حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیمثال محبت

واقعات اور تحریرات کی روشنی میں

حضرت مرزا غلام احمد قادیانی، مسیح موعود و مہدی معہودؑ

قُلۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تُحِبُّوۡنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوۡنِیۡ یُحۡبِبۡکُمُ اللّٰہُ (اٰل عمران : ۳۲)

اپنے آقا و مطاع
حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ
سے بانی جماعت احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی کی
بیمثال محبت آپ کی تحریرات کی روشنی میں

اعلیٰ درجہ کا نور

’ وہ اعلیٰ درجہ کا نور جو انسان کو دیا گیا تھا۔ یعنی انسان کامل کو ۔ وہ ملائک میں نہیں تھا ۔ نجوم میں نہیں تھا ۔ قمر میں نہیں تھا ۔ آفتاب میں بھی نہیں تھا ۔ وہ زمین کے سمندروں اور دریاؤں میں بھی نہیں تھا ۔ وہ لعل اور یاقوت اور زمرد اور الماس اور موتی میں بھی نہیں تھا ۔ غرض وہ کسی چیز ارضی اور سماوی میں نہیں تھا ۔ صرف انسان میں تھا ۔ یعنی انسان کامل میں ۔ جس کا اتم اور اکمل اور اعلیٰ اور ارفع فرد ہمارے سیّد و مولیٰ سید الانبیاء سیّد الاحیاء محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔ ‘ (آئینہ کمالات اسلام صفحہ ۱۶۰)

جس کے عالی مقام کا انتہا معلوم نہیں ہوسکتا

’میں ہمیشہ تعجب کی نگاہ سے دیکھتا ہوں کہ یہ عربی نبی جس کا نام محمد ؐ ہے (ہزار ہزار درود اور سلام اُس پر) یہ کس عالی مرتبہ کا نبی ہے اس کے عالی مقام کا انتہا معلوم نہیں ہوسکتا اور اُس کی تاثیر قدسی کا اندازہ کرنا انسان کا کام نہیں ۔ افسوس کہ جیسا حق شناخت کا ہے اس کے مرتبہ کو شناخت نہیں کیا گیا ۔ وہ توحید جو دنیا سے گم ہوچکی تھی وہی ایک پہلوان ہے جو دوبارہ اس کو دنیا میں لایا ۔ اس نے خدا سے انتہائی درجہ پر محبت کی ۔ اور انتہائی درجہ پر بنی نوع کی ہمدردی میں اُس کی جان گداز ہوئی ۔ اس لیے خدا نے جو اس کے دل کے راز کا واقف تھا اس کو تمام انبیاء اور تمام اولین و آخرین پر فضیلت بخشی اور اُس کی مرادیں اس کی زندگی میں اُس کو دیں ۔ ‘ (حقیقۃ الوحی صفحہ ۱۱۵)

اعلیٰ درجہ کا جوانمرد نبی

’ہم جب انصاف کی نظر سے دیکھتے ہیں تو تمام سلسلہ نبوت میں سے اعلی درجہ کا جوانمرد نبی اور زندہ نبی اور خدا کا اعلیٰ درجہ کا پیارا نبی صرف ایک مرد کو جانتے ہیں ۔ یعنی وہی نبیوں کا سردار ۔ رسولوں کا فخر تمام مرسلوں کا سرتاج جس کا نام محمد مصطفےٰ و احمد مجتبیٰ ﷺ ہے ۔ جس کے زیر سایہ دس دن چلنے سے وہ روشنی ملتی ہے جو پہلے اس سے ہزاروں برس تک نہیں مل سکتی تھی ۔ ‘ (سراج منیر صفحہ ۷۲)

اپنی جان اور ماں باپ سے بھی پیارا

’جو لوگ ناحق خدا سے بے خوف ہوکر ہمارے بزرگ نبی حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ کو برے الفاظ سے یاد کرتے اور آنجناب پر ناپاک تہمتیں لگاتے اور بدزبانی سے باز نہیں آتے ان سے ہم کیونکر صلح کریں ۔ میں سچ سچ کہتا ہوں کہ ہم شورہ زمین کے سانپوں اور بیابانوں کے بھیڑیوں سے صلح کرسکتے ہیں ، لیکن ان لوگوں سے ہم صلح نہیں کرسکتے جو ہمارے پیارے نبی پر جو ہمیں اپنی جان اور ماں باپ سے بھی پیارا ہے ناپاک حملے کرتے ہیں ۔ خدا ہمیں اسلام پر موت دے ہم ایساکام کرنا نہیں چاہتے جس میں ایمان جاتا رہے ۔‘ (پیغام صلح صفحہ ۳۰)

اے میرے آسمانی آقا! اس ابتلائے عظیم سے نجات بخش

’مخالفین نے ہمارے رسول ﷺ کے خلاف بیشمار بہتان گھڑے ہیں اور اپنے اس دجل کے ذریعہ ایک خلق کثیر کا گمراہ کرکے رکھ دیا ہے ۔ میرے دل کو کسی چیز نے کبھی اتنا دکھ نہیں پہنچایا جتنا کہ ان لوگوں کے اس ہنسی ٹھٹھا نے پہنچایا ہے جو وہ ہمارے رسول پاک ﷺ کی شان میں کرتے رہتے ہیں ۔ ان کے دل آزار طعن و تشنیع نے جو وہ حضرت خیر البشرﷺ کی ذاتِ والا صفات کے خلاف کرتے ہیں میرے دل کو سخت زخمی کررکھا ہے خدا کی قسم اگر میری ساری اولاد اور اولاد کی اولاد اور میرے سارے دوست اور میرے سارے معاون و مددگار میری آنکھوں کے سامنے قتل کردئیے جائیں اور خود میرے ہاتھ اور پاؤں کاٹ دیے جائیں اور میری آنکھ کی پتلی نکال پھینکی جائے اور میں اپنی تمام مرادوں سے محروم کردیا جاؤں اور اپنی تمام خوشیوں اور تمام آسائشوں کو کھو بیٹھوں تو ان ساری باتوں کے مقابل پر بھی میرے لیے یہ صدمہ زیادہ بھاری ہے کہ رسول اکرم ﷺ پر ایسے ناپاک حملے کئے جائیں ۔ پس اے میرے آسمانی آقا تو ہم پر اپنی رحمت اور نصرت کی نظر فرما اور ہمیں اس ابتلاء عظیم سے نجات بخش ۔ ‘ (ترجمہ عربی عبارت ، آئینہ کمالات اسلام ، صفحہ ۱۵)

تمام آدم زادوں کے لیے ایک ہی رسول اور ایک ہی شفیع

’نوع انسان کے لیے روئے زمین پر اب کوئی کتاب نہیں مگر قرآن ، اور تمام آدم زادوں کیلئے اب کوئی رسول اور شفیع نہیں مگر حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ ۔ سو تم کوشش کرو کہ سچی محبت اس جاہ و جلال کے نبیؐ کے ساتھ رکھو اور اس کے غیر کو اس پر کسی نوع کی بڑائی مت دو تا آسمان پر تم نجات یافتہ لکھے جاؤ اور یاد رکھو کہ نجات وہ چیز نہیں جو مرنے کے بعد ظاہر ہوگی بلکہ حقیقی نجات وہ ہے کہ اسی دنیا میں اپنی روشنی دکھلاتی ہے۔ نجات یافتہ کون ہے ؟وہ جو یقین رکھتا ہے کہ خدا سچ ہے اور محمد ﷺ اس میں اور تمام مخلوق میں درمیانی شفیع ہے اور آسمان کے نیچے نہ اس کے ہم مرتبہ کوئی اور رسول ہے اور نہ قرآن کے ہم مرتبہ کوئی اور کتاب ہے ۔ اور کسی کے لیے خدا نے نہ چاہا کہ وہ ہمیشہ زندہ رہے ۔ مگر یہ برگزیدہ نبی ہمیشہ کے لیے زندہ ہے ۔ ‘ (کشتی نوح ، صفحہ ۱۳)

ہمیشہ کیلئے جلال اور تقدس کے تخت پر بیٹھنے والا نبی

’اگر کسی نبی کی فضیلت اس کے اُن کاموں سے ثابت ہوسکتی ہے جن سے بنی نوع کی سچی ہمدردی سب نبیوں سے بڑھ کر ظاہر ہو تو اے سب لوگو! اُٹھو اور گواہی دو کہ اس صفت میں محمد ﷺ کی دنیا میں کوئی نظیر نہیں ۔۔۔۔۔ اندھے مخلوق پرستوں نے اس بزرگ رسول ؐ کو شناخت نہیں کیا جس نے ہزاروں نمونے سچی ہمدردی کے دکھلائے۔ لیکن اب میں دیکھتا ہوں کہ وہ وقت پہنچ گیا ہے ۔ کہ یہ پاک رسولؐ شناخت کیا جائے چاہو تو میری بات لکھ رکھو ۔۔۔ اے سننے والو! سنو! اور سوچنے والو! سوچو اور یاد رکھو کہ حق ظاہر ہوگا اور وہ جو سچا نور ہے چمکے گا ۔‘ (تبلیغ رسالت جلد ششم صفحہ ۱۰، ۱۱)

نبی کریم کی فضیلت کل انبیاء پر میرے ایمان کا جزو اعظم

’ میرا مذہب یہ ہے کہ اگر رسول اللہ ﷺ کو الگ کیا جاتا اور کل نبی جو اس وقت تک گذر چکے تھے ۔ سب کے سب اکٹھے ہو کر وہ کام اور وہ اصلاح کرنا چاہتے جو رسول اللہ ﷺ نے کی ۔ ہر گز نہ کرسکتے ۔ ان میں وہ دل وہ قوت نہ تھی جو ہمارے نبیؐ کو ملی تھی ۔ اگر کوئی کہے کہ یہ نبیوں کی معاذاللہ سوء ادبی ہے تو وہ نادان مجھ پر افتراء کریگا ۔ میں نبیوں کی عزت و حرمت کرنا اپنے ایمان کا جزو سمجھتا ہوں ، لیکن نبی کریم ؐ کی فضیلت کل انبیاء پر میرے ایمان کا جزو اعظم ہے اور میرے رگ و ریشہ میں ملی ہوئی بات ہے۔ یہ میرے اختیار میں نہیں ہے کہ اس کو نکال دوں۔ بدنصیب اور آنکھ نہ رکھنے والا مخالف جو چاہے سو کہے ہمارے نبی کریم صلعم نے وہ کام کیا ہے جو نہ الگ الگ اور نہ مل مل کر کسی سے ہوسکتا تھا اور یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے ۔ ذلک فضل اللہ یوتیہ من یشآء۔(ملفوضات جلد ۲ ، صفحہ ۱۷۴)

خدا نما

’ہم نے ایک ایسے نبی کا دامن پکڑا ہے جو خدا نما ہے ۔ کسی نے یہ شعر بہت ہی اچھا کہا ہے ۔

محمدؐ عربی بادشاہ ہر دو سرا

کرے ہے روح قدس جس کے در کی دربانی

اسے خدا تو نہیں کہہ سکوں پر کہتا ہوں

کہ اُس کی مرتبہ دانی میں ہے خدادانی

ہم کس زبان سے خدا کا شکر کریں جس نے ایسے نبی کی پیروی ہمیں نصیب کی جو سعیدوں کی ارواح کے لیے آفتاب ہے ۔ جیسے اجسام کیلئے سورج وہ اندھیرے کے وقت ظاہر ہوا اور دنیا کو اپنی روشنی سے روشن کر دیا ۔ وہ نہ تھکانہ ماندہ ہوا جب تک کہ عرب کے تمام حصہ کو شرک سے پاک نہ کردیا ۔ وہ اپنی سچائی کی آپ دلیل ہے کیونکہ اُس کا نور ہر ایک زمانہ میں موجود ہے اور اس کی سچی پیروی انسان کو یوں پاک کرتی ہے کہ جیسا ایک صاف اور شفاف دریا کا پانی میلے کپڑوں کو ۔‘ (چشمہ معرفت حصہ دوم صفحہ ۲۸۹)

سب سے افضل و اعلیٰ و اکمل و ارفع و اَجلیٰ و اَصفیٰ نبی

’چونکہ آنحضرت ﷺ اپنی پاک باطنی و انشراح صدری و عصمت و حیا و صدق و صفا و توکل و وفا اور عشق الٰہی کے تمام لوازم میں سب انبیاء سے بڑھ کر اور سب سے افضل و اعلیٰ و اکمل و ارفع و اجلی و اصفی تھے اس لیے خدائے جل شانہٗ نے ان کو عطر کمالات ِخاصّہ سے سب سے زیادہ معطر کیا اور وہ سینہ و دل جو تمام اولین و آخرین کے سینہ و دل سے فراخ تر و پاک تر و معصوم تر و روشن تر و عاشق تر تھا وہ اسی لائق ٹھہرا کہ اس پر ایسی وحی نازل ہو کہ جو تمام اولین و آخرین کی وحیوں سے اقویٰ و اکمل و ارفع و اتم ہوکر صفاتِ الٰہیہ کے دکھلانے کے لیے ایک نہایت صاف اور کشادہ اور وسیع آئینہ ہو ۔‘ (سرمہ چشم آریہ صفحہ ۲۳ حاشیہ ، روحانی خزائن جلد ۲)

مجدّدِ اعظم

’ہمارے نبی ﷺ اظہار سچائی کے لیے ایک مجدد اعظم تھے جو گم گشتہ سچائی کو دوبارہ دنیا میں لائے ۔ اس فخر میں ہمارے نبی ﷺ کے ساتھ کوئی بھی نبی شریک نہیں کہ آپؐ نے تمام دنیا کو ایک تاریکی میں پایا اور پھر آپ کے ظہور سے وہ تاریکی نور سے بدل گئی ۔ جس قوم میں آپ ظاہر ہوئے آپ فوت نہ ہوئے جب تک کہ اس تمام قوم نے شرک کا چولہ اُتار کر توحید کا جامہ نہ پہن لیا اور نہ صرف اسقدر بلکہ وہ لوگ اعلیٰ مراتب ایمان کو پہنچ گئے اور وہ کام صدق اور وفا اور یقین کے ان سے ظاہر ہوئے کہ جس کی نظیر دنیا کے کسی حصہ میں پائی نہیں جاتی یہ کامیابی اور اسقدر کامیابی کسی نبی کو بجز آنحضرت ﷺ کے نصیب نہیں ہوئی ۔‘ (لیکچر سیالکوٹ صفحہ ۴)

ایک فانی فی اللہ کی اندھیری راتوں کی دعائیں

’وہ جو عرب کے بیابانی ملک میں ایک عجیب ماجرا گزرا کہ لاکھوں مردے تھوڑے دنوں میں زندہ ہوگئے اور پشتوں کے بگڑے ہوئے الٰہی رنگ پکڑ گئے اور آنکھوں کے اندھے بینا ہوئے اور گونگوں کی زبان پر الٰہی معارف جاری ہوئے اور دنیا میں یک دفعہ ایک ایسا انقلاب پیدا ہوا کہ نہ پہلے اس سے کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ کسی کان نے سنا ۔ کچھ جانتے ہو کہ وہ کیا تھا؟ وہ ایک فانی فی اللہ کی اندھیری راتوں کی دعائیں ہی تھیں جنہوں نے دنیا میں شور مچادیا اور وہ عجائب باتیں دکھلائیں کہ جو اس اُمّی بے کس سے محالات کی طرح نظر آتی تھیں ۔ اللّٰھم صل وسلم و بارک علیہ و اٰلہٖ بعد دھمّہ و غمّہ و حزنہٖ لٰھذہ الامّة و انزل علیہ انوار رحمتک الی الابد۔‘ (برکات الدعا ، صفحہ ۱۰، ۱۱)

انسانِ کامل اور کامل نبی

’وہ انسان جس نے اپنی ذات سے اپنی صفات سے اپنے افعال سے اپنے اعمال سے اور اپنے روحانی اور پاک قویٰ کے پرزور دریا سے کمالِ تام کا نمونہ علماً و عملدً و صدقاً و ثباتاًدکھلایا اور انسانِ کامل ؐ کہلایا ۔۔۔۔ وہ انسان جو سب سے زیادہ کامل اور انسان کامل تھا اور کامل نبی تھا اور کامل برکتوں کے ساتھ آیا جس سے روحانی بعث اور حشر کی وجہ سے دنیا کی پہلی قیامت ظاہر ہوئی اور ایک عالم کا عالم مرا ہوا اُس کے آنے سے زندہ ہوگیا وہ مبارک نبی حضرت خاتم الانبیاء امام الاصفیاء ختم المرسلین فخرالنبیین جناب محمد مصطفےٰ ﷺ ہیں ۔ اے پیارے خدا اس پیارے نبی پر وہ رحمت اور درود بھیج جو ابتداء دنیا سے تو نے کسی پر نہ بھیجا ہو ۔‘ (اتمام الحجۃ صفحہ ۲۸)

جس کے ساتھ ہم ۔۔۔ اس عالم گزران سے کوچ کریں گے

’ہمارے مذہب کا خلاصہ اور لُبّ لباب یہ ہے کہ لاَ اِلَہَ اِلاَّاللّٰہ مُحَمَّدٗ رَّسُوْلُ اللّٰہ ہمارا اعتقاد جو ہم اس دنیوی زندگی میں رکھتے ہیں جس کے ساتھ ہی ہم بفضلِ و توفیق باری تعالیٰ اس عالمِ گزران سے کُوچ کریں گے یہ ہے کہ حضرت سیدنا و مولانا محمد مصطفےٰ ﷺ خاتم النبیین و خیر المرسلین ہیں جنکے ہاتھ سے اکمالِ دین ہوچکا اور وہ نعمت بمرتبہ اتمام پہنچ چکی جس کے ذریعہ سے انسان راہ راست کو اختیار کرکے خداتعالیٰ تک پہنچ سکتا ہے ۔‘ (ازالہ اوہام حصہ اول صفحہ ۱۳۷)

عربی منظوم کلام

اپنے عربی منظوم کلام میں اپنے آقا کا ذکر یوں فرماتے ہیں۔

یَا حِبِِّ اِنَّکَ قَدْ دَخَلْتَ مَحَبَّۃً

فِیْ مُھْجَتِیْ وَ مَدَارِکِیِْ وَ جَنَانِیْ

(آئینہ کمالات اسلام ، صفحہ ۵۹۴)

اے میرے محبوب تیری محبت میری جان اور میرے حواس اور میرے دل میں سرایت کرچکی ہے ۔

جِسْمِیْ یَطِیْرُ اِلَیکَ مِنْ شَوْقٍ عَلَا

یالیتَ کَانَتْ قُوَّۃُ الطَّیَرَانٖ

(آئینہ کمالات اسلام ، صفحہ ۵۹۴)

(اے میرے معشوق) تیرا عشق میرے جسم پر (کچھ ) اس طرح غلبہ پا چکا ہے کہ (وفورجذبات کی وجہ سے) وہ تیری طرف اُڑا جاتاہے ۔کاش مجھ میں اُڑنے کی طاقت ہوتی (اور میں اُڑ کر تیرے پاس پہنچ جاتا)۔

اِنِّیْ اَمُوْتُ وَلَا تَمُوْتُ مَحَبَّتِیْ

یُدْرٰی بِذِکْرِکَ فِی التراب نِدَائِیْ

(منن الرحمان ، صفحہ ۲۵)

(اے میرے پیارے) میں تو (ایک دن) اس دنیا سے کوچ کرجاؤنگا ، لیکن میری (وہ) محبت (جو میں تجھ سے کرتا ہوں اس) پر کبھی موت نہیں آئے گی (کیونکہ ) میری (قبر کی) مٹی سے تیری یاد میں (جو) آوازیں بلند ہونگی (وہ یہی ہونگی اے میرے محبوب محمد ؐ ۔ اے میرے معشوق محمد ؐ ۔ اے میرے پیارے محمدؐ)

یَارَبِّ صَلِّ عَلٰی نَبِیِّکَ دَائمًا

فِیْ ھٰذِہٖ الدُّنْیَا وَ بَعْثِ ثَانٖ

(آئینہ کمالات اسلام ، صفحہ ۵۹۳)

اے میرے رب تو اپنے نبی ﷺ پر اس جہان میں بھی درود نازل فرما اور دوسرے جہان میں بھی درود نازل فرمانا۔

یَاعَیْنَ فَیْضِِ اللّٰہِ وَالْعِرْفَان

یَسْعَی اِلیکَ الْخَلْقُ کَالظَّمْآن

اے اللہ تعالیٰ کے فیض اور عرفان کے چشمے ! لوگ تیری طرف سخت پیاسے کی طرح دوڑتے چلے آرہے ہیں ۔

یَابَحْرَ فَضْلِ المُنْعِمِ المَنَّان

تَھْوِیْ اِلیْکَ الزُّمَرُ بِالْکیْزَان

اے انعام کرنے والے اور نہایت ہی محسن خدا کے فضلوں کے سمندر! لوگ گروہ در گروہ کوزے لیے ہوئے تیری طرف بھاگتے چلے آرہے ہیں ۔

اُنْظُرْ اِلیَّ بِرَحْمَۃٍ وَ تَحَنُّن

یَا سَیَّدِیْ اَنَا اَحْقَرُ الغِلْمَان

(اے میرے محبوب) مجھ پر رحمت اور شفقت کی نظر کیجئے اے میرے آقا میں آپ کا ناچیز غلام ہوں۔

مِنْ ذِکْرِِوَجْھِکَ یَا حَدِیْقَۃَ بَھْجَتِی

ْلَمْ اَخْلُ فِیْ لَحْظٍ وَّلَا فِیْ آن

اے میرے خوشی اور مسرت کے چشمے ! میں کسی لحظہ اور کسی وقت آپ کے ذکر سے خالی نہیں ہوتا ۔

(آئینہ کمالات اسلام ، صفحہ ۵۹۰، ۵۹۴)

فارسی منظوم کلام

اپنے فارسی منظوم کلام میں اپنے معشوق سے عشق کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

بعد از خدا بعشق محمدؐ مخمرم

گر کفر ایں بود بخدا سخت کافرم

(ازالہ اوہام صفحہ ۱۷۶)

خدا تعالیٰ کے بعد میں محمد مصطفےٰ ﷺ کے عشق میں دیوانہ ہوچکا ہوں اگر اس عشق کی دیوانگی کا نام کوئی کفر رکھتا ہے تو خدا کی قسم میں سخت کافر ہوں (کیونکہ آپ ﷺ سے میں شدید محبت رکھتا ہوں )

ہر تاروپود من بسراید بعشق او

از خود تہی و از غم آں دلستاں پرم

(ازالہ اوہام صفحہ ۱۷۶)

آپ ﷺ کا عشق میرے وجود کے ہر رگ و ریشہ میں سرایت کرچکا ہے اور میں اپنے آپ سے خالی اور اس محبوب کے غم سے پر ہوں ۔

جان و دلم فدائے جمال محمدؐ است

خاکم نثار کوچہ آل محمدؐ است

(اخبار ریاض ہند امرتسر یکم مارچ ۱۸۸۴ء)

میری جان اور دل محمد ﷺ کے جمال پر فدا ہے اور میری خاک نبی اکرم ﷺ کی آل کے کوچہ پر قربان ہے ۔

در رہ عشق محمد ؐ ایں سروجانم رود

ایں تمنا ایں دعا ایں در دلم عزم صمیم

(توضیح مرام ، صفحہ ۱۱)

حضرت محمد مصطفی ﷺ کے عشق کی راہ میں میرا سر اور جان قربان ہوجائیں ۔ یہی میری تمنا ہے اور یہی میری دعا ہے اور یہی میرا دلی ارادہ ہے ۔

عجب نوریست درجان محمد ؐ

عجب لعلیست درکان محمدؐ

محمد رسول اللہ ﷺ کی جان میں عجیب قسم کا نور ہے اور آپ کی کان میں حیرت انگیز لعل ہیں ۔

ندانم ہیچ نفسے در دو عالم

کہ دارد شوکت و شان محمد ؐ

میں دونوں جہانوں میں کوئی ایسا فرد نہیں پاتا جو محمد ﷺ جیسی شان و شوکت رکھتا ہو ۔

سرے دارم فدائے خاکِ احمد ؐ

دلم ہر وقت قربانِ محمدؐ

میرا سر احمد ﷺ کی خاک پر فدا ہے اور میرا دل ہر وقت آپؐ پر قربان ۔

(اشتہار ۲۰؍ فروری ۱۸۹۳ء صفحہ ۱)

یادِ آن صورت مرا از خود بَرد

ہرزمان مستم کند از ساغرے

اس (محبوب) کی یاد مجھے بے خود بنادیتی ہے اور وہ ہروقت مجھے (اپنے عشق کے ) ساغرسے مست رکھتا ہے۔

(دیباچہ براہین احمدیہ صفحہ ۱۹)

اردو منظوم کلام

اپنے اردو منظوم کلام میں اپنے پیشوا کا کچھ اس طرح ذکر فرماتے ہیں :

وہ پیشوا ہمارا جس سے ہے نور سارا

نام اس کا ہے محمد ؐ دلبر میرا یہی ہے

سب پاک ہیں پیمبر اک دوسرے سے بہتر

لیک از خدائے برتر خیرالوریٰ یہی ہے

پہلوں سے خوب تر ہے خوبی میں اک قمر ہے

اس پر ہر اک نظر ہے بدرالدجیٰ یہی ہے

وہ آج شاہ دیں ہے وہ تاج مرسلیں ہے

وہ طیب و امیں ہے اسکی ثنا یہی ہے

اس نور پر فدا ہوں اسکا ہی میں ہوا ہوں

وہ ہے میں چیزکیا ہوں بس فیصلہ یہی ہے

(قادیان کے آریہ اور ہم ، صفحہ ۶۵)

ربط ہے جان محمدؐ سے میری جاں کو مدام

دل کو وہ جام لبالب ہے پلایا ہم نے

مصطفی پر تیرا بے حد ہو سلام اور رحمت

اس سے یہ نور لیا بار خدایا ہم نے

(درثمین صفحہ ۱۳)

دلبرا مجھ کو قسم ہے تری یکتائی کی

آپ کو تیری محبت میں بھلایا ہم نے

(آئینہ کمالاتِ اسلام ، صفحہ۲۲۵)

واقعات کی روشنی میں

کاش یہ شعر میری زبان سے نکلتا

ایک دفعہ کا واقعہ ہے حضرت مسیح موعود اپنے مکان کے ساتھ والے البیت میں جو البیت المبارک کہلاتا ہے ۔ اکیلے ٹہل رہے تھے اور آہستہ آہستہ کچھ گنگناتے جاتے تھے اور اس کے ساتھ ہی آپ کی آنکھوں سے آنسوؤں کی تار بہتی چلی جارہی تھی ۔ اُس وقت ایک مخلص دوست نے باہر سے آکر سُنا تو آپ آنحضرت ﷺ کے صحابی حضرت حسّان بن ثابت کا ایک شعر پڑھ رہے تھے جو حضرت حسان نے آنحضرت ﷺ کی وفات پر کہا تھا اور وہ شعر یہ ہے ۔

کُنْتَ السَّوَادَ لِنَاظِرِیْ فَعَمِیَ عَلَیْکَ النَّاظِرٗ

مَنْ شَآءَ بَعْدَکَ فَلْیَمُتْ فَعَلَیْکَ کُنْتُ اُحَاذِرٗ

(دیوان حسّان بن ثابت) ’یعنی اے خدا کے پیارے رسول ! تُومیری آنکھ کی پُتلی تھا جو آج تیری وفات کی وجہ سے اندھی ہوگئی ہے ۔ اب تیرے بعد جو چاہے مرے مجھے تو صرف تیری موت کا ڈر تھا جو واقع ہوگئی۔‘

راوی کا بیان ہے کہ جب میں نے حضرت مسیح موعود کو اس طرح روتے دیکھا اور اُس وقت آپ البیت میں بالکل اکیلے ٹہل رہے تھے تو میں نے گھبرا کر عرض کیا کہ حضرت ! یہ کیا معاملہ ہے اور حضور کو کونسا صدمہ پہنچا ہے ؟ حضرت مسیح موعود نے فرمایا ۔ مَیں اِس وقت حسّان بن ؓثابت کا یہ شعر پڑھ رہا تھا اور میرے دل میں یہ آرزو پیدا ہورہی تھی کہ ’کاش یہ شعر میری زبان سے نکلتا ۔‘ (سیرت طیبہ صفحہ ۲۷، ۲۸)

ایسا عشق میں نے کسی شخص میں نہیں دیکھا

حضرت مرزا سلطان احمد جو حضرت مسیح موعود کی پہلی بیوی سے سب سے بڑے بیٹے تھے ۔ آپ حضور کی زندگی میں جماعت احمدیہ میں داخل نہیں ہوئے تھے ۔ بلکہ آپ نے حضرت خیلفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانہ میں بیعت کی ۔ آپ کے قبول احمدیت سے پہلے زمانہ کی بات ہے کہ اُن سے ایک دفعہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے حضرت مسیح موعود کے اخلاق و عادات کے متعلق پوچھا تو انہوں نے اس پر فرمایا کہ

’ ایک بات میں نے والد صاحب (یعنی حضرت مسیح موعود) میں خاص طور پر دیکھی ہے وہ یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کے خلاف والد صاحب ذرا سی بات بھی برداشت نہیں کرسکتے تھے اگر کوئی شخص آنحضرت ؐ کی شان کے خلاف ذرا سی بات بھی کہتا تھا تو والد صاحب کا چہرہ سُرخ ہوجاتا تھا اور غصے سے آنکھیں متغّیر ہونے لگتی تھیں اور فوراً ایسی مجلس سے اُٹھ کر چلے جاتے تھے آنحضرت ﷺ سے تو والد صاحب کو عشق تھا ۔ ایسا عشق میں نے کسی شخص میں نہیں دیکھا اور مرزا سلطان احمد صاحب نے اس بات کو بار بار دُہرایا ۔ ‘ (سیرۃ طیبہ ۳۴)

کیا مَیں آنحضرت ﷺ کے مزار کو دیکھ بھی سکونگا!

حضرت بانی جماعت احمدیہ کے فرزند حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم ۔اے لکھتے ہیں :

’ایک دفعہ گھریلو ماحول کی بات ہے کہ حضرت مسیح موعود کی کچھ طبیعت ناساز تھی اور آپ گھر میں چارپائی پر لیٹے ہوئے تھے اور حضرت امّاں جان نوراللہ مرقدھا اور ہمارے نانا جان یعنی حضرت میر ناصر نواب صاحب مرحوم بھی پاس بیٹھے تھے کہ حج کا ذکر شروع ہوگیا ۔ حضرت نانا جان نے کوئی ایسی بات کہی کہ اب تو حج کے لیے سفر اور رستے وغیرہ کی سہولت پیدا ہورہی ہے حج کو چلنا چاہئیے۔ اس وقت زیادہ حرمین شریفین کے تصور میں حضرت مسیح موعود کی آنکھیں آنسوؤں سے بھری ہوئی تھیں اور آپ اپنے ہاتھ کی اُنگلی سے اپنے آنسو پونچھتے جاتے تھےحضرت ناناجان کی بات سُن کر فرمایا :

’یہ تو ٹھیک ہے اور ہماری بھی دلی خواہش ہے مگر میں سوچا کرتا ہوں کہ کیا میں آنحضرت ﷺ کے مزار کو دیکھ بھی سکوں گا۔‘

یہ ایک خالصتاً گھریلو ماحول کی بظاہر چھوٹی سے بات ہے لیکن اگر غور کیا جائے تو اس میں اُس اتھاہ سمندر کی طغیانی لہریں کھیلتی ہوئی نظر آتی ہیں جو عشقِ رسول ؐ کے متعلق حضرت مسیح موعود کے قلب صافی میں موجزن تھیں۔ حج کی کسے خواہش نہیں مگر ذرا اُس شخص کی بے پایاں محبت کا اندازہ لگاؤ جس کی روح حج کے تصور میں پروانہ وار رسول پاکؐ (فداہ نفسی) کے مزار پر پہنچ جاتی ہے اور اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کی لڑی چل پڑتی ہے ۔‘ (سیرۃ طیبہ ، صفحہ ۳۵، ۳۶)

ہمارے آقا کو تو گالیاں دیتا ہے اور ہمیں سلام کرتا ہے

ایک دفعہ حضرت مسیح موعود سفر میں تھے اور لاہور کے اسٹیشن کے پاس ایک مسجد میں وضو فرمارہے تھے ۔ اس وقت پنڈت لیکھرام حضور سے ملنے کے لیے آیا اور آکر سلام کیا ۔ مگر حضرت صاحب نے کچھ جواب نہیں دیا ۔ اس نے اس خیال سے کہ شاید آپ نے سُنا نہیں دوسری طرف سے ہوکر پھر سلام کیا۔ مگر آپ نے پھر بھی توجہ نہیں کی ۔ اس کے بعد حاضرین میں سے کسی نے کہا کہ حضور! پنڈت لیکھرام نے سلام کیا تھا۔ آپ نے فرمایا:ہمارے آقا کو گالیاں دیتا ہے اور ہمیں سلام کرتا ہے۔(سیرت المہدی ، حصہ اول ، صفحہ ۲۷۲)

جس مجلس میں ہمارے رسول اللہ کو بُرابھلا کہا گیا ۔۔ تم اس مجلس میں کیوں بیٹھے رہے ؟

ایک دفعہ آریہ صاحبان نے وچّھووالی لاہور میں ایک جلسہ منعقد کیا اور اس میں شرکت کرنے کے لیے تمام مذاہب کے ماننے والوں کو دعوت دی ۔ اسی طرح حضرت مسیح موعود سے بھی باصرار درخواست کی کہ آپ بھی اس بین الادیان جلسہ کے لیے کوئی مضمون تحریر فرمائیں اور وعدہ کیا کہ جلسہ میں کوئی بات خلافِ تہذیب اور کسی مذہب کی دلآزاری کا رنگ رکھنے والی نہیں ہوگی ۔ اس پر حضرت مسیح موعود نے اپنے ایک ممتاز حواری حضرت مولوی نورالدین صاحب کو جو بعد میں جماعت احمدیہ کے خلیفہ اوّل ہوئے بہت سے احمدیوں کے ساتھ لاہور روانہ کیا اوراُن کے ہاتھ ایک مضمون لکھ کر بھیجا جس میں دینِ محمدؐ کے محاسن بڑی خوبی کے ساتھ اور بڑے دلکش رنگ میں بیان کئے گئے تھے۔ مگر جب آریہ صاحبان کی طرف سے مضمون پڑھنے والے کی باری آئی تو اُس نے اپنی قوم کے وعدوں کو بالائے طاق رکھ کر اپنے مضمون میں رسول پاک ﷺ کے خلاف اتنا زہر اُگلا اور ایسا گند اُچھالا کہ خدا کی پناہ۔ جب اس جلسہ کہ اطلاع حضرت مسیح موعود کو پہنچی اور جلسہ میں شرکت کرنے والے احباب قادیان واپس آئے تو آپ حضرت مولوی نورالدین صاحب اور دوسرے احمدیوں پر سخت ناراض ہوئے اور بار بار جوش کے ساتھ فرمایا کہ جس مجلس میں ہمارے رسول ؐاللہ کو بُرابھلا کہا گیا اور گالیاں دی گئیں تم اُس مجلس میں کیوں بیٹھے رہے ؟ اور کیوں نہ فوراً اُٹھ کر باہر چلے آئے ؟ تمہاری غیرت نے کس طرح برداشت کیا کہ تمہارے آقا کو گالیاں دی گئیں اور تم خاموش بیٹھے سُنتے رہے ؟ اور پھر آپ نے بڑے جوش کے ساتھ یہ قرآنی آیت پڑھی کہ (سورۃ نساء ۔آیت ۱۴۰) یعنی اے مومنو! جب تم سنو کہ خدا کی آیات کا دل آزار رنگ میں کفر کیا جاتا اور اُن پر ہنسی اُڑائی جاتی ہے تو تم ایسی مجلس سے فوراً اُٹھ جایا کرو تا وقتیکہ یہ لوگ کسی مہذبانہ انداز گفتگو کو اختیار کریں۔

اس مجلس میں حضرت مولوی نورالدین صاحب (خلیفہ اوّل) بھی موجود تھے اور وہ حضرت مسیح موعود کے ان الفاظ پر ندامت کے ساتھ سر نیچے ڈالے بیٹھے رہے بلکہ حضرت مسیح موعود کے اس غیورانہ کلام سے ساری مجلس ہی شرم و ندامت سے کٹی جارہی تھی ۔‘ (سیرت طیبہ صفحہ ۳۱ تا ۳۳)

نُور کی مشکیں

حضرت بانیء جماعت احمدیہ مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود ؑ فرماتے ہیں:

’ایک رات اس عاجز نے اس کثرت سے درود شریف پڑھا کہ دل و جان اس سے معطر ہوگیا۔ اُسی رات خواب میں دیکھا کہ فرشتے آب زلال کی شکل پر نور کی مشکیں اس عاجز کے مکان میں لیے آتے ہیں اور ایک نے اُن سے کہا کہ یہ وہی برکات ہیں جو تُونے محمد کی طرف بھیجی تھیں صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم۔‘ (براہین احمدیہ روحانی خزائن جلد اول صفحہ ۵۷۶)