سے جو دُعا کا طریق ہے وہ دُور چلا گیا ہے۔

غرض ایک عیسائی کے نزدیک دعا بالکل بے سود ہے اور وہ اس پر عمل نہیں کر سکتا۔ اس کے دل میں وہ رقّت اور جوش جو دعا کے لئے حرکت پیدا کرتا ہے نہیں ہو سکتا۔

اسی طرح پر ایک آریہ جوتناسخ کا قائل ہے اور سمجھتا ہے کہ توبہ قبول ہی نہیں ہو سکتی اور کسی طرح پر اس کے گناہ معاف نہیں ہو سکتے وہ دُعا کیوں کرے گا؟ اس نے تو یہ یقین کیا ہوا ہے کہ جُونوں کے چکر میں جانا ضروری ہے اور بیل۔ گھوڑا۔ گدھا۔ گائے۔ کُتّا۔ سؤر وغیرہ بننا ہے۔ وہ اس راہ کی طرف آئے گا ہی نہیں۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ دعا اسلام کا خاص فخر ہے اور مسلمانوں کو اس پر بڑا ناز ہے۔

مگر یہ یاد رکھو کہ یہ دُعا زبانی بک بک کا نام نہیں ہے بلکہ یہ وہ چیز ہے کہ دل خدا تعالیٰ کے خوف سے بھر جاتا ہے اور دعا کرنے والے کی رُوح پانی کی طرح بہہ کر آستانہ الُوہیت پر گرتی ہے اور اپنی کمزوریوں اور لغزشوں کے لئے قوی اور مقتدر خدا سے طاقت اور قوت اور مغفرت چاہتی ہے اور یہ وہ حالت ہے کہ دوسرے الفاظ میں اس کو موت کہہ سکتے ہیں۔ جب یہ حالت میسّر آجاوے تو یقینا سمجھو کہ باب اجابت اس کے لئے کھولا جاتا ہے اور خاص قوت اور فضل اور استقامت بدیوں سے بچنے اور نیکیوں پر استقلال کے لئے عطا ہوتی ہے یہ ذریعہ سب سے بڑھ کر زبردست ہے۔

دعا اور اہل زمانہ

مگر بڑی مشکل یہ ہے کہ لوگ دعا کی حقیقت اور حالت سے محض ناواقف ہیں۔ اور اسی وجہ سے اس زمانہ میں بہت سے لوگ اس سے منکر ہو گئے ہیں کیونکہ وہ ان تاثیرات کو نہیں پاتے اور منکر ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ جو کچھ ہونا ہے وہ تو ہونا ہی ہے۔ پھر دعا کی کیا حاجت ہے۔ مگر میں خوب جانتا ہوں کہ یہ تو نِرا بہانہ ہے انہیں چونکہ دعا کا تجربہ نہیں اس کی تاثیرات پر اطلاع نہیں اس لئے اس طرح کہہ دیتے ہیں۔ ورنہ اگر وہ ایسے ہی متوکل ہیں تو پھر بیمار ہو کر علاج کیوں کرتے ہیں؟ خطرناک امراض میں مبتلا ہوتے ہیں تو طبیب کی طرف دوڑے جاتے ہیں بلکہ میں سچ کہتا ہوں کہ سب سے زیادہ چارہ کرنے والے یہی ہوتے ہیں۔ سیّد احمد خاں بھی دعا کے منکر تھے۔ لیکن جب اُن کا پیشاب بند ہوا تو دہلی سے معالج ڈاکٹر کو بُلایا۔ یہ نہ سمجھ لیا کہ خود بخود ہی پیشاب کھُل جاوے گا۔ حالانکہ وہی خدا ہے جس کے ملکوت میں ظاہری دنیا ہے جبکہ دوسرے اشیاء میں تاثیرات موجود ہیں تو کیا وجہ ہے کہ باطنی دنیا میں تاثیرات نہ ہوں۔ جن میں سے دُعا ایک زبردست چیز ہے۔ یہ سچ ہے کہ خدا تعالیٰ کے قضا و قدر میں سب کچھ ہے مگر کوئی یہ تو بتائے کہ خدا تعالیٰ نے وہ فہرست کس کو دی ہے جس سے معلوم ہو جاوے۔ میں سچ کہتا ہوں کہ ان اسرار پر کوئی فتح نہیں پا سکتا۔ ظاہر میں ہم دیکھتے ہیں کہ ایک شخص قبض سے بیمار ہے تو تربد یا کسٹرائیل جب اس کو دیا جاوے گا تو اسے اسہال آ جاویں گے۔ اور قبض کھُل جائے گی۔ کیا یہ اس امر کا بیّن ثبوت نہیں ہے کہ خدا تعالیٰ نے تاثیرات رکھی ہوئی ہیں۔

اسی طرح پر اَور تدابیر کرنے والے ہیں۔ مثلاً زراعت کرنے والے اور یہی معالجات کرنے والے وہ خوب جانتے ہیں کہ ان تدابیر کی وجہ سے اُنہوں نے فائدہ اٹھایا ہے۔ اور اشیاء میں مختلف اثر دیکھے ہیں۔ پھر جبکہ ان چیزوں میں تاثیرات موجود ہیں تو کیا وجہ ہے کہ دعاؤں میں جو وہ بھی مخفی اسباب اور تدابیر ہیں اثر نہ ہوں؟ اثر ہیں اور ضرور ہیں لیکن تھوڑے لوگ ہیں جو ان تاثیرات سے واقف اور آشنا ہیں اس لئے انکار کر بیٹھتے ہیں۔ میں یقینا جانتا ہوں کہ چونکہ بہت سے لوگ دنیا میں ایسے ہیں جو اس نقطہ سے جہاں دُعا اثر کرتی ہے دُور رہ جاتے ہیں اور وہ تھک کر دُعا چھوڑ دیتے ہیں اور خود ہی یہ نتیجہ نکال لیتے ہیں کہ دعاؤں میں کوئی اثر نہیں ہے میں کہتا ہوں کہ یہ تو اُن کی اپنی غلطی اور کمزوری ہے۔ جب تک کافی وزن نہ ہو خواہ زہر ہو یا تریاق اس کا اثر نہیں ہوتا۔ کسی کو بھوک لگی ہوئی ہو اور وہ چاہے کہ ایک دانہ سے پیٹ بھر لے یا تولہ بھر غذا کھا لے تو کیا ہو سکتاہے کہ وہ سیر ہو جاوے؟ کبھی نہیں۔ اسی طرح جس کو پیاس لگی ہوئی ہے ایک قطرہ پانی سے اس کی پیاس کب بُجھ سکتی ہے۔ بلکہ سیر ہونے کے لئے چاہیئے کہ وہ کافی غذا کھاوے اور پیاس بجھانے کے واسطے لازم ہے کہ کافی پانی پیوے۔ تب جاکر اس کی تسلّی ہو سکتی ہے۔

اسی طرح پر دعا کرتے وقت بے دلی اور گھبراہٹ سے کام نہیں لینا چاہیئے اور جلدی ہی تھک کر نہیں بیٹھنا چاہیئے بلکہ اس وقت تک ہٹنا نہیں چاہیئے جب تک دُعا اپنا پورا اثر نہ دکھائے۔ جو لوگ تھک جاتے اور گھبرا جاتے ہیں وہ غلطی کرتے ہیں۔ کیونکہ یہ محروم رہ جانے کی نشانی ہے۔ میرے نزدیک دعا بہت عمدہ چیز ہے۔ اور میں اپنے تجربہ سے کہتا ہوں خیالی بات نہیں۔ جو مشکل کسی تدبیر سے حل نہ ہوتی ہو۔ اﷲ تعالٰے دُعا کے ذریعہ اُسے آسان کر دیتا ہے۔ میں سچ کہتا ہوں کہ دعا بڑی زبردست اثر والی چیز ہے۔ بیماری سے شفا اس کے ذریعہ ملتی ہے۔ دنیا کی تنگیاں مشکلات اس سے دُور ہوتی ہیں۔ دشمنوں کے منصوبے سے یہ بچا لیتی ہے اور وہ کیا چیز ہے جو دُعا سے حاصل نہیں ہوتی۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ انسان کو پاک یہ کرتی ہے اور خدا تعالٰے پر زندہ ایمان یہ بخشتی ہے۔ گناہ سے نجات دیتی ہے اور نیکیوں پر استقامت اس کے ذریعہ سے آتی ہے۔ بڑا ہی خوش قسمت وہ شخص ہے جس کو دعا پر ایمان ہے کیونکہ وہ اﷲ تعالٰے کی عجیب در عجیب قدرتوں کو دیکھتا ہے اور خدا تعالٰے کو دیکھ کر ایمان لاتا ہے کہ وہ قادر کریم خد اہے۔

اﷲ تعالیٰ نے شروع قرآن ہی میں دُعا سکھائی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ بڑی عظیم الشان اور ضروری چیز ہے۔ اس کے بغیر انسان کچھ بھی نہیں ہو سکتا۔ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے۔ اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ۔ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ۔ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ (الفاتحہ ۲تا۴)۔ اس میں اﷲ تعالٰے کی چار صفات کو جو ام الصفات ہیں بیان فرمایا ہے۔ ربّ العالمین ظاہر کرتا ہے کہ وہ ذرّہ ذرّہ کی ربوبیت کر رہا ہے۔ عالَم اسے کہتے ہیں جس کی خبر مِل سکے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی چیز دُنیا میں ایسی نہیں ہے جس کی ربوبیت نہ کرتا ہو۔ ارواح اجسام وغیرہ سب کی ربوبیت کر رہا ہے۔ وہی ہے جو ہر ایک چیز کے حسب حال اس کی پرورش کرتا ہے۔ جہاں جسم کی پرورش فرماتا ہے وہاں رُوح کی سیری اور تسلّی کے لئے معارف اور حقائق وہی عطا فرماتا ہے۔

پھر فرمایا ہے کہ وہ رحمٰن ہے یعنی اعمال سے بھی پیشتر اس کی رحمتیں موجود ہیں۔ پیدا ہونے سے پہلے ہی زمین، چاند، سورج، ہوا، پانی وغیرہ جس قدر اشیاء انسان کے لئے ضروری ہیں موجود ہوتی ہیں۔

اور پھر وہ اﷲ رحیم ہے یعنی کسی کے نیک اعمال کو ضائع نہیں کرتا بلکہ پاداش عمل دیتا ہے۔

پھر مالک یوم الدین ہے یعنی جزا وہی دیتا ہے اور وہی یوم الجزاء کا مالک ہے۔ اس قدر صفات اﷲ کے بیان کے بعد دعا کی تحریک کی ہے۔ جب انسان اﷲ تعالٰے کی ہستی اور ان صفات پر ایمان لاتا ہے تو خواہ مخواہ رُوح میں ایک جوش اور تحریک ہوتی ہے اور دُعا کے لئے اﷲ تعالٰے کی طرف جھُکتی ہے۔ اس کے بعد اِہۡدِ نَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ کی ہدایت فرمائی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالٰے کی تجلیات اور رحمتوں کے ظہور کے لئے دعا کی بہت بڑی ضرورت ہے۔ اس لئے اس پر ہمیشہ کمر بستہ رہو اور کبھی مت تھکو۔

غرض اصلاح نفس کے لئے اور خاتمہ بالخیر ہونے کے لئے نیکیوں کی توفیق پانے کے واسطے دوسرا پہلو دعا کا ہے۔ اس میں جس قدر توکل اور یقین اﷲ تعالٰے پر کریگا۔ اور اس راہ میں نہ تھکنے والا قدم رکھے گا اسی قدر عمدہ نتائج اور ثمرات ملیں گے۔ تمام مشکلات دُور ہو جائیں گی اور دعا کرنے والا تقویٰ کے اعلیٰ محل پر پہنچ جائے گا۔ یہ بالکل سچی بات ہے کہ جب تک خدا تعالٰے کسی کو پاک نہ کرے کوئی پاک نہیں ہوسکتا نفسانی جذبات پر محض خدا تعالیٰ کے فضل اور جذبہ ہی سے موت آتی ہے اور یہ فضل اور جذبہ دعا ہی سے پیدا ہوتا ہے اور یہ طاقت صرف دعا ہی سے ملتی ہے۔

میں پھر کہتا ہوں کہ مسلمانوں اور خصوصاً ہماری جماعت کو ہرگز ہرگز دعا کی بے قدری نہیں کرنی چاہیئے کیونکہ یہی دعا تو ہے جس پر مسلمانوں کو ناز کرنا چاہیئے۔ اور دوسرے مذاہب کے آگے تو دعا کے لئے گندے پتھر پڑے ہوئے ہیں۔ اور وہ توجہ نہیں کر سکتے۔ میں نے ابھی بیان کیا ہے کہ ایک عیسائی جو خون مسیح پرایمان لا کر سارے گناہوں کو معاف شدہ سمجھتا ہے۔ اسے کیا ضرورت پڑی ہے کہ وہ دعا کرتا رہے۔ اور ایک ہندو جو یقین کرتا ہے کہ توبہ قبول ہی نہیں ہوتی اور تناسخ کے چکر سے رہائی ہی نہیں ہے وہ کیوں دعا کے واسطے ٹکریں مارتا رہے گا وہ تو یقینا سمجھتا ہے کہ کُتّے بلّے۔ بندر۔ سؤر بننے سے چارہ ہی نہیں ہے۔ اس لئے یاد رکھو کہ یہ اسلام کا فخر اور ناز ہے کہ اس میں دعا کی تعلیم ہے اس میں کبھی سُستی نہ کرو اور نہ اس سے تھکو۔

پھر دعا خدا تعالٰے کی ہستی کا زبردست ثبوت ہے چنانچہ خدا تعالٰے ایک جگہ فرماتا ہے۔ وَ اِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیۡ عَنِّیۡ فَاِنِّیۡ قَرِیۡبٌ ؕ اُجِیۡبُ دَعۡوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ ۔ (البقرۃ:۱۸۷) یعنی جب میرے بندے تجھ سے سوال کریں کہ خدا کہاں ہے اور اس کا کیا ثبوت ہے تو کہدو کہ وہ بہت ہی قریب ہے اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ جب کوئی دعا کرنے والا مجھے پکارتا ہے تو میں اسے جواب دیتا ہوں۔ یہ جواب کبھی رؤیا صالحہ کے ذریعہ ملتا ہے اور کبھی کشف اور الہام کے واسطے سے۔ اور علاوہ بریں دعاؤں کے ذریعہ خدا تعالٰے کی قدرتوں اور طاقتوں کا اظہار ہوتا ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایسا قادر ہے کہ مشکلات کو حل کر دیتا ہے۔

غرض دعا بڑی دولت اور طاقت ہے اور قرآن شریف میں جا بجا اس کی ترغیب دی ہے اور ایسے لوگوں کے حالات بھی بتائے ہیں جنہوں نے دُعا کے ذریعہ اپنی مشکلات سے نجات پائی۔ انبیاء علیہم السّلام کی زندگی کی جڑ اور ان کی کامیابیوں کا اصل اور سچا ذریعہ یہی دعا ہے۔ پس میں نصیحت کرتا ہوں کہ اپنی ایمانی اور عملی طاقت کو بڑھانے کے واسطے دعاؤں میں لگے رہو۔ دعاؤں کے ذریعہ سے ایسی تبدیلی ہوگی جو خداتعالیٰ کے فضل سے خاتمہ بالخیر ہو جاوے گا۔

تیسرا پہلو صحبت صادقین ہے  

تیسرا پہلو جو قرآن سے ثابت ہے وہ صحبت صادقین ہے۔ چنانچہ اﷲ تعالٰے فرماتا ہے  کُوۡنُوۡا مَعَ الصّٰدِقِیۡنَ (التوبۃ:۱۱۹) یعنی صادقوں کے ساتھ رہو۔ صادقوں کی صحبت میں ایک خاص اثر ہوتا ہے۔ ان کا نور صدق و استقلال دُوسروں پر اثر ڈالتا ہے اور اُن کی کمزوریوں کو دُور کرنے میں مدد دیتا ہے۔

یہ تین ذریعے ہیں جو ایمان کو شیطان کے حملوں سے محفوظ رکھتے ہیں اور اُسے طاقت دیتے ہیں اور جب تک ان ذرائع سے انسان فائدہ نہیں اُٹھاتا اس وقت تک اندیشہ رہتا ہے کہ شیطان اس پر حملہ کر کے اس کے متاعِ ایمان کو چھین نہ لے جاوے اسی لئے بہت بڑی ضرورت اس امر کی ہے کہ مضبوطی کے ساتھ اپنے قدم کو رکھا جاوے اور ہر طرح سے شیطانی حملوں سے احتیاط کی جاوے۔ جو شخص ان تینوں ہتھیاروں سے اپنے آپ کو مسلح نہیں کرتا ہے مجھے اندیشہ ہے کہ وہ کسی اتفاقی حملہ سے نقصان اُٹھاوے۔

دفعِ شر و کسبِ خیر

لیکن یہ بات یاد رکھو کہ کتابوں میں جب لکھا جاتا ہے کہ بدیاں چھوڑ دو اور نیکیاں کرو تو بعض آدمی اتنا ہی سمجھ لیتے ہیں کہ نیکیوں کا کمال اسی قدر ہے کہ جو مشہور بدیاں ہیں مثلاً چوری، زنا، غیبت، بد دیانتی، بد نظری وغیرہ موٹی موٹی بدیوں سے بچتے ہیں تو اپنے آپ کو سمجھنے لگتے ہیں کہ ہم نے نیکی کے تمام مدارج حاصل کر لئے ہیں اور ہم بھی کچھ ہو گئے ہیں۔ حالانکہ اگر غور کر کے دیکھا جاوے تو یہ کچھ بھی چیز نہیں ہے۔ بہت سے لوگ ایسے ہیں جو چوری نہیں کرتے ہیں۔ بہت سے ایسے ہیں جو ڈاکے نہیں مارتے یا خون نہیں کرتے یا بد نظری یا بدکاری کی بدعادتوں میں مبتلا نہیں ہیں۔ زیادہ سے زیادہ اسے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس نے ترک شر کیا ہے خواہ وہ عدمِ قدرت ہی کی وجہ سے ہو۔ قرآن شریف صرف اتنا ہی نہیں چاہتا کہ انسان ترک شر کرکے سمجھ لے کہ بس اب میں صاحبِ کمال ہو گیا۔ بلکہ وہ تو انسان کو اعلیٰ درجہ کے کمالات اور اخلاق فاضلہ سے متصف کرنا چاہتا ہے کہ اس سے ایسے اعمال و افعال سر زد ہوں جو بنی نوع کی بھلائی اور ہمدردی پر مشتمل ہوں اور اُن کا نتیجہ یہ ہو کہ اﷲ تعالٰے اس سے راضی ہو جاوے۔ میں اس بات کو بار بار کہتا ہوں کہ تم میں سے کوئی اپنی ترقی اور کمال روحانی کی یہی انتہا نہ سمجھ لے کہ میں نے ترکِ بدی کی ہے۔ صرف ترکِ بدی نیکی کے کامِل مفہوم اور منشا کو اپنے اندر نہیں رکھتی۔ بار بار ایسا تصور کرنا کہ میں نے خون نہیں کیا خوبی کی با ت نہیں کیونکہ خون کرنا ہر ایک شخص کا کام نہیں ہے۔ یا یہ کہنا کہ زنا نہیں کیا کیونکہ زنا کرنا تو کنجروں کا کام ہے نہ کہ کسی شریف انسان کا۔ ایسی بدیوں سے پرہیز زیادہ سے زیادہ انسان کو بدمعاشوں کے طبقے سے خارج کردے گا۔ اور اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ مگر وہ جماعت (جس کا ذکر اﷲ تعالیٰ نے قرآن شریف میں کیا ہے کہ انہوں نے ایسے اعمال صالحہ کئے کہ خدا تعالٰے اُن سے راضی ہو گیا اور وہ خداتعالیٰ سے راضی ہو گئے) صرف ترکِ بدی ہی سے نہ بنی تھی۔ انہوں نے اپنی زندگیوں کو خدا تعالٰے کی رضا حاصل کرنے کے لئے ہیچ سمجھا۔ خدا تعالٰے کی مخلوق کو نفع پہنچانے کے واسطے اپنے آرام و آسائش کو ترک کر دیا۔ تب جا کر وہ ان مدارج اور مراتب پر پہنچے کہ آواز آ گئی   رَضِیَ اللّٰہُ عَنۡہُمۡ وَ رَضُوۡا عَنۡہُ  (المائدہ:۱۲۰)۔

مگر میں دیکھتا ہوں کہ اس وقت مسلمانوں کی یہ حالت ہو رہی ہے کہ کسبِ خیر تو بڑی بات ہے اور وہی اصل مقصد ہے لیکن وہ تو ترکِ بدی میں بھی سُست نظر آتے ہیں اور ان کاموں کا تو ذکر ہی کیا ہے جو صلحاء کے کام ہیں۔

پس تمہیں چاہیئے کہ تم ایک ہی بات اپنے لئے کافی نہ سمجھ لو۔ ہاں اوّل بدیوں سے پرہیز کرو۔ اور پھر ان کی بجائے نیکیوں کے حاصل کرنے کے واسطے سعی اور مجاہدہ سے کام لو اور پھر خدا تعالٰے کی توفیق اور اس کا فضل دعا سے مانگو۔ جب تک انسان ان دونو صفات سے متصف نہیں ہوتا یعنی بدیاں چھوڑ کر نیکیاں حاصل نہیں کرتا وہ اس وقت تک مومن نہیں کہلا سکتا۔ مومن کامِل ہی کی تعریف میں تو انعمت علیہم فرمایا گیا ہے اب غور کرو کہ کیا اتنا ہی انعام تھا کہ وہ چوری چکاری رہزنی نہیں کرتے تھے یا اس سےکچھ بڑھ کر مراد ہے؟ نہیں۔ انعمت علیہم میں تو وہ اعلیٰ درجہ کے انعامات رکھے گئے ہیں جو مخاطبہ اور مکالمہ الٰہیہ کہلاتے ہیں۔

اگر اسی قدر مقصود ہوتا جو بعض لوگ سمجھ لیتے ہیں کہ موٹی موٹی بدیوں سے پرہیز کرنا ہی کمال ہے تو انعمت علیہم کی دعا کی تعلیم نہ ہوتی جس کا انتہائی اور آخری مرتبہ اور مقام خدا تعالیٰ کے ساتھ مکالمہ اور مخاطبہ ہے۔ انبیاء علیہم السلام کا اتنا ہی تو کمال نہ تھا۔ کہ وہ چوری چکاری نہ کیا کرتے تھے بلکہ وہ خدا تعالٰے کی محبت، صدق، وفا میں اپنا نظیر نہ رکھتے تھے۔ پس اس دعا کی تعلیم سے یہ سکھایا کہ نیکی اور انعام ایک الگ شئي ہے۔ جب تک انسان اُسے حاصل نہیں کرتا۔ اس وقت تک وہ نیک اور صالح نہیں کہلا سکتا اور منعم علیہ کہ زمرہ میں نہیں آتا۔ اس سے آگے فرمایا غیر المغضوب علیہم ولا الضالین۔ اس مطلب کو قرآن شریف نے دوسرے مقام پر یوں فرمایا ہے کہ مومن کے نفس کی تکمیل دوشربتوں کے پینے سے ہوتی ہے ایک شربت کا نام کافوری ہے اور دوسرے کا نام زنجبیلی ہے کافوری شربت تو یہ ہے کہ اس کے پینے سے نفس بالکل ٹھنڈا ہو جاوے اور بدیوں کے لئے کسی قسم کی حرارت اس میں محسوس نہ ہو۔ جس طرح پر کافور میں یہ خاصہ ہوتا ہے کہ وہ زہریلے مواد کو دبا دیتا ہے۔ اسی لئے اُسے کافور کہتے ہیں۔ اسی طرح پر یہ کافوری شربت گناہ اور بدی کی زہر کو دبا دیتا ہے اور وہ موادِ ردّیہ جو اُٹھ کر انسان کی روح کو ہلاک کرتے ہیں اُن کو اُٹھنے نہیں دیتا بلکہ بے اثر کر دیتا ہے۔ دوسرا شربت شربت زنجبیلی ہے جس کے ذریعہ سے انسان میں نیکیوں کے لئے ایک قوت اور طاقت آتی ہے اور پھر حرارت پیدا ہوتی ہے۔ پس اھدنا الصراط المستقیم صراط الذین انعمت علیہم تو اصل مقصد اور غرض ہے یہ گویا زنجبیلی شربت ہے۔ اور غیر المغضوب علیہم ولا الضالّین کافوری شربت ہے۔

اب ایک اَور مشکل ہے کہ انسان موٹی موٹی بدیوں کو تو آسانی سے چھوڑ بھی دیتا ہے لیکن بعض بدیاں ایسی باریک اور مخفی ہوتی ہیں کہ اوّل تو انسان مشکل سے انہیں معلوم کرتا ہے اور پھر ان کا چھوڑنا اُسے بہت ہی مشکل ہوتا ہے۔ اس کی ایسی ہی مثال ہے کہ محرقہ بھی گوسخت تپ ہے مگر اس کا علاج کھُلا کھُلا ہو سکتا ہے لیکن تپدق جو اندر ہی کھا رہا ہے اس کا علاج بہت ہی مشکل ہے۔ اسی طرح پر یہ باریک اور مخفی بدیاں ہوتی ہیں جو انسان کو فضائل کے حاصل کرنے سے روکتی ہیں۔ یہ اخلاقی بدیاں ہوتی ہیں جو ایک دوسرے کے ساتھ میل ملاپ اور معاملات میں پیش آتی ہیں اور ذرا ذرا سی بات اور اختلاف رائے پر دلوں میں بغض، کینہ، حسد، ریا، تکبر پیدا ہو جاتا ہے اور اپنے بھائی کو حقیر سمجھنے لگتا ہے۔ چند روز اگر نماز سنوار کر پڑھی ہے اور لوگوں نے تعریف کی تو ریا اور نمود پیدا ہو گیا اور وہ اصل غرض جو اخلاص تھی جاتی رہی۔ اور اگر خدا تعالیٰ نے دولت دی ہے یا علم دیا ہے یا کوئی خاندانی وجاہت حاصل ہے تو اس کی وجہ سے اپنے دوسرے بھائی کو جس کو یہ باتیں نہیں ملی ہیں، حقیر اور ذلیل سمجھتا ہے۔ اور اپنے بھائی کی عیب چینی کے لئے حریص ہوتا ہے۔ اور تکبّر مختلف رنگوں میں ہوتا ہے۔ کسی میں کسی رنگ میں اور کسی میں کسی طرح سے۔ علماء علم کے رنگ میں اُسے ظاہر کرتے ہیں اور علمی طور پر نکتہ چینی کر کے اپنے بھائی کو گرانا چاہتے ہیں۔ غرض کسی نہ کسی طرح عیب چینی کرکے اپنے بھائی کو ذلیل کرنا اور نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔ رات دن اس کے عیبوں کی تلاش میں رہتے ہیں اس قسم کی باریک بدیاں ہوتی ہیں۔ جن کا دور کرنا بہت مشکل ہوتا ہے اور شریعت ان باتوں کو جائز نہیں رکھتی ہے۔ ان بدیوں میں عوام ہی مبتلا نہیں ہوتے بلکہ وہ لوگ جومتعارف اور موٹی موٹی بدیاں نہیں کرتے ہیں اور خواص سمجھے جاتے ہیں وہ بھی اکثر مبتلا ہو جاتے ہیں۔ ان سے خلاصی پانا اور مرنا ایک ہی بات ہے۔ اور جب تک ان بدیوں سے نجات حاصل نہ کر لے تزکیۂ نفس کامل طور پر نہیں ہوتا اور انسان ان کمالات اور انعامات کا وارث نہیں بنتا جو تزکیہ نفس کے بعد خدا تعالٰے کی طرف سے آتے ہیں۔ بعض لوگ اپنی جگہ سمجھ لیتے ہیں کہ ان اخلاقی بدیوں سے ہم نے خلاصی پالی ہے۔ لیکن جب کبھی موقعہ آ پڑتا ہے اور کسی سفیہ سے مقابلہ ہو جاوے تو انہیں بڑا جوش آتا ہے اور پھر وہ گند ان سے ظاہر ہوتا ہے جس کا وہم و گمان بھی نہیں ہوتا۔ اس وقت پتہ لگتا ہے کہ ابھی کچھ بھی حاصل نہیں کیا اور وہ تزکیہ نفس جو کامل کرتا ہے میسّر نہیں۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ تزکیہ جس کو اخلاقی تزکیہ کہتے ہیں بہت ہی مشکل ہے۔ اور اﷲ تعالٰے کے فضل کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا۔ اس فضل کے جذب کرنے کے لئے بھی وہی تین پہلو ہیں۔ اوّلؔ مجاہدہ اور تدبیر۔ دومؔ دعا۔ سومؔ صحبت صادقین۔

یہ فضل الٰہی انبیاء علیہم السّلام پر بد رجہ کمال ہوتا ہے کہ اﷲ تعالٰے اوّل اُن کا تزکیہ اخلاقی کامل طور پر خود کر دیتا ہے۔ا ن میں بد اخلاقیوں اور رذائل کی آلائش رہ ہی نہیں جاتی۔ ان کی حالت تو یہانتک پہنچ جاتی ہے کہ سلطنت پا کر بھی وہ فقیر ہی رہتے ہیں۔ اور کسی قسم کا کبر ان کے پاس نہیں آتا۔

درحقیقت یہ گند جو نفس کے جذبات کا ہے اور بداخلاقی۔ کبر۔ ریا وغیرہ صورتوں میں ظاہر ہوتا ہے اس پر موت نہیں آتی جب تک اﷲ تعالٰے کا فضل نہ ہو اور یہ مواد ردّیہ جل نہیں سکتے۔ جب تک معرفت کی آگ اُن کو نہ جلائے۔ جس میں یہ معرفت کی آگ پیدا ہو جاتی ہے وہ ان اخلاقی کمزوریوں سے پاک ہونے لگتا ہے اور بڑا ہو کر بھی اپنے آپ کو چھوٹا سمجھتا ہے اور اپنی ہستی کو کچھ حقیقت نہیں پاتا۔ وہ اس نور اور روشنی کو جو انوار معرفت سے اُسے ملتی ہے اپنی کسی قابلیت اور خوبی کا نتیجہ نہیں مانتا اور نہ اسے اپنے نفس کی طرف منسوب کرتا ہے بلکہ وہ اُسے خدا تعالیٰ ہی کافضل اور رحم یقین کرتا ہے جیسے ایک دیوار پر آفتاب کی روشنی اور دھوپ پڑ کر اُسے منور کر دیتی ہے لیکن دیوار اپنا کوئی فخر نہیں کر سکتی کہ یہ روشنی میری قابلیت کی وجہ سے ہے۔ یہ ایک دوسری بات ہے کہ جس قدر وہ دیوار صاف ہوگی اسی قدر روشنی زیادہ صاف ہو گی۔ لیکن کسی حال میں دیوار کی ذاتی قابلیت اس روشنی کے لئے کوئی نہیں بلکہ اس کا فخر آفتاب کو ہے اور ایسا ہی وہ آفتاب کو یہ بھی نہیں کہہ سکتی کہ تو اس روشنی کو اُٹھا لے۔ اسی طرح پر انبیاء علیہم السلام کے نفوس صافیہ ہوتے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ کے فیضان اور فیوض سے معرفت کے انوار ان پر پڑتے ہیں اور ان کو روشن کر دیتے ہیں اسی لئے وہ ذاتی طور پر کوئی دعویٰ نہیں کرتے بلکہ ہر ایک فیض کو اﷲ تعالٰے ہی کی طرف منسوب کرتے ہیں اور یہی سچ بھی ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب آنحضرت صلے ﷲ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کیا آپ اعمال سے داخل جنت ہوں گے تو یہی فرمایا کہ ہرگز نہیں  خدا تعالیٰ کے فضل سے۔ انبیاء علیہم السلام کبھی کسی قوت اور طاقت کو اپنی طرف منسوب نہیں کرتے وہ خدا ہی سے پاتے ہیں اور اسی کا نام لیتے ہیں۔

ہاں ایسے لوگ ہیں جو انبیاء علیہم السلام سے حالانکہ کروڑوں حصہ نیچے کے درجہ میں ہوتے ہیں جو دو دن نماز پڑھ کر تکبر کرنے لگتے ہیں اور ایسا ہی روزہ اور حج سے بجائے تزکیہ کے ان میں تکبر اور نمود پیدا ہوتی ہے۔ یاد رکھو تکبر شیطان سے آیا ہے اور شیطان بنا دیتا ہے۔ جب تک انسان اس سے دور نہ ہو۔ یہ قبول حق اور فیضانِ الُوہیت کی راہ میں روک ہو جاتا ہے کسی طرح سے بھی تکبر نہیں کرنا چاہیئے نہ علم کے لحاظ سے نہ دولت کے لحاظ سے نہ وجاہت کے لحاظ سے نہ ذات اور خاندان اور حسب نسب کی وجہ سے۔ کیونکہ زیادہ تر انہیں باتوں سے یہ تکبر پیدا ہوتا ہے اور جب تک انسان ان گھمنڈوں سے اپنے آپ کو پاک صاف نہ کرے گا۔ اس وقت تک وہ خدا تعالیٰ کے نزدیک برگزیدہ نہیں ہو سکتا اور وہ معرفت جو جذبات کے مواد ردّیہ کو جلا دیتی ہے اس کو عطا نہیں ہوتی کیونکہ یہ شیطان کا حصہ ہے اس کو اﷲ تعالیٰ پسند نہیں کرتا۔ شیطان نے بھی تکبر کیا تھا اور آدم سے اپنے آپ کو بہتر سمجھا اور کہدیا۔ اَنَا خَیۡرٌ مِّنۡہُ ۚ خَلَقۡتَنِیۡ مِنۡ نَّارٍ وَّ خَلَقۡتَہٗ مِنۡ طِیۡنٍ (الاعراف:۱۳)۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ یہ خدا تعالیٰ کے حضور سے مردود ہو گیا اور آدم لغزش پر (چونکہ اسے معرفت دی گئی تھی) اپنی کمزوری کا اعتراف کرنے لگا۔ اور خداتعالٰے کے فضل کا وارث ہوا۔ وہ جانتے تھے کہ خدا تعالٰے کے فضل کے بغیر کچھ نہیں ہوسکتا اس لئے دُعا کی رَبَّنَا ظَلَمۡنَاۤ اَنۡفُسَنَا ٜ وَ اِنۡ لَّمۡ تَغۡفِرۡ لَنَا وَ تَرۡحَمۡنَا لَنَکُوۡنَنَّ مِنَ الۡخٰسِرِیۡنَ  (الاعراف:۲۴) یہی وہ سِرّ ہے جو حضرت عیسٰی علیہ السلام کو کہا گیا کہ اے نیک اُستاد۔ تو اُنہوں نے کہا کہ تو مجھے نیک کیوں کہتا ہے۔ اس پرآج کل کے نادان عیسائی تو یہ کہتے ہیں کہ ان کا مطلب اس فقرہ سے یہ تھا کہ تو مجھے خدا کیوں نہیں کہتا۔ حالانکہ حضرت مسیح نے بہت ہی لطیف بات کہی تھی جو انبیاء علیہم السلام کی فطرت کا خاصہ ہے۔ وہ جانتے تھے کہ حقیقی نیکی تو خدا تعالٰے ہی سے آتی ہے۔ وہی اس کا چشمہ ہے اور وہیں سے وہ اُترتی ہے۔ وہ جس کو چاہے عطا کرے اور جب چاہے سلب کرلے۔ مگر ان نادانوں نے ایک عمدہ اور قابلِ قدر بات کو معیوب بنا دیا اور حضرت عیسٰی کو متکبّر ثابت کیا حالانکہ وہ ایک منکسر المزاج انسان تھے۔

پاک ہونے کا ایک طریق

پس میرے نزدیک پاک ہونے کا یہ عمدہ طریق ہے اور ممکن نہیں کہ اس سے بہتر کوئی اور طریق مل سکے کہ انسان کسی قسم کا تکبر اور فخر نہ کرے نہ علمی، نہ خاندانی، نہ مالی۔ جب خدا تعالٰے کسی کو آنکھ عطا کرتا ہے تو وہ دیکھ لیتا ہے کہ ہر ایک روشنی جو ان ظلمتوں سے نجات دے سکتی ہے وہ آسمان سے ہی آتی ہے اور انسان ہر وقت آسمانی روشنی کا محتاج ہے آنکھ بھی دیکھ نہیں سکتی جب تک سُورج کی روشنی جو آسمان سے آتی ہے نہ آئے۔ اسی طرح باطنی روشنی جو ہر ایک قسم کی ظُلمت کو دُور کرتی ہے اور اس کی بجائے تقویٰ اور طہارت کا نور پیدا کرتی ہے آسمان ہی سے آتی ہے۔ میں سچ سچ کہتا ہوں کہ انسان کا تقویٰ، ایمان، عبادت، طہارت سب کچھ آسمان سے آتا ہے۔ اور یہ خدا تعالیٰ کے فضل پر موقوف ہے وہ چاہے تو اس کو قائم رکھے اور چاہے تو دور کردے۔

پس سچی معرفت اسی کا نام ہے کہ انسان اپنے نفس کو مسلوب اور لاشیٔ محض سمجھے۔ اور آستانۂ الوہیت پر گر کر انکسار اور عجز کے ساتھ خدا تعالیٰ کے فضل کو طلب کرے۔ اور اس نور معرفت کو مانگے جو جذباتِ نفس کو جلا دیتا ہے اور اندر ایک روشنی اور نیکیوں کے لئے قوت اور حرارت پیدا کرتا ہے۔ پھر اگر اس کے فضل سے اس کو حصہ مل جاوے اور کسی وقت کسی قسم کا بسط اور شرح صدر حاصل ہو جاوے تو اس پر تکبّر اور ناز نہ کرے بلکہ اس کی فروتنی اور انکسار میں اَور بھی ترقی ہو۔ کیونکہ جس قدر وہ اپنے آپ کو لاشئی سمجھے گا اسی قدر کیفیات اور انوار خدا تعالیٰ سے اُتریں گے جو اس کو روشنی اور قوت پہنچائیں گے۔ اگر انسان یہ عقیدہ رکھے گا تو امید ہے کہ اﷲ تعالیٰ کے فضل سے اُس کی اخلاقی حالت عمدہ ہو جائے گی۔ دنیا میں اپنے آپ کو کچھ سمجھنا بھی تکبّر ہے اور یہی حالت بنا دیتا ہے۔ پھر انسان کی یہ حالت ہو جاتی ہے کہ دوسرے پر لعنت کرتا ہے اور اُسے حقیر سمجھتا ہے۔

میں یہ سب باتیں بار بار اس لئے کہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے جو اس جماعت کو بنانا چاہا ہے تو اس سے یہی غرض رکھی ہے کہ وہ حقیقی معرفت جو دنیا میں گُم ہو چکی ہے اور وہ حقیقی تقویٰ و طہارت جو اس زمانہ میں پائی نہیں جاتی۔اسے دوبارہ قائم کرے۔

عام طور پر تکبّر دنیا میں پھیلا ہوا ہے۔ علماء اپنے علم کی شیخی اور تکبّر میں گرفتار ہیں۔ فقراء کو دیکھو تو ان کی بھی حالت اور ہی قسم کی ہو رہی ہے۔ ان کو اصلاح نفس سے کوئی کام ہی نہیں رہا۔ ان کی غرض و غایت صرف جسم تک محدود ہے۔ اس لئے اُن کے مجاہدے اور ریاضتیں بھی کچھ اور ہی قسم کی ہیں جیسے ذکر ارّہ وغیرہ۔ جن کا چشمہ نبوت سے پتہ نہیں چلتا۔ میں دیکھتا ہوں کہ دل کو پاک کرنے کی طرف ان کی توجہ ہی نہیں۔ صرف جسم ہی جسم باقی رہا ہوا ہے۔ جس میں رُوحانیت کا کوئی نام و نشان نہیں۔ یہ مجاہدے دل کو پاک نہیں کر سکتے اور نہ کوئی حقیقی نور معرفت کا بخش سکتے ہیں۔ پس یہ زمانہ اب بالکل خالی ہے۔ نبوی طریق جیسا کہ کرنے کا تھا وہ بالکل ترک کر دیا گیا ہے اور اس کو بھُلا دیا ہے۔ اب اﷲ تعالیٰ چاہتا ہے کہ وہ عہد نبوت پھر آ جاوے اور تقویٰ اور طہارت پھر قائم ہو۔ اور اس کو اس نے اس جماعت کے ذریعہ چاہا ہے۔

پس فرض ہے کہ حقیقی اصلاح کی طرف تم توجہ کرو اسی طرح پر جس طرح پر آنحضرت صلے اﷲ علیہ وسلم نے اصلاح کا طریق بتایا ہے۔

(ملفوظات جلد ۷، صفحہ ۲۵۴ تا  ۲۸۶، ایڈیشن ۱۹۸۴ء)