حضرت حُبَابْ بن مُنْذِر بن جَمُوْح

خطبہ جمعہ 6؍ جولائی 2018ء

حضرت حُبَابْ بن مُنْذِر بن جَمُوْح ایک صحابی ہیں۔ ان کی وفات حضرت عمر کے دور خلافت میں ہوئی۔ حضرت حُبَاب بِنْ مُنْذِر غزرہ بدر، اُحد، خندق اور باقی تمام غزوات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے۔ غزوہ اُحد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ثابت قدم رہے اور موت پر آپ سے بیعت کی۔ (اسد الغابہ جلد 1صفحہ 665 حباب بن منذرؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت) (الطبقات الکبریٰ جلد 3صفحہ 428 حباب بن منذرؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)

ان کے بارے میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے بھی سیرۃ خاتم النبیین میں لکھا ہے کہ ’’جس جگہ اسلامی لشکر نے ڈیرہ ڈالا تھا وہ کوئی ایسی اچھی جگہ نہ تھی۔ اس پر حضرت حُباب بن مُنذِر نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ خدائی الہام کے تحت آپ نے یہ جگہ پسند کی ہے یا محض فوجی تدبیر کے طور پر اسےاختیار کیا ہے؟ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس بارے میں کوئی خدائی حکم نہیں ہے۔ تم اگر کوئی مشورہ دینا چاہتے ہو توبتاؤ۔ اس پر حضرت حُباب بن مُنذِر نے عرض کیا تو پھر میرے خیال میں یہ جگہ اچھی نہیں ہے۔ بہتر ہو گا کہ آگے بڑھ کر قریش سے قریب ترین چشمہ پر قبضہ کر لیا جائے۔ مَیں اس چشمہ کو جانتا ہوں۔ اس کا پانی بھی اچھا ہے اور عموماً کافی مقدار میں ہوتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس تجویز کو پسند فرمایا اور چونکہ ابھی تک قریش ٹیلے کے پرے ڈیرہ ڈالے پڑے تھے اور یہ چشمہ خالی تھا، مسلمان آگے بڑھ کر اس چشمہ پر قابض ہو گئے۔ لیکن جیسا کہ قرآن شریف میں اشارہ پایا جاتا ہے اس وقت چشمہ میں بھی پانی زیادہ نہیں تھا اور مسلمانوں کو پانی کی قلت محسوس ہوتی تھی۔ پھر یہ بھی تھا کہ وادی کے جس طرف مسلمان تھے وہ ایسی اچھی نہ تھی کیونکہ اس طرف ریت بہت تھی جس کی وجہ سے پاؤں اچھی طرح جمتے نہیں تھے۔ پھر خدا کا فضل ایسا ہوا کہ کچھ بارش بھی ہو گئی جس سے مسلمانوں کو یہ موقع مل گیا کہ حوض بنا بنا کر پانی جمع کر لیں اور یہ بھی فائدہ ہو گیا کہ ریت جم گئی اور پاؤں زمین میں دھنسنے سے رک گئے اور دوسری طرف قریش والی جگہ میں کیچڑ کی سی صورت ہو گئی اور اس طرف کا پانی بھی کچھ گدلا اور میلا ہو گیا۔‘‘  (ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم۔ اے صفحہ 356-357)

حضرت ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت جبرئیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئے اور فرمایا کہ صحیح رائے یہی ہے جس کا حضرت حُبَاب بن مُنذِر نے مشورہ دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے حُبَاب! تم نے عقل کا مشورہ دیا۔ غزوہ بدر میں خزرج کا جھنڈا حضرت حُبَاب بن مُنذِر کے پاس تھا۔ حضرت حُبَاب بن مُنذِر کی عمر 33سال تھی جب غزوہ بدر میں شریک ہوئے۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 2صفحہ 10غزوہ بدر مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)

ان کے بارے میں مزید حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے سیرۃ خاتم النبیین میں لکھا ہے کہ ’’جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے مخبروں سے لشکر قریش کے قریب آ جانے کی اطلاع موصول ہوئی تو آپ نے اپنے ایک صحابی حُبَاب بن مُنذِر کو روانہ فرمایا کہ وہ جا کر دشمن کی تعداد اور طاقت کا پتہ لائیں اور آپ نے انہیں تاکید فرمائی کہ اگر دشمن کی طاقت زیادہ ہو اور مسلمانوں کے لئے خطرے کی صورت ہو تو پھر واپس آ کر مجلس میں اس کا ذکر نہ کرنا کہ بہت بڑی تعداد ہے بلکہ علیحدگی میں اطلاع دینا تا کہ اس سے مسلمانوں میں کسی قسم کی بددلی نہ پھیلے۔ حُبَاب خفیہ خفیہ گئے اور نہایت ہوشیاری سے تھوڑی دیر میں ہی واپس آ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سارے حالات عرض کر دئیے۔ (سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم۔ اے صفحہ 484)

یحيٰ بن سعد سے مروی ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یوم قُرَیظہ اور یوم النَضِیر کے موقع پر جب لوگوں سے مشورہ طلب کیا تو حضرت حُبَاب بن مُنذِر کھڑے ہوئے اور فرمایا کہ میری رائے یہ ہے کہ ہم محلات کے درمیان میں پڑاؤ کریں۔ (یعنی ان کے قریب ترین جائیں تا کہ وہاں کی باتیں بھی معلوم ہو سکیں اور نگرانی بھی صحیح ہو سکے) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اس مشورہ پر عمل کیا۔ حضرت عمر کے دور خلافت میں ان کی وفات ہوئی۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 3صفحہ 427-428 حباب بن منذرؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)

جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوا تو اس وقت مسلمانوں کی جو صورتحال تھی اس کو حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جس طرح کنٹرول میں لائے اس کا یہ واقعہ ہے کہ ’’حضرت ابوبکر نے حمد و ثنا بیان کی اور کہا کہ دیکھو جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو پوجتا تھا سن لے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم تو یقیناً فوت ہو گئے اور جو اللہ کو پوجتا تھا تو اسے یاد رہے کہ اللہ زندہ ہے کبھی نہیں مرے گا اور حضرت ابوبکر نے یہ آیت پڑھی۔ اِنَّکَ مَیِّتٌ وَاِنَّھُمْ مَیِّتُوْنَ کہ تم بھی مرنے والے ہو اور وہ بھی مرنے والے ہیں۔ پھر انہوں نے یہ آیت بھی پڑھی کہ وَ مَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوۡلٌ ۚ قَدۡ خَلَتۡ مِنۡ قَبۡلِہِ الرُّسُلُ ؕ اَفَا۠ئِنۡ مَّاتَ اَوۡ قُتِلَ انۡقَلَبۡتُمۡ عَلٰۤی اَعۡقَابِکُمۡ ؕ وَ مَنۡ یَّنۡقَلِبۡ عَلٰی عَقِبَیۡہِ فَلَنۡ یَّضُرَّ اللّٰہَ شَیۡئًا ؕ وَ سَیَجۡزِی اللّٰہُ الشّٰکِرِیۡنَ  (آل عمران: 145) کہ محمد صرف ایک رسول ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) سے پہلے سب رسول فوت ہو چکے ہیں۔ پھر کیا اگر آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) فوت ہو جائیں یا قتل کئے جائیں تو تم اپنی ایڑھیوں کے بل پھر جاؤ گے اور جو کوئی اپنی ایڑھیوں کے بل پھر جائے تو وہ اللہ کو ہرگز نقصان نہ پہنچا سکے گا اور عنقریب اللہ شکر کرنے والوں کو بدلہ دے گا۔

سلیمان کہتے ہیں کہ یہ سن کر لوگ اتنا روئے کہ ہچکیاں بندھ گئیں۔ سلیمان کہتے ہیں کہ اور انصار بنی ساعدہ کے گھر حضرت سعد بن عبادۃ کے پاس اکٹھے ہوئے اور کہنے لگے ایک امیر ہم میں سے ہو اور ایک امیر تم میں سے۔ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر بن خطاب اور حضرت ابوعبیدۃ بن الجراح ان کے پاس گئے۔ حضرت عمر بولنے لگے تھے کہ حضرت ابوبکر نے انہیں خاموش کیا۔ حضرت عمر کہتے تھے کہ اللہ کی قسم! میں نے جو بولنا چاہا تھا تو اس لئے کہ میں نے ایسی تقریر تیار کی تھی جو مجھے پسند آئی تھی اور مجھے ڈر تھا کہ حضرت ابوبکر اس تک نہ پہنچ سکیں گے یعنی ویسا نہ بول سکیں گے۔ پھر اس کے بعد حضرت ابوبکر نے تقریر کی اور ایسی تقریر کی جو بلاغت میں تمام لوگوں کی تقریروں سے بڑھ کر تھی۔ انہوں نے اپنی تقریر کے اثناء میں یہ بھی کہا کہ ہم امیر ہیں اور تم وزیر ہو۔ حُبَاب بن مُنذِر نے یہ سن کر کہا کہ ہرگز نہیں۔ یہاں یہ ذکر اس لئے کر رہا ہوں کہ حُبَاب بن مُنذِر کا یہاں ذکر آتا ہے۔ حُبَاب بن مُنذِرنے یہ سن کر یہ کہا کہ ہرگز نہیں اللہ کی قسم! ہرگز نہیں۔ بخدا ہم ایسا نہیں کریں گے ایک امیر ہم میں سے ہو گا اور ایک امیر آپ میں سے ہو گا۔ یعنی قریش میں سے بھی ہو اور انصار میں سے بھی ہو۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا نہیں بلکہ امیر ہم ہیں اور تم وزیر ہو۔ کیونکہ یہ قریش لوگ بلحاظ نسب تمام عربوں سے اعلیٰ ہیں اور بلحاظ حسب وہ قدیمی عرب ہیں اس لئے عمر یا ابوعبیدۃ کی بیعت کر لو۔ حضرت عمر نے کہا نہیں بلکہ ہم تو آپ کی بیعت کریں گے کیونکہ آپ ہمارے سردار ہیں اور ہم میں سے بہتر ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہم سے زیادہ پیارے ہیں۔ یہ کہہ کر حضرت عمر نے حضرت ابوبکر کا ہاتھ پکڑا اور ان سے بیعت کی اور لوگوں نے بھی ان سے بیعت کی۔ اس وقت سب نے پھر بیعت کرلی۔ (صحیح البخاری کتاب الفضائل اصحاب النبیؐ باب قول النبیؐ لو کنت متخذا خلیلا حدیث 3668)

حضرت حُبَاب بن مُنذِر سے روایت ہے کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور عرض کیا کہ ان دو باتوں میں سے کون سی آپ کو زیادہ پسند ہے؟ یہ کہ آپ دنیا میں اپنے صحابہ کے ساتھ رہیں یا یہ کہ اپنے رب کی طرف ان وعدوں کے ساتھ لوٹیں جو اس نے نعمتوں والی جنتوں میں قائم رہنے والی نعمتوں کا آپ سے وعدہ کیا ہے اور اس کا بھی وعدہ کیا ہے کہ جو آپ کو پسند ہو اور جس سے آپ کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے پوچھا کہ بتاؤ تم کیا مشورہ دیتے ہو؟ تو صحابہ نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول! ہمیں یہ بات زیادہ پسند ہے کہ آپ ہمارے ساتھ ہوں اور ہمیں ہمارے دشمن کی کمزوریوں سے آگاہ کریں اور اللہ سے دعا کریں تا کہ وہ ان کے خلاف ہماری مدد کرے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں آسمان کی خبروں سے آگاہ کریں۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حُبَاب بن مُنذِر کی طرف دیکھ کر فرمایا کہ تمہیں کیا ہوا ہے کہ تم نہیں بولتے؟ بڑے خاموش بیٹھے ہو۔ کہتے ہیں میں نے اس پر عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول! جو آپ کے رب نے آپ کے لئے پسند فرمایا ہے وہ اختیار کریں۔ پس آپ نے میری بات کو پسند فرمایا۔ (المستدرک علی الصحیحین جلد 3صفحہ 483 کتاب معرفۃ الصحابہؓ ذکر مناقب الحباب بن المنذرؓ حدیث 5803 مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2002ء)