جماعت مومنین میں قائم مودّت و رحمت کا روحانی نظام

نصیر احمد قمر

صحیح مسلم کتاب البرّ والصّلۃ والآداب میں حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم نے فرمایاکہ مومنوں کی باہمی محبت اور رحمت اورشفقت کی مثال ایک بدن کی ہے کہ جب اس کا کوئی عضو تکلیف میں مبتلا ہو تو اس کی وجہ سے سارا بدن بیخوابی اور بخار محسوس کرتاہے۔

عام طورپر اس حدیث سے مومنوں کی باہمی اخوت اور ہمدردی کے تعلق پراستدلال کیاجاتاہے ۔ یقیناً سب مومنوں کے درمیان ایک دوسرے سے محبت و ہمدردی اور رحمت و عطوفت کا ایسا ہی تعلق ہونا چاہئے کہ اگر کسی ایک مومن بھائی کو کوئی تکلیف ہو تو باقی سب اس کی تکلیف اور دکھ میں اس کے ساجھی اور شریک ہوں۔ اگرچہ سچے مومنین کی جماعت میں بحیثیت مجموعی تو ایسے نظارے دیکھنے میں آتے ہیں لیکن یہ نہیں کہا جا سکتاکہ جماعت مومنین کے ہر فرد کی اپنے مومن بھائیوں کے دکھ اور تکلیف پر ایسی ہی کیفیت ہوا کرتی ہے۔درحقیقت یہ مثال سب سے بڑھ کر خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم پر چسپاں ہوتی ہے اور آپؐ کو اپنے متبعین سے ، جماعت مومنین سے محبت اوررحمت اور شفقت کاجو تعلق تھا اور جس طرح آپؐ صحابہ کے دکھ درد کو محسوس فرمایا کرتے تھے اور ان کی تکلیفوں کے خیال سے بے چین و بیقرار ہو جایا کرتے تھے ، یہ حدیث نبوی آپؐ کی ان قلبی کیفیات سے پردہ اٹھاتی ہے ۔ساری جماعت مومنین کی مثال ایک بدن کی سی ہے تو آپ ؐ جو مومنوں کے آقا و مطاع تھے آپؐ کی حیثیت اس بدن میں دل کی سی ہے ۔ آپؐ مومنوں کی جان اور ان کا دل اور ان کی روح تھے ۔ کسی مومن کو کوئی اذیت پہنچتی یا وہ کسی قسم کے ہمّ و غم میں مبتلا ہوتاتو اس کا درد آپ ؐکے سینہ اطہرمیں جا گ اٹھتا تھا۔ اوراتنی بڑی جماعت میں کسی نہ کسی کوتو کوئی نہ کوئی دکھ اور تکلیف اور پریشانی اور غم لاحق رہتاہی ہے ۔گویا آپؐ کا وجودِ مبارک ہر لمحہ اپنے پیاروں کے دکھ اور تکلیف کے احساس سے ایک قسم کے بخار میں مبتلا رہتاتھا۔ آپؐ کی راتیں بھی ان کی خاطر بے چینی میں گزرتیں اور دن بھی ان کی تکلیفوں کے دورکرنے کے لئے تدابیر حسنہ میں صرف ہوتا۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اس حقیقت کی طر ف ان الفاظ میں اشارہ فرمایا ہے (لَقَدْ جَآئَ کُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْہِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْکُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَئُ وْفٌ رَّحِیْم )(التوبہ :۱۲۸) ۔

یقیناًتمہارے پاس تمہیں میں سے ایک رسول آیاہے ۔ تمہارا تکلیف میں پڑنا اس پر شاق گزرتاہے۔ اوروہ تمہارے لئے خیرکا بہت حریص ہے ۔ مومنوں کے لئے بے حد مہربان (اور ) باربا ررحم کرنے والا ہے۔

اگرچہ صحابہؓ کو بھی حضور اکرم ؐ سے بے انتہا محبت تھی اور وہ جان ودل سے آپ ؐپر نثار تھے لیکن رحمۃ للعالمین حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کی اپنے صحابہ و مومنین سے محبت و رحمت ان سب محبتوں پر حاوی اور غالب تھی ۔جس طرح آپؐ نے مومنوں میں محبتیں بانٹیں اوراپنی متضرعانہ دعاؤں اور حکیمانہ تدبیروں سے ان کی فلاح و بہبود کے لئے جانفشانی دکھلائی، ان کی تعلیم و تربیت اور تزکیہ کے لئے اپنا جگر خون کیا اور جس طرح آپؐ سارا سارا دن اور ساری ساری رات ان کی تکلیفوں کے دورہونے کے لئے بے چین و بیقرار ہوکر خدا تعالیٰ کے حضور تڑپتے اور تضرّع اور زاری سے کام لیتے تھے اس کا احاطہ الفاظ میں ممکن نہیں۔ آخری عمر میں جب آنحضرت ﷺ بیماری اور ضعف اورکمزوری کے باعث گھرمیں بیٹھ کر نماز تہجد پڑھاکرتے تھے کسی نے اُمّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے دریافت کیا کہ کیا حضور ؐبیٹھ کر نماز پڑھتے ہیں؟ تو حضرت عائشہؓ نے فرمایاکہ ہاں، لیکن ایسا اُس وقت ہوا حِیْنَ حَطَمَہُ النَّاسُ ۔جب لوگوں نے آپ کو چور چور کردیا۔

حضر ت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے کیاہی خوب فرمایاہے ؂

آں ترحّمہا کہ خلق ازوے بدید

کس ندیدہ درجہاں از مادرے

مخلوق نے جو رحمتیں ا ورشفقتیں آپؐ کی ذات سے پائی ہیں وہ دنیا میں کسی نے اپنی ماں سے بھی نہیں دیکھیں۔

یہ آپؐ کی اس جان سوزی اور قربانی اور انتہائی رحمت و شفقت ہی کا نتیجہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ساری جماعت مومنین کے دلوں کو آپس میں الفت و محبت کے اٹوٹ رشتوں میں باندھ دیااور آسمان سے ان کے متعلق ( رُحَمَآ ئُ بَیْنَھُمْ) اور (بُنْیَانٌ مَّرْصُوْصٌ) ہونے کی گواہی دی۔

اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺکے عظیم روحانی فرزند اور آپؐ کے عاشق صادق حضرت مرزا غلام احمد قادیانی ، مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ پھرسے ہمارے لئے محمدیؐ فیضان کو جاری فرمایا ہے ۔ حضرت مسیح موعود ومہدی معہود علیہ السلام کو بھی آنحضرت ؐکی غلامی میں اپنی جماعت سے ایسا ہی محبت کا تعلق تھا۔ آپ فرماتے ہیں :

’’اصل بات یہ ہے کہ ہمارے دوستوں کا تعلق ہمارے ساتھ اعضاء کی طرح سے ہے اوریہ بات ہمارے روز مرہ کے تجربہ میں آتی ہے کہ ایک چھوٹے سے چھوٹے عضو مثلاً انگلی ہی میں درد ہو تو سارا بدن بے چین اوربے قرارہو جاتاہے ۔اللہ تعالیٰ خوب جانتاہے کہ ٹھیک اسی طرح ہروقت اور ہر آن مَیں ہمیشہ اسی خیال اور فکرمیں رہتاہوں کہ میرے دوست ہر قسم کے آرام و آسائش سے رہیں ۔ یہ ہمدردی اور یہ غمخواری کسی تکلّف اور بناوٹ کی رُو سے نہیں بلکہ جس طرح والدہ اپنے بچوں میں سے ہر واحدکے آرام و آسائش کے فکرمیں مستغرق رہتی ہے خواہ وہ کتنے ہی کیوں نہ ہوں۔اسی طرح مَیں للّہی دلسوزی اورغمخواری اپنے دل میں اپنے دوستوں کے لئے پاتاہوں ۔اور یہ ہمدردی کچھ ایسی اضطراری حالت پرواقع ہوئی ہے کہ جب ہمارے دوستوں میں سے کسی کا خط کسی قسم کی تکلیف یا بیماری کے حالات پر مشتمل پہنچتاہے تو طبیعت میں ایک بے کلی اور گھبراہٹ پیدا ہو جاتی ہے اورایک غم شامل حال ہوجاتاہے ۔ اور جوں جوں احباب کی کثرت ہوتی جاتی ہے اسی قدر یہ غم بڑھتا جاتاہے اورکوئی وقت ایسا خالی نہیں رہتا جب کہ کسی قسم کا فکراور غم شامل حال نہ ہو ۔ کیونکہ اس قدر کثیر التعداد احباب میں سے کوئی نہ کوئی کسی نہ کسی غم اور تکلیف میں مبتلا ہو جاتاہے اوراس کی اطلاع پر ادھر دل میں قلق اور بے چینی پیدا ہوجاتی ہے ۔ مَیں نہیں بتلا سکتا کہ کس قدر اوقات غموں میں گزرتے ہیں۔چونکہ اللہ تعالیٰ کے سوا اورکوئی ہستی ایسی نہیں جو ایسے ہموم اور افکار سے نجات دیوے ۔ اس لئے مَیں ہمیشہ دعاؤں میں لگا رہتاہوں اورسب سے مقدم دعا یہی ہوتی ہے کہ میرے دوستوں کوہموم اور غموم سے محفوظ رکھے کیونکہ مجھے تو ان ہی کے افکار اوررنج ،غم میں ڈالتے ہیں ۔ اور پھریہ دعا مجموعی ہیئت سے کی جاتی ہے کہ اگر کسی کوکوئی رنج اور تکلیف پہنچی ہے تو اللہ تعالیٰ اُس سے اُس کو نجات دے ۔ ساری سرگرمی اور پوراجوش یہی ہوتاہے کہ اللہ تعالیٰ سے دعاکروں‘‘۔ (تقریر جلسہ سالانہ ۳۰؍دسمبر ۱۸۹۷ء)

یہی مضمون ہم آپ کے مقدس خلفاء کی مبارک زندگیوں میں بھی تسلسل کے ساتھ جاری دیکھتے ہیں۔ خلافت حقہ اسلامیہ احمدیہ سے وابستہ عالمگیر جماعت احمدیہ کے افراد اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ ان کے محبوب امام کو ان سے کس قدرمحبت اور پیارہے اورکس طرح وہ ہمارے دکھ درد کو ہم سے بڑھ کر محسوس کرتے اور ہماری خوشیوں اور آرام کے لئے اپنی جان گداز کرتے ہیں۔ایک موقع پر اپنے پیاروں کے لئے اپنی بے قراری کا ذکر آپ نے یوں فرمایا:۔ ؂

میری ایسی بھی ہے ایک رُودادِ غم

دل کے پردے پہ ہے خون سے جو رقم

دل میں وہ بھی ہے اک گوشۂ محترم

وقف ہے جو غمِ دوستاں کے لئے

حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الرابع ایدہ اللہ کا صر ف ایک ارشاد نمونۃً ذیل میں درج کرتاہوں جس سے اندازہ ہو سکتاہے کہ مذکورہ حدیث نبوی کا مضمون کس طرح آج بھی سچے مومنوں کی جماعت اور ان کے امام پر بڑی شان سے صادق آ رہا ہے ۔ ۱۰؍ستمبر ۱۹۹۵ء کو جلسہ سالانہ جرمنی کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے حضور ایدہ اللہ نے فرمایا:

’’بعض دفعہ جرمنی میں ایک دو احمدیوں کی لڑائی ہو جاتی ہے اور میری ساری رات بے چینی سے کٹتی ہے۔ اتنادرد محسوس کرتاہوں ، ایسا دکھ لگتاہے جیسے میرے عزیز بچوں کی آپس میں لڑائیاں ہو گئی ہوں اورہمارے گھر کو انہوں نے بے امن کردیاہو‘‘ ۔

حضور انور ایدہ اللہ نے اس سلسلہ میں فرمایا:

’’یہ روحانی نظام ہے جو دنیا کی کسی قوم کو نصیب نہیں ہے ۔ یہ اس خلافت سے وابستہ ہے جو حضرت محمد مصطفی ﷺکے غلام حضرت مرزا غلام احمد کی قوم کو عطا ہوئی‘‘۔(خطاب جلسہ سالانہ جرمنی ۱۰؍ستمبر ۱۹۹۹ء)

ہمار ا فرض ہے کہ ہم اس عظیم الشان اور مبارک روحانی نظام کی قدرکریں ۔ اپنے پیارے امام کی صحت و سلامتی ، درازی ٔعمر اور آپ کی تمام مہمّا ت دینیہ عالیہ کی غیرمعمولی کامیابیوں کے لئے عاجزانہ دعاؤں کے ساتھ ساتھ ایسے اعمال صالحہ بجا لانے کی سعی کریں جن سے ہمارے پیار ے آقا کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے ۔

(مطبوعہ:الفضل انٹرنیشنل۲۶؍جولائی ۲۰۰۲ء تا ۸؍اگست ۲۰۰۲ء)