حضرت جَبَّارؓ بن صَخْر

خطبہ جمعہ 24؍ اگست 2018ء

 صَخْر بن اُمَیَّہ کے بیٹے تھے۔ حضرت جَبَّار ستّر انصار کے ساتھ بیعتِ عقبہ ثانیہ میں شامل ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جَبَّار اور حضرت مِقْداد بن عمرو کے درمیان مواخات قائم کی۔ غزوہ بدر کے وقت ان کی عمر 32سال تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں خَارِص (یعنی کھجوروں کی پیداوار کا اندازہ کرنے والا) بنا کر خیبر وغیرہ بھیجا کرتے تھے۔ ان کی وفات حضرت عثمان کے دور خلافت میں تیس ہجری میں مدینہ میں ہوئی۔ وفات کے وقت آپ کی عمر 62 سال تھی۔ حضرت جَبَّار غزوہ بدر، اُحد، خندق اور تمام غزوات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمرکاب تھے۔ (الطبقات الکبری لابن سعد جز3صفحہ 293ومن بنی عبید بن عدی ….، داراحیاء التراث العربی بیروت1996ء) (المعجم الکبیر للطبرانی جلد2صفحہ 270جبار بن صخر، طبع ثانی داراحیاء التراث العربی بیروت) حضرت جبار بن صخر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آپ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جبکہ آپ مکہ کی طرف جا رہے تھے کہ کون ہم سے پہلے اَثَایَہ مقام پر جائے اور ہمارے پہنچنے تک اس کے حوض کے سوراخوں کو مٹی سے درست کر کے اور اسے فراخ کر کے اس میں پانی بھر دے گا۔ ابواُوَیْس ایک راوی کہتے ہیں کہ یہ وہ جگہ تھی جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں روانہ فرمایا تھا۔ راوی کہتے ہیں کہ حضرت جبار نے بیان کیا کہ اس پر میں کھڑا ہوا اور عرض کیا کہ میں یہ خدمت سرانجام دوں گا۔ آپ نے فرمایا جاؤ۔ پس مَیں اَثَایَہ پہنچا اس کے حوض کو مرمت کر کے اسے کھلا کیا اور اسے بھر دیا۔ پھر مجھ پر نیند کا غلبہ ہوا اور میں سو گیا اور مجھے نہیں جگایا مگر اس شخص نے جس کی اونٹنی اس سے چُھوٹی جا رہی تھی۔ (یعنی کہ بہت تیز وہاں پر پہنچی) اور وہ اسے حوض پر جانے سے روک رہا تھا۔ (اونٹنی پانی کی طرف جا رہی تھی)۔ اس شخص نے مجھے کہا اے حوض والے! اپنے حوض پر پہنچو تو میں کیا دیکھتا ہوں کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ میں نے عرض کیا جی۔ یہ بیان کرتے ہیں کہ پھر حضور نے اپنی سواری کو گھاٹ پر اتارا۔ پھر آپ مڑے اور سواری کو بٹھایا۔ پھر آپ نے فرمایا برتن لے کر میرے ساتھ آؤ۔ میں برتن لے کر آپ کے پیچھے پیچھے گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اچھی طرح وضو فرمایا۔ میں نے بھی آپ کے ساتھ وضو کیا پھر آپ نماز کے لئے کھڑے ہوئے۔ میں آپ کے بائیں طرف کھڑا ہو گیا۔ وہاں پہنچنے کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے پہلاکام یہ فرمایا کہ وضو کیا اور نفل ادا کرنے کے لئے کھڑے ہو گئے۔ کہتے ہیں کہ میں بائیں طرف کھڑا ہوا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے اپنے دائیں طرف کھڑا کیا۔ یعنی آنحضرتؐ کے نفل پڑھتے ہوئے انہیں یہ خیال آیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نفل پڑھنے چاہئیں تو یہ بائیں طرف کھڑے ہو گئے۔ لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فوراً ہاتھ پکڑ کے دائیں طرف کر دیا کہ جب باجماعت نماز ہو رہی ہو اور دو شخص ہوں تو دوسرے کو امام کے دائیں طرف کھڑا ہونا چاہئے۔ کہتے ہیں پس ہم نے نماز پڑھی اور ابھی ہم نماز پڑھ ہی رہے تھے کہ باقی لوگ بھی آ گئے۔ (مسند احمد بن حنبل جلد5صفحہ 330اول مسند المکیین والمدنیین حدیث جبار بن صخر عن النبیؐ حدیث نمبر15550عالم الکتب بیروت1998ء)

غزوہ بدر کے روز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی کہ اَللّٰھُمَّ اکْفِنِیْ نَوْفَلَ ابْنَ خُوَیْلِدٍ۔ کہ اے اللہ! نوفل بن خُوَیلِد جو کہ قریشِ مکہ کے مشرکین کا ایک سردار تھا، کے مقابل میرے لئے کافی ہو جا۔ حضرت جَبَّار بن صَخْر نے اسے قیدی بنایا ہوا تھا اور حضرت علیؓ اس کے پاس آئے اور اسے قتل کر دیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ کسی کو نوفل کی کچھ خبر ہے؟ حضرت علی نے عرض کیا کہ میں نے اسے قتل کر دیا ہے اور اس پر آپ نے یہ دعا کی کہ تمام تعریف اللہ کے لئے ہے جس نے اپنی جناب سے میری دعا قبول فرمائی۔ یہ بڑا شدید دشمن تھا۔ اس کے لئے آپ نے اللہ تعالیٰ کو کہا تھا میرے لئے کافی ہو جا۔ اللہ تعالیٰ نے پھر اس کے قتل کے سامان پیدا کئے۔ (سبل الھدیٰ والرشاد فی سیرۃ خیر العباد جلد4صفحہ49غزوۃ بدر الکبریٰ، ذکر رمی رسول اللّٰہﷺ الکفار بالحصباء….دارالکتب العلمیۃ بیروت1993ء)

پھر ایک روایت میں آتا ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ ہجرت فرمائی تو ہر شخص کو خواہش تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے گھر قیام کریں۔ اس کے بارے میں بہت سارے حوالے آتے ہیں۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جہاں میری اونٹنی بیٹھے گی وہیں میرا قیام ہو گا۔ جب اونٹنی مدینہ کی گلیوں سے گزری تو ہر شخص نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !ہماری طرف قیام کریں۔ لیکن آپ یہی فرماتے تھے کہ اس کا راستہ چھوڑ دو اس کو حکم دیا گیا ہے۔ یعنی اللہ کی مرضی سے یہ خود ہی بیٹھے گی۔ یہاں تک کہ آپ کی اونٹنی چلتے چلتے جہاں اب مسجدنبوی کا دروازہ ہے اس جگہ پہنچی اور مسجد کے دروازے والی جگہ پر بیٹھ گئی۔ جب اونٹنی بیٹھ چکی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نزول وحی کی کیفیت طاری ہوئی۔ آپ ابھی اونٹنی پر ہی تشریف فرما تھے کہ پھر وہ اونٹنی اٹھی اور تھوڑا آگے گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نکیل چھوڑی ہوئی تھی۔ پھر وہ اونٹنی دوبارہ وہیں آ کر بیٹھ گئی اور اپنی گردن زمین پر رکھ دی۔ اس موقع پر حضرت جَبَّار بن صَخْر اس امید پر کہ اونٹنی بنو سلمہ کے محلے میں جا کر ٹھہرے اسے اٹھانے کی کوشش کرنے لگے لیکن وہ نہ اٹھی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نیچے اترے اور فرمایا کہ انشاء اللہ یہاں ہمارا قیام ہو گا اور آپ نے اس آیت کی تلاوت فرمائی۔ وَقُلْ رَّبِّ اَنْزِلْنِیْ مُنْزَلًا مُّبٰرَکًا وَّاَنْتَ خَیْرُ الْمُنْزِلِیْنَ (المؤمنون: 30) کہ اے میرے رب! تو مجھے ایک مبارک اترنے کی جگہ پر اتار اور تو اتارنے والوں میں سے سب سے بہتر ہے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کون سب سے قریب ہے۔ حضرت ابوایوب انصاری نے عرض کیا کہ مَیں یا رسول اللہ! یہ میرا گھر ہے۔ یہ میرا دروازہ ہے اور ہم نے آپ کا کجاوہ اندر رکھ دیا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ چلو اور ہمارے آرام کرنے کی جگہ تیار کرو۔ پس وہ گئے اور آپ کے آرام کرنے کی جگہ تیار کی۔ (سبل الھدیٰ والرشاد فی سیرۃ خیر العباد جلد3صفحہ272-273، جماع ابواب الھجرۃالی المدینۃ الشریفۃالباب السادس فی قدومہﷺ ….. دارالکتب العلمیۃ بیروت1993ء)

شأس بن قیس ایک عمر رسیدہ شخص تھا اور سخت کافر تھا۔ مسلمانوں سے سخت شدید کینہ اور بغض رکھتا تھا۔ اس کا گزر مسلمانوں کی ایک جماعت پر ہوا جو مجلس میں بیٹھے باتیں کر رہے تھے۔ جب اس نے ان کی باہمی الفت، اتحاد اور آپس کی صلح کاری دیکھی کہ یہ بیٹھے ہوئے ہیں اور ہنسی خوشی پیار اور محبت سے باتیں کر رہے ہیں۔ صلح کی جو یہ فضا تھی یہ جاہلیت کی دشمنی کے بعد اسلام کی بدولت انہیں حاصل ہوئی تھی۔ اس سے پہلے ان لوگوں کی دشمنیاں تھیں۔ لیکن اسلام کی بدولت انہیں یہ صلح کی، باہمی الفت اور پیار اور محبت کے سلوک کی توفیق ملی تو کہتے ہیں وہ ایسی بات کو دیکھ کے غضبناک ہو گیا کیونکہ جب وہ مسلمان ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کو ملا دیا۔ شأ بن قیس نے کہا کہ بَنُو قَیْلَہ کے سردار اس علاقے میں بیٹھے ہیں۔ جب تک ان کے سردار آپس میں اکٹھے ہیں ہمیں قرار نصیب نہیں ہو سکتا۔ یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ یہ جو دشمنیاں ہیں وہ دوستیوں میں بدل جائیں بلکہ محبت اور پیار میں بدل جائیں۔ اس نے ایک یہودی جوان کو جو اس کے ساتھ تھا اس کام پر لگایا کہ ان کے پاس جا کر ان کے ساتھ بیٹھے اور جنگ بُعَاثْ اور اس سے پہلے کے حالات کا ذکر چھیڑے اور انہیں وہ شعر سنائے جو یہی لوگ اور دو مختلف قبیلے ایک دوسرے کے خلاف کہا کرتے تھے۔ پس اس نے ایسا ہی کیا اور ایک قبیلے نے جنگ میں جو دوسرے قبیلے کے خلاف اشعار کہے تھے ان میں سے بعض پڑھے۔ اس بات نے گویا ان کے سینوں میں آگ بھڑکا دی۔ دوبارہ وہی جاہلیت کا شعر سن کر جاہلیت کا زمانہ ان پر عود کر آیا۔ اس پر دوسرے قبیلے والوں نے کہا کہ ہمارے شاعر نے اس دن ایسے ایسے کہا تھا اس نے بھی وہی جاہلانہ شعر پڑھ دئیے۔ پھر پہلے قبیلے والوں نے کہا کہ ہمارے شاعر نے اس دن ایسے ایسے کہا تھا۔ پس وہ سب آپس میں ایک وقت تھا کہ محبت اور پیار سے بیٹھے باتیں کر رہے تھے لیکن اس فتنہ کی وجہ سے آپس میں تلخ کلامی کرنے لگے، جھگڑنے لگے اور تفاخر کرنے لگے یہاں تک کہ ان میں سے دو افراد حضرت اوس بن قَیْظِی اور حضرت جَبَّار بن صَخر باہم الجھ پڑے۔ ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا کہ اگر تم چاہو تو ہم ابھی جنگ کا آغاز کر دیتے ہیں۔ یہاں تک نوبت آ گئی کہ دونوں فریق غصہ میں آ کر لڑائی کی جگہ مقرر کرنے لگے اور زمانہ جاہلیت کے دعوے کرنے لگے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک اس کی خبر پہنچی تو آپ اوس اور خزرج کے پاس آئے۔ آپ کے ساتھ مہاجرین صحابہ کرام تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے مسلمانوں کے گروہ! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو۔ اللہ کا تقویٰ اختیار کرو۔ کیا تم اب بھی جاہلیت والے دعوے کرتے ہو جبکہ مَیں تمہارے درمیان موجود ہوں اور اللہ نے تمہیں اسلام کی طرف ہدایت دے دی ہے اور اس کے ذریعہ تمہیں عزت بخشی اور تم سے جاہلیت کا معاملہ ختم کر دیا۔ تمہیں کفر سے بچا لیا ہے اور تم میں باہم الفت ڈال دی ہے۔ کیا تم پہلے کی طرح کفر میں لوٹنے لگے ہو۔ صحابہ کرام کو پتہ چل گیا کہ یہ ایک شیطانی وسوسہ ہے اور ان کے دشمن کی چال ہے۔ پس انہوں نے اپنے ہتھیار پھینکے اور رونے لگ گئے اور اوس اور خزرج کے افراد آپس میں گلے ملنے لگے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سرتسلیم خم کئے اطاعت کا دم بھرتے واپس آ گئے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے دشمن شأس بن قیس کی لگائی ہوئی آگ کو ٹھنڈا کر دیا تھا۔ اس پر یہ آیت بھی اتری کہ قُلْ یٰٓاَھْلَ الْکِتٰبِ لِمَ تَکْفُرُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ وَاللّٰہُ شَھِیْدٌ عَلٰی مَا تَعْمَلُوْنَ۔ قُلْ یٰٓاَھْلَ الْکِتٰبِ لِمَ تَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ مَنْ اٰمَنَ تَبْغُوْنَھَا عِوَجًا وَّاَنْتُمْ شُھَدَآءُ۔ وَمَا اللّٰہُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ(آل عمران: 99-100) کہ ان سے کہہ دے اے اہل کتاب !کیوں تم اللہ کی آیات کا انکار کرتے ہو جبکہ اللہ اس پر گواہ ہے جو تم کرتے ہو۔ اور کہہ دے اے اہل کتاب! تم اسے جو ایمان لایا ہے اللہ کی راہ سے کیوں روکتے ہو یہ چاہتے ہوئے کہ اس راہ میں کجی پیدا کرو جب کہ تم حقیقت پر گواہ ہو اور اللہ اس سے غافل نہیں جو تم کرتے ہو۔

حضرت اوس بن قَیْظِی اور حضرت جَبَّار بن صَخْر اور جو اُن کے ساتھی تھے جنہوں نے شأس کے بہکاوے میں آ کر جاہلیت کے زمانے کی طرح کا مظاہرہ کیا تھا ایسے لوگوں کے بارے میں بھی پھر یہ حکم نازل ہوا کہ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ تُطِیْعُوْا فَرِیْقًا مِّنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ یَرُدُّوْکُمْ بَعْدَ اِیْمَانِکُمْ کٰفِرِیْنَ۔ وَکَیْفَ تَکْفُرُوْنَ وَاَنْتُمْ تُتْلٰی عَلَیْکُمْ اٰیٰتُ اللّٰہِ وَفِیْکُمْ رَسُوْلُہٗ۔ وَمَنْ یَّعْتَصِمْ بِاللّٰہِ فَقَدْ ھُدِیَ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ  (آل عمران101-102) کہ اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو اگر تم نے ان لوگوں میں سے جنہیں کتاب دی گئی کسی گروہ کی اطاعت کی تو وہ تمہیں تمہارے ایمان لانے کے بعد ایک دفعہ پھر کافر بنا دیں گے اور تم کیسے انکار کر سکتے ہو جبکہ تم پر اللہ کی آیات پڑھی جاتی ہیں اور تم میں اس کا رسول موجود ہے اور جو مضبوطی سے اللہ کو پکڑ لے تو یقیناً وہ صراط مستقیم کی طرف ہدایت دیا گیا ہے۔ (سبل الھدیٰ والرشاد فی سیرۃ خیر العباد جلد3صفحہ398-399، جماع ابواب بعض امور دارت بین رسول اللہﷺ و بین الیھود والمنافقین الباب السابع فی ارادۃ شأس بن قیس….دارالکتب العلمیۃ بیروت1993ء)

بہرحال یہ حالت تھی ان صحابہ کی۔ ایک وقت میں شیطان کے دھوکہ میں تو آ گئے لیکن جب احساس دلایا گیا، جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بتایا کہ کیوں جہالت میں واپس جا رہے تھے تو فوراً ندامت پیدا ہوئی اور صلح کی طرف قدم بڑھایا بلکہ محبت اور بھائی چارے کا اظہار کیا۔ تو یہ ان کے نمونے تھے۔

اب جو لوگ ذرا ذرا سی بات پر جھوٹی غیرتوں اور اَناؤں میں مبتلا ہو جاتے ہیں ان کے لئے بھی یہ ایک عظیم اسوہ ہے۔ اگر وہ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے جنگیں کرنے والے بھائی بھائی بن گئے تو اب ایک کلمہ پڑھنے والے بلکہ ایک جماعت میں پیدا ہونے والے لوگ کیوں اپنی اَناؤں کو ختم نہیں کر سکتے۔ بہت سارے معاملات ایسے آتے ہیں کہ جھوٹی اناؤں کی وجہ سے رنجشیں چلتی ہیں، مہینوں سالوں چلتی ہیں۔ بعض نوجوان لکھتے ہیں کہ اب جو نئی نسل ہے وہ ایک دوسرے سے رشتے قائم کرنا چاہتی ہے تو ہمارے خاندانوں کی رنجشوں کی وجہ سے، اپنے بزرگوں کی وجہ سے، اپنے بڑوں کی وجہ سے، بزرگ تو نہیں کہنا چاہئے، بڑوں کی وجہ سے وہ رشتے قائم نہیں ہوتے۔ ان لوگوں کو عقل کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے جو تعلیم دی ہے یہی محبت اور پیار کی تعلیم دی ہے۔ اکائی کی تعلیم دی ہے اور ایک قوم بنایا ہے، ہمیں ایک قوم بن کے رہنا چاہئے اور جھوٹی اَناؤں میں دوبارہ ڈوبنا نہیں چاہئے۔ اللہ تعالیٰ سب کو عقل دے۔

ایک روایت یہ بھی ہے کہ جب حضرت عمرؓ نے یہود کو خیبر سے نکالا تو خود انصار و مہاجرین کو ساتھ لے کر جن میں حضرت جَبَّار بن صَخْر اور حضرت یزید بن ثابت بھی تھے خیبر کے لئے روانہ ہوئے۔ یہ دونوں حضرات خیبر کی پیداوار کا تخمینہ لگانے جایا کرتے تھے اور ان دونوں آدمیوں نے اسی تقسیم کے مطابق جو پہلے سے تھی ہر ایک کا حصہ علیحدہ کر دیا۔ وادی قریٰ کی تقسیم میں حضرت عمر نے جہاں دیگر اصحاب کو حصہ دیا وہاں ایک حصہ حضرت جبار بن صخر کو بھی دیا گیا۔ (السیرۃ النبویۃ لابن ہشام جلد3صفحہ 639، امر فدک فی خبر خیبر، المکتبہ العصریہ صیدا 2011ء)