جدید عرب لٹریچر میں احمدیت کا عکس جمیل

مولانا دوست محمد شاہد، مؤرخ احمدیت

حضرت مؤسس الجماعۃ الاحمدیہ مسیح موعود و مہدی مسعود ؑ چونکہ رسول عربی ﷺ کے بینظیر عاشق تھے اسی لئے اہل عرب سے آپ کی محبت و شیفتگی بھی والہانہ اور مثالی رنگ رکھتی تھی جس کا کسی قدر اندازہ مشائخ العرب اور صلحائے عرب کے نام آپ کے پہلے عربی مکتوب سے بھی لگ سکتا ہے جو آپ نے ۱۸۹۳ء میں تحریر فرمایا۔ یہ مکتوب ’’ آئینہ کمالات اسلام‘‘ میں طبع شدہ ہے اور جو درج ذیل عقیدت بھرے الفاظ سے شروع ہوتا ہے:

’’السلام علیکم ایھا الاتقیاء الاصفیاء من العرب العرباء۔ السلام علیکم یا ا ھل أرض النبوۃ و جیران بیت اللہ العظمیٰ ۔انتم خیر امم الاسلام و خیر حزب اللہ الاعلیٰ ۔ ما کان لقوم ان یبلغ شانکم ۔ قد زدتم شرفا و مجداً و منزلاً‘‘۔(آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن صفحہ ۴۱۹ ، ۴۲۰)

السلام علیکم!! یا عرب عربا کے برگزیدہ اتقیاء ۔ السلام علیکم !! اے ارض نبوت کے مکینو اور اللہ کے عظیم گھر کے زیر سایہ رہنے والو۔ تم امم اسلامیہ میں بہترین اور اللہ تعالیٰ کے بہترین گروہ ہو۔ کسی قوم کی مجال نہیں کہ تمہاری شان تک رسائی پا سکے۔ تم شرف مجد اور منزلت میں سب سے بڑھ کر ہو۔

دعویٰ مسیحیت کے اس ابتدائی زمانہ میں حضرت اقدس ؑ نے قادیان سے ایک شامی بزرگ حضرت محمد سعیدی انشار الحمیدی کو دیار عرب میں اپنی کتابوں کی اشاعت اور تبلیغ احمدیت کے لئے سفیر بھجوایا تو آپ کو اس میں ذرہ برابر شک نہیں تھا کہ سنت اللہ کے مطابق عرب علماء خصوصاً اہل بادیہ کو آپ کی تحریرات بہت ناگوار خاطر ہونگی کیونکہ وہ باریک مسائل سے بے خبر ہیں ۔مگر اس کے ساتھ ہی آپ اس یقین سے بھی لبریز تھے کہ اہل عرب حق کی آواز پر ضرور کان دھریں گے۔ چنانچہ فرمایا:

’’ ان العربین سابقون فی قبول الحق من الزمان القدیم بل ھم کالاصل فی ذٰلک وغیرھم اغصانھم ۔ ثم نقول ان ھذا فعل اللہ رحمۃ منہ والعرب الحق و اولیٰ و اقرب برحمتہ و انی اجد ریح فضل اللہ فلا تتکلموا بکلمات الیأس ولا تکونوا من القانطین‘‘۔ (نورالحق روحانی حزائن جلد ؟صفحہ ۲۶)

یعنی عرب کے لوگ حق کے قبول کرنے میں ہمیشہ اور قدیم زمانہ سے پیش دست رہے ہیں بلکہ وہ اس بات میں جڑ کی طرح ہیں اور دوسرے ان کی شاخیں ہیں پھر ہم کہتے ہیں کہ یہ ہمارا کاروبار خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک رحمت ہے۔ اور عرب کے لوگ الٰہی رحمت کے قبول کرنے کے لئے سب سے زیادہ حقدار اورقریب اور نزدیک ہیں اور مجھے خدا تعالیٰ کے فضل کی خوشبو آ رہی ہے۔ سو تم نوامید ی کی باتیں مت کرو اور ناامیدوں میں سے مت ہو جاؤ۔

اس عظیم الشان پیشگوئی کے بعد حق تعالیٰ نے نہ صرف شام میں آپ کیلئے شب و روز دعائیں کرنے والے ابدال پیدا کر دئے ہیں بلکہ فلسطین ، مصر، عراق، اردن اور دوسرے بلاد عربیہ میں بھی آپ کی دعوت اسلام پر لبیک کہنے والوں کی ایک خاص تعداد پائی جاتی ہے۔ سیدنا حضرت مسیح موعود ؑ فرماتے ہیں:

’’سچائی اول چھوٹے سے تخم کی طرح آتی ہے اور پھر رفتہ رفتہ ایک عظیم الشان درخت بن جاتا ہے۔ وہ پھل اور پھول لاتا ہے اورحق جوئی کے پرندے اس میں آرام کرتے ہیں‘‘۔ (الحکم ۱۰؍مارچ ۱۹۰۱ء صفحہ ۱۴)

اس پس منظر میں اب یہ بتانا مقصود ہے کہ احمدیت کے علم کلام نے دنیائے عرب پر کیااثرات ڈالے ہیں اور اس کے چوٹی کے علمی حلقوں میں اس کی کس شان سے پذیرائی ہوئی ہے۔ اس ضمن میں نمونۃً صرف مندرجہ ذیل پانچ ممالک کے جدید لٹریچر کا ذکر کیا جاتا ہے۔ جو زیادہ تر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلیفہ رابع سیدنا حضرت مرزا طاہر احمد رحمہ اللہ تعالیٰ کے مبارک دور میں منظر عام پر آیا۔

مصر:

موازنہ مذاہب کے مشہور مصری سکالر المستشار محمد عزت الطہطاوی کے قلم سے ایک رسالہ ’’ النصرانیہ والاسلام‘‘ مکتبہ النور مصر جدید نے ۱۴۰۷ھ/ ۱۹۸۷ء میں شائع کیا جس کے صفحہ ۲۰۶ سے ۲۱۱ میں الاستاذ محمد عبدہ ، فضیلۃ الاستاذ شیخ محمد ابو زھرۃ، الاستاذ الاکبر الشیخ محمود شلتوت سابق شیخ الازھر ،الاستاذ عبدالرحیم فودۃ، الاستاذ حسن الزمزمی، الاستاذ امین عز العرب جیسے اکابر علماء کی وفات مسیح کے بارہ میں آراء و نظریات کا مفصل تذکرہ کیا گیا ہے۔ اوران میں یہ واضح تصریح ہے کہ قرآن مجید میں نہ تومسیح کے بجسم عنصری آسمان پر زندہ جانے کی کوئی نص موجود ہے نہ دوبارہ آنے کی ۔نیز یہ کہ نزول عیسیٰ سے متعلق احادیث محض احاد ہیں۔ رفع کے معنی بلندی درجات کے ہیں۔ اورامت محمدیہ کو حضرت عیسیٰ یا گزشتہ نبیوں میں سے کسی نبی کے دوبارہ آنے کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔

جنوری ۱۹۵۸ء سے سیدناحضرت مصلح موعود ؓ کی اس حیرت انگیز تحقیق نے عیسائی حلقوں میں تہلکہ مچا رکھا ہے کہ قرآنی نظریہ کے مطابق حضرت مسیح علیہ السلام کی ولادت ہر گز دسمبر میں نہیں ہوئی بلکہ کھجور پکنے کے مہینوں میں ہوئی ۔ ( تفسیر کبیر سورہ مریم زیر آیت ’ھزی الیک بجزع النخلۃ)

السید محمد عزت الطہطہاوی نے اپنی اسی کتاب کے صفحہ ۲۴۱ تا ۲۴۷ میں اس نظریہ کی تائید کر کے عیسائیت پر ضرب کاری لگائی ہے۔

لبنان:

۱۔۔۔ ۱۴۰۱ھ مطابق ۱۹۸۱ء میں بیروت کے مشہور اشاعتی ادارہ ’’ دار و مکتبہ ھلال‘‘ کے زیر انتظام فاضل عرب ادیب جناب احمد حامد کی ایک اہم کتاب چھپی ہے جس کا نام ہے ’’ھکذا دخل الاسلام ۳۶ دولۃ‘‘ یعنی اس طرح ۳۶ ممالک میں اسلام داخل ہوا۔

ا س گرانقدر کتاب کے صفحہ ۱۵۹ ، ۱۶۰ پر حضرت مسیح موعود ؑ کے ذریعہ مسلمان ہونے والے پہلے امریکی باشندے مسٹر الیگزینڈر ویب کا تذکرہ کیا گیا ہے۔

علاوہ ازیں جماعت احمدیہ کی تبلیغی مساعی کے ضمن میں حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال، خواجہ کما ل الدین صاحب، چوہدری عبداللطیف صاحب مبلغ جرمنی نیز یورپ میں جماعت احمدیہ کی مساجد مسجد فضل لندن، مسجد برلن، مسجد ہیمبرگ کا تذکرہ بھی موجود ہے۔ (ملاحظہ ہو صفحہ ۴۸،۴۹، ۱۷۶،۱۷۷،۱۷۹)

۲۔۔۔ بیروت کے ’’ دارالافاق الجدیدۃ‘‘ نے ۱۴۰۳ھ مطابق ۱۹۸۳ء میں ’’ المستشرقون و ترجمۃ القرآن الکریم‘‘ کے نام سے بڑی تقطیع کے ۲۴۰ صفحات پر مشتمل ایک کتاب سپرد اشاعت کی ہے جو الدکتور محمد صالح البُنداق کی شب و روز کی کاوش و محنت کا ثمر اور تحقیق کا شاہکار ہے۔ فاضل مؤلف نے اس کتاب میں بڑ ی فراخدلی سے احمدیوں کے اسپرنٹو، ڈینش، فرانسیسی، انگریزی اور اٹالین زبان میں تراجم قرآن کو شامل فہرست کیا ہے۔

۳۔۔۔۱۹۸۴ء میں السید محمد سعید العشماوی کی کتاب ’’ الوطن الجدید‘‘ بیروت کے زیر انتظام چھپی ہے ۔ اس کتاب کے صفحہ ۵۱ پر اعتراف کیا گیا ہے کہ دنیا میں حکومت الٰہیہ کے قیام کا تصور نبی یا رسول کے بغیر ہرگز ممکن نہیں۔ صفحہ ۱۴۱ پر آنحضرت ﷺ کی یہ حدیث درج کی گئی ہے کہ میری امت ۷۳ فرقوں میں بٹ جائے گی اور ان میں سے صرف اور صرف ایک ناجی ہوگا۔ مؤلف کتاب ا س حدیث کے عملی ظہور کا ذکر کرتے ہوئے رقمطراز ہیں:

’’ و معنی ذٰلک ان النبی قد أخبر أن المؤمنین من أمتہ سوف یتفرقون فرقا عدیدۃ۔ (ولفظ السبعین للتدلیل علی معنی الکثرۃ لا للحصر والتحدید) لا تنجو من ھذہ الفرق کلھا الا فرقۃ واحدۃ ، أما الفرق الأخری فغیر ناجیۃ ولا ناج اتباعھا لضلالھم عن الحق و زیوغھم عن الصواب وحیودھم عن الأصول۔ وھؤلاء الضالین الزائغین الحائرین لیسوا مسلمین ، ولا یمکن أن یکونوا مسلمین حتی وان کانوا أکثر الأمۃ أو زعموا ذٰلک۔ فلیس الأمر اسما أو صفۃ یطلقھا شخص أو جماعۃ علی أنفسھم ، و انما العبرۃ بواقع الحال و صحیح الأمور۔ فالاسلام واقع یتطلب شروطا معینۃ حتی یتحقق و یکون الشخص مسلما حقیقۃ عنداللہ و فی الفھم السدید۔ و ان کثیرا من الفرق فی أمۃ محمد و کثیرا من الأفراد فی ھذہ الأمۃ غیر مسلمین حقیقۃ، ولا یمکن أن یعودوا إلی الاسلام عودا سلیما الا أن ینقوا ضمائرھم ویفتحوا عقولھم و یزکوا أنفسھم حتی یقبلوا الحق و یفھموا الصواب و یتبعوا سبیل الرشاد‘‘۔

کویت:

کویت کی ’’جمعیۃ التراث الاسلامی‘‘ نے جنوری ۱۹۸۴ء میں ’’Christian-Muslim Dialogue‘‘ شائع کی ہے جس میں مسیحی اور مسلمان کے مکالمہ کی صورت میں عیسائیت کو بے نقاب کرنے کی نہایت عمدہ کوشش کی گئی ہے۔ چنانچہ کتاب کے صفحہ ۲۸ سے ۳۰ پر جماعت احمدیہ کے مخصوص علم کلام کی روشنی میں اس نظریہ پر بڑی تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے کہ حضرت مسیح صلیب سے زندہ بچ گئے تھے لہذا ان کے خون سے گنہگاروں کی نجات کا فلسفہ سراسر باطل ہے ۔

اس اہم انگریزی کتاب کے دو ضروری اقتباس ہدیہ قارئین ہیں:

” Suffering is often exaggerted in the Bible and termed “dead” as Paul said (1 Corinthians 15:31) : ” I protest by your rejoicing which I have in Christ, I die daily” (i.e. I suffer daily). Here are some of the proofs:1. On the cross he beseeched God for help (Matthew 27:46) : “My God, my God, why hast thou forsaken me?” And in Luke 22:42: “saying Father if thou be willing, remove this cup from me: neverthless not my will, but thine, be done.” (This cup is the cup of death).

2.”Jesus’ prayer not to die on the cross was accepted by God,according to Luke, Hebrews & James. Then how could he still die on the cross? . And there appeared an angel unto him from heaven, strengthening him.” It means that an angel assured him that God would not leave him helpless. (Hebrew 5:7): “Who in the days of his flesh, when he (Jesus) had offered up prayers and supplications with strong crying and tears unto him That was able to save him from death , and was heard in that he feared”.

Jesus’ prayers were here heared , which means answered in a positive way by God (James 5:16): .”….. The effectual fervent prayer of a righteous man availeth much.” Jesus himself said (Matthew 7:7-10): “Ask, and it shall be given you; seek, and ye shall find; knock, and it shall be opened unto you; For every one that asketh receiveth; and he that seeketh findeth, and to him who knocketh it shall be opened. Or what man is there of you, whome if his son ask bread, will he give him a stone? Or if he ask a fish, will he give him a serpent? “If all Jesus’ prayer were accepted by God, including not to die on the cross, how could he still die on the cross then?

3. His legs were not broken by the Roman soldiers (John 19:32-33): “Then came the soldiers, and brake the legs of the first, and of the other which was crucified with him. But when they came to Jesus, and saw that he was dead already, thay break not his legs.” Can you rely on these soldiers for pronouncing the death, or did they want to save Jesus as they found him innocent?

4. If Jesus died on the cross, his blood would clot and no blood would gush out of his body when his side was pierced. But the Gospel states that blood and water came out; (John 19:34): “But one of the soldiers with a spear pierced his side , and forthwith came there out blood and water”.

5. When the Pharisees asked Jesus for a sign of his true mission he answered (Matthew 12:40): “For as Jonas was three days and three nights in the whale’s belly, so shall the Son of man be three days and three nights in the heart of the earth.” Disregard now the time factor, which was also not three days and three nights but one day (Saturday, daytime only) and two nights (Friday night and Saturday night). Was Jonas alive in the belly of the whale?”

(2)

“Then Jesus was still alive as he prophesied.

6. Jesus himself stated that he didn’t die on the cross. Early Sunday morning Mary Magdalene went to the sepulchre, which was empty. She saw somebody standing who looked like a gardener. She recognized him after conversation to be Jesus and wanted to touch him. Jesus said (John 20:17): “Touch me not; for I am not yet ascended to my Father ……”, “Touch me not” , perhaps because the fresh wound would hurt him. “I am not yet ascended to my Father,” means that he was still alive, not dead yet, because if somebody dies, then he goes back to the Creator. This was the strongest proof admitted by Jesus himself”.

(صفحہ نمبر ۲۸، ۲۹)

اردن:

۱۴۰۱ھ یعنی پندرھویں صدی ہجری کے آغاز میں المکتبہ الاسلامیہ عمان نے السیدمحمد ابراہیم حجاج کی کتاب ’’مختصراثبات نبوۃ محمد ﷺ‘‘ شائع کر کے ایک قابل تعریف دینی خدمت انجام دی۔ اس کتاب کی ایک بھاری خصوصیت یہ ہے کہ اس میں اثبات نبوت کے لئے صداقت و حقانیت کے ان دو قرآنی معیاروں کو خاص طورپر پیش کیا گیا ہے جن کو احمدی علم کلام میں ہمیشہ کلیدی اور بنیادی حیثیت رہی ہے یعنی پہلا معیار آیت لقد لبثت فیکم عمراً۔۔۔۔۔۔الخ (سور ہ یونس: ۱۷)۔ دوسرا معیار آیت ’’ لوتقول علینا بعض الاقاویل ۔۔۔ الخ‘‘( الحاقہ : ۴۵ تا ۴۷) ۔

پہلے معیار کا ذکر کتاب کے صفحہ ۱۹ ، ۲۰ پر اور دوسرے معیار کا ذکر صفحہ ۱۰ تا ۱۳ میں کیا گیا ہے۔ مؤلف کتاب نے دوسرے معیار (لوتقول علینا بعض الاقاویل) کے ضمن میں زور دار الفاظ میں لکھا ہے:

’’فہذا برہان علی صحۃ نبوۃ محمد ﷺ وصدقہ، لأنہ لو لم یکن صادقا لقتلہ اللہ ومن تبعہ ولأہلک أمرہ وانتقضہ. ولأباد ذکرہ وجعلہ یتلاشی کالدخان ویفنیٗ، ولکن اللہ تعالی أخضع لہ الدنیا وأہلک أعداۂ، وعصمہ من قریش والیہود والمنافقین فلم یستطیعوا قتلہ أو مواجہۃ دعوتہ مع کثرۃ المکائد.

وکما قال الإمام ابن القیم رحمہ اللہ:’’وہذا تصریح بصحۃ نبوۃ محمدﷺ ۔فإن الذین اتبعوہ بعد موتہ أضعاف أضعاف الذین اتبعوہ فی حیاتہ، وہذہ دعوتہ قد مرت علیہا القرون من السنین وہی باقیۃ مستمرۃ وکذلک إلی آخر الدہر، ولم یقع ذلک لملک قط فضلا عن کذاب مفتر علی اللہ وأنبیاۂ مفسد للعالم مغیر لدعوۃ الرسل، ومن ظن ہذا باللہ فقد ظن بہ أسوأ الظن وقدح فی علمہ وقدرتہ وحکمتہ‘‘. (ہدایۃ الحیاری ص ۸۷)

حضرت امام ابن قیم (متوفی ۷۵۱ھ) کی مذکورہ کتاب کا مکمل نام ہے۔، ھدایہ الحیاری فی اجوبۃ الیہود والنصاریٰ‘‘(کشف الظنون عن اسامی الکتب والفنون‘‘ جلد ۲ صفحہ ۲۰۳۰ از علامہ کاتب چلپی ناشر نور محمد کارخانہ کتب کراچی)۔ یہ حوالہ نہایت قیمتی ہے جو پہلی مرتبہ اس کتاب کے ذریعہ سے ہی ہمارے مطالعہ میں آیا ہے۔

سعودی عرب:

مملکۃ العربیہ السعودیہ کے محکمہ افتاء والبحوث العلمیہ والدعوۃ والارشاد‘‘ نے ۱۴۰۱ھ میں حسب ذیل نام سے ایک کتاب شائع کی: “Islam the Religion of Truth”۔ اس کتاب میں حدیث نبوی ’’ ستفترق امتی‘‘ کی بناء پر واضح طور پر دعویٰ کیا گیا ہے کہ اگرچہ آج کروڑوں مسلمان پائے جاتے ہیں لیکن حقیقی مسلمان صرف ایک فرقہ ہے۔ چنانچہ لکھا ہے:

“Although Muslims are great in number, yet a little of them are true Muslims. There are 73 Muslim sects with hundred millions of followers, only one of these sects are true Muslims. Those are the one who follow the way of prophet Muhammad (May peace & blessings of Allah be on him) , and the way of his faithfull Companions, both in matters of faith, and good behaviour. Boukhariy and Muslim related that the prophet, may peace and blessings of Allah be on him had said: “The Jews had split into 71 sects, the Christians had dispersed into 72 sects, and this nation (The Muslim nation) will disperse into 73 sects, all of them will dwell in Hell-Fire, except one” When the conpanions asked the prophet, (may peace and blessings of Allah be on him), about the group that will be delivered , he said,”It is the group that will follow my way and my companion’s way”.

سوال یہ ہے کہ وہ حقیقی مسلمان فرقہ کون سا ہے؟ اور اس کی علامات کیا ہیں؟ اس کا جواب دارالحدیث مکہ معظمہ کے فاضل استاذ جناب محمد جمیل زینو نے اپنی کتاب ’’منھاج الفرقۃ الناجیۃ‘‘ میں دیا ہے جو کچھ عرصہ قبل ’’ ریاض‘‘ سے اشاعت پذیر ہوئی ہے اور جناب محمد جمیل زینو کتاب کے صفحہ ۱۷ پر تحریر فرماتے ہیں:

علامۃ الفرقۃ الناجیۃ

۱۔۔۔ الفرقۃ الناجیۃ ھم قلۃ بین الناس، دعا لھم الرسول ﷺ بقولہ: طوبی للغرباء : أناس صالحون فی أناس سوء کثیر۔ من یعصیھم اکثر ممن یطیعھم۔‘‘ ’’صحیح رواہ أحمد‘‘۔ ولقد أخبر عنھم القرآن الکریم فقال ما دحاً لھم:

’’وقلیل من عبادی الشکور ‘‘۔( سورہ سبأ)

۲۔۔۔۔ الفرقۃ الناجیۃ یعادیھم الکثیر من الناس ویفترون علیھم، و ینابزونہم الألقاب، و لھم أسوۃ بالأنبیاء الذین قال اللہ عنھم: وکذٰلک جعلنا لکل نبیّ عدواً شیاطین الإنس والجن۔ یوحی بعضھم الی بعض زخرف القول غروراً۔ ( سورہ الانعام) وھذا رسول اللہ ﷺ قال عنہ قومہ (ساحر کذاب) حینما دعاھم إلی التوحید۔ وکانوا قبل ذلک یسمونہ الصادق الامین‘‘

خلاصہ اس عبارت کا یہ ہے کہ فرقہ ناجیہ کی پہلی علامت یہ ہے کہ وہ دوسرے کثیرالتعداد مسلمانوں کے مقابل اقلیت میں ہے۔ انہی کو آنحضرت ﷺ نے ’’طوبی للغرباء‘‘ کی بشارت دی ہے اور قرآن نے ’’ قلیل من عبادی الشکور‘‘ (سورہ سباء) کے الفاظ میں انکی تعریف و توصیف فرمائی ہے۔ دوسری علامت فرقہ ناجیہ کی یہ ہے کہ اکثر اس سے عداوت رکھتے، انکے خلاف افتراء پردازی کرتے اور برے برے القاب سے یاد کرتے ہیں۔

یہ دونوں علامات جس صراحت کے ساتھ آج جماعت احمدیہ پر چسپاں ہوتی ہیں وہ کسی تشریح کی محتاج نہیں۔ کیونکہ خود سعودی عرب کی ۱۹۷۴ء سے اب تک کی سرکاری پالیسی اس پر شاہد ناطق ہے۔

جناب الٰہی میں التجا

بالآخر دعا ہے کہ عرب وعجم کے تمام مسلم ممالک جنہیں محبوب کبریا حضرت محمد مصطفی ﷺ کی طرف نسبت غلامی کا قابل فخر اعزاز حاصل ہے جلد از جلد کاسر صلیب کے علمی ہتھیاروں سے مسلح ہو کر اس آسمانی فوج میں شامل ہو جائیں جس کے ذریعہ ازل سے عیسائیت اور مغربی الحاد و فلسفہ کی شکست اور حقیقی اسلام کی عالمگیر روحانی فتح مقدر ہے۔ جیسا کہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے ایک صدی قبل نہایت پرشوکت انداز میں فرمایاتھا۔

فَنَادَی الوقتُ ایّام الاِمام

لِتُنجی المسلمونَ مِنَ السّھام

اَرَی فَوج المَلائکۃِ الکِرامِ

بِکفّ المصطفی اضحی الزّمام

وقت نے ایک امام کے دنوں کو آواز دی ہے تاکہ مسلمان تیروں سے بچائے جائیں۔ میں ملائکہ کرام کے لشکر دیکھتا ہوں (جن کی) باگ ڈور محمد مصطفی ﷺ کے ہاتھ میں دی گئی ہے۔نیز خبر دی کہ ؂

و اُعطِیتُ عَلَمَ الفَتح عَلَمَ مُحَمّدٍ

و اُعطِیتُ سَیفاً جَذ اَصْلَ التّخَلُقِ

مجھے فتح کا جھنڈا جو محمد رسول اللہ ﷺ کا جھنڈا ہے عطا کیا گیا ہے اور وہ تلوار دی گئی ہے جس نے باطل کی جڑ کاٹ دی ہے۔

وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔

(الفضل انٹرنیشنل ۲۱؍نومبر ۱۹۹۷ء تا ۲۷؍نومبر ۱۹۹۷ء)